Tag: تحریک انصاف

  • عمران خان سے کچھ بھی ممکن ہے – محمد عامر خاکوانی

    عمران خان سے کچھ بھی ممکن ہے – محمد عامر خاکوانی

    عامر خاکوانی عمران خان واقعی کچھ بھی کر سکتا ہے۔ اس سے سب کچھ ممکن ہے۔ پاکستانی سیاست میں سرپرائز دینے کی صلاحیت کا سب سے زیادہ مظاہرہ خان نے ہی کیا ہے۔ رائیونڈ جلسہ کا اعلان ہوا تو ہر کوئی حیران تھا کہ ستمبر کے آخری دنوں میں جب لاہور میں شدید حبس اور گرمی چل رہی ہے، شہر سے میلوں دور رائیونڈ میں جلسہ کرنے کی کیا تک ہے۔ اوپر سے اڈہ پلاٹ کی جگہ چن لی، جسے بھرنا بظاہر ناممکن نظر آ رہا تھا۔ جلسے سے دو تین دن پہلے تک صحافیوں میں یہ سوال ایک دوسرے سے پوچھا جا رہا تھا کہ جلسہ کا کیا بنے گا؟ حیران کن طور پر اسی نوے فیصد یہ کہہ رہے تھے کہ عمران خان نے شدید غلطی کی ہے۔ موسم غلط ہے، جگہ غلط چنی، اتنے بڑے کھلے میدان کو بھرنا ممکن نہیں۔ دو لاکھ سے کم لوگ اسے بھر نہیں سکتے، جبکہ حالات بتا رہے ہیں کہ اس سے چار پانچ گنا کم لوگ بھی اکٹھے نہیں ہو پائیں گے۔ عمران خان کے آخری دو تین جلسے زیادہ اچھے نہیں رہے تھے۔ کراچی کا جلسہ تو پریشان کن حد تک خراب رہا۔ جلسہ گاہ میں خالی کرسیاں نظر آئیں۔ لاہور میں ریلی بھی درمیانی رہی۔ یہ خبریں بھی آ رہی تھیں کہ تحریک انصاف کے کارکن تھک چکے ہیں، رہنما چندہ دینے کو تیار نہیں، ارکان اسمبلی تک احتجاجی تحریک جاری رکھنے کے موڈ میں نہیں۔ دو دن پہلے ن لیگ کےلیے نرم گوشہ رکھنے والے ایک سینئر دوست نے اڈہ پلاٹ کا وزٹ کرنے کے بعد اپنا تجزیہ شیئر کیا، ان کا کہنا تھا کہ عمران خان نے دو غلطیاں کی ہیں، اڈہ پلاٹ کا انتخاب غلط ہوا، اوپر سے انتظامیہ کی شرائط مان لیں، جنہوں نے ہوشیاری سے قافلوں کے رکنے کےلیے کئی میل دور جگہوں کا انتخاب کیا ہے۔ خواتین کے لیے بھی چار پانچ کلومیٹر دور جگہ رکھی گئی ہے، وہ کیسے اتنا زیادہ چل کر اڈہ پلاٹ پہنچیں گی۔ ان کا تجزیہ تھا کہ جلسہ فلاپ ہوجائے گا۔ ادھر گوجرانوالہ، فیصل آباد، ملتان وغیرہ سے دوست صحافی خبر دے رہے تھے کہ مقامی سطح پر تحریک انصاف کی تنظیم متحرک نہیں، بہت کم لوگ لے جا سکیں گے۔ گوجرانوالہ سے ہمارے ایک سینئر صحافی دوست نے توصرف ایک ہزار لوگوں کے جانے کی پیش گوئی کی۔ نقشہ کچھ یوں بن رہا تھا کہ دس سے پندرہ ہزار تک لوگ بمشکل اکٹھے ہو سکیں گے۔ تحریک انصاف والے مجبوری کے عالم میں اپنی گاڑیاں پھیلا کر جگہ کور کرنے کی کوشش کریں گے، مگر ٹی وی کے کیمروں کے آگے یہ کہاں چھپ سکے گا۔

    %d8%b9%d9%85%d8%b1%d8%a7%d9%86-%d8%ae%d8%a7%d9%86-3 جمعہ کی شام مگر یکسر مختلف منظرنامہ دکھا رہی تھی۔ لوگوں کے پرجوش قافلے جوق در جوق چلے آرہے تھے۔ اتنی بڑی تعداد میں لوگ شریک ہوئے کہ پورا نظام مفلوج ہوگیا۔ موٹر وے کئی گھنٹوں تک بلاک رہی، جلسہ گاہ سے میلوں دور تک لوگ موجود تھے۔ انتظامیہ کا اندازہ تھا کہ اڈہ پلاٹ کا میدان بھرنے کے لیے دو لاکھ لوگ چاہییں۔ اسی لیے رانا ثنا اللہ نے بار بار دو لاکھ لوگ لانے کا مطالبہ کیا، انہیں یقین تھا کہ اس سے چار گنا کم لوگ بھی شریک نہیں ہوپائیں گے۔ عمران نے مگر ایک اور معجزہ تخلیق کر ڈالا۔ مجھے حیرت ہے کہ برادرم حفیظ اللہ نیازی نے جیو پر کہا کہ اڈہ پلاٹ پر پندرہ ہزار لوگ اکٹھے ہوسکتے ہیں۔ وہ اس تعداد کو پندرہ سے ضرب دینا بھول گئے تھے۔ عمران خان نے نہ صرف اڈہ پلاٹ بھر دیا بلکہ اس کے بہت باہر تک لوگ جمع تھے۔ میلوں تک پھیلا یہ ہجوم کم سے کم دس لاکھ تو نہیں تھا، جیسا کہ سٹیج سے دعویٰ کیا گیا، یہ توبچگانہ بات تھی۔ یہ جلسہ مگر ڈھائی سے تین لاکھ تک یقینا تھا۔ 30 ستمبر کی حبس آلود شام میں اتنے لوگ جمع کرنا دراصل چھ سات لاکھ لوگ اکٹھے کرنے کے برابر تھے۔ عمران خان نے ایک تاریخی جلسہ کر ڈالا۔ ایک اور تاریخی جلسہ۔ مجھے یاد ہے کہ30 اکتوبر 2011ء کو عمران خان کے جلسہ سے پہلے کسی کو امید نہیں تھی کہ اتنا بڑا جلسہ ہوجائے گا۔ ایک دن پہلے حفیظ اللہ نیازی جو ان دنوں عمران کے دست راست تھے، وہ ہماری ہفتہ وار نشست میں آئے اور انہوں نے انکشاف کیا کہ تحریک انصاف کے اندر یہ سوچ تھی کہ موچی دروازہ کا گراﺅنڈ نہ لے کر ہم نے غلطی کی، جسے پندرہ بیس ہزار سے بھی بھرا جا سکتا تھا، جبکہ مینار پاکستان کے گراﺅنڈ کو بھرنے کےلیے لاکھ دو لاکھ لوگ چاہییں۔ بعد میں سب حیرت زدہ رہ گئے۔ آج رائے ونڈ کے اس جلسے نے بھی بہت سوں کو حیران کیا ہوگا۔

    %d8%b9%d9%85%d8%b1%d8%a7%d9%86-%d8%ae%d8%a7%d9%86 جلسہ بہت بڑا، پرجوش اور نہایت کامیاب تھا۔ عمران کی تقریر بھی بہت عمدہ، موثر اور فوکسڈ تھی۔ اس کے تین چار حصے تھے۔ پہلی بار اس نے عام آدمی کو پاناما لیکس والا پورا ایشو سمجھانے کی کوشش کی۔ سکرین پر ویڈیوز اور دستاویزات کے ذریعے عمران نے پہلی بار نہایت مدلل انداز میں اپنا پانامہ والا کیس پیش کیا اور بڑی حد تک عام آدمی کو سمجھانے میں وہ کامیاب رہے۔ اس حصے کے انہیں دس میں سے دس پوائنٹ دیے جا سکتے ہیں۔ دوسرے حصے میں وہ نواز شریف صاحب پر خوب گرجے، برسے اور اپنے مخصوص انداز میں سخت ، تند وتیز حملے کیے۔ عمران خان کے بعض فقرے زیادہ سخت تھے، خواجہ آصف کے خلاف شعلہ بیانی غیر ضروری تھی، وزیراعظم پر کچھ سخت فقرے نرم ہوسکتے تھے، مگر یہ بہرحال عمران خان کا سٹائل ہے، اسے پسند کریں یا نہ کریں، وہ اپنے مخصوص انداز ہی میں بولتے ہیں۔ تقریر کا تیسرا حصہ بھارتی وزیراعظم نریندرمودی کے خلاف تھا، وہ بھی ان کے مزاج اور توقعات کے عین مطابق تھا۔ کشمیریوں کی بھرپور حمایت کرنا مقبوضہ کشمیر کے مظلوم کشمیریوں کو یقیناً اچھا لگے گا۔ کرپٹ عناصر کے خلاف عمران خان کے حملے، اداروں کو مضبوط کرنے کی بات، نظام میں تبدیلی اور استحصالی قوتوں کو قانون کی گرفت میں لے آنے کی بات بھی مدلل اور موثر تھیں۔ عمران کی تقریر اگرچہ طویل تھی، مگر لگتا تھا کہ وہ اس بار خاصی تیاری کر کے آئے ہیں، ان کے پاس تمام نکات موجود تھے، جنہیں عمدگی سے بیان کرنے ، اور اپنا کیس اچھے طریقے سے لڑنے میں کامیاب رہے۔ میرا نو سالہ بیٹا معز میرے پاس بیٹھا یہ تقریر نہایت دلچسپی سے سن رہا تھا۔ اس کا تایا عمران خان کا سخت مخالف ہے۔ معز کو کچھ عرصے سے یہ شکوہ تھا کہ عمران خان جسے وہ عمان خان کہتا ہے، خان آخر ہر وقت دھرنے کی بات کیوں کرتا ہے۔ آج عمران کی تقریر نے پہلی بار معز کو متاثر کیا، میں نے اسے عمران خان کی باتوں پر سر ہلاتے دیکھا، بعد میں اس کا تبصرہ تھا کہ آج سمجھ آئی کہ عمران خان کیا چاہتا ہے۔ یہ واقعہ محاورتاً یا زیب داستان کے لیے بیان نہیں کیا، ایسے ہی پیش آیا ہے۔ اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ تحریک انصاف کے کارکنوں اور حامیوں کا ذہن کس حد تک صاف ہو گیا ہوگا۔ مسلم لیگ ن کے حامیوں کے لیے ظاہر ہے یہ تقریر اتنی ہی تکلیف دہ رہی ہوگی۔

