کسی کو جہاد کشمیر کی موجودہ تیزی کا کریڈٹ لینے کی ضرورت نہیں
کسی کا حق نہیں بنتا کہ وہ اب شام غریباں منعقد کرے ، الفاظ کی جھاگ اڑائے اور لفاظی سے کشمیر فتح کرنے کی کوشش کرے
کسی سپہ سالار کو حق نہیں کہ وہ اب جھوٹے منہ رسما رواجا حق خود ارادیت کی بات کرے
کسی مولانا کو حق نہیں کہ وہ کشمیر کی بیوہ بہنوں اور بیٹیوں کے دوپٹے بیچ کر حاصل کیے گئے کروڑوں روپے کے فنڈز پر اجلاس منعقد کرے اور سیاست فروشی کے الزامات کا ٹی وی پر بیٹھ کر دفاع کرے
کسی ضمیر فروش سو کالڈ رائٹسٹ صحافی کو حق نہیں پہنچتا کہ وہ اب کشمیر ایشو کو اپنی منہ کی فائرنگ کا موضوع بنائے اور ان ظالموں کے دفاع میں بولے جو دہائیوں سے کشمیر کی تھالی میں کھا کر اسی میں چھید کر رہے ہیں
کسی سو کالڈ پاکستانی جہادی گروہ کو کریڈٹ لینے اور اب غائبانہ جنازے پڑھنے کی ضرورت نہیں کہ جب آپ مقتدر طاقتوں کی بی ٹیم بن کر انہیں "سستی لیبر" فراہم کر رہے ہیں اور جانتے ہیں کہ ان کے پاس کشمیر کے لیے کوئی سنجیدہ، مستقل، مربوط اور نتیجہ خیز پلان نہیں، پھر بھی ان کے لیے بندے مروا رہے ہیں
کسی ٹی وی چینل کا حق نہیں کہ وہ اب کشمیر کمیٹی پر سوال اٹھائے اور مزے لے لے کر ریٹنگ بڑھائے. کیا یہ کمیٹی آج بنی ہے؟ کیا اس کا بجٹ آج طے ہوا ہے ؟ تم پہلے کس ہاتھی کے کان میں سو رہے تھے کہ اب پھپھے کٹنیوں کی طرح آ کر کشمیریوں کے ہمدرد بن گئے ہو
اور ہاں کسی پاکستانی قوم نامی ہجوم کا یہ حق نہیں کہ وہ اب کوئی ہمدردی جتائے
یہ سب لوگ اب یہاں اور وہاں یوم حساب کا انتظار کریں جب کمزور پا کر دبا لیے گئے کشمیریوں کا رب ان سب کے پردے چاک کر کے انھیں کٹہرے میں کھڑا کرے گا
جب ان کے کھیت پانی بند ہو جانے سے بے آباد اور ویران ہو جائیں گے
جب انہیں پانی کے قطروں کے لیے جنگیں لڑنی پڑیں گی
اور ہاں اس کا سارا کریڈٹ اور اس صورتحال پر عزت و تکریم کا سارا حق میرے پیارے وانی کو جاتا ہے جو ان سب جاہلوں میں سے ایک دانا نکلا، اس نے آپنے اپ کو پہچانا اور موت کے بعد کی زندگی کے لیے یہ زندگی انویسٹ کر کے امام حسین رضی اللہ عنہ کے قدموں میں اپنے رستے ہوئے زخم لے کر جا پہنچا
اس کا سارا کریڈٹ میرے بوڑھے جانباز سید علی گیلانی کو جاتا ہے جس کے لیے کشمیر سال کے ہر موسم کا مسئلہ ہے، بہار ہو کہ خزاں وہ ہر لمحے کشمیر یوں کا اول و آخر اتحادی ہے اور اس کے بوڑھے کندھے شاید بنے ہی جوان لاشے اٹھانے کے لیے ہیں
اس کا سارا کریڈٹ میرے صلاح الدین کو جاتا ہے جس نے زندگی کی ساری رنگینیاں اور رعنائیاں کشمیر کی مانگ سجانے کے لیے وقف کر دیں. جو اپنوں اور پرائیوں کے زخم سہتا ہے اور بس لگا رہتا ہے. مایوسیوں اور نا امیدیوں کے کانٹوں بھرے جنگلوں سے امید کے پھول چنتا ہے اور اپنے بچوں کے سپرد کر کے انھیں جدو جہد کے میدانوں میں اتار دیتا ہے. نہ تھکتا ہے، نہ رکتا ہے، نہ بکتا ہے، نہ جھکتا ہے
آہ
اس ملک کی کشمیر پالیسی یہ ہے کہ اس کی کوئی پالیسی ہی نہیں
مجھ سے امیر شہر کا ہوگا نہ احترام
میری زباں کے واسطے تالے خرید لو
تبصرہ لکھیے