ہوم << پاکستان دہشت گردی کے دوراہے پر - نجیب خان

پاکستان دہشت گردی کے دوراہے پر - نجیب خان

پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات ایک بار پھر شدت اختیار کر رہے ہیں، اور یہ ایک سنگین خطرے کی نشاندہی کر رہے ہیں۔ اگر کسی ملک میں مسلسل دہشت گردی ہو تو وہاں نہ سرمایہ کاری آتی ہے، نہ سیاحت فروغ پاتی ہے، اور نہ ہی معیشت مستحکم ہو سکتی ہے۔ بدقسمتی سے، پاکستان ایک بار پھر دہشت گردوں کا ہدف بن چکا ہے۔ ماضی میں بھی ملک کو دہشت گردی کے عفریت کا سامنا تھا، لیکن کچھ عرصہ امن قائم رہا۔ تاہم، خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں دھماکوں اور دیگر دہشت گرد حملوں کے حالیہ سلسلے نے ایک بار پھر ملک کو غیر یقینی صورتحال میں دھکیل دیا ہے۔

پاکستان نے حال ہی میں دہشت گرد تنظیم داعش خراسان کے اہم کمانڈر شریف اللہ عرف جعفر کو ہلاک کیا۔ اس پر الزام تھا کہ وہ 2021 میں افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کے دوران کابل کے حامد کرزئی ایئرپورٹ پر خودکش حملے میں ملوث تھا، جس میں 13 امریکی فوجیوں اور 170 افغان شہریوں کی ہلاکت ہوئی تھی۔

لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے حکمران، سیاستدان اور عوام اس مسئلے کو سنجیدگی سے لے رہے ہیں؟ کیا کئی دہائیوں کے بعد بھی ہم دہشت گردی کے ناسور کو ختم نہیں کر سکے؟ ہماری سیکیورٹی فورسز دن رات ملک کی حفاظت کر رہی ہیں، لیکن اگر سیاسی قیادت سنجیدہ نہ ہو، تو یہ قربانیاں بھی رائیگاں جا سکتی ہیں۔

تازہ ترین دہشت گرد حملوں میں بلوچستان کے علاقے مچھ میں جعفر ایکسپریس پر فائرنگ اور بم دھماکہ شامل ہے۔ عینی شاہدین کے مطابق، حملہ آوروں نے پہلے ٹرین کی پٹڑی کو تباہ کیا، پھر گاڑی کو نشانہ بنایا، جس کے نتیجے میں 500 سے زائد مسافر خوف و ہراس کا شکار ہوگئے۔ لیویز ذرائع کے مطابق، حملہ آوروں نے ڈرائیور سمیت کئی مسافروں کو زخمی کر دیا۔

یہ واقعات واضح کرتے ہیں کہ اگر سیاستدان اقتدار کی جنگ میں الجھے رہے، تو عوام اسی طرح پستے رہیں گے۔

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اس وقت ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت ہے، اور اسے حکومت کے ساتھ مذاکرات کا راستہ اپنانا چاہیے۔ سیاسی استحکام مضبوط ہوگا تو حکومت کو دہشت گردی، معاشی بحران، اور دیگر چیلنجز کا بہتر اندازہ ہوگا اور وہ ان پر قابو پانے کے قابل ہوگی۔

یہ وقت ذاتی مفادات کو پس پشت ڈال کر قومی مفادات کو ترجیح دینے کا ہے۔ تمام سیاسی جماعتوں کو ایک میز پر بیٹھ کر دہشت گ ردی کے خلاف قومی حکمت عملی تشکیل دینی چاہیے۔ جب تک یہ مسئلہ حل نہیں ہوتا، نہ ہماری معیشت بہتر ہو سکتی ہے، نہ ہی سیاسی استحکام ممکن ہے۔

حالیہ دنوں میں پاکستان میں دہ ش ت گ ردی کے واقعات میں نمایاں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ گلوبل ٹیررازم انڈیکس 2025 کے مطابق:
پاکستان دہشت گردی سے متاثرہ ممالک میں دوسرے نمبر پر آ گیا ہے۔
2024 میں دہشت گرد حملوں میں 45% اضافہ ہوا۔
1081 افراد دہشت گرد حملوں میں جاں بحق ہوئے۔
تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سب سے زیادہ سرگرم رہی، جو 52% ہلاکتوں کی ذمہ دار ہے۔
ٹی ٹی پی نے 2024 میں 482 حملے کیے، جن میں 558 افراد جاں بحق ہوئے – جو 2023 کے مقابلے میں 91% زیادہ ہے۔

بلوچستان میں بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) نے بھی حملے تیز کر دیے ہیں۔ بولان میں مسافر ٹرین پر حملہ کر کے 100 سے زائد افراد کو یرغمال بنایا گیا۔ ٹرین کوئٹہ سے پشاور جا رہی تھی جب اسے ایک سرنگ میں نشانہ بنایا گیا۔
اسی طرح، خیبر پختونخوا کے ضلع بنوں میں ایک فوجی اڈے پر خودکش حملے میں 18 افراد جاں بحق اور 42 زخمی ہوئے۔ حملہ آوروں نے افطار کے وقت فوجی اڈے کی دیوار کو دھماکے سے اڑا دیا، جس سے مسجد اور قریبی عمارتیں تباہ ہوگئیں۔

پاکستانی سیکیورٹی ادارے دہشت گردوں کے خلاف مسلسل کارروائیاں کر رہے ہیں، لیکن افغانستان میں طالبان حکومت کے قیام کے بعد سے دہشت گردوں کو وہاں محفوظ پناہ گاہیں ملنے کی اطلاعات ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے۔

ڈونلڈ ٹرمپ اور عمران خان کے تعلقات، امریکی پالیسی، اور افغانستان میں بدلتے حالات بھی پاکستان کی سیکیورٹی پالیسی پر اثر انداز ہوں گے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ٹرمپ کی واپسی پاکستان کے لیے خطرہ ہوگی، یا عمران خان کے لیے سیاسی فائدہ مند؟

یہ تمام چیلنجز اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ تمام سیاسی قوتیں دہشت گردی کے خلاف یکجا ہو کر قومی مفاد میں فیصلے کریں۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو نہ صرف پاکستان میں دہشت گردی بڑھے گی، بلکہ ملک کی معاشی اور سیاسی صورتحال مزید بگڑ سکتی ہے۔

پاکستان اس وقت تاریخی چوراہے پر کھڑا ہے۔ یہ فیصلہ سیاسی قیادت کو کرنا ہے کہ وہ قومی مفاد کو ترجیح دے گی یا ذاتی سیاست کو آگے بڑھائے گی۔ اگر سیاسی استحکام اور قومی یکجہتی نہ آئی، تو دہشت گردی اور معیشت کے بحران مزید گہرے ہو جائیں گے۔ اس لیے وقت آ گیا ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں مل بیٹھیں اور ملک کی سلامتی کے لیے واضح حکمت عملی بنائیں۔