Tag: تحریک انصاف

  • تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کے سوشل میڈیا کمانڈوز – شہزاد احمد شانی

    تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کے سوشل میڈیا کمانڈوز – شہزاد احمد شانی

    شہزاد احمد شانی ویسے تو اک گیپ تھا ہی، بظاہر اک خلیج تھی ہی، فکر و نظر کے اپنے اپنے آسماں تھے۔
    زاویہ نگاہ میں بھی اپنی اپنی سمتیں تھیں، اس کے باوجود آس اور امید دلانے میں ایک سا تاثر، کچھ ملتی جلتی کاوشیں، اکٹھے چلنے کا تجربہ سود مند، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ صوبے میں فوائد عوام تک پہنچانے کا عزم۔
    الیکشن کے بعد خیبر پختونخوا میں حکومتی اشتراک، تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کو کافی قریب لانے کی اک سعی شمار تو کی جائےگی لیکن اکٹھے ہوتے ہوئے بھی ایک گیپ ضرور رہا اور شاید اس گیپ کو کم یا ختم کرنا اس قدر آسان بھی نہیں تھا، فکر و نظر کے گیپ ختم نہیں ہوا کرتے اتنی آسانی سے۔
    لیکن گزشتہ عرصہ میں دونوں جماعتوں کے اکابرین مشاورت کے عمل میں قریب رہنے کے باعث صوبے کی حد تک بظاہر کسی تیسری پارٹی کے ایڈونچر سے دور رہے۔
    یوں تین سال کا عرصہ بیت چلا۔
    پھر گزشتہ ماہ خیبرپختونخوا اضاخیل میں صوبے کی عوام کا سیلاب امڈ آیا۔
    جماعت اسلامی کے اجتماع میں اس قدر مرد و زن کی شرکت جہاں جماعت کی صوبائی ٹیم کی محنت کا نتیجہ تھی، وہیں پر شاید کچھ لوگوں کو مستقبل کے حوالہ سے خدشات بھی محسوس ہونے لگے۔
    اور پھر کیا تھا، ایک سرد جنگ شروع ہوگئی، اور اب کی بار دونوں اتحادی جماعتوں کے کارکنان ایک دوسرے کے آمنے سامنے تھے، سوشل میڈیا میدان جنگ بنا ہوا تھا۔
    پہلے پہل اطراف سے کچھ شرارتی، قدرے نیم سنجیدہ کارکنان ایک دوسرے پہ گولہ باری کرتے رہے اور پھر وقت کےساتھ ساتھ پورا پورا بریگیڈ میدان میں آ گیا۔
    تنقید، طنز، تبری اور تشکیک ہر طرح کا ہنر آزمایا جانے لگا،
    ابتداء میں لگ یہی رہا تھا کہ چند دن بعد معاملہ خود بخود ٹھنڈا ہو جائے گا لیکن بھلا ہو دھرنے کا، معاملہ مزید شدت اختیار کر گیا۔
    تحریک انصاف کے کارکنان، جماعت اسلامی پر طنز کرتے کہ وہ اندرون خانہ میاں برادران سے ملے ہوئے ہیں اور جماعت اسلامی تحریک انصاف کو تھرڈ ایمپائر کی انگلی اٹھنے کا طعنہ دے مارتی،
    اب یہ فیصلہ بھی اس قدر آسان نہیں کہ کون آغاز کرتا تھا اور کون دفاع یا واپسی جواب؟
    تحریک انصاف کو ایک دکھ یہ بھی تھا کہ صوبے میں یہ ہمارے ساتھ بیٹھے ہوئے ہیں اور دھرنے یا حکومت گرانے میں یہ ہماری معاونت نہیں کر رہے جبکہ جماعت والوں کا بظاہر مؤقف یہ تھا کہ ہم کوئی بھی غیر آئینی اقدام نہیں کریں گے، اپنی جدوجہد کو آئین اور قانون کےد ائرے میں رہتے ہوئے جاری رکھیں گے، لانگ مارچ کریں گے، ٹرین مارچ کریں گے، پیدل مارچ کریں گے، ریلیاں، جلسے جلوس، اسمبلی، سینٹ میں اپنا رول کے ساتھ ساتھ سپریم کورٹ کا دروازہ بھی کھٹکھٹائیں گے۔
    اسی دوران دھرنا فلاپ ہو گیا، جنون کا غصہ قابل دید، اس پر مستزاد یہ کہ سپریم کورٹ نے سراج الحق کی پٹیشن پر پانامہ سیکنڈل پر بینچ بنانے اور سماعت شروع کرنے کی حامی بھر لی، الیکٹرانک میڈیا کا اس ضمن میں رول ہمیشہ کی طرح جانبدارانہ رہا، جواباََ جماعت اسلامی کے کارکنان نے سوشل میڈیا کے ذریعے اصل حقائق عوام تک لانے کی سعی شروع کر دی اور اس سے بھی تحریک انصاف کو تکلیف ہوئی۔
    پہلے تو تحریک انصاف دھرنے کی سبکی کو، سپریم کورٹ کی صورت میں کیش کرا کر مٹانا چاہ رہی تھی جبکہ اس محاذ پر مزاحمت جماعت کے لوگ کر رہے تھے، یہاں سے مزید گیپ بڑھا اور اس پر امیر جماعت کی میڈیا بریفنگ کے کلپ
    ”تیرا چور مردہ باد اور میرا چور زندہ باد کا اصول نہیں مانتے.“
    ”پانامہ پیپرز میں شامل سب نام سامنے آنے چاہیے.“
    ”اپوزیشن حکومت کے لیے آئینہ ہوتی ہے، آئینہ توڑنے والے ناکام ہوں گے.“
    ”لٹیرے حکمران ہوں یا اپوزیشن ، سب کا احتساب چاہتے ہیں، دھرتی کو خون خرابے سے بچانے کے لیے سپریم کورٹ آئے ہیں.“
    ان بیانات کو بادی النظر میں تحریک انصاف اپنے خلاف سمجھ رہی ہے، اور اسی کو بیس بنا کر کارکنان ایک دوسرے کو آڑے ہاتھوں لیے ہوئے ہیں۔
    تحریک انصاف یہ سمجھ رہی ہے کہ جماعت اسلامی جب حکمران اور اپوزیشن سب کے احتساب کی بات کر رہی ہے تو وہ دراصل ن لیگ کی حمایت کر رہی ہے، حالانکہ جماعت اسلامی کا یہ مطالبہ جائز اور برمحل بھی ہے اور اس سے قطعاََ مراد یہ نہیں کہ جماعت اسلامی ن لیگ کو بچانا چاہتی ہے۔ البتہ یہ کہنا بجا ہے کہ جماعت اسلامی کی اس ڈیمانڈ سے ن لیگ کو کچھ ریلیف ضرور ملتا ہے اور اسی طرح جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کے کارکنان کا ایک دوسرے کو کاؤنٹر کرنے کی جدوجہد میں بھی عافیت کے کچھ پل ضرور ن لیگ کی حکومت کو نصیب ہوتے ہیں۔
    اب اگر ساری صورتحال میں مستقبل کا نقشہ کھینچا جائے تو جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کی حالیہ دوری کے اثرات صوبہ خیبر پختونخوا تک ضرور جائیں گے، اگرچہ اتحادی حکومت پہ اتنے اثرات مرتب نہیں ہوں گے لیکن اگلے الیکشن میں شاید فضا بہت جارحانہ ہو جس کا فائدہ کوئی تیسرا اٹھا سکتا ہے۔ اتحادی حکومت کی محنت اور کاوش ایک دوسرے کو کاؤنٹر کرنے کی نذر ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ اگرچہ پچھلی بار بھی دونوں جماعتوں نے الیکشن ایک پلیٹ فارم سے اتحاد کی صورت میں نہیں لڑا تھا، لیکن اب کی بار خاص کر کے تحریک انصاف کے لیے حالات ویسے نہیں ہوں گے اس لیے کہ اس بار لوگ ووٹ دینے سے پہلے اس کی صوبائی حکومت کی پرفارمنس بھی دیکھیں گے۔
    اس صورتحال میں اگر جماعت اسلامی اور تحریک انصاف ایک دوسرے کو نشانے پر لے کر بقیہ ڈیڑھ سال یونہی گزار دیتے ہیں تو لازماََ کسی تیسرے کو فائدہ پہنچنے کے امکانات زیادہ ہو جائیں گے۔
    ایسے میں تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کے قائدین اپنی اپنی جماعتوں کے سوشل میڈیا کے محاذ پہ برسرِ پیکار اگلی صفوں میں موجود کمانڈوز کو تھوڑا سا سٹیپ ڈاؤن کروائیں اور شدت کو کچھ کم کروائیں۔

  • صوبائیت کی لعنت اور ہمارے اہل علم – ڈاکٹر محمد مشتاق احمد

    صوبائیت کی لعنت اور ہمارے اہل علم – ڈاکٹر محمد مشتاق احمد

    محمد مشتاق پچھلے چند دنوں سے سوشل میڈیا پر صوبائیت کے خلاف بہت زبردست مہم چل رہی ہے۔ مجھے بڑی خوشی ہوتی اگر اس مہم میں حصہ ڈالنے والے اہل علم خود صوبائیت میں مبتلا نہ ہوتے ۔ بہت سے لوگ بہت کچھ کہہ رہے ہیں اور اس بہت کچھ کا خلاصہ ایک جملے میں یہ بنتا ہے کہ صوبائیت بہت بڑی لعنت ہے ، بشرطیکہ اس کا اظہار اہلِ پنجاب کے بجائے کسی اور صوبے کے لوگوں کی جانب سے ہو!

