"کوفہ ایک ایسی دوشیزہ ہے جس پر کسی قسم کا بناؤ سنگھار نہیں ہے،جبکہ بصرہ ایسی بڑھیا ہے جس کے بال کھچڑی ہیں،بغلوں سے بُو آتی ہے مگر ہر قسم کے زیورات سے آراستہ ہے۔"حجاج بن یوسف نے عبد الملک بن مروان کے حکم پر کوفہ اور بصرہ میں بہ طور تقابل یہ جملہ کسا۔جب عربوں کو مدائن کی آب و ہوا راس نہ آئی تو حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے سن 17ھ میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دورِ حکومت میں دریائے فرات کے کنارے یہ شہر فوجی چھاونی کے طور پر آباد کیا،اس کا نقشہ ابو الھیاج اسدی نے تیار کر کے دیا،پہلےمرحلے میں یہاں ساٹھ ہزار نمازیوں کی بہ قدر مسجد تعمیر کرائی گئی،اس کے سامنے قصرِ حکومت اور دو سو گز طویل بیت المال کی عمارت بنوائی گئی،ان کے چاروں اطراف میں کچھ فاصلہ چھوڑ کر مختلف قبائل کے لیے محلے بنائے گئے،ہر محلہ میں ایک ایک مسجد بھی تعمیر کی گئی،یہ شہر اپنے عہدِ عروج میں سولہ میل پر پھیلا ہوا اور ستر ہزار مکانات پر مشتمل تھا۔
علاوہ ازیں یہ مختلف سیاسی تحریکوں کا محور رہا ہے،عبدالملک لیثی کہتے ہیں کہ اموی خلیفہ عبد الملک بن مروان قصر امارت میں بیٹھے ہوئے تھے،میں نے ان سے کہا کہ سب سے پہلے میں نے یہاں پر حضرت حسین رضی اللّٰہ عنہ کا کٹا ہوا سر عبیداللہ بن زیاد کے سامنے دیکھا،اس کے بعد عبیداللہ بن زیاد کا کٹا ہوا سر مختار ثقفی کے سامنے دیکھا،بعد ازیں مختار ثقفی کا کٹا ہوا سر مصعب بن عمیر کے سامنے دیکھا،اور مصعب بن عمیر کا کٹا ہوا سر آپ کے سامنے دیکھا،یہ سن کر عبد الملک بن مروان کا چہرہ پیلا پڑ گیا اور یہاں سے نکل گیا،کوفہ بیس سال (75ھ تا 95ھ) تک حجاج بن یوسف کی گورنری کے ماتحت رہا۔اموی حکومت کے خاتمے کے بعد بنو عباس نے بیس سال تک اسے دار الحکومت کے طور پر استعمال کیا،البتہ قرامطہ نے جب حلہ کو آباد کیا تو کوفہ کی رونق دن بہ دن ماند پڑتی گئی،اور یہ زوال پذیر ہو گیا،اس کے بعد یہ کوئی قابلِ قدر ترقی نہ کر سکا،کوفہ کے لوگ متلوّن مزاج لیکن علم دوست تھے،حضرت عثمان غنی رضی اللّٰہ عنہ کے خلاف اٹھنے والی تحریک،حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ کے خلاف کھڑا ہونے والا فتنہ خوارج،حضرت حسین رضی اللّٰہ عنہ کو کئی خطوط لکھ کر عین موقع پر دھوکہ دینے والا معاملہ،ان تمام میں اہل کوفہ پیش پیش رہے۔
البتہ یہ لوگ علم کے تشنہ،اور ادبی ذوق کے حامل تھے،چنانچہ شہر آباد ہونے کے بعد حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے کوفہ میں تعلیم و تربیت کے لیے حضرت ابنِ مسعود رضی اللہ عنہ کو خصوصی طور پر بھیجا،اگرچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو بھی ابنِ مسعود رضی اللہ عنہ کی ضرورت تھی،اور آپ نے اس بات کا اظہار بھی کیا کہ میں اپنی ضرورت پر تمھیں ترجیح دے کر ابنِ مسعود رضی اللہ عنہ کو تمہاری طرف بھیج رہا ہوں۔ابن مسعود نے کوفہ میں آ کر تفسیر،حدیث،فقہ اور مختلف علوم کی مجلسیں قائم کیں،نتیجتًا آپ کے حلقہ درس سے علوم و فنون کے کئی شناور سیراب ہوکر نکلے،چنانچہ جب حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ کوفہ میں فروکش ہوئے تو علم و ادب کا سدا بہار ماحول دیکھ فرمایا: اللّٰہ تعالیٰ ابن ام معبد (حضرت عبداللہ بن مسعود) پر رحم کرے،اس نے کوفہ کو علم سے بھر دیا ہے۔علاوہ ازیں کئی علوم و فنون کی بنیادیں اسی شہر میں رکھی گئیں،قواعدِ عربیہ پر مشتمل علمِ نحو کا تحفہ ہمیں کوفہ نے ہی دیا،جسے ابو الاسود الدولی نے حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ کے حکم پر یہیں بیٹھ کر مدوّن کیا،علم حدیث اور فقہ حنفی کی خدمات کا اعزاز بھی اسے حاصل ہے،واقعہ حرہ کے بعد کئی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کوفہ میں آ کر قیام پذیر ہوئے،تاریخی روایات کے مطابق کوفہ میں ایک ہزار پچاس صحابہ کرام رہائش پذیر تھے،جن میں سے ستر بدری اور تین سو بیعت رضوان میں شامل ہونے والے صحابہ کرام تھے۔
مشہور محدث امام نووی رحمہ اللّٰہ کوفہ کے بارے میں فرماتے ہیں:ھی دار الفضل و محل الفضلاء (یہ فضیلت کا گھر اور اہل علم و فضل کا گہوارہ ہے)،امام ابنِ سیرین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:جب میں کوفہ میں داخل ہوا تو وہاں چار ہزار حدیث کے طلبہ اور چار سو فقہائے کرام موجود تھے،امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:میں شمار نہیں کر سکتا کہ میں کتنی بار حصولِ حدیث کے لیے کوفہ گیا ہوں،اسی علم و ادب کے گہوارے میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ پلے بڑھے،اپنے ارد گرد موجود صحابہ کرام اور تابعین عظام سے استفادہ کر کے فقہ حنفی کی بنیاد رکھی،آپ کے علاوہ کئی علما،فقہا،محدثین اور ادبا اسی خطے سے ابھر کر منصہ شہود پر ظاہر باہر ہوئے،اور عرصہ دراز تک یہاں علم و حکمت کی مجلسیں،شعر و ادب کی محفلیں اور فقہ و حدیث کی بزمیں سجتی رہیں،اس سرزمین سے پیدا ہونے والے اہل علم و کمال کو شمار کیا جائے تو پوری ایک ضخیم کتاب بن سکتی ہے،ان میں سے چند مشہور شخصیات کے اسمائے گرامی درج ذیل ہیں!
حضرت علی کرم اللہ وجہہ
حضرت عبداللہ ابن مسعود
حضرت عمار بن یاسر
امام ابوحنیفہ رحمہ اللّٰہ
حضرت ابرہیم نخعی رحمہ اللّٰہ
حضرت سفیان ثوری رحمہ اللہ
مشہور شاعر متنبی
تبصرہ لکھیے