اردگان کیسے تیار ہوتے ہیں ؟ انھیں کون سی مائیں جنم دیتی ہیں؟
یہ ننھا بچہ ایک کوسٹ گارڈ کا بیٹا تھا، استنبول تعلیم حاصل کرنے پہنچا تھا، شہر کی سڑکوں پر غبارے بیچتا تھا
ٹیلنٹ کی تلاش میں سرگرداں رہنے اور دعوت کے فروغ کے نئے راستے ڈھونڈنے والے تحریکیوں کی نظر پڑی تو انھوں نے اس ہیرے کو اپنے اندر سمیٹ لیا، اسے پڑھایا، اپنی طلبہ تنظیم کا لیڈر بنایا، اپنے یوتھ ہاسٹل میں رکھا، بڑا ہوا تو استاد اربکان نے استنبول کے مئیر کا الیکشن لڑا دیا
فوکسڈ اور جرات مند اردگان نے صرف دو وعدے کیے اور اگلے الیکشن سے پہلے پورے کر دیے۔ اب کیا تھا؟ اگلا انتخاب 26 شہروں میں کامیابی کے جھنڈے گاڑ گیا
اردگان اپنے استاد محترم اپنے قائد اربکان سے چمٹا رہا اور جد و جہد کے ہر میدان میں پہلی صف میں نظر آیا
پھر اسے لگا استاد کا زمانہ گزر گیا، استاد نئے تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں ہو سکتا، اس نے استاد کے بجائے اللہ سے وفاداری کا فیصلہ کیا اور احترام سے اجازت چاہی
اب اردگان نے ہر شخص تک پہنچنے کا فیصلہ کیا
ہر شرابی
ہر زانی
ہر سکرٹ پہنی لڑکی تک
ننگے ساحلوں تک اور سینما ہالوں تک
اس نے بس ایک بات کہی
تم کون ہو؟ کیا کرتے ہو؟ مجھے اس سے غرض نہیں
تعلیم چاہیے؟
روزگار چاہیے؟
صحت کی فری سہولتیں چاہییں؟
امن اور ترقی؟
عزت نفس اور دنیا میں وقار؟
بس مجھے ووٹ دو، یہ میرا کرپشن فری اور شاندار خدمت کا ماضی ہے
لوگوں نے ڈرتے ڈرتے اعتماد کیا
اور پھر کرتے چلے گئے
پہلے متعارف ہوئے
پھر مانوس ہوئے
اور پھر ایسے مالوف کہ
اس کی محبت میں ٹینکوں کے سامنے لیٹ گئے
اردگان نے وعدے پورے کیے اور ہر بار اپنا ہی ووٹ لینے کا سابقہ ریکارڈ توڑتا کشتوں کے پشتے لگاتا جھنڈے گاڑتا آگے بڑھتا گیا
اس نے سارے محاذ ایک ساتھ نہیں کھولے، اس نے کہا کون کیا کرتا ہے مجھے غرض نہیں، میں یہ دوں گا میرا وعدہ ہے
پھر طاقت حاصل کر لینے بعد اس نے عدلیہ سے نمٹا
فوج کو کھڈے لائن لگایا اور آج کل میڈیا کھڑا کر رہا ہے۔۔۔
ماڈل سامنے ہے
پیش کر غافل عمل اگر کوئی دفتر میں ہے؟
Blog
-
اردگان کیسے تیار ہوتے ہیں؟ زبیر منصوری
-
قندیل بلوچ کے قتل کا ذمہ دار کون ؟ فیض اللہ خان
قندیل کا نام آتے ہی ہمارے چہروں پہ طنزیہ مسکراھٹ اور لبوں پہ کڑوے کسیلے جملے آپوں آپ جگہ بنا لیتے تھے. اس کی حرکتوں سے کسی معقول آدمی کو دلچسپی نہیں تھی لیکن کیا کیجیے کہ ہر شریف آدمی اس کی ویڈیوز و تصاویر سے استفادہ ضرور کر رہا تھا.
قندیل کے معاملے کو میں نے ہمیشہ مختلف تناظر میں دیکھا. پسماندہ علاقے سے تعلق رکھنے والی قندیل کی الگ ہی نفسیاتی الجھنیں تھیں. راویتی مرادنہ معاشرہ، غربت اور اس کی نہ پوری ہونے والی خواہشوں نے فوزیہ کو قندیل بلوچ میں تبدیل کیا اور یوں لطف، طنز و استہزاء، شیطنت اور غیرت کے اس سفر کا آغاز ہوا جس کا انجام کم از کم مجھے دکھی کرگیا.
قندیل شہرت و دولت کی بھوکی تھی، کم و بیش ہر انسان ہی ایسا ہوتا ہے البتہ اس کے لیے جو راستہ اس نے اختیار کیا، اس کا اختتام زیادہ اچھا نہیں ہوتا. یورپ و امریکا میں درجنوں قندیلیں پائی جاتی ہیں لیکن وہاں کے معاشرے میں یہ سب معمول جیسی بات ہے البتہ ہمارے یہاں اس سے دھماکہ ہی ہونا تھا جو بالاخر ہو کر رہامیں قندیل کے بھائی سے زیادہ سماج و میڈیا کو اس قتل کا ذمہ دار سمجھتا ہوں جن کی اکثریت اس سے لطف اندوز ہوتی رہی، اور آخر میں اس کے ساتھ ویسا ہی سلوک ہوا جیسا ایس ایس پی رائو انوار جعلی مقابلوں میں نوجوانوں کے ساتھ کیا کرتا ہے. ریٹنگ و مزے لیتے میڈیا اور معاشرے میں کسی کو توفیق نہ ہوئی کہ اس کی اصلاح کرتے، سید ھا راستہ دکھاتے. ہاں اب اس کی ھہاکت کے بعد غیرت ضرور جاگ گئی کہ اچھا ہوا اس کا انجام یہی ہونا چاہیے تھا. قندیل کو قندیل ہم نے بنایا، اسے استعمال کیا، کہیں مفتی قوی کے تماشے تھے کہیں سہیل وڑائچ کے، کبھی عمران کی شادی پہ اسے میڈیا والے براہ راست لیتے تو کبھی ٹاک شوز کی زینت بنتی اور ان سب سے بچ جاتی تو سوشل میڈیا پہ ہم جیسے اس کی تصاویر و ویڈیوز ادھر ادھر کرکے وقت گزارا کرتے بھلا اس کے خدو خال و حرکتوں سے زیادہ مزیدار تبصرے اور کس چیز میں تھے ؟؟
افسوس کہ جنوبی پنجاب کی فوزیہ کو مولانا طارق جمیل جیسا واعظ بھی نہ مل سکا جو اسے کسی ذاتی مقصد کے بغیر سمجھانے کی کوشش کرتا. قندیل سے دوبارہ فوزیہ بناتا، اس کے جائز مقام پہ پہنچاتا، اس کی آخری ہیجان انگیز ویڈیو کے بعد معاملات سنگین ہی تھے، اسے تو اندازہ ہی نہ تھا کہ وہ جس آگ سے کھیلنے جارہی ہے، ایک دن اس کی لپیٹ میں آکر رھے گی.
مجھے اس کی حرکتیں کبھی پسند نہیں تھیں لیکن مان لیجیے کہ یہ ہم جیسے ہی تھے جو اسے موضوع بحث بنا کر رکھتے اور یہی قندیل کا مقصد تھا جسے ہمارا سماج اور ہم مل کر پورا کر رھے تھے. قندیل اپنے روایتی معاشرے کے خلاف ایک بغاوت تھی جس نے ردعمل میں ایسا راستہ اختیار کیا کہ اس کے نتیجے میں خود ہی کو برباد کر ڈالا. ایسی عورت جسے علاج و توجہ کی ضرورت تھی اسے ہم نے تیزی سے فوخت ہونے والا کیک بنا ڈالا.
وقت ابھی بھی ہاتھ سے نہیں نکلا ہمارے اردگرد بہت سی قندیلیں موجود ہیں جنھیں ایسے معالجوں اور اصلاح کرنے والوں کی ضرورت ہے جو انھیں مسائل کے گرداب سے نکال سکیں اور حرص و ہوس کی دنیا سے بچا کر پاکیزہ ماحول کا حصہ بنائیں. اس سے پہلے بہت زیادہ ضروری ہوگا کہ ہم اپنے اندر چھپی غلاظت کی صفائی کریں تاکہ کل کو کوئی دوسری قندیل اس انجام تک نہ پہنچے اور اپنی زندگی جی لے. کتنے افسوس کی بات ہے نا کہ ایک مچھلی سارے تالاب کو خراب کردیتی ہے ، لیکن تالاب کی ساری مچھلیاں مل کر اسے سیدھا نہیں کرسکتیں؟
-
ترکی بغاوت – ملکی اور بین الاقوامی میڈیا کا مکروہ چہرہ – کرم الہی گوندل
ایہہ کی ہو گیا جی۔۔۔ کمال نہیں ہو گیا ۔۔۔۔ تین گھنٹے کے اندر بغاوت کی کہانی اختتام کو پہنچی ۔۔۔۔
اس کو کہتے ہیں عوامی طاقت
ہیں جی
اردگان نے تو ایک کال دی اور لاکھوں لوگ گھروں سے نکل آئے ۔۔۔۔ ایسی کال بھٹو سے لے کر نواز شریف تک، پاکستانی منتخب وزرائے اعظم کیوں نہ دے سکے ۔۔۔ اور اگر وہ کال دیتے تو کیا عوام سڑکوں پر نکلتے، ٹینکوں کا راستہ روکتے۔۔۔۔ یا آئندہ ایسی کسی کال پر کان دھریں گے؟؟
ہے ناں سوال ملین ڈالر کا!!!
لیکن میرے ذہن میں اس سوال سے ہٹ کر بہت کچھ چل رہا ہے۔
اپنی عادت سے مجبور سونے سے قبل ٹویٹس دیکھ رہا تھا کہ اچانک ترکی میں فوجی بغاوت کی کوشش کی خبر آئی
ٹی آر ٹی ہیڈکوارٹر پر قبضہ اور اس کے بعد مارشل لاء کا اعلان
اور اس کے ساتھ ہی میڈیا اور لبرلز کے کمالات سامنے آنا شروع ہو گئے
بی بی سی، سی این این ، فوکس، اے بی سی جیسے ادارے ایسے انداز میں کوریج کر رہے تھے جیسے اردگان کا دھڑن تختہ ہو چکا، اور فوج کو تو اردگان کی قابل بیان اور ناقابل بیان برائیوں، گناہوں اور جرائم و مظالم کی وجہ سے اقتدار سنبھالنا ہی تھا.
