ہوم << خودکشی ! ایک سوال جو کبھی نہ پوچھا گیا - رانا عثمان راجپوت

خودکشی ! ایک سوال جو کبھی نہ پوچھا گیا - رانا عثمان راجپوت

کبھی سوچا ہے کہ وہ کون سی رات ہوتی ہے، جب کوئی انسان آخری بار سوتا ہے؟
وہ کون سا لمحہ ہوتا ہے جب اُمید کے سارے در بند ہو جاتے ہیں؟
اور وہ کون سا وقت ہوتا ہے، جب زندگی سے تھک کر انسان خود زندگی کو چھوڑنے کا فیصلہ کر لیتا ہے؟

کاش ہم وقت پر سن لیتے…
کاش ہم ایک لمحہ رُک کر، کسی کی آنکھوں میں چھپی ٹوٹ پھوٹ کو دیکھ لیتے…
کاش ہم کسی کی خاموشی کو زبان دے دیتے…
تو شاید آج کوئی زندہ ہوتا۔

ہم ایک ایسے معاشرے میں سانس لے رہے ہیں جہاں "زندہ رہنے" کو جینا سمجھا جاتا ہے، اور "مسکرانے" کو خوشی۔
یہاں کوئی روئے تو اسے "کمزور" کہہ دیا جاتا ہے،
کوئی بولے تو اسے "ڈرامہ باز" کہہ دیا جاتا ہے،
اور اگر کوئی خاموشی اختیار کرے، تو اسے "نظرانداز" کر دیا جاتا ہے۔

ہمیں احساس نہیں کہ **کچھ لوگ چیخ کر نہیں روتے، وہ اندر ہی اندر گھُٹتے رہتے ہیں۔
ان کے آنسو باہر نہیں آتے، مگر روح اندر ہی اندر ٹوٹتی رہتی ہے۔
ان کی زبان پر الفاظ نہیں ہوتے، مگر دل میں طوفان بپا ہوتا ہے۔

ہم سمجھتے ہیں کہ خودکشی ایک جرم ہے — اور یقیناً اسلام میں یہ ناپسندیدہ عمل ہے — مگر کیا ہم نے کبھی یہ سوچا کہ وہ شخص اس ناپسندیدہ راہ تک پہنچا ہی کیوں؟
کیا اس کے قریب کوئی ایسا شخص تھا جو اس کے دکھ کو بانٹتا؟
کیا کبھی کسی نے اس کے دل کا حال پوچھا؟

ہمارے معاشرے میں جذباتی تکلیف کو کوئی سنجیدگی سے نہیں لیتا۔
"ڈیپریشن؟ یہ تو مغرب کی بیماری ہے۔"
"غمگین ہو؟ نماز پڑھو، سب ٹھیک ہو جائے گا۔"
گویا صرف عبادتیں ہی علاج ہیں، حالانکہ اللہ نے دل کے زخموں کے لیے محبت، نرمی اور توجہ کو بھی شفا بنایا ہے۔

نبی کریم ﷺ کا اسوہ دیکھیں — آپ ﷺ صحابہ کرامؓ کے چہروں سے ان کے دلوں کا حال جان لیتے، ان سے نرمی سے پوچھتے، ان کے دکھوں کو محسوس کرتے، ان کے غم بانٹتے۔ آپ ﷺ نے کبھی کسی کو صرف "کمزور ایمان والا" کہہ کر نظر انداز نہیں کیا۔

ہم نے اپنے دینی و سماجی رویوں کو صرف "ظاہر پرستی" تک محدود کر دیا ہے۔
ہم اللہ کی عبادت کرتے ہیں، مگر بندوں کے دل توڑتے ہیں۔
ہم نمازوں کی پابندی کرتے ہیں، مگر دلوں کی پرواہ نہیں کرتے۔

یاد رکھیں، اللہ نے انسان کو دل دیا ہے، اور دل بھی تو عبادت کا مقام ہے۔
جب ہم کسی کا دل توڑتے ہیں، اسے تنہا چھوڑتے ہیں، تو دراصل ہم اس عبادت کو مجروح کرتے ہیں جو ربطِ انسانیت سے جڑی ہے۔ "جو کسی مؤمن کو غمگین کرے، وہ مجھ سے دور ہو جائے گا۔"(مفہوم حدیث)

پھر ہم کیسے اس معاشرتی تعصب کو جائز قرار دے سکتے ہیں جس میں کسی کی تکلیف کو سننے کے بجائے اس پر فتویٰ صادر کر دیا جاتا ہے؟

خودکشی کا فیصلہ کبھی اچانک نہیں ہوتا۔
یہ دنوں، مہینوں، بلکہ برسوں کا وہ بوجھ ہوتا ہے جو انسان تنہا اٹھاتا ہے — بغیر کسی کندھے کے، بغیر کسی ہمراز کے۔
یہ وہ اذیت ہوتی ہے جو اندر ہی اندر دل کو کھا جاتی ہے…
اور جب دل ہی مر جائے، تو جسم جینا کیسے سیکھے؟

جب ہم کسی کے آنسوؤں کو نظرانداز کرتے ہیں، تو ہم دراصل اسے خاموشی سے موت کی طرف دھکیل رہے ہوتے ہیں۔
ہمیں نہیں معلوم، شاید وہ ہماری ایک بات، ایک سادہ سا جملہ "میں تمہیں محسوس کر سکتا ہوں" اسے نئی زندگی دے سکتا تھا۔

ہمیں اب رُکنا ہوگا۔
ہمیں اپنے رویے بدلنے ہوں گے۔
ہمیں سماج میں یہ شعور بیدار کرنا ہوگا کہ ذہنی صحت کوئی مذاق نہیں، یہ زندگی کا ایک اہم پہلو ہے۔

اور سب سے بڑھ کر — ہمیں وہ سوال پوچھنا سیکھنا ہوگا جو آج تک ہم نے نہیں پوچھا:

"کیا تم واقعی ٹھیک ہو؟"

اگر ہم سچ میں کسی کی بات سن لیں،
تو شاید ہم کسی کو خودکشی سے بچا سکیں…
شاید ہم ایک بکھرتی جان کو سمیٹ سکیں…
اور شاید کل اللہ ہمارے کسی گناہ کو معاف کر دے، کیونکہ ہم نے کسی کا بوجھ بانٹا تھا۔

"اور جو کسی ایک جان کو بچائے، گویا اُس نے پوری انسانیت کو بچا لیا۔"(سورۃ المائدہ: 32)

آئیے، آج سے ہم صرف زندہ لوگوں کی دعائیں نہ مانگیں…
بلکہ زندہ دلوں کی زندگی کے لیے محبت، رحم، اور سننے کا جذبہ بھی مانگیں۔

Comments

Click here to post a comment