    %d8%b9%d9%85%d8%b1%d8%a7%d9%86-%d8%ae%d8%a7%d9%86-2اہم سوال یہ ہے کہ عمران خان نے اس سے کیا حاصل کیا؟ میرا خیال ہے کہ اس نے سب کچھ پا لیا۔ مسلم لیگ ن کی حکومت کمال مہارت سے اور پیپلز پارٹی کے تعاون کے بعد پانامہ لیکس والا معاملہ خاصی حد تک لٹکانے میں کامیاب ہوگئی تھی۔ یوں لگ رہا تھا کہ یہ ایشو ہوا میں تحلیل ہوگیا۔ رائیونڈ جلسے سے عمران خان نے دوبارہ پانامہ ایشو زندہ کرکے حکومت کو چار ماہ پرانی پوزیشن میں کھڑا کر دیا۔ تحریک انصاف کے بارے میں یہ تاثر بن رہا تھا کہ یہ کمزور ہوگئی اور اب اسے زندہ رہنے کے لیے متحدہ اپوزیشن کے سہارے کی ضرورت پڑے گی۔ عمران خان نے یہ تاثر مٹا دیا اور کسی کی مدد کے بغیر اتنا بڑا جلسہ کر کے ثابت کر دیا کہ وہ ملک کا واحد کراﺅڈ پلر ہے، رائیونڈ میں عمران کے علاوہ ملک کا کوئی بھی اور سیاستدان اس قدر بڑا شو نہیں کر سکتا۔ تحریک انصاف کا کارکن بھی چارج ہوگیا اور پارٹی دوبارہ خوداعتمادی سے سرشار ہوگئی۔ عوامی تحریک اب ساتھ شامل نہ ہونے پر پچھتا رہی ہوگی، پیپلزپارٹی کو یا عمران خان کے ساتھ ملنا پڑے گا، یا پھر کوئی نئی حکمت عملی بنانی ہوگی، ورنہ پنجاب سے ان کا صفایا تو ہوگیا، ان کا نام لیوا بھی کوئی نہیں رہے گا۔ جماعت اسلامی کو بھی اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنا ہوگا۔ عمران خان کو جماعت کے ساتھ رابطہ کرنا چاہیے، ماضی میں بعض ناخوشگوار واقعات ہوئے، جن سے عدم اعتماد کی فضا قائم ہوئی۔ عمران کو جماعت سے رابطہ کرنا چاہے، وہ خود اگر سراج الحق صاحب سے ملیں تو جماعت ساتھ چل سکتی ہے، ایجنڈا دونوں کا ایک ہے، دونوں فطری اتحادی ہیں۔ آج شام فیصل آباد میں پولیس نے جماعت کے ساتھ زیادتی کی۔ سراج الحق کے ساتھ سرکاری گارڈ ہوتا ہے، جو کے پی کے حکومت نے دے رکھا ہے، عین جلسے کے وسط میں پولیس کا سٹیج پر چڑھ کر گارڈ کا لائسنس چیک کرنا احمقانہ قدم تھا، جس سے بدمزگی ہوئی۔ پی ٹی آئی اور جماعت میں کئی مشترک نکات ہیں، انہیں سامنے رکھ کر چلنا چاہیے۔

    %d8%b9%d9%85%d8%b1%d8%a7%d9%86-%d8%ae%d8%a7%d9%861عمران خان کا محرم کے بعد اسلام آباد جانے کا اعلان اور حکومت نہ چلنے دینے کا عزم بہت بولڈ قدم ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ عمران اس کے لیے کیا حکمت عملی بناتے ہیں۔ ممکن ہے انہوں نے یہ اعلان حکومت پر دباو ڈالنے کےلیے کیا ہو تاکہ جوڈیشل کمیشن بن سکے۔ ابھی اس میں ایک ماہ باقی ہے، کیا معلوم اس وقت سرحدوں پر صورتحال کیا ہو اور تحریک انصاف کو انتہائی اقدام تک نہ جانے پڑے۔ سردست تویہ امید کرنی چاہیے کہ سیاستدان حالات قابو سے باہر نہ جانے دیں۔ حکومت پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ پانامہ والے معاملے کو لٹکانے کے بجائے اپنے وعدے پر عمل کرے۔ یوں سیاسی عمل چلتا رہے گا، ٹکراﺅ کا شکار نہیں ہو پائے گا۔

  • رسیدیں نکالو! آصف محمود

    رسیدیں نکالو! آصف محمود

    آصف محمود اب تو احباب باقاعدہ گرہ لگاتے ہیں کہ عمران خان نے آصف محمود کے خواب توڑے ہیں۔ عرض یہ ہے کہ بھائی توڑے ہیں، بالکل توڑے ہیں، ان کی کرچیاں راہوں ہی میں نہیں بکھری پڑیں وجود میں پیوست بھی ہو چکی ہیں لیکن اب کیا ہم سپنوں کا شہزادہ نواز شریف اور آصف زردای کو بنا لیں؟ یا ان کے ایسے ولی عہدوں کو دل میں مکیں کرلیں جو موروثی سیاست کے طفیل ’ قائد محترم‘ بنے پھرتے ہیں اور گاہے ’ جناب سپیکر‘ کے گال بھی تھپتھپا دیتے ہیں لیکن اگر وطن عزیز میں میرٹ ہو تو شایدیہ ایل ڈی اے میں گیارہویں گریڈ کی سرکاری نوکری بھی نہ لے سکیں؟

    عمران خان سے ہمارا شکوہ کچھ اور ہے۔ اس جماعت کو اور اس کے قائد کو ہم جہاں دیکھنا چاہتے ہیں، یہ وہاں نہیں ہے۔ اس کے اخلاقی وجود کو ہم جن آلائشوں سے پاک دیکھنا چاہتے ہیں وہ لمحہ لمحہ یہاں سکہ رائج الوقت بنتی جا رہی ہیں۔ ہم نے پلکوں میں خواب بن لیے تھے لیکن ہمیں زمینی حقائق کا پیر ہن اوڑھایا جانے لگا ہے، صاف چلی شفاف چلی کو ہم نے مقدس آدرش جان لیا تھا لیکن ہمیں بتایا گیا یہ تو فقط ایک سیاسی نعرہ تھا، ہم نے چاہا تھا کہ سونامی اس ملک کو لاحق سب موذی روایات اڑا کے لے جائے، معلوم ہوا اس کی سرکش لہریں لال حویلی کے نیم سنجیدہ در و دیوار کو بوسے دے رہی ہیں۔ مخلص دوستوں کے بجائے جب عمران کو مسخروں اور ابن الوقتوں کے ہجوم میں گھرا دیکھتے ہیں تو دل اداس ہوتا ہے اور خواب ٹوٹتے ہیں۔ لیکن یہ ہماری تنقید ہے اور ہمیں اس کا حق ہے۔ تخت لاہور کے نون غنے کس منہ سے تنقید کرتے ہیں۔ چھلنی تو بولے سو بولے چھاج کیوں بولے جس میں سو چھید؟

    ساری خرابیاں ایک طرف، اور ان کا دفاع بلا شبہ ممکن ہی نہیں۔ تنقید کی ہے اور کرتے رہیں گے اور کسی تعلق خاطر کو خاطر میں لائے بغیر کرتے رہیں گے لیکن ٹوٹے خوابوں کے ملبے پر پڑی ساری خرابیوں کے باوجود عمران خان اور ان کی تحریک انصاف نون غنہ سوچ اور اس کے میمنہ میسرہ پر کھڑے جمہوریوں اور اہل جبہ و دستار سے بہت، بہت، بہت بہتر ہے۔ کوئی مقابلہ ہی نہیں۔ کہاں راجہ بھوج، کہاں گنگوا تیلی۔

    یہ تصور تکلیف دہ ہی نہیں، شرف انسانی کی توہین بھی محسوس ہوتا ہے کہ حقوق انسانی کے اس عہد جدید میں ہماری آئندہ نسلوں کے قائد قبلہ بلاول زرداری اور عالی مرتبت حمزہ شہباز ہوں گے۔ کیا کبھی آپ نے ان عالی دماغوں کو خطاب کرتے سنا ہے؟ کیا لوگوں میں توہین کا احساس بھی جاتا رہا؟

    کرپشن، دھوکہ، نوسربازی، چوربازاری، شعبدہ بازی اور اس طرح کی جملہ بیماریوں کے خلاف ہمیں کسی جماعت کے کارکنان میں اضطراب ملتا ہے تو وہ تحریک انصاف ہے یا جماعت اسلامی۔ باقیوں نے تو، الا ماشاء اللہ، ان خرابیوں کو اپنی زلف دراز کا حسن قرار دے کر قبول کر لیا ہے۔ یہ اضطراب غنیمت ہے۔ یہ اس رومان کی آخری نشانی ہے جو تحریک انصاف سے وابستہ تھا۔ یہ اضطراب تحریک انصاف کو اپنی ساری خامیوں سمیت دوسروں سے ممتاز کرتا ہے۔ یہ اضطراب سیدنا عمرؓ کی اس فکر کی تذکیر بھی ہے کہ لوگو!تمہیں تمہاری ماؤں نے آزاد پیدا کیا تھا۔

    اس اضطراب کا خاتمہ سماج کی موت ہو گی۔ حالات ہمارے سامنے ہیں۔ اہل اقتدار کا ایک شکنجہ ہے جس نے ریاستی اداروں کو لپیٹ میں لیا ہوا ہے۔ چودہ لاشیں گر جائیں تو مجرم دندناتے رہتے ہیں۔ امور کی تقسیم وزیراعظم اور وفاقی وزیر برائے اپوزیشن جناب خورشید شاہ کے ہاتھوں میں ہے۔ اب پتا چلا ہے کہ دیوانے ہی نہیں دو فرزانے بھی مل بیٹھیں تو خوب گزرتی ہے۔ اس’ جمہوری بانٹ‘ ( میں اسے بندر بانٹ نہیں کہوں گا کیونکہ میں بے زبان جانور کی توہین کا قائل نہیں) میں اگر کوئی حقیقی اپوزیشن یعنی عمران خان کی بات ہی نہ سنے اور اس کے جائز مطالبات کا تماشا بنا دے تو کیا وہ احتجاج بھی نہ کرے؟ یہ نظام ،ارتقائی عمل کے تحت تبدیلی چاہتا ہے۔ کیونکہ اس نظام کے خدوخال ایسے ہیں کہ جو اس کی برائیوں سے منہ کالا نہ کرے، یہ اس کے ہاتھ میں کاسہ انصاف پکڑا کے اسے رسوا کر دیتا ہے اور وہ بے چارہ ساری عمر انصاف کی تلاش میں دھکے کھاتا رہتا ہے اور انصاف پھر بھی اس کی دسترس میں نہیں آتا۔