    پرویز خٹک کی تقریر میں صوبائیت تھی ۔ اس سے ہمیں انکار نہیں ۔ ان پر تبرا کریں ۔ ضرور کریں ۔ تاہم پرویز خٹک کی تقریر سے مختلف اقتباسات لے کر صوبائیت کی لعنت پر بہت سنجیدہ ، پر مغز اور علمی تبصرہ کرتے ہوئے ہمارے دوست یہ بات بالکل ہی نظرانداز کردیتے ہیں کہ جب 2 نومبر سے دو دن قبل صوبۂ پنجاب کے تمام راستے صوبۂ خیبر پختونخوا سے آنے والے تمام لوگوں کے لیے عین صوبۂ پنجاب کی سرحد پر مکمل طور پر بند کردیے گئے تو کیا یہ صوبائیت نہیں تھی؟ یہ بات جس کے سامنے بھی رکھی ،عجیب طرح کے عذر سامنے آئے ۔ وفاق کو بچانا تھا۔ ایک صوبے کا وزیر اعلی حملہ آور ہورہا تھا۔ دہشت گردی کا خطرہ تھا ۔ اور پتہ نہیں کیا کچھ۔

    پوچھا کہ کیا اس خطرے سے نمٹنے کا حل اس کے سوا اور کوئی نہیں تھا کہ ایک صوبے کے تمام راستے دوسرے صوبے کے تمام لوگوں پر مکمل طور پر بند کردیں اور وہ بھی دو دن قبل؟ کیا دار الحکومت کو بچانے کے لیے دار الحکومت کے نزدیک ہی کچھ بندوبست نہیں کیا جاسکتا تھا ؟ عین صوبے کی سرحد پر راستے بند کردینے سے کیا پیغام دیا جارہا تھا؟ کیا یہ کہ اسلام آباد تک جانے والے سارے راستے پنجاب سے ہوکر گزرتے ہیں؟ کیا یہ بہتر نہ ہوتا کہ موٹروے بے شک بند کردی جاتی اور جی ٹی روڈ پر رکاوٹیں ڈال دی جاتیں لیکن پی ٹی آئی والوں اور عام لوگوں میں فرق کا کوئی بندوبست کرلیا جاتا ؟ کسی کو جانے دیا جاتا ، کسی کو روک لیا جاتا ۔ اسلام آباد کے قریب زیادہ سختی کی جاتی۔ اہم سوال یہ ہے کہ عین صوبے کی سرحد کو کیوں بند کیا گیا؟ اگر وفاق کا وزیر اعظم اور صوبے کا وزیر اعلی ایک ہی گھر سے نہ ہوتے تو پھر بھی کیا یہی آپشن اختیار کیا جاتا؟ کتنی دفعہ اس سے قبل اسلام آباد پر چڑھائی کی گئی؟ کتنی پارٹیوں نے کی؟ خود اہل پنجاب نے کی؟ لیکن کیا ایسا کبھی پہلے ہوا تھا؟
    اب آئیے ایک اور پہلو کی طرف ۔

    ہمارے ایک پسندیدہ دانشور نے اپنے بلاگ میں تاریخ کی “پنجابی تشریح ” کرچکنے کے بعد انگریزوں اور “شمال سے آنے والے لٹیروں” کو ایک صف میں کھڑا کیا اور یہاں تک کہہ دیا کہ ڈیورنڈ لائن اس لیے کھینچی گئی کہ ان لٹیروں میں بعض کو افغانستان کی حکومت کنٹرول کرے اور بعض کو انگریز ! یہ زاویۂ نظر لیکن تعصب اور صوبائیت پر مبنی نہیں ہے ۔ یہ بھی فرمایا کہ سوئی گیس برآمد ہونے سے کئی صدیاں پہلے بھی پنجاب خوش حال تھا ۔ پنجاب کی صدیوں قبل خوش حالی کا تو خیر کسی نے انکار نہیں کیا لیکن سوال یہ ہے کہ کیا لمحۂ موجود میں بلوچستان کی سرزمین پر موجود غریب بلوچی کو آپ اس دلیل سے مطمئن کرسکتے ہیں؟ کیا اسے یہ پوچھنے کا حق نہیں ہے کہ آپ صدیوں سے خوش حال سہی ، لیکن سوئی کی گیس سیکڑوں میل دور جاکر رائیونڈ کے محلات میں آپ کے ڈرائنگ روم گرم کرے مگر چند میلوں کے فاصلے پر میرے گھر میں چولہا بھی نہ جلاسکے تو کیا یہ ظلم نہیں ہے؟ اگر میں مان بھی لوں کہ میرے اجداد لٹیرے تھے جنھوں نے آپ کے خوش حال اجداد کو لوٹا تھا، تو کیا اب اس کے کفارے کے طور پر میں آپ کی جانب سے سی پیک میں میرے حق پر ڈاکا ڈالنے کو معاف کردوں؟

    پھر جب آپ اپنی خوش حالی کا تذکرہ اس انداز میں کرتے ہیں تو محروم لوگوں کو یہ کیوں نہ یاد آئے کہ اس طرح تو آپ وہی بات کہہ رہے ہیں جو بش نے امریکیوں سے کی تھی کہ ہماری خوش حالی اور ترقی کی وجہ سے مسلمان ہم سے نفرت کرتے ہیں! حضور، آپ سے کوئی نفرت نہیں کرتا ۔ بس اپنی چارپائی کے نیچے ذرا ڈانگ پھیر لیجیے۔ اس سے زیادہ آپ سے کچھ نہیں چاہیے ۔

    ان دانشور صاحب نے یہ بھی فرمایا کہ عمران خان پنجاب میں رہ کر بھی پختون عصبیت کو پکاررہا ہے حالانکہ نواز شریف کشمیری ہوکر بھی پنجاب سے ووٹ لیتے ہیں۔ عمران خان جانیں اور ان کی عصبیت۔ یہ سوال بھی ہم نہیں اٹھائیں گے کہ اٹک اور میانوالی کب اور کیسے پنجاب کا حصہ بنے؟ نہ ہی یہ پوچھیں گے کہ کشمیر اور پنجاب کا سکھوں کی حکومت میں کیا انتظامی تعلق اور قانونی رشتہ رہا؟ ہاں یہ سوال ضرور پوچھنا چاہتے ہیں کہ کشمیری ہونے کے باوجود “جاگ پنجابی جاگ” کا نعرہ کس نے بلند کیا تھا؟
    جب بات اس نعرے تک آہی گئی ہے تو یہاں مجھے ایک نہایت ہی محترم اور عالی مقام مفتی صاحب کی تاویل بھی پیش کرنے دیں ۔ انھوں نے اس نعرے کو کس طرح شریفوں کے کھاتے سے اٹھا کر بے چہرہ اسٹیبلشمنٹ کے نام کردیا ، ملاحظہ کیجیے اور داد دیجیے ۔ فرماتے ہیں :

    “میری یادداشت کے مطابق یہ نعرہ بذات خود ن لیگ نے نہیں لگایا تھا نہ ہی ن لیگ کا وجود تھا نواز شریف آئی جے آئی کا حصہ تھے مسلم لیگ کے ایک گروپ کی حیثیت سے جس کا نام یاد نہیں آ رہا ۔ آئی جے آئی کے سربراہ مصطفی جتوئی تھے نواز شریف سمیت یہ سب اسٹیبلشمنٹ کے چہیتے تھے۔ در حقیقت سندھ کارڈ کے مقابل پنجاب کارڈ انہی قوتوں کی ضرورت تھی جو بے نظیر کو ہر حال میں ہرانا چاہتی تھیں مہاجر کا نعرہ بھی انہوں نے لگوایا اب پی ٹی آئی بھی انہی کی نمائندہ ہے۔ یہ بھی ذہن میں رہے کہ یہ نعرہ گم نام لوگوں کی طرف سے چلایا ضرور گیا تھا جیسے شکریہ شکریہ کے بینر لگتے ہیں لیکن چل نہیں سکا تھا جیسے پرویز خٹک کا نہیں چلا ۔ کوئی صاحب میری معلومات کی تصحیح کر دیں تو ممنون ہوں گا۔”

    میں نے اس پر عرض کیا تھا کہ اتنی خوش گمانیوں کے ساتھ تصحیح کا رسک نہ لیں۔ ہمارے ایک اور دوست نے لیکن مفتی صاحب کی تائید کرتے ہوئے انھیں لقمہ دیا کہ قومی اسمبلی کے الیکشن ہوچکے تھے اور صوبائی اسمبلین کے الیکشن تین دن بعد ہونے تھے۔ اچانک جیسے ڈوبتے کو تنکے کا سہارا مل جاتا ہے۔ حضرت نے اس پر عمارت تعمیر کرتے ہوئے فرمایا:

    میری یادداشت کے مطابق ان تین دنوں میں ایک اشتہار بھی چھپا تھا لیکن اس میں جاگ پنجابی جاگ نہیں تھا وہ اشتہار نہ بھی ہوتا تب بھی قومی اسمبلی کے نتائج کا اثر پڑنا ہی تھا۔ اسی لئے محترمہ نے اسی وقت سے قومی و صوبائی الیکشن ایک دن کرانے کا مطالبہ شروع کر دیا تھا۔ 2002 کے الیکشن میں شام کو جب سرحد میں ایم ایم اے کی لیڈ نظر آئی تو بعضوں کو یہ کہتے سنا “پتا ہوندا تے اسیں وی مولویاں نو ووٹ دے دندے۔”

    ان کمنٹس میں ایک جید عالم دین کی خوش گمانیاں اور تاویلات دیکھیں اور پھر دیکھیے کہ کیا یہی خوش گمانیاں اور تاویلات وہ وہاں بھی دکھاتے ہیں جب کسی اور صوبے کی جانب سے صوبائیت کا نعرہ اٹھے؟ میرا جو گلہ ہے وہ بس اسی حد تک ہے۔ اس سے زیادہ نہیں۔

  • کون جیتا کون ہارا؟ فیصلہ آپ کریں – راجہ بشارت صدیقی

    کون جیتا کون ہارا؟ فیصلہ آپ کریں – راجہ بشارت صدیقی

    بشارت صدیقی کپتان نے دھرنا موخر کرنے کا اعلان کیا کیا کہ سیاسی مخالفین نے انہیں تنقید کے نشانے پر لیا، انہیں یوٹرن، بزدل ، ہارا ہوا جرنیل جیسے القابات سے نوازا۔ یکم نومبر کی شام ٹیلی ویژن کی سکرینوں پر کپتان کے دو نومبر کے یوم تشکر کے اعلان کو ان کے مخالفین دیوانے کی بڑ قراردے رہے تھے۔ 2نومبر کو تحریک انصاف نے اسلام آباد کے قلب میں کامیاب شو کر کے ناقدین کے منہ بند کر دیئے وہ بھی اس حالت میں جب یکم نومبر کو تحریک انصاف کے کارکن سڑکوں پر مار کھا رہے تھے۔ جو لوگ کپتان کو طرح طرح کے القابات سے نواز رہے تھے ان کی درستگی کیلئے بیان کر دوں، تنقید وہ لوگ کرتے ہیں جو اکثر اخبار نہیں پڑھتی جن کا مطالعہ واجبی سا ہے، کپتان نے رائے ونڈ میں اعلان کیا تھا کہ بادشاہ سلامت تلاشی دیں یا مستعفی ہوں نہیں تو اسلام آباد لاک ڈائون کروں گا۔