سارا ویسٹرن میڈیا ایسے منظر کشی کر رہا تھا جیسے پہلے سے فوجی بغاوت کو خوش آمدید کہنے کے لیے تیار بیٹھا تھا
اور کیا کہنے ایدھی کی قبر میں رپورٹر کو لٹا کر صحافت کی معراج قائم کرنے والوں کے۔۔۔ انھوں نے ترک وزیر اعظم بن علی یلدرم کو فوری سابق وزیراعظم قرار دے دیا. یہ سوچے بنا کہ ابھی بن علی یلدرم سمیت کسی بھی ترک رہنما یا آزاد میڈیا نے تختہ الٹنے کی تصدیق نہیں کی، اور نہ ہی کسی ایک یا دو مقامات پر قبضہ کرنے سے مستحکم حکومتیں ختم ہوا کرتی ہیں.
کچھ مفکرین کرام ترک صدر کے بارے میں قیاس آرائیاں کرنے لگے کہ وہ کہاں غائب اور چپ ہیں. میں نے چیک کیا تو اردغان ٹوئٹر پر سرگرم تھے. کچھ ہی دیر میں وہ فیس ٹائم پر بھی نظر آ گئے، اور ترک عوام سے سڑکوں پر نکلنے کی کال دی.
اور لوگ تو بس اپنے لیڈر کی ایک کال کے منتظر تھے، مساجد سے بھی اعلانات شروع ہو گئے، سڑکوں پر گاڑیوں اور لوگوں کا اژدھام لگ گیا. کوئی ٹینک کا راستہ روک رہا ہے، کوئی ٹینک پر قبضہ کر رہا ہے تو کسی کا رخ ایئرپورٹ کی طرف ہے تاکہ وہاں سے فوجیوں کو بھگا سکے.
ایک تو یہ منظر تھا،،،،، اب ذرا دوسری طرف بھی نظر دوڑاتے ہیں.
ویسٹرن میڈیا یہ بتا رہا تھا کہ اردگان نے جرمنی میں پناہ کی درخواست کی ہے جو رد کر دی گئی ہے، اب ان کا طیارہ لندن کی طرف بڑھ رہا ہے، نہیں نہیں، وہ ایران جا رہا ہے، وہاں پناہ لیں گے .. اور تو اور .. طیارے کا روٹ اور میپ بھی دکھایا جانے لگا.
اور جو لوگ باغی فوجیوں کے خلاف سڑکوں پرنکلے، ان کی لائیو فیڈ میں خود دیکھ رہا تھا، اللہ اکبر کے نعرے سن رہا تھا، لیکن ویسٹرن میڈیا کافی دیر تک یہی بتانے میں لگا رہا کہ یہ لوگ بغاوت کے حق میں نکلے ہیں اور خوشی سے نعرے لگا رہے ہیں
اللہ بخشے ہمارے کچھ جید صحافیوں اور لبرلز کو،،،، اردگان کے اسلام پسند رجحانات کے بغض میں، سب وہی رخ دکھانے لگے جو ترک عوام اور جموریت پسندوں کے خلاف تھا.
ایک منتخب جمہوری حکومت کے خلاف بغاوت کو انقلاب کا نام دیا جانے لگا، لوگوں کے احتجاج کو بغاوت کے حق میں خوشی کا اظہار بنا دیا گیا.
تقسیم سکوائر سے لے کر فاسفورس پل تک،،،،،، ترک عوام لڑ رہے تھے، اور ہمارے نام نہاد صائب الرائے، صاحب نظر الٹی گنگا بہا رہے تھے .. شاید یہ سوچ کر کہ کسی بھی طرح اردغان کا اسلام پسند چہرہ منظر سے ہٹ جائے.
پاکستان میں فوج کو گالی، ترک باغی فوجیوں کے حامی … واہ رے لبرلز … کتنے چہرے ہیں تم لوگوں کے
ترکی کو مصر سے ملایا جانے لگا، اردگان کا مرسی سے تقابلی جائزہ شروع ہو گیا … اردغان کے جرائم کی طویل فہرست میں نیا جرم شامل کر لیا گیا کہ اس نے فوج کے خلاف عوام کو بغاوت پر اکسانے کے لیے مذہب کا سہارا لیا یعنی مساجد سے اعلانات کرائے
ترکی مصر نہیں نہ اردگان مرسی ہیں … اخوان کا ایک سال کا اقتدار جسٹس پارٹی کے دس سالہ اقتدار سے کوئی مماثلت نہیں رکھتا
اور پھر ترکی میں اگر بغاوت کچھ دن کے لیے بھی کامیاب ہو جائے تو ایسی تباہی پھیلے گی کہ شام جیسی بربادی دیکھنے کو ملے گی
مصر کی طرح چند ہزار مسلمانوں کو شہید کر کے مصنوعی امن قائم کرنے کا اعادہ ترکی میں نہیں ہو سکتا
حرف آخر
اوریگون سے تعلق رکھنے والی امریکی صحافی سبل ایڈمنڈز نے چھ ماہ قبل انکشاف کر دیا تھا کہ سی آئی اے اور ناٹو کی طرف سے اردگان کے خلاف بغاوت کرانے کی کوشش ہو سکتی ہے
آخر امریکہ صاحب بہادر فتح اللہ گولن کو ترکی کے حوالے کیوں نہیں کرتا .. ترکی کے مطالبے کے باوجود اس کو کیوں پینسلوینیا میں پناہ اور تحفظ فراہم کر رکھا ہے -
پانچ سال والا یا تین سال والا، صحیح راستہ کیا ہے؟ ڈاکٹر عاصم اللہ بخش
ان دنوں پاکستاں میں معاملات بظاہر معمول کے مطابق دکھائی دینے کے باوجود سینہ گزٹ کی خبروں ، پیشگوئیوں اور کسی بڑے ارتعاش کے دعووں سے لبا لب ہیں۔ کوئی آرہا ہے کوئی جا رہا ہے ، کوئی بیان جاری فرما رہا ہے اور کوئی بالکل خاموش ۔۔۔۔ اس سب گہما گہمی کے پیچھے دو ممکنہ مقاصد نظر آتے ہیں۔ :
1۔ پانچ سال والے کو تین سال پر ہی سمیٹ دینا
اور
2۔ تین سال والے کو چار یا چھ سال تک لے جانا۔پاکستانی سیاست کے ایک ادنی طالب علم کی حیثیت سے میری یہ رائے ہے کہ اگر یہ دونوں کام ہو بھی جائیں تو ان کا فائدہ اتنا نہیں کہ اس کے لیے ملک کو بے یقینی اور انتشار کی دلدل سے دو چار کیا جائے، وہ بھی ان حالات میں۔ اگر قرآن سے مثال مستعار لیں، تو ان کا نقصان ان کے فائدے سے بڑا ہے۔
کیسے ۔۔۔۔
اگر پانچ سال والے کو رخصت کر بھی دیا جائے تو موجود “مال” میں سے ہی کوئی آگے آئے گا یا لایا جائے گا۔ یہ سب کہیں نا کہیں حکومت میں ہیں اور “دیکھے بھالے” ہیں۔ کسی کی پرفارمنس بھی ایسی نہیں کہ “آؤٹ آف ٹرن پروموشن” کا حقدار ٹھیرایا جا سکے۔ گمان ہے کہ بمشکل 19/20 کے فرق کے ساتھ ویسا ہی سب رہے گا۔ واحد بڑی تبدیلی صرف شخصیت کے نام کی ہوگی لیکن اس کی خاطر ملک کا آئین اور اس پر عمل کا تسلسل ، دونوں ہی داؤ پر لگ جائیں گے۔ اتنے سے فرق کے لیے یہ بہت بھاری قیمت ہوگی۔
دوسری جانب ، تین سال والے کو چار یا چھ سال کا اس لیے کچھ خاص فائدہ ہونے کا امکان کم ہے کہ جس ادارے سے ان کا تعلق ہے اس میں سیلیکشن، ٹریننگ اور پروموشن کے ایسے کڑے معیار قائم ہیں ہیں کہ امید یہی کی جاتی ہے کہ ان کی جگہ لینے والے 19/20 کے فرق کے ساتھ لگ بھگ ویسے ہی ہوں گے اور واحد بڑی تبدیلی جو محسوس ہو وہ شاید شخصیت کے نام ہی کی ہو۔ اتنے فرق کے لیے ایک ڈسپلنڈ ادارے کے ڈسپلن کا امتحان لینا یا اس میں کسی درجہ کی بھی بد دلی کا موجب اقدام مناسب معلوم نہیں ہوتا۔دست بستہ گزارش ۔۔۔۔
1۔ پانچ سال والے سے :
اگر آپ شیر ہیں تو یہ بھی جانتے ہوں گے کہ شیر کی جس خاصیت کی وجہ سے اشرف المخلوقات خوشی خوشی ایک حیوان بن جانے پر راضی ہو جاتے ہیں وہ اس کا کچھار میں چھپ کر بیٹھ رہنا نہیں ہوتا۔ یہ وقت لیڈر بننے کا ہے، محض منصب دار رہنے کا نہیں۔ اسلام آباد پہنچیں اور ملک کی کمان سنبھالیں۔
دوم یہ کہ صرف سیاستدان بنے رہنے سے بھی گزارہ نہیں ہوگا۔ یہ وقت ایک مدبر، ایک اسٹیٹس مین بننے کا ہے۔ آپ کو ملکی معاملات دستور کی روشنی میں اور دستوری اداروں کے ساتھ مل کر چلانے ہیں۔ یہ نہیں کہ آپ اپنے ہی اداروں کو “سیدھا” کرنے کی فکر میں رہیں۔ ہر ٹیم کا شعیب اختر منہ زور بھی ہوتا ہے لیکن اچھا کپتان اس کے ساتھ چلتا ہے ، اسے اپنے ساتھ چلاتا ہے اور اسے ٹیم کے بہترین مفاد کے لیے بروئے کار بھی لاتا ہے۔ یہ حکمت، صبر اور وسعت قلبی کا میدان ہے۔ ماضی کی تلخی بھلائیں گے نہیں تو وہ آج بھی کڑواہٹ کا باعث ہی ہو گی۔ پاکستان کے Core Interests کو سمجھیے اور یہ بھی کہ ان کے سلسلہ میں متعلقہ بیوروکریسی اور سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ کی تجاویز کلیدی کردار رکھتی ہیں کیونکہ وہ ریاست کی نمائندگی کرتی ہیں۔ آپ کو یہ زیب نہیں دیتا کہ اپنے اداروں کے ساتھ کھڑے نظر آنے کے بجائے پاکستان کے حریفوں سے تعلقات بنانے کی فکر میں غلطاں نظر آئیں۔ ہو سکتا ہے یہ محض ایک تاثر ہو ۔ لیکن میڈیا کی اس دنیا میں تاثر حقیقت سے بھی زیادہ مضمرات کا حامل رہتا ہے۔