    ایسے میں آدمی کیا کرے؟
    گلے میں ارسطوئے زمانہ حمزہ شہباز شریف اور لقمان وقت بلاول زرداری کی غلامی کا طوق ڈال کے نسلیں ان کے ہاں گروی رکھوا دی جائیں یا آواز اٹھائی جائے؟
    جی ہاں، بے شک عمران نے میرے خواب توڑے ہیں، لیکن اس برفاب سماج میں آواز بھی صرف وہی اٹھا رہے ہیں۔ ہم اپنے خوابوں کا بھی پہرہ دیں گے لیکن عمران کی آواز میں آواز بھی ملائیں گے۔ عمران خان دیوتا نہیں انسان ہیں، ان کی غلطیوں پر ساری دیانت کے ساتھ تنقید بھی جاری رہے گی لیکن وہ اس سماج میں ایک صدائے حریت بھی ہیں:
    ’’ لوگو اٹھو!تمہیں تمہاری ماؤں نے آزاد پیدا کیا ہے‘‘۔ اس سدا پر کان وہی بند کر سکتا ہے جو بہرہ ہو، یا غلامی پر رضامند۔
    پانامہ لیکس ہی نہیں، جملہ وارداتوں کا حساب تو مانگا جائے گا۔ یہ حساب تو دینا پڑے گا۔ عمران کی ایک ہزار ایک کامیاں آپ کی ایک واردات کا بھی جواز نہیں بن سکتیں۔
    رسیدیں نکالو!

  • کیا عمران خان اپنا مقدمہ ہار چکے ہیں؟ محمد عامر خاکوانی

    کیا عمران خان اپنا مقدمہ ہار چکے ہیں؟ محمد عامر خاکوانی

    عامر خاکوانی سیاسی پس منظر میں یہ سوال بہت اہم ہے۔ ہمارے بعض محترم تجزیہ کار اس پر قلم اٹھا چکے ہیں، ان میں سے بعض یہ حتمی فیصلہ سنا رہے ہیں کہ عمران خان اپنا مقدمہ ہار گیا ہے۔ اس خاکسار کی رائے میں یہ رائے درست نہیں۔ یہ رائے اگرتعصب اوربد نیتی پر مبنی نہیں اور میرا حسن گمان ہے کہ ایسا نہیں، تو پھر عمران خان کے مقدمہ ہار دینے والی بات کو عاجلانہ اور سادہ لوحی پر محمول ضرور کرنا چاہیے۔

    اس کی ایک سادہ سی وجہ ہے کہ عمران خان کا موازنہ اپنے سیاسی حریفوں سے کرنا ہوگا، سب کے لیے ایک جیسے پیمانے بنانے پڑیں گے۔ یہ نہیں کہ ایک کو ہاتھی گیٹ سے گزارا جائے اور دوسرے کے لیے اتنی چھوٹی کھڑکی کہ وہ رینگ کر بھی نہ گزر پائے۔ یہ ممکن نہیں کہ آپ سیاسی تجزیہ تو زمینی حقائق، عملیت پسندانہ سوچ کو سامنے رکھ کر کریں، میدان سیاست میں موجود بڑے پہلوانوں کو رعایت بلکہ بےپناہ رعایتیں دیں، ان کے بلنڈرز سے آنکھیں بند کر لیں اور عمران خان کو آئیڈیل ازم کی کسوٹی پر پرکھیں۔ رومانوی سیاست کے وہ تمام پیمانے جن کا اطلاق پاکستان بلکہ جنوبی ایشیائی سیاست میں بھی ممکن نہیں، وہ تمام عمران خان پر آزما ڈالیں۔ اسے انصاف نہیں کہتے، عدل اور توازن پر مبنی رائے یوں نہیں دی جاتی۔

    عمران خان کا مقدمہ آخر ہے کیا ؟ تین بنیادی نکات ہیں۔ پہلا یہ کہ پاکستانی سیاست سٹیٹس کو کے گرد گھوم رہی ہے، مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی جیسی بڑی سیاسی جماعتیں سٹیٹس کو کی علمبردار ہیں، نظام کو وہ بدلنا نہیں چاہتیں، تھانے ، کچہری، پٹوار کے اسی ظالمانہ نظام کو قائم رکھنا چاہتی ہیں، تعلیم، صحت کے شعبوں میں اصلاحات لانا ان کا مقصد نہیں ، طاقتور طبقات سے وہ ٹیکس وصول نہیں کرنا چاہتے، غریبو ں کی زندگی بدلنا ان کی ترجیحات میں شامل نہیں۔ دوسرا نکتہ یہ ہے کہ سیاستدان کرپشن کی دلدل میں دھنسے ہوئے ہیں، شریف خاندان، زرداری خاندان اور ان جیسے دیگر بڑے سیاستدانوں نے ملک سے لوٹی دولت بیرون ملک لے جا کر وہاں سرمایہ کاری کر رکھی ہے، اسے واپس لانا چاہیے اور اگر میں یعنی عمران خان خود بھی کرپٹ ہے یا اس کے ساتھ کرپٹ ہیں تو ان کا بھی بے رحمانہ احتساب کیا جائے۔ تحریک انصاف کے سربراہ کے مقدمہ کا تیسرا نکتہ یہی ہے کہ گورننس بہتر کی جائے، سٹرکوں اور ظاہری چمک دمک دمک والے میگا پراجیکٹس کے بجائے حقیقی اصلاحات لائی جائیں، پولیس اور انتظامیہ کو سیاسی دبائو سے آزاد رکھا جائے، بلدیاتی ادارے مضبوط کئے جائیںتاکہ گراس روٹ لیول تک جمہوریت کے اثرات مرتب ہوں۔

    اب اس مقدمہ میں سے کون سی بات ہے جو ثابت شدہ نہیں۔ ایک بھی نکتہ ایسا نہیں جس پر کسی تجزیہ کار کو اعتراض ہوگا، سب باتیں آئینے کی طرح واضح اور شفاف ہیں۔ کیا مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی سٹیٹس کو کی علمبردار نہیں ہیں؟ کسی مزید دلیل کی ضرورت ہی نہیں۔ پچھلے آٹھ برسوں سے دونوں پارٹیاں حکمران ہیں۔ پنجاب میں مسلم لیگ ن، سندھ میں پیپلزپارٹی۔ ان دونوں صوبوں کو لے لیں، کسی ایک شعبے میں بھی اصلاحات کسی نے کیں۔ کیا پنجاب یا سندھ پولیس سیاسی اثرورسوخ سے پاک ہے؟ کیا یہ سچ نہیں کہ مخصوص مقاصد کے لیے اپنی مرضی کے ڈی پی او اور ڈی سی اوز لگائے جاتے ہیں؟ کیا یہ غلط ہے کہ لاہور میں تھانوں کے ایس ایچ اوز کے تقرر بھی مخصوص لوگ کرتے ہیں۔ پچھلے آٹھ برسوں کے دوران تعلیم اور صحت میں کیا ریفارمز لائی گئیں؟ ٹیکس ریکوری بڑھانے کے لیے کیا کیا گیا؟ تین برسوں میں ٹیکس اصلاحات کے نام پر کچھ نہیں ہوا، ہر ایک جانتا ہے کہ کبھی ایسا نہیں ہوگا۔ سیاستدانوں کی کرپشن کے بارے میں سینہ گزٹ کو چھوڑیں، آڈیٹر جنرل کی رپورٹوں اور نیب کے سکینڈلز ہی کو سامنے رکھ لیں تو حیران ہوجاتا ہے۔برادرم رئوف کلاسرا کے پچھلے تین چار برسوں کے کالموں میں اتنے بڑے سکینڈل اور کرپشن دھماکے سامنے آئے ہیں،کسی کو تردید کرنے کی بھی جرأت نہیں ہوئی۔ ایسے کالم ہی اکٹھے کر دیے جائیں تو کرپشن پر اچھی خاصی ضخیم کتاب بن جائے گی۔

    پاناما لیکس ہی کو دیکھ لیں۔ جس ہوشیاری اور ہنرمندی سے حکمران جماعت نے اپنی فرینڈلی اپوزیشن جماعت پیپلزپارٹی کے ساتھ مل کر جو ڈرامہ رچایا، وہ سب کے سامنے ہے۔ پاناما سکینڈل آنے کے اگلے روز ہی وزیراعظم ٹی وی پر آئے اور قوم سے خطاب میں اس کی شفاف تحقیقات کا وعدہ کیا۔ کہاں گیا وہ وعدہ ؟سب جانتے ہیں کہ کیسی چالاکی سے پارلیمانی کمیٹی بنا کر ٹی اوآرز کے سلسلے کو اتنا طویل کیا گیا کہ لوگ یہ بات سن سن کر تنگ آ جائیں اور معاملہ معلق ہوجائے۔ عمران خان کے تیس ستمبر والے جلسے، مارچ وغیرہ پر تنقید کی جاسکتی ہے، مگر سچ تو یہ ہے کہ حکومت نے سڑکوں پر آ کر احتجاج کرنے کے سوا اور کیا راستہ چھوڑا ہے۔ کتنے مہینے گزر گئے، ٹی او آرز کی کمیٹی کے کتنے اجلاس ہوگئے، مگر اتفاق رائے نہیں ہوا اور صحافتی حلقے یہ بات پہلے سے جانتے تھے، بلکہ سیاسی فہم رکھنے والے ہر شخص کو علم تھا کہ ایسا ہی ہوگا۔ ن لیگ کے ارکان اسمبلی سرگوشیوں میں، معنی خیز مسکراہٹ کے ساتھ نجی محافل میں کہتے تھے کہ جب اتفاق رائے ہوجائے، تب ہمیں بتائیے گا۔ وہی ہوا جس کی توقع تھی۔ آج اگر کوئی صاحب دانش یہ مشورہ دے کہ عمران خان اپنے مقدمہ کو عدالتوں میں لے جائیں تو ان کی سادگی اور بھولپن پر رحم آتا ہے۔ بھائی کیا پاکستان میں کرپشن کی تحقیقات کرنے والے ادارے اس قدر آزاد ہیں کہ حکومتوں کے خلاف عدالتوں کو ثبوت فراہم کریں گے؟ پھر پاناما لیکس کی تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمیشن بنانا ہے، اس کے لیے مگر قانون تو پاس کرو، تب ہی اس کمیشن کو اختیار ملے گا۔ اتنی سامنے کی بات آخر ناقدین کیسے نظرانداز کر سکتے ہیں؟کیاآرڈی ننس عمران خان نے جاری کرنا ہے؟ وہ تو کہتا ہے کہ اس پر خود الزام ثابت ہو جائیں، اس کے قریبی ساتھیوں پر ثابت ہوں تو انہیں بھی سزا دو۔ اس سے بڑھ کر کیا بات کی جا سکتی ہے؟

