Blog

  • میناروں کی وفا  –   محمد حسان

    میناروں کی وفا – محمد حسان

    hassan ”مسجدیں ہماری چھائونیاں ہیں، گنبد ہمارے ڈھال ہیں، مینار ہماری سنگینیں ہیں اور مومن ہمارے سپاہی ہیں۔“

    1999ء میں نوجوان سیاستدان رجب طیب اردوان نے یہ نظم پڑھی تو انھیں مذہبی بنیاد پر اشتعال انگیزی کے جرم میں چار ماہ جیل میں گزارنے پڑے۔۔۔ آج ٹھیک سترہ سال بعد اُنہیں اپنے کہے ہوئے الفاظ کی تعبیر مل گئی۔۔۔ فوج کی بغاوت پر ترک صدر طیب اردوان نے جب عوام کو پکارا تو استنبول کی مساجد چھاؤنیاں بن گئیں، گنبد ڈھال،مینار سنگینیں اور مومن عوام طیب اردوان کے سپاہی بن چکے تھے۔۔۔ سترہ سال بیشتر جن مساجد کے مینار طیب اردوان کو جیل سے نہ بچاسکے آج انہیں میناروں نے اردوان سے وفا کا حق ادا کردیا۔ ساری رات ان میناروں سے طیب اردوان کے حق میں صدائیں بلند ہوتی رہیں۔ ۔۔

    دیسی لبرلز اور سیکولرز دیکھ لیں کہ ترکی میں جمہوریت کو بچانے اور فوجی آمریت کو کچلنے میں مساجد نے بنیادی کردار ادا کیا۔

    ٹینکوں کے آگے سینہ سُپر جمہوریت پسند عوام کے لبوں سے نکلنے والے نعرے تو سنو۔

    ”لا الہ۔۔۔ الااللہ۔۔۔ اللہ اکبر“ کا نعرہ مستانہ ان کے لبوں پر رقصاں تھا۔

    ٹینک کے آگے لیٹنے کے لیے جس عزم و ہمت اور حوصلے کی ضرورت ہے، وہ اپنے اصول، نظریے پر مضبوطی سے جمے افراد کو ہی میسر ہوتا ہے۔۔۔

    آپ کا کیا خیال ہے۔۔۔ یہ ٹینک کے آگے کون کھڑا ہے۔۔۔؟ کیا یہ محض گوشت پوشت کا کڑیل جوان ہے۔۔۔؟

    نہیں جناب! یہ اللہ کی نصرت پر کامل ایمان کھڑا ہے۔۔۔ اصول اور نظریہ کھڑا ہے۔۔۔!

    وہ جو اقبال نے کہا تھانا کہ ”مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی“ ۔۔۔ جس مصرعے کالبرلز مذاق اڑاتے نہیں تھکتے۔۔۔ تو جناب ترک قوم نے اسی مصرعے کی ہی توعملی تشریح کی ہے۔۔۔ یہ جو غزہ کی گلیوں میں اسرائیلی ٹینکوں کو فلسطینی نوجوان دن رات پتھر مارتے ہیں تو دراصل وہ اپنے اصول نظریہ اور ایمان کی گواہی دے رہے ہوتے ہیں۔۔۔ یہ جو وادی کشمیر میں مردو خواتین اور بچے، بوڑھے، نوجوان بھارتی فوج کی درندگی کے آگے صف آرا رہتے ہیں، تو وہ اپنے جذبہ حریت کا اظہار ہی تو کر رہے ہوتے ہیں ۔۔۔

    مگر ان سب حریت پسندوں کے بارے میں لبرلز اور سیکولرز کی زبانیں بدستور گنگ ہیں۔۔۔

    ان لبرلز سیکولرز دانشوروں اور جمہوریت نواز عالمی برادری نے مصر میں جس طرح عوامی امنگوں کی ترجمان جمہوری حکومت کا تختہ الٹنے پر نہ صرف منہ پھیر ا بلکہ الٹا صدر مرسی اور اس کی پالیسیوں کو ہی ہر حوالے سے مورد الزام ٹھہرایا۔۔۔ اس سے ان کی منافقت کا پردہ چاک اور مکروہ چہرہ عیاں ہوچکا ہے۔۔۔ ابھی تو یہ لبرلز ترکی کے حالیہ معاملے میں پھیکے منہ سے کہہ رہے ہیں کہ عوامی طاقت نے جمہوریت کو فتح دلادی۔۔۔

    اگر خدانخواستہ فوجی بغاوت کامیاب ہوجاتی تو سب لبرلز منہ پھاڑے چھنگاڑتے رہتے کہ اردوان کو اس کے مذہبی رحجانات لے ڈوبے، اس نے مساجد کو چھاؤنیاں، میناروں کو سنگینیں اور گنبدوں کو ڈھالیں قرار دیا تھا۔۔۔ حالانکہ ترکی کے درو دیوار گواہی دے رہے ہیں کہ دنیا بھر کی سیکولر اور لبرل طاقتیں سازشوں میں مصروف رہیں جبکہ مسجدوں کے میناروں نے جمہوریت سے وفا کی ۔

  • غیرت کے نام پر قتل اور اشتعال کا عذر: چند قانونی اصول   –  محمد مشتاق

    غیرت کے نام پر قتل اور اشتعال کا عذر: چند قانونی اصول – محمد مشتاق

    mushtaqپہلی بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے زیادہ غیور کون ہوسکتا ہے اور اس نے ایسی حالت میں قتل کی اجازت نہیں دی ہے بلکہ بیوی کو اس حالت میں دیکھنے والے شوہر تک کو لعان کا راستہ بتایا ہے اور لعان کی روایات نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ اگر لعان کی آیات نہ ہوتیں تو بیوی پر زنا کا الزام لگانے والے شوہر کو چار گواہ ہی پیش کرنے ہوتے اور ناکامی کی صورت میں اسے قذف کی سزا بھگتنی پڑتی (البینۃ او حد فی ظھرک)۔

    دوسری بات یہ ہے کہ ”سنگین اور فوری اشتعال“ (grave and sudden provocation) کو قانون سزا میں تخفیف کے لیے سبب مانتا ہے، لیکن اس سے فوجداری ذمہ داری کی نفی نہیں ہوتی، یعنی سنگین اور فوری اشتعال کے باوجود اس شخص کو مجرم ہی مانا جائے گا، البتہ اس کی سزا میں کمی ہوسکتی ہے، الا یہ کہ اشتعال اس شدید نوعیت کا ہو کہ اس کا ذہن ہی ماؤف ہوگیا ہو۔ اس آخری صورت میں اس پر جنون کے احکام کا اطلاق ہوتا ہے۔

    تیسری بات یہ ہے کہ واقعہ پہلے ہوا ہو اور قتل کرنے والا موقع کی تلاش میں ہو اور پھر موقع پاکر قتل کرے تو یہ سنگین اور فوری اشتعال کے زمرے میں نہیں آتا۔

    چوتھی بات یہ ہے کہ جو شخص سنگین اور فوری اشتعال کا عذر پیش کرتا ہے بار ثبوت اسی پر ہوگا، یعنی عدالت اس کا عدم وجود ہی فرض کرے گی اور اسے مجرم ہی مانے گی جب تک وہ یہ ثابت نہ کردے کہ اس موقع پر اچانک ایسا کچھ ہوا جس نے سنگین اشتعال پیدا کرکے اسے اس فعل پر ابھارا۔

    پانچویں بات یہ ہے کہ خواہ قندیل بلوچ نے پہلے سے بہت کچھ کیا اور کہا ہو اور بھائی نے اس پر خاموشی اختیار کی ہو لیکن پھر بھی یہ احتمال پایا جاتا ہے کہ اس موقع پر اچانک ہی ایسا کچھ ہوا جو فوری اور سنگین اشتعال کا باعث بنا ہو۔ لیکن جیسا کہ عرض کیا گیا، اس کا بارثبوت اس بھائی پر ہی ہوگا۔

    چھٹی بات یہ ہے کہ پاکستانی قانون میں 2005ء کے بعد سے اصول یہ ہے کہ اس طرح کے قتل میں ولی، بلکہ تمام اولیا، کی جانب سے معافی کے بعد بھی قاتل کو سزاے موت دی جاسکتی ہے کیوں کہ قانون نے اسے فساد فی الارض قرار دے کر ولی کے معافی کے اختیار پر حاکم کے اختیار کو، جو وہ پوری قوم کے نمایندہ کی حیثیت سے استعمال کرتا ہے، فوقیت دی ہے، اور جیسا کہ اوپر دی گئی تفصیل سے معلوم ہوتا ہے، میری راے میں یہ اسلامی قانون کے قواعد سے ہم آہنگ ہے۔
    و اللہ تعالیٰ اعلم!

    مصنف بین الاقومی اسلامی یونیورسٹی، اسلام آباد میں لاء کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں۔

  • ترکی میں ناکام بغاوت، مغربی میڈیا میں صف ماتم – طارق حبیب

    ترکی میں ناکام بغاوت، مغربی میڈیا میں صف ماتم – طارق حبیب

    13307310_10210170202560237_4459582383483183593_nترکی میں فوجی بغاوت کے آغاز پر خوشیوں کے شادیانے بجانے والے مغربی میڈیا پر اس وقت صف ماتم بچھی ہوئی ہے
    ۔
    جیسے ہی فوجی بغاوت شروع ہوئی تو مغربی میڈیا کی باچھیں پھٹی جارہی تھیں. فاکس نیوز کے نیوز اینکر نے اقوام متحدہ کے لیے امریکی سابق سفیرجان بولٹن سے سوال کیا کہ فوجی بغاوت کے کیا اثرات ہوں گے تو موصوف نے اس بغاوت کے فوائد گنوائے اور کہا کہ اگر بغاوت ناکام ہوگئی تو بہت خون ریزی ہوگی. فاکس نیوز کو بغاوت کی کامیابی کا اتنا یقین تھا کہ امریکی و ترکی کی فوج کے درمیان “مثالی تعاون” پر ایک ڈیبیٹ بھی کرادی. فاکس نیوز کے فوجی ماہر چیک نیش نے تبصرے میں ترک فوج کی مہارت کو بیان کرتے ہوئے زمین آسمان ایک کردیے.
    ۔
    اس موقع پر سی این این، بی بی سی، اسکائی نیوز ایک دوسرے پر بازی لے جانے کے چکر میں تھے. ترک باغی فوجیوں کی ہمت بڑھائی جارہی تھی. ترک صدر ادرگان کو دہشت گردوں کا ہمدرد و مددگار ثابت کیا جارہا تھا. اسکائی نیوز کا رپورٹر کہتا ہے کہ ترکی کے وزیر اعظم کو دہشت گردوں کی حمایت پر مبنی پالیسی پر ردعمل کا سامنا ہے اور امید ہے کہ فوجی اس حکومت کو نکال باہر کریں گے.
    ۔
    جان کیری کو بھی امید تھی کہ فوجی بغاوت کے بعد ترکی میں امن استحکام کا تسلسل ہوگا.
    ۔
    پھر منظر بدلتا ہے ۔۔۔ سڑکوں پر عوام کا ہجوم ۔۔۔ مغربی میڈیا کی امیدوں کا مرکز ۔۔۔ فوجی بغاوت ناکام ہونا شروع ہوئی ۔۔۔ ترک عوام نے تاریخ رقم کی ۔۔۔ فضا یااللہ بسم اللہ ، اللہ اکبر کی صدائوں سے گونجنے لگی ۔۔۔ دیوانوں نے ایسی تاریخ رقم کی جس کی ماضی میں مثال کم ہی ملتی ہے ۔۔۔ فوجی بغاوت کی ناکامی کے آثار نظر آئے تو مغربی میڈیا کے اینکرز کی باچھیں اپنی جگہ واپس آتے آتے مزید سکڑ گئیں جبکہ ترک عوام کی مزاحمت دیکھ کر آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں ۔۔۔ امریکہ بھی پہلے بیان کے بعد پلٹی مار کر ترک جمہوری حکومت کے ساتھ ہوگیا ۔۔۔ پھر سارا دن ترکی کی جمہوری حکومت کو مبارکباد دیتے گزرا
    ۔
    بظاہر تو بغض نکالنے کا ذریعہ نہ رہا ۔۔۔ مگر ۔۔۔ پھر جب باغی ترک فوجی پناہ کے لیے اپنے آقائوں کے پاس پہنچنا شروع ہوئے تو ۔۔۔ پھر مغربی میڈیا کی “انسانی حقوق” کی رگ پھڑکی ۔۔۔ اور سینکڑوں عام شہریوں کو شہید کرنے والے ان باغی فوجیوں کو مظلوم ظاہر کرنا شروع کردیا ۔۔۔ ہیلی کاپٹر کے ذریعے فرار ہوکر ترکی سے یونان پہنچنے والے بغاوت کے ذمہ دار 8 فوجی افسران کے حقوق یاد آگئے ۔۔۔ ترک عوام کی جانب سے فوجیوں کو جوتے، بیلٹ یا تھپڑ مارنا اسی میڈیا کے نزدیک عوام پر فائرنگ ، ٹینک چڑھانے اور شیلنگ کرنے سے زیادہ بڑا گناہ ٹھہرا ۔۔۔ مفرور فوجی افسران کی مظلومیت کا رونا رویا ہی جارہا تھا کہ اچانک وہی آواز گونجی جس سے اب ۔۔۔ باغیوں اور ان کے آقائوں کی گھگھی بندھ جاتی ہے ۔۔۔ طیب اردگان نے کہا کہ
    یونان فوری طور پر بغاوت کے ذمہ داران 8 فوجی افسران کو ہمارے حوالے کرے. یہ ترکی کے مجرم ہیں.
    ۔
    اس وقت سے اب تک مغربی میڈیا پر صف ماتم بچھی ہوئی ہے

  • مدارس کےساتھ جامعات کی اصلاح بھی – زاھد مغل

    مدارس کےساتھ جامعات کی اصلاح بھی – زاھد مغل

    20523_800084413418302_6421615929894229381_nطویل عرصہ سے ان صداؤں کی بازگشت سنائی دے رہی ہے کہ مدارس والے بچوں کو جدید تعلیم نہیں دیتے، انہیں جدید دنیا کے تقاضوں اور ذھن کا علم ہی نہیں ہوتا، یہ بچے آخر معاشرے کی باگ دوڑ کیسے سنبھال سکتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ ہمارے یہاں کے دانشوران کے ساتھ ساتھ جدید تعلیمی اداروں کے منتظمین بھی اس امر پر نوحہ کناں ہوتے ہیں۔ اس میں تو بہرحال کوئی شک نہیں کہ ایسی باتیں حقیقت پسندانہ و مفید ہیں اور ایسا بھی نہیں ہے کہ اہل مدارس ان کی طرف بالکلیہ توجہ دینے کے لیے تیار نہیں۔ چنانچہ وقت کے ساتھ ساتھ اہل مدارس میں اس حوالے سے نہ صرف احساس بڑھتا جارہا ہے بلکہ کچھ مدارس نے نصاب میں ایسی تبدیلیاں کرنے کے عملی اقدامات بھی اٹھانا شروع کردیے ہیں۔ بہت سے مدارس میں اب انگریزی زبان، ٹیلی کام کی ضروری سوجھ بوجھ و سماجی علوم پڑھائے جارہے ہیں اور اہل مدارس یہ سب کچھ عوام کے ساتھ اپنے روابط کی بنا پر سرکاری مالی سرپرستی کے بغیر از خود کر رہے ہیں۔ تو یہ تصویر کا ایک رخ ہے۔