سوم ، دنیا میں اور ہمارے پڑوس میں بہت اہم تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں جن کی رفتار غیرمعمولی ہے۔ حکومت اور اس کے معاون اداروں کو تبدیلیوں کی رفتار سے زیادہ سرعت سے ان کے عواقب کا اندازہ لگانا ہو گا ۔ اسی طرح ہم اپنے رد عمل کو متعلق رکھ سکیں گے۔ اس کے لیے میکانزم بھی وقت کی اہم ضرورت ہے۔ یہ کام اتنا اہم ہے کہ ملک کے مستقبل کا قریباً مکمل انحصار اسی پر ہے۔
کچھار سے نکلیے اور سب سے پہلے خود کو “سیدھا” کیجیے۔2۔ تین سال والے سے ۔۔۔۔
کسی سے پوچھا کہ کسی کی عظمت کا فیصلہ اس کے منظر عام سے ہٹنے سے پہلے کیوں صادر نہیں کیا جاتا۔ فرمایا ۔۔۔۔ اس لیے کہ انسان ہے ، جاتے جاتے کچھ ایسا ویسا نہ کر جائے۔
دو راستے سامنے ہیں ایک جنرل مک آرتھر اور منٹگمری والا اور دوسرا ایک سابق چیف جسٹس صاحب کا، جنہیں ایک طویل عرصہ کام کرنے کا موقع ملا لیکن ایک ادنی سی ذاتی آزمائش کے سامنے ڈھیر ہو گئے ۔۔۔ ذاتی اور ادارے کی نیک نامی کو اس کی بھینٹ چڑھا دیا۔فیصلہ اب آپ کے ہاتھ میں ہے
-
داعش کے قصائی – رعایت اللہ فاروقی
گزشتہ شب فیس بک پر عبد الجبار ناصر صاحب نے اپنی وال پر یہ خبر بریک کی کہ ترکی میں فوجی بغاوت ہوگئی ہے۔ یہ پڑھتے ہی میں بے اختیار ٹی وی لاؤنچ کی جانب لپکا اور نیوز دیکھیں تو میری پریشانی کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا۔ میری سانس میرے گلے میں ہی اٹک کر رہ گئی۔ کیونکہ یہ محض رجب طیب اردگان کے اقتدار کا مسئلہ نہ تھا بلکہ میری نظر میں یہ اس سے کہیں بڑھ کر سنگین صورتحال تھی۔ اگر یہ بغاوت کامیاب ہوجاتی تو مجھ سے میری وہ زبان ہی چھن جاتی جس سے میں اسلامسٹ نوجوانوں کو جمہوریت پر یقین رکھنے کی تلقین کرتا ہوں۔ جس سے میں دلائل دے دے کر انہیں یقین دلاتا ہوں کہ پر امن سیاسی جد و جہد کے راستے جمہوریت ہی کے ذریعے نفاذ اسلام کا خواب شرمندہ تعبیر کرنا ممکن ہے۔
بڑی مشکل سے یہ کہہ کہہ کر انہیں مرسی کے اقتدار پر پڑنے والا شب خون بھلایا تھا کہ غلطی مرسی کی تھی۔ اس نے رفتار بھی تیز رکھی اور عوام کو ثمرات منتقل کرنے کے بجائے پنگے بازیوں کو ترجیح بنایا۔ اب ترکی میں ایک ایسی حکومت کے خاتمے کے لیے تو جواز بھی نہیں گھڑا جا سکتا تھا جس نے پہلے عوام کو ڈیلیور کیا اور اس کے بعد اصلاحات کے ایجنڈے پر کام شروع کیا۔ ایک ایسی حکومت جس کی کار کردگی کا مقابلہ خود مصطفیٰ کمال اتاترک کا اقتدار بھی نہیں کرسکتا، اس کا خاتمہ پورے عالم اسلام کے ہر اسلامسٹ کا یہ عقیدہ بنا ڈالتا کہ پر امن سیاسی جد وجہد کے ذریعے جمہوری راستے سے ان کی فکر کا نفاذ ممکن ہی نہیں لہٰذا درست راہ وہی ہے جو داعش نے اختیار کی ہے۔ بارود کا ہر ذرہ جوڑ کر پورے مغرب کو راکھ ڈھیر بنا دینا چاہیے اور اس کے بعد عالم اسلام کے ہر بادشاہ اور جمہوری سربراہ کو ذبح کرکے اپنا نظام نافذ کرنا چاہیے۔
میں آپ کو بتا نہیں سکتا کہ اس گزری رات میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے عالم اسلام کو کتنی بڑی تباہی سے بچایا ہے۔ اگر یہ بغاوت کامیاب ہوجاتی تو آپ اب تک شام اور بغداد تک محدود داعش کو عالم اسلام کی گلی گلی میں موجود پاتے اور پوری دنیا مل کر بھی ان لاکھوں داعش ورکرز کو کنٹرول نہ کرپاتی۔ یہ کسی عالمی جنگ سے بھی زیادہ ہولناک منظر ہوتا۔ میری دوستوں سے درخواست ہے کہ وہ لازماً دو رکعت شکرانے کے نفل پڑھیں۔ اس لیے نہیں کہ رجب طیب اردگان کی حکومت بچ گئی بلکہ اس لیے کہ پورا عالم اسلام ایک بڑی تباہ کن صورتحال سے بچ گیا۔ ہمارے بچے داعش کے قصائی بننے سے بچ گئے !
-
تعلیم اور اکبر اِلٰہ آبادی… جابر القادری
اکبر حسین اکبر الہ آبادی کے والد کا نام تفضّل حسین تھا۔ ان کا سادات کے متوسط گھرانے سے تعلق تھا۔ ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار کے مطابق ۱۸۴۵ء کو ضلع الہ آباد کے ایک قصبے ’’بارہ‘‘ میں اکبر حسین نے جنم لیا۔
اکبر حسین کے والد علم ریاضی میں مہارت رکھتے تھے۔ اکبر نے والد سے علم ریاضی کی تمام بنیادی چیزیں سیکھ لیں۔ اکبر کو الہ آباد کے مشن اسکول میں داخل کرادیا گیا۔وہ ہنگاموں اور جنگ آزادی کی وجہ سے کچھ زیادہ نہ پڑھ نہ سکے۔ بس چار پانچ سال تک اسکولوں میں پڑھتے رہے لیکن ذاتی مطالعہ تادم حیات جاری رکھا اور اپنے مطالعے کو اتنی وسعت دی کہ بقول سید عشرت حسین:
حضرت قبلہ نے مسلسل مطالعے سے کتنی قابلیت بڑھائی اس کا اندازہ عربی، فارسی اور انگریزی کی ان کتابوں سے ہوسکتا ہے جو حضرت قبلہ کے کتب خانے میں موجود ہیں۔ اسکول سے الگ ہوکر کلکتہ یونیورسٹی کی انٹرنس تک کی انگریزی کتابیں پرھیں۔ سائنس، جغرافیہ اور تاریخ کی طرف بھی توجہ کی‘ بنیادوں پڑی‘ پھر ضرورت اور رغبت کے مطابق رو زبروز علم میں ترقی ہوتی گئی۔
شاعری کا آغاز:
شاعری کا شوق اکبرکو بچپن ہی سے تھا۔ چنانچہ ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار کے مطابق اکبر نے گیارہ سال کی عمر میں شاعری شروع کردی۔ اگرچہ اکبرکی ابتدائی غزلیں ایسی تھیں جن پر داد اور مسابقت پانے کا رجحان زیادہ نظر آتا تھا لیکن بعد کی شاعری میں انھوں نے معاشرتی مطالعے، تجربے اور حالات سب کو تجزیاتی نگاہ سے دیکھتے ہوئے قومی و سیاسی علامتیں شامل کرلیں اور ان کا ہم و غم اصلاحِ معاشرہ ٹھہرا۔ بیسویں صدی کے ابتدائی سالوں میں ہندوستانی معاشرے پر انگریزی تہذیب و معاشرت کے اثرات زیادہ گہرے طور پر پڑنے لگے جو کہ اکبر پر شاق گزرتے تھے۔ چنانچہ انھوں نے طنزیہ شاعری اور ظرافت کا سہارا لے کر ہندوستانی مسلمانوں کو اپنی تہذیب، رہن سہن، نظریات اور تمدن کو اپنانے اور احساس کمتری سے نکالنے کی کوشش کی۔
اکبر حسین کی شاعری میں سیاسی، تہذیبی، صوفیانہ اور اصلاحی اشعار نمایاں طور پر ان کے افکار و نظریات اور ان کی بصیرت کی نشاندہی کرتے ہیں۔
سید اکبر حسین کے افکار و نظریات:
اکبر اگرچہ انگریزی حکومت میں بڑے بڑے عہدوں پر فائز ہوئے اور سامراجی حکومت انہیں ہر طرح کی سہولت مہیا کرنے پر آمادہ تھی لیکن اکبر کے دل میں ہندوستانی مسلمانوں کی مجموعی عزت و وقار، درد، غلامی اور تہذیبی شکست وغیرہ کے خیال نے ایک ایسا درد اور تاثیر پیدا کی جس نے ان کی شاعری کو اپنے وقت کے مسلمانوں کی بیماری اور پریشانی کا مداوا بنایا اور ’’لسان العصر‘‘ کے لقب کا سزاوار ٹھہرایا۔ ڈاکٹر علامہ محمد اقبال اپنے ایک خطبے میں فرماتے ہیں:
