ہوم << پڑوس سے آتی آواز - عبیداللہ کیہر

پڑوس سے آتی آواز - عبیداللہ کیہر

ایک زمانہ تھا کہ لوگوں میں ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق پایا جاتا تھا۔ ہر مہینے کئی قسم کے ڈائجسٹ مارکیٹ میں آتے تھے اور لوگ شوق سے خریدتے تھے۔ ان میں باریک باریک لکھا ہوتا تھا اور بے شمار کہانیاں ہوتی تھیں۔ لوگ پورا مہینہ مزے لے لے کر یہ باریک لکھائیاں پڑھتے تھے۔

سب رنگ ڈائجسٹ، سسپنس ڈائجسٹ، جاسوسی ڈائجسٹ، اردو ڈائجسٹ، سیارہ ڈائجسٹ … کئی ڈائجسٹ تھے جو نکلتے تھے اور ہم بھی پڑھا کرتے تھے۔ ان ڈائجسٹوں میں شائع ہونے والی قسط وار کہانیاں خصوصاً بڑی دلچسپ ہوتی تھیں۔ مثلاً سب رنگ ڈائجسٹ کا مشہور سلسلہ ”بازی گر“ جو شکیل عادل زادہ لکھتے تھے، طالوت، اِنکا، سونا گھاٹ کا پجاری، اقابلا، مفرور، دیوتا، صدیوں کا بیٹا، جانگلوس، ناخدا وغیرہ کئی سلسلے تھے۔ ہم نے جب ڈائجسٹ پڑھنے شروع کیے تو ان دنوں ایک کہانی بڑی مقبول تھی،”نروان کی تلاش“ یہ ایک ایسے پاکستانی نوجوان کی کہانی تھی جو یورپ میں ملکوں ملکوں آوارہ گردی کر رہا تھا اور اسے عجیب عجیب واقعات پیش آتے تھے۔ اس میں یورپی نشئی سیاحوں اور ہپی چرسیوں کی عجیب عجیب کہانیاں، منشیات کی اسمگلنگ کے پر تجسس قصے اور سسپنس سے بھرپور خطرناک مہم جوئی کے واقعات ہوتے تھے۔ لوگ یہ سب کچھ بڑے شوق سے پڑھتے اور اگلی قسط کیلئے شدت سے اگلے مہینے کا انتظار کرتے تھے۔

نروان کی تلاش نامی یہ سلسلہ ایم اے راحت لکھتے تھے اور یہ ہمارے لئے ان کی شناخت تھا۔ ایم اے راحت ایک زود نویس مصنف تھے۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ دنیا میں شاید کسی نے اتنا پڑھا نہیں جتنا ایم اے راحت نے لکھ دیا ہے۔ ان کا پورا نام مرغوب احمد راحت تھا۔ انہوں نے تینتیس طویل ناول لکھے جو ڈائجسٹوں میں کئی کئی قسطوں میں شائع ہوئے۔ ہمیں تو ایم اے راحت کے نام سے بس ایک خیالی سا چہرہ ذہن میں آتا تھا۔ ہم ان کی کہانیاں تو بہت شوق سے پڑھتے تھے لیکن نہ کبھی ان کو دیکھا نہ کبھی اس کی خواہش ہی پیدا ہوئی۔ ہم بہت سارے ادیبوں کی تحریریں پڑھتے ہیں لیکن سب سے تو نہیں ملتے اور نہ ملنا کوئی حیرت کی بات بھی نہیں تھی۔بس دل میں ان کیلئے احترام و عقیدت ہوتی تھی۔

