ہوم << سوانحی خاکہ مولانا عمر زادہ رحمہ اللہ - محمد محسن یوسف زئی

سوانحی خاکہ مولانا عمر زادہ رحمہ اللہ - محمد محسن یوسف زئی

کسی عرب دانا کا قول ہے
" لا أصدق من الموت و لا أکذب من الأمل "

موت ایسی حقیقت ہے، جس سے کسی کو مفر نہیں، کیا عجب ہے! ہر چیز کے وجود میں اختلاف کی گنجائش رکھی گئی ہے، ایک موت ہی ہے جس کے وجود میں آج تک کسی کو اختلاف کرنے کی جرات نہیں ہوسکی،عربی کے مایہ ناز، البیلے شاعر ابو الطیب متنبی نے کیا خوب کہا ہے۔
تخالف الناس حتی لا اتفاق لھم
إلا علی شجب والخلف في الشجب
ہر چیز میں لوگ اختلاف کر بیٹھے، مگر موت کے وجود میں کسی نے اختلاف نہیں کیا۔

جی ہاں! اس میں بھی دورائے نہیں کہ دنیا میں "آنا" جانے کی ہی تمہید ہے لیکن کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کے جانے سے زندہ رہنے والوں کی زندگی پر بڑا گہرا اثر پڑتا ہے، دل غمگین،آنکھیں اشک بار، طبیعت اداس ، دل دنیا کی زندگانی و رعنائی سے اچاٹ ہو جاتا ہے!
خالد شریف نے شاید اسی موقع کے لیے یہ شعر کہا تھا، جو امر ہوچکا ہے۔

بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رت ہی بدل گئی
اک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا

انھی زندہ جاوید لوگوں کی فہرست میں ہمارے علاقے کے نامور عالم دین، کراچی کے مشہور دینی درس گاہ "جامعہ ندوۃ العلم" کے قدیم استاذ حضرت مولانا عمر زادہ صاحب رحمه الله شامل ہیں۔

ولادت:
ان کی ولادت صوبہ خیبر پختون خوا، ضلع شانگلہ کے پسماندہ، بنیادی انسانی ضروریات سے محروم، بلند و بالا پہاڑوں کی چوٹی پر واقع "مادو" نامی گاؤں میں 15/ اپریل 1973ء کو ہوئی۔

ابتدائی تعلیم:
باعثِ فخر و اعزاز ہےکہ آں مخدوم گرامی نے ہمارے گاؤں سے علومِ نبوت کی ابتدا کی۔ ہمارے گاؤں کے مشہور صاحبِ دل بزرگ محقق و عالمِ دین مولانا طلب الدین صاحب نور الله مرقدہ ،جن کی بزرگی، وکرامت ، علم وعمل، تقویٰ وطہارت پر سب اہلِ علاقے کا اجماع تھا، ان بر گذیدہ ہستی کے سامنے مولانا عمر زادہ صاحب مرحوم نے زانوئے تلمذ طے کیے۔ قرآن کریم کی تعلیم کے ساتھ ساتھ ،حنفی فقیہ شیخ محمد بن محمد کاشغری المتوفی 705ھ کی مشہور کتاب "منیة المصلی" اور دیارِ افاغنہ میں متداول اور زبان زدِ عام شیخ لطف الله محمد کیدانی کی کتاب "خلاصہ" ان سے پڑھی۔
(پشتون معاشرے میں آخر الذکر کتاب کو بڑی مقبولیت حاصل ہے، گو کتاب کے بعض مندرجات حنفی فقہا کے ہاں غیر معتبر ہیں۔)

علمی رحلہ:
1985ء میں مزید تعلیم حاصل کرنے کے لیے کراچی تشریف لے گئے، مختلف مدارس میں زیرِ تعلیم رہ کر ان قابلِ ذکر اساتذہ و شیوخ سے علمی پیاس بجھائی۔