    عمران خان کا اخلاقی مقدمہ اس کے سیاسی مقدمہ سے جڑا ہوا ہے۔ جن تین نکات کے گرد اس کا مقدمہ گھومتا ہے، انہی کو عمران خان اور اس کی سیاست پر منطبق کرنا چاہیے۔ عمران خان پر کرپشن ثابت ہونا تو دور کی بات ہے، الزام تک نہیں لگ پایا۔ اس کے بدترین مخالف بھی یہ نہیں کہہ سکے کہ عمران خان نے فلاں معاملے میں کمیشن کھایا یا وہ گھپلوں میں ملوث ہے، پیسے لے کر ٹکٹیں جاری کرتا ہے۔ اکتوبر تیرہ کے انتخابات سے پہلے ن لیگ کے تیز دھار رہنما ایک بات تواتر سے دہراتے تھے کہ عمران خان کرپٹ اس لیے نہیں کہ اسے اقتدار نہیں ملا، جب ملے گا تب دیکھیں گے۔ تین سال ہوچکے، خیبر پی کے پر اس کی جماعت حکمران ہے، کئی سو ارب کا سالانہ بجٹ ہوتا ہے، ایک معاملے میں بھی عمران خان پر الزام نہیں لگ سکا۔ کوئی یہ نہیں کہہ سکا کہ اس نے پیسے لے کر ٹرانسفر، پوسٹنگ کی ہیں یا وزارتیں دی ہیں۔ واضح رہے کہ پنجاب اور سندھ میں ایسے درجنوں بلکہ بیسیوں الزام اور ہوش ربا واقعات موجود ہیں۔

    خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کی حکومت کی کارکردگی مثالی نہیں، بہت کچھ ہوسکتا تھاجو نہیں ہوا، یہ مگر ہر ایک کو ماننا چاہیے کہ کچھ نہ کچھ اصلاحات انہوں نے کی ہیں۔ صوبے کی تاریخ میں پہلی بار پولیس سیاسی اثرورسوخ سے پاک ہوئی، طاقتور ترین آئی جی لگایا گیا جو ٹرانسفر، پوسٹنگ کے لیے وزیراعلیٰ کے اجازت بھی نہیں لیتا۔ پنجاب میں اس کا خواب بھی نہیں دیکھا جا سکتا۔ سیاسی اثرورسوخ سے بےنیاز چیف سیکرٹری لگایا گیا، دیگراعلیٰ انتظامی عہدوں میں بھی ایسا کیا گیا۔ تعلیم کے شعبے میں بہت بہتری آئی۔ منہ زور ڈاکٹر مافیا کو ڈسپلن میں لانے کی سعی ہو رہی۔ سٹیٹس کو کے علمبردار وزیراعلیٰ کے ہونے کے باوجود یہ اصلاحات لائی گئیں، حالانکہ بیشتر حکومتی ارکان اسمبلی اور وزرا ناتجربہ کار ہیں، اصلاحات پر عملدرآمد کے لیے جو تجربہ چاہیے، وہ ان کے پاس نہیں، مگر کمٹمنٹ نظر تو آئی ہے۔ بلدیات کی وزارت جماعت اسلامی کے پاس ہے، اس کی کارکردگی قابل رشک رہی۔اس کے برعکس پنجاب میں کئی ماہ ہوگئے، مگر بلدیاتی ادارے ابھی تک نہیں بن سکے۔ پنجاب کے ہر ضلع میں ن لیگ کے اپنے لوگ ہی مئیر، ناظم بنیں گے، مگر برائے نام اختیار دینے کا جی نہیں چاہ رہا۔ کے پی کے میں نصف سے زیادہ اضلاع میں اپوزیشن کے مئیر، ضلعی ناظم بنے ہیں۔ پھر بھی وہاں بلدیاتی ادارے فعال ہیں بلکہ صوبائی تاریخ میں پہلی بار ترقیاتی فنڈز کا معقول حصہ بلدیاتی اداروں کے ذریعے خرچ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ عمران خان کا یہ مقدمہ تو ثابت ہوگیا ہے کہ چاہے سٹیٹس کو کے علمبردار ، روایتی سیاستدان اس کے ساتھ ہیں، مگر وہ ان سے بلیک میل نہیں ہوا، پولیس اور انتظامیہ کے ٹرانسفر، پوسٹنگ کو سیاسی دبائو سے باہر رکھا اور تعلیم، صحت، بلدیات اور کئی دوسرے شعبوں میں اصلاحات کی کوشش تو کر رہا ہے، مکمل کامیابی نہ سہی، کچھ نہ کچھ تو ہوگا۔ ادھر پنجاب اور سندھ میں تو کسی نے اصلاحات کی طرف پہلا قدم ہی نہیں بڑھایا۔

    بات ابھی ختم نہیں ہوئی، اس کے بعض پہلوئوں پر ان شاء اللہ آئندہ گفتگو کریں گے۔

  • عمران خان صاحب، سماج پر رحم کیجیے – آصف محمود

    عمران خان صاحب، سماج پر رحم کیجیے – آصف محمود

    آصف محمود پڑھیے اور سر پیٹ لیجیے۔
    نرگسیت کے گھونسلے سے سر نکال کر خان صاحب نے فرمایا:
    ’’ ناراضی کس بات کی، مارچ کی دعوت دینے جا رہا ہوں، رشتہ لینے تو نہیں جا رہا‘‘۔
    گویااخلاقیات کے علمبرداروں نے اپنے کزن طاہر القادری کو بھی نہیں بخشا، حالانکہ کزنز کا ’دادا‘ ایک ہوتا ہے۔

    اختلاف ایک چیز ہے ،جسے گوارا کیا جانا چاہیے کہ یہ زندگی کا حسن ہے اور سماج میں شعوری بیداری کی علامت لیکن اخلاقیات سے گری ہوئی گفتگو پست ذہنیت کی علامت ہے۔ شیخ رشید جیسوں کی صحبت صالح نے اب معلوم نہیں عمران خان کو بدل دیا ہے یا صرف بے نقاب کیا ہے، تاہم وہ جو زبان استعمال کر ہے ہیں، وہ ان کے فکری افلاس اور اخلاقی بحران کا اعلان عام کر رہی ہے۔

    تحریک انصاف نے اور کچھ کیا یا نہیں بدتمیزی اور گالیوں کو ایک کلچر بنا دیا۔ ہماری صدیوں کی تہذیب و روایت ہے کہ مائیں، بیٹیاں سانجھی ہوتی ہیں۔ اختلاف بھلے دشمنی تک بھی پہنچ جائے، مائوں بیٹیوں کا احترام کیا جاتا ہے۔ عمران خان نے اس تصور کو بیچ بازار پامال کر دیا ہے۔ جب قائد محترم ہی تہذیب نفس سے محروم ہوں تو ٹائیگرز کا تو کیا ہی کہنا۔ بعض تو اسم بامسمی ہیں۔ دکھ ہوتا ہے کہ ان سے ہم نے کیا توقعات وابستہ کر لیں لیکن یہ کتنے چھوٹے اور کتنے بودے نکلے۔

    مریم نواز کے بارے میں تحریک انصاف کے عام کارکنان نے نہیں، مرکزی عہدیداروں نے جس زبان میں گفتگو فرمائی اور جس طرح کے ٹویٹ کیے، وہ بتا رہے ہیں کہ تحریک انصاف کا اخلاقی بحران کتنا شدید ہو چکا ہے۔ جواب آں غزل کے طور پر ٹیرن خان کے بارے میں بھی بہت کچھ کہا جا سکتا ہے لیکن یہ بھی ویسی ہی بد تہذیبی اور بد اخلاقی کہلائے گی جس کا مظاہرہ تحریک انصاف کر رہی ہے۔

    عمران کا مسئلہ یہ ہے کہ ان کی عمر صالح کا غالب ترین حصہ ’چھڑے‘ کے طور پر گزرا ہے۔گھر، آنگن، چاردیواری میں پنپنے والے رشتوں کی لطافت سے وہ محروم ہی رہے۔ انہیں اس لطیف احساس کی بھی کوئی خبر نہیں کہ بیٹی کیا ہوتی ہے۔ ان کے گھر کا آنگن بیٹی کے قہقہوں اور اور اس کی شرارتوں سے محروم ہی رہا۔ انہیں خبر ہی نہیں باپ اور بیٹی کا رشتہ کیسا ہوتا ہے۔ وہ نہیں جانتے کہ رات گئے جب بیٹی ضد کرے ’’ بابا پیپسی کی بھوک لگی ہے‘‘ تو اس ضد کو پورا کرنے کے لیے گھر سے گاڑی نکالنا کتنا پیارا تجربہ ہوتا ہے۔بیٹی کی مسکراہٹ اور قلقاریوں میں کیسا امرت ہوتا ہے، انہیں معلوم نہیں۔ وہ اس بات سے بھی بے خبر ہیں کہ بیٹی کی آنکھ پر نم ہو جائے تو من کی دنیا کیسے اتھل پتھل ہو جاتی ہے۔ انہیں قدرت نے ایک باپ کی ذمہ داریاں نبھانے کا موقع بھی نہیں دیا۔ عالی ظرف جمائما بھابھی ہی بچوں کا باپ بھی بن گئیں۔ مقبول ترین آدمی کی زندگی کا یہ پہلو آدمی کو اداس کر دیتا ہے۔ وہ اس حوالے سے قابل رحم ہیں۔

    لیکن وہ ایک رہنما بھی ہیں۔ انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ لاکھوں دل ان کے لیے دھڑکتے ہیں۔ وہ اگر تہذیب نفس سے بےنیاز ہو کر عامیانہ طرز گفتگو اختیار کریں گے تو یہ سماج کی اخلاقی بنیادیں کھود ڈالنے کے مترادف ہوگا۔ اس سما ج پر رحم کیجیے۔

