گزشتہ کل کوئٹہ سے پشاور چلنے والی جعفر ایکسپریس اپنے مقررہ وقت کے مطابق صبح 9 بجے 400 سے زائد مسافروں کے ہمراہ کوئٹہ سے پشاور کے لیے نکلتی ہے، مسافروں میں 100 قریب آرمی کے جوان بھی شامل تھے جو یقیناً اپنے گھروں کو چھٹی جا رہے تھے ، دن 12 سے 1 بجے کے قریب جعفر ایکسپریس جب بولان کے قریب درّہ ڈھاڈر کے ٹنل نمبر 11B میں گزری تو ایک زوردار دھماکا ہوا جس سے ریل رک گئی، عینی شاہدین کے مطابق دھماکہ اتنا شدید تھا کے ریل کے دروازے اور کھڑکیاں لرز گئیں، دھماکے کے فوراً بعد فائرنگ شروع ہوگئی، مسافروں میں خوف ہراس پھیل گیا، تمام مسافر ریل کی سیٹوں کے نیچے اوپر تلے گھسنے لگے، بچوں کی چیخیں ماحول کو مزید خوفناک بنانے لگیں.
بوگی نمبر 7 کے ایک مسافر نے میڈیا کو بتایا کے فائرنگ شروع ہوتے ہی چھ سات نقاب پوش لوگ جو اسلحے سے لیس تھے بوگی میں داخل ہوۓ اور خاموشی سے بیٹھ جانے کا کہا، جو مسافر بھی سر اوپر کرتا اس پر تشدد کرتے، بوگی نمبر 3 کے ایک مسافر کا کہنا تھا کہ چند بلوچی نقش و نگار والے نقاب پوش رائفلیں اٹھاۓ بوگی میں داخل ہوۓ اور تمام مسافروں سے ان کے شناختی کارڈ چیک کرنے لگے، اس بوگی سے انہوں نے گیارہ کے قریب لوگ نیچے اتارے جو دکھنے سے فوجی جوان لگ رہے تھے، ان میں سے ایک فوجی جوان نے ان کے بحث کرنا چاہی تو اسے گھسیٹ کر نیچے لے گئے گولیوں کی آواز آئی جس سے بوگی میں تمام لوگ سہم گئے، ایک اور مسافر کا کہنا تھا کہ وہ آپس میں بلوچی زبان میں باتیں کر رہے تھے کہ بزرگ مسافروں، عورتوں، بچوں اور بلوچستان کے رہائشی لوگوں کو چھوڑ دیا جائے گا، وہ مسافر تربت کا رہائشی تھا جسے بہت مشکل سے چھوڑا،
سہ پہر تین بجے کے قریب بلوچ رہائشی بہت سارے مسافروں کو چھوڑ دیا گیا ، جو وہاں سے قریباً 22 کلومیٹر دور مچھ کے ریلوے اسٹیشن کی جانب پیدل چلنے لگے، ان میں سے ایک مسافر نے میڈیا کو بتایا کہ حملہ کرنے والوں کی تعداد 100 سے زیادہ کی تھی، ہم لوگ اپنا سامان ریل میں چھوڑ کر پیدل پنیر ریلوے اسٹیشن کی جانب آۓ، راستے میں چند بزرگ مسافروں کو کندھوں پر اٹھا کر ندی عبور کی، پتھریلی راہداری کی وجہ ہمارے پاوں زخمی ہوگۓ .
یہ بلوچستان کی ایک عسکریت پسند تنظیم بلوچستان لیبریشن آرمی ہے جس نے جعفر ایکسپریس کو یرغمال بنایا، میڈیا کے مطابق ان کا مطالبہ ہے کہ ان کی تنظیم جو لوگ اداروں کے پاس قید میں ہیں ان کو رہا کیا جاۓ، یہ علاقہ جہاں ریل گاڑی کو یرغمال بنایا گیا ہے یہ بولان روڈ سے 22 کلومیٹر اندر کی جانب ہے جہاں کوئی نیٹ ورک کام نہیں کرتا، سہ پہر چار بجے کے قریب ایف سی کے پانچ ہیلی کاپٹر یرغمالیوں کی مدد کو پہنچ گئے اور آپریشن شروع کردیا. چار گھنٹے پیدل چل کر پنیر اسٹیشن پہنچنے والے 100سے زائد مسافروں کو طبی امداد دی گئی، پھر ایک مال برادر گاڑی میں مچھ اور پھر کوئٹہ پہنچا دیا گیا، جہاں مسافروں کے گھر والے شدید اذیت میں ان کا انتظار کر رہے تھے. پاکستانی میڈیا کے مطابق اب تک 106 مسافروں کو بازیاب کرا لیا گیا، جعفر ایکسپریس پر عسکریت پسندوں کے حملے کے 20 گھنٹے بعد بھی کلیئرنس آپریشن جاری ہے یرغمالیوں میں خودکش بمباروں کی موجودگی کے باعث احتیاط سے کام لیا جا رہا ہے جبکہ 16 دہشت گرد مار جا چکے ہیں.
کہنے کو تو یہ مٹھی بھر فتنہ الخوارج اور دہشتگرد تنظیمیں ہیں لیکن یہ اتنی طاقتور ہو چکی ہیں کہ ان کا جب جہاں دل کرتا ہے حملہ کر دیتے ہیں، ان کے ہر حملے کے بعد سب سے پہلے علاقے کو قبضے میں لے لیا جاتا ہے، ساتھ میں تقریباً تمام حکومتی عہدیدار "شدید" والی مذمت کا بیانیہ جاری کرتے ہیں اور ہمیشہ ایسی دہشتگردانہ کاروائی کو ملک دشمن عناصر کی طرف سے بزدلانہ کارروائی قرار دیتے ہیں، اور ان کے خلاف یکجان ہوکر مقابلہ کرنے کا عندیہ بھی دے دیتے ہیں لیکن چند دن بعد پھر کوئی ایسا ہی "بزدلانہ " واقعہ رونما ہو جاتا ہے.
سوال بہت ہیں، انگلیاں بھی اٹھ رہی ہیں، قوم اس سب سے واقف بھی ہے، مگر پھر بھی اپنا ، اپنے ملک کا ، اپنی فوج کا، اپنے اداروں کا بھرم رکھے خاموش رہ کر قربانیاں پیش کر رہی ہے لیکن کب تک؟؟ اور جان کی امان پاؤں تو عرض کرتا چلوں کہ یہ تنظیمیں ایک " ایس ایچ او " کی مار نہیں ہیں، شاید آپ نے جوش میں آ کر یہ بیان دے دیا مگر صاحب لوگ مر رہے ہیں، لوگوں کے خاندان تباہ ہو رہے ہیں، نمائشی تقاریر چھوڑیں ، سر جوڑ کر بیٹھیں اور اپنے ملک کا دفاع کریں، یاد رکھیں ملک ہوگا تو حکومتیں بھی ہوں گی. یاد رہے کہ جعفر ایکسپریس پر چند ماہ پہلے بھی کوئٹہ ریلوے اسٹیشن پر حملہ ہوا تھا جس میں 22 آرمی جوان شہید ہوگئے تھے، اور بلوچستان میں ایسے کئی واقعات رونما ہو چکے ہیں، اللہ پاکستان کا حامی و ناصر ہو۔۔
تبصرہ لکھیے