Blog

  • نوجوان فیس بک سے بےزار تو نہیں؟ تنویرالاسلام

    نوجوان فیس بک سے بےزار تو نہیں؟ تنویرالاسلام

    Tanveer ul Islamچند سال قبل یہ سننے میں آیا کہ نوجوان فیس بک سے بیزار ہوگئے ہیں، اور وہ دیگر سوشل میڈیا ویب سائٹس جیسے ٹوئٹر، انسٹاگرام وغیرہ کی طرف راغب ہو رہے ہیں، لیکن جلد ہی پتہ چلا کہ ایسا کچھ نہیں ہے اور وہ دوبارہ فیس بک کی طرف لوٹ رہے ہیں.
    فیس بک پہ صورتحال لمحہ بہ لمحہ تبدیل ہوتی رہتی ہے، لوگ آتے ہیں، چلے جاتے ہیں. شام کو جس چیز کا بڑا چرچا ہوتا ہے، اگلی صبح اس کا ذکر تک کہیں نہیں ہوتا اور اس کی جگہ ایک نئی بحث چھڑتی نظر آتی ہے. سوشل میڈیا کا خاصا ہی یہی ہے کہ یہاں چیزیں تیزی سے وقوع پذیر ہوتی ہیں اور پھر غائب ہو جاتی ہیں. اس سارے چکر میں البتہ ایک بات طے ہے: دنیا میں ہر کہیں فیس بک بہرحال نوجوانوں کے قبضے میں ہے، وہ ھر وقت اس پہ چھاۓ رہتے ھہں. ایک امریکی تحقیقا تی ادارے کا کہنا ہے کہ فیس بک اب بھی ہر عمر کے افراد میں مقبول ترین سوشل نیٹ ورک ہے لیکن اس کے استعمال کرنے والوں میں اکہتر فیصد تعداد ٹین ایجرز کی ہے.
    فیس بک کا مشن بڑا واضح ہے، اور وہ ھے لوگوں کو اس قابل بنانا کہ وہ آزادانہ دنیا میں کسی سے بھی رابطہ کریں اور معلومات کا تبادلہ کر سکیں. آج فیس بک کی بدولت لوگ اپنے دوستوں اور عزیز و اقارب سے ہر وقت جڑے رہتے ہیں. دنیا میں جونہی کوئی واقعہ رونما ہوتا ہے، اس سے آگاہ ہوتے ہیں، اس پر تبصرہ کرتے ہیں، دوسروں سے شیئر کرتے ہیں اور پھر چل سو چل. اپنی انھی خصوصیات کی بنا پر فیس بک ہر کہیں جوانوں کے دل کی دھڑکن ہے
    آخر دنیا میں کتنے نوجوان فیس بک استعمال کرتے ہوں گے؟ اس سوال کا صحیح جواب دینا کافی مشکل ہے. اعدادوشمار کا ایک گورکھ دھندہ ہے جو انٹرنیٹ پر بکھرا پڑا ہے. اور پھر اس پر بھی تو کسی 102165565-facebook.530x298کا اتفاق نہیں کہ جوان یا نوجوان کسے کہیں. ہر ملک اور ادارے کی اپنی ہی ایک تعریف ہے. بہرحال کریگ سمتھ نامی ایک صاحب کا کہنا ہے کہ دنیا میں پندرہ سے چونتیس سال کی عمروں کے درمیان نوجوانوں میں سے 66 فیصد فیس بک استعمال کرتے ہیں. ایک اور جگہ پتہ چلتا ہے کہ دنیا کے آدھے نوجوان ہفتے میں کم از کم ایک دفعہ فیس بک پر یہ ضرور شیئر کرتے ہیں کہ وہ کہاں ہیں اور کیا کر رہے ہیں. ایک اور تحقیق کے مطابق فیس بک اور اس پر پوسٹ کی گئی چیزیں اتنی کشش رکھتی ہیں کہ دنیا کے آدھے سے زائد نوجوان صبح اٹھتے ہی سب سے پہلے اپنی ٹائم لائن چیک کرتے ہیں. انسانی رویوں کو کھوجنے والے محقق بھی بعض اوقات کمال کرتے ہیں. ایک اور جگہ وہ بتاتے ہیں کہ لڑکے لڑکیاں تو فیس بک کے اتنے دیوانے ہیں کہ ان کی ایک بہت بڑی تعداد صبح بستر سے نکلنے سے پہلے اپنا فیس بک اکاؤنٹ چیک کرتی ہے کہ کیا چل رہا ہے. فیس بک واقعی اخیر قسم کی چیز ہے.

    بزرگ بھی کسی سے کم نہیں
    والدین کو تو چھوڑیں، دادے دادیوں اور نانے نانیوں کی بھی ایک بڑی تعداد فیس بک پر موجود ہے، حلانکہ یہ تو ان کے بچوں کے کھیلنے کی جگہ ہے. فیس بک پر بزرگوں کی آمد سے ایک نقصان یہ seniorہوا ہے کہ بعد اوقات لڑکے بالے یہاں سے غائب ہو جاتے ھہں، شاید وہ نہیں چاہتے کہ ان کے بڑے جان پائیں کہ وہ یہاں کیا کرتے ہیں؟ یا پھر حقیقت میں وہ کیا سوچتے ہیں؟ مجھے تو ایسے لگتا ہے کہ فیس بک انسانی تاریخ میں نوجوانوں کی وہ واحد سرگرمی ہے جس میں بزرگ بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں. میرے چچا ہی کی مثال لیں وہ بھی فیس بک پر ہیں حالانکہ وہ ماضی میں رہنے والی ہستی ہیں اور انھیں بدلتے حالات کے ساتھ اپنے آپ کو بدلنے سے کوئی سرو کار نہیں. اسی طرح میرے ایک سابقہ پرنسپل ہیں جو کہ پچھتر سے اوپر ہیں، وہ تو فیس بک پر بہت ہی سرگرم ہیں، بلاناغہ وہ اپنے طلبہ، دوستوں اور عزیزواقارب سے رابطے میں رہتے ہیں اور اپنے پیغامات کے ذریعے ان کی حوصلہ افزائی کرتے رہتے ہیں. میرے ایک دوست کی والدہ نہیں جب مجھے’’ فرینڈ ریکویسٹ” بھیجی تو مجھے بہت حیرت ہوئی کہ خالہ تو مذہبی پس منظر والی ایک گھریلو قسم کی خاتون ہیں، انھیں کیا لگائو فیس بک سے. بعد میں میں نے نوٹ کیا کہ اس طرح وہ فیس بک کے ذریعے غیر ممالک میں بسنے والے اپنی بیٹوں سے رابطے میں رہتی ہیں. سچ بات یہ ہے کے مجھے بہت اچھا لگا کہ فیس بک کے ذریعے والدین اپنے بچوں سے رابطے میں رہتے ہیں اور تنہائی کا شکار نہیں ہوتے اور دکھ سکھ کی باتیں شیئر کر لیتے ہیں. یہ بڑی مزیدار بات ہے کہ بڑی عمر کے لوگ بھی نئی چیزیں سیکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور فیس بک جیسی ٹیکنالوجی کو اپنا رہے ہیں کیونکہ اس کا ان کی زندگیوں سے گہرا تعلق ہے.

    شرمیلے اور تنہائی پسند افراد کی پناہ گاہ
    پاویکا شیلڈن جو کہ الباما یونیورسٹی امریکہ میں کمیونیکشن کے اسسٹنٹ پروفیسر ہیں، نے ایک دلچسپ تحقیق کی ہے. وہ کہتے ہیں کہ فیس بک استعمال کرنے والے لوگوں میں زیادہ تعداد شرمیلے لوگوں facebook_yearکی ہے، مگرفیس بک کی طاقت کا اصل سرچشمہ باتونی ٹائپ اور میل ملاپ رکھنے والے لوگ ہیں. باوجود اس کے کہ ان کے تعداد کم ہے کیونکہ یہ لوگ اپنی راۓ کا اظہار کھل کھلا کے کرتے ہیں جس سے ایک بحث چل نکلتی ہے اور اس میں کئی لوگ شامل ہو جاتے ہیں، اور یوں ان میں سے کئی کو وہ اپنا ہم خیال بھی بنا لیتے ھیں. جبکہ شرمیلے لوگ از خود کم ہی کسی بحث کا آغاز کرتے ہیں البتہ جب وہ دیکھتے ہیں کہ کسی موضوع پر ان کے ہم خیال لوگ موجود ہیں تو وہ بھی ان کی ہاں میں ہاں ملانا شروع کر دیتے ہیں. یوں ہم کہ سکتے ہیں کہ فیس بک پر بھی وہی لوگ مقبول ہوتے ھہں جو حقیقی زندگی میں دوسروں پر اثر انداز ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں.
    کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ سوشل میڈیا کے شائقین تنہائی کا شکار ہو جاتے ہیں حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے. وسکونسن یونیورسٹی امریکہ کی حال ہی میں کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق جو لوگ حقیقی زندگی میں تنہائی کا شکار ہوتے ہیں وہ فیس بک کی طرف زیادہ رجوع کرتے ہیں. یعنی جو جتنا تنہائی پسند ہوگا وہ اتنا ہی زیادہ فیس بک پر پایا جاۓ گا. وسکونسن یونیورسٹی میں کمیونیکشن کے اسسٹنٹ پروفیسر ہیون سونگ کہتے ہیں کہ تنہائی کا شکار افراد اپنے شرمیلے پن یا کمزور سماجی رشتوں کی بنا پر فیس بک میں اس لیے پناہ ڈھونڈتے ہیں تاکہ وہ اپنی ان محرومیوں کا ازالہ کا سکیں جن سے ان کا واسطہ حقیقی زندگی میں پڑتا ہے.
    اگرچہ فیس بک شائقین کے حوالے سے یہ مطالعے امریکی یا دیگر مغربی ممالک کے پس منظر میں کیے گئے ہیں لیکن اگر ہم اپنے اردگرد نظر دوڑائیں تو ہمارے ہاں بھی صورتحال بلکل ایسی ہی ہے. دیہات ہوں یا شہر ہر جگہ نوجوان لوگ فیس بک پر موجود دن رات اپنے وجود کا احساس دلا رہے ہیں. اسکول کالج کے طلبہ طالبات ہوں یا پھر دفتروں میں صفائی والے لڑکے، ہر کوئی مارک زکربرگ ( فیس بک کا بانی) کی اس تخلیق کا دیوانہ ہے. نوجوان جہاں اپنے لیے نئے حل تلاش کر رہے ہیں وہیں ایسے مسائل بھی جنم لے رہے ہیں جن کا آج کے بڑوں کو کوئی ادراک نہیں. دیکھنا یہ ہے کہ ہم نوجوانوں کے اس سفر میں کس حد تک ان کے معاون ثابت ہو سکتے ہیں تاکہ موج مستی کے ساتھ ساتھ وہ اپنے لیے ایک بھر پور اور صحت مند زندگی کی راہ بھی ہموار کر سکیں. پابندیاں لگانے کا تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا کیونکہ یہ ہمارے بس میں ہی نہیں ہے

  • ترکی زندہ باد!… مطیع اللہ جان

    ترکی زندہ باد!… مطیع اللہ جان

    news-1468710930-8684
    کیا لکھوں ؟ سب کچھ تو ترکی کے عوام نے لکھ دیا ہے ۔ ترکی کے شہریوں نے استنبول اور انقرہ کی سڑکوں پر جو تاریخ اپنے خون سے تحریر کر دی ہے وہ جمہوریت کی خالق تہذیبوں کے لیے بھی مشعل راہ ہے ۔ ترکی کے بوڑھے ، نوجوانوں،عورتوںاور بچوں نے باغی فوج کے ٹینکوں پر چڑھ کر جس جرأت اور بہادری کا مظاہرہ کیا اور ترکی کی پولیس نے سڑکوں ، گلیوں اور سرکاری ٹی وی چینل سے باغی فوجیوں کو جس بہادری سے گرفتار کیا اس سے ثابت ہو گیا ہے کہ غیرت مند قومیں اپنے ملک کے آئین سے وفاداری نبھاتے ہوئے کسی ٹینک یا توپ کو خاطر میں نہیں لاتیں ۔ فوجی بغاوت کیخلاف سڑکوں پر نکلنے والے تمام لوگ صدر طیب اردگان کے حامی نہیں تھے مگر انھیں اپنے ووٹ اور اپنے آئین کا پاس تھا ۔ ترک عوام کی خوش قسمتی ہے کہ انکی صفوں میں مارشل لاء اور فوج کو اقتدار پر قبضہ کرنے کی دعوت گناہ دینے والے غیرت سے عاری دھندے بازسیاستدان اور سیاسی جماعتیں نہیں رہیں۔ اردگان کی مخالف اپوزیشن جماعتوں نے بھی فوری طور پر فوجی بغاوت کو مسترد کر دیا ۔ دوسری طرف اردگان کی اپنی حکمران جماعت میں بھی کوئی ایسے لوٹے اور لٹیرے نہیں تھے کہ جنھوں نے بغاو ت کے فورا بعد اپنا سیاسی کعبہ و قبلہ تبدیل کر لیا ہو ۔ خدا کا شکر ہے کہ اردگان نے بھی ہمت اور جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ملک کے عوام میں ہی رہنے کا فیصلہ کیا ۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ ترکی کے میڈیا نے بھی بھرپور انداز میں اس بغاوت کی مخالفت کی اور اسکی ناکامی پر پاکستان کے کچھ حوالدار اینکروں میں صف ماتم بچھ گئی۔ ترکی میں ایسے حوالدار صحافی اور ٹی وی اینکر حضرات بھی نہیں تھے جو کسی حلوائی کی دکان پر مٹھائی خریدتے اور چکھتے لوگوں کو دکھا کر کہتے کہ لوگ حکومت کے جانے پر مٹھائیاں بانٹ رہے ہیں ۔
    ترکی میں کوئی ایسا تجزیہ کار بھی سامنے نہیں آیا جو اردگان حکومت کی ناکام پالیسیوں کو فوجی بغاوت کا ذمہ دار قرار دیتا ۔ اگر ترکی کی فوج نے بھی کاروباری سرگرمیوں سے کچھ پوشیدہ اور غیر پوشیدہ وسائل بنا لیے ہوتے تو آج بہت سے سیاستدان ، تجزیہ کاراور اینکر پرسن حضرات نمک حلال خاکروبوں کی مانند فوجی ٹینکوں کی آمد کیلئے سڑکوں پر جھاڑولگا رہے ہوتے ۔ کئی شدت پسند تنظیموں نے ترکی کے دفاع کے نام پر کونسلیں تشکیل دیدی ہوتیں۔ نوجوان نسل کو ’’سیاست نہیں ریاست بچاؤ ‘‘ کے نعرے سے گمراہ کیا جا چکا ہوتا۔وہاں کے خفیہ ادارے نئے باغی لیڈر کی تقریب رونمائی بڑی دھوم دھام سے کرتے ۔ ترکی کی فوج کے باغی گروپ تھوڑی سی محنت کرتے تو انھیں درجنوں ٹینکوں اور ہیلی کاپٹروں کی بجائے ایک جیپ اور دو ٹرک ہی درکار ہوتے اور پھر ڈیڑھ سو جانیں ضائع نہ ہوتیں ۔آسان نسخہ یہ تھا کہ کچھ عرصے تک ترکی کے عوام بالخصوص نوجوانوں میں سیاست اور سیاستدانوں کے خلاف نفرت پیدا کی جاتی ۔ان سیاستدانوں بشمول صدر اردگان اور انکے وزراء کے ٹیلی فون اور خفیہ طور پر ٹیپ کر کے اور سرکاری افسران کو ڈرا دھمکا کر انکی بدعنوانی کے ثبوت چند سال تک اکٹھے کیے جاتے ۔ گزشتہ الیکشنوں میں ہر پارٹی کے اندر اپنے مہروں کو ٹکٹ دلوا کر مختلف حلقوں سے جتوایا جاتا اور اس دھاندلی کے بھی ایسے ثبوت تیار کیے جاتے جو بعد میں کام آسکیں ۔چند سال کی اس محنت اور صبر کے دوران باقاعدہ طور پر ترکی کی فوج اور اسکے سربراہ کو اردگان سے زیادہ ملک کا وفادار ثابت کر نے والے بیانات اور تصاویر کو میڈیا میں شائع کر وایا جاتا اور آہستہ آہستہ ترکی کے عوام کو یہ باور کرادیا جاتا کہ اردگان صاحب ایک کرپٹ اور ملک دشمن سربراہ مملکت ہیں۔ جب عوام کو گمراہ کرنے کی یہ مہم مکمل ہو جاتی تو پھر شاید ترکی کی فوج کو اقتدار پر عملی طور پر قبضہ کرنے کی بھی ضرورت نہ رہتی۔ ترکی کی فوج کا سربراہ محض چھڑی ہاتھ میں گھماتے وزیر اعظم اردگان سے ملتا اور اپنے ادارے کیلئے وہ تمام وسائل حاصل کر لیتا جو اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد ہی شاید اسے نصیب ہوتے۔ ویسے بھی اب اصل جنگ اقتدار سے زیادہ وسائل پر قبضے کی ہے۔عوام نے باغی فوج کر خلاف تو ہونا ہی تھا ۔ ترک عوام کو ان کی فوج نے دیا ہی کیا ہے۔ نہ تو وہ تعلیمی ادارے ہیں جہاں بڑے بڑے پروفیسر حضرات فوج کے اقتدار کے فضائل بیان کرتے ، نہ ہی ترک فوج نے ایسی فلمیں بنائی ہیں کہ جن کے ذریعے آئین اور جمہوریت کیخلاف عوام میں نفرت پیدا کی جائے ۔ ترک فوجی سے تو اتنا بھی نہ ہو سکا کہ اپنی امپائر والی انگلی کسی سیاستدان کے حق میں ہی کھڑی کردیتے ۔ ترک فوج کے پاس تو کوئی فرزند استنبول یا فرزند انقرہ بھی نہیں جو سرعام اردگان کی حکومت جانے کی پیشین گوئی کرتا رہتا ۔ ترک فوج کیلئے ایک اور مسئلہ ماضی کے باغی فوجیوں کی بڑی تعداد کیخلاف اردگان کی سخت قانونی کاروائی بھی ہے جس میں فوج کے پروردہ صحافیوں کو بھی نہیں بخشا گیا ۔اردگان نے حکومت کی لگامیں اور رکابیں بھی قابو میں رکھیں جس کیلئے کل وقتی اور نڈر وزراء خارجہ و دفاع بھی تعینات کیے گئے ۔صدر اردگان کے جرأت مندانہ عملی اقدامات کے باعثہی ترک عوام میں فوجی بغاوت سے نفرت پیدا ہوئی ۔ حالیہ بغاوت کو ناکام بنانے میں سوشل میڈیا کا بھی بڑا کردار ہے ۔ سوشل میڈیا کے محاذ پر بھی ترکی کے باغی فوجیوں نے مار کھائی ۔ اگر یہ باغی فوجی اپنا کوئی اعلی عہدے کا ترجمان رکھ لیتے جو ٹویٹر اکاونٹ کے ذریعے اپنا پیغام عام کرتا رہتا یا پھر اپنی فوجی یونیورسٹیوں کے نوجوان طالب علموں کے ذریعے ہزاروں ٹویٹر اکاونٹ بنوا لیتاے تو آج سوشل میڈیا پر جمہوریت کی نحوست اور ترکی میں مارشل لاء کی فضیلت سے متعلق رائے عامہ ہموار ہو چکی ہوتی۔ سوشل میڈیا پر ہزاروں نوجوان اکاونٹ ہولڈرزفوجی بغاوت کی مخالفت کرنیوالے دانشوروں کو ماں بہن کی گالیاں نکال کر ایسا چپ کراتے کہ کوئی فوجی بغاوت کے خلاف دوبارہ منہ نہ کھولتا۔ اصل میں ترک فوج کو بندے بھی غائب کرنا نہیں آتے اور نہ ہی صحافیوں کا منہ بند کرنا آتا ہے۔ترکی کی عدالتیں بھی جب عدالتی تحقیقات کرتی ہیں تو بے نتیجہ رپورٹیں نہیں جاری کرتی ہیں۔ نجانے باغی فوجیوں نے ایسی بے ڈھنگی بغاوت کی تربیت کہاں سے حاصل کی ۔
    اس معاملے میں ہم پاکستانی بہت خوش قسمت ہیںاورہم میں سے کچھ ایسے ہی لوگ ترک عوام کی جرأت کو منافقانہ سلام بھی پیش کرتے ہیں۔منافقانہ اس لیے کہ ساتھ ہی یہ دلیل بھی دیتے ہیں کہ اردگان کی حکومت مقبولیت اور عوامی خدمت کے باعث بچ گئی ۔ نالائقی اور سوچ کی بددیانتی کی انتہا یہ ہے کہ کسی حکمران جماعت کی ناکامی پر دوسری سیاسی جماعت یا تیسری اور چوتھی سیاسی جماعت کو موقع دینے کی بات نہیں کرتے بلکہ پوری جمہوریت ہی کا بستر گول کرنے کی بات کرتے ہیں ۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے مفاد کے ایک پاؤ گوشت کے پیچھے جمہوریت کا پورا بیل کاٹنے کے انتظار میں رہتے ہیں ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اب جبکہ ترکی پاکستان نہیں بن سکا تو کیا پاکستان ترکی بن سکتا ہے ۔ مگر اس کیلئے نواز شریف کو اردگان بننا ہو گا ۔ اور پاکستانی عوام کو ترکی کے عوام کی طرح باشعور اور غیرت مند۔ فوجی بغاوت کو ناکام بنانے والے ترکی کے شہید ترک شہریوں کو قومی اعزاز کیساتھ دفنانا چاہیے اور ترک فوج کے سربراہ کو ان جنازوں کو سلیوٹ کرنا چاہیے۔ ترکی زندہ باد اور ترک عوام پائندہ باد۔