  • الیکشن کمیشن، عمران خان اور نون غنیت – آصف محمود

    الیکشن کمیشن، عمران خان اور نون غنیت – آصف محمود

    آصف محمود ٹیکسلا میں انتخابی ریلی سے خطاب کر کے، کہا جا رہا ہے کہ، عمران خان نے چوتھی مرتبہ الیکشن کمیشن کے قانون کی خلاف ورزی کی ہے۔ میرے پیش نظر سوال یہ ہے کہ کیا الیکشن کمیشن کے اس ضابطے کو مسلسل پامال کرتے چلے جانا عمران خان کا ایک درست رویہ ہے؟

    میں قانون کا ایک طالب علم ہوں اور قانون کی عملداری پر یقین رکھتا ہوں۔ میں نے اس سوال پر بہت غور کیا اور میری رائے یہ ہے کہ عمران خان اور کیا کرتے؟جس قانون کی بنیاد ہی بد نیتی پر ہو اس پر عمل کیسے کیا جا سکتا ہے؟ کیا عمران خان اپنے ہاتھ اور بازو اس لیے کاٹ پھینکیں کہ نون غنیت گاہے قانون کی شکل میں ظہور کرتی ہے؟
    قانونی نون غنیت ملاحظہ فرمائیے۔

    ایک مسلمہ ضابطہ یہ ہے کہ انتخابات کے دوران اعلی حکومتی شخصیات انتخابی حلقے میں کوئی ایسی سرگرمی نہیں کریں گی جو انتخابی عمل پر اثر انداز ہو۔ حکومت چونکہ تجربہ کاروں کی ہے اس لیے سر جوڑے گئے کہ نواز شریف توکسی انتخابی حلقے میں جا نہیں سکتے تو کوئی ایسا راستہ نکالا جائے کہ عمران خان بھی نہ جا سکیں۔ چنانچہ نیا ضابطہ متعارف ہو گیا کہ جس حلقے میں الیکشن ہوگا وہاں کسی بھی جماعت کا سربراہ نہیں جا سکے گا۔ اس ضابطے کی شان نزول بادی النظر میں بد نیتی ہے۔ اس پر عمل نہیں کیا جا سکتا۔گویا آپ روز بد نیتی پر مبنی قانون بنواتے رہیں اور عمران خان ساری عمر انہیں چیلنج کر کر کے دھکے کھاتا رہے اور پیشیاں بھگتتا پھرے؟

    قبلہ پرویز رشید عملا وفاقی وزیر برائے مذمت عمران خان بنے پھرتے ہیں اور اس پر ارشاد فرماتے ہیں کہ الیکشن کمیشن کو عمران کے خلاف کارروائی کرنی چاہیے۔ ساتھ ہی صاحب نے مطالبہ کیا کہ الیکشن کمیشن تمام امیدواروں کو مساوی مواقع فراہم کرے۔ یعنی اگر ن لیگ کا سربراہ انتخابی جلسے میں نہیں جا سکتا تو عمران کو بھی نہ جانے دے۔
    ملک نہ ہوا نون غنوں کی خاندانی جاگیر ہو گئی۔
    مساوی مواقع، کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی!

    جب جہانگیر ترین کے انتخابی حلقے میں نواز شریف نے کروڑوں کی سکیموں کی رشوت ووٹرز کو پیش کی تھی، اس وقت کیا دونوں امیدواروں کے پاس مساوی مواقع تھے؟
    باقی جملہ نون غنوں کو جان لینا چاہیے کہ اگرتحریک انصاف کا سربراہ جلسے میں جا رہا ہے تو آپ بھی کوئی ایسا سربراہ بنا لیں جو وزیر اعظم نہ ہو تو وہ بھی چلا جایا کرے۔ عہدے بھی سارے آپ نے نکے اور وڈے بھا جی ہی کی جیب میں ڈالنے ہیں اور واویلا مچا کر قوانین کو ایک تماشا بنانا ہے۔

    پابندی سیاسی جماعت کے سربراہ پر نہیں اصل میں وزیر اعظم پر ہے کہ ان کے جانے سے انتخابی عمل متاثر ہوتا ہے۔ اب نون غنوں نے چونکہ پارٹی سربراہ اور وزیر اعظم کے عہدوں کو ایک ہی شخص کی جیب میں رکھنا ہے اس لیے نیا قانون بنا دیا کہ کسی بھی جماعت کا سربراہ جلسے سے خطاب نہیں کرے گا۔ ایسے میں عمران خان کیا کرے؟

    الیکشن کمیشن نے عمران خان کو تو نوٹس جاری کر دیے ہیں. کیا اس میں ہمت ہے کہ وہ ذرا ایک نوٹس نواز شریف کو بھی جاری کرے کہ جہانگیر ترین کے حلقے میں انتخابی عمل کے دوران بھاری مالیاتی پیکیجز کا لالچ ووٹرز کو انہوں نے کیوں دیا۔ (اس پیکیج کا رشوت ہونا اس سے بھی ثابت ہے کہ شکست کے بعد میاں صاحب نے وہاں ایک ٹکہ نہیں دیا جہاں کروڑوں کے وعدے فرما کر آئے تھے)۔

    باقی جہاں تک اس دھمکی کی الیکشن کمیشن کے پاس توہین عدالت میں چھ ماہ قید میں ڈالنے کا اختیار موجود ہے تو جناب صرف اتنا عرض کر دوں کہ سماج کو خوف کی لاٹھی سے نہیں، انصاف، دیانت اور مساوات سے چلایا جاتا ہے۔

  • خیبرپختونخوا حکومت کے دو انقلابی اقدامات – راشد حمزہ

    خیبرپختونخوا حکومت کے دو انقلابی اقدامات – راشد حمزہ

    خیبرپختونخوا کے دو ڈویژن ملاکنڈ اور ہزارہ مکمل طور پر پہاڑی علاقوں پر مشتمل ہیں. ہرے بھرے درختوں سے اٹی ہوئی پہاڑیاں، سرسبز وادیاں، بےقرار دریا، شفاف پانیوں کی ندی نالیاں، نقرئی چشمے اور پہاڑی جھرنے ان علاقوں کا قدرتی حسن دوبالا کرتے ہیں. ان علاقوں میں قدرتی حسن کے قدردانوں، اسیران گلزاروں، مرغزاروں اور سبزہ زاروں کی تسکین کا ان کے ذوق و شوق کی تکمیل اور طبعیت کے لطف اور روح کی شادمانی کے سامان کا بھرپور قدرتی انتظام و انصرام موجود ہے. یہاں کے مکینوں کی ان جنگلات سے کچھ ضرورتیں بھی جڑی ہیں تو کچھ لوگ ضرورتوں کی آڑ میں ان جنگلات سے ناجائز فائدہ بھی اٹھاتے رہے ہیں. ان ناپسندیدہ لوگوں کو مجموعی طور پر ٹمبرمافیا کے نام سے جانا جاتا ہے. مسلسل بڑھتی ہوئی آبادی بھی براہ راست قدرتی حسن کے خزانوں میں کمی کا سبب بن رہی ہے.

    آبادی کا بڑا حصہ ایندھن کی ضرورت جنگل کی لکڑی سے پورا کرتا ہے، بطور ایندھن جو درخت عام استعمال کیا جاتا ہے وہ چیڑ کا ہوتا ہے، اس کی عمر بہت زیادہ ہوتی ہے. تقریبا سو سال سے زیادہ، یہ درخت تقریبا بیس افراد کے گھرانے کے چھ ماہ ایندھن کی ضرورت پورا کرتا ہے، یعنی اگر کوئی چیڑ کا ایک درخت کاٹ لے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس نے اپنی چھ ماہ کی ضرورت پورا کرنے کے لیے زمین اور قدرت کی ایک سو بیس سالہ محنت کو استعمال کیا اور اس جگہ جہاں یہ درخت اگا تھا کو آنے والے ایک سو بیس سال کے لیے اس قسم درخت سے محروم کردیا. ان علاقوں کا حسن ہی ان درختوں کی وجہ سے قائم ہے.

    عوامی نیشنل پارٹی کی حکومت میں جتنا نقصان ان علاقوں جنگلات کو پہنچایا اس کی مثال نہیں ملتی، ان نقصانات کا پیسوں میں تخمینہ لگانا ممکن تو نہیں البتہ اگر ہم سالوں میں تخمینہ لگائیں تو انے والے ایک سو بیس سال تک یہ علاقے ان نقصانات کا ازالہ کرتے رہیں گے. گزشتہ حکومت نے نہ صرف ٹمبر مافیا کو کھلی چوٹ دے رکھی تھی بلکہ خود حکومت میں ٹمبر مافیا سرگرم تھا. عوامی نیشنل پارٹی کے رکن قومی اسمبلی استقبال خان کو افغانستان غیرقانونی لکڑی سمگل کرتے ہوئے پکڑا بھی گیا تھا.

    تحریک انصاف کی حکومت نے ان علاقوں کے قدرتی حسن کو برقرار رکھنے اور سیر و سیاحت کے شعبے کو فروغ دے کر صوبے کی آمدنی بڑھانے کے لیے سب سے زیادہ بہتر اور موثر اقدامات اٹھائے ہیں، جس میں پہلا قدم ٹمبر مافیا کا تقریبا خاتمہ ہے. صوبے میں لکڑی کے غیر قانونی کاروبار سے وابستہ اکثر لوگ اب حکومت کی سخت پالیسیوں کی وجہ سے یا تو بھاری جرمانے ادا کرکے توبہ تائب ہوگئے ہیں یا دوسرے کاروبار کی طرف منتقل ہوچکے ہیں. دوسرا قدم بلین ٹری سونامی پراجیکٹ کا ہے جسے جتنا زیادہ سراہا جائے اتنا کم رہے گا. گزشتہ دور میں جنگلات کو جتنی بے دردی کے ساتھ تباہ کیا گیا تھا اس تباہی کا ازالہ کرنے کےلیے ایسے ہی ایک بڑے انقلابی پراجیکٹ کی ضرورت تھی. اگر ہم قدرتی انداز میں جنگلات کی کمی پورا کرنے کا راستہ اختیار کرتے تو کئی دہائیوں تک انتظار کرنا پڑتا. بلین ٹری سونامی پراجیکٹ عمران خان کی ذاتی دلچسپی پر شروع کیا گیا ہے اور الحمدللہ کامیابی سے اپنی تکمیل کی طرف گامزن ہے. پاکستان کی تاریخ میں اب تک چونسٹھ کروڑ درخت لگائے گئے ہیں جبکہ اب پختونخوا حکومت نے اپنی پانچ سالہ مدت میں ایک ارب تیس کروڑ درخت لگانے کا پراجیکٹ شروع کر چکی ہے یعنی ستر سال کے دوران پورے پاکستان میں جتنے درخت لگائے گئے تھے ان سے دوگنا زیادہ اور وقت صرف چار سال. مجھے بذات خود خیبرپختونخوا حکومت اور عمران خان کے ہر منصوبے اور پراجیکٹ سے بلین ٹری سونامی پراجیکٹ زیادہ عزیز اور منفعت بخش لگ رہا ہے.