    قارئین! جب پانامہ لیکس کا معاملہ سامنے آیا تو ملک میں ایک بحران نے جنم لیا کہ باشادہ سلامت اور ان کا خاندان خفیہ جائیدادوں کا مالک ہے جو ان کی آمدن سے زیادہ ہے۔ حکومت نے چالاکی یہ دکھائی کہ جن سینکڑوں لوگوں کا نام پانامہ شریف میں تھا سب کا معاملہ عدالت سے نمٹانے کی درخواست کر دی۔ عدالت نے مئی میں شکریے کے ساتھ یہ جواب دیا کہ بے اختیار کمیشن ہم نہیں بنا سکتے اس طرح ہم معاملے کو نمٹا نہیں سکیں گے اور یوں عدالت کی رسوائی ہو گی، عام آدمی کا عدالت سے اعتماد اٹھ جائے گا۔ عدالت نے یہ بھی کہا کہ حکومت اپوزیشن کے ساتھ مل کر ٹی او آرز بنا کر دے تو ہم معاملے کو دیکھیں گے مگر حکومت راہ فرار اختیار کر رہی تھی۔ حکومت کا کہنا تھا کہ 1947ء سے احتساب کا عمل شروع کیا جائے تا کہ سالوں لگ جائیں اور بادشاہ سلامت بچ جائیں جبکہ تحریک انصاف کا موقف تھا کہ احتساب بادشاہ سلامت سے شروع کیا جائے بے شک عمران خان اور ان کا خاندان بھی احتساب کی زد میں آئے۔ تحریک انصاف نے ہر آئینی حربہ اختیار کیا مگر نواز لیگ ان کو ہر موقع پر جل دیتی رہی۔

    تحریک انصاف نے رائے ونڈ جلسہ کیا تو سیاسی گرم حالات کی آنچ حکومت تک پہنچی۔ اس کے بعد دون نومبر کا اعلان ہوا۔ ملک ہیجان کی کیفیت میں چلا گیا۔ ایک صوبے کو پورے ملک سے کاٹ کر رکھ دیا گیا۔ پنجاب پولیس منظم گروہ کی طرح نہتے مظاہرین پر شیلنگ کرتی رہی، لاٹھیاں برساتی رہی مگر ایسا لگ رہا تھا کہ یہ اپنے ہم وطن شہری نہیں بلکہ دشمن ملک کے لوگ ہیں۔ نہتے لوگوں پر ریاستی مشینری کا بے دریغ استعمال ہوا۔عورتوں کے بال تک نوچے گئے ۔کپتان کی اس کال کا یہ فائدہ ضرور ہوا کہ ان کے کارکنوں نے ”نوازی فسطائیت” کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور اپنے اوپر برگر بچوں کا لگا ہوا داغ دھو ڈالا۔ا ن حالات میں سپریم کورٹ ان ایکشن ہوئی۔ وہ جو کل تک مان نہیں رہے تھے۔ سو پیاز سو جوتے کھا کر مان گئے۔ کپتان نے ایک زبردست سیاسی چال چلی اور ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ طاقتور کا احتساب ہو رہا ہے۔

    تحریک انصاف کا مطالبہ ہی تلاشی لینے یا استعفے کا تھا جو سپریم کورٹ نے شروع کر دی ہے۔ عدالت روزانہ کی بنیادوں پر کیس کی سماعت کرے گی۔ پوری قوم کی نظریں عدالت عالیہ پر لگی ہوئی ہیں۔ شریف خاندان کا ماضی اتنا تابناک نہیں ۔ جسٹس سجاد علی شاہ کیس میں وہ سپریم کورٹ پر چڑھ دوڑے تھے۔ سابق صدر پاکستان جسٹس (ر)رفیق تارڑ کو ججوں کو خریدنے کیلئے بریف کیس کا بھی استعمال کیا گیا تھا۔یہ اپنا اقتدار بچانے کیلئے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔

    عدالت عالیہ کیلئے تاریخی موقع ہے کہ بے رحم احتساب کرے۔ احتساب کی چھلنی سے ہر اس پھنے خان کو گزارے جس نے اس ملک کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا ہے۔ سپریم کورٹ تحقیقاتی اداروں کو جھنجوڑ سکتی ہے جو خواب خرگوش میں ہیں۔ تحقیقاتی ادارے بھی عدالت عالیہ کے ساتھ پورا تعاون کریں اور وہ بے خوف ہو کر کام کریں۔ انہیں گیلانیوں، شاہوں ، قریشیوں، ٹوانوں، لغاریوں ، ترینوں، خانوں اور شریفوں کا لحاظ نہیں کرنا چاہیے کرپشن کے جو ثبوت ہیں وہ جوڈیشل کمیشن کے حوالے کریں، یہ کام ان کے لئے نیک نامی کا باعث بنے گا۔

    بادشاہ سلامت اگر آپ چاہتے ہیں کہ اس ملک کی تقدیر بدلی جائے اور آپ کا نام تاریخ میں امر ہو جائے تو بقدر کفاف وسائل اپنے پاس رکھ لیں اور باقی بحق سرکار منتقل کر دیں۔ آپ حوصلہ کریں اور حضرت علی کی طرح عدالت میں پیش ہوں کہ نہ کوئی چوبدار آپ کے ساتھ ہو اور نہ آپ کیلئے خصوصی دروازہ کھلے۔ عدالت عالیہ فیصلہ آپ کے خلاف کر دے تو آپ کے ماتھے پر شکن اور دل میں ملال نہ آئے۔
    جناب والا آپ ہمت کریں اور عمربن عبدالعزیز کی طرح اپنی اہل و عیال سے کہیں کہ بس اب بہت ہو چکا سارا مال سرکاری خزانے میں جمع کروا دیا جائے۔ جناب والا آپ حضرت عمر کی طرح یہ وصیت بھی کر دیں کہ میرے بعد ساری دنیا امیرالمومنین بن سکتی ہے مگر میرے خاندان کا کوئی فرد نہیں بن سکتا۔
    یقین کریں آپ یہ کام کر جائیں تو آپ کا نام تاریخ میں سنہری حروف میں لکھا جائے گا۔ رہی بات کہ کپتان ہارا یا جیتا تو عرض کر دوں کہ وہ عدالت عالیہ میں اپنے ٹی او آرز دینے پر بضد تھے اپوزیشن کے ٹی او آرز کو مان نہیں رہے تھے اب سب کچھ اچھے بچوں کی طرح کرنے پر تیار ہیں تو قارئین فیصلہ آپ کریں کہ کون ہارا اور کون جیتا؟
    پاکستان پیپلزپارٹی کی کپتان پر تنقید سمجھ میں آ رہی ہے وہ چاہتے تھے کہ کہ حالات کشیدہ ہو جائیں تو وہ حکمران جماعت سے ڈاکٹر عاصم اور ڈالر گرل ایان علی کی رہائی کا سودا کرتے مگر کپتان نے ان کے پلان پر پانی پھیر دیا۔

  • عمران خان نے کیا پایا؟ محمد زاہد صدیق مغل

    عمران خان نے کیا پایا؟ محمد زاہد صدیق مغل

    زاہد مغل پی ٹی آئی کے مؤقف کے حامی احباب عمران خان کی پسپائی کو خوشنما دلیلوں کے ذریعے ”بڑی کامیابی“ دکھانے میں مصروف ہیں۔ چنانچہ کہا جارہا ہے کہ عمران نے اس سارے شور و غل سے اولا یہ حاصل کیا کہ وہ سب سے قدآور اپوزیشن لیڈر کے طور پر ابھر کر سامنے آیا۔ یہی بات تو ہم کب سے کہہ رہے ہیں کہ “چور مچائے شور” کا یہ سارا شور شرابا سیاسی دکان چمکانے کے لیے ہی ہے۔ نئی بات صرف یہ ہوئی کہ خود عمران کے حامی احباب نے بھی اس حقیقت کو قبول کرلیا کہ یہ بنیادی طور پر سیاسی شعبدہ بازی تھی جس کا مقصد اس دوڑ میں بلاول سے آگے رہنا ہے۔

    دوسری بات یہ کہی جارہی ہے کہ اس شور و غل کے بعد گویا عمران نے وزیر اعظم کو خود کو احتساب کے لئے پیش کرنے پر مجبور کردیا، جبکہ یہ بات حقیقت کے خلاف ہے۔ پانامہ پیپرز کے بعد خود نواز شریف نے آزاد کمیشن کی تجویز دی، پھر اسمبلی کے فورم سے ٹی او آرز کی پیشکش کی جس پر کام ہوا۔ اس سب کے خلاف یہ کہا جارہا ہے کہ نواز شریف اپنی مرضی کے کمیشن اور ٹی او آرز بنوانا چاہتا تھا جو اب ممکن نہیں۔ یہ باتیں صرف ادھورا سچ ہیں کیونکہ یہ بات تو ایک معلوم حقیقت ہے کہ کسی مختلف فیہ قضیے میں ہر گروہ اپنے ہی حق میں بارگین کرنے کی کوشش کرتا ہے، یہ بات صرف ن لیگ ہی نہیں بلکہ پی ٹی آئی اور دیگر اپوزیشن جماعتو ں کے لئے بھی جوں کی توں درست ہے جو ”اپنی اپنی مرضی“ کے ایسے ٹی او آرز بنوانا چاہتے تھے جن میں ان کے نامزد ملزمان کسی نہ کسی طور بچ نکلیں۔ ٹی او آرز طے کرنے والی کمیٹی میں بذات خود اپوزیشن کے بعض کمیٹی ممبران کو پی ٹی آئی کے ٹی او آرز سے اتفاق نہ تھا جن کا مقصد ”اپنی اے ٹی ایم مشینوں“ کو صاف بچا کر احتساب کا پھندہ صرف نواز شریف کے گلے تک محدود کیا جانا تھا۔ اس اختلاف کے بعد حکومت نے اسی وقت یہ پیشکش کی تھی کہ ان ٹی او آرز کو عدالت عظمی میں بھیج دیتے ہیں کہ وہ انہیں طے کردے، مگر پی ٹی آئی نہیں مانی کیونکہ عمران خان کا مقصد پہلے دن سے کچھ اور ہی تھا۔ اس کے بعد اس معاملے پر ڈیڈ لاک ہوا اور عمران خان نے اسلام آباد لاک ڈاؤن کرنے کی کال دی لیکن عوام کی طرف سے ایک مرتبہ پھر مسترد کردئیے جانے کے بعد انہوں نے فیس سیونگ کے لئے عدالت کا رخ کیا جہاں انہیں عین اسی بات کو ماننا پڑا کہ ٹی او آرز عدالت طے کرلے۔ اپنے مؤقف کی اس پسپائی کو ”یوم تشکر“ میں بدل کر انہوں نے اپنے کارکنان کے دل کا غم ہلکا کردیا۔ چنانچہ بات صرف یہ نہیں ہے کہ اب حکومت کی مرضی کے ٹی او آرز نہیں بنیں گے بلکہ یہ بھی ہے کہ اب عمران خان کی مرضی کے ٹی او آرز بھی نہیں بنیں گے جنہیں منوانے کے لئے وہ ایڑھی چوٹی کا زور لگا کر یہ سب شور و غل کر رہے تھے۔