  • حتمی نقصان آج کی جماعت ہی کا ہو گا…نصرت جاوید

    حتمی نقصان آج کی جماعت ہی کا ہو گا…نصرت جاوید

    news-1468533571-2117
    تحریک انصاف کے سیکرٹری جنرل جہانگیر ترین صاحب، باقاعدہ طورپر PEMRAکے دفتر شکایت لے کر چلے گئے تو بخدا مجھے ’’اسی باعث تو منع کرتے تھے‘‘ والی طمانیت کا احساس نہیں ہوا۔دُکھ ہوا۔ غصہ آیا بھی تو اپنے ہی شعبے کے ان لوگوں پر جنہوں نے اپنے سیٹھوں کو Ratingsفراہم کرنے کے جنون میں ہمارے پیشے کے تمام بنیادی اصولوں کا کئی برسوں سے وحشیانہ قتل عام جاری رکھا ہوا ہے۔ رزق کی مجبوریاں ہوتی ہیں۔ ہر کوئی سرمد یا منصور حلاج نہیں ہوتا۔زندہ رہنے کے لئے بہت سمجھوتے بھی کرنا پڑتے ہیں۔ بچے پیدا کر لو تو ان کو ذراسکھ پہنچانے کے لئے کئی موقعوں پر سرجھکانا اور دلوں میں نرمی پیدا کرنا پڑتی ہے۔
    صحافت سے رزق کمانے کا اہتمام مگر آپ نے بہت سوچ سمجھ کر کیا ہے تو اس شعبے میں سٹاراینکرز سے قطع نظر تمام متعلقہ شعبوں کے لئے کام کرنے کی جو تنخواہ ملتی ہے، وہ نچلے اور درمیانی طبقے سے تعلق رکھنے والے دیگر ملازم پیشہ لوگوں کی تنخواہوں کے مقابلے میں عموماََ بہت کم ہوتی ہے۔کئی اداروں سے وہ تنخواہ وقت پر ہی نہیں کئی کئی مہینوں تک نہیں ملتی۔
    آپ مگر کام کرتے رہتے ہیں تو وجہ اس کی بنیادی صرف یہ ہوتی ہے کہ آپ کو صحافت سے عشق ہوتا ہے۔ جس پیشے سے آپ کو عشق رہا ہو اور اس عشق کے لئے آپ نے کئی ذلتیں اور اذیتیں بھی برداشت کررکھی ہوں اس کے تمام اصولوں کا قتل کرتے صرف سیٹھ کو Ratingsفراہم کرنے کے لئے کچھ بھی کرگزرنا بھی تو ہرگز ضروری نہیں رہتا۔بہتر یہی ہوتا ہے کہ صحافت چھوڑ کر سڑک کے کسی کنارے یا گلی کی نکڑ پر چھولے بیچنا یا سٹے بھوننا شروع کردو۔ صحافت کو بدنام نہ کرو۔ ربّ کریم رازق ہے۔ پتھرمیں بند ہوئے کیڑے کے رزق کا بندوبست بھی کسی نہ کسی طرح کردیتا ہے۔ ہم تو نام نہاد ’’اشرف المخلوقات‘‘ سے تعلق رکھنے کے دعوے دار ہوا کرتے ہیں۔ سیٹھ کو Ratingsکی فراہم کے لئے تمام انسانی قدروں اور اپنے ہی شعبے کے تمام بنیادی اصولوں کی پائمالی پر مجبور ہوگئے ہیںتو اندھی غلامی کئی اور شعبوں کی طرف منتقل ہوکر بھی برقرار رکھی جاسکتی ہے۔
    سیٹھ کو ہر صورت Ratingsفراہم کرنے کا جنون یا مجبوری، اسے جو بھی نام دے لیں، ہم پر طاری ہوا تو وجہ اس کی صرف اتنی ہے کہ ہمارے پیشے میں اہم ترین ایک شعبہ ہوا کرتا تھا۔ ’’ایڈیٹر‘‘ اس کا نام تھا۔تیمور کے گھر سے غیرت چلی گئی تھی۔ صحافت شعبے سے ایڈیٹر چلا گیا۔یہ ایڈیٹر سیٹھ اور کارکنان کے درمیان ایک Cushionکا کام کرنے کے ساتھ ہی ساتھ کارکنوں کے لئے ایک سخت Gate Keeperبھی ہوا کرتا تھا۔
    گیٹ کیپرسے یا د آیا کہ چند روز پہلے لاہور میں قائم پیمراکے شکایات سیل کے روبرو ایک سیٹھ پیش ہوئے۔ صحافت کے ایک مہا استاد مانے ڈاکٹر مہدی حسن بھی اسی سیل کے ایک رکن ہیں۔ انہوں نے سیٹھ سے رواداری میں پوچھ لیا کہ آپ کے ادارے میں کوئی گیٹ کیپر نہیں ہے تو سیٹھ نے ترنت جواب دیا کہ ’’چھ ریٹائرڈ فوجی ہمارے گیٹ کیپر ہیں۔ کوئی غیر ہمارے ادارے میں داخل ہونے کی جرأت ہی نہیں کرسکتا‘‘۔
    خود پر لعنت ملامت بھیجنے کے بعد دست بستہ جہانگیر ترین سے فریاد البتہ یہ بھی ہے کہ وہ ذرا یہ بھی یاد کرلیں کہ جب ان کی جماعت اسلام آباد میں دھرنا دئیے ہوئے تھی تو شیڈیولڈ پروگراموں کو روک کر ان کے قائد کا اس دھرنے سے خطاب بیک وقت تمام ٹی وی چینلوں سے براہِ راست دکھانے کا اہتمام کیسے ممکن ہوا کرتاتھا۔ کوئی تو تھا جو یہ انتظام چلارہا تھا۔ سیٹھوں کے چینلوں پر ہونے والے کئی Flagshipپروگراموں کے لئے اشتہارات کی بکنگ کئی ماہ پہلے ہوچکی ہوئی ہوتی ہے۔ سیٹھ ان اشتہارات سے ملنے والی رقم کو قربان کرنے پر کیوں تیار ہوا؟ مجبوری کیا تھی۔ یہ نازل کہا سے ہوئی اور اشتہارات نہ چلانے سے جو مالی نقصان ہوا اسے سیٹھ کی تسلی کے لئےCompensateکس نے اور کیسے کیا؟
    جہانگیر ترین صاحب کی وساطت سے ان تمام سوالات کے جوابات مل جائیں تو PEMRAکمزور نہیں سچ مچ کا ادارہ بن جائے گا۔ اس کے دانت نکل آئیں گے اور شاید یہ دانت کئی برسوں سے مرحوم ہوئے ایڈیٹر کے ادارے کی بحالی کا سبب بھی بن جائیں۔
    جہانگیر ترین صاحب سے ڈٹ جانے کی فریاد کرتے ہوئے میں انہیں ہرگز یہ بھی یاد نہیں دلائوں گا کہ ٹی وی پر کسی سیاستدان کی جانب سے اپنے مخالفین کو ’’اوئے‘‘ کہہ کر مخاطب کرنے کا چلن کس شخص نے متعارف کروایا تھا۔ میں Ratingsکو شرطیہ فراہم کرنے کی ضمانت دینے والے اس شخص کا نام بھی نہیں لوں گا جوعقلِ کل بنے اینکر حضرات کے ساتھ ون آن ون بیٹھتا ہے۔
    جنرل کیانی کے زمانے میں پوری مسلح افواج کو ’’ستو‘‘ پی کر سونے کا ملزم گردانتا تھا۔ جی ایچ کیو کے کسی گیٹ نمبر4یا پانچ کا تواتر سے ذکر بھی اسی شخص نے شروع کیا جہاں سے بقول اس کے وطن عزیز کے تمام سیاستدان چہرے چھپائے ’’ان‘‘ سے ہدایات لینے داخل ہوتے ہیں۔ اتفاق سے یہ شخص ان دنوں جہانگیر ترین صاحب کی جماعت میں باقاعدہ شامل ہوئے بغیر بھی ’’نیا پاکستان‘‘ بنانے کے جنون میں مبتلا اپنے تئیں نیکی وپارسائی کی علامت بنے’’انقلابی‘‘ کا Strategic Guruبھی بنا ہوا ہے۔ اگرچہ ان دنوں اس کے دل میں کافی شفقت اسی نوجوان سیاستدان کے لئے بھی پیدا ہوتی نظر آرہی ہے جسے ٹی وی سکرینوں پر وہ کبھی ’’بلورانی‘‘ کہہ کر مخاطب کیا کرتا تھا۔
    منگل کا پورا دن ہمارے ٹی وی چینلوں کی اکثریت نے جس انداز میں عمران خان صاحب کی مبینہ یا ممکنہ تیسری شادی کا ذکر صحافت کے تمام بنیادی اصولوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے کیا وہ یقینا قابلِ مذمت ہے۔ اس ضمن میں سب سے زیادہ قابلِ مذمت چند خواتین کا نام لینا اور ان کی تصاویر برسرِعام لانا ہے۔
    اہم سوال مگر یہ بھی ہے کہ عمرا ن خان صاحب کی مبینہ یا ممکنہ تیسری شادی کا امکان ہمارے دلوں میں کس نے اجاگر کیا۔ وہ کون تھا جس نے تیسری شادی کے ’’امکانات‘‘ لوگوں کے سامنے لائے اور سیٹھوں کے لئے Ratingsفراہم کرنے کے لئے کچھ بھی کرنے کو ہر وقت تیار ذہنی غلاموں کو ’’کھوجی‘‘ بنادیا۔
    جہانگیر ترین صاحب کو یاد نہ رہا ہو تو بتائے دیتا ہوں کہ ان کے قائد نے بھارت کے ایک بہت فروخت والے اخبار ہندوستان ٹائمز کو اتوار کے دن ایک تفصیلی انٹرویو دیا تھا۔ اسی کا پرنٹ آئوٹ چار صفحوں میں نکلتا ہے۔ اس پرنٹ آئوٹ کا ایک ایک لفظ غور سے پڑھیں۔ کپتان، جسے صحافیوں کو اپنی پسند کا سوال نہ کرنے پرShut up Callدینا خوب آتا ہے اس انٹرویو میں فضائل شادی بیان کرتا چلا گیا۔ ان فضائل کی روشنی میں انٹرویو لینے والے کے دل میں لامحالہ سوال اٹھا کہ کیا کپتان تیسری شادی بھی کرسکتا ہے۔ جب یہ سوال ہوا تو کپتان نے فوراََ کہا ’’کیوں نہیں‘‘ اور یہ بھی کہ وہ تنہائی سے اکتا چکا ہے اور ہارمان لینا اس کے خون میں شامل ہی نہیں۔ وغیرہ وغیرہ۔
    اس انٹرویو کی اشاعت کے بعد سیٹھوں کے لئے ہر صورت Ratingsفراہم کرنے کے لئے کچھ بھی کرنے کو تیار صحافی کہلاتے ملازم پیشہ ’’کھوجی‘‘ بن گئے تو سزاکے حق دار صرف وہ ہی کیوں؟ جہانگیر ترین صاحب اپنی ہی جماعت کی اس نام نہاد ’’سوشل میڈیا ٹیم‘‘ کے چلن پر بھی ذرا غور کرلیں تو کوئی مضائقہ نہیں۔ ویسے ایک آخری بات سیاست کا ادنیٰ طالب علم ہوتے ہوئے آپ کو بتائے دیتا ہوں۔ اپنے قائد کی مبینہ یا ممکنہ تیسری شادی کے نامناسب ذکر کے خلاف PEMRAکے روبروجہانگیر ترین صاحب جو شکایت لے کر پہنچے ہیں اس کا حتمی نقصان ان کی اپنی ہی جماعت کو پہنچے گا۔ اس سے بھی کہیں زیادہ ان کے قائد کے لال حویلی سے اُٹھے Guruکو بھی۔