  • کراچی اور ایم کیوایم، مستقبل میں کیا ہوگا؟ صفی الدین اعوان

    کراچی اور ایم کیوایم، مستقبل میں کیا ہوگا؟ صفی الدین اعوان

    %d9%85%d9%84%da%a9-%d8%b3%db%8c%d9%81-%d8%a7%d9%84%d8%af%db%8c%d9%86-%d8%a7%d8%b9%d9%88%d8%a7%d9%86 بعض ٹھوس وجوہات کی بنیاد پر میں یہ سمجھتا ہوں کہ ایم کیو ایم کا سیاسی زوال شروع ہوچکا ہے. اگر فاروق ستار وغیرہ ایم کیو ایم کی موجودہ تنظیم کو بچالینے میں کامیاب بھی ہوجاتے ہیں تو بھی اس زوال کو روکنا ممکن نہیں ہوگا. آج کراچی کی آبادی اسی لاکھ سے بڑھ کر ڈھائی کروڑ تک پہنچ چکی ہے بلکہ محسوس تو یہ ہوتا ہے کہ آبادی ڈھائی کروڑ سے بھی بڑھ چکی ہے لیکن ایم کیو ایم کے پاس وہی ووٹ بینک ہے جو تیس سال پہلے تھا۔ شاید زوال کا لفظ مناسب نہ ہو تو یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ ایم کیو ایم مخالف جماعتیں کراچی میں ایم کیو ایم کے مقابلے میں بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے زیادہ نشستیں جیتنے کی پوزیشن میں ہوں گی.

    ایم کیوایم حقیقی گروپ اتنا عرصہ گزرنے کے باوجود بھی کراچی کے چند علاقوں میں ایم کیو ایم کے لیے حقیقی خطرہ ہے تو دوسری طرف مصطفٰی کمال کی پاک سرزمین پارٹی اپنا نیٹ ورک پھیلا رہی ہے. اگرچہ ایم کیو ایم جیسی پذیرائی حاصل کرنا ممکن نہ ہو لیکن ووٹ بینک تو ضرور تقسیم ہوگا. اس کے ساتھ ساتھ قتل و غارت گری کا بھی خدشہ ہے،
    بےشمار نئی آبادیاں آباد ہوچکی ہیں جہاں ایم کیو ایم کا کوئی ووٹ بینک نہیں اور کراچی کی وہ رہایئشی اسکیمیں جو مختلف وجوہات کی بنیاد پر آباد نہیں ہورہی تھیں، وہاں تیزی سے آباد کاری ہو رہی ہے. ملیر میں ہاری ہوئی نشست ایم کیو ایم کے لیے کھلا پیغام ہے.

    کل ایک مضافاتی بستی میں جانا ہوا تو دیکھا کہ گلشن مزدور بلدیہ ٹاؤن جو کے ایم سی کے ملازمین کو الاٹ کی گئی رہایئشی اسکیم تھی، گزشتہ سولہ سال تک غیر آباد رہنے کے بعد اور امن کا عمل بحال ہونے کے بعد اب وہاں بہت تیزی سے آبادی میں اضافہ ہو رہا ہے اور چند ماہ میں پلاٹ کی قیمت دولاکھ سے بڑھ کر دس لاکھ روپے تک پہنچ گئی ہے. بلاشبہ وہاں سینکڑوں کی تعداد میں پلاٹ زیرتعمیر تھے، سیمنٹ بجری وغیرہ کی ضروریات پوری نہیں ہو پا رہی تھیں. کراچی شہر کے ساتھ ہی مضافات میں بے شمار پر رونق بستیاں وجود میں آچکی ہیں. اسی طرح ایک مضافاتی بستی میں ایک بلوچ سردار کا ایک بہت بڑا شاپنگ مال دیکھا جو بلوچستان کے سابق وزیراعلٰی بھی ہیں، وہاں جو رش کا عالم تھا اور جس طرح کاروباری سرگرمیاں عروج پر نظر آئیں، اس کامقابلہ کراچی کے روایتی بازار صدر اور جامع کلاتھ سے کیا جاسکتا ہے. طارق روڈ سمیت بہت سے مصروف کاروباری علاقوں سے آکر وہاں کپڑے کے تاجروں نے کاروبار شروع کیا اور وہ لوگ بہت مطمئن بھی تھے.

    مضافاتی علاقوں میں شہر کے اندر کئی نئے شہر آباد ہوچکے ہیں. نو آباد پررونق بستیوں کی چہل پہل اور کاروباری رونقیں دیکھ کر حیرت ہوتی ہے. اسی طرح کراچی سے ایک اہم فوجی چھاؤنی سکیورٹی وجوہات کی بنیاد پر حیدرآباد منتقل ہو رہی ہے، چھاؤنی کا ستر فیصد غیر آباد علاقہ کنٹونمنٹ کے رہائشی علاقے میں تبدیل کرنے کا پروگرام ہے، یہاں بھی ایک پورا شہر آباد ہوگا.

    کراچی میں پراپرٹی کی قیمت میں بےتحاشا اضافہ ہوا ہے، بہت سے علاقوں میں پلاٹ کی قیمتیں صرف ایک سال کے اندر ڈبل ہوچکی ہیں، کئی کامیاب رہائشی اسکیموں میں اب پلاٹ دستیاب نہیں ہیں، یہ وہ اسکیمیں ہیں جہاں صرف ایک سال پہلے تک کوئی پلاٹ خریدنے نہیں آتا تھا. بحریہ ٹاؤن اور ڈیفنس نیوسٹی میں ابھی آبادی کا عمل شروع نہیں ہوا مگر ان نئی اسکیموں کی وجہ سے اردگرد سینکڑوں نئی رہائشی اسکیمیں وجود میں آچکی ہیں، جہاں آئندہ چند سالوں میں ایک نئی دنیا آباد ہوجائےگی.

    جب سے امن بحال ہوا ہے، کراچی میں چہل پہل عروج پر پہنچ چکی ہے، اس عرصے میں جہاں بھی آبادی میں اضافہ ہوا ہے، وہاں کہیں بھی ایم کیو ایم نظر نہیں آتی. بہت بڑی تعداد میں مالی طور پر انتہائی خوشحال بلوچ سرمایہ کار بھی کراچی منتقل ہوئے ہیں اور پہلی بار بلوچ سرمایہ کاروں نے دبئی اور عمان وغیرہ سے پیسہ لا کر کراچی کی مضافاتی بستیوں شاپنگ مال وغیرہ کے کاروبار میں سرمایہ کاری کی ہے. کراچی کے مضافاتی علاقوں جو بلوچستان کے شہر حب چوکی سے منسلک ہیں، وہاں اورنگی سے سرجانی تک کی تمام زرعی زمینیں بلوچوں کی وراثتی ملکیت ہیں اور وہاں بھی بہت بڑی تعداد میں رہائشی اسکیمیں وجود میں آ رہی ہیں.

    ایم کیو ایم اپنے روایتی علاقوں میں بدستور موجود رہے گی لیکن پورے کراچی کی سطح پر شیئر کم ہوگا، اور اگر ووٹ بینک تقسیم ہوا تو ایم کیو ایم کے لیے ضرورت سے زیادہ مسائل سامنے ہوں گے کیونکہ اس کے پاس تاحال الطاف حسین کی سطح کا سخت گیر اور تنظیمی اصولوں کو سمجھنے والا لیڈر نہیں ہے. کراچی کے دواضلاع ملیر اور ساؤتھ میں ایم کیو ایم بلدیاتی انتخابات میں ایم کیو ایم اکثریت ثابت نہیں کرسکی اور کراچی کے علاقے ویسٹ میں جیت مشکوک ہوچکی ہے.

    موجودہ حالات میں نون لیگ کراچی میں سیاسی خلا پورا کرسکتی تھی لیکن میاں صاحب نے کراچی پر وہ توجہ نہیں دی جو دینا چاہیے تھی. کراچی نون لیگ کا روایتی شہر رہا ہے لیکن میاں صاحب کو کراچی میں ایک بھرپور قسم کی مضبوط شخصیت اور سیاسی قیادت دینی ہوگی جس کےلیے تاحال نون لیگ سنجیدہ نہیں ہے. پیپلزپارٹی، نون لیگ، جماعت اسلامی اور پی ٹی آئی سمیت قومی جماعتوں کو کراچی کے لیے بالکل ہی الگ پالیسی تشکیل دینا ہوگی، مہاجروں کا خوف و ہراس دور کرنا ہوگا، مہاجر بستیوں کا تحفظ ہر صورت میں یقینی بنانا ہوگا کیونکہ مہاجر بستیاں آج بھی سانحہ علی گڑھ اور ماضی کے فسادات سے باہر نہیں نکل سکی ہیں، ملازمتوں اور دیگر معاملات کے لحاظ سے بھی کراچی کے شہری شکوک کا شکار ہیں. کراچی میں نئی یونیورسٹیوں، میڈیکل اور انجینرنگ کالجز کی فوری ضرورت ہے. کراچی کے شہریوں کا بالکل جائز شکوہ ہے کہ کوئی بھی جماعت صرف اور صرف کراچی کا مقدمہ نہیں لڑتی، اس لیے قومی جماعتوں کو پالیسی کے تحت ایک ایسی عوامی سطح کی قیادت کراچی کو دینی ہوگی جو کراچی کے روایتی مسائل پر ہر وقت اور ہر لمحہ بات کرے کیونکہ یہاں ایم کیو ایم کے علاوہ کوئی نہیں جو کراچی کراچی کا راگ ہروقت الاپتا رہے. اس حوالے سے ایم کیو ایم کا نیٹ ورک بہت زیادہ متحرک تھا، ایم این اے، ایم پی اے اور سینیٹر ہر روز اپنے علاقے میں خود عوام کے مسائل سنتے تھے اور کونسلرز وغیرہ تو بہت ہی زیادہ عوامی تھے.