    خود عمران خان کے خلاف الیکشن کمیشن اور عدالت میں اپنے اثاثوں میں خردبرد سے متعلق کیسز دائر ہیں مگر دوسروں سے احتساب مانگنے والے “انصاف کے یہ چمپئین” ان کا جواب دینے کی زحمت گورا نہیں کرتے۔ اوپر اوپر سے یہ کہتے پھرتے ہیں کہ ”سب سے پہلے میرا احتساب کرو“ اور جہاں کیس لگا ہوا ہے وہاں یہ تاریخ پر جاتے نہیں۔ ہمیں اس بات پر دلی خوشی ہوگی کہ نواز شریف کے ساتھ ساتھ عمران خان اور ان کی اے ٹی ایم مشینوں کا بھی احتساب ہو تاکہ دنیا کو معلوم ہو کہ احتساب کا نعرہ لگانے والے یہ محتسب خود کتنے ”صاف“ ہیں۔ پاکستان میں یہ نظارہ شاید لوگوں نے پہلی مرتبہ دیکھا ہوگا کہ حکمران سے آف شور کمپنیوں کا حساب مانگنے کے لیے کے پی سے آنے والوں میں وہ لوگ شامل تھے جن کے اپنے نام پانامہ پیپرز میں شامل ہیں، لاہور سے وہ آنے کا عندیہ دیتے رہے جن کی اپنی آف شور کمپنیاں ہیں، حساب مانگنے والوں میں خود بنی گالہ میں بیٹھے لیڈر کے دست راست وہ تھے جو خود آف شور کمپنی کا اقرار کرچکے ہیں، اور تو ان حساب مانگنے والوں کے خود لیڈر صاحب وہ تھے جو پاکستان میں آف شور کمپنیوں کے بانی ہیں۔ ”حساب دو حساب دو“ کا شور مچا کر یہ ہنگامہ آرائی کرنے والے اگر سراج الحق صاحب ہوتے تو چلیں کم از کم یہ تو کہا جاسکتا تھا کہ انہیں بہرحال اس کا اخلاقی جواز حاصل ہے، لیکن دس نامزد چوروں میں سے اگر کچھ چور ایک کے خلاف، جو محض اتفاق سے اس وقت حکمران ہے، ”حساب دو حساب دو“ کا یہ غل غپاڑہ کر رہے ہوں تو انسان بس حیرت زدہ رہ جاتا ہے۔

    چنانچہ اس پورے شور و غل میں عمران خان پوری طرح ایکسپوز ہو کر سامنے آگئے کہ اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے یہ فساد برپا کرنے کی حد تک جاسکتے ہیں، وہ تو خدا کا شکر ہے کہ عوام نے ان کی غیر قانونی کال کو مسترد کردیا وگرنہ خدانخواستہ اگر انہیں اسلام آباد میں چند ہزار لوگ دستیاب ہوجاتے تو یہ اس عدالت کا کبھی رخ نہ کرتے جسے یہ پہلے ہی ٹھکرا چکے تھے۔ یہ بات بھی بالکل کھل کر سامنے آگئی کہ اپنے سیاسی مقاصد کی تکمیل کے لیے یہ صوبائیت کا کارڈ کھیل کر حکومت کو بلیک میل کرنے کی حد تک بھی جاسکتے ہیں۔ یہ رویہ انتہائی حد تک شرم ناک تھا مگر عمران خان اور اس کے وزیر اعلی نے ایک مرتبہ بھی اس پر قوم سے معافی مانگنا گوارا نہ کیا۔ ماضی میں عوام کو لاقانونیت پر ابھارنے والے اس لیڈر کا چہرہ لوگ پہلے ہی بھانپ چکے تھے، اس مرتبہ صرف اس کی تائید ہوگئی ہے۔

  • شریف خاندان کیوں مشکل میں پھنسنے والا ہے – ابومحمد

    شریف خاندان کیوں مشکل میں پھنسنے والا ہے – ابومحمد

    سپریم کورٹ کے رجسٹرار نے مؤرخہ 30 اگست کو عمران خان کی پٹیشن خارج کر دی تھی۔ اس کے بعد سے پاناما لیکس کے خلاف درخواستیں سپریم کورٹ میں التوا میں پڑی تھیں۔ جب تحریک انصاف نے اسلام آباد لاک ڈاؤن کا اعلان کیا تو معاملے کی سنگینی کے پیش نظر سپریم کورٹ آف پاکستان نے پاناما لیکس سے متعلقہ درخواستیں سماعت کے لیے منظور کر لیں۔ پہلی پیشی پہلی نومبر کو تھی۔ اس پہلی پیشی میں عدالت عالیہ نے یہ حکم دیا کہ
    ”نواز شریف اپنے اوراپنے بچوں کے اثاثہ جات کی تفصیل جمع کرائیں“
    اس حکم کو عمران خان نے اپنے مطالبے”استعفی یا تلاشی“ کے مطابق ”تلاشی“ تصور کرتے ہوئے اپنا احتجاج ختم کرکے یوم تشکر منانے کا اعلان کیا۔ کشیدگی کے اتنی ہائپ اختیار کرنے کے بعد لوگوں کا خیال یہ تھا کہ حکومت کو ٹف ٹائم دیا جائے، اسلام آباد لاک ڈاؤن کیا جائے۔ سپریم کورٹ نے اگلی پیشی ایک دن کے وقفے کے بعد یعنی 3 نومبر کو رکھی۔ آج پیشی کے وقت سپریم کورٹ کا سب سے پہلا سوال یہ تھا کہ کیا نواز شریف صاحب نے جواب جمع کرایا؟

    سپریم کورٹ اورنواز شریف کے وکلاء کے چند مکالمے حرف بحرف آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں، اس سے آپ بہت سی چیزوں کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ اس سے اس مقدمے کی سنگینی کے علاوہ، نواز شریف کی پوزیشن، سپریم کورٹ کا موڈ، اور نواز شریف کے پس و پیش کی صورت نتائج کا تو اندازہ ہوتا ہی ہے، ساتھ یہ بھی اندازہ ہو جاتا ہے کہ عمران خان کی سپریم کورٹ کی طرف سے نواز شریف کی تلاشی پر مسرت کتنی حقیقی تھی۔
    آج جب اسلام آباد سپریم کورٹ میں پاناما کیس کی سماعت جاری تھی تو پاناما کیس میں وزیر اعظم کا سپریم کورٹ میں جو جواب جمع کرایا گیا میڈیا کے مطابق اس کے مندرجات اور ان پر سپریم کورٹ کے کمنٹس یہ ہیں۔
    بیرون ملک فلیٹس اور دیگر جائیدادوں کا مالک نہیں، نواز شریف کا جواب
    میں آف شور کمپنیوں کا مالک نہیں، وزیر اعظم نواز شریف کا جواب
    ریگولر ٹیکس قانون کے مطابق ادا کرتا ہوں، وزیر اعظم نواز شریف کا جواب
    2013ء کے گوشواروں میں تمام اثاثے ڈکلئیر ہیں، وزیر اعظم کا جواب
    میرا کوئی بچہ میرے زیر کفالت نہیں، وزیر اعظم نواز شریف کا جواب
    وزیر اعظم کو آرٹیکل 62 اور 63 کے تحت نا اہل نہیں قرار دیا جا سکتا، جواب

    پاناما کیس، سپریم کورٹ میں وزیراعظم کے بچوں کے جواب جمع نہ ہو سکنے پر سپریم کورٹ کی برہمی واضح تھی۔ جسٹس عظمت سعید کا کہنا تھا کہ نواز شریف صاحب کے 3 بچوں کی جانب سے جواب کیوں جمع نہیں کرایا؟ اس پر جب نواز شریف صاحب کے وکیل سلمان اسلم بٹ نے یہ کہا کہ مریم صفدر، حسن اور حسین نواز ملک سے باہر ہیں تو جسٹس عظمت سعید کا کہنا تھا کہ کیا آئندہ سال جواب جمع کرائیں گے؟ آپ ہمارا وقت ظائع کر رہے ہیں۔ جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ جو ملک میں موجود ہیں ان کے جواب جمع ہونے چاہییں۔ جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ اگر پتہ ہوتا کہ یہ کرنا ہے تو عدالت ہی نہ لگاتے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے جو ریمارکس دیے وہ یقینا وزیراعظم ہاؤس تک من و عن پہنچ جائیں گے، انہوں نے کہا کہ قانون کے مطابق جواب جمع نہ کرایا تو الزامات تسلیم کر لیں گے۔ ایک موقع پر جب نواز شریف کے وکیل سلمان اسلم بٹ نے یہ کہا کہ مریم صفدر وزیراعظم نواز شریف کی کفالت میں نہیں تو جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ یہ بات لکھ کر دیں کہ مریم نواز، وزیر اعظم کی کفالت میں نہیں۔

    اس ساری گفتگو کے تناظر میں چند باتیں بہت واضح ہیں کہ نواز شریف اپنے بچوں کے اثاثہ جات کے متعلق جواب جمع نہیں کرانا چاہتے، سب جانتے ہیں کہ مریم نواز، حسن اور حسین نواز کی جائیدادوں کی تفصیل کے آتے ہی بہت سے سوالات کے جواب خود بخود مل جائیں گے اور بہت سے سوالات پیدا ہو جائیں گے جو کہ نواز شریف کی صحت کے لیے بہت مضر ہیں، کیونکہ وہ دل کے مریض بھی ہیں۔