جس زمانے میں مَیں کراچی کی این ای ڈی یونیورسٹی میں انجینئرنگ کا طالب علم تھا، ان دنوں نارتھ ناظم آباد ایل بلاک میں میرا دوست فاخر رہتا تھا۔ہم کچھ دوست اکثر کمبائن اسٹڈی کیلئے اس کے گھر پر جمع ہوتے تھے۔ایک دن اسی طرح میں اس کے گھر میں موجود تھا۔ ہم دونوں اوپر والی منزل پر ایک کمرے میں بیٹھے باتیں کر رہے تھے۔ باہر ویسے تو خاموشی ہی تھی لیکن اچانک مجھے محسوس ہوا جیسے قریب ہی کوئی ریڈیو چل رہا ہو۔ کوئی شخص ریڈیو پروگرام کی طرح بولے جا رہا تھا بولے جا رہا تھا۔ میں نے غور کیا تو اندازہ ہوا کہ وہ کوئی کہانی پڑھ رہا ہے۔ کوئی ناول جسے وہ بلند آہنگ سے پڑھ رہا تھا اور اس میں مختلف کردار اپنے اپنے ڈائیلاگ بھی بول رہے تھے۔ بیانیہ الگ انداز میں اور مکالمے الگ انداز میں۔

میں پہلے تو کان لگا کر یہ آوازیں حیرانی سے سنتا رہا، پھر فاخر سے پوچھا کہ یہ کیا ماجرا ہے؟
”یہ ریڈیو کہاں چل رہا ہے؟“
”یہ ریڈیو نہیں بھائی، یہ آواز تو روزانہ ہمارے پڑوس سے آتی رہتی ہے“وہ بولا۔
”یہ کیسی آواز ہے؟“ میں نے اچنبھے سے کہا۔
”یار یہ تو ہمیں بھی سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ کیا ہے، بس اکثر دن میں اور رات میں یہ آوازیں سنائی دیتی رہتی ہیں، جیسے کوئی بلند آواز سے کہانیاں پڑھ رہا ہو۔“
”یار یہ تو بڑی عجیب بات ہے۔ کوئی کیوں بلند آواز سے کہانیاں پڑھ رہا ہے اور روز ہی پڑھ رہا ہے؟“ میں بولا۔
”ہاں بالکل، روز ہی پڑھ رہا ہوتا ہے اور بالکل ایسے لگتا ہے جیسے ریڈیو پر کہانی چل رہی ہے“
ہم اپنی جگہ سے اٹھے اور اس گھر کے قریب جا کر سننے کی کوشش کرنے لگے۔ لگتا تو ایسے تھا جیسے یہ کوئی جاسوسی ٹائپ کی کہانی ہے جسے کوئی شخص بلا توقف پڑھے جا رہا ہے۔
میں نے فاخر سے کہا : ”اس گھر کے لوگوں سے چل کر ملتے ہیں“
”پتہ نہیں کون لوگ ہیں“وہ بولا۔ ”یہ کچھ دن پہلے ہی اس گھر میں کرائے پر آئے ہیں.“