  • غیر مہلک مگر مہلک ہتھیار…وسعت اللہ خان

    غیر مہلک مگر مہلک ہتھیار…وسعت اللہ خان

    557857-WusatullahNEWNEW-1468605895-811-640x480
    کشمیر میں جب دو ہزار دس میں دو لڑکیوں کے ریپ کے ردِعمل میں ریاست گیر بدامنی کی لہر اٹھی تو اسے دبانے کے لیے پولیس نے پیلٹ گن نامی نیا ہتھیار استعمال کیا۔ یوں سمجھئے کہ پیلٹ گن اس روائیتی چھرے والی بندوق کی خطرناک قسم ہے جس سے ہم اور آپ بچپن میں فاختاؤں اور کووں میں تمیز کیے بغیر شکار کرتے تھے یا خان لالہ کی چھرے دار بندوق سے ایک پیسہ فی نشانے کے ریٹ پر لکڑی کے چوکھٹے پر لگے غبارے پھوڑتے تھے۔
    کشمیرمیں استعمال ہونے والی پیلٹ گن میں سنگل چھرے کے بجائے کارتوس استعمال ہوتا ہے جس میں گول ، نوکیلے یا بال بیرنگ کی طرح کے چھرے بھرے ہوتے ہیں۔ جب کارتوس فائر ہوتا ہے تو سیکڑوں چھرے ہر طرف پھیل جاتے ہیں اور انسانی کھال کے اوپری حصے میں بھی گھس سکتے ہیں۔ عام طور پر پیلٹ گن سے سیدھا فائر نہیں کیا جاتا بلکہ فضا میں یا ذرا نیچے کی جانب گن رکھ کے فائر کیا جاتا ہے تا کہ انسان کے سر، چہرے، سینے اور اعضائے رئیسہ کو نقصان نہ پہنچے۔ زیادہ سے زیادہ یہ ہو کہ ٹانگیں زخمی ہو جائیں اور لوگ گھبرا کر منتشر ہو جائیں۔ تاہم کشیمری پولیس تازہ بدامنی کو روکنے کے لیے پیلٹ گن سے سیدھے سیدھے نشانے لگا رہی ہے۔
    پچھلے ایک ہفتے کے دوران تین سو کے لگ بھگ مظاہرین مرد، عورتیں اور بچیاں سپتال پہنچائے گئے۔ ان کے جسم کے اوپری حصے دیکھ کے لگتا ہے گویا فولادی چیچک نکلی ہوئی ہو۔ ڈاکٹروں کو تقریباً نصف زخمیوں کی سرجری کرنا پڑی۔ پندرہ تا بیس مظاہرین ایسے ہیں جن کی کم ازکم ایک آنکھ کو جزوی یا مکمل نقصان پہنچا اور پانچ کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہ بصارت سے کلی محروم ہو گئے۔ چونکہ پیلٹ گن سے ہلاکت شاز و نادر ہوتی ہے لہذا اسے غیر مہلک ہتھیاروں کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔ مگر وہ جو کہتے ہیں کہ بعض اوقات معذوری موت سے بھی زیادہ تکلیف دہ بن جاتی ہے۔
    عجب تماشہ ہے کہ مشتعل ہجوم منتشر کرنے کے لیے بھارت میں کہیں اور پیلٹ گن کے استعمال کے بارے میں نہیں سنا گیا مگر کشمیر میں گزشتہ چھ برس کے دوران یہ دوسری بار استعمال ہو رہی ہے۔ دو ہزار دس میں ریاستی وزیرِ اعلی عمر عبداللہ تھے جب پولیس نے جنوبی ضلع اننت ناگ میں پہلی بار مشتعل ہجوم کے خلاف پیلٹ گن کا استعمال کیا۔ اس وقت مفتی محمد سعید کی پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی حزبِ اختلاف تھی اور پارٹی رہنما محبوبہ مفتی نے اسمبلی میں ہنگامہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ عبداللہ حکومت کشمیر کی نوجوان نسل کو پیلٹ گن کے ذریعے نابینا کرنا چاہتی ہے۔
    دو ہزار دس کے ہنگاموں میں ایک سو بارہ کشمیری جاں بحق اور تین ہزار کے لگ بھگ زخمی ہوئے۔
    آج محبوبہ مفتی وزیرِ اعلی ہیں اور ان کی ترجمان اور وزیرِ تعلیم نعیمہ اختر کہہ رہی ہیں کہ جب تک کوئی معقول غیر مہلک متبادل طریقہ میسر نہیں آتا تب تک پیلٹ گن کا استعمال مجبوری ہے۔
    ایک زمانہ تھا کہ پولیس والے کی کمر سے لگا فٹ بھر کا ڈنڈا غصیلے شہریوں کو قابو میں رکھنے کے لیے کافی سمجھا جاتا تھا۔ یہ ڈنڈا سب سے پہلے لندن پولیس کو اٹھارہ سو اڑتالیس میں فراہم کیا گیا۔ مگر ہجوم کو منتشر کرنے کی تربیت و آلات سے مسلح پہلا خصوصی پولیس دستہ چین کے شہر شنگھائی میں انیس سو پچیس میں برطانوی نوآبادیاتی انتظامیہ نے استعمال کیا۔ اس وقت کا شنگھائی افیون کی تجارت کے سبب اسمگلنگ اور جرائم پیشہ مافیا کا عظیم مرکز تھا۔ برطانوی ہندوستان میں پولیس کا سب سے بڑا ہتھیار پانچ پانچ فٹ کی وہ لاٹھیاں تھیں جن کے ایک سرے پر لوہے کا سانچہ منڈھا ہوتا تھا۔ مجمع پھر بھی قابو میں نہ آتا تو پولیس کو پہلے ہوائی فائرنگ اور پھر سیدھی گولی چلانے کا حکم ملتا۔ یوں درجنوں مظاہرین ہلاک ہو جاتے۔
    مگر ساٹھ کے عشرے میں امریکا، برطانیہ اور بعدازاں اسرائیل نے کراؤڈ کنٹرول کے لیے نت نئے غیر مہلک موثر ہتھیار بنانے پر سنجیدگی سے کام شروع کیا۔ آج دنیا بھر میں کراؤڈ کنٹرول کے لیے جو ہتھیار یا مواد استعمال ہو رہا ہے وہ زیادہ تر برطانیہ اور امریکا کی عرق ریزی کی دین ہے۔
    ساٹھ کے عشرے میں امریکا میں سیاہ فاموں نے شہری آزادیوں کے لیے مظاہرے شروع کیے تو انھیں منتشر کرنے کے لیے تربیت یافتہ کتوں، گھڑ سوار پولیس دستوں اور سی ایس گیس (آنسو گیس) کے گولوں کا استعمال شروع ہوا۔ بعد کے برسوں میں پیپر سپرے (مرچیلی پھوار) بھی آزمایا جانے لگا۔ اس کے استعمال سے وقتی اندھا پن اور متلی جنم لیتی ہے اور نشانہ بننے والا کچھ دیر کے لیے مفلوج ہو جاتا ہے۔ بھارت میں ڈرونز کے ذریعے مرچ مصالحہ بم گرانے کے تجربات ہو رہے ہیں۔ ممکن ہے کشمیر جیسے خطوں میں اگلی بار مظاہرین کو کنٹرول کرنے کے لیے ریموٹ کنٹرولڈ مصالحے دار ڈرونز استعمال ہوں۔ ڈرون ٹیکنالوجی کے ذریعے فضا سے سی ایس گیس کے شیل گرانا بھی ممکن ہے۔
    ساٹھ کے عشرے میں ہی امریکا میں شہری آزادیوں کے طالبوں کے خلاف واٹر کینن (آبی توپ) کا استعمال شروع ہوا۔ اس میں بعد ازاں نت نئی اختراعات ڈالی گئیں۔ جیسے رنگین پانی کا پریشر پائپ استعمال کرنے سے نہ صرف مجمع اکھڑ جاتا ہے بلکہ جس جس پر یہ رنگین پانی پڑتا ہے اسے بعد ازاں حراست میں لینا آسان ہوتا ہے۔ فلسطینی انتفاضہ کے دوران اور آج بھی اسرائیلی پولیس اور فوج جو آبی توپیں استعمال کرتی ہے ان میں کیمیکلز کی مدد سے ایسی بدبو پیدا کی جاتی ہے جو کئی کئی دن بدن سے نہیں جاتی۔ اس کے علاوہ گلے سڑے پھلوں، انڈوں اور انسانی فضلے کی شدید بو پیدا کرنے والے سٹنک بم بھی متعدد ممالک کے پولیس اسلحہ خانوں میں پڑے ہیں۔
    ربڑ کی گولیوں کا پہلے پہل استعمال برطانوی فوج نے انیس سو ستر میں شمالی آئرلینڈ کے فسادات پر قابو پانے کے لیے شروع کیا۔ انیس سو تہتر میں پلاسٹک کی گولیاں بھی استعمال ہونے لگیں۔ سن ستر سے دو ہزار پانچ کے درمیان برطانوی فوج نے شمالی آئر لینڈ میں سوا لاکھ سے زائد ربر اور پلاسٹک کی گولیاں فائر کیں۔ ان سے سترہ ہلاکتیں ہوئیں، سو سے زائد لوگ معذور اور ان گنت زخمی ہوئے۔ اسرائیلی دستے ربڑ کی گولیاں بکثرت استعمال کرتے ہیں۔ جب کہ امریکی پولیس اور برطانوی نوآبادیاتی دور کی ہانگ کانگ پولیس نے نوکیلی چوبی گولیوں کو بھی مظاہرین پر بارہا آزمایا۔ کہنے کو ربڑ، پلاسٹک یا لکڑی کی گولیاں غیر مہلک بتائی جاتی ہیں بس ہڈی ہی تو توڑ سکتی ہیں اور قریب سے فائر کی جائیں تو بس اندرونی اعضا کو نقصان ہی تو پہنچا سکتی ہیں…
    اور اب امریکا میں اکیسویں صدی کے ہجوم کو کنٹرول کرنے کے لیے اکیسویں صدی کا ہتھیار لراڈ ( لانگ رینج ایکوئسٹک ڈیوائس) بھی میدان میں اتار دیا گیا ہے۔ لراڈ ایک سائرن کی طرح ہے۔ اس کی آواز اس قدر شدید ہے کہ اسے شوریدہ سمندر میں ایک دوسرے سے خاصے فاصلے پر تیرتے جہازوں کو پیغام پہنچانے کے لیے تخلیق کیا گیا۔ لراڈ کی مدد سے مشرقی افریقی ساحل پر متحرک بحری قزاقوں کا حوصلہ پست کرنے کا بھی کام لیا جاتا ہے۔ ہنگامی حالات میں اسے لوگوں کو خبردار کرنے کے بھی کام لایا جاتا ہے۔ مگر اب اسے مجمع بھگانے کے لیے برتا جا رہا ہے۔ امریکا میں وال اسٹریٹ پر قبضہ کرو تحریک کے مظاہرین اور گزشتہ برس فرگوسن میں سیاہ فام بے چینی کو کنٹرول کرنے کے لیے لراڈ کا استعمال ہو چکا ہے۔ صورتحال کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے لراڈ سے اتنی فریکوئنسی کی آواز پیدا کی جا سکتی ہے گویا صورِ اسرافیل پھونک دیا گیا ہو۔ مظاہرین عارضی طور پر بہرے اور شدید سر درد میں مبتلا ہو کر اپنے حواس کھو سکتے ہیں۔
    کراؤڈ کنٹرول آلات کی تیاری کرنے والی ایک امریکی کمپنی تیسرا انٹرنیشنل نے شاک ویو ڈیوائس کی تیاری بھی شروع کر دی ہے۔ ایک شیل میں پچیس فٹ یا اس سے زیادہ کی تار گھچے کی شکل میں ہوتی ہے اور جب یہ شیل فائر کیا جاتا ہے تو تار ایک ہلال کی صورت مجمع پر گرتی ہے۔ جس جس کا جسم چھوتا ہے اسے بیس سیکنڈ کے لیے اتنے شدید برقی جھٹکے لگتے رہتے ہے کہ انسان باؤلا ہو جائے۔ اور پھر متاثرین کی گرفتاریاں شروع ہو جاتی ہیں۔ امریکی فوج نے عراق میں ڈائزل لیزر بھی استعمال کی ہے۔ ایم فور رائفل پر یہ لیزر ڈیوائس باآسانی نصب ہو سکتا ہے اور اس سے نکلنے والی سبز شعاع چند گھنٹے کے لیے اندھا کر سکتی ہے۔ امریکی فوج اس آلے کا استعمال فوجی چوکیوں کے قریب آنے والے مشکوک عراقی ڈرائیوروں کے خلاف کرتی رہی ہے۔
    زیادہ تر کراؤڈ کنٹرول آلات شروع میں فوجی مقاصد کے لیے ڈویلپ کیے جاتے ہیں اور بعد میں ان کا سویلین استعمال شروع ہو جاتا ہے۔ مظاہرین اور کنٹرول کرنے والوں کے درمیان یہ دوڑ نہ ختم ہونے والی ہے۔ مگر ہر نیا جبر اپنے ہتھیار اور ان کا توڑ لاتا رہے گا۔

  • سیکھنے والی چند باتیں….جاوید چوہدری

    سیکھنے والی چند باتیں….جاوید چوہدری

    558982-JavedChaudhryNew-1468696733-317-640x480

    آپ فجی کی مثال بھی لیں مگر فجی کی طرف جانے سے پہلے میں آپ کو TAFE کے بارے میں بتاتا چلوں، آسٹریلیا میں تعلیم دو حصوں میں تقسیم ہے، ٹیکنیکل ایجوکیشن اور ہائیر ایجوکیشن، اسکول بارہ جماعتوں تک ہیں، طالب علم کے پاس بارہ جماعتوں کے بعد دو آپشن ہوتے ہیں، یہ براہ راست یونیورسٹی چلا جائے یا پھر یہ ٹیکنیکل ایجوکیشن کی طرف نکل جائے، حکومت نے ٹیکنیکل ایجوکیشن کے لیے ٹیکنیکل اینڈ فردر ایجوکیشن( TAFE) کے نام سے ایک ادارہ بنا رکھا ہے۔

    یہ ادارہ ملک میں ڈپلومہ کورسز کرواتا ہے، حکومت نے TAFE کو کامیاب بنانے کے لیے ملک بھر میں سرکاری اور پرائیویٹ نوکریوں کے لیے لائسنس لازمی قرار دے دیے ہیں، لائسنس کے لیے ڈپلومہ ضروری ہے اور ڈپلومہ کے لیے کورس اور یہ کورس TAFE کرواتا ہے، آپ فرض کیجیے، آپ آسٹریلیا میں کسی کے گھر ٹونٹی ٹھیک کرنے جاتے ہیں، مالک مکان آپ سے پہلے پلمبرنگ کا لائسنس مانگے گا، آپ ٹونٹی کو ہاتھ لگانے سے پہلے لائسنس دکھائیں گے اور اس لائسنس کا مطلب ہوگا آپ باقاعدہ TAFE کی چھلنی سے نکلے ہوئے کاری گر ہیں۔

    آپ کو نرسنگ اور کمپاؤنڈر کے لیے بھی کورس کرنا پڑتا ہے، گھاس کاٹنے کے لیے بھی، چپڑاسی کے لیے بھی، سیکیورٹی جاب کے لیے بھی اور اکاؤنٹس کی دیکھ بھال کے لیے بھی کورسز ضروری ہیں، یہ ادارہ سال دو سال بعد کورسز تبدیل کرتا رہتا ہے، نئے کورس پرانے ورکرز کے لیے بھی لازمی ہوتے ہیں تا کہ پرانے ورکروں کو بھی نئی ٹیکنالوجی سے متعارف کرایا جا سکے، آسٹریلیا میں تعمیرات کا سسٹم یورپ سے زیادہ سخت ہے، آپ آرکی ٹیکٹ اور کونسل کی اجازت کے بغیر اپنے لان میں کھدائی تک نہیں کر سکتے۔

    آرکی ٹیکٹ مکان بنانے سے پہلے تمام ڈرائنگز کونسل میں جمع کراتا ہے، یہ فائل کی شکل میں ہوتی ہیں اور اس فائل میں پلمبرنگ، بجلی، کنکریٹ، پینٹ، گیس اور اینٹ کا کام کرنے والے تمام مستریوں کے نام، پتے، ٹیلی فون اور لائسنس کی کاپیاں لگی ہوتی ہیں، یہ تمام لوگ سات سال تک اپنے کام کے ذمے دار ہوتے ہیں، کام میں کسی قسم کی گڑ بڑ کے بعد ان لوگوں کے لائسنس منسوخ ہو جاتے ہیں اور یہ بے روزگاری بھگتنے پر مجبور ہو جاتے ہیں، ڈاکٹروں اور انجینئرز کو بھی خود کو ’’اپ ڈیٹ‘‘ رکھنے کے لیے کورسز کرنا پڑتے ہیں۔

    حکومت نوکری اور کام کرنے والے لوگوں کو بھی ڈپلوموں کی سہولت فراہم کرتی ہے، ملک بھر میں ہزاروں پرائیویٹ ٹیکنیکل ادارے ہیں، یہ ادارے ’’آر ٹی او‘‘ کہلاتے ہیں، یہ آر ٹی اوز ملازمت پیشہ لوگوں کو مفت کورس کی ترغیب دیتے ہیں، یہ ورکرز کو کورس کراتے ہیں، سر  ٹیفکیٹ اور ڈپلومہ جاری کرتے ہیں اور کورس کے تمام اخراجات حکومت آر ٹی او کو ادا کرتی ہے، یہ آر ٹی اوز بھی آگے چل کر TAFE سے منسلک ہوتے ہیں چنانچہ اسکول کے بعد آسٹریلین نوجوانوں کے پاس دو آپشن ہوتے ہیں۔

    یہ اعلیٰ تعلیم کے لیے یونیورسٹی میں داخلہ لے لیں یا پھر ٹیکنیکل ڈپلومہ کر کے عملی زندگی میں آ جائیں، نوجوانوں کی زیادہ تر تعداد دوسرا آپشن پسند کرتی ہے، یہ عملی زندگی کو اعلیٰ تعلیم پر فوقیت دیتے ہیں، ہم بھی یہ ماڈل کاپی کر سکتے ہیں، ہم اسکولوں کو ایف اے یا ایف ایس سی تک وسیع کریں، بارہ جماعتوں کو لازمی قرار دیں، ملک کے ہر بچے کے لیے ایف اے تک تعلیم ضروری ہو، ملک بھر کے تمام کالجوں کو ٹیکنیکل اداروں میں تبدیل کر دیں اور اسکول کے بعد طالب علموں کو دو آپشن دیں۔