    تصویر کے دوسرے رخ کو سامنے رکھتے ہوئے بھی یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اہل مدارس کو ہمہ وقت ایسے مفید مشورے دینے والے جدید تعلیمی اداروں کے یہ احباب اور ہمارے دانشوران اس بات پر غور کرنے کی کوشش کیوں نہیں کرتے کہ جدید تعلیمی اداروں سے جن نسلوں کو ہم تیار کر رہے ہیں، آیا دین کی طرف ان کا لگاؤ کیسا بنتا ہے؟ ان احباب کو یہ فکر کتنی دفعہ اور کتنی شدت کے ساتھ دامن گیر ہوئی کہ ہماری جامعات میں سالہا سال علم حاصل کرکے فارغ ہونے والے بچوں اور بچیوں کو جو نصاب ہم پڑھاتے ہیں وہ نصاب ان کا اپنے دین کے ساتھ فکری و عملی ربط قائم کرنے میں کیا کردار ادا کرتا ہے؟ نیز ایسا تو نہیں کہ ان جامعات میں ہم انہیں جو فکر اور ماحول فراھم کررھے ھیں، آگے چل کر کہیں وہ انہیں دینی عقائد و اقدار ہی سے دور لے جائے؟ ھماری جامعات کے منتظمین اور دانشوران کبھی ان سوالوں پر بھی سنجیدگی سے سوچیں گے یا صرف اھل مدارس ہی کو مفت مشورے دینے سے کام چلایا جائے گا؟ یہ سوالات اس تناظر میں اور بھی زیادہ اہمیت اختیار کرجاتے ہیں کہ ھمارے معاشرے کے بالائی طبقے سے رکھنے والے اور ذھین طلباء حصول علم کے لئے بالعموم انہی جامعات کا رخ کرتے ہیں نیز ان جامعات کو مکمل یا جزوی سرکاری سرپرستی بھی میسر ہے۔ ان سوالات کو نظر انداز کرنے کا مطلب گویا یہ ہے کہ ھمیں ملائی کے برباد ہونے کی تو فکر نہیں، البتہ چھاج سے مکھن حاصل کرنے پر سارا زور صرف کیا جارہا ہے۔ تو کچھ توجہ دوسری طرف بھی کیجیے۔

  • ترکی بغاوت، ایک اور پہلو –  ہمایوں مجاہد تارڑ

    ترکی بغاوت، ایک اور پہلو – ہمایوں مجاہد تارڑ

    اطلاعات کے مطابق یہ مختصر سی فوجی بغاوت ناکام ہو گئی ہے۔ تاہم، راقم الحروف کو اس بات سے اتفاق نہیں کہ اس کے پیچھے کوئی عوامی اور جمہوری طاقت کھڑی ہے، بغاوت کی ناکامی کو جس کی فتح قرار دیا جائے جیسا کہ پرویز رشید صاحب جیو چینل پر چہک رہے تھے۔ ناچیز کی رائے میں آرمی چیف سمیت ہائی کمان کی مکمّل سپورٹ کیساتھ بغاوت ہوتی تو دیکھتے یہ کیسے ناکام ہوتی۔ ایک سنگل بلٹ تک چلنے کی نوبت نہ آتی اور سارا اقتدارخاموشی سےمنتقل ہو جاتا۔ آج اخبارات اور ٹی وی چینلز کی ہیڈ لائنز کچھ اور ہی بھاشن اگل رہی ہوتیں۔طیب اور ان کے ساتھی اِس سمے اپنی خواب گاہوں کی بجائےکسی عقوبت خانے میں پڑے دوپہر کا کھانا ملنے کا انتظار کررہے ہوتے۔ چند سو فوجیوں کی طرف سے ناقص منصوبہ بندی اور تھوڑے بہت ”سازوسامان“ کے ہمراہ اس طرز کے venture کا ناکام ہونا کوئی بڑی بات نہیں۔اسے آپ طیب اوردگان پارٹی کی خوش قسمتی کہیے کہ مالک ِ حیات نے – جو قہّار اور جبّار بھی ہے، – ان کی گردنوں پر ہاتھ رکھ، وارننگ دیتے ہوئے فی الوقت چھوڑ دیا ہے جیسے کہہ رہا ہو کہ ”جاؤ، ایک چانس دیتا ہوں۔ سنبھل جاؤ، ہوش میں آجاؤ۔ وگرنہ تم کیا چیز ہو، تمہاری اوقات کیا ہے۔تم سے کئی گنا طاقتور لوگوں کو ہم پلوں میں خاک چٹوایا کرتے ہیں۔“

    چند ہزار لوگوں کی یہ ”عوامی قوّت“ بھی کبھی سامنے نہ آتی اگر طیّب اردگان کو سکائپ پر عوام سے رابطہ کرنے کا موقع نہ ملتا جس کے ذریعے انہیں اصل صورتحال سے آگاہی نصیب ہوئی۔ نیز نجی چینلز کو بھی کنٹرول میں نہ لیا جاسکا جو مسلسل اپ ڈیٹس دیتے رہے۔

    اگرچہ اس میں کلام نہیں کہ طیّب اردگان ہی وہ شخصیت ہیں جنہوں نے ترکی کو موجودہ ترقی یافتہ ترکی بنایا، اسے سر سے پاؤں تک بدل کے رکھ دیا لیکن جیسا کہ بلال الرشید نے بھی اپنے فیس بک سٹیٹس میں لکھا کہ یہی صاحب ”گذشتہ کچھ برسوں سے ایسے بدلے کہ جناب نے 61 ارب لاگت سے ایک ہزار کمروں پر مشتمل اپنا محل تعمیر کیا۔ اپنے ان صاحبزدگان کی سرپرستی کی جنہوں نے لاکھوں ڈالرز کی کرپشن کی۔ حکومت کے ناقدین اور اپنے سیاسی مخالفین پر اردگان کاانتقامی جاہ وجلال کچھ ایسا برسا کہ انہیں ملک سےفرار ہونے میں ہی عافیت نظر آئی۔ڈاکٹر شعیب سڈل نے، جنہوں نے ترک پولیس کی تربیت کی، تصدیق کی ہے کہ کرپشن کی تحقیقات کرنیوالے افسروں کو معطّل یا برطرف کردیا گیا۔“

    بی بی سی انگلش ویب سائٹ پر آج صبح ابھرنے والی شہ سرخی نے طیب اوردگان کو سنگدل/بے رحم حکمران قرار دیا ہے۔ اس خبر میں نیچے دی گئی تفصیل میں بی بی سی نے حکمراں پارٹی کے صحافتی طبقے پرروا تاریخی ظلم کی دہائی دیتے ہوئے لکھا ہے کہ کچھ عرصہ سے ترکی کا صحافتی طبقہ ہو یا بیرون ممالک سے آئے میڈیا کے لوگ، دونوں کو برابر ہراساں کیا جارہا ہے۔ ترکی کے سب سے بڑے میڈیا گروپ یعنی زمان گروپ پر تو ظلم و بربریت کے پہاڑ توڑ دیئے گئے۔ اس گروپ کی گذشتہ آزادانہ طور پر جاری کردہ پریس میں کہا گیا تھا کہ:
    ”ترکی صحافت نے اپنے کیریئر کے سیاہ ترین دن دیکھے ہیں۔“

    اب اِس زمان گروپ کے اخبارات اور ویب سائٹس کو مکمل حکومتی کنٹرول میں رکھا جا رہا اور اس کے صفحات پر حکومت کو بھرپور طور پر سپورٹ کرنے والے، جانبدارانہ آرٹیکلز نمودار ہورہے ہیں۔ یہ انتہا ہے خود پسندی پر مبنی جابرانہ رویے اور طرز عمل کی۔زمان گروپ آف نیوز پیپرز کا، جو پوری طرح زیر عتاب ہے، قصور بس اتنا ہے کہ انہوں نے طیب اوردگان اور اس کے بیٹوں کی مالی بدعنوانی کو نہ صرف طشت از بام کیا، بلکہ جب حکومت کی طرف سے دیئے لالچ اوربعد ازاں ہراساں کرنے کو دھمکی آمیز پیغامات کا سلسلہ شروع ہوا کہ یہ سارا مواد اپنی ویب سائٹوں اور اخبارات سے ہٹا دو تو اس گروپ نے بِکنے اور دبنے سے صاف انکار کر دیا یہ کہہ کر کہ:
    “This is not your money!”