    دوسری جو چیز سامنے آتی ہے وہ یہ کہ عدالت کے ریمارکس ہیں کہ اگر نواز شریف صاحب کے بچوں کے جواب نہ آئے تو قانونی طور پر عدالت ان الزامات کو درست تسلیم کر لے گی۔ جائیداد کی ملکیت خود یہ ڈھائی ڈھائی من کے بچے تسلیم کر لیں یا ان کے جواب نہ دینے کی صورت میں عدالت یہ فرض کر لے، دونوں صورتوں میں نواز شریف کے یہ تینوں ہونہار سپوت اپنے فرار کے راستے مسدود پائیں گے۔ ملکیت ثابت ہوتے ہی رجسٹریوں سے یہ بات بھی ثابت ہو جائے گی کہ یہ پراپرٹیاں کب اور کتنے کی لی گئی تھیں۔ اگر یہ پراپرٹیاں نوے کی دہائی میں لی گئی ہیں تو پھر تو مقدمہ سیدھا سیدھا نوازشریف صاحب کے گلے میں فٹ ہو جائے گا کیونکہ اس وقت یہ تینوں بچے پندرہ سولہ سال کے تھے۔ اگر اس کے بعد بھی لی گئی ہیں تو بھی انہیں یہ بات ثابت کرنا پڑے گی کہ اتنی مہنگی جائیدادوں کی خریداری کے لیے رقم کہاں سے آئی؟ رقم بیرون ملک کیسے بھیجی گئی؟ وہ مریم نواز جو نواز شریف صاحب کی 2011ء کی ٹیکس ریٹرن کے مطابق ان کی کفالت میں تھیں، وہ اتنی مہنگی جائیداد بھلا کیسے خرید سکتی ہیں؟ اور سب سے بڑی بات کہ فلیٹس چاہے جائز پیسوں سے بھی لیے گئے ہوں، کیا نواز شریف صاحب نے پچھلے الیکشنز میں اپنے اہل خانہ کی جائیداد کی تفصیل میں ان کے متعلق لکھا تھا یا نہیں؟ یہ معاملہ کچھ طول اسی وقت پکڑ سکتا ہے جب مریم بھی حسن اور حسین نواز کی طرح بیرون ملک فرار ہو جائے اور واپس آنے کا نام نہ لے۔

    ابھی بہت سے پہلو ایسے ہیں جن پر بات کی جا سکتی ہے، مزید تفصیلات وقت کے ساتھ ساتھ گوش گزار کرتا رہوں گا۔ اس وقت تک وہ تمام حضرات جو عمران خان کے یوم تشکر منانے پر سوال اٹھا رہے تھے انہیں چاہیے کہ وہ آیوڈین ملا نمک استعمال کرنا شروع کر دیں۔

  • دھرنا تحریک: مثبت اور منفی پہلو – محمد عامر خاکوانی

    دھرنا تحریک: مثبت اور منفی پہلو – محمد عامر خاکوانی

    کئی ماہ پہلے کی بات ہے، عالمی شہرت یافتہ موٹی ویشنل سپیکر اور مائنڈ میپ تکنیک کے بانی ٹونی بوزان کا انٹرویو کرنے کا موقع ملا۔ ٹونی کے ساتھ تین چار گھنٹوں کی نشست رہی، جس کے دوران کئی کتابوں کے مطالعہ سے بھی زیادہ باتیں سیکھیں۔ ٹونی بوزان نے سکندر اعظم کا واقعہ سنایا کہ جب وہ کوئی معرکہ جیت جاتا تو تھکا ہارا اور کبھی زخمی ہونے کے باوجود اپنے شاہی خیمے میں نہ جاتا۔ سکندر عام سپاہی کا لباس پہن کر اپنے چہرے پر کچھ کالے نشان لگا لیتا تاکہ پہچانا نہ جائے اور پھر لشکر کے مختلف حصوں میں جاتا۔ عام سپاہیوں کے ساتھ بیٹھتا، ان کی تکلیف کو محسوس کرتا، ان کے مائنڈ سیٹ اور احساسات کا اندازہ کرتا۔ باتوں باتوں میں ان سے جنگ کا فیڈ بیک لیتا اور پھر رات گئے اپنے خیمے میں جا کرغسل کرتا، شاہی لباس پہن کر باہر آتا، سپاہیوں کو جمع کرتا، ایک چبوترے پر کھڑا ہو کر ان سے خطاب کرتا اورکہتا: ”آج ہم جنگ جیت گئے ہیں، مگر مجھے اندازہ ہے کہ لڑائی کتنی سخت رہی، تمہارے کچھ دوست کام آئے، کچھ زخمی ہوئے، تم لوگوں کا بھی لہو بہا، مجھے اس کا اندازہ ہے۔ میں بھی تمہارے ساتھ ہی تھا، میرا بھی خون نکلا، میرے بھی عزیز دوست نشانہ بنے، مگر آخری نتیجہ یہ نکلا کہ ہم جنگ جیت گئے۔ اپنی غلطیوں کو ہم نہیں دہرائیں گے اور اگلی جنگ اس سے بہتر انداز میں لڑیں اور جیتیں گے‘‘۔ اس کے بعد سکندر اعلان کرتا کہ اگلے تین دن جشن کے ہیں۔ کسی سپاہی پر کوئی روک ٹوک نہیں، خوب کھاؤ پیو، جو مرضی آئے کرو، جی بھر کر جشن مناؤ۔ اس انداز میں سپاہیوں کے دلوں کو چھونے، ان کے دکھ درد میں شریک ہونے کی وجہ سے یونانی فوج سکندر کو دیوتا مانتی اور اس کے پسینے پر خون بہانے کو تیار رہتی۔

    عمران خان نے بدھ کو یوم تشکر منانے کا اعلان کیا۔ مجھے خیال آیا کہ کیا یوم تشکر منانے سے پہلے گزری رات عمران خان نے بھی اپنی پالیسیوں، حالیہ حکمت عملی کا تجزیہ کیا یا یہ رات بھی عام راتوں کی طرح گزرگئی؟

    عمران خان کی حکمت عملی کا تجزیہ کیا جائے تو بعض چیزیں اس نے حاصل کی ہیں اور کچھ نقصانات بھی ہوئے۔

    سب سے اہم یہ کہ وہ ایک بار پھر حقیقی اپوزیشن لیڈر بن کر ابھرا۔ اس پورے احتجاج کے دوران ملک بھر پر یہ واضح ہوگیا کہ اچھا یا برا، جذباتی یا دانشمند، کم عقل یا عقلمند کی بحث سے قطع نظر اپوزیشن لیڈر وہ اکیلا ہی ہے۔ واحد شخص ہے جو میاں نواز شریف کی حکومت کو ٹف ٹائم دے سکتا اور اپنی کمزور تنظیم کے باوجود ان پر دباؤ ڈال سکتا ہے۔ اپوزیشن کی دوسری جماعتیں ایک بار پھر پیچھے چلی گئی ہیں، خاص کر پیپلزپارٹی کو شدید دھچکا پہنچا۔ پنجاب سے پہلے ہی فرینڈلی اپوزیشن کی وجہ سے پیپلزپارٹی کا صفایا ہوچکا، اب بلاول بھٹو کو میدان میں اتار کر اور اس سے جذباتی تقاریر کروا کے کچھ ماحول بنانے کی کوشش کی جا رہی تھی۔ پہلے یہ کہا کہ ستائیس دسمبر سے پیپلز پارٹی لانگ مارچ شروع کرے گی، پھر جب دیکھا کہ عمران بہت آگے نکل گیا ہے اور کہیں میدان مار نہ لے تو پھر جلد بازی میں سات نومبر سے احتجاج کرنے کا اعلان ہوا، مگر اب تحریک انصاف کا احتجاج ختم کرنے سے پیپلزپارٹی کے پاس کچھ نہیں بچا۔ جماعت اسلامی کو بھی دھچکا لگا؛ حالانکہ جماعت نے اس حوالے سے کچھ بھاگ دوڑ کی تھی۔ سپریم کورٹ میں وہ سب سے پہلے گئے، سراج الحق واحد سیاسی لیڈر تھے جو یکم نومبر کو سپریم کورٹ پہنچے۔ کرپشن کے خلاف جماعت احتجاجی جلسے بھی کر رہی ہے؛ تاہم سپریم کورٹ میں بڑا فریق تحریک انصاف ہے، کریڈٹ بھی اسی کو جائے گا۔

    عمران خان کا دوسرا بڑا کارنامہ یہ ہے کہ وہ پڑھے لکھے پروفیشنلز کو عملی سیاست میں لے آیا۔ یہ پڑھا لکھا طبقہ ہر معاشرے کی کریم ہوتا ہے۔ ڈاکٹر، انجینئر، چارٹرڈ اکائونٹنٹ، آئی ٹی پروفیشنلز، سافٹ ویئر ڈویلپرز، اداکار، فیشن ڈیزائنر، ٹیچر اور دیگر شعبوں کے پڑھے لکھے لوگوں کو صرف تحریک انصاف ہی سیاست کی طرف کھینچ لائی ہے۔ پہلے یہ صرف ووٹر تھے، اب پہلی بار انہیں ماریں کھانے اور پولیس کی آنسو گیس شیلنگ کا بھی تجربہ ہوا۔

    تیسری کامیابی ممکنہ پاناما کمیشن کے حوالے سے ہے۔ عمران خان نے اپنے دباؤ کے ذریعے تین چار وہ باتیں حکومت سے منوا لی ہیں جو اس سے پہلے نوازشریف صاحب ماننے کو قطعاً تیار نہیں تھے۔ مثال کے طور پر میاں صاحب اپنی مرضی کا کمیشن بنانا چاہتے تھے، اب یہ کمیشن سپریم کورٹ کی مرضی سے بنے گا۔ حکومت اس کمیشن کا دائرہ کار متعین کرنے پر بضد تھی، اب یہ دائرہ کار سپریم کورٹ طے کرے گی۔ میاں صاحب اور ان کے اتحادیوں کی یہ بھرپور کوشش تھی کہ اگر کمیشن بن جائے تو اس کا فیصلہ حکومت پر بائنڈنگ نہ ہو، سپریم کورٹ نے پہلی شرط ہی یہ منوائی کہ دونوں فریق اس کا فیصلہ مانیں گے۔ پاناما لیکس والے معاملے کو سات آٹھ ماہ ہوگئے، ابھی تک میاں نوازشریف کی طرف سے اس کا کوئی باقاعدہ جواب آیا تھا اور نہ ہی وہ ٹی او آرز طے کرنے دے رہے تھے، اب حکومت یہ جواب دینے کی پابند ہے اور ٹی او آرز کے حوالے سے بھی حتمی فیصلہ سپریم کورٹ کا ہوگا۔