    یہ براہ راست یونیورسٹی چلے جائیں یا پھر یہ ٹیکنیکل ڈپلومہ کریں، ہم ڈپلومہ کو باعزت بنانے کے لیے ان کے نام تبدیل کر دیں، حکومت میڈیکل کے شعبوں میں ڈپلومہ لینے والوں کو اسسٹنٹ ڈاکٹر، انجینئرنگ کے شعبوں میں ٹیکنیکل ایجوکیشن حاصل کرنے والوں کو اسسٹنٹ انجینئر اور اکاؤنٹس کے شعبوں میں ڈپلومہ ہولڈرز کو اسسٹنٹ اکاؤنٹنٹ ڈکلیئر کر دے، اس سے شعبوں کی عزت میں بھی اضافہ ہو گا اور کام کرنے والوں کا اعتماد بھی بڑھے گا، حکومت اس کے ساتھ ہی ملک میں ہر قسم کے کام کے لیے لائسنس بھی لازمی قرار دے دے اور لائسنس کے لیے ڈپلومہ بھی ضروری ہو۔

    اب سوال پیدا ہوتا ہے ہم ان ’’چھوٹوں‘‘ کا کیا کریں گے جو اسکول نہیں جا سکے، جنھوں نے پانچ سال کی عمر میں استاد کی مار کھانا شروع کی اور جو مار کھاتے کھاتے استاد بن گئے، ان بے چاروں کے پاس تجربہ ہے لیکن تعلیم نہیں، یہ لوگ بھی آسٹریلین ماڈل سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں، حکومت ملک میں ہزاروں کی تعداد میں ’’آر ٹی او‘‘ بنوا ئے، یہ پرائیویٹ ادارے ہوں اور یہ ملک بھر کے چھوٹوں کو چھوٹے چھوٹے کورسز کروائیں، انھیں لکھنا پڑھنا اور دستخط کرنا بھی سکھائیں اور انھیں ٹیکنیکل تعلیم بھی دیں، یہ ایک طویل کام ہے لیکن ہم اگر آج یہ کام شروع کر دیں تو مجھے یقین ہے ہم پانچ سال میں ملک کا سسٹم بدل سکتے ہیں۔

    ہم نے بس ٹیکنیکل ایجوکیشن کی ڈیمانڈ پیدا کرنی ہے اور یہ ڈیمانڈ صرف لائسنس لازمی قرار دینے سے پیدا ہو جائے گی اور اس کے بعد وقت گزرنے کے ساتھ حالات تبدیل ہوتے چلے جائیں گے، ہم اب آتے ہیں فجی کی طرف، فجی نے ملک بھر میں آسٹریلیا کی مدد سے TAFE کے ادارے قائم کر دیے ہیں، یہ ادارے فجی کے نوجوانوں کو آسٹریلین معیار کے مطابق ٹریننگ دیتے ہیں، امتحان بھی ٹیف لیتا ہے، یہ ان نوجوانوں کو ڈپلومہ جاری کرتا ہے اور یہ نوجوان ڈپلومہ کی بنیاد پر آسٹریلین شہریت اپلائی کر دیتے ہیں اور یوں یہ باعزت طریقے سے آسٹریلیا پہنچ جاتے ہیں، ہم بھی ٹیف کے ساتھ اس قسم کا بندوبست کر سکتے ہیں، یہ ملک اور عوام دونوں کے لیے بہتر ہوگا۔

    آسٹریلیا میں دو جولائی کو الیکشن تھے، میں جون کا پورا مہینہ آسٹریلیا میں آتا جاتا رہا لیکن مجھے پورے ملک میں کسی قسم کی الیکشن مہم نظر نہیں آئی، بس سڑکوں کے کنارے گرین بیلٹس میں امیدواروں کی تصویروں کے چھوٹے چھوٹے اسٹینڈ رکھے تھے اور ان پر صرف تین لفظ لکھے تھے ’’ووٹ فار۔۔‘‘ ملک میں اس کے علاوہ کسی جگہ کوئی بورڈ، کوئی بینر اور کوئی چاکنگ نہیں تھی، تاہم امیدواروں نے اپنے حلقے کے ووٹروں کو خط ضرور لکھے، یہ خط پرنٹ شدہ تھے اور ان میں امیدوار نے اپنی سابق کارکردگی بتائی تھی، اپنے مستقبل کے منصوبوں کا حوالہ دیا تھا اور اس کے بعد ووٹ کی اپیل کی تھی۔

    میں الیکشن کے دن سڈنی کے مضافات میں لیور پول کے ایک الیکشن سینٹر میں چلا گیا، سینٹر کے باہر مختلف امیدواروں کے حامی کھڑے تھے، یہ لوگ ووٹروں کو اپنے اپنے امیدواروں کے پمفلٹ پکڑاتے جا رہے تھے، میں بھی ووٹروں کی قطار میں کھڑا ہو گیا، میں دوسرے ووٹروں کے ساتھ چلتا ہوا اندر داخل ہو گیا، مجھ سے کسی نے شناخت پوچھی اور نہ ہی کسی نے مجھے روکا، الیکشن کا عملہ اندر ووٹروں سے ان کا نام پوچھتا، ووٹر لسٹ سے نام کی تصدیق کرتا اور انھیں بیلٹ پیپر پکڑا دیتا، ووٹر امیدوار کے نام کے سامنے ’’ٹک‘‘ کرتے اور اپنا ووٹ باکس میں ڈال دیتے۔

    بیلٹ باکس گتے کا بنا ہوا تھا اور یہ سیل بھی نہیں تھا، میں بوتھ کے اندر پھرتا رہا، مجھے وہاں بھی کسی نے نہیں روکا، آسٹریلیا میں ووٹر تمام امیدوار پر ’’ٹک‘‘ کرنے کا پابند ہے، آپ فرض کیجیے ایک حلقے میں دس امیدوار ہیں، ووٹر اپنی ترجیح کے مطابق تمام امیدواروں کے سامنے ٹک کرے گا، بیلٹ پیپر کے اوپر پارٹیوں کے نام بھی چھپے ہوتے ہیں، ووٹر امیدوار کی بجائے پارٹی پر بھی ’’ٹک‘‘ کر سکتا ہے یوں یہ ووٹ براہ راست پارٹی کے امیدوار کو چلا جائے گا، آسٹریلیا میں ووٹر ٹرن آؤٹ عموماً94فیصد ہوتا ہے، ہم اس بلند ترین ٹرن آؤٹ سے بھی بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔

    آسٹریلیا میں ووٹ لازمی ہے، آپ اگر ووٹ کاسٹ نہ کریں تو آپ کو بیس ڈالر جرمانہ بھی ادا کرنا پڑتا ہے اور الیکشن کمیشن کو ووٹ نہ دینے کی وجہ بھی بتانی پڑتی ہے، الیکشن کمیشن اگر مطمئن نہ ہو تو یہ جرمانہ 180 ڈالر ہو جاتا ہے اور آپ کے خلاف عدالتی کارروائی بھی شروع ہو جاتی ہے چنانچہ آسٹریلیا کے 94فیصد ووٹر الیکشن کے دن ہر صورت ووٹ کاسٹ کرتے ہیں، ہمارا الیکشن کمیشن بھی ملک میں یہ ماڈل متعارف کروا سکتا ہے، آپ ووٹ کاسٹ نہ کرنے والوں کو بھاری جرمانہ کریں، آپ دیکھئے گا ہمارا ٹرن آؤٹ بھی دوگنا ہو جائے گا۔

    آسٹریلیا نے جرمانے کے ساتھ ساتھ ترغیب کو بھی بڑی خوبصورتی سے استعمال کیا، پورا ملک جاسوس ہے، ملک کا کوئی بھی شہری ملک بھر میں ہونے والی گڑ بڑ بتا کر 50 ڈالر انعام وصول کر سکتا ہے، یہ اسکیم پورے ملک اور تمام شہریوں کے لیے ہے لہٰذا آسٹریلیا میں دو کروڑ 43 لاکھ لوگ رہتے ہیں اور یہ تمام اڑھائی کروڑ لوگ ریاست کے جاسوس ہیں۔

    ملک میں کسی جگہ ایکسیڈنٹ ہو جائے، لوگ چند سکینڈ میں پولیس اور ایمرجنسی کو فون کر دیتے ہیں، یہ کسی جگہ کسی شخص کو کوئی غیر قانونی حرکت کرتے دیکھیں، انھیں کوئی مشکوک شخص نظر آ جائے، کوئی مشکوک بیگ ملے، کسی جگہ کوئی شخص سگریٹ کا ٹوٹا پھینک دے، آپ غلط ڈسٹ بین میں غلط چیز ڈال رہے ہوں، آپ نے بجلی کی تار پر کنڈا لگا رکھا ہو، آپ لان میں کھدائی کر رہے ہوں، آپ نے اپنی گاڑی کی مرمت خود شروع کر دی ہو۔

    آپ غلط جگہ پر گاڑی کھڑی کر گئے ہیں، آپ نے پانی کی لائین توڑ دی، آپ پودوں، درختوں یا جانوروں کو نقصان پہنچا رہے ہیں، آپ گلی میں شور کر رہے ہیں، آپ لوگوں کو تنگ کر رہے ہیں، آپ فٹ پاتھ پر گر گئے ہیں، آپ کا کتا بھونک رہا ہے یا پھر آپ گھر سے یونیورسٹی کے لیے نکلتے ہیں اور کلب میں چلے جاتے ہیں، آپ کے قریب کھڑا شخص، آپ کا ہمسایہ یا آپ کا دوست پولیس یا ایمرجنسی کو فون کر دے گا، پچاس ڈالر وصول کرے گا اور آپ اور آپ کی حرکتیں نظام کے سامنے آ جائیں گے۔

    آپ حکومت سے چھپ نہیں سکیں گے، ہمارے خفیہ ادارے بھی یہ ماڈل کاپی کر سکتے ہیں، ہم دہشت گردی کے خوفناک دور سے گزر رہے ہیں، ہمارے اداروں کو اس عفریت کے مقابلے کے لیے جاسوسی کا وسیع نیٹ ورک چاہیے، ہم عوام کو اس عمل کا حصہ بنا کر یہ جنگ زیادہ آسانی سے لڑ سکتے ہیں، آپ اطلاعات دینے والوں کے لیے انعامی رقم کا اعلان کریں، یقین کریں ملک میں اس کے بعد دہشت گرد ہوں یا مجرم کوئی شخص حکومتی نظر سے نہیں بچ سکے گا، ہم یہ ماڈل بھی ٹرائی کرسکتے ہیں۔

  • خبطِ عظمت – احسان عزیز

    خبطِ عظمت – احسان عزیز

    ihsan azizہم کس سمت جا رہے ہیں. اپنے عقیدے اور خود پسندی کا بوجھ اُٹھائے.
    تعصبات کے کاروبار میں کوئی بھی ماننے کو تیار نہیں کہ
    ’’انسان تعصب سے پاک ہو ہی نہیں سکتا‘‘
    چاہے وہ مذہبی ہو یا سیکولر،
    کسی بھی مذہبی یا سیکولر سے بات کر کے دیکھ لیں، ہر کوئی یقین کامل کے تحت
    حق اور سچ کا شاہ بنا بیٹھا ہے۔ اور ہر اک کے ہاتھ میں اپنے اپنے یقین کی تلوار ہے.
    اک دوجے کو جاہل جانتاہے
    دوجا جان لینے سے کم یہ راضی نہیں
    جبکہ دونوں کا جنم اک ہی کوکھ سے ہے
    اور
    وہ ہے
    ’’تقلید‘‘
    جس کے سبب سوچ کے سوتے خشک ہیں.
    فکر کو بھوک لے بیٹھی ہے.
    سچ پہ ضرورت کا پہرا ہے.
    وراثت میں حماقت ہے.
    مقلدوں کو تقلید نے اندھا کرچھوڑا ہے.
    تنقید توہین کے پہاڑ سے سہمی بیٹھی ہے.
    اللہ مولوی کے ہاتھوں یرغمال ہے.
    آزاد خیال کو نفس پرستی نہیں چھوڑتی
    اور
    مغرب کی ترقی نے مشرق کو سہل پسند کر چھوڑا ہے
    اور
    خبطِ عظمت کے سبب سب اپنے اپنے خول میں مقید ’’ضربِ حق‘‘ لگا رہے ہیں
    اور حاصل جمع صرف اور صرف ’’تقسیم‘‘ آرہا ہے
    لیکن کیا یہی سچ ہے؟
    کیا صرف تعصب رکھنا اور مقلد ہونا ہی گناہِ عظیم ہے؟
    اگر یہ دونوں رویے اتنے ہی بُرے تھے تو ہمارے اجداد نے تو اسی کے سبب ترقی کے زینے چھیڑے تھے۔ قبائلی تعصب سے لے کر وطن پرستی تک تعصب کے زمرے میں ہی آتا ہے. یعنی کہ تعصب کا جز منفی نہیں بشرطیکہ اس کا استعمال مثبت کیا جائے. اقوام عالم میں ترقی کے لیے اپنے ملک کے تحفظ کے لیے کیا جائے تو ثمر آور نتائج دیتا ہے جبکہ ہمارے ملک میں تعصب کا استعمال صرف اور صرف منفی انداز میں کیا جا رہا ہے. ہم نے نسلی، لسانی، فرقہ وارانہ منافرت کی طرف دوڑ لگائی ہوئی ہے جس کا منطقی انجام صرف اور صرف نفرت اور تقسیم ہے.
    اس کے سواحل کوئی نہیں کہ ہم رنگ، نسل، مذہب، فرقہ بازی سے ایک قدم آگے نکل کے تعصب کا مثبت استعمال کرتے ہوئے امن واتحاد کی راہ پر گامزن ہوں. رہی بات تقلید کی تو زمانہ جاہلیت سے لے کر عصر حاضر تک کی تمام تر ترقی تقلید کے سبب ہے. اگر مقلد کا ہر قدم عقل کے تابع ہو ناکہ جذبات کے. عقل وہ بنیادی اکائی ہے جو مقلد پر کائنات کے راز آشکار کرتی ہے. جیسا کہ حضرت انسان کا گھوڑے سے موٹر کار تک کا سفر سواری کو نہیں رفتار کی تقلید کو ظاہر کرتا ہے. اگرسواری کی تقلید ہوتی تو آج بھی گھوڑے اونٹ
    ہی مقدر ہوتے. طاعون سے لیکر کینسر تک کی فتح ہو یا تسخیر مریخ، فطرت کی پرتوں کو تہہ در تہہ کھولنے والے بھی اجداد کی اُس جستجو کی پیروی کر رہے ہیں جو حضرت انسان کے دماغ میں پہلے سوال کی صورت میں وارد ہوئی تھی. میں تو کون کیوں اور کیسے کے سوال سے شروع ہونے والا یہ سفر ابھی ناتمام اور نامکمل ہے اور کائنات کے اختتام تک یہ سفر جاری و ساری رہے گا.
    کائنات اپنے وجود میں ہر سوال کا جواب رکھتی ہے، بس فطرت منتظر رہتی ہے کہ متجسس کون ہے جو مجھ کو جاننا چاہتا ہے؟ کون ہے جس کے دل ودماغ میں تجسس کی تقلید موجود ہے؟ حیرتوں کے سمندر میں ڈوبے حضرات سوال اٹھاتے ہیں تو فطرت جواب حاضر کرتی ہے، سو عقل کے عنصر کےلیے تجسس کی سواری اور انسانیت کی لگام ہونا ضروری ہے اور پوری کائنات حاضر ہے تسخیر کو. تاریخ ہمیں آگاہ کرتی ہے کہ حضرت انسان کا ہر قدم آنے والے کل کی طرف جا رہا ہے اور وقت کے گھوڑے کی لگام صرف اُسی قوم کے ہاتھوں میں رہی ہے جس نے تبدیلی کو دل سے قبول کیا ہے اور جس کا سینہ علم کے چراغ سے روشن ہے. سولھویں صدی کا یورپ اک لمحہ کے لیے یاد کیجیے اور اُن کا آج دیکھیے.
    وہ تو جہاں ہیں، ہم بہرحال سولھویں صدی میں ہی جی رہے ہیں. ” تقدس و مقدس کے نام پہ لگنے والی آگ اور دل و دماغ میں تعصب و نفرت کی ایسی بدبودار پیپ کہ اُس کے تعفن سے رواداری برداشت کے سبھی چشمے جل چکے ہیں اور روشن خیالی گالی بن چکی ہے اور تقلید ان زمانوں کی کہ جن زمانوں کے انسان کا یہاں سے گزر بھی ہوجائےتو مارے حیرت کے پھر مر جائے.”
    نتائج ہم پہ یہ بات بہت واضح آشکار کرتے ہیں کہ’’ کائنات میں منفی کچھ بھی نہیں سوائے ہمارے منفی رویے کے‘‘۔ اور ہمارا رویہ بحیثیت قوم پاکستانی کے انتہائی منفی رجحانات کا حاصل رہا ہے. اس قدر عدم برداشت دُنیا میں کہیں نہیں جس قدر ہم میں پائی جاتی ہے. بحیثیت قوم ہم کو تعلیم وتحقیق سے زیادہ لوگوں سے پیار ہے اور ہمارے ہیرو بھی اتنے ہی سستے ہیں. اپنے ارد گرد نظر دوڑائیں، آپ کو کافی تعداد ان کی مل جائے گی، جو کہ مختلف گروپوں کے ان داتا ہیں اور ’’عام آدمی تو عقیدے کی عینک لگائے جہالت کے گھپ اندھیروں میں خود فریبی کے مزے لے رہا ہے‘‘۔ ہم وہ ہیں جن کو ابھی یہ خبر نہیں کہ ہمارے شہید کون ہیں؟ وردی والے یا بنا وردی کے.
    آج پاکستان جس دورسے گزر رہا ہے وہ اس کی تاریخ کا تاریک ترین دور ہے جس میں نسلی، لسانی، مذہبی منافرت اپنے عروج پر ہے اور اس کا سبب ہمارے ناعاقبت اندیش حکمران ہیں جنہوں نے مسلمان ریاست کو پیدائش کے بعد پھر سے مسلمان کرنا چاہا. غیر مسلموں کو قومیت اور پاکستانیت کی فہرست سے نکال باہر کیا. قوم کے ہاتھوں میں قلم کی جگہ بندوق دی اور اس اسلامی آئیڈیالوجی کی وجہ سے فرقوں کے درمیان کشمکش جنگ کی صورت اختیار کر گئی اور آج یہ عالم ہے کہ 18 کے 18 کروڑ صاحب رائے ہیں اور صاحب رائے بھی ایسے جس کے پاس علم کی شمع نہیں، تقلید کی اندھی عینک اور تعصب کی ننگی تلوار ہے اور سر پہ خون سوار ہے. ان کو اپنے سوا ہر کوئی توہین کا مجرم نظر آتا ہے اور ہم سب کچھ ہیں مگر پاکستانی نہیں.
    آج امن کی صرف دو صورتیں باقی ہیں. ایک یہ کہ ریاست اس بات کو جان لے کہ ہم اپنے پڑوسی نہیں بدل سکے ہاں اپنی سوچ اپنے رویے ضرور بدل سکتے ہیں. دوجا یہ کہ ریاست، مذہب کو فرد کا ذاتی معاملہ قرار دے، فرقہ بازی کو اُلٹ بازی لگواتے ہوئے تمام تر مساجد، مدارس کو قومی تحویل میں لے اور ہم پہ رحم کرتے ہوئے قوم کے بچوں کو ایک متوازن اخلاقی تعلیم اور دورِ حاضر کے تقاضوں کو پورا کرتا نظام حیات دے. نہیں تو وہ دن پھر دور نہیں جب یہ تقسیم گلیوں، نالیوں کو سب کے خون سے لال کر دے گی. اک یہی رستہ باقی ہے کہ ہم سب پاکستانی بن کے رہیں. نہیں تو روزِ قیامت تک ہم مسلمان بن کے متحد نہیں رہ سکتے. اس بات کی گواہ خود تاریخ اسلام ہے

