Tag: افغانستان

  • ’’امریکیوں کو اکبر بگتی یاد ہیں‘‘-ہارون الرشید

    ’’امریکیوں کو اکبر بگتی یاد ہیں‘‘-ہارون الرشید

    m-bathak.com-1421247288haroon-rasheed

    ایک عظیم طاقت یا بھارت کا باجگزار پاکستان، انتخاب ہمیں خود کرنا ہے۔ ایٹمی پروگرام کی حفاظت کرنے والا آج کوئی بھٹو نہیں، کوئی ضیاء الحق اور کوئی غلام اسحٰق خاں نہیں۔ انحصار پاک فوج پر ہے اور ظاہر ہے، قوم کی تائید پر ۔

    ”امریکیوں کو اکبر بگتی یاد ہیں‘‘۔ اس عنوان سے ایک سیمینار واشنگٹن میں ہوا۔ پچیس تیس افراد شریک تھے۔ براہمداغ بگٹی نے وڈیو لنک سے خطاب کیا۔ حسین حقانی سمیت کچھ دوسروں نے بھی۔ مرکزی نقطہ یہ تھا کہ پاکستان نے بلوچستان پہ قبضہ جما رکھا ہے۔ شرکا میں سے ایک، طارق گیلانی بھڑک اٹھے۔ حسین حقانی سے انہوں نے کہا کہ وہ پاکستان کے مخالف اور بھارت کے حامی ہیں۔ ان خیالات کے ساتھ انہیں امریکہ میں پاکستان کا سفیر نہ بننا چاہیے تھا۔

    مقبوضہ کشمیر میں طوفان کے ہنگام، وزیرِ اعظم مودی نے دنیا کی توجہ بلوچستان کی طرف موڑ دینے کی کوشش کی۔ پاکستان سمیت ساری دنیا میں اس طرح کی سرگرمیاں جاری ہیں۔ سینیٹ میں بھی، جہاں بعض لیڈروں نے ہزاروں زندگیاں قربان کرنے والی فوج کا رشتہ دہشت گردوں سے جوڑنے کی سعی کی۔ ایک وہ صاحب تھے، جو حال ہی میں پشتون بلوچ اتحاد کی تقریب میں شرکت کے لیے کابل تشریف لے گئے۔ یہ فورم افغان حکومت کی سرپرستی میں قائم ہے، جس کا مقصد بلوچستان کی ”آزادی‘‘ ہے۔

    کیا بلوچستان پاکستان سے نجات کا آرزومند ہے؟ بھارت کے یومِ آزادی، 15 اگست کو لال قلعے میں اس موضوع پر نریندر مودی کے خطاب کے بعد، پورے صوبے میں امڈ پڑنے والی عوامی ریلیوں کا مطلب کیا ہے؟

    افسوس کہ قوم کو بلوچستان پر عالمی سازشوں کا ادراک نہیں۔ کشمیر کے برعکس، جہاں ایک ولولہ انگیز عوامی تحریک برپا ہے، بلوچستان میں قتل و غارت کے واقعات ”را‘‘ کی منصوبہ بندی سے برپا ہوتے ہیں۔ افغانستان کی خفیہ ایجنسی این ڈی ایس، جس میں شامل و شریک ہے۔ اے این پی اور وزیرِ اعظم کے حلیف محمود اچکزئی کی پختون خواہ ملی عوامی پارٹی کے رہنما صورتِ حال کو پاکستان دشمن رخ عطا کرنے کی، اپنی سی سعی کرتے ہیں۔ این جی اوز سے وابستہ، انگریزی اخبارات میں انشا پردازی کے جوہر دکھانے والے بعض دانشور بھی۔ مغربی ممالک ان تنظیموں کے لیے سرمایہ فراہم کرتے ہیں۔ امریکی اشارے پر اور ان میں سے بعض سی آئی اے کی تخلیق ہیں۔ چوہدری نثار علی خان کی وزارتِ داخلہ کو تحقیق کرنی چاہیے، قوم کو مطلع کرنا چاہیے۔ ادھوری سی کوشش انہوں نے کی بھی۔ شاید اسی لیے وہ منہ پھٹ دانشوروں کا ہدف ہیں۔

    وزیرِ اعظم، وزیرِ اطلاعات اور وزیرِ دفاع اس موضوع پر ڈٹ کر بات کیوں نہیں کرتے؟ واقعہ یہ ہے کہ میاں محمد نواز شریف اس خطے میں بھارت کی بالادستی قبول کر چکے۔ ہر قیمت پر وہ دہلی سے خوشگوار مراسم چاہتے ہیں۔ کشمیر کے اندوہناک حالات نے حکومتِ پاکستان کو بعض جوابی اقدامات پر مجبور کر دیا؛ باایں ہمہ اپنا مقصد میاں صاحب کو عزیز ہے۔ المناک حقیقت یہ ہے اور بتدریج تفصیلات سامنے آئیں گی کہ شریف خاندان نے بھارت میں سرمایہ کاری کر رکھی ہے اور یہ معمولی سطح کی ہرگز نہیں۔ اتنی زیادہ کہ اگر یہ بلوچستان میں کی جاتی تو شورش زدہ صوبے کی تقدیر بدل جاتی۔ اگر وہ کچھی کینال کے لیے سرکاری سرمایہ فراہم کرنے پر ہی آمادہ ہو جائیں تو لگ بھگ پندرہ لاکھ افراد کو روزگار ملے اور صوبے میں بے روزگاری برائے نام رہ جائے۔