    عمران نے خاصا کچھ کھویا بھی ہے۔ سب سے اہم یہ کہ تحریک انصاف کی تنظیمی کمزوریاں بری طرح ایکسپوز ہوئیں۔ درست کہ پنجاب حکومت نے بڑی بے رحمی سے تشدد کیا اور پکڑ دھکڑ کی، مگر کسی بھی احتجاجی تحریک میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ اپوزیشن اسے ناکام بنانے کی کوشش کرتی ہے۔ تحریک انصاف ایسا نہیں کر سکی۔ یہ ایک حقیقت ہے جو انصافی کارکنوں کو تسلیم کرنی چاہیے۔ وہ کوئی ایک شہر بھی بند کرنے کی سکت اور استعداد نہیں رکھتے۔ پنجاب سے جتنے لوگ نکلنے چاہیے تھے، نہیں نکل پائے۔ ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ جن لیڈروں نے اپنے شہروں سے کارکنوں کو موٹی ویٹ کر کے باہر نکالنا تھا، وہ سب تو بنی گالہ پہنچ گئے تھے۔ وقت سے پہلے ان کے جانے کی کوئی تک نہیں تھی۔ اگر خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ جلوس لے کر نہ چلتے تو تحریک انصاف کی احتجاجی تحریک کا بھرم بھی رکھنا ممکن نہیں تھا۔ عمران خان کی اپنی پالیسی بھی سمجھ نہ آنے والی تھی۔ انہیں اب عوامی سیاسی لیڈر بننے کے گر سیکھنے چاہییں۔ انہیں باہر نکل کر اپنے کارکنوں کا ساتھ دینا اور پولیس کے ساتھ سینگ پھنسانے چاہییں۔ نجانے وہ کیوں دو نومبر کے چکر میں گھر بیٹھے رہے جبکہ پورے ملک میں کارکن مار کھا رہے تھے،گرفتاریاں دے رہے تھے۔ خاص کر جب بنی گالہ کے باہر خواتین تک کو پولیس پکڑ رہی تھی، تب عمران خان کو باہر آنا چاہیے تھا۔ ان کے اس رویے سے بہت سوں کو مایوسی ہوئی۔ یہ بھی واضح ہوگیا کہ تحریک انصاف کے رہنماؤں کی پہلی، دوسری صف میں خاصی صفائی کی ضرورت ہے۔ علی امین گنڈا پور جیسے لوگوں سے فوری طور پر جان چھڑا لینی چاہیے۔ ایسی بدنامی پر ایک کیا ایم پی اے کی کئی سیٹیں قربان کی جا سکتی ہیں۔ تحریک انصاف کونئے سرے سے اپنی حکمت عملی بنانے کی ضرورت ہے، اس پر ان شاء اللہ تفصیل سے بات ہوگی۔

  • عمران خان کا دھرنا اور ناکام حکمت عملی – ارشد زمان

    عمران خان کا دھرنا اور ناکام حکمت عملی – ارشد زمان

    ارشد زمان آئینی، سیاسی اور جمہوری جدوجہد پر یقین رکھتے ہوئے ہرگز ہرگز کسی دھرنے، مارچ، جلسے اور جلوس پر اعتراض اور تنقید نہیں کی جا سکتی کہ یہ اس راستےکے ضروری بلکہ بعض اوقات لازمی ذرائع ہیں جو مقاصد کے حصول کے لیے استعمال میں لائے جاتے ہیں۔

    مگر اس طریق کار اور حکمت عملی پر اختلاف ہو سکتا ہے جو ہر سیاسی جماعت اپنی سوچ، ویژن، مقاصد اور ترجیحات کے مطابق طے کرتی ہے۔

    سیاسی میدان میں اس سیاسی لیڈر کو اناڑی کی نظر سے دیکھا جاتا ہے جو اپنی مرضی کو دیگر سیاسی جماعتوں پر ٹھونسنے اور اسے اپنا حق سمجھنے کے زعم میں مبتلا ہوا کرتا ہے۔ ایسی سوچ، رویہ اور طرزعمل تکبر، غرور اور گھمنڈ کہلاتا ہے اور یہ بہت بڑی کمزوری ہے جو اس لیڈر اور اس کی جماعت کو سیاسی تنہائی سے دوچار کر رہی ہوتی ہے۔
    آج کل کے سیاسی حالات میں عمران خان صاحب کی سیاسی اپروچ اور طرزعمل سے اسے بخوبی جانچا اور سمجھا جا سکتا ہے۔

    ہمارا نہیں خیال کہ کسی کو خان صاحب کے دھرنے پر اعتراض تھا، جس پہلو نے تنقید کا جواز فراہم کیا، وہ ان کا طریق کار اور عزائم تھے۔ کرپشن کو ایشو بنانا، اس کے خلاف قوم میں آگاہی پیدا کرنا، لوگوں کو متحرک کرکے حکمرانوں کو انڈر پریشر رکھنا، اداروں کو اس کے خلاف کچھ کرنے کرانے پر مجبور کرنا، اور کچھ کر گزرنے کے لیے خود کو پیش کرنا، منوانا، اعتماد حاصل کرنا اور جگہ پانا اور معاملہ ہے جبکہ اس کے مقابلے میں حکومت کو ہر ہر صورت عدم استحکام سے دوچار کرنا، اسے گرانا اور وزیراعظم کی چھٹی کرانے سے کم کسی چیز پر راضی نہ ہونا الگ اپروچ ہے. ظاہر ہے کہ ان راستوں کے تقاضے مختلف اور نتائج علیحدہ علیحدہ ہوں گے۔

    ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ حکمرانوں کی کرپشن خان صاحب کا ایشو نہیں ہے، یہ تو پوری قوم کا ایشو ہے، مگر یہ ضرور کہنا ہے کہ ان کی سوچ اور مقصد واضح ہے کہ وہ خود فوری وزارت عظمی اور حکومت کے تمام تر اختیارات حاصل کرنا چاہتے ہیں اور اس مقصد کے حصول کے لیے ان کی خواہش اور مطالبہ بلکہ ”فتوی“ ہے کہ ملک کے تمام سیاسی و غیر سیاسی، ظاہری و پوشیدہ، نئے اور پرانے، سب عناصر غیر مشروط طور پر ان کے پیچھے پیچھے چلیں اور ان کی حکمت عملی کی داد بھی دیا کریں بغیر نتائج کے پروا کے۔
    یہی خیال ہے جس نے محترم کو انانیت کے خول میں بند کر رکھا ہے، اس کے مظاہر ضد، ہٹ دھرمی اور انتہاپسندی کی صورت ہم دیکھتے ہیں۔

    اب اسے کیا نام دیا جا سکتا ہے کہ ایک سیاسی اور اپوزیشن جماعت کی برپاکردہ تحریک کے تمام تر مطالبات کی تکمیل یعنی،
    جوڈیشل کمیشن کی تشکیل
    انتخابی اصلاحات
    چار کے بجائے بیس منتخب حلقوں کی دوبارہ جانچ پڑتال
    وغیرہ اور ہونے والے معاہدہ کےلیے پارلیمنٹ کی ضمانت کے حصول کو محض اس ایک شرط کہ وزیراعظم لازمی استعفی دے، کو پورا نہ ہونے پر زمین پر پٹخ دیا جائے اور میں نہ مانوں کی پالیسی پر کاربند رہا جائے؟ اس طرزعمل کا جو نتیجہ خود انھوں نے، ان کی جماعت نے اور پوری قوم نے بھگتا، وہ ڈھکا چھپا نہیں ہے۔
    کیا اس کا تجزیہ اور محاکمہ کرنا، تحریک انصاف اور اس کے ہمدردوں کی ذمہ داری نہیں بنتی کہ ایک موقع ایسا آتا ہے کہ ایک کے علاوہ ان کے تمام مطالبات ماننے میں عافیت سمجھی جاتی ہے اور پھر ایک وقت ایسا آئے کہ یہ تمنا، آرزو اور حسرت مقدر ٹھہر جائے کہ،
    ”کاش کوئی واپسی کا باعزت راستہ دکھائے۔“

    اسی تناظر میں جب خان صاحب نے جاتی عمرہ، رائے ونڈ میں جلسے کے تجربے کے بعد اسلام آباد کو بلاک کرنے یا کرانے کا اعلان فرمایا تو سیاسی تجزیہ نگاروں نے اس پر حیرت اور تعجب کا اظہار کیا اور انھیں متوجہ کیا کہ ایسے میں کہ حکومت کا زیادہ عرصہ گزر چکا ہے، وہ اپنی صوبائی حکومت کی کارکردگی پر توجہ دیں اور بقول ان کے جو اصلاحات کی گئی ہیں اور اقدامات اٹھائے گئے ہیں، اس کے نتائج اور ثمرات کے حصول پر فوکس کریں اور آئندہ انتخابات میں کامیابی کے لیے اسے ماڈل کے طور پر پیش کریں۔ اس طرح نواز حکومت کو اپنی ناکامی چھپانے کےلیے کوئی آڑ نہیں ملےگا۔ اچھی منصوبہ بندی اور مسقبل کے لیے تیاری کے ساتھ تحریک کو جاری رکھا جائے مگر کسی انتہائی اقدام اٹھانے سے گریز کیاجائے، مگر حسب روایت خان صاحب اونچی اڑان کے شوق میں اعلان کربیٹھے کہ ”آسمان گر جائے، تب بھی دھرنا ہوگا۔“ جو کہ بدقسمتی سے نہ ہوسکا۔