  • مذہبی جنگیں: یورپ سے مشرقِ وسطیٰ تک

    مذہبی جنگیں: یورپ سے مشرقِ وسطیٰ تک

    جدید سیاسی اسلام تقریباً ایک صدی قبل مصر میں سامنے آیا اور اب یہ مسلم دنیا کو نئے سرے سے مرتب کررہا ہے۔ اسلام اِزم کا نام پانے والے اس مضبوط نظریے کی بنیاد اس خیال پر ہے کہ ایک ارب سے زائد مسلمانوں کی آزادی اور عظمت کا دار و مدار ریاست کی جانب سے شریعت نافذ کیے جانے پر ہے، جیسا کہ اسلامی تاریخ کے اکثر ادوار میں ہوتا رہا ہے۔ اسلام پسندوں کی محاذ آرائی شریعت کو مسترد کرنے والے مسلمانوں اور اُنہیں اس استرداد پر اکسانے والے غیر مسلموں کے ساتھ ہے۔ کبھی معتدل اور کبھی متشدد ہوتی اس محاذ آرائی کے بطن سے ۱۹۵۲ء میں مصر اور ۱۹۷۹ء میں ایران کے انقلاب نے جنم لیا، اور ۲۰۰۱ء میں القاعدہ کے حملوں، ۲۰۱۱ء کی عرب بہار اور خود کو اسلامی ریاست کہلانے والی داعش جیسی شدت پسند تنظیموں کے ابھرنے کا سبب بھی یہی ہے۔

    مسلمانوں میں اس تفریق کا سبب اسلام نہیں ہے۔ اصل مسئلہ مسلمانوں کے درمیان پایا جانے والا یہ اختلاف ہے کہ مذہب کو معاشرتی قوانین اور اداروں کی تشکیل میں کتنا حصہ ملنا چاہیے۔ زیادہ تر مسلمان، چاہے وہ شدت پسند ہوں یا نہ ہوں بہرحال جہادی یا انقلابی نہیں ہیں۔ لیکن بہتر عوامی نظام کے حوالے سے جاری کشمکش نے انہیں منتشر کرکے ایسی مخاصمتوں میں ڈال دیا ہے جو سمجھوتا نہیں ہونے دیتیں۔ نتیجہ مسائل کی نہ سلجھنے والی ایک ایسی گُتھی کی صورت میں نکلا ہے جس میں ہر ایک، دوسروں کو الجھا رہا ہے۔

    مغربی دانشور اور پالیسی ساز ایک عرصے سے اس تنازع کو سمجھنے کی کوشش میں ہیں لیکن اب تک انہیں کامیابی نہیں مل سکی۔ اسلامی فلسفۂ قانون، الٰہیات اور تاریخ کے ماہرین نے سیاسی اسلام پر بلاشبہ بہت کام کیا مگر وہ اسے ایک انوکھی چیز ہی سمجھتے رہے۔ وہ یہ بھول گئے کہ اسلام اِزم محض اسلامی نہیں ہے بلکہ اس کے ساتھ ’’ازم‘‘ بھی لگا ہوا ہے۔ یہ عوامی زندگی کو ترتیب دینے والا ایسا نظریہ اور لائحۂ عمل ہے جس کا دیگر نظریات کی طرح تجزیہ کیا جانا چاہیے۔ مغرب سے زیادہ نظریات دنیا کے کسی خطے نے پیدا نہیں کیے، لہٰذا بہتر ہوگا کہ آج کے مشرقِ وسطیٰ کو سمجھنے کے لیے مغرب اپنی نظریاتی کشمکش کی تاریخ پر ایک نظر ڈال لے۔

    درحقیقت آج مسلم دنیا کے کچھ حصے ۴۵۰ برس قبل کے مذہبی جنگوں میں گِھرے شمال مغربی یورپ سے پُراَسرار مماثلت رکھتے ہیں۔ آج کی طرح اُس وقت بھی مذہبی سرکشی کی لہر نے ایک بڑے خطے کو اپنی لپیٹ میں لیا اور مختلف ممالک کو تباہ کرتی ہوئی بہت سے دیگر ملکوں کو ٹوٹ پھوٹ کے خطرات سے دوچار کرگئی۔ صرف ۱۵۶۰ء کی دہائی میں فرانس، نیدرلینڈ اور اسکاٹ لینڈ کو پروٹسٹنٹ فرقے کی ایک شاخ کیلوِن اِزم (Calvinism) کے ماننے والوں کی بغاوت کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کا کیلون ازم اکیسویں تو کجا انیسویں صدی کے پریسبائی ٹیرئین (Presbyterian) لوگوں جیسا بھی نہیں تھا۔ کیتھولسزم (Catholicism)، لُوتھرینزم (Lutheranism) اور دیگر عیسائی نظریات کی طرح جدید ابتدائی کیلون ازم بھی محض مذہبی احکامات کا مجموعہ نہ تھا بلکہ ایک مکمل سیاسی نظریہ بھی تھا۔ اس نظریے کا ارتقا ایسے وقت میں ہوا جب یورپ کا سماجی معاشی نظام کسی حد تک رومن کیتھولِک کلیسا نے اپنے ہی اصولوں پر استوار کیا تھا، اور کیلون اِزم نے اسی کے خلاف محاذ کھول دیا۔ اُن دنوں کسی نظریے کو اپنانے کا مطلب مذہبی کے ساتھ ساتھ سیاسی طور پر وابستہ ہونا بھی تھا لہٰذا مذہبی جنگیں بلاشبہ سیاسی جنگیں بھی تھیں۔

    یہ بغاوتیں ریاست کو کسی ایک مسیحی فرقے کی سرپرستی پر مجبور کرنے کے لیے جاری ۱۵۰ سالہ کشمکش کا حصہ تھیں اور آج بھی یہی کچھ ہورہا ہے۔ نظریاتی پیشواؤں نے اثر و رسوخ بڑھانا چاہا، مخالفت کو بے دردی سے کچلا گیا، وقتاً فوقتاً مذہب کے نام پر قتلِ عام کیا گیا اور بیرونی قوتیں کسی نہ کسی دھڑے کی حمایت کرتے ہوئے جھگڑے میں کود پڑیں۔ یہ طوائف الملوکی بالآخر دردناک تیس سالہ جنگ پر منتج ہوئی جس کے دوران مقدس رومی سلطنت (Holy Roman Empire) کا مرکز کہلانے والے جرمنی کی کم از کم ایک چوتھائی آبادی فنا ہوگئی اور جب یہ بحران ختم ہوا تو دو اور نظریاتی جنگیں شروع ہوگئیں: ایک اٹھارہویں صدی میں بادشاہت اور آئینی بالادستی کے درمیان اور دوسری بیسویں صدی میں لبرل ازم اور کمیونزم کے مابین۔

    نظریاتی کشمکش کے ان تین ادوار میں مغربی ممالک معاشرتی نظم کی خاطر منقسم رہے اور یہی ادوار آج ہمیں بہترین سبق دیتے ہیں۔ عمومی نظر سے دیکھا جائے تو مغربی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ مشرقِ وسطیٰ میں بالادستی کا حالیہ بحران نہ تو اپنی شدت میں بے نظیر ہے اور نہ ہی اس کے سیدھے سادے طریقے سے حل ہونے کا کوئی امکان ہے۔ ماضی کے باعظمت نظریات کی طرح سیاسی اسلام نے بھی علاقائی تنازع کو ہوا دے کر اس سے تقویت حاصل کرلی ہے اور اب مستحکم ہے۔ مشرقِ وسطیٰ کو جس طرح کی نظریاتی مسابقت کا سامنا ہے، اس میں سب کی جیت شاذ و نادر ہی ہوتی ہے۔ ایسے نظریے یا تو مخالف نظریات کو نشوونما دیتے ہیں یا پھر انہیں اپنے اندر جذب کرلیتے ہیں۔ ایسا عموماً تبھی ہوتا ہے جب تنازع اپنے اندر بیرونی طاقتوں کو گھسیٹ لیتا ہے اور علاقائی نظم از سرِ نو مرتب ہوتا ہے۔ یہ اسباق مشرقِ وسطیٰ کو درپیش حالیہ چیلنجوں سے نمٹنے کا نسخہ تو نہیں بتاتے لیکن اتنا اشارہ ضرور دیتے ہیں کہ خطے کو لاحق عوارض نئے نہیں ہیں اور ریاستیں اور ان کے رہنما تشدد کو کم کرنے اور انسانی بہبود کے موافق حالات پیدا کرنے کے اقدامات اٹھا سکتے ہیں۔

    یورپ میں کیلون سے لے کر مشرقِ وسطیٰ میں ہوبز تک

    کہاوت مشہور ہے کہ تاریخ خود کو دہراتی نہیں ہے بلکہ اس کی بازگشت گونجتی رہتی ہے۔ مشرقِ وسطیٰ میں سیاسی اسلام کا ابھرنا اپنی وضع میں انوکھا واقعہ ضرور ہے مگر اس نے جو راستہ اختیار کیا اور جس طرح کے بحران کو جنم دیا وہ مغرب کے اپنے ماضی ہی کی بازگشت ہے۔ مسلم دنیا میں سیاسی اسلام اور لادینیت کی لڑائی اب پیچیدہ ہوچکی ہے مگر سوال یہ ہے کہ معاشرے میں کون بالادست ہے اور اس سوال کا دار و مدار قانون کے مآخذ اور اس کے متن پر ہے۔ اسلام پسندوں کا اصرار شریعت پر ہے، یعنی قانون کی تشکیل قرآن و حدیث کے مطابق ہوگی۔ لادین طبقہ کہتا ہے کہ قانون کی بنیاد انسانی عقل اور تجربے پر ہونی چاہیے، کچھ کہتے ہیں کہ اس میں اسلام کا کوئی حصہ نہیں ہے، کچھ کے نزدیک تھوڑا بہت عمل دخل قابلِ قبول ہے۔

    مشرقِ وسطیٰ میں لادینیت نے یورپی نوآبادیاتی نظام کے ساتھ قدم جمائے۔ آزادی کے بعد مسلمان اشرافیہ کی اکثریت نے اسے اس لیے اپنا لیا کیونکہ طاقتور یورپی ریاستوں نے خلافت کہلانے والی سلطنتِ عثمانیہ کو ہزیمت کے ساتھ شکست دی تھی۔ لیکن پھر لادینیت کو اسلام اِزم کا ایک دھچکا لگا۔ یہ درست ہے کہ اسلام پسند اپنے نظریے کہ ساتھ ’’ازم‘‘ نہیں لگاتے اور اسے وہی اسلام بتاتے ہیں جو اپنی ابتدا میں تھا لیکن ان کے نظامِ عقائد کے بہت سے مآخذ جدید ہیں۔ بیسویں صدی کے ربعِ ثانی کے دوران اسلام پسندوں نے اس خیال سے مزاحمتی تحریکیں منظم کیں کہ لادین دورِ حکومت میں متقی مسلمان بن کر رہنا مشکل ہے۔ ۱۹۵۰ء کی دہائی میں اس خیال نے مزید تقویت حاصل کی اور اسلام پسندوں نے ریاست کی جانب سے شریعت کے نفاذ کی وکالت شروع کردی۔ ۱۹۶۰ء کی دہائی تک لادینیت کو سبقت حاصل تھی مگر ۱۹۶۷ء میں لادین مصر کی اسرائیل کے ہاتھوں شکست، ۱۹۷۹ء کے ایرانی انقلاب اور ۹۱۔۱۹۹۰ء کی خلیجی جنگ نے پانسہ سیاسی اسلام کے حق میں پلٹ دیا۔

    ایک اعتبار سے اس کا مطلب یہ ہوا کہ سیاسی اسلام کی جیت ہوچکی ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ آج کا مسلمان نہ تو پورا لادین ہے اور نہ ہی پکا اسلام پسند، لیکن مشرقِ وسطیٰ اور شمالی افریقا کا عام مسلمان اب شدت پسندی کی طرف مائل ہوتا جارہا ہے۔ پیو تحقیقی مرکز (Pew Research Center) کی ۲۰۱۳ء میں کرائی گئی رائے شماری بتاتی ہے کہ مصر، عراق، اردن، مراکش اور فلسطینی علاقوں کی غالب اکثریت شریعت کو ملکی قانون کے طور پر نافذ دیکھنا چاہتی ہے۔ ۲۰۱۲ء کے ایک گیلپ سروے نے ظاہر کیا کہ مصر، لیبیا، شام، تیونس اور یمن میں خواتین بھی مردوں ہی کی طرح شریعت کی حامی ہیں۔ اسلام پسندوں میں بھی مذہب کے عوامی زندگی میں عمل دخل اور حکومت میں علما کے کردار سے متعلق مختلف آرا پائی جاتی ہیں، لیکن اس کے باوجود آزاد خیال حکمرانوں نے بھی اسلام ازم کے کچھ خیالات کو تسلیم کرلیا ہے۔

    اس پیش قدمی کے باوجود، سیاسی اسلام ابھی تک اپنی بقا کے بارے میں غیریقینی صورت حال سے دوچار ہے۔ شروع شروع میں بیرونی مبصرین نے اسے جدیدیت سے مطابقت نہ رکھنے والا خیال کہہ کر رد کیا، آج کے ماہرین ایک دوسرے کو یقین دلا رہے ہیں کہ داعش جیسے جہادی گروہوں کی جانب سے خودکش حملوں اور سر قلم کیے جانے سمیت مشرقِ وسطیٰ میں ابھرتی تشدد کی یہ لہر سیاسی اسلام کے چل چلاؤ کی نشانی ہے۔

    پھر بھی نظریاتی کشمکش کے حوالے سے یورپ کی اپنی تاریخ مشرقِ وسطیٰ کو یہ کلیدی سبق دیتی ہے کہ اسلام اِزم کو اتنا بے وقعت بھی نہ سمجھا جائے۔ یورپ میں مذہبی جنگوں کی تاریخ بتاتی ہے کہ بظاہر ایک فرسودہ نظریے کو غیر اہم سمجھنا کیوں بہت خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔ جب کیتھولک اور پروٹسٹنٹ فرقوں کی دشمنی لوگوں کے جان اور مال کو برباد کررہی تھی، اس وقت کی جنگوں میں کئی مواقع ایسے آئے، جب منطق اور ترقی نے بظاہر دشمنیوں کو ختم کرنے میں مدد دی۔ ایسا کئی دفعہ ہوا، مثلاً ۱۵۵۵ء میں جرمن علاقوں کے مذہبی حق رائے دہی پر رضامندی کے وقت اور ۱۵۹۰ء کی دہائی میں جب فرانسیسی مذہبی جنگوں کے بعد پروٹسٹنٹ ولندیزی جمہوریہ (Protestant Dutch Republic) نے کیتھولک ہسپانیہ سے آزادی حاصل کی تو لگا کہ بحران ٹل گیا ہے۔ شہزادے، اشرافیہ، شہری کونسلیں اور ان کی رعایا بظاہر پائیدار امن پر یکسو ہوگئے تھے۔ عملیت پسند سیاسی فراست نے عنان سنبھال کر ایک نئے یورپ کی امید باندھ دی تھی جہاں ریاستوں کو نظریاتی مفادات کے بجائے مادی مفادات کا تحفظ کرنا تھا۔