شیوخ واساتذہ کرام:
جامعہ بنوریہ عالمیہ میں مولانا خدا بخش، جامعہ دار الخیر بکرا پیڑی میں مدیرِ جامعہ مولانا اسفند یار، مولانا ہاشم، مولانا امداد الله۔ جامعہ دار الخیر گلستان جوہر کے قیامِ تعلیم میں مولانا فتح الله، مولانا روح الامین، مولانا فضل سبحان۔ مخزن العلوم میں مولانا مظفر الدین ۔ جامعہ ربانیہ میں مدیرِ جامعہ جامع المعقول و المنقول مولانا نور الہدیٰ، مولانا عبد اللطیف، مولانا فضل خالق ۔ جامعہ حقانیہ بلدیہ ٹاؤن کے زمانہ قیام میں مولانا حسین احمد، مولانا شبیر احمد، جمعیت علماء اسلام کے راہ نما، سابقہ پارلیمانی لیڈر ایم پی اے مولانا عمر صادق۔ دورہ حدیث 1994ء میں جامعہ امداد العلوم ناظم آباد میں فیض الرحمن صاحب، (جو حضرت مفتی نظام الدین شامزئی صاحب رحمه الله کے استاذ تھے) مولانا مفتی سجاد ٹونکی ابن مفتی اعظم پاکستان مفتی ولی حسن اور دیگر شیوخِ حدیث سے پڑھا۔ دورہ تفسیرِ القرآن مشہور مفسرِ قرآن مولانا افضل خان شاہ پور شیخ صاحب اور مولانا شیرین محمد صاحب سے پڑھا۔

تدریس وامامت:
رسمی طالب علمی کے دور سے ہی امامت وخطابت کے سلسلے سے وابستہ تھے، چناں چہ بلدیہ ٹاؤن کے "جامع مسجد سبحانیہ" میں 32 سال تک امامت وخطابت کے فرائض سرانجام دیے۔ عرصہ 27 سال سے "جامعہ ندوۃ العلم" میں تشنگانِ علوم ِ نبوت کی پیاس بجھاتے رہے۔ خوش آئند امر یہ ہےکہ ان کی جگہ اب اہلِ محلہ نے ان کے صاحبزادہ گرامی عزیزم سلمان کو یہ خدمت سپرد کی، چناں چہ 18/جولائی بروز جمعرات تعزیتی اجلاس میں جمع علمائے کرام کے اتفاقِ رائے سے اور ان کی موجودگی میں حافظ سلمان کی دستار بندی کی گئی، اور انھیں امام وخطیب مقرر کیا گیا۔
وفقه الله لما یحب و یرضیٰ.

سلوک واحسان:
ان علمی مشاغل و سرگرمیوں کے ہوتے ہوئے بھی اپنی اصلاح و تزکیہ سے غافل نہیں رہے، پہلے حضرت حکیم اختر صاحب نوراللہ مرقدہ سےبیعت واصلاح کا تعلق قائم کیا، ان کی رحلت کے بعد ٹنڈو آدم کے حضرت شيخ محمد انور صاحب سے اصلاح کا تعلق قائم کیا، جو تا دم زیست قائم رہا۔

عادات و خصائل:
مولانا یار باش، ملنسار، متواضع اور بذلہ سنج تھے، ان کی مجلس میں کوئی بور و ملال کا شکار ہو ممکن نہیں تھا، عام طور پر ان کی بیٹھک مہمانوں سے معمور ہوتی تھی، اعلیٰ اخلاق و کردار کے حامل تھے۔
خلاصہ یہ کہ وہ اپنی ذات میں ایک انجمن تھے!

علالت ووفات:
تقریباً دو ماہ ہسپتال میں زیر علاج رہے، مرض میں کبھی شدت اور کبھی افاقہ ہو جاتا، بالآخر 16/جولائی 2024ء بروز منگل، ظہر کے بعد روح جسمِ عنصری سے پرواز کر گئی اور یوں اس دنیا کے تکالیف و شدائد سے ہمیشہ کے لیے خلاصی حاصل کی۔

فرب کئیب لیس تندی جفونه
ورب ندي الجفون غیر کئیب

نا سپاسی ہوگی اگر مولانا مرحوم کے تلمیذ رشید اور ہمارے عزیز مولانا اسلام اللّٰه صاحب کا ذکر خیر نہ کیا جائے، مواد کی فراہمی انھوں نے بہت اہم کردار ادا کیا۔ فجزاه الله عني خير الجزاء.