    بی بی سی نے اسی رپورٹ میں لکھا ہے کہ طیب کا یہ جابرانہ طرزِ عمل یہیں ترکی کی سرحدوں تک محدود نہیں۔ اس کے باڈی گارڈز نے امریکہ جیسے ملک میں بھی رپورٹرز کو دھمکایا۔ جرمنی کا ایک طنز نگار صحافی اپنے گھر میں زیرِ تفتیش ہے۔

    اکسٹھ سالہ طیب اوردگان اپنی انصاف پارٹی کے قیام کے صرف ایک سال بعدسنہ 2002 میں اقتدار میں آئے تھے۔آپ نے گیارہ برس بطور وزیرِ اعظم کام کیا جس میں ترکی کی شکل صورت بدل کر رکھ دی۔تب آپ وہ پہلے شخص ہیں جو سنہ 2014 میں براہ راست ترکی کے صدر منتخب کر لیے گئے۔

    پھر وہی ہوا جو ہوا کرتا ہے! خود کو ناگزیر سمجھ لینے، ناقابلِ مواخذہ خیال کرلینے والا خنّاس تن بدن میں سرایت کر گیا، جو اپنے اوپر ہونے والی تنقید کو برداشت نہیں کرتا اور محاسبہ کرتی ہر آواز کو دبا دینا، اور آواز نکالنے والوں کو یا تو خرید لینا یا منظر سے ہٹا دینا مانگتا ہے۔ لیکن حضرت یہ مت بھولیں کہ اللہ کی لاٹھی بے آواز ہے۔ آج کی اس جزوی بغاوت کو اپنے لیے وارننگ سمجھیں اور ‘آپ ہی اپنی اداؤں پہ ذرا غور کریں’ کے مصداق اپنے رویوں کی اصلاح کر لیں۔

    ترکوں کا عروج، پیغمبرؐ کی پیشگوئی کے مطابق، آپ کی ذات اقدس کا محتاج نہیں۔ اللہ کی لافانی طاقتیں پلوں میں کسی دوسرے شخص ، کسی دوسری قوّت کو یہ اختیار منتقل کرسکنے پر قادر ہیں۔آپ سے گذارش ہے کہ اپنے پرانے کردار پر واپس آجائیں۔ یہاں کسی کو دوام نہیں۔ اگر ہے تو بس ایک اجلے کردار کی۔ برما میں روہنگیا مسلمانوں کےآنسو پوچھنے، فلسطینی کاز کی حمایت کرنے، مسلم اُمہ کو درپیش ہر ایشو پر سچی بات کا برملا اظہار کرنے والے، ترکی کو اسلامی دنیا میں ترقی اور مضبوطی کا استعارہ بنا دینے والے طیب اردگان کے دامن پر کچھ ایسے چھینٹے لگ چکے ہیں جو اس کی درخشاں شخصیت کے حسن کو گہنائے دیتے ہیں۔ ہم سب آپ کو ویسا ہی ذی وقار دیکھنا چاہتے ہیں جیسا امیج آپ نے اس سے پیشتر دنیا کے دلوں اور دماغوں راسخ کیا تھا۔ یاد رکھیں، اس نوع کی کمزوریوں کو بہانہ بناکر طاق میں لگا دشمن کسی بھی وقت وار کر سکتا اور اس ہنستے بستے ترکی کو عراق میں بدل سکتا ہے۔آپ عالم ِ اسلام کی امّید ہو۔ خدارا ہوش کے ناخن لیں!

    ہارون الرشید صاحب کے ایک پرانے کالم کا حوالہ دینا چاہوں گا جس میں انہوں نے ایک حدیثِ رسولؐ تقل کی تھی کہ اللہ کے آخری رسولؐ نے ارشاد کیا تھا:

    ”دمشق میں یہودیوں کیساتھ آخری معرکہ برپا کرنے کے لیے ترک اتریں گے اور ہند کے مسلمان۔“

    پیغمبرؐ نے یہ بات تب کہی جب ایک بھی ترک مسلمان نہ تھا، نہ ہند میں ہی اسلام نام کی کوئی شے متعارف ہوئی تھی۔

    پچھلے دنوں نے پی ٹی وی پر اسرار احمد کسانہ کو انٹرویو دیتے ہوئے پروفیسر احمد رفیق صاحب نے بھی اس امر کا پُر جوش لب و لہجے میں اظہار کیا ۔ جب ان سے دریافت کیا گیا کہ آپ پاکستان اور اسلامی دنیا کے حالات کو کیسا دیکھتے ہیں تو آپ کا کہنا تھا کہ “میں پاکستانی اور ترک قوم کو مستقبل قریب میں ابھرتے ہوئے دیکھتا ہوں۔”

    تو گویا ترکوں کا عروج مقسوم ہے، مقدر ہے۔ لیکن یہ عروج کسی کا محتاج نہیں۔ اللہ کی لافانی طاقتیں پلوں میں کسی دوسرے شخص ، کسی دوسری قوّت کو یہ اختیار منتقل کر سکنے پر قادر ہیں۔
    آخر میں ایک مرتبہ پھر بلال الرشید کے فیس بک سٹیٹس کا حوالہ دوں گا:
    ” قدرت کی طرف سے طیب اردگان کو ایک بڑا شاک لگا ہے۔حالات بہت خراب ہیں۔ترکی نے چند ماہ قبل روسی طیارہ مار گرایا تھا۔ ایک طرف داعش ہے، تو دوسری طرف امریکہ، روس اور اسرائیل سمیت وہ ممالک جو مشرق وسطٰی میں آخری طاققتور مسلمان حکمران کو برداشت نہیں کرسکتے۔ ایسے میں طیب اردگان کو فیصلہ کرنا ہوگا۔ دولت اوردائمی عزت میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہوگا۔ان کے پاس مہلت موجود ہے، لیکن یہ مہلت لا محدود نہیں۔“

    اب آتے ہیں اس پہلو کی طرف کہ ہمیں اس سے کیا سبق سیکھنا چاہیے۔ چونکہ ترکی کے علاوہ پاکستان ہے جو اس وقت عالمِ اسلام کے لیے امّیدکا استعارہ ہے۔ اس ضمن میں آپ سے دو عدد بڑے دلچسپ اور حکیمانہ قسم کے کومنٹس شیئر کرنا چاہوں گا۔

    ایک صحافی دوست مجاہد حسین کا کومنٹ یوں ہے، جس میں پاکستان میں حکمراں پارٹی کے لیے کچھ پیامِ عقل و شعور ہے:

    ”ترکی میں جس طرح عوام نے ٹینکوں کے سامنے مزاحمت کی ہے، اس پر ان کی جس قدر تحسین کی جائے کم ہے ۔ تاہم،مجھے خدشہ ہے کہ ہمارے حکمران اس واقعے سے حوصلہ پاکر فوج کے ساتھ کوئی پنگا نہ لے بیٹھیں۔ نواز شریف اینڈ کو کے لیے میرا مفت مشورہ ہے کہ ایسا سوچنا بھی نہیں۔ پہلے ترکی کے حکمرانوں کی طرز پر کارکردگی کے ذریعے اپنی جگہ بنالو، پھرعوام سے اس طرح کے ردعمل کی امید کرنا۔ اگر خدا نخواستہ، ایک بار پھر خدانخواستہ، یہاں فوج آئی تو لوگ ٹینکوں کے آگے ہار اور مٹھائی لیے کھڑے ہوں گے۔ لوگ جمہوریت سے نہیں اچھے حکمرانوں سے محبت کرتے ہیں اور آپ کا اس فہرست میں آنے کا دور دور تک کوئی امکان نہیں۔“

    اور ڈاکٹر عاصم اللہ بخش کی تفہیم، ہمارے اپنے حکمراںطبقے کے لیے پیغام یوں ہے:
    ”آج ہی پاکستان کی سول ملٹری قیادت کو فوراً ایک دوسرے کو اعتماد میں لے کر چند فیصلے کرنا ہوں گے. اس وقت عالمی سطح پر غیر معمولی تیزی سے صورت حال بدل رہی ہے. اس کا ادراک کرنا ہو گا. یہ وقت سیاست نہیں تدبر کا ہے . پاکستان نہ مارشل لاء کا متحمل ہو سکتا ہے اور نہ ہی تساہل پسند گورننس کا۔یہ وقت پاکستان کو مسلم دنیا کی سب سے بالغ نظر، مستحکم اور مدبر ریاست کے طور پر سامنے لا سکتا ہے، اور غلط فیصلے ہمیں بھی مصر اور ترکی کی راہ پر لے جائیں گے. یہ پاکستان کے لیے موقع بھی ہو سکتا ہے اور آزمائش بھی. ہمیں خود کو اسے موقع میں ڈھالنے کے قابل ثابت کرنا ہے۔“
    وما علینا الا لبلاغ۔