    زمیں اور آسمان اپنی جگہ قائم ہیں مگر خان صاحب نے اپنی پوری جماعت اور تحریک کو ہلا کے رکھ دیا، اسے متنازعہ اور مشکوک ٹھہرا دیا۔ اس کا انھیں خود کو بھی احساس ہے اور متعدد بیانات میں اپنے کارکنوں کی ناراضی کا اظہار کر چکے ہیں. یہ تو اللہ بھلا کرے سراج الحق کا کہ وہ عین وقت پر سپریم کورٹ سے کوئی امید افزا فیصلہ لینے میں کامیاب ہو گئے جس سے خان صاحب کو ”یوم تشکر“ منانے کا نادر موقع ہاتھ آیا اور صحیح تر معنوں میں واپسی کا محفوظ راستہ ملا۔ سراج الحق نے ہی سب سے پہلے سپریم کورٹ میں پڑیشن دائر کی تھی اور اس کے ذریعہ مسئلہ حل کروانے پر زور دیا تھا، اب خان صاحب اور ان کے ساتھیوں کو مکمل حق حاصل ہے کہ وہ اپنی غلطی اور ناکامی کی اچھی سی اچھی توجیح پیش کریں، اور سراج الحق کی کامیاب حکمت عملی اور کامیابی کو ہائی جیک کرکے اس پر خوشی کے شادیانے بجائیں مگر جو تلخ حقیقت ہے اس سے صرف نظر نہ کیاجائے، شاید اندرونی طور پر انھیں اس کا شدت سے احساس بھی ہوا ہے اور تسلیم بھی کرایا گیا ہے کہ محض یوم تشکر منانے پر اکتفا کرنے کی بنیادی وجہ غلط حکمت عملی اور کوئی معقول اور قابل اعتبار تعداد کو اسلام آباد تک لانے میں ناکامی ہے۔ میڈیا کے باخبر ذرائع کے توسط سے اس اجلاس کی جو اندرونی کہانی سامنے آئی ہے، وہ سب کچھ بتاتی ہے۔

    یہاں ہم ضرور جماعت اسلامی اور اس کے امیر سراج الحق کی حوصلہ افزائی کریں گے کہ انھوں نے بہت ہی احسن انداز میں کرپشن کے خلاف نہ صرف تحریک کو اٹھایا ہے بلکہ مؤثر انداز میں اسے آگے بھی بڑھایا ہے۔ آج کرپشن کا ناسور اور حکمرانوں کی بد دیانتی ہر سنجیدہ محفل اور سوچنے والے حلقوں کا موضوع بنا ہوا ہے اور نہ چاہتے ہوئے بھی سیاسی جماعتیں اور میڈیا کسی نہ کسی انداز میں اس پر بحث و مباحثہ کرنے اور کرانے پر مجبور ہیں، اس سے عوامی شعور اور بیداری میں ضرور مدد ملےگی۔ سراج الحق کی سپریم کورٹ میں پٹیشن اور مؤثر انداز میں اس کی پیروی پر سپریم کورٹ کا جو فیصلہ سامنے آیا ہے، وہ تازہ ہوا کا ایک جھونکا ہے اور اگر درست اور مؤثر انداز میں اس کیس کو یونہی آگے بڑھایا گیا تو حکمرانوں کو دن میں تارے نظر آ جائیں گے۔

    ہم گزارش کریں گے کہ انانیت، ضد، جلد بازی اور خود کریڈٹ لینے اور تنہا سفر کرنے کے بجائے تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کو باہمی مشاورت اور اعتماد کے ساتھ اچھی حکمت عملی اور مؤثر جدوجہد کے ذریعے اکٹھے آگے بڑھنا چاہیے اور اس ملک کے بہتر مستقبل کے خاطر دیگر سیاسی جماعتوں اور خیر کے عناصر کو بھی جگہ دینے اور ساتھ ملانے کی فکر کی جائے۔ خان صاحب کو معلوم ہونا چاہیے کہ اس جانگسل جدوجہد میں کامیابی تب ہوگی جب دوستوں کی تعداد زیادہ اور دشمنوں کی کم ہوگی.

  • لیجیے خان صاحب! روڈ میپ تیار ہے – ڈاکٹر عاصم اللہ بخش

    لیجیے خان صاحب! روڈ میپ تیار ہے – ڈاکٹر عاصم اللہ بخش

    ڈاکٹر عاصم اللہ بخش یوم تشکر کا جلسہ/جشن ختم ہوتے ہی اسلام آباد کے جزوی لاک ڈاؤن پر عمل پیرا ہو جائیے اور بنی گالہ میں واقع اپنی رہائش گاہ کو لاک ڈاؤن کر کے پشاور پہنچ جائیے. پھر سوا سال سے پہلے واپس نہیں آنا. سپریم کورٹ کا کام اپنی وکلا ٹیم کے حوالے رہنے دیں اور خود پشاور سے ان سے رابطے میں رہیں. اب یہاں آپ کا کوئی کام نہیں.

    پشاور میں مستقل ڈیرہ لگا کر حکومت کی کارکردگی بڑھانے کے لیے جو کر سکتے ہیں کر ڈالیے. یہ مشورہ آپ کو پہلے بہت بار دیا جا چکا ہے تاہم اس بار مشورہ وہی ہے لیکن اس کا ہدف مختلف ہے. اب کی بار معاملہ یہ نہیں کہ خیبرپختونخوا میں پرفارم کریں تاکہ مرکز میں بھی حکومت بنا سکیں. اب چیلنج بدل چکا. اب صوبائی حکومت کو اس لیے فعال اور معجزاتی بنائیں کہ اگلے انتخابات میں اس کے بھی لالے پڑنے والے ہیں.

    جن پر دو دفعہ چڑھائی کی، اور دیگر وہ جن کے سروں پر لفظی گولہ باری کے ایٹم بم پھوڑے، وہ لازماً بھرپور جوابی کاروائی کریں گے، متحد ہو کر. انہیں سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرنا پڑی، اتحاد بنانا پڑے، کسی گنگو تیلی کو وزیر اعلی بنانا پڑا. انہوں نے آپ کو نہیں آنے دینا.

    اس لیے ابھی سے فوکس کریں، پلان کریں اور عمل کریں. صوبہ کے ایک ایک حلقہ کو دیکھیں، امیدوار فائنل کریں، پارٹی کیڈرز کو فعال اور متحد کریں، ترقیاتی کاموں کی بروقت تکمیل یقینی بنائیں.

    گیم بدل چکی، انداز بھی بدلنا ہوگا. اب آپ نے دفاع کرنا ہے اور لشکر کشی دوسری پارٹی کرے گی.
    آپ اور آپ کے ووٹرز کے سامنے بہت بڑا چیلنج ہے.
    ہوشیار باش …. !

  • تحریک انصاف،جماعت اسلامی اور موجودہ سیاسی کشمکش – احسن سرفراز

    تحریک انصاف،جماعت اسلامی اور موجودہ سیاسی کشمکش – احسن سرفراز

    احسن سرفراز ملک میں پچھلے کئی روز سیاسی طور پر خاصے ہنگامہ خیز رہے ہیں. پانامہ کا ہنگامہ دن بدن بڑھتا ہی جا رہا ہے. جہاں حکومت نے اپوزیشن کے پانامہ سے متعلق مشترکہ مطالبات کو جان بوجھ کر لٹکائے رکھا، وہیں اپوزیشن کی جماعتیں بھی اس مسلے کو حل کرنے کی حکمت عملی میں اختلاف کا شکار نظر آتی ہیں. یہاں ہم اپوزیشن کی دو بڑی جماعتوں اور صوبہ خیبر پختونخواہ میں اتحادی تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کی پانامہ کے حوالے سے حکمت عملی کا جائزہ لیتے ہیں.

    کچھ دوست PTI کے موجودہ دھرنے و تحریک کا موازنہ قاضی حسین احمد مرحوم کے دھرنوں سے کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور سوال کرتے ہیں کہ جماعت اب ویسے دھرنے کیوں نہیں دیتی؟ تو قاضی صاحب کی لیڈر شپ اور خان صاحب کی لیڈر شپ میں زمین آسمان کا فرق ہے، قاضی صاحب نے کارکن سے آگے بڑھ کر خود مار اور آنسو گیس کھائی جبکہ خان صاحب اور تحریک انصاف کی دوسری لیڈر شپ بنی گالہ محل میں بیٹھی رہی اور کارکن مار، آنسو گیس کھاتا رہا.

    ہمارے ملک میں چند نادیدہ قوتیں حکومتوں کو گرانے کے لیے دوسری سیاسی جماعتوں کو استعمال کرتی ہیں اور اپنے مقاصد نکلنے کے بعد ٹشو پیپر کی طرح پھینک دیتی ہیں. قاضی صاحب سے بھی 1996ء میں بینظیر حکومت کے خلاف ”پہلے احتساب پھر انتخاب“ کا وعدہ کر کے تحریک چلوائی گئی لیکن پھر اقتدار اپنے اس وقت کے چہیتے نواز شریف کے حوالے کر دیا گیا. دوسری بار 1999ء میں نوازشریف کو ہٹوانے کے لیے جماعت کو پھر استعمال کیاگیا اور مشرف خود مارشل لاء لگا کر بیٹھ گیا. اب جماعت نے ماضی کے تجربات سے سیکھ لیا ہے کہ ”ایمپائر“ کے اشارے پر ہنگامہ آرائی کرنے سے نقصان ملک اور جمہوری عمل کا ہوتا ہے اور جماعت کے ہاتھ کچھ نہیں آتا، اس لیے جماعت نے اس طرح کی کسی بھی قسم کی منفی مہم جوئی سے توبہ کر لی ہے اور یہی بات خان صاحب کو سمجھاتی ہے، لیکن خان صاحب کو پہلے دھرنے کے بعد بھی عقل نہیں آئی اور اب پھر خفت اٹھانی پڑی ہے، جبکہ دوسری طرف اداروں کے ذریعے احتساب کا جماعت کا فیصلہ درست ثابت ہوا اور فیصلہ اب اعلیٰ عدلیہ کے ہاتھ میں آچکا ہے. پانامہ لیکس کے خلاف پہلی پٹیشن سراج الحق نے ہی دائر کی تھی، اس مقدمے میں جماعت حکومت کے خلاف فریق ہے اور سراج الحق اپنے وکیل اسد منظور بٹ کے ذریعے اس کیس کی پیروی کے لیے خود سپریم کورٹ باقاعدگی کے ساتھ جا رہے ہیں. اب جب جماعت کا مؤقف وقت نے درست ثابت کر دیا ہے توخان صاحب کے حمایتی یوٹرن لیتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ خان صاحب نےدھرنا ختم کر کے میچور فیصلہ کیا ہے. ان سے معذرت کے ساتھ عرض ہے کہ کوئی میچورٹی ویچورٹی نہیں مجبور ہوکر دھرنا ختم کیا گیاہے. عدالت میں کیس تو پہلے ہی لگ چکا تھا اور ذرا سی بھی عقل رکھنے والا عدالت سے اسی فیصلے کی توقع رکھ رہا تھا. دراصل خان صاحب اس بار پھر ایمپائر کو متاثر کرنے میں بری طرح ناکام رہے. ساری کی ساری قیادت بنی گالہ میں پلاننگ کے نام پر چھپ کر بیٹھ گئی،گنڈا پور کی خرمستیوں اور ”شہد“ کی بوتل نے تحریک انصاف کو الگ مذاق کا نشانہ بنوا دیا، صرف پرویز خٹک نے ڈیڑھ دو ہزار کارکنان کے ساتھ کچھ مزاحمت دکھائی، باقی PTI کا سپورٹر اس طرح کی احتجاجی تحریک کا تجربہ نہیں رکھتا، عام آدمی اور خود تحریک انصاف کا کارکن باہر نکلا ہی نہیں.