جناب مولانائے اکبر الہ آبادی جنہیں موزوں طور پر لسان العصر کا خطاب دیا گیا ہے، اپنے بذلہ سنجانہ پیرایہ میں ان قوتوں کی ماہیت کے احساس کو چھپائے ہوئے ہیں جو آج کل مسلمانوں پر اپنا عمل کررہی ہیں۔ ان کے شباب آور قہقہے ان کے آنسوئوں کے پردہ دار ہیں۔
اقبال کی طرح اکبر کے دل میں بھی مسلمان قوم کا درد اور اس کی اصلاح کی فکر کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ چنانچہ اکبر حسین کے بیٹے عشرت حسین کے نام اکبر حسین کی وفات کے تعزیت نامے میں اقبال نے یہ الفاظ لکھے تھے:
اسلامی ادیبوں میں تو شاید آج تک ایسی نکتہ رس ہستی پیدا نہیں ہوئی اور مجھے یقین ہے کہ تمام ایشیا میں کسی قوم کی ادبیات کو اکبر نصیب نہیں ہوا۔ کاش اس انسان کا معنوی فیض اس بدقسمت ملک اور اس کی بدقسمت قوم کے لیے کچھ عرصہ اور جاری رہتا۔
اقبال کی طرح اکبر کے اشعار سے بھی ادب، علمِ تاریخ، علمِ سیاسیات اور علمِ عمرانیات سب کے طالب علم فیض یاب ہوسکتے ہیں۔ اکبر کے افکار و نظریات کو درج ذیل بڑے گروہوں میں تقسیم کیاجاسکتا ہے:
۱۔ سیاسی افکار
۲۔ تہذیبی افکار
۳۔ تعلیمی افکار
۴۔ صوفیانہ افکار یا مذہبی افکار
اکبر کے تعلیمی افکار:
۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی نے مسلمانوں کے خلاف انگریزوں کو اس فیصلے کی طرف بھی متوجہ کیا کہ ایسا تعلیمی نصاب بنا کر ہندوستان میں رائج کیا جائے جو مسلمانوں کو دوبارہ حکومت اور انگریزی سرکار کے خلاف سوچنے سے باز رکھے۔ اس لیے انگریزوں نے تمام ہندوستانیوں کو تعلیم دینے کی ذمہ داری بھی لی۔ اس کے پس پردہ درج ذیل اہم مقاصد تھے:
۱۔ جدید فلسفہ اور سائنسی علوم کی اتنی ترویج کریں کہ لوگ پرانی روایات خصوصاً مذہبی روایات کو نفرت کی نگاہ سے دیکھیں۔
۲۔ ہندوستان میں انگریزی طرزِ معاشرت کی تقلید پر کٹ مرنے والا ایک گروہ خود مسلمانوں کے درمیان پیدا کیا جائے۔
۳۔ انگریز حکومت کے لیے کم تنخواہ پر کام کرنے والے افراد پیدا ہوں تاکہ انگلستان سے ملازمین زیادہ تنخواہ دے کر نہ منگوانے پڑیں۔
۴۔ برطانوی تہذیب اور معاشرت کو شعوری طور پر فروغ دینے اور اس کو ترقی و خوشحالی کی علامت قرار دینے وال ایک گروہ پیدا ہو۔
ان چار بڑے مقاصد کی تکمیل کے لیے تعلیمی نصاب کو تبدیل کرکے جتنا فائدہ اٹھایاجاسکتا تھا اس کا اندازہ انگریزوں کو تھا۔ لارڈ میکالے کے اس بیان سے یہ بات اوربھی واضح ہوتی ہے۔
I feel…that it is impossible for us with our limited means to attempt to educate the body of the people. We must at present do our best to form a class who may be interpreters between us and millions whom we govern, a class of persons, Indian in blood and colour but English in tastes, in opinions, in morals and in intellect.
اکبر الہ آبادی انگریزوں کی تعلیمی پالیسی کے پس پردہ مقاصد سے بخوبی آگاہ تھے۔ اسی لیے اپنا کلام انھوں نے مسلمانوں کو ان مذموم مقاصد سے آگاہ کرنے کے لیے وسیلے کے طور پر استعمال کیا۔ مغربی پالیسی کے اثرات کو آپ نے شیخ کی زبانی یوں بیان کیا ہے:شیخ مرحوم کا قول اب مجھے یاد آتا ہے
دل بدل جائیں گے تعلیم بدل جانے سےتعلیم کے طور طریقے بدلنے سے زندگی گزارنے اور اولاد کی تربیت کے قدیم طور طریقے بھی بدل جاتے ہیں۔ رہن سہن اور خوراک بھی تبدیل ہوتی ہے جس کا اثر نئی نسلوں پر ضرور پڑتا ہے۔ اکبر کو اس بات کا بھی شدید احساس تھا:
طفل سے بُو آئے کیا، ماں باپ کے اَطوار کی
دودھ تو ڈبے کا ہے، تعلیم ہے سرکار کی!دراصل اکبر اپنے اشعار کے ذریعے انگریزوں کی نئی تعلیمی پالیسی کے اثرات اور نتائج سے آگاہ کررہے ہیں وہ کہتے ہیں کہ سامراج کی اس نئی تعلیمی پالیسی سے اپنے ماں باپ، اپنی تہذیبی و تمدنی عروج، دینی غیرت اور ہمدردی سب کو بھول جانا اور فقط یہ خواہش دل میں پیدا ہونا کہ مجھے ڈاکٹر یا ماسٹر یا انجینئر بننا ہے اور بس اس جیسی اور باتیں مسلمان نوجوانوں کے ذہنوں میں رچ جاتی ہیں۔ ایسے خیالات کو اکبر قوم اور ملت کے لیے خطرناک قرار دیتے ہیں:
ماں باپ سے، شیخ سے، اللہ سے کیا ان کو کام
ڈاکٹر جنوا گئے، تعلیم دی سرکار نے!جدید تعلیمی پالیسی کا مقصد معمولی سے دولت حاصل کرنا اور کاغذی ڈگری پاکر پنشن لینا اور پھر اسی سے زندگی گزارنے کا رجحان تیز کرنا تھا۔ اکبر اس قسم کے مقاصد پر مشتمل تعلیم کو اچھی نگاہ سے نہیں دیکھتے تھے:
تعلیم جو دی جاتی ہے ہمیں وہ کیا ہے فقط بازاری ہے
جو عقل سکھائی جاتی ہے وہ کیا ہے، فقط سرکاری ہےنیز:
پڑھ کے انگریزی میں دانا ہو گیا
’’کم‘‘ کا مطلب ہی کمانا ہو گیامغرب اور انگریزوں کی نئی تعلیمی پالیسی کا ماحصل اکبر یوں سامنے لاتے ہیں:
میں کیا کہوں احباب کیا کارِ نمایاں کر گئے
بی اے کیا، نوکر ہوئے، پنشن ملی اور مر گئےاکبر کے نزدیک سامراج کی نئی تعلیمی پالیسی میں انسان کو انسانیت اور کمال کی طرف لے جانے کا عنصر موجود نہیں کیونکہ تعلیمی نصاب مرتب کرنے والے انسان کو ابتدائی طور پر حضرت آدم کی صورت میں پانے کے بجائے ڈارون کے نظریے کے مطابق بندر کی شکل میں پانے کے قائل ہیں۔ ان کا مرتب کردہ نصاب بندر کی شکل کے انسان کے لیے تو موزوں ہوسکتا ہے لیکن آدم کی شکل میں انسان سے مناسبت یقیناً نہیں رکھتا:
نئی تعلیم کو کیا واسطہ آدمیت سے
جناب ڈارون کو حضرت آدم ؑ سے کیا نسبتاکبر کے بعض اشعار کو پڑھنے کے بعد کچھ لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ ان کا تصورِ زندگی بہت محدود، فرسودہ اور ترقی و جدیدیت سے عاری ہے۔ علاوہ ازیں انہیں سائنس اور ٹیکنالوجی کا مخالف قرار دیتے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ جدید علوم کے مخالف ہیں نہ سائنسی ترقی اور زندگی کے روشن پہلوئوں سے استفادہ کرنے کے، بلکہ وہ تو صرف یہی چاہتے ہیں کہ مسلمان جدید علوم و مہارت میںحاصل کریں، جدید ٹیکنالوجی حاصل کریں، تہذیب کو جدید تر بنائیں لیکن اپنی ثقافت، اپنی شناخت، اپنی فکری شناخت، اپنا طرزِ حیات، اپنا نظریۂ حیات بھی کسی طور پر نہ چھوڑ یں۔ مسلمان قوم کے پاس اپنا واضح اور کامل تصّورِ زندگی ہے۔ انہیں ضرورت ہی کیا ہے کہ وہ کسی غیر سے تصّورِ زندگی لیں۔ یہ تصور زندگی مسلمانوں کو ان کے روحانی پیشوا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کی شکل میں عطا کیا ہے لیکن جدید تعلیمی پالیسی میں دین اور خصوصاً اسلام کو کوئی خاص جگہ نہیں دی گئی، لہٰذا اکبر اس تعلیمی پالیسی سے اتفاق نہیں کرتے:
نئی تہذیب میں بھی مذہبی تعلیم شامل ہے