  • سینئر صحافی عبدالقادر حسن کی کہانی، ان کی اپنی زبانی – عامر خاکوانی

    سینئر صحافی عبدالقادر حسن کی کہانی، ان کی اپنی زبانی – عامر خاکوانی

    11019467_1022673787760103_3386052191318066626_nیہ پچاس کی دہائی کے وسط کی بات ہے، خوشاب کی حسین وادی سون سکیسر کے ایک نوجوان مکین نے ملک کے نامور صحافی اور ایڈیٹر کو خط لکھا کہ میں صحافی بننا چاہتا ہوں۔ عام طور پر اخبارات کے دفاتر میں ایسے خطوط طفلانہ حرکت سمجھ کر ردی کی ٹوکری کی زینت بنا دیے جاتے ہیں، اب جانے یہ جہاندیدہ صحافی کی تیز نگاہ تھی جس نے مکتوب نگار کے چھپے جوہر کو پہچان لیا یا پھر اس اکیس بائیس سالہ نوجوان نے خط لکھا ہی کچھ ایسے سوزدروں سے تھا کہ ایڈیٹر موصوف نے جواباً خط لکھا اور اس میں صحافت کی وادی پرخار میں موجود صعوبتوں کی جھلک دکھائی اور مشورہ دیا کہ ایسا فیصلہ سوچ سمجھ کر ہی کرنا چاہیے۔ وہ نوجوان جواب دینے کے بجائے اسی دن بس پکڑ کر لاہور چلاآیا اوریوں اگلے دن سے اس کا اخبارنویسی کا سفر شروع ہوگیا جو آج نصف صدی گزرجانے کے باوجود اتنی ہی تب وتاب سے جاری ہے۔ وہ نوجوان آج کے ممتاز کالم نگار اور سینئر صحافی عبدالقادر حسن ہیں اور وہ ایڈیٹر نوائے وقت کے بانی حمید نظامی مرحوم تھے۔

    عبدالقادر حسن کے سفر زیست کی روداد دلکشا ہونے کے ساتھ دلچسپ اور سبق آموز بھی ہے۔ وہ کسی سکول میں باقاعدہ داخل نہیں ہوئے اور انہوں نے فقہ، حدیث، عربی، انگریزی اور دین کی تعلیم مختلف نامی گرامی اساتذہ سے علیحدہ علیحدہ حاصل کی۔ وہ برسوں ایک قومی اخبار کے رپورٹر رہے، اردو اخبار میں ماڈرن کالم نویسی کے وہ بانی ہیں۔ ان کا کالم ”غیر سیاسی باتیں“ کوئی پچاس برسوں سے شایع ہورہا ہے۔ وہ امروز کے چیف ایڈیٹر بھی رہے۔ اپنے اس طویل صحافتی کیریئر کے دوران کئی حکمران ان کے قلم کی کاٹ سے مضطرب رہے تو جنرل ضیاء جیسے سربراہ مملکت اہم امور میں ان کی رائے سے مستفید بھی ہوتے رہے۔

    عبدالقادر حسن کا شمار دائیں بازو کے جید صحافیوں میں ہوتا ہے۔ ان کانظریہ بڑا واضح اور غیر مبہم ہے۔ بھارت کے حوالے سے ان کی رائے ہمیشہ سے ایک ہی رہی کہ ہندو کبھی بھی ہمارا دوست نہیں ہوسکتا۔ ان کے مخالف بھی یہ بات سب تسلیم کرتے ہیں کہ نظریاتی اعتبار سے انہوں نے کبھی کوئی قلابازی نہیں کھائی۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے وہ زبردست مداح ہیں اور ڈاکٹر صاحب کی مشہور زمانہ ٹی وی پرقوم سے ’’معافی‘‘ کے بعد کی ’’حفاظتی نظربندی‘‘ میں عبدالقادر حسن واحد کالم نگار ہیں جنہوں نے اپنے ممدوح کا بھرپور دفاع کیا اور ان کے لیے آواز بلند کی۔ اپریل کی ایک جھلستی دوپہر کو ان کے سابقہ گھر 255 سی گلبرگ تھری میں ان سے ایک تفصیلی نشست ہوئی۔ سادہ سا ڈرائینگ روم، پرانی طرز کا ونڈو اے سی، ایک دیوار پر کسی شہہ سوار کی پینٹنگ آویزاں تھی تو شیلف میں میزبان کی جنرل ضیاء کے ساتھ غالباً کسی دورے کے موقع پر کھینچی ہوئی تصویر رکھی تھی۔ گفتگو کا سلسلہ چار پانچ گھنٹوں پر محیط رہا۔ تو آئیے عبدالقادر حسن کی کہانی خود ان کی اپنی زبانی سنتے ہیں:


    عبد القادر حسن: میں ضلع خوشاب کی وادی سون سکسیر کے گائوں کھوڑہ میں 12 مئی 1935ء کو پیدا ہوا۔ یہ پورا گائوں اس لحاظ سے ہمارا ہے کہ 85 فیصد زمین میرے خاندان کی ہیں۔ ہمارا خاندان 3جاگیر دارانہ تو نہیں کہ ہماری زمینیں تمام کی تمام آبائی ہیں، ان میں انگریز حکومت کی بخشی ہوئی کوئی جاگیر نہیں۔ زمین دارانہ یا کاشت کارانہ بیک گرائونڈ البتہ کہہ سکتے ہیں۔ والد کا نام میاں غلام حسن ہے۔ میں چھ بھائیوں میں سب سے چھوٹا ہوں۔ ایک بڑے آدمی کا سب سے چھوٹا بیٹا ہونے کے ناتے میری بڑے لاڈ پیار اور خوش حالی سے پرورش ہوئی۔ تعلیم کا تمام سلسلہ البتہ پرائیویٹ نوعیت کا رہا۔ اسے سیلف ایجوکیشن بھی کہہ سکتے ہیں۔ دراصل یہ کلاسیکل طرز تعلیم تھا جس میں مختلف اہل علم حضرات سے علیحدہ علیحدہ مختلف علوم سیکھے جاتے ہیں۔ میں نے رسمی تعلیم بالکل حاصل نہیں کی۔ اس لیے میں تکنیکی طور پر اسمبلی کا انتخاب بھی نہیں لڑسکتا۔ میں نے راول پنڈی میں دلی کالج کے سابق پرنسپل عبد الجبار غازی سے انگریزی پڑھی، پھر ممتاز عالم دین مولانا مسعود عالم ندوی سے عربی زبان پڑھی۔ اس کے بعد لاہور آگیا۔ میرے بڑے بھائی جماعت اسلامی میں تھے۔ میں بھی سید ابوالاعلیٰ مودودی کی محفلوں میں شریک ہونے لگا۔ میں نے مولانا مودودی اور مولانا امین احسن اصلاحی سے اسلامی تعلیمات خصوصاً فہم قرآن حاصل کرنے کی کوشش کی (کوشش کا لفظ دانستہ استعمال کیا ہے)۔ اسی دوران مشہور اہل حدیث عالم دین علامہ دائود غزنوی سے حدیث پڑھی اور فقہ کی تعلیم مفتی محمد حسن امرتسری (بانی جامعہ اشرفیہ، لاہور) سے لی۔ ان دنوں مفتی صاحب کا مدرسہ نیلا گنبد میں ہوتا تھا۔ یہ سلسلہ 1956ء تک چلا۔ ان بڑے اساتذہ سے تعلیم لینے کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ مجھ میں نظریاتی زندگی بسر کرنے کا شوق پیدا ہوا۔ پھر یہ میری زندگی کا حصہ بن گیا۔ میں اپنے آپ کو ایک کمزور اور بے عمل سہی مگر نظریاتی شخص سمجھتا ہوں، جس کا کوئی دین ایمان ہے۔ میں نے تمام زندگی اس نظریاتی شناخت کو قائم رکھنے کی کوشش کی ہے اور اس پر سٹینڈ لیا ہے۔