بہرحال ہم باہر نکل کر برابر والے گھر کے دروازے پر گئے۔ وہ گھر ایسا تھا کہ جیسے اوپر کوئی اور رہتا ہوگا اور نیچے کوئی اور۔ باہر سے اوپر والی منزل کا راستہ درختوں اور پودوں میں گھرا ہوا تھا۔ ہم اس دروازے پر گئے تو اس پر ایک تختی لگی ہوئی تھی : ” ایم اے راحت “
میں تو یہ نام پڑھ کر اچھل پڑا۔
”ابے یہ تو بڑے مشہور رائٹر ہیں، ہم ڈائجسٹوں میں ان کی کہانیاں پڑھتے رہتے ہیں“
میں نے فوراً بیل بجا دی۔ تھوڑی دیر میں دروازہ کھلا اور ایک بچہ آگیا۔
”جی؟“
میں نے بتایا کہ ہم برابر والے گھر سے آئے ہیں اور ایم اے راحت صاحب سے ملنا ہے۔ بچہ بولا آئیے آئیے۔ ہم اس کے ساتھ سیڑھیاں چڑھ کر اوپر گئے اور ایک آفس نما کمرے میں داخل ہوئے جہاں ایک خوب فربہ اور سرخ و سفید صاحب بیٹھے تھے۔ وہ ہمیں دیکھ کر خوشدلی سے مسکرائے۔
”آئیے آئیے … تشریف لائیے“
”آپ ایم اے راحت صاحب ہیں؟“ میں بولا۔
”جی جی، میں ہی ایم اے راحت ہوں“ وہ بولے۔
”بڑی خوشی ہوئی آپ کو دیکھ کر“ میں بولا ۔ ”آپ کی کہانیاں سسپنس اور جاسوسی ڈائجسٹ میں پڑھتا رہتا ہوں، خصوصا ”نروان کی تلاش“ تو مجھے بہت پسند ہے.“
”شکریہ“ وہ بولے۔
میں نے انہیں بتایا یہ میرے دوست فاخر ہیں جو آپ کے برابر والے گھر میں رہتے ہیں۔
”یہ جو آپ کے گھر سے آوازیں آتی رہتی ہیں تو کیا یہ آپ اپنی کہانیاں ریکارڈ کر ر ہے ہوتے ہیں؟“ میں بولا۔
”ہاں بھئی“ وہ ہنسے۔ ”بات دراصل یہ ہے کہ میں بہ یک وقت کئی ڈائجسٹوں میں لکھتا ہوں۔ ہر مہینے کئی طویل قسطیں لکھنا ہوتی ہیں سب ڈائجسٹوں کےلیے۔ کہیں میں اپنے نام ایم اے راحت کے ساتھ لکھتا ہوں اور کہیں کسی قلمی نام سے۔ اب اتنے سارے تحریری کام کو بیٹھ کر قلم سے لکھنا تو بڑا مشکل ہے (اس زمانے میں اردو ٹائپنگ اور کمپیوٹر کمپوزنگ عام نہیں تھی، ہر تحریر کاتب اپنے ہاتھوں سے لکھتا تھا) تو میں یہ کرتا ہوں کہ جو کہانی مجھے لکھنا ہوتی ہے اس کا پورا پلاٹ اپنے ذہن میں تیار کرتا ہوں اور پھر ٹیپ ریکارڈر سامنے رکھ کر پوری کہانی تمام جزئیات، مکالموں اور تفصیلات کے ساتھ بولنا شروع کردیتا ہوں۔ مجھے یہ اچھی طرح اندازہ ہوتا ہے کہ ڈائجسٹ کے کتنے صفحات کےلیے کتنی دیر بولنا ہے، چناچہ اتنی ہی دیر کہانی بولتا رہتا ہوں۔ جب قسط پوری ہوجاتی ہے تو ریکارڈ شدہ کیسٹ کاتب کے حوالے کردیتا ہوں۔ کاتب اس کو سن کر کتابت کر دیتا ہے اور میں اس کی نظر ثانی کر کے رسالے کو بھیج دیتا ہوں۔ اس طرح ہر مہینے کئی کہانیاں آسانی سے تیار ہو جاتی ہیں۔“

وہ بولتے رہے اور ہم دونوں حیران ہو کر ان کا چہرہ دیکھتے رہے۔ یعنی کسی کہانی کو لکھے بغیر ذہن ہی ذہن میں یہ طے کر لینا کہ اس میں کتنے کردار ہونگے، کب کہاں کون بولے گا، کیسے بولے گا، کہانی کیسے آگے بڑھے گی اور کس مقام پر کہانی ختم ہوگی … اور یہ سارا کچھ اس قدر ٹھیک بول دینا کہ کاتب اسے سن کر ہی پوری کہانی لکھ ڈالے … کمال ہے۔

بڑے سے بڑا مصنف بھی خوب سوچ سوچ کر لکھتا ہے، تحریر کو کاٹتا ہے، اسے کئی بار ٹھیک کرتا ہے، ایک سے زیادہ بار نظر ثانی کرتا ہے پھر کہیں جا کے کچھ مطمئن ہوتا ہے۔ لیکن اس وقت تو ہمارے سامنے ایک ایسا شخص تھا جو پوری کی پوری کہانی مزے سے بول دیتا ہے۔ اور جب ہم وہ کہانی پڑھتے ہیں تو ہمارے وہم و گمان میں بھی یہ بات نہیں آ پاتی کہ اس کا مصنف یہ ساری کہانی فی البدیہہ بولے جا رہا ہے! … کمال ہے۔