مگر یوں ہی کہ گویا مے زمزم میں داخل ہےاکبر ان تمام نصابی کتابوں کو قابل ضبط سمجھتے ہیں جن سے اخلاقی اور دینی قدریں پامال ہوتی ہوں:
ہم ایسی کل کتابیں قابلِ ضبطی سمجھتے ہیں
کہ جن کو پڑھ کے لڑکے باپ کو خبطی سمجھتے ہیںمغربی تعلیمی پالیسی کی مخالفت کرنے کے ساتھ ساتھ اکبر اپنا ایک تعلیمی تصور پیش کرتے ہیں۔ وہ ایک ایسی تعلیمی پالیسی اور تعلیمی ادارے کا قیام چاہتے ہیں جس میں علوم کے ساتھ مختلف فنون بھی سکھانے کا انتظام ہو۔ تھیوری (نظریے) کے ساتھ تجربات بھی کیے جاتے ہوں، صنعتوں کے ساتھ ساتھ حرفتیں بھی سکھائی جاتی ہوں، سائنس کے ساتھ ساتھ دین اور اخلاق بھی سکھائے جاتے ہوں، لوگوںسے سروکار اور روابط پیدا کرنے کے ساتھ خدا، رسول اور رہبرانِ دین سے بھی عقیدت کا سلیقہ سکھایا جاتا ہو، انسان کو چاند پر پہنچنے کے بعد بھی خدا کے سامنے جھکنا اور سرِتسلیم خم کرنے کا درس ملتا ہو‘ مادی اشیاء کے ساتھ معنوی اور روحانی اقدار اورروحانی ترقی کے بھی ضامن ہوں۔ اکبر کے چند اشعار اس سلسلے میں ملاحظہ کیجیے:
تعلیم وہ خوب ہے جو سکھلائے ہنر
اچھی ہے وہ تربیت جو روحانی ہےنیز ان اشعار کو ملاحظہ کرنے کے بعد ان کے تعلیمی نظریات بڑی حد تک آسانی سے سمجھے جاسکتے ہیں:
وہ باتیں جن سے قومیں ہورہی ہیں نامور سیکھو
اٹھو تہذیب سیکھو، صنعتیں سیکھو، ہنر سیکھو
بڑھائو تجربے، اطرافِ دنیا میں سفر سیکھو
خواصِ خشک و تر سیکھو، علومِ بحر و بر سیکھو
خدا کے واسطے اے نوجوانو! ہوش میں آئو
دلوں میں اپنی غیرت کو جگہ دو، جوش میں آئوروحانی تعلیم اور روحانی ترقی کے سلسلے میں کہتے ہیں:
مجھے اس درس سے خواہش تھی روحانی ترقی کی
یہاں ہر چیز لیکن مادّی و عنصری نکلیمغرب والوں نے ہندوستان کے مسلمانوں کو ایسا نصاب دیا جو فلسفہ کی پیچیدگیوں سے پُراور دینی تعلیمات سے خالی تھا۔ فلسفے میں وہ طالب علموں کو اتنا الجھا کر رکھ دیتے کہ فلسفی کو بحث کا ابتدائی اور آخری سرا ہی نہیں ملتا اور وہ اسی الجھن کو سلجھانے کی فکر میں مہذب اور بعض دنیاوی معاملات سے کٹ کر رہ جاتا:
فلسفی کو بحث کے اندر خدا ملتا نہیں
ڈور کو سلجھا رہا ہے اور سرا ملتا نہیںمحض فلسفی اور لفظی بحثوں میں الجھ کر زندگی بسر کرنے کو اکبر فضول سمجھتے ہیں:
بحثیں فضول تھیں یہ کھلا حال دیر میں
افسوس عمر کٹ گئی لفظوں کے پھیر میںجدید مغربی تعلیمی پالیسی ۱۸۵۷ء کے بعد یہ تھی کہ ہندوستان میں ایک ایسا طبقہ بنایا جائے جو انگریزوں اور کروڑوں رعایا کے درمیان وسیلہ اور مترجم ہو۔ یہ طبقہ ایسا ہو جو رنگ و خون کے اعتبار سے ہندوستانی مگر مذاق، رائے، اخلاق اورذہن کے اعتبار سے انگریز ہو۔ اکبر الہ آبادی نے اس قسم کی تعلیمی پالیسی کو متعارف کرانے والوں کو’’صیاد‘‘ کے استعارے سے بیان کیا اور بتایا کہ ان کی مجوزہ تعلیمی پالیسی کا نتیجہ یہ ہوگا کہ کالجوں، یونیورسٹیوں میں یہی نصاب پڑھ کر نکلنے والے کل اور متعدد تعلیمی ادارے بنا کر دوسرے تمام افراد کو بھی اسی جال میں پھنسا دیں گے اور چند ہی سالوں میں پوری نئی نسل ذہنی اعتبار سے انگریز اور خون اور رنگ کے لحاظ سے ہندوستانی بن کر رہ جائے گی:
میرے صیاد کی تعلیم کی ہے دھوم گلشن میں
یہاں جو آج پھنستا ہے، وہ کل صیاد ہوتا ہےاکبر تعلیم کی تبدیلی کو قتل کا مترادف سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ فرعون نے تو موسیٰؑ کی پیدائش کے خوف سے ہزاروں بچوں کو قتل کیا اور بدنام ہوا، اگر وہ تعلیمی پالیسی تبدیل کرکے تمام نئے پیدا ہونے والوں کے ذہنوں کو اپنی محبت کے جال میں پھنسا دیتا تو فرعون پر قتل کا الزام بھی نہ آتا اور سلطنت کو بھی کوئی خطرہ لاحق نہ ہوتا ۔ ذہنیت کی تبدیلی قتل و غارت سے کہیں زیادہ موثر اور مفید ہوتی ہے:
یوں قتل سے بچوں کے وہ بدنام نہ ہوتا
افسوس کہ فرعون کو کالج کی نہ سوجھیاکبر کے نزدیک بقول ڈاکٹر ذوالفقار حسین علمی اور صنعتی ترقی کا سبب افکار کی آزادی ہے۔ ڈاکٹر ذوالفقار لکھتے ہیں:
ہم اور ہمارے ذہن غلامی، محکومی کی زنگ آلود زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں۔ یہ کمالات محکومی کی حالت میں ہمیں حاصل نہیں ہوسکتے۔ ایک تو اس لیے کہ ہمارے سب وسائل پر استعماری طاقتوں کا قبضہ ہے۔ دوسرے، ہمارے ضمیر مردہ ہوچکے ہیں اور تخلیقی صلاحیتیں سوچکی ہیں۔ تیسرے، استعماری نظامِ تعلیم ہمارے پائوں کی زنجیر بن گیا ہے جو ہمیں تخلیق اور تجربے کی بجائے تقلید اور نقالی کی راہ پر لے جارہا ہے۔
اکبر جدید علوم و فنون کے حصول کے بارے میں یہ نظریہ رکھتے ہیں کہ بیشک انسان کالج میں پڑھے، پارک میں اچھلے، کودے، غباروں کے ذریعے خلائی سفر کرے، جھولا جھولے لیکن خدا اور اپنی حقیقت کو ہرگز نہ بھولنے پائے۔ دراصل یہ اکبر کی طرف سے پیش کردہ ایک راہ حل ہے۔ مسلمان تعلیمی اداروں سے کٹ کر بھی نہیں رہ سکتے تھے اور وابستگی کی صورت میں نصاب تعلیم ایسا مرتب کیا گیا تھا کہ طالب علم اپنی دینی اور تہذیبی شناخت کھو بیٹھتا تھا۔ ایسے میں اکبر نے بتادیا کہ مغربی تعلیمی اداروں میں پڑھو لیکن دلوں میں اللہ کی یاد اور اپنی اسلامی اقدار کی محبت کو کم نہ ہونے دو:
تم شوق سے کالج میں پھلو، پارک میں پھولو
جائز ہے غباروں میں اڑو، چرخ پہ جھولو
بس ایک سخن بندۂ عاجز کا رہے یاد
اللہ کو اور اپنی حقیقت کو نہ بھولویہی نظریۂ علامہ اقبال نے بھی پیش کیا تھا۔ شعر دیکھیے:
جوہر میں ہو لا الہ تو کیا خوف
تعلیم ہوکر گو فرنگیانہاقبال اور اکبر کا نظریہ دراصل ایک عبوری دور سے گزرنے والے اور حالات کے ہاتھوں پسے ہوئے مسلمان کے لیے ترقی اور تعلیم کی راہوں پر لگانے کا بہترین وسیلہ ہے۔ اکبر تعلیم کی ساتھ ساتھ دفاعی اور مدافعتی طاقتوں کا حصول بھی ضروری سمجھتے ہیں یعنی وہ قلم کے ساتھ ساتھ تیغ کا حصول بھی ضروری قرار دیتے ہیں:
کوئی عرب کے ساتھ ہو یا ہو عجم کے ساتھ
کچھ بھی نہیں ہے تیغ نہ ہو جب قلم کے ساتھغرض یہ کہ اکبر انگریزوں کے نظامِ تعلیم، طرزِ تعلیم اور مقاصدِ تعلیم کو ہندوستانی مسلمانوں کے لیے مضر سمجھتے تھے۔ وہ جدید سائنسی، تکنیکی، مادّی اور دنیاوی ترقی کے مخالف نہیں تھے بلکہ بقول ڈاکٹر سجاد باقر رضوی’’وہ ہنرمندی اور دینوی ترقی کے حق میں تھے اور صرف اتنا چاہتے تھے کہ مسلمان تقلید مغرب صرف ان کے ہنر میں کریں نہ کہ فلسفۂ زندگی اور معیارات و اقدار میں۔جو قومیں اپنے ماضی اور اپنی تاریخ کو بھول جاتی ہیں ایک بار اپنے مرکز سے ہٹ کر کہیں کی نہیں رہتیں‘‘۔
عزم کو تقلید مغرب کا ہنر کے زور سے
لطف کیا ہے لَد لیے موٹر پہ زر کے زور سے
غیر ملکیوں میں ہنر کو سیکھ، تکلیفیں اٹھا
روکتے ہیں وہ اگر اپنے اثر کے زور سے
کون کہتا ہے کہ تو علم نہ پڑھ، عقل نہ سیکھ