    صحافت کا آغاز

    دوران تعلیم میں جماعت اسلامی کا سیاسی کارکن بھی رہا جس سے نظریاتی اساس مزید پختہ ہوگئی۔ ان دنوں کافی ہائوسز میں اٹھنا بیٹھنا ہوتا تھا۔ نوائے وقت کے بانی حمید نظامی مرحوم وہاں آتے تھے۔ ہم ان کے ساتھ بیٹھنے کی تو جرات نہیں کرسکتے تھے‘ مگر ان سے رسمی تعارف سا ہوگیا۔ پھر میں جوہر آباد چلا گیا۔ کچھ عرصہ وہاں رہا، پھر حمید نظامی صاحب کو خط لکھا اور صحافت میں آنے کی کوشش کا اظہار کیا۔ ان کا جوابی خط آیا کہ یہ اتنا آسان پیشہ نہیں ہے۔ میں جواب دینے کے بجائے لاہور میں ٹمپل روڈ پر واقع ان کے گھر پہنچ گیا۔ downloadانہوں نے مجھے دیکھا تو بولے چلو آگئے ہو تو کل نوائے وقت کے دفتر شیخ حامد محمود سے مل لو۔ اگلے دن حامد صاحب سے ملا انہوں نے روایتی انٹرویو لینے کے بجائے بڑے مشفقانہ انداز میں پوچھا کہ تمہارا مہینے کا خرچ کتنا ہے۔ میں Ymca میں رہتا تھا۔ وہاں کے قیام اورطعام کا خرچہ بتا دیا۔ انہوں نے کہا کہ نہیں مکمل تفصیل بتائو۔ میں بولتا گیا، وہ لکھتے گئے۔ حجام اور دھوبی کے خرچ سمیت سب مل ملا کر 100 روپیہ بنا۔ انہوں نے میری تنخواہ 130 روپے مقرر کی اور یوں میں بطور اپرنٹس سب ایڈیٹر کام کرنے لگا۔ سال ڈیڑھ گزر گیا۔ ایک دن مجھے پتا چلا کہ نوائے وقت راولپنڈی میں سب ایڈیٹر کی پوسٹ خالی ہے۔ اپرنٹس کی سب سے بڑی خواہش یہی ہوتی ہے کہ وہ مستقل ہوجائے۔ میں نے حمید نظامی صاحب کو وہاں جانے کی درخواست دے دی۔ انہوں نے مجھے بلایا اور کہا، ’’میرے اندازے کے مطابق تم میں لکھنے کی استعداد ہے، پنڈی چلے گئے تو تمام عمر سب ایڈیٹر ہی رہوگے۔ میں تمہاری خیر خواہی میں نہیں بھیجنا چاہتا۔‘‘

    اب میں سمجھتا ہوں کہ یہ مجھ پر بڑے نظامی صاحب کا بہت بڑا احسان تھا۔ کچھ عرصہ بعد پاکستان ٹائمز کے ادارے سے ہفت روزہ لیل و نہار کا اجرا ہوا۔ میں لاابالی پن میں استعفا دے کر وہاں چلا گیا۔ فیض صاحب چیف ایڈیٹر جبکہ سبط حسن اس کے ایڈیٹر تھے۔ عملہ میں ریاض شاہد اور حسن عابدی وغیرہ تھے، میں بھی سب ایڈیٹر بن گیا۔

    بعض لوگ سوال پوچھتے ہیں کہ دائیں بازو کا ایک پرجوش نظریاتی نوجوان پروگریسو پیپرز کے جریدے میں کیسے چلا گیا جس کی ادارت لیفٹ کے سکہ بند لوگ کر رہے تھے؟ یہ اعتراض درست ہے، میری زندگی نظریاتی تھی، نوائے وقت بھی نظریاتی اخبار تھا۔ لیل و نہار اگرچہ مختلف نظریے کا تھا‘ مگر نظریاتی تو بہر حال وہ بھی تھا۔ میں اسی چیز کا قائل رہا ہوں کہ نظریہ خواہ رائیٹ کا ہو یا لیفٹ کا، مگر زندگی میں ہونا ضرور چاہیے۔ ویسے لیل و نہار میں فیض صاحب اور سبط حسن ضرور تھے، اسی میں لیفٹ کا نظریہ بھی کارفرما تھا، مگر کمیونزم کا پر چار قطعی نہیں تھا۔ ہاں کبھی کبھار بڑے ملفوف انداز میں قارئین کی توجہ معاشی تفاوت کی طرف مبذول کرائی جاتی تھی۔ میں یہاں فیچر وغیرہ بھی کرتا رہا۔ اسی دوران ایوب خان نے پروگریسو پیپرز کو قومیا لیا اور اشفاق احمد اس کے نئے ایڈیٹر بن گئے۔ میں نے سرکاری جریدہ بن جانے پر اس سے استعفا دے دیا۔

    میں نے حمید نظامی صاحب کو خط لکھا اور نوائے وقت آنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔ مجھے ہر آدمی نے کہا، سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ نظامی صاحب پروگریسو پیپرز کے کسی بندے کو لے لیں۔ تاہم مجھے نظامی صاحب نے بلاکر صرف ایک سوال پوچھا کہ تم وہاں جا کر کمپونسٹ تو نہیں ہوگئے ہو؟ میرے انکار پر انہوں نے مجھے بطور رپورٹر جاب دے دی اور مجھے کہا کہ کوئی کالم والم بھی لکھ دیا کرو۔

    کالم نگاری کا آغاز

    نوائے وقت میں بطور رپورٹر مجھے بڑا فائدہ ہوا۔ اپوزیشن کا ایک ہی اخبار تھا، لوگ اسے شوق سے پڑھتے تھے۔ میں جلد چیف رپورٹر بن گیا۔ اسی دوران میں نے سوچا کہ کئی واقعات ایسے ہیں جو 2نیوز میں آتے ہیں نہ ایڈیٹوریل میں ان کا تذکرہ ہوسکتا ہے۔ ایسے واقعات میں نے کالم میں لکھنے شروع کردیے۔ اگر اسے خود ستائی نہ سمجھا جائے تو بتاتا چلوں کہ میں ماڈرن اردو کالم نگاری کا بانی ہوں۔ پرانے لوگوں میں مولانا چراغ حسن حسرت اور سالک صاحب تھے۔ ہمارے دنوں میں مضمون نگاری کا چلن عام تھا۔ ہلکے پھلکے انداز میں پولیٹکل اورینٹیڈ کالم میں نے ہی شروع کیے۔ بعد میں ستر کی دہائی میں لیفٹ والوں میں منو بھائی اور ادھر میں ہی کالم لکھا کرتا تھا۔ اب تو سینکڑوں تک تعداد پہنچ چکی ہے اور بیشتر ایسے ہیں جو کالم کے نام پر جواب مضمون لکھ رہے ہیں۔

    خیر میں بات کر رہا تھا کالم میں آنے والے واقعات کی، بھٹو صاحب کے زمانے میں ایسے لطیفے بہت ہوتے تھے۔ شروع میں انہوں نے اپنے وزیروں مشیروں کے لیے ایک یونیفارم لازمی قرار دی تھی۔ اس میں کالر، کف اور پتلون پر پٹی سی بنی ہوئی تھی۔ میں نے کالم لکھا ’’بینڈ ماسٹر‘‘ جس میں اس وردی کو بینڈ ماسٹروں کا لباس قرار دیا۔ خالد حسن بھٹو صاحب کے پریس سیکرٹری تھے، انہوں نے کالم بھٹو صاحب کو دکھایا تو وہ مسکرا دیے اور اگلے روز سے وہ یونیفارم ختم کرادی۔ بعد میں بھی ایسے ہلکے پھلکے واقعات ہوتے رہتے ، ہم اس پر کالم لکھ دیتے ،خوش قسمتی سے قارئین کو بھی یہ سٹائل پسند آگیا۔

    ”غیر سیاسی باتیں“

    عبد القادر حسن:۔ ایوب خان کے دور میں میں نے کالم شروع کیا تھا۔ شروع میں اس کا نام ’’سیاست نامہ‘‘ تھا۔ بعد میں یحیٰی خان نے سیاست پر ہی پابندی لگادی تو میں نے سوچا کہ نام بدلا جائے۔ میری بیوی رفعت نے مشورہ دیا کہ ’’غیر سیاسی باتیں‘‘ رکھ لو۔ یہ نام سب کو پسند آ گیا اور آج تک چل رہا ہے۔
    (جاری ہے)