    اس کے مقابلے میں جماعت اسلامی بالکل متوازن اور ایشوز کی سیاست کرتی نظر آئی. اس نے ہر چیز کو تحریک انصاف کے نقطہ نظر سے نہیں دیکھا، جماعت ببانگ دھل حکمرانوں کی غلطیوں پر انھیں للکارتی بھی ہے، لیکن خان صاحب کی طرح کسی اشارے پر ہنگامہ آرائی کی سیاست نہیں کرتی، موجودہ حالات میں اسٹیبلشمنٹ کسی بھی موقع پر جماعت کو استعمال کرنے میں ناکام رہی ہے. اپنی جلد بازیوں اور بار بار یرغمال بننے کے باعث خان صاحب خود سنجیدہ حلقوں میں اپنی سپورٹ کھوتے جا رہے ہیں اور ان کی حیثیت شیخ رشید کی طرح مجروح ہوتی جا رہی ہے. موجودہ صورتحال میں جماعت کا سیاسی مستقبل PTI کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ میں نہیں بلکہ دینی جماعتوں کے اتحاد میں ہے. جماعت کی اصل سیاسی طاقت اور فوکس خیبرپختونخوا ہے، وہاں دینی اتحاد فیصلہ کن برتری حاصل کر سکتا ہے. وقت نے ثابت کیا ہے کہ جلد بازی اور ردعمل کی سیاست وقتی طورپر تو نظروں کو خیرہ کرتی ہے لیکن اس کا انجام خفت کی صورت میں ہی نکلتا ہے.

    آنے والے دنوں میں پانامہ چوری کیس پاکستان کی تاریخ کے اہم ترین کیسز میں سے ایک بننے جا رہا ہے، اب وکلاء پر منحصر ہے وہ اسے کس طرح پیش کرتے ہیں. میں سمجھتا ہوں عدالت میرٹ پر فیصلہ کرے گی اور اگر اللہ نے چاہا تو اس ملک میں کرپشن، موروثیت اور سٹیٹس کو، تینوں کو اس کیس سے شدید دھچکہ پہنچے گا. دعا ہے کہ آنے والا وقت پاکستان کی بہتری کا ہو اور قوم کی دولت لوٹنے والوں سے پائی پائی کا حساب لیا جائے.

  • شکریہ کپتان – حسن تیمورجکھڑ

    شکریہ کپتان – حسن تیمورجکھڑ

    حسن تیمور تہمید کے طور پر میں ایک کہاوت سنانا چاہتا ہوں۔
    ایک گاؤں میں باپ بیٹا رہتے تھے۔ ایک مرتبہ انہوں نے بازارسے گدھا خریدا اور اسے لے کر پیدل گھرکی جانب چل پڑے۔ راستےمیں انہیں کچھ لوگ ملے جنہوں نے ان کامذاق اڑایا کہ دیکھو، گدھے کے ہوتے ہوئے بھی پیدل چلے جا رہے ہیں۔
    اس پر وہ دونوں باپ بیٹاگدھے پہ سوار ہوگئے۔
    کچھ دور چلے تو چند افراداور ملے، انہوں نے غصے سے دیکھتے ہوئے کہا کہ دیکھو ان دو ظالم انسانوں کو جو اکٹھے ایک گدھے پر سواری کر رہے ہیں۔ یہ سن کردونوں شرمندہ ہوئے اور فیصلہ کیا کہ ایک بندہ سواری کرے گا اور ایک پیدل چلے گا۔
    باپ بیٹھا رہا، بیٹا پیدل چل پڑا۔ کچھ دور چلے تو کچھ لوگ اور ملے اور طنزیہ ہنسی ہنستے ہوئے بولے کہ دیکھو کیسا باپ ہے کہ خود مزے سے سواری کر رہا ہے اور بیٹا بےچارہ پیدل چلنے پہ مجبور ہے۔
    یہ سن کر باپ نیچے اترا اور بیٹے کو سوار کرا دیا۔ کچھ دور چلے تو ایک ٹولہ اور آن ملا، اور آپس میں باتیں کرنے لگا کہ دیکھو کیسا زمانہ آگیا، بزرگ باپ پیدل چل رہا ہے اور بیٹا سواری کے مزے لے رہا ہے ۔ یہ سن کر دونوں باپ بیٹا بڑا سٹپٹائے۔
    خیر انجام یہ ہوا کہ انہوں نے گدھے کو راستے میں پڑنے والی نہر میں پھینکا اور یہ کہتے ہوئے چل دیے کہ اس دنیا میں لوگوں کو خوش کرنا ناممکن ہے۔

    اب آتے ہیں مدعے کی جانب۔
    میڈیامیں ہاہا کار مچی ہے کہ پٹھان ڈر گیا، کھلاڑی ہارگیا، نیازی نے ہتھیار ڈال دیے وغیرہ وغیرہ۔
    عمران خان کو آپ چاہے یوٹرن کا بادشاہ بولیں، سیاسی نابالغ بولیں، یا پھر نادان۔
    مگر میں اس فیصلے پراس کی نہ صرف تائید کرتا ہوں بلکہ خوش بھی ہوں۔
    میں پی ٹی آئی کا سپورٹر ہوں، اور ن لیگ کا حامی، پیپلزپارٹی کو پسند کرتا ہوں اور مسلم لیگ ق کامشکور ہوں۔
    ہر اس کام کے لیے جو وہ ملک کے لیے کرتے ہیں۔ جو حقیقی معنوں میں قوم کی فلاح کے لیے ہو۔
    میں سخت مخالف ہوں ایسی سیاست کا جو اپنے مفاد، اپنی اولاد، اپنی جائیداد کے لیے ہو۔

    کپتان کا اسلام آباد لاک ڈاؤن کافیصلہ مجھے پہلے بھی سمجھ میں نہیں آیا اور بلاجواز سا لگا تھا۔
    شاید کپتان اپنے جارحانہ مزاج کی وجہ سے نااہل مشیروں اور سیاسی حریفوں اور حلیفوں کے لیے آسان شکار ہیں۔
    ماضی کی کئی شاندار غیر متوقع کامیابیوں نے ضرور ان کو بڑا لیڈر بنا دیا، مگر سیاسی بصیرت ایک الگ چیز ہوتی ہے۔
    کپتان نے ماضی قریب میں یکے بعد دیگرے کئی ایسی حرکات کیں (اللہ جانے کس کے کہنے پر کیں) کہ دل ٹوٹ گیا۔

    پانامہ لیکس کے معاملے پر سولو فلائٹ کی کوشش بھی ناکام رہی۔ لاہور میں مال روڈ پر دھرنا اور پھر شاہدرہ سے ہونے والی احتساب ریلی بھی ناقص حکمت عملی کے باعث ناکام رہے، اس سے سیاسی ساکھ کو اچھا خاصا دھچکا لگا۔

    خان صاحب کو شاید کسی فوجی مشیرکی معیت حاصل ہے جس کی سرشت میں جنگی جنون اور بےچینی بھری ہے۔ یہی مشیر خان صاحب کو بیٹھنے نہیں دے رہا۔ ورنہ تو ہر صاحب بصیرت کارکن، رہنما، سیاسی حلیف، رقیب، دانشور اور صحافی خان صاحب کو یہ باقی ماندہ عرصہ دھینگا مشتی کے بجائے مؤثر اپوزیشن کے ذریعے گزارنے کامشورہ دے رہے ہیں۔

    میں بھی انہی نکات کو یہاں دہرانا چاہتا ہوں کہ خان صاحب اب لیڈری چھوڑیں، اور سیاست پر آئیں۔ قومی وصوبائی اسمبلیوں میں (بالخصوص پنجاب) میں مؤثر اپوزیشن کا کردار ادا کرتے ہوئے قومی اور عوامی معاملات پر قانون سازی میں پیش پیش رہیں۔ بھلے ان کی پیش کردہ قراردادیں اور بل اور تحریکیں منظور نہ ہوں، لیکن کم سے کم ان کی موجودگی کااحساس تو رہے، اور ووٹوں کا حق بھی کچھ ادا ہو۔

    پانامہ لیکس کو کسی کمیشن یا عدالت میں لے جا کر اسے یکسر ہی ختم نہ ہونے دیں۔ اسے اپنی طاقت کے طور پر انتخابات تک کے لیے بچا کر رکھیں تاکہ اپنے ووٹرز کے ساتھ ساتھ مخالفین کے باشعور ووٹرز کو بھی توڑ سکیں۔ (کیوں کہ کمیشن یا عدالت میں جیت حکمرانوں کی ہی ہونی ہے چاہے سو میں سے99 گواہ خلاف ہی کیوں نہ ہوں)

    عمران خان صاحب! آپ کو چاہیے کہ قومی اسمبلی میں کرپشن کو قابل گردن زنی جرم قرار دینے کا بل لائیں، چاہے منظور ہو یا نہ، مگر پارٹی کے مؤقف کو تقویت ملے گی۔ اور پھر حکومت کے اقدامات پر کڑی نظر رکھیں اور ہر موقع پر اپوزیشن کا سلسلہ جاری رکھیں۔ ووٹرز بالخصوص نوجوان اور پڑھے لکھے طبقے نے آپ کو اسی کام کے لیے بھیجا تھا نہ کہ آئے روز سڑکوں پہ کینٹینرز لگوانے۔

    خان صاحب اپنے زیرحکومت صوبے میں اصلاحات پر زور دیں اور ان کی برابر تشہیر بھی کرتے رہیں، تاکہ عوام میں مقبولیت نہ صرف برقرار رہے بلکہ بڑھے بھی۔ ایک اچھا اور بروقت فیصلہ آپ کو دوبارہ سیاسی مقبولیت کی اس معراج پر پہنچا سکتا ہے جس کی آپ کو تمنا ہے۔ تے دنیا دی چھڈو، یہ کبھی کسی سے خوش نہیں ہوتی۔

    (حسن تیمور جکھڑ 92 نیوز سے بطور اسائنمنٹ ایڈیٹر وابستہ ہیں)