کون کہتا ہے نہ کہ حسرتِ لندن پیدا
درخت جڑ پہ ہو قائم تو استوار بھی ہے
کبھی خزاں ہے اور اس پر کبھی بہار بھی ہےاکبر اس چیز کے مخالف ہیں کہ مسلمان کی ادائیں مغربی تقلید پر منحصر ہوں اور کلی کی گڑیا کی طرح ان کے اشارے پر ناچیں:
اس کی حرکت ہے کلیدِ مغربی پر منحصر
دل یہ سینے میں ہے یا پاکٹ کے اندر واچ ہےاکبر کے تعلیمی افکار اور تہذیبی افکار آج بھی مسلمانوں خصوصاً برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کے لیے مشعل راہ ہیں۔ مغربی غلبہ سے نجات پانے کے لیے اکبر حسین اور علامہ اقبال جیسے مفکروں کے افکار اور نظریات پڑھنے اور ان پر عمل کرنے کے سوا کوئی اور راستہ نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ڈاکٹر جمیل جالبی اکبر کے حوالے سے لکھتے ہیں:
اکبر جیسا شاعر ایشیا کی کسی بھی دوسری زبان میں مجھے نظر نہیں آتا جس نے مغربی تہذیب کے غلبے سے بچنے کے لیے اس دلچسپ اور دلکش انداز میں اپنی جڑوں سے پیوستہ رہنے کی تلقین کی ہو اور قوموں کی تخلیقی صلاحیتوں کو زندہ و باقی رکھنے کا گُر سکھایا ہو۔ اسی لیے میں اکبر کو صرف مزاحیہ نہیں بلکہ جدید فلسفی شاعر سمجھتا ہوں۔
(بشکریہ: سہ ماہی ’’پیغامِ آشنا‘‘ اسلام آباد۔ شمارہ:جولائی تا ستمبر ۲۰۰۶ء)
-
“خارجیت” کا سدباب: اسوۂ علی (رض) کی روشنی میں – مجذوب مسافر
آج کے حالات میں ذہنوں میں کئی طرح کے سوالات جنم لے رہے ہیں مثلا:
١- “خارجیت” کیا ہے اور “خوارج” کون ہیں؟
٢- “انتہا پسندی” کیا ہے اور “انتہا پسند” کون ہیں؟؟
٣- کیا ہر قسم کی انتہا پسندی “خارجیت” کہلا سکتی ہے اور کیا ہر قسم کا انتہا پسند “خارجی” کہلا سکتا ہے؟؟؟ان سوالوں کے ساتھ ساتھ ایک اور خیال بھی لوگوں کے ذہنوں میں آتا ہے کہ:
مختلف قسم کے علماء اور مذہبی یا مذہبی جماعتیں انتہا پسندی اور انتہا پسندوں کا رد یا مذمت کیوں نہیں کرتیں؟؟؟؟ان سب سوالات کا کوئی بھی جواب دینے سے پہلے ضروری ہے کہ ایک بدیہی حقیقت کو تسلیم کیا جائے اور سمجھا جائے… اور وہ حقیقت ہے “جدید قومی ریاست” کا ظہور… دور جدید کی ریاست میں آئین کو بالادستی حاصل ہوتی ہے اور اسی آئین کی بنیاد پر منتخب پارلیمنٹ قانون سازی کرتی ہے اور ریاستی ادارے ان قوانین کی تنفیذ کا کام کرتے ہیں…
اپنی آئینی نوعیت کے اعتبار سے پاکستان نہ صرف ایک جدید قومی ریاست ہے بلکہ ایک اسلامی ریاست ہے کیونکہ اس کے آئین میں واضح طور پر الله تعالیٰ کی حاکمیت کو تسلیم کیا گیا ہے جس کا مطلب ہے کہ کوئی بھی قانون الله و رسول (ص) کی مقرر کردہ حدود سے باہر ہو کر نہیں بنایا جا سکتا… اس مقصد کے حصول کے لئے ایک آئینی ادارہ “اسلامی نظریاتی کونسل” کے نام سے موجود ہے… یہی کونسل اب پارلیمنٹ اور عدلیہ کے ساتھ مل کر قرن اول کی “مجلس شوری” کا متبادل ہے اور پاکستان جیسی ریاست میں کسی بھی معاملے کی شرعی حیثیت کے تعیین کے لئے راے دینے کے لئے ساری ذمہ داری اسی کے سر ہے… اپنی اس ذمہ داری کی ادائیگی کے لئے یہ کونسل اپنے ارکان کے ساتھ ساتھ اگر مناسب یا ضروری سمجھے تو معاشرے کے مختلف طبقات (جن میں مختلف شعبوں کے اہل علم’ سماجی کارکن’ سیاسی و دینی رہنما’ طلبہ وغیرہ) کے مؤقف کو سننے اور سمجھنے کا اہتمام کر سکتی ہے… اس ادارے کی آراء کو آئین اور قانون کا حصہ بنانے کے لئے پارلیمنٹ (قومی اسمبلی اور سینیٹ) اور عدلیہ جیسے ادارے موجود ہیں…
اب مندرجہ بالا سوالوں یعنی:
١- “خارجیت” کیا ہے اور “خوارج” کون ہیں؟
٢- “انتہا پسندی” کیا ہے اور “انتہا پسند” کون ہیں؟؟
٣- کیا ہر قسم کی انتہا پسندی “خارجیت” کہلا سکتی ہے اور کیا ہر قسم کا انتہا پسند “خارجی” کہلا سکتا ہے؟؟؟کا جواب دینا صرف اور صرف اسی کونسل کی ذمہ داری بنتی ہے… اور پھر کونسل کی راے کی بنیاد پر پارلیمنٹ اور عدلیہ جن افراد یا گروہوں کو “انتہا پسند” یا “خوارج” قرار دے دیں تو ان کے ساتھ نمٹنے کے لئے پالیسی بنانا پارلیمنٹ کی ذمہ داری ہو گی اور اس پالیسی کی تنفیذ کے لئے ریاستی ادارے پابند ہوں گے…
میرے فہم کی حد تک…
جب چوتھے خلیفۂ راشد علی (رض) کے دور میں خوارج نے جنم لیا تو علی (رض) نے یہی حکمت عملی اختیار کی تھی… انہوں نے بطور خلیفہ اپنے مصاحبین یعنی اپنی مجلس شوری کے ساتھ ساتھ صلاح مشورہ کے بعد… پرامن اور عسکری ہر دو طرح کی حکمت عملی اختیار کرتے ہوئے بھرپور طریقے سے اس فتنے کا قلع قمع کیا تھا…
آج بھی کرنے کا یہی کام ہے علی (رض) کے اسوہ سے روشنی حاصل کی جائے… جب تک یہ کام نہ کیا جائے گا یعنی ریاست پاکستان کی مجلس شوری کے تمام اعضاء… اسلامی نظریاتی کونسل’ پارلیمنٹ’ عدلیہ… اور ریاستی ادارے اپنی اپنی ذمہ داری ادا نہیں کرتے… قوم کونفیوز رہے گی جیسی کہ اس وقت کونفیوز ہے…
اب آتے ہیں لوگوں کے ذہنوں میں پیدا ہونے والے خیال یا سوال کی طرف یعنی:
مختلف قسم کے علماء اور مذہبی یا مذہبی جماعتیں انتہا پسندی اور انتہا پسندوں کا رد یا مذمت کیوں نہیں کرتیں؟؟؟؟
حقیقت یہ ہے کہ…
ریاست اور ریاستی اداروں کی ناہلی اور غفلت کے باوجود’ مینسٹریم علماء نے بھی اور مذہبی جماعتوں نے بھی کسی بھی قسم کی انتہا پسندی سے خود کو دور رکھا ہے… اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ انہوں نے اپنی دعوت و تربیت’ اپنی سیاسی سرگرمیاں وغیرہ کو ہمیشہ آئین و قانون کے دائرے کے اندر ہی سرانجام دیا ہے اور اگر ان کے متعلقہ فرد یا افراد نے آئینی و قانونی دائروں سے باہر نکلنے کی کوشش کی تو اس کو سمجھایا یا پھر خود کو ایسے لوگوں سے دور کر لیا… کوئی عالم دین یا مذھبی جماعت اتنا ہی کر سکتی ہے… کسی عالم دین یا مذہبی جماعت سے یہ مطالبہ تو نہیں کیا جا سکتا کہ وہ خود میدان آے اور آئین و قانون کو ہاتھوں میں لیتے ہوئے افراد یا جماعتوں کو “انتہا پسند” یا “خوارج” کے لقب دینے شروع کر دے اور ان کے خلاف ہتھیار اٹھا لے…
ویسے کچھ سوال تو یہاں لازمی ذہن میں آنے ہی چاہییں مثلا:
١- ہم لوگ وزیر اعظم’ ارکان پارلیمنٹ’ عدلیہ اور اسلامی نظریاتی کونسل کو اور ریاستی اداروں کو ان کی ذمہ داریاں کیوں یاد نہیں دلاتے؟
٢- جب علماء یا مزگنی جماعتیں کسی معاملے کے بارے میں شرعی راے کا اظہار کرتی ہیں تو کیا ہم اس راے کا احترام کرتے یا قبول کرتے ہیں؟؟
٣- علماء اور مذہبی جماعتوں کی باقی آراء کو تو جھٹلا دینا اور اس ایک معاملے میں سارا زور لگا دینا کہ وہ اپنا مؤقف دیں کیا معنی رکھتا ہے؟؟؟اگر کوئی سعید روح چاہتی ہے کہ…
قوم میں جو کنفیوژن پایا جاتا ہے وہ دور ہو جائے اور وہ مزید کسی تناؤ اور تقسیم سے بچ جائے تو ان گزارشات پر ضرور غور کرے -
اے اردگان! اللہ آپ کو ہرگز رسوا نہ کرے گا. رضی الاسلام ندوی
اے اردگان!