  • میں اگر نواز شریف ہوتا – عمران زاہد

    میں اگر نواز شریف ہوتا – عمران زاہد

    10155883_10154733532529478_5886019418085289879_nمیں اگر نواز شریف ہوتا
    اللہ میری اس سوچ پر مجھے معاف کرے۔ ترکی میں حالیہ واقعات نے یہ ثابت کر دیا کہ عوام اپنے ہردلعزیز حکمران کی خاطر گولیوں اور ٹینکوں کی پرواہ نہیں کرتے اور بڑی سے بڑی فوج سے بھی ٹکرا جاتے ہیں۔ ان واقعات نے مجھے یہ سوچنے پہ مجبور کر دیا کہ اگر میں میاں نوازشریف ہوتا تو عوام کی ہردلعزیزی حاصل کرنے کے لئے کیا کیا کچھ کرتا ۔۔۔:
    ۱ – سب سے پہلے عوام سے خطاب کرتا اور اپنی تمام بے ایمانیوں، کرپشنوں لوٹ مار اور دو نمبریوں کا اقرار اور آئندہ ان سے بچ کے رہنے کا عزم کرتا۔ عوام سے ہاتھ جوڑ کر معافی طلب کرتا۔
    ۲ – اپنی تمام بیرون ملک دولت واپس لانے کا اعلان کرتا۔ اس میں سے جتنی دولت حرام ذرائع سے کمائی گئی ہے اسے بمع سود خزانے میں داخل کرتا۔ تاکہ اس سے پاکستان کے قرضے ادا ہو سکیں۔
    ۳ – اپنے خاندان اور پارٹی کے ارکان پر بھی یہی پالیسی لاگو کرتا اور جو اسے قبول نہ کرتا، اسے اپنے خاندان اور پارٹی سے خارج کر دیتا۔
    ۴ – آخر میں اپنا استعفٰی عوام کی عدالت میں پیش کر دیتا۔ اپنی جگہ اپنی جماعت میں سے ہی کوئی اہل اور بھلا مانس آدمی وزیرِ اعظم کے عہدے کے لئے نامزد کر دیتا۔ اپنے آپ کو جماعت کا پیٹرن یا رہبر بنا کر پالیسی سازی کے عمل کی نگرانی کرتا۔
    مجھے یقین ہے کہ ان اقدامات کے بعد اگر کوئی پارٹی، فوج یا عدالت کسی سازش کے ذریعے نون لیگ کی حکومت ہٹانے کی کوشش کرتی تو عوام اس سے خود ہی نپٹ لیتے۔
    کہیں کچھ زیادہ تو نہیں ہو گیا؟ کیا خیال ہے؟

  • کشمیر جہاد کا کریڈٹ کس کےلیے؟ زبیر منصوری

    کشمیر جہاد کا کریڈٹ کس کےلیے؟ زبیر منصوری

    کسی کو جہاد کشمیر کی موجودہ تیزی کا کریڈٹ لینے کی ضرورت نہیں
    کسی کا حق نہیں بنتا کہ وہ اب شام غریباں منعقد کرے ، الفاظ کی جھاگ اڑائے اور لفاظی سے کشمیر فتح کرنے کی کوشش کرے
    کسی سپہ سالار کو حق نہیں کہ وہ اب جھوٹے منہ رسما رواجا حق خود ارادیت کی بات کرے
    کسی مولانا کو حق نہیں کہ وہ کشمیر کی بیوہ بہنوں اور بیٹیوں کے دوپٹے بیچ کر حاصل کیے گئے کروڑوں روپے کے فنڈز پر اجلاس منعقد کرے اور سیاست فروشی کے الزامات کا ٹی وی پر بیٹھ کر دفاع کرے
    کسی ضمیر فروش سو کالڈ رائٹسٹ صحافی کو حق نہیں پہنچتا کہ وہ اب کشمیر ایشو کو اپنی منہ کی فائرنگ کا موضوع بنائے اور ان ظالموں کے دفاع میں بولے جو دہائیوں سے کشمیر کی تھالی میں کھا کر اسی میں چھید کر رہے ہیں
    کسی سو کالڈ پاکستانی جہادی گروہ کو کریڈٹ لینے اور اب غائبانہ جنازے پڑھنے کی ضرورت نہیں کہ جب آپ مقتدر طاقتوں کی بی ٹیم بن کر انہیں “سستی لیبر” فراہم کر رہے ہیں اور جانتے ہیں کہ ان کے پاس کشمیر کے لیے کوئی سنجیدہ، مستقل، مربوط اور نتیجہ خیز پلان نہیں، پھر بھی ان کے لیے بندے مروا رہے ہیں
    کسی ٹی وی چینل کا حق نہیں کہ وہ اب کشمیر کمیٹی پر سوال اٹھائے اور مزے لے لے کر ریٹنگ بڑھائے. کیا یہ کمیٹی آج بنی ہے؟ کیا اس کا بجٹ آج طے ہوا ہے ؟ تم پہلے کس ہاتھی کے کان میں سو رہے تھے کہ اب پھپھے کٹنیوں کی طرح آ کر کشمیریوں کے ہمدرد بن گئے ہو
    اور ہاں کسی پاکستانی قوم نامی ہجوم کا یہ حق نہیں کہ وہ اب کوئی ہمدردی جتائے
    یہ سب لوگ اب یہاں اور وہاں یوم حساب کا انتظار کریں جب کمزور پا کر دبا لیے گئے کشمیریوں کا رب ان سب کے پردے چاک کر کے انھیں کٹہرے میں کھڑا کرے گا
    جب ان کے کھیت پانی بند ہو جانے سے بے آباد اور ویران ہو جائیں گے
    جب انہیں پانی کے قطروں کے لیے جنگیں لڑنی پڑیں گی

    اور ہاں اس کا سارا کریڈٹ اور اس صورتحال پر عزت و تکریم کا سارا حق میرے پیارے وانی کو جاتا ہے جو ان سب جاہلوں میں سے ایک دانا نکلا، اس نے آپنے اپ کو پہچانا اور موت کے بعد کی زندگی کے لیے یہ زندگی انویسٹ کر کے امام حسین رضی اللہ عنہ کے قدموں میں اپنے رستے ہوئے زخم لے کر جا پہنچا
    اس کا سارا کریڈٹ میرے بوڑھے جانباز سید علی گیلانی کو جاتا ہے جس کے لیے کشمیر سال کے ہر موسم کا مسئلہ ہے، بہار ہو کہ خزاں وہ ہر لمحے کشمیر یوں کا اول و آخر اتحادی ہے اور اس کے بوڑھے کندھے شاید بنے ہی جوان لاشے اٹھانے کے لیے ہیں
    اس کا سارا کریڈٹ میرے صلاح الدین کو جاتا ہے جس نے زندگی کی ساری رنگینیاں اور رعنائیاں کشمیر کی مانگ سجانے کے لیے وقف کر دیں. جو اپنوں اور پرائیوں کے زخم سہتا ہے اور بس لگا رہتا ہے. مایوسیوں اور نا امیدیوں کے کانٹوں بھرے جنگلوں سے امید کے پھول چنتا ہے اور اپنے بچوں کے سپرد کر کے انھیں جدو جہد کے میدانوں میں اتار دیتا ہے. نہ تھکتا ہے، نہ رکتا ہے، نہ بکتا ہے، نہ جھکتا ہے