    اس کے مقابلے میں دیگر سیاسی جماعتوں کے اندر ڈسپلن نام کی کوئی چیز نہیں ہے. ہر وقت آپس میں ہی الجھتے رہتے ہیں، وہ عوام کے مسائل کیا حل کریں گے؟ کراچی کا صدر اور دیگر قائدین جن کے پاس کوئی سرکاری عہدہ نہیں ہوتا، نہ وہ ایم این اے ایم پی اے ہوتے ہیں، اس کے باوجود وہ چھوٹے موٹے کارکن سے ہاتھ ملانا پسند نہیں کرتے، اس لیے دیگر سیاسی جماعتیں اس میدان میں اور عوامی رابطوں کے لحاظ سے ایم کیو ایم کا مقابلہ کا سوچ بھی نہیں سکتی ہیں. اگر دہشتگردی کا عنصر نکال دیا جائے تو ایم کیو ایم عام آدمی کی پارٹی ہے اور پاکستان کی کوئی جماعت اس کا مقابلہ کرنے کا سوچ نہیں سکتی. کیا یہ بات سچ نہیں کہ ایم کیو ایم کی پوری قیادت گلی محلے کے عام لوگوں اور کارکنان پر مشتمل ہے۔ میں نے خود ایک ایم پی دیکھا جو میرے سامنے ہی چند سال پہلے تک دن میں آلو پیاز کی ریڑھی لگاتا تھا اور شام کو شربت بیچتا تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ منتخب ہونے کے بعد سب سے زیادہ مال اسی نے کمایا۔ اسی طرح بہت سے عام اور غریب لوگ آج بھی منتخب نمائندوں کے طور پر شہر میں موجود ہیں اور یہی تنظیمی ڈسپلن اور نیٹ ورک ایم کیو ایم کی کامیابی ہے.

    پبلک ٹرانسپورٹ کراچی شہر میں مکمل طور پر تباہ اور برباد ہے، اس لیے اگر سرکلر ریلوے کو بحال کردیا جائے تو یہ مسئلہ حل ہو سکتا ہے. اورنج ٹرین کے مقابلے میں کراچی شہر میں تو ریلوے کا پورا اسٹرکچر موجود ہے، ریلوے کی زمین پر ناجائز قبضہ ہے جو ختم کروایا جاسکتا ہے لیکن کیا وفاقی حکومت چاہے گی کہ کراچی کے شہریوں کی آمد و رفت کے مسائل کے حل کے لیے کوئی میگا پروجیکٹ دے. بدقسمتی سے اگر جائزہ لیاجائے تو ایم کیو ایم بھی مشرف کے پورے دور میں جب ان کی حکومت تھی، تو پانی اور ٹرانسپورٹ وغیرہ کا کوئی بہت بڑا منصوبہ نہیں لاسکی، جس کا مقابلہ میٹرو بس اور اورنج ٹرین سے کیا جاسکے. بعض چھوٹے منصوبے تھے مگر وہ بھی کرپشن کی نذر ہوگئے. جس طرح لاہور نون لیگ کی پہلی اور آخری ترجیح ہے، اسی طرح تمام سیاسی جماعتوں کو کراچی کےلیے بالکل الگ منصوبہ بندی کرکے کراچی کو پہلی اور آخری ترجیح قرار دینا ہوگا، اور کراچی کے شہریوں کے لیے میٹرو بس اور اورنج ٹرین وغیرہ کے بڑے بڑے منصوبے شروع کرنے ہوں گے. ایم کیو ایم صبح شام کراچی کا رونا روتی ہے، اس کے مقابلے میں آنے کے لیے اتنا ہی مضبوط مؤقف قومی جماعتوں کو اپنانا ہوگا.

  • عمران خان کی بنیادی غلطی – عبید اللہ عابد

    عمران خان کی بنیادی غلطی – عبید اللہ عابد

    عبید اللہ عابد کہانی یہ ہے کہ سن 2008 میں پیپلزپارٹی کے امیدوار چودھری ظفراقبال نے چیچہ وطنی کی نشست 162 سے 70 ہزار ووٹ حاصل کرکے کامیابی حاصل کی تھی. رائے فیملی کے رائے عزیزاللہ نے آزادامیدوار کی حیثیت سے 65 ہزار سے زائد ووٹ حاصل کیے۔

    سن 2013 کے انتخابات میں تحریک انصاف کے امیدوار رائے حسن نواز نے 88 ہزار ووٹ حاصل کرکے کامیابی حاصل کی۔ آزاد امیدوار حاجی ایوب جسے نوازلیگ کی حمایت حاصل تھی، نے 75 ہزار ووٹ حاصل کیا۔ پیپلزپارٹی کے امیدوار کو محض ساڑھے 9 ہزار ووٹ ملے۔

    گزشتہ روز کے ضمنی انتخاب میں ن لیگ کے طفیل جٹ 74 ہزار281 ووٹ لے کر کامیاب قرار پائے جبکہ رائے مرتضیٰ اقبال 61 ہزار 836 ووٹ لے سکے۔ پیپلز پارٹی کے چودھری شہزاد چیمہ پندرہ ہزار873 ووٹ لے کر تیسرے نمبر پر رہے۔

    اس ساری کہانی کا اہم ترین پہلو یہ ہے کہ تحریک انصاف کی سیٹ مسلم لیگ ن لے اڑی۔ پنجاب سے اس کی قومی اسمبلی کی ایک سیٹ کم ہوگئی ہے۔ میں‌نے سوشل میڈیا بالخصوص ٹوئٹر پر پی ٹی آئی کے نوجوانوں کا ”دھاندلی ٹرینڈ“ تلاش کرنے کی کوشش کی لیکن نہ ملا، آج کے اخبارات چھان مارے، تحریک انصاف کے کسی رہنما کی طرف سے دھاندلی کا الزام بھی نظر نہیں آیا۔ پی ٹی آئی کے رہنما چودھری سرور کا بیان پڑھا کہ نتائج تسلیم کرتے ہیں کیونکہ یہ الیکشن فوج کی نگرانی میں ہوئے ہیں۔

    ہمارے دفتر میں ایک دوست صبح سے حساب کتاب کر رہے ہیں کہ پنجاب میں پی ٹی آئی کی کتنی سیٹیں باقی رہ گئی ہیں۔ عمران خان دو برس بعد ہونے والے انتخابات میں نوازلیگ کو شکست دینے کے دعوے کر رہے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ کل تحریک انصاف اپنی ہی سیٹ کیوں ہارگئی؟ پی ٹی آئی سے ہمدردی رکھنے والے دوست بڑے پرامید تھے کہ وہ صوبہ خیبر میں اس قدر ”شاندار“ کارکردگی دکھا رہے ہیں کہ اگلے انتخابات میں نوازلیگ کو ایوان اقتدار سے آئوٹ کردیں گے لیکن میں‌ان سے اختلاف کرتا تھا۔ مجھے خدشہ ہے کہ اگلے انتخابات میں صوبہ خیبر سے بھی پی ٹی آئی کو مئی 2013ء جتنی سیٹیں نہیں ملیں‌ گی۔ پی ٹی آئی کے دوست میرے خدشے کو مسترد کرتے تھے۔ کل کے ضمنی انتخاب نے بتادیا ہے کہ میرا خدشہ درست ہے۔ مجھے یہ بھی یقین ہے کہ پی ٹی آئی والے مختلف توجیہات پیش کرکے میرے اس خدشے سے اتفاق نہیں کریں گے، وہ ”سب اچھا“ کے اسیر ہیں۔ تحریک انصاف کے کارکنان کا کیا ذکر، ان کے چیئرمین عمران خان بھی اسی مخصوص ذہنیت کے حامل ہیں اور کبھی اپنی غلطی کا حساب کتاب نہیں‌ کرتے۔ وہ پاکستانی قوم کو بھی ”کرکٹ ٹیم“ ہی سمجھتے ہیں، وہ پاکستان کو بھی ”شوکت خانم“ یا ”نمل یونیورسٹی“ ہی خیال کرتے ہیں۔ یہی وہ بنیادی غلطی ہے جو انھیں نقصان سے دوچار کر رہی ہے۔

  • موٹروے پولیس واقعہ اور تحریک انصاف کی سوشل میڈیا ٹیم – عمران زاہد

    موٹروے پولیس واقعہ اور تحریک انصاف کی سوشل میڈیا ٹیم – عمران زاہد

    عمران زاہد پی ٹی آئی کے دوستوں کے سوشل میڈیا پر تازہ خیالات پڑھ کر میں نے مندرجہ ذیل نتائج اخذ کیے ہیں۔ شکر ہے انھیں تین دن بعد ہوش آیا اور انہوں نے اپنا فرض پہچانا۔
    :
    1- موٹروے پولیس نااہل، نکمی، رشوت خور اور ملک دشمن ہے۔ اس کا خاتمہ ملک کے اہم ترین مفاد میں ہے۔
    2- ہمارے نوجوان کپتان ایک خفیہ مشن پہ جا رہے تھے جنہیں روک کر موٹروے پولیس نے ملک کی سالمیت کو داؤ پر لگا دیا۔ کیونکہ ان کو روکنے سے سو ڈیرھ سو بندے کے دہشت گرد حملے میں شہید ہونے کا خدشہ تھا۔
    3- موٹروے پولیس والے 30 کمانڈوز سے مار کھا مسکرا مسکرا کر تصویریں کھنچوا رہے تھے، یہ ان کے جھوٹا ہونے کا بین ثبوت ہے۔ کیونکہ کمانڈوز کی مار کے بعد تو ان کی لاشیں ہی نظر آنی چاہیے تھیں۔
    4- تصویر میں نظر آنے والا واقعہ بالکل نظر کا دھوکا ہے۔ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ وہ فوجی جوان موٹروے پولیس والوں کی پٹائی نہیں کر رہے تھے۔ موٹروے پولیس والے انہیں گالیاں نکال رہے تھے۔
    5- اور ہاں، اگر ہمارے جوانوں نے موٹروے پولیس والوں کی ٹھکائی کر بھی لی تو کیا ہوا، وہ اس کے مستحق تھے۔ انہیں کس نے حق دیا تھا کہ وہ انہیں روکیں۔
    6- ہمارے مقدس جوانوں پر ملک کے کسی بھی قانون کا اطلاق نہیں ہوتا، خصوصاً ٹریفک قوانین کا۔ اگر وہ کسی قانون کو رضاکارانہ تسلیم کر لیتے ہیں تو یہ سراسر ان کی بڑائی، قانون پروری اور عظمت ہے، ورنہ ان پر یہ سب لازم ہرگز نہیں۔
    7- یہ سب کچھ مسلم لیگ نون کی حکومت را اور موساد کی مدد سے کروا رہی ہے۔ بلکہ یہ واقعہ اسٹیج ہی انہوں نے کروایا ہے تا کہ فوج کے خلاف نفرت پھیلائی جا سکے۔
    :
    ان خیالات کی ترویج کے لیے پورا انصافی سوشل میڈیا گینگ بمع لال ٹوپی والی سرکار اور دوسرے معروف گملوں میں لگے دانشور تندہی سے مصروفِ عمل ہیں۔ مجھے ان کا شکریہ ادا کرنا ہے کہ آپ لوگوں کا جو تھوڑا بہت پردہ اور بھرم تھا وہ سب کھل کے سامنے آ گیا ہے۔ پہلے بھی آپ لوگوں کو شکست و ہزیمت ملی ہے۔ آئندہ پہلے سے بڑھ کر ملے گی۔ یہ راستہ کامیابی کا راستہ ہرگز نہیں ہے۔ خان صاحب خود تو ناکامی کے غار میں گر ہی رہے ہیں، ساتھ ساتھ اپنے نوجوان فالوورز کی قسمت میں بھی ایسی مایوسی لکھ کر جا رہے ہیں کہ ان کی آئندہ آنے والی دو تین نسلیں بھی تبدیلی کے لفظ سے دور بھاگیں گی۔
    :
    ہاں وہ جو تفتیش اور انصاف کا وعدہ ہوا تھا، اس کی بات نہ کریں، کیونکہ اس کی بات کرنے والا را اور موساد کا ایجنٹ ہوتا ہے۔ اور جو یہ سب خرافات نہ مانے وہ بھی را اور موساد کا ایجنٹ ہے۔

