ہوم << تحریک انصاف کا ناکام جلسہ، محمد نعیم طاہر

تحریک انصاف کا ناکام جلسہ، محمد نعیم طاہر

pti-jalsa-kaarchi تحریک انصاف نے کراچی کی تاریخی جلسہ گاہ نشترپارک میں پاکستان زندہ باد کے عنوان سے جلسہ کرکے ”طاقت“ کا مظاہرہ کردیا، یہ مظاہرہ البتہ کتنی طاقت کا تھا، اس پر آرا مختلف ہیں، اور ہونی بھی چاہییں کیونکہ یہ ہر ایک کا حق ہے. خود عمران خان نے تسلیم کرلیا کہ یہ جلسہ بغیر تیاری کے عجلت میں کیاگیا ہے مگر سارے پاکستان کی جانب سے کراچی کے ساتھ اظہاریکجہتی کےلیے ایسا کرنا ضروری تھا۔
کراچی میں صحافت سے طویل عرصے منسلک ایک ساتھی، جو سینئر سیاسی تجزیہ کاربھی ہیں، کے سامنے تحریک انصاف کے نشترپارک شو کا سوال رکھا تو انہوں نے بتایا کہ نشترپارک کراچی میں سیاسی سرگرمیوں کا مرکز بھی ہے اور ایک عرصے تک سیاسی جماعتوں کی مقبولیت کا پیمانہ بھی رہا ہے. پیپلزپارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو اور ان کے مخالف پاکستان قومی اتحاد نے یہاں بڑے جلسے کیے. ضیاالحق کے مارشل لا کے بعد سیاسی سرگرمیوں پر سے پابندی جنوری 1986ء میں اٹھائی گئی تو یہاں پہلا جلسہ خود
مسلم لیگ کی حکومت نے کیا اور اس وقت کے وزیراعظم محمدخان جونیجو نے اس سے خطاب کیا. 14 فروری 1986ء کو ہونے والے اس جلسے میں محمد خان جونیجو نے شہر کی تمام کچی آبادیوں کو لیز کرنے اور کھوکھرا پار کی سرحد کھولنے کے اعلانات کیے، لیز پر تو عملدرآمد ہوا مگر سرحد نہیں کھولی جاسکی. ان کے جلسے کے بعد 21 فروری 1986ء کو جماعت اسلامی نے جلسہ کیا، تعداد کے لحاظ سے یہ جلسہ بھی بڑا تھا مگر اگلے دنوں میں جمعیت علمائے پاکستان کےسربراہ شاہ احمد نورانی نے جو جلسہ کیا، اس کے بارے میں ان کا دعوی تھاکہ یہ جماعت اسلامی کے جلسے سے بھی بڑا ہے.
نشتر پارک کے جلسوں کی تاریخ کا دلچسپ واقعہ یہ ہوا کہ تحریک استقلال کے سربراہ ائیرمارشل اصغرخان جنہوں نے 1977ء کی تحریک نظام مصطفی میں شہر کی تاریخ کے طویل ترین جلوس کی قیادت کی تھی، 18 اپریل 1986ء کو جلسے سے خطاب کرنے پہنچے توجمعہ کی نماز کے بعد شارجہ میں ہونے والا آسٹریلشیا کپ کا پاکستان اور بھارت کے درمیان میچ دلچسپ صورت اختیار کر گیا. یہ وہ میچ تھا جس میں جاوید میانداد نے آخری بال پر چھکا مار کر اسے پاکستان کے حق میں موڑ دیا تھا. اگلے دن کے اخبارات کو خبریں بھی مل گئیں اور تصویریں بھی۔ ریٹائرڈ ائیرمارشل نشتر پارک میں کراچی کے عوام کا انتظار کرتے رہ گئے، یہ ناکام جلسہ اس جماعت کے زوال کا نقطہ آغاز بنا۔
سینئر تجزیہ کار کے مطابق نشتر پارک میں ایم آر ڈی اور جے یو آئی نے بھی جلسے کیے مگر طویل پابندیوں کے بعد سیاسی آزادی کے اس پہلے سال کا سب سے کامیاب شو آٹھ اگست کو مہاجر قومی موومنٹ نے کیا جس کے جلسے میں شریک عوام کے سامنے نشتر پارک چھوٹا پڑگیا. اس کے بعد سیاسی جلسوں کےلیے نشترپارک کے بجائے دیگر مقامات کا انتخاب کیا جانے لگا، خاص طور پر شاہراہ قائدین اہم جلسہ گاہ بن گئی جہاں 26 جنوری 1990ء کو کمبائنڈ اپوزیشن پارٹیز نے شہر کی تاریخ کے بڑا جلسہ منعقد کیا. اس دور میں شرکا کے لیے کرسیاں لگانے کا فیشن آیاتھا، نہ سکیورٹی کے ایشوز تھے، لوگ اطمینان سے دری پر یا براہ راست زمین پر بیٹھ جایاکرتے تھے، کم جگہ میں زیادہ لوگ آتے تھے. اس لحاظ سے دیکھا جائے تو پی ٹی آئی کا پاکستان زندہ باد جلسہ کرسیوں کے باوجود نشترپارک کیا خود کرسیوں کو بھی نہیں بھرسکا. ایسے موقع پر جب عمران خان حکومت کے خلاف عوام کو سڑکوں لانے کے اعلانات کر رہے ہوں، یہ ناکام جلسہ معنی خیز ہے. شاید یہی وجہ ہے کہ ایم کیوایم کے سربراہ ڈاکٹرفاروق ستار نے اسے جلسی کہہ دیا۔ اور وزیراعظم نے اسے عوام کا جواب قرار دیا. موجودہ حالات کے لحاظ سے تو یہ ایک مثبت پیش رفت کہی جاسکتی ہے مگر یہ جلسہ کراچی میں کوئی ایسی چنگاری نہیں ثابت نہیں ہوگا جو کچھ عرصے بعد شعلہ جوالا بن جائے. پاکستان زندہ باد جلسہ یقینا حکومت مخالف تحریک کا ہی تسلسل تھا کیونکہ عمران خان نے اس جلسے میں بھی کوئی مختلف بات نہیں کی، ان کا پہلا اور آخری ہدف وزیراعظم نوازشریف تھے، ہیں اور جب تک ایوان وزیراعظم میں ہیں، وہی رہیں گے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان مختلف شہروں میں طاقت کے مظاہرے کر کے حکومت مخالف تحریک کو بتدریج عروج پر لے جا رہے ہیں. مگر اس تحریک سے کیا نتائج برآمد ہوں گے؟ یہ کامیابی سے ہمکنار ہوگی یا ناکامی اسے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑے گا، ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہے مگر اب انہوں نے حتمی طور پر 24 ستمبر کو رائے ونڈ مارچ اور دھرنے کا اعلان کر دیا، جس کا انتباہ وہ تقریبا ایک سال سے دے رہے تھے، اب بالآخر اس کی تاریخ بھی دے دی۔
اب اسے حکومت کا حربہ قرار دیا جائے یا پھر تحریک انصاف کی حقیقی کمزوری کہ ایسے وقت میں اس کے داخلی اختلافات کھل کر سامنے آ رہے ہیں. پارٹی کے ایک ناراض گروپ نے حکومت کے احتساب کا مطالبہ کرنے والے کپتان سے اپنے احتساب کا تقاضا کیا ہے. اس ناراض گروپ کے سربراہ نے دعوی کیا ہے کہ عید الاضحی کے بعد پشاور میں پارٹی کے نظریاتی کارکنوں کا اجلاس طلب کیاہے، ان کا مطالبہ ہے کہ عمران خان اور پرویزخٹک دونوں مستعفی ہوجائیں اور تسنیم نورانی کی بطورچیف الیکشن کمشنر اور جسٹس وجیہ الدین کی معطل رکنیت کی بحالی ضروری ہے.
عمران خان کو یہ بھی دیکھناچاہیے کہ کراچی میں ان کی پارٹی خود کئی گروپس میں تقسیم ہے. سابق صدر علی زیدی کا رخ کسی اور طرف ہے اور ڈاکٹر علوی کا کسی اور طرف. عمران اسماعیل کا دھڑا ان دونوں سے الگ ہے اور دیگر رہنما ان سب سے الگ. کراچی اور ملک میں انتہائی قابل احترام شخصیت جسٹس وجیہہ الدین بھی تحریک انصاف کے انتظام پر شدید اعتراضات اٹھاچکے ہیں اور اس میں وہ تنہا نہیں ہیں، ناراض اور نظریاتی کارکنوں کا ایک گروپ ان کی پشت پر ہے سابق صدر اشرف قریشی بھی مقامی قیادت کے خلاف شدید تحفظات رکھتے ہیں. غالبا یہی وجہ ہے کہ موجودہ حالات میں تحریک انصاف کو کراچی سے وہ سپورٹ ملتی نظر نہیں آتی کہ جس کی اسے ضرورت ہے۔

Comments

Click here to post a comment