    آہ
    اس ملک کی کشمیر پالیسی یہ ہے کہ اس کی کوئی پالیسی ہی نہیں

    مجھ سے امیر شہر کا ہوگا نہ احترام
    میری زباں کے واسطے تالے خرید لو

  • یہ وہی ترکی ہے – رضی الاسلام ندوی

    یہ وہی ترکی ہے – رضی الاسلام ندوی

    12301476_948835835187651_5870435481364179603_nبوڑھے کی آنکھوں میں ایک خاص طرح کی چمک آگئی. اس کی آواز بڑی نحیف تھی اور اس میں لڑکھڑاہٹ بھی تھی. اپنے جسم کی پوری قوت جمع کرکے وہ گویا ہوا :
    “کیا تم لوگ میری آخری خواہش پوری کرو گے؟”
    مجلس میں موجود تمام لوگ، جو اس کی عیادت کے لیے آئے تھے، سراپا گوش بن گئے
    سالارِ لشکر تھوڑا اور قریب ہوا. اس نے اپنا کان اس کے منہ سے قریب کرتے ہوئے کہا :
    “آپ فرمائیں، ہم اس پر عمل کرنے کی پوری کوشش کریں گے”
    بوڑھے کے چہرے پر رونق آگئی. اس نے کہا :
    “میری خواہش ہے کہ جب میرا انتقال ہو تو شہ سواروں کی ایک جماعت میری نعش کو لے کر دشمنوں کی سرزمین میں گھس جائے اور جہاں تک اس کے لیے ممکن ہو، گھستی چلی جائے، پھر جس جگہ سے آگے بڑھنا اس کے لیے ممکن نہ ہو، وہاں نعش کو دفن کرکے واپس آ جائے”
    “ان شاء اللہ ایسا ہی ہوگا.” سالارِ لشکر نے اس خواہش کی تکمیل کا وعدہ کیا تو بوڑھے کے چہرے پر طمانینت پھیل گئی_
    یہ بزرگ مشہور صحابی رسول ﷺ حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ تھے اور موقع تھا روم کے دار الحکومت قسطنطنیہ پر فوج کشی کا. چنانچہ ویسا ہی ہوا جیسا وعدہ کیا گیا تھا. حضرت ابو ایوب کی تدفین فصیل بند شہر کے بالکل قریب کی گئی (اسد الغابۃ، ابن الاثیر، دار الشعب، قاہرہ، 2/96)
    یہ وہی ترکی ہے. حضرت ابو ایوب انصاری کی قبر آج بھی وہاں موجود ہے. بس فرق یہ ہے کہ تدفین کے وقت وہ دشمنوں کی سرزمین تھی، لیکن آج اسلام کی عظمت و شوکت اس سے وابستہ ہے
    ترکی کے بہادر عوام اور بیدار مغز قیادت کو سلام کہ وہ اس کی اسلامیت کو بحال رکھنے کی جی توڑ کوشش کر رہے ہیں
    اے اللہ! ان لوگوں کو سرخ رُو رکھ اور اسلام دشمنوں کو ان کی سازشوں میں ناکام کر
    نورِ خدا ہے کفر کی حرکت پہ خندہ زن
    پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا

  • فوجی بغاوتیں اور ہمارے جرنیل – رعایت اللہ فاروقی

    فوجی بغاوتیں اور ہمارے جرنیل – رعایت اللہ فاروقی

    farooqiہماری فوج بجا طور پر اس بات پر فخر کر سکتی ہے کہ اس کا کوئی گروپ کبھی اپنی چین آف کمانڈ سے بغاوت کرکے ٹینک اور طیارے لے کر عوام یا ان کی منتخب کردہ حکومت کے خلاف نہیں نکل سکا۔ ایسا نہیں ہے کہ ہماری فوج میں کبھی باغیانہ رجحانات رکھنے والے افسران آ ہی نہیں سکے۔ کئی آئے اور ایسے خواب دیکھے لیکن آئی ایس آئی اور ملٹری انٹیلی جنس جتنی گہری نظر اپنے دشمن پر رکھتی ہیں اتنی ہی گہری نظر اپنے گھر پر بھی رکھتی ہیں۔ اور اسی لئے آئی ایس آئی سے جتنا خود ہمارے فوجی افسران ڈرتے ہیں اس کا عشرِ عشیر بھی کوئی سویلین پاکستانی نہ ڈرتا ہوگا۔ بریگیڈئر یوسف نے 1994ء میں شائع ہونے والی اپنی کتاب “شکستِ روس” میں لکھا ہے کہ جب میری آئی ایس آئی میں پوسٹنگ ہوئی تو میرے تمام دوست فوجی افسران نے مجھ سے فاصلہ کرلیا۔ اس فاصلے کی وجہ یہی خوف تھا۔ میرا یہ خیال تھا کہ عالم اسلام میں اگر کسی فوج کا ڈسپلن اور اس کا اندرونی سسٹم ہماری فوج سے بھی بہتر ہو سکتا ہے وہ ترک فوج ہوگی لیکن کل شب والی بغاوت نے اس خیال کو غلط ثابت کردیا۔ فوج تو فوج ترکی کا انٹیلی جنس سسٹم بھی مکمل ناکامی سے دوچار ہو کر بری طرح ایکسپوز ہو گیا ہے۔
    ہماری فوج کی چین آف کمانڈ سے تو آج تک بغاوت نہیں ہوسکی لیکن ہماری فوج کی پوری چین آف کمانڈ چار بار سول حکومتوں سے بغاوت کرکے آئین شکنی کی مرتکب ہو چکی ہے۔ اس ارتکاب کے نتیجے میں ایک بار ملک دو لخت ہوا جبکہ ایک بار فوجی حکومت کے فیصلے 50 ہزار لوگ مروا چکی اور آج اسی فوج کو ضرب عضب جیسے آپریشنز پر داد مانگنی پڑ رہی ہے جس کی نوبت کے وہ ذمہ دار بھی خود ہی ہیں۔ دیدہ دلیری دیکھئے کہ کچھ لوگ ترکی کے عوام کے ٹینکوں کے سامنے لیٹنے کو خراجِ تحسین پیش کر رہے ہیں اور اسی سانس میں کہہ رہے ہیں کہ اگر ترکی سے شہ پا کر نواز شریف نے فوج سے پنگا لیا اور فوج آ گئی تو قوم پھولوں کے ہار لے کر استقبال کرے گی۔ سوال یہ ہے کہ آپ پاکستانی قوم کی تعریف کر رہے ہیں یا اسے گالی دے رہے ہیں ؟ اگر ترک عوام کا فوجی ٹینکوں کے آگے لیٹ جانا کمال ہے تو پاکستانی عوام کا فوج کا استقبال کرنا تو پرلے درجے کی ذلالت ہو سکتا ہے۔ کیا آپ اس قوم کو ذلیل کہہ رہے ہیں ؟ دوسری بات یہ کہ آپ یہ کیوں بھول گئے کہ 2007ء کے بعد کا پاکستان اس قدر بدل چکا اور عوامی شعور اتنی ترقی کر گیا کہ اب زرداری جیسا کرپٹ بندہ بھی پانچ سال حکومت کر جاتا ہے لیکن فوج میں بغاوت کی ہمت نہیں ہوتی۔ جانتے ہیں ایسا کیوں ہے ؟ اس لئے کہ یہ قوم پچھواڑے پر لات مار کر مشرف جیسے بزدل کمانڈو کو باہر پھینک چکی۔ وہ کمانڈو جو وردی میں اپنی ہی قوم کو مکے دکھاتا تھا لیکن جب وردی اتر گئی تو ہر بار عدالتی ثمن دیکھتے ہی ہسپتال میں جا کر لیٹ جاتا۔ ہماری ایس ایس جی جیسی قابل فخر فورس کو جتنا اس جعلی کمانڈو نے بدنام کیا اتنا تو کسی پولیس افسر نے پولیس فورس کو نہیں کیا۔ الطاف جیسے غنڈے سے 12 مئی کا قتل عام کسی سویلین وزیر اعظم نے نہیں بلکہ اسی چاچا کمانڈو نے کروایا تھا۔ اکبر بگٹی جیسے سابق وزیر دفاع کو بھی اسی نے مروایا تھا لال مسجد میں بچیوں کو فاسفورس بموں سے اسی نے بھونا تھا اور آپ کہتے ہیں کہ اگر اگلی بار بھی فوج آئی تو عوام پھولوں کے ہار لے کر استقبال کرینگے ؟ کتنے خوش فہم ہیں آپ۔ ایک سپاہی سلیوٹ کئے بغیر گزر جائے تو آپ ڈسپلن کے نام پر اس کا جینا حرام کر دیتے ہیں جبکہ آئین جیسے سب سے بڑے قومی ڈسپلن کے پرخچے اڑانے پر اتنا فخر کہ پھولوں کے ہار کے مستحق ٹھرے ؟ ؟ ؟