    لیکن یورپ سے نظریاتی تشدد کا خاتمہ نہ ہوسکا کیونکہ اسے ہوا دینے والا بالادستی کا بحران جوں کا توں کھڑا تھا۔ بہت سے یورپی باشندے یہی سوچتے تھے کہ مستقل سیاسی استحکام کے لیے مذہبی ہم آہنگی ضروری ہے۔ جب تک وہ ایسا سمجھ رہے تھے، اس وقت تک کوئی بھی ذرا سی چنگاری انہیں دوبارہ شدت پسند مخالفانہ گروہوں میں منتشر کرسکتی تھی۔ اور ۱۶۱۸ء میں بالکل ایسا ہی ہوا جب بوہیمیا میں پروٹسٹنٹ بغاوت نے یورپ کو تیس سالہ جنگ میں جھونک دیا۔ اُس صدی کے آخر میں جب تک یورپیوں نے مذہب کو سیاست سے الگ نہیں کردیا، اس وقت تک مذہبی عقائد اپنی شعلہ فشاں طاقت کا مظاہرہ کرتے رہے۔

    نظریات کو بے وقعت سمجھنے کی ذرا مختلف مثال نسبتاً حالیہ زمانے میں سامنے آئی جب بیسویں صدی میں عالمی سطح پر لبرل ازم اور کمیونزم کا ٹاکرا ہوا۔ ۱۹۳۰ء کی دہائی کے معاشی بحران (Great Depression) نے بہت سے مغربی دانشوروں کو یہ باور کرا دیا کہ آزاد خیال جمہوریت ایک ایسا تصور تھا جس کا زمانہ اب گزر چکا ہے۔ مرکزیت پسند جابر ریاستیں عارضی طور پر نئے معاشی و سماجی بحران سے اچھی طرح نمٹنے لگیں جسے دیکھ کر بہت سے مفکرین کمیونزم کے شیدا ہوگئے۔ کچھ نے جوزف اسٹالن کے زیرِ اقتدار سوویت یونین کا دورہ کرکے اسے کھلے عام سراہا جہاں صنعت کاری تیزی سے ہورہی تھی اور مزدور کبھی ہڑتال نہیں کرتے تھے۔ ان جذبات کو امریکی صحافی لنکن اسٹیفنز نے یوں قلم بند کیا: ’’میں مستقبل میں ہوکر آچکا ہوں اور یہ تجربہ کامیاب رہا!‘‘ لیکن ظاہر ہے کہ آخر میں آزاد خیال جمہوریت نے انگڑائی لی اور کامیاب ہوگئی۔

    بات یہ نہیں ہے کہ مشرقِ وسطیٰ میں اسلام ازم کی کامیابی یقینی ہے، مسئلہ یہ ہے کہ خود کو بہت کچھ سمجھنے والے لوگ کبھی کبھی متبادل سیاسی نظام کو نظر انداز کرتے ہیں جس کے نتائج سنگین بھی ہوسکتے ہیں۔ سیاسی اسلام کے سخت جان ہونے کا ایک راز یہ بھی ہے کہ باہر سے دیکھنے والوں نے اس نظام کو ہمیشہ کمتر سمجھا ہے۔ تاریخ یہ بھی بتاتی ہے کہ اگر کسی نظریے کو ریاستی سرپرستی حاصل ہوجائے تو وہ زیادہ عرصے زندہ رہ سکتا ہے جیسا کہ ۱۹۳۰ء کی دہائی میں لبرل جمہوریت کے ساتھ ہوا اور آج اسلام ازم کے ساتھ ہورہا ہے۔ سیاسی اسلام کامیابی کی دوڑ سے باہر ہونے نہیں جارہا، بلکہ ہوسکتا ہے کہ یہ اپنی دوسری فتح حاصل کرلے۔

    خدا کے نام پر؟

    بہت سے پرانے مسابقتی نظریات کی طرح سیاسی اسلام میں بھی یک رنگی نہیں ہے۔ اسلام پسند ایک شریعت کا اتباع تو کرتے ہیں لیکن ان میں بہت سی شاخیں ہیں، مثلاً سُنّی اور شیعہ، شدت پسند اور اعتدال پسند، قوم پرست، بین الاقوامیت کے داعی اور سامراجیت کے حامی تک موجود ہیں۔ اس تنوع نے مغرب میں اس بحث کو جنم دیا ہے کہ آیا امریکا اور اس کے اتحادیوں کو شدت پسند تحریکوں کی حوصلہ شکنی کے لیے جدید اعتدال پسند اسلام ازم کو قبول کرلینا چاہیے یا نہیں۔ جو لوگ اس کا جواب نفی میں دیتے ہیں، اُن کے نزدیک اسلام ازم پورے کا پورا مغرب دشمنی پر مبنی ہے۔ جن لوگوں کا جواب اثبات میں ہے وہ کہتے ہیں اسلام ازم خود اندرونی طور پر منقسم ہے۔

    اس بحث میں کچھ بھی نیا نہیں ہے۔ کسی بھی نظریے کے مخالفین اس میں موجود دراڑوں کے ذریعے اپنے حق میں پنپنے والا تنازع اندر داخل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ پوری مغربی تاریخ میں بیرونی طاقتوں نے بارہا ’’تقسیم کرو اور جیت لو‘‘ کے حربے آزمائے جن کے ملے جلے نتائج برآمد ہوئے اور کبھی کبھار ایسی کوششیں انہی کے گلے بھی پڑگئیں۔ مذہبی جنگوں کا دوبارہ جائزہ لیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ اس طویل تنازع نے یورپ پر حاوی نظریات میں پھوٹ ڈال دی اور نتیجتاً پنپنے والے کچھ ضمنی افکار اصل نظریات پر ہی غالب آگئے۔ پروٹسٹنٹ ازم کی ابتدا لوتھرینزم کے طور پر ہوئی جو فوراً ہی سوئٹزرلینڈ میں زوئنگلین ازم (Zwinglianism) اور جرمنی میں انا باپتزم (Anabaptism) کی شکل میں نمودار ہوا اور پھر فرانس میں اس نے کیلون ازم اور انگلستان میں اینگلیکن (Anglican) روپ دھار لیا۔ کیلون ازم اور لوتھرینزم کے پیروکار آپس میں بار بار لڑے اور کسی بھی کیتھولک گروہ سے زیادہ ایک دوسرے کے دشمن ثابت ہوئے۔ مقدس رومی سلطنت پر حکمراں ہیبس برگ (Habsburg) خاندان نے ان اختلافات کو ہوا دینے کے لیے انتھک کوششیں کیں۔ لیکن آخر میں بہرحال یہ حکمت عملی ناکام ہوئی کیونکہ کیلون ازم کمزور نہیں پڑا بلکہ اس نے تیس سالہ جنگ کے دوران لوتھرینزم کے ساتھ مشترکہ محاذ بنا لیا۔

    بیرونی طاقتوں کے لیے یہی ترکیب باقی بچتی ہے کہ وہ کسی نظریے کے مقابلے میں دیگر نظریاتی عناصر کو اپنی جانب مائل کریں اور انہیں مدد و حمایت فراہم کریں۔ ایسا کرنا آسانی کے ساتھ ممکن ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد یورپ میں سوویت اثر و رسوخ محدود کرنے کی خاطر امریکی صدر ہنری ٹرومین نے یہ معلوم کرنے میں بڑی چابکدستی دکھائی کہ مغربی یورپ میں بائیں بازو کی کون سے جماعتیں امریکی اتحادی بن سکتی ہیں۔ وہ اس درست نتیجے پر پہنچے کہ اٹلی کے کمیونسٹ اور سوشلسٹ سوویت یونین کی حمایت اور امریکی مارشل پلان کی مخالفت میں متحد ہیں۔ ٹرومین نے پھر عیسائی جمہوریت پسندوں (Christian Democrats) کا ہاتھ تھام لیا اور انہیں ۱۹۴۸ء کا اہم انتخاب جیتنے میں مدد دی۔ البتہ فرانس میں ٹرومین کو یہ اندازہ ہوا کہ سوشلسٹ کمیونزم کے مخالف ہیں لہٰذا ان کے ساتھ معاہدہ کرکے فرانس کو امریکا کا مشکل مگر پائیدار اتحادی بنالیا۔

    بیرونی طاقتوں کی یہ کھلی اور چھپی مداخلت بالادستی کے طویل ہوتے بحران کی ایک اور واضح نشانی ہے۔ اسلام ازم اور لادینیت کے حالیہ ٹکراؤ میں بھی بہت سے بیرونی کرداروں نے یا تو خود کو دیگر ریاستوں کے اندرونی معاملات میں الجھا لیا ہے یا پس پردہ رہ کر فوجی مداخلت کرڈالی ہے۔ ان بیرونی مداخلتوں پر کچھ لوگوں نے تنقید بھی کی ہے۔ خاص طور پر افغانستان، عراق اور لیبیا میں امریکی مداخلت کو ایسی غیرمنطقی مہم جوئی قرار دیا گیا جو مؤثر ریاستی سرگرمیوں کے دائرے میں نہیں آتی۔ لیکن درحقیقت کسی بھی عظیم طاقت کی جانب سے دوسرے ملک کی حکومت کو بچانے یا گرانے کے لیے قوت کا استعمال کوئی نئی بات نہیں۔ بیرونی مداخلتیں کسی بھی نظریاتی کشمکش کا لازمی جز ہوتی ہیں، انہیں علیٰحدہ، بے وقوفانہ یا غیر متعلق نہیں کہا جاسکتا۔ پچھلے ۵۰۰ برس کے دوران ایسی ۲۰۰ سے زائد مداخلتیں ہوچکی ہیں جو زیادہ تر بالادستی کے علاقائی بحران کے دوران کی گئیں اور یہی اس وقت مشرقِ وسطیٰ میں ہورہا ہے۔

    اس طرح کی کشمکش کے دوران پیدا ہونے والی گہری خلیج بار بار ہونے والی اس مداخلت کی وجوہات جاننے میں مدد دیتی ہے۔ نظریاتی تنازعات کے باعث اکثر اتنا سخت معاشرتی تناؤ پیدا ہوتا ہے کہ لوگ اپنوں کے بجائے ان غیروں کے طرف دار ہوجاتے ہیں جن سے ان کے خیالات ملتے ہیں۔ یہی ٹکراؤ بیرونی کرداروں کے ساتھ قوموں اور ملکوں کی دوستی یا دشمنی کا تعین کرتا ہے۔ مرکزیت ان بڑی طاقتوں کو حاصل ہوتی ہے جو کسی بھی فریق کو بالادست بنانے کی حیثیت رکھتی ہوں۔ ادھر بیرونی کرداروں کے لیے اس طرح کے بحرانات نئے دوست بنانے یا نئے دشمنوں کو ابھرنے سے روکنے کا ایک موقع ثابت ہوتے ہیں۔

    ضروری نہیں کہ مداخلت کاروں کا تنازع سے کوئی مذہبی مفاد وابستہ ہو، کبھی کبھی مادی مفادات بھی اس کے لیے کافی ہوتے ہیں۔ البتہ کچھ مواقع پر نظریاتی اور مادی مفادات مل کر مداخلت کا جواز پیدا کرتے ہیں۔ مثلاً ۲۰۱۱ء میں عرب بہار کے دوران سنی اکثریتی سعودی عرب نے بحرین میں شیعی انقلاب روکنے کے لیے فوج بھیج کر نہ صرف شیعہ اسلام کا راستہ روکا بلکہ شیعہ اکثریتی ایران کے لیے بھی دروازے بند کردیے۔ کچھ ہی عرصے بعد ایران نے شام میں مداخلت کرکے بشار الاسد کی اس لیے مدد کی تاکہ سنی باغی کامیاب ہوکر سعودی عرب کے طرف دار نہ ہوجائیں۔ اس طرح کی کارروائیوں نے ان خدشات کو تقویت دی ہے کہ مشرقِ وسطیٰ میں اب ناعاقبت اندیش نظریاتی ریاستیں وجود میں آکر علاقائی استحکام کو تباہ کریں گی۔ مثلاً کچھ مبصرین کو خدشہ ہے کہ ایران نے اگر جوہری ہتھیار بنالیے تو وہ انہیں مشرقِ وسطیٰ میں طاقت کا توازن ناپید کرنے کے لیے استعمال کرکے ایک بڑی تباہی کو دعوت دے سکتا ہے۔

    تاریخ ایسے خدشات پر کوئی فیصلہ تو صادر نہیں کرتی البتہ یہ ضرور بتاتی ہے کہ ایک ریاست بیک وقت نظریاتی اور منطقی ہوسکتی ہے۔ نظریہ پرستوں کی حکومت کے سامنے علاقائی توازن کو یکسر تبدیل کرنے جیسے نظریاتی مقاصد ہوسکتے ہیں اور ان کے حصول کے لیے وہ منطقی اقدامات اٹھا سکتی ہے۔ ایسے اقدامات میں اس مرحلے پر پسپائی اختیار کرلینا بھی شامل ہے جب جارحیت بہت مہنگی پڑنے لگے اور ہر اس موقع پر مداخلت بھی ہوسکتی ہے جب جغرافیائی سیاست اس کی اجازت دے۔

    مذہبی جنگوں کے دوران پلاٹی نیٹ (Palatinate) نامی جرمن خطے کا طرزِ عمل ان دونوں ممکنات پر محیط رہا۔ وہاں کے حکمران عسکریت پسند کیلوینسٹ (Calvinists) تھے جنہوں نے مقدس رومی سلطنت سمیت پورے یورپ سے کیتھولک اجارہ داری ختم کرنے کی بھرپور جدوجہد کی۔ انہوں نے کیتھولک طاقتوں کا زور توڑنے کے لیے بارہا پروٹسٹنٹ اتحاد تشکیل دیے اور کیلوینسٹوں کی مدد کے لیے کئی مواقع پر فرانس اور نیدرلینڈ فوج بھیجی۔ سولہویں صدی میں بڑے عرصے تک ان کے مقاصد نظریاتی ہونے کے ساتھ ساتھ منطقی بھی رہے کیونکہ جب کبھی انہیں طاقتور ہیبس برگ کی جانب سے سخت مزاحمت ملی یا پروٹسٹنٹ ساتھیوں نے سرد مہری دکھائی تو وہ پیچھے ہٹ گئے۔ مگر پھر کیتھولک حکومت کے حامل بوہیمیا خطے کے کیلوینسٹ باغیوں نے جب پلاٹی نیٹ حکمران فریڈرک پنجم کو دعوت دی کہ وہ ہیبس برگ حاکم کو شکست دے کر ان کا بادشاہ بن جائے تو اس نے یہ دعوت قبول کرلی۔ ۱۶۱۹ء میں اس نے بوہیمیا پر اپنے اقتدار کا دعویٰ کیا حالانکہ ہیبس برگ حکمرانوں کے ردعمل کا خدشہ بھی تھا اور زیادہ تر یورپی پروٹسٹنٹ بھی کھلے بندوں اس کی حمایت سے کترا رہے تھے۔ بالآخر خدشہ درست ثابت ہوا جب ہیبس برگ خاندان نے فریڈرک کی فوج کو کچل ڈالا اور پلاٹی نیٹ تک رسائی حاصل کرکے وہاں پروٹسٹنٹ ازم کا بھی گلا گھونٹ دیا۔ یہ تیس سالہ جنگ کے ابتدائی اقدامات تھے۔

    جس دیے میں جان ہوگی، وہ دیا رہ جائے گا!