اللہ آپ کو ہرگز رسوا نہ کرے گا۔
ام المئومنین حضرت خدیجہ رضی اللہ عنھا نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کو تسلی دیتے ہوئے عرض کیا تھا:
کلا، ابشر، فواللہ لا یخزیک اللہ ابداً، فواللہ انک لتصل الرحم و تصدق الحدیث و تحمل الکل و تکسب المعدوم و تقری الضیف و تعین علی نوایب الحق(بخاری:۴۹۵۳)
“ہرگز نہیں،آپ بشارت قبول کیجیے۔ اللہ کی قسم، اللہ آپ کو ہرگز رسوا نہیں کرے گا۔اللہ کی قسم، آپ رشتے داروں کے ساتھ اچھا سلوک کرتے ہیں، سچی بات کہتے ہیں، بے سہارا لوگوں کا بار برداشت کرتے ہیں اورنادار لوگوں کی مالی مدد کرتے ہیں، مہمان نوازی کرتے ہیں اور نیک کاموں میں تعاون کرتے ہیں۔”
ترکی میں ناکام فوجی بغاوت کے موقع پراس کے صدر، مردِ مجاہد، رجب طیب اردگان کو دلاسا دلانے کے لیے اس سے اچھے الفاظ میرے پاس نہیں ہیں۔
اے اردگان ! بشارت قبول کیجیے۔ اللہ آپ کو ہرگز رسوا نہ کرے گا۔
آپ دنیا کے تمام اسلام پسندوں کو اپنا بھائی سمجھتے ہیں اور ان کی حمایت و تایید کے لیے ہر وقت تیار رہتے ہیں۔
آپ نے ہمیشہ سچی بات کہی ہے اور ہر محاذ اور ہر فورم پر حق کا اعلان کیا ہے۔ آپ نے مصر میں فوجی بغاوت کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے ، جمہوری انداز میں منتخب صدر مرسی کی برملا حمایت کی ہے اور اپنے اس موقف پر اب تک ڈٹے ہوئے ہیں۔
آپ نے پوری دنیا میں بے سہارا لوگوں کی مدد کی ہے۔ آپ نے برما میں روہنگیا مسلمانوں کےآنسو پوچھے ہیں۔آپ نے فلسطینی کاز کی حمایت کی ہے اور وہاں کسمپرسی کے عالم میں زندگی گزارنے والے مسلمانوں کو سہولیات فراہم کرنے کے لیے غذائی اجناس، دوائیوں، تعمیری ساز و سامان اور بچوں کے لیے کھلونوں سے لدے ہوئے جہاز بھیجے ہیں۔
آپ بڑے مہمان نواز ہیں۔ آپ نے معتوب اخوانیوں کو اپنے یہاں پناہ دی ہے اور ان کی بہترین مہمان نوازی کی ہے۔آپ نے لاکھوں بے آسرا اور بے گھر شامیوں کو اپنا مہمان بنایا ہے، ان کی ہر طرح کی ضرورتیں پوری کی ہیں اور انھیں مستقل شہریت دینے کا بھی اعلان کیا ہے۔
آپ ہر نازک موقع پر سینہ سپر کھڑے رہتے ہیں۔دنیا میں کہیں بھی اسلام پسندوں پر کویی افتاد پڑے،آپ ان کی حمایت میں آواز بلند کرتے ہیں اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پروا نہیں کرتے۔
اے اردگان ! آپ ہرگز پریشان اور غمگین نہ ہوں ۔
فوجی بغاوت کی ناکامی اورآپ کی سرخ روئی پربشارت قبول کیجیے۔
اللہ کی قسم، اللہ آپ کو ہرگز رسوا نہیں کرے گا -
ترکی میں اقتدار پر فوجی قبضے کی کوشش – ڈاکٹر عاصم اللہ بخش
( ترکی میں بغاوت کی یہ کوشش اب ناکام ہو چکی ہے لیکن اس مضمون کے چند نکات اب بھی متعلق ہیں، بالخصوص ہمارے تناظر میں . ادارہ دلیل)
تازہ ترین اطلاعات کے مطابق ترکی میں فوج نے اقتدار پر قبضہ کر لیا ہے.حالیہ دنوں میں وقوع پذیر ہونے والی یہ اہم ترین تبدیلی ہے جسے ڈرامائی بھی کہا جاسکتا ہے، اپنے ظاہر ہونے کے لحاظ سے بھی اور اپنے اثرات کے لحاظ سے بھی. شام، سعودی عرب، پاکستان، یورپ، روس اور…. خود ترکی، سب پر اس کے گہرے اثرات مرتب ہوں گے.
مشرق وسطی کے معاملات میں پاکستان کو اور زیادہ شامل ہونا ہو گا کیونکہ ایران سعودی کشمکش میں ایک بڑا بیلنسنگ فیکٹر اب اپنا کردار پوری طرح نہیں ادا کر پائے گا.
دوسری طرف ترکی میں اندرونی پرخاش بڑھنے کا خدشہ ہے جس میں اسلام اور سیکولرازم کی چپقلش ایک خطرناک رخ بھی اختیار کر سکتی ہے. یہ دیکھنا ہوگا کہ ملٹری سیکولر ازم پر زور دیتی ہے یا پھر اردوان کے سابق حلیف اور اب ایک بڑے حریف فتح اللہ گولن کو سامنے لاتی ہے. یہ بھی اہم ہو گا کہ اس بار عوام اس مارشل لاء کے متعلق کیا ردعمل رکھتے ہیں اور اس کا اظہار ہو گا یا ماضی کی طرح ہی سب کچھ نارمل چلتا رہے گا. یاد رہے ترک جنگ آزادی میں شریک رہنے کی وجہ سے ترک فوج کا مقام کسی عام فوج سے مختلف ہے.
مسلم دنیا کی بقایا تین بڑی فوجوں میں سے اب دو تو اقتدار کے معاملات میں الجھ گئیں… اب صرف پاکستان بچا ہؤا ہے. حالات اچانک ہی بہت بدل گئے ہیں. آج ہی پاکستان کی سول ملٹری قیادت کو فوراً ایک دوسرے کو اعتماد میں لے کر چند فیصلے کرنا ہوں گے. اس وقت عالمی سطح پر غیر معمولی تیزی سے صورت حال بدل رہی ہے. اس کا ادراک کرنا ہو گا. یہ وقت سیاست نہیں تدبر کا ہے . پاکستان نہ مارشل لاء کا متحمل ہو سکتا ہے اور نہ ہی تساہل پسند گورننس کا.
یہ وقت پاکستان کو مسلم دنیا کی سب سے بالغ نظر، مستحکم اور مدبر ریاست کے طور پر سامنے لا سکتا ہے، اور غلط فیصلے ہمیں بھی مصر اور ترکی کی راہ پر لے جائیں گے. یہ پاکستان کے لیے موقع بھی ہو سکتا ہے اور آزمائش بھی. ہمیں خود کو اسے موقع میں ڈھالنے کے قابل ثابت کرنا ہے.
کئی دہائیوں میں ایسی ایک ہی گھڑی آتی ہے.
-
الوہی کہکشاں اور عزمِ آدمِ خاکی – ہمایوں مجاہد تارڑ
ٹیلی سکوپ کے حجم و صلاحیت بڑھانے میں جذبہِ مسابقت
دنیا کی سب سے بڑی ٹیلی سکوپ تیار کرنے کی دھن میں ترقی یافتہ ممالک کے بیچ برپا ایک فقید المثال معرکہہمارے ہاں مذہبی طرزِ فکر رکھنے والوں میں پڑھا لکھا، روشن خیال طبقہ بہ تسلسل اس بات کی دہائی دیتا آیا ہے کہ دینِ اسلام کے پیرو کار ایک طویل عرصہ سے عبادت کے صرف ایک حصے پر فوکس ہیں، یعنی پوجا پاٹ اور دعائیں وغیرہ ۔تحقیق و جستجو کا جذبہ بھی ہمارے ہاں اسی نوع کی مباحث میں کھپایا جاتا، اور یوں بس فروعی معاملات میں الجھے رہنے ، ان میں بھی اپنی اپنی ضد پر اڑے رہنے والےایک پسماندہ سے رویے پر مبنی فضا ہے جس کی دبیز چادر ہر سو تنی ہوئی ہے جس کے پار دیکھنے کی تمنّا توشاید کی ہی جاتی ہے، تاہم عملاً کوئی پیشرفت ہوتی نظر نہیں آتی۔وہی خالی خولی ڈگریوں والی تعلیم، وہی بس ذریعہ معاش تک کی اڑان بھر سکنے والی پرواز فکر، اور وہی سوشل میڈیا پر دوسروں کو اخلاق سکھانے، یا کسی ایک سیاسی جماعت کی طرفداری یا دوسروں کی مخالفت بھرے مواد کی حامل پوسٹوں پر لائیکس اور شیئرز میں مسابقت بازی ۔عبادت کا دوسرا حصّہ ویسٹ نے پکڑ رکھا ہے، یعنی کائنات بارے غورو فکر اور تحقیق و جستجو جس سے متعلق خالق عقل و شعور نے اپنے کلامِ مقدس میں بیسیوں مرتبہ ہم سے مخاطب ہوہو پر زور انداز میں تاکید کی ہے:
” اللہ کے بندے تو وہ ہیں جو اٹھتے بیٹھتے، کروٹوں کے بل خدا کو یاد کرتے اور ارض و سما کی تخلیق پر غورو فکر کرتے ہیں۔۔۔”“
پھر جگہ جگہ وہ ہمیں جھنجھوڑتا ہے:” کیا تم دیکھتے نہیں؟ کیا تم عقل نہیں رکھتے؟”
خیر،آج کی نشست میں یہ ثابت کرنا ہمارا موضوع نہیں کہ تحقیق و جستجو اور حصول علم اصلاًتو ہیں ہی صاحبان ایمان کے لیے۔ ہم تواس امر کا جائزہ لینے چلے ہیں کہpigs کھانے اور شرابیں پینے والے بے خدا معاشروں کے بے خدا لوگ میدان علم و تحقیق میں حیرت انگیز منزلیں سر کرتے ہوئے آج کہاں کھڑے ہیں۔ان قوموں کے بیچ منعقدہ مقابلوں کی نوعیت کیا ہے؟ بجا کہ وہاں کی عائلی زندگی تباہ حال ہے،اخلاقی بے راہ روی اور درون خانہ ایک مایوسی اور اداسی کی کیفیت بھی کہ
چہرہ روشن، اندروں چنگیز سے تاریک تر
(اقبالؒ)لیکن یہ تسلیم کیے بنا چارہ نہیں کہ ہمارے سسٹمز کو جام کر دینے کی صلاحیت و علمیت کی حامل وہ قومیں آج دنیا کی امامت کے منصب پر فائز ہمیں آنکھیں دکھا رہی ، رہ رہ کر دھمکا رہی ہیں۔مسلمانانِ عالم، جو تعداد میں سوا یا ڈیڑھ ارب یعنی کرّہ ارض کی کل آبادی کا ایک تہائی ہیں،کی حالت پیغمبرعلیہ الصلٰوۃ والسلام کے بقول سمندر کے جھاگ ایسی ہے۔ بے اختیار، بے بس، بے مایہ۔
