ہوم << بچے کو استاد کے ظلم سے بچائیں - دانش جاوید

بچے کو استاد کے ظلم سے بچائیں - دانش جاوید

اگر آپ کے بچے کسی بھی تعلیمی ادارے میں پڑھتے ہیں تو ان سے یہ ضرور پوچھیں کہ آپ کے اساتذہ آپ کی غلطیوں پر مثلاً ہوم ورک نہ کرنے ، سبق نہ یاد ہونے ، غیر حاضری یا چھوٹی موٹی شرارتوں پر کیا سزائیں دیتے ہیں؟ اگر ان کے جواب میں کسی بھی قسم کا ذہنی یا جسمانی تشدد ہو تو براہ کرم ان کو فوراً اس کوفت سے آزادی دلوائیں۔۔

ہمارے بڑے بڑے اداروں میں آج بھی ڈنڈے کا استعمال عام ہے۔۔ ڈنڈا جانوروں کو سدھانے کےلیے تو استعمال کیا جاسکتا ہے ، انسان کے بچے کو تعلیم دینے کےلیے ہرگز نہیں ۔ کان پکڑانا ، چپیڑیں مارنا اور ذہنی استحصال تو بالکل عام طور پر کیاجاتا ہے ۔ لیکن شعور اور تعلیم بانٹنے والے یہ ادارے بھول جاتے ہیں کہ ایسی سزاؤں کے نتائج اکثر منفی ہی آتے ہیں۔۔ یہ بچوں میں خود اعتمادی کو ختم کر کے ذہن میں ایک ان چاہا خوف سا پیدا کردیتے ہیں۔ خوف سوال کرنے کی ہمت چھین لیتا ہے اور اس طرح بہت سارے روشن دماغ طلبہ اسی ان چاہے خوف کی وجہ سے اپنے سوالات اور تخلیقی صلاحیتیں اپنے ذہن میں ہی دفن کر دیتے ہیں۔ اس کے برعکس، ایک حوصلہ افزا ماحول میں طلبہ نہ صرف سوالات کرتے ہیں بلکہ اپنے خیالات اور تخلیقی صلاحیتوں کا بھی کھل کے اظہار کرسکتے ہیں۔

اساتذہ کو سمجھنا چاہیے کہ صرف جسمانی تشدد ہی تشدد نہیں ہوتا بعض اوقات آپکا رد عمل ، طنز یا کوئی غیر سنجیدہ جملہ بھی کسی کے اعتماد کو قتل کرسکتا ہے۔ مثلاً میرے کالج کے پہلے دن ایک کلاس فیلو نے مسلسل تیسری بار سوال کیا تو اس بار اس کا سوال شاید کوئی معنی خیز نہیں تھا جس کی بنا پر تمام طلبہ بشمول کلاس ٹیچر نے ہنس کر تضحیک کی ۔ نتیجہ یہ نکلا کہ وہ اتنا اعتماد کھو بیٹھا کہ پورا سال ایک بھی سوال کرنے کی ہمت نہ کر سکا۔ لیکن کیا اس کا سوال واقعی بے وقعت تھا؟.۔

میرے خیال میں تمام تعلیمی اداروں کو کچھ اصلاحات کرنا ہوں گی مثلاً:
سب سے پہلے اپنے اساتذہ کی تربیت کا بندوست کریں تاکہ قوم کے معماروں کو تعلیم دینے سے پہلے خود تعلیم اور مہارت کا مکمل علم ہو۔
اساتذہ سے گزارش ہے کہ ڈنڈے کو مکمل طور پر ترک کردیں اور اگر آپ سمجھتے ہیں کہ یہ ضروری ہے تو پھر مزید تربیت حاصل کریں۔
بچوں کی غلطیوں پر سزا دینے کی بجائے رہنمائی کریں تاکہ وہ اپنی غلطیوں سے سیکھ سکیں یا کوئی متبادل حل تلاش کریں.
جسمانی یا ذہنی تشدد کی بجائے تعلیمی سزائیں دی جائیں۔
رٹے بازی کو ختم کر کے پریکٹیکلز پر زور دیا جائے۔
ہر سکول میں موجود لیبارٹریز کے تالوں کو کھول کر بچوں تک رسائی دی جائے۔
بچوں کے تجسس کو برقرار رکھنے کیلئے سوال کرنے کا کلچر پروموٹ کیا جائے کیونکہ جو سوال کرتا ہے وہی اصل میں سیکھتا ہے۔
والدین اور اساتذہ دونوں کو بچوں کی نفسیات کی تعلیم دی جائے تاکہ وہ بہتر طور پر بچوں کو سمجھ سکیں اور رہنمائی کر سکیں۔

یہ فہرست بہت طویل ہوسکتی ہے لیکن تحریر کی طوالت کی وجہ سے اتنا ہی لکھ رہا ہوں۔ الغرض ، تعلیم کا مقصد بچوں کو شعور اور خوداعتمادی دینا ہے جوکہ تشدد کے ماحول میں قطعاً ممکن نہیں۔ اگر آپ کے بچے اپنے تعلیمی اداروں سے یہ حاصل کررہے ہیں تو خوش قسمت ہیں ، لیکن اگر ایسا نہیں تو کوئی متبادل تلاش کریں۔

Comments

Click here to post a comment

  • اساتذہ کے ریفریشر کورسز وقت کے ساتھ ساتھ لازمی ہونے چاہئیں ۔اور جدید دور کے تمام تقاضوں کے مطابق چلنا چاہئے