    طول پکڑنے والے تمام علاقائی نظریاتی تنازعات کی طرح اسلام ازم اور لادینیت کی جنگ بھی ایک روز ختم ہوجائے گی۔ لیکن یہ کس انداز میں ہوگا اور مشرقِ وسطیٰ میں جمہوریت کے کیا امکانات ہیں، یہ البتہ ایک کھلا سوال ہے۔

    مغربی تاریخ بتاتی ہے کہ بالادستی کے بحران عموماً تین طریقوں سے ٹلتے ہیں: یا تو کوئی فریق فیصلہ کن فتح حاصل کرلے، یا برسرِ پیکار فریقین کے نزدیک تنازع غیر متعلق ہوجائے، یا پھر کوئی ایسی حکومت قائم ہو جو متصادم نظریات کو بظاہر ناممکن نظر آنے والے انداز میں مربوط کردے۔ حالیہ تنازع میں پہلا منظرنامہ تو ابھرتا دکھائی نہیں دیتا۔ اسلام ازم میں یک رنگی نہیں ہے، لہٰذا یہ کہنا مشکل ہے کہ فتح کی صورت میں شیعہ سنی، اعتدال پسند اور شدت پسند، جمہوری یا بادشاہی، کون سا طبقہ سبقت حاصل کرے گا۔ تاہم دیگر دو منظرناموں کو قابل غور قرار دیا جاسکتا ہے۔

    ایسے مشرقِ وسطیٰ کا تصور بظاہر محال ہے جو بالادستی کے موجودہ بحران پر قابو پالے، تاہم ماضی میں مغرب کا ایک بحران اسی انداز میں حل ہوا۔ ابتدائی جدید یورپ مذہبی کشمکش پر قابو پانے میں اس لیے کامیاب ہوا کیونکہ وہاں نئی حکومتوں کے قیام نے نظریاتی اختلافات کو غیر مؤثر کردیا تھا۔ کیتھولک اور پروٹسٹنٹ فرقے اپنے اپنے عقائد پر جمے رہے لیکن انہوں نے مکمل بالادستی کا خیال چھوڑ کر ریاست اور کلیسا کے مابین جدائی کو تسلیم کرلیا۔ مشرقِ وسطیٰ میں بھی ایسا ہوسکتا ہے اگر مسلمانوں کے عوام اور خواص قانون اور عوامی زندگی پر اسلامی عقائد لاگو کرنے کے معاملے کو زندگی اور موت کا مسئلہ نہ بنائے رکھیں۔ تاہم اگر مسلمانوں کے باہمی اختلافات کو مدنظر رکھا جائے تو ایسا ہونا بہت مشکل دکھائی دیتا ہے۔

    دوسرا راستہ یہ ہے کہ متصادم نظریات ایک دوسرے کے اداروں اور طور طریقوں کو کسی حد تک اپنا کر ایک ہی دھارے میں شامل ہوجائیں۔ یورپ میں ایسا بھی دیکھنے میں آیا جب ۱۷۷۰ء کی دہائی سے لے کر ۱۸۵۰ء کی دہائی تک یہ براعظم بادشاہتوں میں منقسم تھا۔ بادشاہ چاہتے تھے کہ اقتدار وراثت کی طرح حصے میں آئے جبکہ جمہوریت پسند منتخب حکومتوں کے خواہاں تھے۔ دونوں تصورات ابتدا میں متحارب دکھائی دیے اور بادشاہتیں جمہوری بغاوتوں کو کچلنے میں مصروف رہیں۔ لیکن جبر کے اس دور کے بعد یورپی بادشاہوں نے متوسط طبقے کے ساتھ ایک سودا کرلیا۔ برطانیہ کی دیکھا دیکھی آسٹریا، فرانس، اٹلی اور پرشیا (Prussia) میں نئی طرز کی حکومتیں قائم ہوگئیں اور پارلیمانی قدغنوں اور وسیع عوامی حقوق کی حامل بادشاہت کے اس نظام کو ’’آزاد قدامت پسندی‘‘ (liberal conservatism) کا نام دیا گیا۔

    اس کہانی کا حتمی تاریخی سبق یہ ہے کہ کسی بھی نظریے یا متعدد نظریات کی کامیابی کا دار و مدار اکثر ریاستی طاقت کے حصول پر ہوتا ہے۔ یورپ میں آزاد قدامت پسندی برطانیہ کی مرہون منت ہے جس نے عملی طور پر اسے نافذ کردکھایا۔ وہاں طویل عرصے تک ایسی آئینی بادشاہت رہی جس نے روایت اور تجدید کو یکجا کردیا۔ برطانیہ بلاشبہ دنیا کی کامیاب ترین ریاست رہی جس کے پاس سب سے بڑی معیشت، وسیع و عریض سلطنت اور ایک مثالی طور پر مستحکم سماجی نظام رہا۔ اس کے مخلوط طرزِ حکومت کو پورے براعظم میں اپنالیے جانے کی وجہ اس کے سوا اور کوئی نہیں تھی کہ عملاً یہ نظام قابلِ نفاذ ثابت ہوگیا تھا۔

    مسلم دنیا میں بھی اس سے ذرا مختلف مخلوط حکومت نے اپنا استحکام ظاہر کیا ہے جسے بسا اوقات ’’اسلامی جمہوریت‘‘ قرار دیا جاتا ہے۔ ماہرین ایک عرصے سے یہی سمجھتے رہے ہیں کہ جمہوریت اور اسلام ازم موروثی اعتبار سے متضاد ہیں مگر کچھ اسلام پسندوں اور جمہوریت کے حامیوں نے مختلف ممالک میں ان دو نظاموں کو فکری اور عملی سطح پر یکجا کرنے کی کوشش کی ہے۔ ۲۰۱۱ء سے ۲۰۱۳ء تک مصر میں اخوان المسلمون کے سیاسی بازو حزب حریت و عدالت (Freedom and Justice Party) نے کٹھن حالات میں خود کو ایک ایسی معتدل قوت کے طور پر ظاہر کیا جو مذہبی اور نظریاتی تنوع کو برداشت کرسکتی تھی۔ یہ کوشش بالآخر ناکام ہوئی کیونکہ صدر مرسی نے اختیارات اپنے ہاتھ میں لینا شروع کیے اور فوج نے انہیں معزول کردیا۔ جب سے اب تک مصر میں سرے سے جمہوریت ہی ناپید ہے لیکن اگر دوبارہ تجربے کا موقع ملے تو یہ ملک اپنے حجم اور استعداد کے اعتبار مثالی ریاست بن سکتا ہے۔

    اسلام ازم اور جمہوریت کو ایک لڑی میں پرونے کی زیادہ کامیاب مثال تیونس میں النہضہ نامی سیاسی جماعت نے قائم کی جس نے کھلے عام اسلام ازم کی بات کرنے کے باوجود ۲۰۱۴ء میں جمہوری انتخابات کرادیے۔ تیونس اتنی بڑی ریاست نہیں کہ مثال بن سکے لیکن یہ عرب بہار کے نتیجے میں ابھرنے والا سب سے روشن ستارا ہے جو کم سے کم ممکنات سے آگاہ ضرور کردیتا ہے۔

    زیادہ تر انحصار اس بات پر ہے کہ خطے کے دو طاقتور ترین مسلم ممالک یعنی ایران اور ترکی کی سیاسی ترجیحات کیا ہیں۔ دونوں ہی ممالک عرب نہیں ہیں لیکن علاقائی اثر و رسوخ کی ایک طویل تاریخ رکھتے ہیں۔ سرکاری طور پر جمہوریہ کہلانے والا ایران ۱۹۷۹ء کے انقلاب کے بعد سے خود کو اسلام ازم کا عملی معیار قرار دیتا ہے جہاں کسی حد تک مسابقتی انتخابات تو ہوتے ہیں مگر حتمی اختیارات رہبر معظم خامنہ ای ہی کے ہاتھ میں ہیں۔ مگر عرب بہار کے بعد ایران نے شام میں صدر بشار الاسد کی جس طرح حمایت کی، اُس سے سنی عربوں کی غالب اکثریت اس سے متنفر ہوگئی ہے اور اس کے مثالی ریاست بننے کے امکانات دھندلا گئے ہیں۔ اور پھر ۲۰۰۹ء کے مشکوک انتخابات کے بعد ایسا مشکل ہی دکھائی دیتا ہے کہ اس کے ہمسائے اب اس کی تقلید کریں۔ گویا جب تک ایران اسلام ازم کی مثال بنا رہے گا، اسلام ازم مشکل میں رہے گا۔

    ترکی کی کہانی البتہ مختلف ہے۔ سرکاری اعتبار سے لادین کہلانے والا یہ ملک مسلسل اسلام پسندی کی جانب مائل ہے۔ گزشتہ تین برسوں میں ترکی نے خود ایک نئی اور مربوط اسلامی جمہوریت کے طور پر متعارف کرایا ہے۔ حکمراں ترقی و انصاف پارٹی کو انتخابات میں مسلسل فتح ہورہی ہے جس کی باگ ڈور صدر رجب طیب ایردوان کے ہاتھ میں ہے۔ یہ جماعت اس طرزِ حکومت کو ’’اسلامی‘‘ کے بجائے ’’قدامت پسند‘‘ قرار دیتی ہے لیکن یہ نظام بہرحال اسلامی جمہوریت کی ہی ایک شکل ہے۔ عرب بہار کی ابتدا میں ہی ترکی خطے کے عوام کے دلوں میں گھر کر چکا تھا اور اب اپنا دائرئہ اثر مسلسل بڑھا رہا ہے۔ لیکن جب بات ہو مخلوط اسلامی جمہوری حکومت کی تو پھر اس نظام میں اتنی رعنائی نہیں رہتی جس کی بڑی وجہ ایردوان کا آمرانہ طرزِ عمل ہے۔ ترکی ایک مثالی مخلوط حکومت کا نمونہ پیش کرسکتا ہے مگر فی الحال وہاں پرانے انداز کی شخصی آمریت جمہوری عنصر پر غالب آرہی ہے۔

    لڑائی کی وجوہات

    ماضی کے بہت سے نظریاتی تنازعات کو ذہن میں رکھتے ہوئے کچھ مبصرین یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ مشرقِ وسطیٰ میں بحران کی اصل وجہ نظریاتی ہے بھی یا نہیں۔ بہت سے ناقدین دور کی کوڑی لاتے ہوئے کہتے ہیں کہ پہلے یورپی اور اب امریکی سامراجیت نے مسلمانوں کی تضحیک کرنے کے ساتھ ساتھ انفرادی اور معاشرتی سطح پر اپنا مستقبل خود تعمیر کرنے کی ان کی صلاحیت بہت محدود کردی ہے۔ اس سلسلے میں امریکا کی خطے میں عسکری موجودگی اور اسرائیل کی حمایت کو بڑھتی ہوئی خونریزی کی وجہ بتایا جاتا ہے۔ لیکن اس طرح کے دلائل اس حقیقت کو نظر انداز کردیتے ہیں کہ دنیا تو طاقت سے محروم مضطرب افراد اور گروہوں سے بھری ہوئی ہے اور امریکی اجارہ داری تقریباً ساری دنیا میں ہی ہے۔ لیکن پھر بھی مشرقِ وسطیٰ میں جیسی مسلسل بدامنی، جبر، دہشت گردی، سفاکیت اور بیرونی مداخلت ہے، ویسی دنیا میں شاید ہی کہیں اور ملے۔

    کچھ لوگ غربت کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ اگر مسلمانوں کے پاس دولت اور مواقع ذرا زیادہ ہوتے تو بحران ٹل جاتا۔ مگر دنیا کے بہت سے غریب معاشرے اس دلیل کو بھی کالعدم کردیتے ہیں کیونکہ ان میں سے بیشتر مشرقِ وسطیٰ کی اوسط درجے کی ریاستوں سے زیادہ بدحال ہیں مگر ایسی افراتفری سے بچے ہوئے ہیں۔ اگر غریبی ہی سب سے بڑی وجہ ہوتی تو افریقی صحرائے اعظم سے متصل ممالک دہشت گردی، انقلابی لہروں اور بیرونی مداخلت کا اس سے کہیں زیادہ شکار ہوتے۔ شواہد ہمیں کسی اور نتیجے تک پہنچا رہے ہیں: یعنی بے طاقتی اور غربت بلاشبہ کلیدی عناصر ہیں مگر مشرقِ وسطیٰ آج کل جس صورت حال سے دوچار ہے، وہ اُسی وقت پیدا ہوسکتی تھی جب یہ دونوں عناصر علاقائی سطح پر بالادستی کے ایک طویل بحران سے منسلک ہوجائیں۔

    اچھی خبر یہ ہے کہ شاید امریکا دیر پا انداز میں معتدل حکومت چلانے والے ملکوں اور جماعتوں کی حمایت کرے گا، چاہے ان کا نظام مکمل طور پر لادین نہ بھی ہو۔ مگر بری خبر یہ ہے کہ یہ سب ہونے کی صرف توقع ہی کی جاسکتی ہے کیونکہ طاقتور امریکا بھی خطے کے تمام مسائل حل نہیں کرسکتا۔ چونکہ ہر فریق امریکی مداخلت کو متعصبانہ قرار دے گا، اس لیے امریکا کے لیے اپنے مفادات کا تحفظ ہی بہتر ہے۔ یہ ایک ایسی ذمہ داری ہے جو کبھی کبھی کچھ جگہوں پر طاقت کے استعمال کی متقاضی ہوگی۔ مگر جیسا کہ مذہبی جنگوں کے دوران سلطنت عثمانیہ جیسی عظیم مسلم طاقت بھی سولہویں صدی میں عیسائیوں کے اختلافات ختم نہیں کراسکی تھی، ویسے ہی آج کے مشرقِ وسطیٰ میں بھی کوئی بیرونی کردار امن نہیں لاسکتا۔ صرف مسلمان خود ہی اپنے نظریاتی اختلافات کو دور کرسکتے ہیں۔

    (مترجم: حارث رقیب عظیمی)

    John M. Owen IV
    “From Calvin to the Caliphate”.
    (“Foreign Affairs”. May/June 2015)

  • نیشنلزم اور اسلام – حماد احمد

    نیشنلزم اور اسلام – حماد احمد

    FB_IMG_1458723917121-1-1نیشنلزم کے کھوکھلے نعرے ایک بار پھر کانوں میں پڑ رہے ہیں لیکن نعرے لگانے والوں میں بڑی تعداد ان کی بھی ہے جن کے اذہان نیشنلزم کی حقیقت کے اصل تصور سے بھی محروم ہیں. اس ناواقفیت کی وجہ سے انسانی خیالات میں انتہا روز بروز بڑھتی چلی جا رہی ہے

    یہ ضروری ہوتا ہے کہ اندھیروں سے نکل کر روشنیوں کی طرف کوچ کر جانے کے لیے انسانی کثرت میں اخوت کی ایسی شان پیدا ہو جس کی وجہ سے مشترکہ انسانی، معاشی، معاشرتی مفادات کی طرف مثبت انداز میں سفر ہو اور ہر باشعور انسان اخوت کی اس گاڑی کو آگے لے جانے میں اپنا کردار ادا کرتا رہے. بےشک قومیت کی ابتدا دراصل انسانی جذبے سے اس مقصد کے لیے ہوتی ہے کہ انسانوں کا ایک گروہ اپنے مشترکہ مفادات کے لیےایک قوم بن کر رہے لیکن اس میں خرابی تب پیدا ہوتی ہے جب قومیت قوم پرستی کی شکل اختیار کر لیتی ہے اور عصبیت قومیت کو زنگ آلود کر دیتی ہے. اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہوتی ہے کہ مشترکہ مفادات کے لیے ایک گروہ کی شکل اختیار کرنے والے انسان نسل، وطن، یا زبان کی وجہ سے دوسرے انسانوں کو اپنے گروہ میں شامل کرنے کے قابل نہیں سمجھتے.

    ایسا کہا جاسکتا ہے کہ نیشنلزم کے نعرے لگانے والوں نے انسان کو ترقی کے راہ پر گامزن کیا ہے لیکن یہ نعرے اور انھی نعروں کو عملی جامہ پہنانے کے لیے انسانیت کو ہمیشہ
    مصیبتوں کے سامنے لا کھڑا کرنے میں اس کا کردار انتہائی افسوسناک ہے. انسانیت کو سینکڑوں حصوں میں تقسیم کرکے کچھ گروہوں کو اونچ اور کچھ کو نیچ کا درجہ دیا گیا اور ایسے قوانین بنائے گئے کہ “اقوام متحدہ” یعنی متحدہ اقوام میں بھی امریکی و مغربی اور دوسری اقوام میں فرق رکھا گیا. المیہ یہ ہے کہ ایک ہی آدم کی اولاد کئی گروہوں میں تقسیم ہونے کے بعد ایک دوسرے کے خلاف مصروف ہوگئی ہے اور اپنے گروہ کو بچانے کے لیے دوسرے گروہوں کو ختم کرنے کی ایسی کوششیں ہوئیں جن کے شکار وہ معصوم بچے بھی ہوئے جو ابھی اس دنیا میں آ بھی نہیں چکے ہوتے۔

    وطنیت کے نشے میں دھت گروہ اس بات کے لیے راضی ہی نہیں کہ جو لکیر انھوں نے کھینچی ہے اس کے دوسری طرف کا انسان بھی وہی درجہ رکھتا ہے جو اس لکیر کے اندر کے انسان کا ہے. اگر یہ گروہ کچھ مدت کے لیے اس بات پر راضی ہو بھی جاتا ہے کہ لکیر کے باہر کا انسان لکیر کے اندر موجود گروہ کا حصہ بن سکتا ہے تو اس پر ایسے قوانین نافذ کرتا ہے کہ اس کا جسم یہاں موجود ہوتا ہے لیکن روح باہر.

    یہ اور اس جیسے دیگر نظریات عقل کے بالکل متصادم ہیں. مثال کے طور پر کوئی بچہ پیدا ہوتا ہے، پھر اس کے بچے پیدا ہوتے ہیں، پھر ان بچوں کے بچے اور سلسلہ یہاں تک چلا جاتا ہے کہ آج پیدا ہونے والے بچے کو دو سو سال پہلے کے خونی رشتہ دار کا علم نہیں ہوتا اور اگر علم ہو بھی جائے تو یہ اس کا وارث ہونے کا دعوٰی محض اس لیے نہیں کرسکتا کہ وہاں سے کچھ اور بھی انسان آئے ہیں جو تقسیم در تقسیم ہوچکے. یوں نسل خود انسان ہی کے ہاتھوں ایسے تقسیم ہوجاتی ہے کہ جہاں پھر ہر گروہ کے لیے الگ اصول الگ قوانین بنا دیے جاتے ہیں حالانکہ یہ بنیادی طور پر ایک ہی والد اور والدہ سے ہوتے ہیں.