ہم کچھ دیر ایم اے راحت صاحب کے پاس بیٹھے۔ چائے پی اور چلے آئے۔ اس کے بعد پھر کبھی ان سے ملاقات نہیں ہوئی، لیکن کئی عشرے گزر جانے کے باوجود ان کا چہرہ آج تک میرے ذہن میں تابندہ اور تروتازہ ہے۔ وہ اس کے بعد کئی سال زندہ رہے۔ آج بھی کہیں ان کا نام میرے سامنے آتا ہے تو مجھے وہ دن یاد آجاتا ہے جب میں ان سے ملنے گیا تھا اور وہ ٹیپ ریکارڈرمیں اپنی کہانی ریکارڈ کر رہے تھے۔

ایم اے راحت 1941ء میں علی گڑھ میں پیدا ہوئے تھے۔ قیام پاکستان کے بعد ان کا گھرانہ وہاں سے ہجرت کر کے کراچی آگیا۔ اپنے والد کی وفات کے بعد راحت صاحب نے گھر کی کفالت کیلئے مختلف کام بھی کئے اور ساتھ ہی اپنی تعلیم بھی جاری رکھی اور بالٓاخر کراچی یونیورسٹی سے ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔ انہوں نے ابتدائی عمر میں ہی لکھنا شروع کر دیا تھا۔ حتیٰ کہ وہ وقت بھی آیا جب ایم اے راحت کی کہانی کے بغیر ڈائجسٹ کو نامکمل سمجھا جانے لگا۔ قارئین بے چینی سے ان کی کہانی کے اگلے حصے کا انتظار کرتے۔ انہیں ڈائجسٹوں کی تاریخ کا سب سے مقبول مصنف سمجھا جاتا ہے۔

تحریری کام بہت زیادہ بڑھ جانے کی وجہ سے ہی انہوں نے لکھنے کا روایتی طریقہ چھوڑ دیا اور لکھنے کی بجائے بول کر کہانیاں ریکارڈ کرنے لگے، جنہیں کاتب کیسٹ سے کاغذ پر منتقل کردیتے۔ وہ حیرت انگیز طور پر بیک وقت مختلف کہانیاں ریکارڈ کروادیتے تھے۔ انہوں نے تقریباً چھ ہزار افسانے تحریر کئے۔ جب سسپنس ڈائجسٹ اور جاسوسی ڈائجسٹ کاآغاز ہوا تو ایم اے راحت نے ان رسالوں میں کئی سلسلہ وار کہانیاں لکھی جنہوں نے مقبولیت کے نئے ریکارڈ قائم کئے۔ ایک وقت وہ بھی آیا کہ جب پاکستان میں جتنے بھی ڈائجسٹ نکلتے تھے ان سب میں ایم اے راحت کی کہانیاں شائع ہوتی تھیں۔ ان کے مقبول ناولوں میں کالاجادو، صدیوں کا بیٹا، نروان کی تلاش، مقدس نشان، سو سال پہلے، ماضی کے جزیرے، پارس، طالوت اور ساحر شامل ہیں۔انہوں نے سینکڑوں ناول تحریر کئے۔ ان کی کہانیاں اور ناول بھارت کے ڈائجسٹوں میں بھی اہتمام سے شائع ہوتے رہے۔ اپریل 2017ء میں وہ 76 سال کی عمر میں لاہور میں انتقال کر گئے۔ اللہ ان کی مغفرت فرمائے۔ آمین

Comments

Avatar photo

عبیداللہ کیہر

عبیداللہ کیہر اردو کے معروف ادیب، سیاح، سفرنامہ نگار، کالم نگار، فوٹو گرافر، اور ڈاکومینٹری فلم میکر ہیں۔ 16 کتابوں کے مصنف ہیں۔ 2002ء میں عبید اللہ کیہر کی پہلی کتاب ”دریا دریا وادی وادی“ کمپیوٹر سی ڈی پر ایک انوکھے انداز میں شائع ہوئی جسے اکادمی ادبیات پاکستان اور مقتدرہ قومی زبان نے ”اردو کی پہلی ڈیجیٹل کتاب“ کا نام دیا۔ روایتی انداز میں کاغذ پر ان کی پہلی کتاب ”سفر کہانیاں“ 2012ء میں شائع ہوئی۔

Click here to post a comment