  • تحریک انصاف کا ناکام جلسہ، محمد نعیم طاہر

    تحریک انصاف کا ناکام جلسہ، محمد نعیم طاہر

    pti-jalsa-kaarchi تحریک انصاف نے کراچی کی تاریخی جلسہ گاہ نشترپارک میں پاکستان زندہ باد کے عنوان سے جلسہ کرکے ”طاقت“ کا مظاہرہ کردیا، یہ مظاہرہ البتہ کتنی طاقت کا تھا، اس پر آرا مختلف ہیں، اور ہونی بھی چاہییں کیونکہ یہ ہر ایک کا حق ہے. خود عمران خان نے تسلیم کرلیا کہ یہ جلسہ بغیر تیاری کے عجلت میں کیاگیا ہے مگر سارے پاکستان کی جانب سے کراچی کے ساتھ اظہاریکجہتی کےلیے ایسا کرنا ضروری تھا۔

    کراچی میں صحافت سے طویل عرصے منسلک ایک ساتھی، جو سینئر سیاسی تجزیہ کاربھی ہیں، کے سامنے تحریک انصاف کے نشترپارک شو کا سوال رکھا تو انہوں نے بتایا کہ نشترپارک کراچی میں سیاسی سرگرمیوں کا مرکز بھی ہے اور ایک عرصے تک سیاسی جماعتوں کی مقبولیت کا پیمانہ بھی رہا ہے. پیپلزپارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو اور ان کے مخالف پاکستان قومی اتحاد نے یہاں بڑے جلسے کیے. ضیاالحق کے مارشل لا کے بعد سیاسی سرگرمیوں پر سے پابندی جنوری 1986ء میں اٹھائی گئی تو یہاں پہلا جلسہ خود
    مسلم لیگ کی حکومت نے کیا اور اس وقت کے وزیراعظم محمدخان جونیجو نے اس سے خطاب کیا. 14 فروری 1986ء کو ہونے والے اس جلسے میں محمد خان جونیجو نے شہر کی تمام کچی آبادیوں کو لیز کرنے اور کھوکھرا پار کی سرحد کھولنے کے اعلانات کیے، لیز پر تو عملدرآمد ہوا مگر سرحد نہیں کھولی جاسکی. ان کے جلسے کے بعد 21 فروری 1986ء کو جماعت اسلامی نے جلسہ کیا، تعداد کے لحاظ سے یہ جلسہ بھی بڑا تھا مگر اگلے دنوں میں جمعیت علمائے پاکستان کےسربراہ شاہ احمد نورانی نے جو جلسہ کیا، اس کے بارے میں ان کا دعوی تھاکہ یہ جماعت اسلامی کے جلسے سے بھی بڑا ہے.

    نشتر پارک کے جلسوں کی تاریخ کا دلچسپ واقعہ یہ ہوا کہ تحریک استقلال کے سربراہ ائیرمارشل اصغرخان جنہوں نے 1977ء کی تحریک نظام مصطفی میں شہر کی تاریخ کے طویل ترین جلوس کی قیادت کی تھی، 18 اپریل 1986ء کو جلسے سے خطاب کرنے پہنچے توجمعہ کی نماز کے بعد شارجہ میں ہونے والا آسٹریلشیا کپ کا پاکستان اور بھارت کے درمیان میچ دلچسپ صورت اختیار کر گیا. یہ وہ میچ تھا جس میں جاوید میانداد نے آخری بال پر چھکا مار کر اسے پاکستان کے حق میں موڑ دیا تھا. اگلے دن کے اخبارات کو خبریں بھی مل گئیں اور تصویریں بھی۔ ریٹائرڈ ائیرمارشل نشتر پارک میں کراچی کے عوام کا انتظار کرتے رہ گئے، یہ ناکام جلسہ اس جماعت کے زوال کا نقطہ آغاز بنا۔

    سینئر تجزیہ کار کے مطابق نشتر پارک میں ایم آر ڈی اور جے یو آئی نے بھی جلسے کیے مگر طویل پابندیوں کے بعد سیاسی آزادی کے اس پہلے سال کا سب سے کامیاب شو آٹھ اگست کو مہاجر قومی موومنٹ نے کیا جس کے جلسے میں شریک عوام کے سامنے نشتر پارک چھوٹا پڑگیا. اس کے بعد سیاسی جلسوں کےلیے نشترپارک کے بجائے دیگر مقامات کا انتخاب کیا جانے لگا، خاص طور پر شاہراہ قائدین اہم جلسہ گاہ بن گئی جہاں 26 جنوری 1990ء کو کمبائنڈ اپوزیشن پارٹیز نے شہر کی تاریخ کے بڑا جلسہ منعقد کیا. اس دور میں شرکا کے لیے کرسیاں لگانے کا فیشن آیاتھا، نہ سکیورٹی کے ایشوز تھے، لوگ اطمینان سے دری پر یا براہ راست زمین پر بیٹھ جایاکرتے تھے، کم جگہ میں زیادہ لوگ آتے تھے. اس لحاظ سے دیکھا جائے تو پی ٹی آئی کا پاکستان زندہ باد جلسہ کرسیوں کے باوجود نشترپارک کیا خود کرسیوں کو بھی نہیں بھرسکا. ایسے موقع پر جب عمران خان حکومت کے خلاف عوام کو سڑکوں لانے کے اعلانات کر رہے ہوں، یہ ناکام جلسہ معنی خیز ہے. شاید یہی وجہ ہے کہ ایم کیوایم کے سربراہ ڈاکٹرفاروق ستار نے اسے جلسی کہہ دیا۔ اور وزیراعظم نے اسے عوام کا جواب قرار دیا. موجودہ حالات کے لحاظ سے تو یہ ایک مثبت پیش رفت کہی جاسکتی ہے مگر یہ جلسہ کراچی میں کوئی ایسی چنگاری نہیں ثابت نہیں ہوگا جو کچھ عرصے بعد شعلہ جوالا بن جائے. پاکستان زندہ باد جلسہ یقینا حکومت مخالف تحریک کا ہی تسلسل تھا کیونکہ عمران خان نے اس جلسے میں بھی کوئی مختلف بات نہیں کی، ان کا پہلا اور آخری ہدف وزیراعظم نوازشریف تھے، ہیں اور جب تک ایوان وزیراعظم میں ہیں، وہی رہیں گے۔

    اس میں کوئی شک نہیں کہ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان مختلف شہروں میں طاقت کے مظاہرے کر کے حکومت مخالف تحریک کو بتدریج عروج پر لے جا رہے ہیں. مگر اس تحریک سے کیا نتائج برآمد ہوں گے؟ یہ کامیابی سے ہمکنار ہوگی یا ناکامی اسے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑے گا، ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہے مگر اب انہوں نے حتمی طور پر 24 ستمبر کو رائے ونڈ مارچ اور دھرنے کا اعلان کر دیا، جس کا انتباہ وہ تقریبا ایک سال سے دے رہے تھے، اب بالآخر اس کی تاریخ بھی دے دی۔

    اب اسے حکومت کا حربہ قرار دیا جائے یا پھر تحریک انصاف کی حقیقی کمزوری کہ ایسے وقت میں اس کے داخلی اختلافات کھل کر سامنے آ رہے ہیں. پارٹی کے ایک ناراض گروپ نے حکومت کے احتساب کا مطالبہ کرنے والے کپتان سے اپنے احتساب کا تقاضا کیا ہے. اس ناراض گروپ کے سربراہ نے دعوی کیا ہے کہ عید الاضحی کے بعد پشاور میں پارٹی کے نظریاتی کارکنوں کا اجلاس طلب کیاہے، ان کا مطالبہ ہے کہ عمران خان اور پرویزخٹک دونوں مستعفی ہوجائیں اور تسنیم نورانی کی بطورچیف الیکشن کمشنر اور جسٹس وجیہ الدین کی معطل رکنیت کی بحالی ضروری ہے.

    عمران خان کو یہ بھی دیکھناچاہیے کہ کراچی میں ان کی پارٹی خود کئی گروپس میں تقسیم ہے. سابق صدر علی زیدی کا رخ کسی اور طرف ہے اور ڈاکٹر علوی کا کسی اور طرف. عمران اسماعیل کا دھڑا ان دونوں سے الگ ہے اور دیگر رہنما ان سب سے الگ. کراچی اور ملک میں انتہائی قابل احترام شخصیت جسٹس وجیہہ الدین بھی تحریک انصاف کے انتظام پر شدید اعتراضات اٹھاچکے ہیں اور اس میں وہ تنہا نہیں ہیں، ناراض اور نظریاتی کارکنوں کا ایک گروپ ان کی پشت پر ہے سابق صدر اشرف قریشی بھی مقامی قیادت کے خلاف شدید تحفظات رکھتے ہیں. غالبا یہی وجہ ہے کہ موجودہ حالات میں تحریک انصاف کو کراچی سے وہ سپورٹ ملتی نظر نہیں آتی کہ جس کی اسے ضرورت ہے۔