    جس طرح قرآن میں فرمایا گیا
    خلقکم من نفس واحدہ وخلق منھا زوجها وبث منهما رجالا کثیرا ونساء۔
    خدا نے تم کو ایک ہی جان سے پیدا کیا پھر اس سے اس کا جوڑ پیدا کیا اور ان دونوں سے بہت سے مردوں اور عورتوں کو پھیلا دیا۔

    بالکل اسی طرح وطنیت بھی ہے. یہ وطن، یہ ممالک، یہ لکیریں خود انسانوں نے خود ہی کے لیے بنائی ہیں، یہ جاننے کے باوجود کہ یا تو یہ ساری زمین میری ہے یا پھر صرف وہی دو تین گز ز جہاں میری پیدائش ہوئی تھی اور زمین پر آیا تھا۔

    یعنی انسان ، انسانی گروہ یا کوئی پوری قوم و وطن یہ دعوی کیسے کرسکتا ہے کہ مشرق کے فلاں حصے سے لے کر مغرب کے فلاں حصے تک میری سرزمین ہے. یہ دعوی کس بنیاد پر جاتا ہے؟ حالانکہ انسان جس جگہ پر پیدا ہوتا ہے وہ دو تین گز زمین کے ٹکڑے سے زیادہ کچھ نہیں ہوتا لیکن پھر بھی وہ ایک الگ لکیر کھینچ لیتا ہے کہ وہاں سے یہاں تک میرا وطن ہے ؟ آخر کیسے ؟
    یہ تو محض انسانی تنگ نظری کے سوا کچھ نہیں. اگر دو گز زمین پھیل کر ہزاروں میل پر مشتمل ہوکر ایک ملک کی شکل اختیار کرسکتی ہے تو پھر یہی دو گز زمین پوری دنیا پر پھیل کر ایک ہی ملک کیوں نہیں بن سکتا، جہاں انسانی اخوت ہو

    بہرحال یہ نیشنلزم ہی ہے جس کی وجہ سے آئن سٹائن جیسے انسان سے جرمن صرف اس لیے نفرت کرتے رہے کہ وہ اسرائیلی تھا. اس نیشنلزم نے مولانا عبیداللہ سندھی جیسے عظیم علمائے دین کو بھی اس طرح کی سطحی باتوں پر مجبور کردیا کہ سندھی اپنے وطن کا بنایا ہوا کپڑا پہنے گا. یا یہ کہ اگر میرا وطن اس انقلاب کے نقصان سے بچنا چاہتا ہے تو جو اس وقت دنیا پر چھا گیا ہے، اور روز بروز چھاتا جا رہا ہے تو اسے یورپین اصولوں پر نیشنلزم کو ترقی دینا ہوگی. گویا اس طوفان کا مقابلہ کرنے کے لیے سرنڈر کے سوا کوئی چارہ نہیں. اور یہ کہ نیشنلزم کسی کو بھی بہا کر لے جاسکتا ہے لہذا نقصان سے بچنے کا مجبورا یہی طریقہ ہے کہ اہل طوفان کے ہاتھ پر بعیت کر لی جائے.

    اس کے مقابلے میں اسلام کا نظریہ نہ صرف واضح بلکہ بہت مفید اور آزاد و روشن ہے. خالق حقیقی کا قران کریم میں فرمان ہے
    یا ایھا الناس انا خلقنکم من ذکر وانثی وجعلنکم شعوبا و قبائلی لتعارفو ان اکرمکم عنداللہ اتقکم. (اے لوگو ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور تم کو گروہ اور قبائل بنا دیا تاکہ تم آپس میں پہچانے جاؤ مگر درحقیقت معزز تو تم میں وہی ہے جو زیادہ پرہیزگار ہے.)

    بالکل واضح کر دیا گیا کہ یہ قوم قبیلہ گروہ محض برائے پہچان ہیں کیونکہ انسانوں کی تعداد کے بڑھنے کی وجہ سے پہچان کا عمل پیچیدہ ہوجاتا ہے. اور یہ بھی کہ کوئی کسی قومیت کی بنا پر معزز نہیں ہوگا بلکہ یہ اعزاز اس کے حصے میں‌ آئے گا جو زیادہ پرہیزگار ہوگا

    دراصل نیشنلزم تو عذاب کی ایک شکل ہے. اللہ تعالٰی فرماتے ہیں
    یا تم کو گروہ بنا دے اور تمھیں ایک دوسرے کی قوت کا مزہ چکھائے۔ القرآن

    یعنی اگر قومیت کو پہچان کے بجائے نیشنلزم کا لباس پہنایا جائے تو یہ عذاب بن جاتا ہے، جس میں پھر طاقت کا مظاہرہ ہوتا ہے اور اقوام ایک دوسرے پر مسلط ہونے کے لیے
    ہر حد تک جا سکتی ہیں. اگر اسلامی نظریہ قومیت اور نیشنلزم کا بغور جائزہ لیا جائے تو یہ واضح ہوجاتا ہے کہ یہ دونوں ایکدوسرے کی ضد ہیں. اسلام انسان کے ساتھ “من حیث الانسان” مخاطب ہوتا ہے. یہ ایک ایسی دنیا کا خواہشمند ہے جس میں قومی تعصبات کی زنجیر توڑ کر انسانوں کو ایسے مساوی حقوق مل جائیں جس سے وہ آپس میں دوستانہ تعلقات قائم رکھیں نہ کہ مخالفانہ کشمکش میں مبتلا ہو جائیں. یہ صرف اس لیے کہ ہر انسان دوسرے انسان کی مادی ترقی و خوشحالی میں اس کا مددگار ہو اور یہ سلسلہ محبت اور امن و سلامتی کے ساتھ آگے بڑھتا رہے. جبکہ نیشنلزم انسانوں کے درمیان قومیت کے لحاظ سے تفریق کرتا ہے.

    انفرادی سوچ اجتماعی بنتے دیر نہیں لگتی لہذا انفرادی طور پر سوچ اگر مثبت ہو تو اجتماعیت کی طرف اس کا جانا انسانیت کے لیے مفید ہوتا ہے. لیکن نیشنلزم اور قومیت پرستی کی وجہ سے انسان اس ظلم میں مبتلا ہوتا ہے کہ اپنے ملک، اپنی قوم اور اپنے گروہ کے غلطی پر ہونے اور ظلم کرنے کے باوجود مخالف ملک، قوم اور افراد کے مقابلے میں ان کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے. نیشنلزم دراصل انسان کو مدنیت سے دوبارہ وحشت کی طرف دھکیلنے کا نظریہ ہے

  • مکالمے کے لیے کیا ضروری ہے؟ طیب عباس

    مکالمے کے لیے کیا ضروری ہے؟ طیب عباس

    دلیل کے منتظمین کو اس نام سے فورم کے قیام پر مبارکباد. اُمید ہے کہ یہ فورم صحت مند مکالمے کے ذریعے ہمارے ملک میں بڑھتی ہوئی نظریاتی خلیج کو پاٹنے کے لیے مددگار ثابت ہوگا.
    ہمارے ہاں حطرناک حد تک مکالمے کا فقدان ہے. لکھنے والوں کی تربیت ایسی ہوئی ہے یا رجحان ایسا چل پڑا ہے کہ ہمیشہ یک طرفہ سوچ کے ساتھ لکھا اور مخالف نظریات رکھنے والوں کو ان کے نظریات کے بجائے اپنے نظریات کی عینک سے پرکھا جاتا ہے. کسی بھی نظریہ سے اختلاف کرنے کا بنیادی اُصول یہ ہے کہ آپ اپنے نظریہ کے ساتھ مخالف نظریہ کی بنیاد، محرک اور آخری منطبق سٹیج سے بھی آگاہ ہوں. اگر دوسرے کا نظریہ کماحقہ سمجھنا ہو تو خود کو دوسرے کی جگہ رکھ کر سوچنا پڑتا ہے. لیکن افسوس کہ ہمارے ہاں مخالفت کے لیے محض اس نظریہ کا حوالہ ہی اہم ہے. ہم سمجھتے ہیں کہ اگر کوئی سیکولر نظریے کا حامی ہے تو وہ لازمی طور پر ملحد اور مغرب سے متاثر بھی ہوگا اور اس کا
    ایجنڈا لازمی طور پر وطن عزیز کی نظریاتی جڑیں کھوکھلی کرنا ہوگا. شیعہ ہے تو لازمی طور پر ایران کا ایجنٹ ہوگا. دویبندی یا سلفی ہے تو اسے سعودی ریال گننے سے فرصت نہیں ہوگی اور وہ ضرور دہشت گردوں اور مذہبی شدت پسندوں کا سہولت کار یا کم از کم حمایتی تو ہوگا. اسی طرح اگر کوئی جمہوریت پسند ہے تو اسے فوج سے خدا واسطے کا بیر ہوگا، اسی بنیاد پر اس کی مخالف کرنا اس کا فرض ٹھہرتا ہے۔ اور تو اور سیکولر، لبرلز، کمیونسٹ حتی کہ ملحدین کو ایک ہی چھڑی سے ہانکا جاتا ہے، اسی طرح مذہب کی مختلف تعبیرات کی پیروی کرنے والوں کو بھی ایک ہی کیٹگری میں جنرلائز کیا جاتا ہے

    اس خامی کے حوالے سے ایک دفعہ رائٹ کے ایک مشہور لکھنے والے سے بات ہوئی تو ان کا فرمانا تھا کہ یہ سیکولر حضرات کی ذمہ داری ہے کہ وہ لوگوں میں اپنے متعلق اس غلط فہمی کو دور کریں. ان سے عرض کی کہ کیا مخالفین کی اخلاقی ذمہ داری نہیں ہے کہ وہ کسی دوسرے سے اختلاف کرتے وقت عوام کو وجہ اختلاف سے بھی بخوبی آگاہ کریں اور مخالف نظریے والے کے مئوقف کو سمجھا کر اس سے اپنے اختلاف کی نوعیت واضح کریں؟ عام فہم لیبل کو اپنے مئوقف کی مضبوطی کے لیے استعمال کرنا اخلاقی طور پر بھی غلط ہے
    اور مکالمے کے اُصولوں کے بھی خلاف ہے. بات سمجھنے کی ہے کہ اگر پاکستان میں سیکولرز حضرات اپنے نظریے کی ترویج چاہتے ہیں تو وہ پاکستان کی بھلائی کو مدنظر رکھ کر ہی ایسا سوچتے ہیں. کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ ریاست کو مذہب سے الگ رکھ کر ہی ایک متنوع اور کثیر الجہت معاشرے کی امن اور انصاف پر مبنی بنیاد رکھی جا سکتی ہے. آپ ان سے اختلاف کا حق رکھتے ہیں، ان کے نظریات کے غلط ہونے کا یقین رکھ سکتے ہیں، ان نظریات کی بھرپور مخالفت کر سکتے ہیں لیکن ان کی نیت پر شک کرنا غیر مناسب بات
    ہے. ایسا ہی معاملہ دوسرے نظریات کے حاملین کا ہے. مسئلہ تب پیدا ہوتا ہے جب ہم مخالف نظریات رکھنے والوں کو اپنے سے کم حب الوطن فرض کرکے اس پر چارج شیٹ لگا دیتے ہیں.

    یہ طرزعمل سوشل میڈیا تک محدود نہیں ہے بلکہ قومی سطح پر ایسا ہوتا آیا ہے. اس طرز عمل کی وجہ سے لوگ ردعمل کی نفسیات کا شکار ہوتے ہیں اور انتہاؤں کی طرف بڑھ کر شدت پسندانہ نظریات اختیار کر لیتے ہیں. گمان رکھیے کہ آپ کا مخالف آپ جتنا ہی مخلص، نیک نیت اور محب وطن ہے. جو اختلاف ہے وہ نظریاتی ہے ذاتی نہیں، ایسا ممکن ہی نہیں کہ جہاں چند سوچنے والے اذہان جمع ہوں وہاں اختلاف نہ ہو. اختلاف رائے سے اتفاق کریں، ایک دوسرے کو سپیس دیں اور مکالمے میں ایک دوسرے کو سمجھانے کے
    بجائے سمجھنے کی نیت سے شریک ہوں. اسی طرح فاصلوں کو پاٹنا ممکن ہے.

    آخر میں یہ عرض کروں گا کہ ہر نظریاتی فورم کا احترام مقدم ہے ورنہ آخر میں نتیجہ وہی نکلے گا جو ایک محلے میں دو مخلتف مساجد کے درمیان مسابقت سے نکلتا ہے. اختلاف شروع تو علمی سطح سے ہوتا ہے، دلیل اور مناظروں کا اہتمام کیا جاتا ہے لیکن آخر میں مقابلہ صرف اس بات کا رہ جاتا ہے کہ کس مسجد کا سپیکر اونچا ہے.

  • ترک بغاوت ناکام بنانے میں ٹیکنالوجی کا کردار – عمران زاہد

    ترک بغاوت ناکام بنانے میں ٹیکنالوجی کا کردار – عمران زاہد

    10155883_10154733532529478_5886019418085289879_nپچھلی رات جب فوج کے ایک حصے نے ترک حکومت کے خلاف بغاوت برپا کی، اس وقت اردگان سالانہ چھٹیوں پر دارالحکومت سے باہر ایک تفریحی مقام انطالیہ میں قیام پذیر تھے۔ فوج نے تمام سرکاری ذرائع ابلاغ پہ قبضہ جما لیا تھا۔ فضا میں گن شپ ہیلی کاپٹرز کی توپوں کی گونج تھی اور فیس بک ٹوئٹر جیسے تمام ذرائع بھی پہنچ سے باہر تھے۔ پلان کا اہم ترین حصہ اردگان کی آواز کو عوام تک پہنچنے سے روکنا تھا۔ بغاوت کا پلان اتنا فول پروف تھا کہ اردگان واقعی قوم سے رابطہ کرنے میں ناکام رہا تھا۔ باغی اپنی جگہ پر مطمئن تھے کہ فضاؤں اور زمین پر ان کا مکمل قبضہ ہے۔ کوئی پتہ بھی ان کی مرضی کے بغیر نہیں ہل سکتا۔ بیرونی حکومتوں نے ان کی حمایت میں محتاط انداز میں خیرسگالی کے بیان نشر کرنا شروع کر دیے تھے۔ غیر ملکی میڈِیا کامیاب بغاوت کی بریکنگ نیوز دے چکا تھا۔ ہمارے ملک کے دانش فروش بھی سرشاری کے عالم میں ترک صدر کو سابق صدر اور وزیر اعظم کو سابق وزیراعظم کے لقب سے یاد کر رہے تھے۔ لیکن تقدیر دور کھڑی ان کی حماقت پر مسکرا رہی تھی۔
    :
    اس وقت اردگان نے آئی فون کے فیس ٹائم فیچر کو استعمال کرنے کا فیصلہ کیا۔ فیس ٹائم سکائپ اور گوگل ہینگ آؤٹ کی طرح کی ایپ ہے جو صرف ایپل کی مصنوعات پر چلتی ہے۔ فیس ٹائم کے ذریعے ایک آئی فون سے دوسرے آئی فون پر ویڈیو کال کی جا سکتی ہے۔
    :
    سی این ین ترک کی اینکر وہ پہلی ہستی تھی جس نے بغاوت کے بعد اردگان کی جھلک اپنے فون پر دیکھی۔ اس نے فوراً فون کا رخ ٹی وی کیمرہ کی طرف کیا، چھوٹا مائک فون کے پاس کیا اور یوں اردگان کی تصویر اور آواز ترکی کی فضاؤں میں پھیل گئی۔
    :
    اردگان نے کہا:
    “میں اپنے لوگوں سے کہتا ہوں کہ سب کے سب باہر نکلو اور گلی کوچوں کو بھر دو اور باغیوں کو سبق سکھا دو۔ باغی کبھی کامیاب نہیں ہوں گے۔ جلد یا بدیر انھیں ہٹا دیا جائے گا۔ میں خود انقرہ کے تقسیم چوک میں اس تحریک کا حصہ بننے آ رہا ہوں۔ ہم ذمہ داروں کوقرار واقعی سزا دیں گے۔”
    :
    اس پیغام کے نشر ہونے کی دیر تھی کہ لوگ جوق در جوق باہر نکلے اور اس کے بعد انہوں نے لاالہ ،بسم اللہ، اللہ اکبر کی گونج میں جو تاریخ ساز مزاحمت کی اور باغی فوجیوں کو گلیوں میں گھسیٹ گھسیٹ کر گرفتار کیا، وہ اب تاریخ کا ایک تابناک باب ہے۔ لیکن سی این این ترک کو اس کا فوری طور پر یہ خمیازہ بھگتنا پڑا کہ باغی ان کےاسٹوڈیو میں گھس آئے اور ان کی نشریات کو بند کر دیا۔
    :
    عرب بہار کے موقع پر بھی ٹیکنالوجی نے بہت اہم کردار ادا کیا تھا۔ اس وقت ٹوئٹر نے باہم ابلاغ کی سہولت مہیا کی تھی اور اس دفعہ فیس ٹائم نے باغیوں کی کوششوں پر پانی پھیر دیا۔
    :
    اللہ تعالٰی نے قران میں سچ فرمایا کہ
    [pullquote]وَيَمكُرونَ وَيَمكُرُ اللَّهُ ۖ وَاللَّهُ خَيرُ المـٰكِرينَ (سورۃ الانفال)
    [/pullquote]

    وہ اپنی چالیں چل رہے تھے اور اللہ اپنی چال چل رہا تھا اور اللہ سب سے بہتر چال چلنے والا ہے.