دو روز قبل ایک چھوٹی سی اخباری خبر پر نظر پڑی ۔ تجسس ہوا کہ بھلا دیکھیں اِس میدان میں یہ گورے گوریاں کیا گل کھلا نے چلے ہیں۔ ہم یکبارگی امام گوگل کے حضور پیش ہو گئے اور عرض گزاری کہ آقاتھوڑی جانکاری عنایت ہو۔جواباً، امام العصر ہمیں ہماری انگلی تھامے زیادہ دور لیجائے بغیر ، بالکل پاس رکھی تین چارویب سائٹس پر چھوڑ آئے ،جہاں معلومات کے حیرت انگیز جہان آباد تھے، جن کے زیرِ اثر ہم نے وقتی طور پر اسلامی اور غیر اسلامی دنیا والی تقسیم سے متعلق احساسات کو پس پشت ڈالا، اور بس خوشہ چینی میں مگن ہو گئے۔جو حسبِ مقدور کر سکے، پیش خدمت ہے۔اس دوران رہ رہ کر جو خیال ہمیں ہانٹ کیے دیتا وہ پروفیسر احمد رفیق اختر صاحب کی ایک کتاب کا انتساب تھا- اپنے قاری کوکیفیت ، جذبہ و سرور سے لبا لب بھر دینے، بیٹھے بٹھائے بدل دینے کی طاقت کا حامل ایک خوبصورت انتساب- کہا:
”بیدار لمحوں کی اس الوہی کہکشاں کے نام جو عزمِ آدمِ خاکی کے صحرا کی گرد کو اپنے صبیح چہرے پر ملنے کی آرزو مند ہے۔“
تو ہم نے بھی گوروں کی اس محیّرالعقول ترقّی کو بس عزمِ آدمِ خاکی کی حد تک ہی لیا۔ آئیں یہ بھی دیکھتے ہیں کہ آیا ان ویب سائٹوں سے ہم اپنے ریسرچ کردہ مواد کو اُردو قالب میں ڈھالنے، قطع و برید کے ذریعے اس کے گیسو سنوارنے اور یوں اُسے ایک نئی پریزنٹیشن عطا کرنے میں کس حد تک کامیاب رہے۔
خلائی تحقیق کے میدان میں ایکدوسرے پر فوقیت حاصل کرنے کی لگن میں ترقی یافتہ ممالک کے بیچ ایک فقیدالمثال معرکہ برپا ہے۔لیکن اب کے یہ خلائی دوڑ ماضی کے مقابلوں سے یکسر مختلف ہے کہ اس نئی مسابقت بازی میں شامل ممالک کا جنون دنیا کی سب سے بڑی ٹیلی سکوپ کی ایجاد ہے۔اس سے پہلے کہ ہم آگے بڑھیں، اس مقابلہ بازی کے اصل مقاصد یا محرّکات پر ایک طائرانہ سی نگاہ ڈالتے ہیں ، تا کہ یہ کھلے کہ اس ریس میں شامل سائنسدانوں اور ملکوں کی اصل دلچسپی یا مطمحِ نظر ہے کیا۔
ترقی یافتہ ممالک کے بیچ یہ خلائی دوڑ کیوں برپا ہے؟
اوّلاً، تحقیق و جستجو کے سفرمیں انسان جس منزل پر اب کھڑا ہے،قرائن بتا رہے ہیں کہ مستقبل قریب میں خلائی تحقیق کے شعبے میں ایک عالمی طاقت ہونا ہی سپر پاور ہونے کی ضمانت ٹھہرے گا۔ظاہر ہے ایسا جبھی ممکن ہو گا جب آپ کے ہاں مظبوط ترین اور طاقتور ترین آلات ہوں جو خلائی وسعتوں پرنسبتاً بہتر نقب لگانے ،حریف ممالک کے مقابلے میں بہتر انفارمیشن چُرانے ، اور وہاں زیادہ تر مظبوطی سے قدم جمانے میں آپ کی معاونت کر سکیں۔ثانیاً، کسی بھی ایسے ملک کا اپنی خلائی صلاحیتوں میں اضافہ اس سبب سے بھی ہے کہ اس کے ذریعے وہ مستقبل میں اپنے حریف ممالک کو اس عمل سے روکے کہ وہ بحرانی حالات میں خلا ء میں اپنے اثاثوں کو استعمال میں لا سکیں۔ثالثاً، علمی اعتبار سے اس حجم اور صلاحیت کی حامل سب سے بڑی ٹیلی سکوپ نہ صرف ابتدائے کائنات کی الجھی پہیلی کی گرہیں وا کرنے میں معاون ہو گی، بلکہ پہلے سے معلوم فلکیاتی اجسام کے مطالعے کے ساتھ ساتھ کائنات میں پائی جانے والی ممکنہ غیر زمینی مخلوق کی تلاش میں پیشرفت کو بھی ممکن بنائے گی۔یوں، سب سے بڑی اور زیادہ تر طاقت و صلاحیت والی ٹیلی سکوپ کا حامل ملک اس شعبے میں جاری تحقیق و جستجو کے میدان میں قائدانہ حیثیت اختیار کرلے گا جس کا مدّتی دائرہ اگلے دو عشروں پر محیط ہو سکتا ہے۔
آئیں اب اس سےقبل کہ ہم اس اہم ترین پہلو کا جائزہ لیں کہ کون اس ضمن میں کیا کر رہا ہے، مختصراًاس امر کا جائزہ بھی لے ڈالیں کہ اس شعبہ میں اب تک کے حالات کیا تھے۔علمِ فلک شناسی کا پس منظر
نوع انسانی کے منصہِ شہود پر جلوہ گر ہونے سے لیکر چار سو برس یعنی چار صدیاں پیشرتلک تاروں بھری اس پررونق کائنات بارے ہماری آگاہی و جانکاری آج کی نسبت مایوس کن حد تک کم تھی، جو محض اس کےننگی آنکھوں کیے مشاہدے کی بدولت تھی۔تب سترھویں صدی کے آغاز میں جب گیلیلیو نے 1610 میں اپنی ٹیلی سکوپ کا رُخ آسمان کی جانب موڑا تو جستجوئے انسان نے کائنات سے متعلق آگہی کے شعبہ میں ایک نئی کروٹ لی۔ گیلیلیو کی کاوش شعبہ فلکیات میں انسان کی بیداری کا نقطہ آغاز تھا۔ہمیں پہلی بار معلوم ہوا کہ سیارہ زحل اپنے گرد دائرے رکھتا ہے، جبکہ مشتری کے گرد محوِ گردش اس کے اپنے چاند ہیں۔نیز یہ کہ نیلگوں فلک کے عین وسط میں واقع ایک دلکش سی دودھیا رنگ کی پٹی جسے آکاش گنگا یا دودھیا شاہراہ کے نام سے یاد کیا جاتا تھامحض بادل کی کوئی لکیر نہ تھی، بلکہ اصلاً وہ َان گنت ستاروں کا ایک جھرمٹ ہے۔ اس حیرت زا مشاہدے نے اگلے چند برسوں میں ہی خلائے بسیط میں دِکھنے والے اجسام سے متعلق ہماری رائے بدل کر رکھ دی۔یہ دریافت ایک ہمہ گیر سائنسی اور سماجی انقلاب کی نقیب بن گئی۔
ہبل کی تنصیب
ما بعد مہ و سال میں اس طرز کی ٹیلی سکوپس کے حجم، پیچیدگی اور طاقت میں اضافہ ہوتاچلا گیا۔ اِنہیں شہر کی روشنیوں سے دور اور دھندلی فضا سے کافی بلند پہاڑی مقامات پر نصب کیا جاتا ۔ ٹیلی سکوپ کے حجم اور صلاحیت کی نشوونما کا یہ سفر با لآخرامریکی فلک شناس ایڈوِن ہبل تک آن پہنچا، جس نے 1920 میں اپنے وقت کی سب سے بڑی اور طاقتور ٹیلی سکوپ یعنی ہبل ٹیلی سکوپ (اسی کے نام سے منسوب)کو متعارف کراتے ہوئے اسے امریکی ریاست لاس اینجلس کے شہر پا سادِینا میں کیلف کے مقام پر قائم ماؤنٹ وِلسن نامی رصد گاہ میں نصب کیا ۔ہبل کے ذریعے وہ ہماری اپنی کہکشاں کی حد بندیوں کے پار آبادآگے کی کہکشاؤں کا نظارہ و مطالعہ کرنا چاہتا تھا۔
ہبل کی خلا کی جانب روانگی اور خلا میں تنصیب
تاہم،ز مین پر رکھی بلند مقامات یعنی پہاڑوں پر نصب ٹیلی سکوپس کی نظری وسعت بہرحال محدود ہوا کرتی ۔ آنیوالے برسوں میں ہوائی جہاز کی ایجاد اور خلا تک رسائی نے اس شعبے میں ہونے والی پیشرفت کو گویا چار چاند لگا دیئے۔ یہاں تک کہ 24 اپریل 1990 کی صبح طلوع ہوتے آفتاب نے انسانی جذبہ و جستجو کی ایک نرالی ادا نظّارہ کی جب امریکی خلائی تحقیق کے ادارے ناسا نے انسانی تاریخ کی اوّلین خلائی رصد گاہ، یعنی ہبل رصد گاہ، خلا کی جانب لانچ کی اور وہاں اسے نصب کر ڈالا۔ گیلیلیو کے زمانے سے آغاز ہو کر ِاس درخشاں دن تک، شعبہ فلکیا ت میں یہ اہم ترین پیشرفت تھی۔ کینیڈی خلائی سنٹر فلوریڈا سےاِس ٹیلی سکوپ کو ‘ڈسکوری’ نام کی خلائی شٹل پر سوار روانہ کیا گیا ۔1990 میں اپنے مشن کے آ غاز سے لیکر ابتک، ہبل ٹیلی سکوپ نے ایک اعشاریہ 2 ملین آبزرویشنز یعنی 12 لاکھ مشاہدات ریکارڈ کیے ہیں۔اب ایک اور حیرت انگیز بات نوٹ کریں: ہبل ٹیلی سکوپ کے ذریعے موصول ہونے والے مواد کی بنیاد پر 12800مضامین تحریر کیے جا چکے ہیں جو اس امر کا بیّن ثبوت ہیں کہ ہبل کی ایجاد کائنات بارے انسان کی آگہی میں پیشرفت کے حوالے سے از حد کار آمد اور ثمر بار ایجاد ہے۔
ہبل خلا میں کس مقام پر ہے، اور اس کا اندازِ کار کیا ہے؟
یہ اہم بات جان لیں کہ ہبل خلا میں ہے کہاں اور وہاں رہ کر اپنا کام کیسے سر انجام دیتی ہے۔ہبل حد نگاہ ستاروں یا کہکشاؤں کی جانب پرواز نہیں کرتی کہ ان کی سیاحت کو نکل کھڑی ہو۔نہ یہ ہمارے اپنے نظامِ شمسی میں دیگر سیاروں کا معائنہ کرنے ہی جاتی ہے۔ بلکہ اس کا گھر ہماری اپنی زمین کا مدار ہے جہاں اسے نصب کیا گیا ہے۔نصب کرنے سے مراد یہ نہیں کہ اسے کسی ایک مقام پر فِکس کر دیا گیا ہے، بلکہ یہ کہ ہبل اس مدار میں زمین کے گرد 17000 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے چکر کاٹنے میں مصروف ِعمل ہے۔ساتھ ہی ساتھ یہ دیگر سیاروں، ستاروں اور کہکشاؤں کی تصویریں کھینچ کر زمین پر موجود کنٹرول روم کی طرف روانہ کرتی ہے، جسے آبزرویٹری یا رصد گاہ کہا جاتا ہے۔(جاری ہے)