    یہ سوال اٹھایا گیا اور کسی نے اس کا جواب نہ دیا کہ لندن، دبئی اور بھارت میں شریف خاندان کی سرمایہ کاری پاکستان سے بہت زیادہ کیوں ہے؟ کیا تاریخ میں ایسی کوئی دوسری مثال تلاش کی جا سکتی ہے؟ کابل اور ہرات کے درمیان حاجی کاک میں خام لوہے کی کانوں کا ٹھیکہ بھارت میں فولاد کی صنعت کے معمار جندال کے پاس ہے۔ وہی آدمی، دو سال پہلے بھارت کے دورے میں، وزیرِ اعظم اپنے صاحبزادے حسین نواز کے ساتھ جس کے گھر گئے تھے۔ مبینہ طور پر جس نے نیپال میں مودی نواز خفیہ ملاقات کا اہتمام کیا تھا۔ قابلِ اعتماد ذرائع وثوق سے دعویٰ کرتے ہیں کہ اس وسیع و عریض کان میں شریف خاندان کا سرمایہ بھی لگا ہے۔

    امریکہ بھارت دفاعی معاہدے کا پسِ منظر بہت گہرا ہے۔ افغانستان بھی جس میں شامل ہو چکا۔ اسی پر امریکی وزیرِ خارجہ جان کیری نے ارشاد فرمایا تھا کہ پاکستان کو پریشان نہ ہونا چاہیے۔ چین میں جنوبی سمندروں پر تنازعے کے بعد، بیجنگ کے لیے تجارتی راہداری کی اہمیت اور بھی بڑھ گئی ہے۔ نواز شریف سو فیصد کریڈٹ مانگتے ہیں۔ حکومتِ چین کی اوّلین شرط تو یہ تھی کہ پاک فوج اس کے حفاظتی انتظامات کی ذمہ داری قبول کرے۔ سمندری جھگڑے میں ویت نام ایک فریق ہے، بھارتی حکومت نے حال ہی میں اسے 500 ملین ڈالر عطا کیے ہیں اور درجن بھر معاہدوں پر دستخط۔ پیچھے امریکہ ہے۔ افغانستان میں بھی بھارت اسی فراوانی سے سرمایہ لٹاتا ہے۔ چاہ بہار کی بندرگاہ پر وہ چار ارب ڈالر خرچ کرے گا۔ واشنگٹن کی کوشش یہ ہے کہ تجارتی راہداری پر کام رک نہیں سکتا تو سست ضرور ہو جائے۔ کیا یہ محض اتفاق ہے کہ راہداری کے مغربی راستے پر صحیح معنوں میں آغاز کار ہی نہیں۔ احسن اقبال چپ کیوں ہیں؟

    اب یہ پوری طرح واضح ہے کہ پاکستان پر سے امریکہ نے ہاتھ اٹھا لیا۔ اب وہ اس کا حلیف نہیں اور مشکلات پیدا کرنے کی پوری کوشش کرے گا۔ عسکری ذرائع کہتے ہیں، امریکی ہدف یہ ہے کہ پاک فوج کو ہر ممکن حد تک کمزور کیا جائے۔ ہو سکے تو اسے محض ایک انسدادِ دہشت گردی فورس بنا کر رکھ دیا جائے۔ آنے والے دنوں میں دہشت گردی کے مزید واقعات ہو سکتے ہیں۔ پاکستانی فوج کی مشکلات میں اضافہ ممکن ہے۔ کوئی بھی قیاس کر سکتا ہے کہ الطاف حسین کارڈ کند ہونے، محمود اچکزئی اور اسفند یار کو پاکستان کے خلاف استعمال کرنے میں صریح ناکامی کے بعد امریکی اور بھارتی کیا سوچ رہے ہوں گے، کیا کریں گے۔

    خطے میں غلبہ پانے کے لیے وہ پُرعزم ہیں اور افغانستان ان کا جونئیر رفیق، جس کی معیشت کا انحصار غیر ملکی امداد پر ہے یا کسی قدر پاکستان میں سمگلنگ پر۔ داخلی وسائل سے وہ اپنے بجٹ کا پانچ فیصد بھی مہیا نہیں کرتا۔ پوری طرح اس نے کرائے کی ایک ریاست کا کردار اختیار کر لیا ہے۔ وزیرِ اعظم کے رفقا میں سے ایک نے بتایا: میاں نواز شریف اور چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف کی موجودگی میں خارجہ امور کے مشیر طارق فاطمی نے بھاشن دیا کہ پاکستان کو کشمیریوں کی مدد سے گریز کرنا چاہیے۔ ”اس لیے کہ وزیرِ اعظم بھارت کے ساتھ بہترین تعلقات کے متمنی ہیں‘‘۔ پاک فوج کے ایک جنرل نے حیرت سے کہا: پاکستانی مفادات کی قیمت پر خوشگوار تعلقات؟ طارق فاطمی نے وعظ جاری رکھا۔ ایک نوکری پیشہ آدمی، وزیرِ اعظم کی قربت کے لیے جس نے برسوں ریاضت کی ہے۔ فاطمی کی نوکری ہی اس کے لیے پوری کائنات ہے۔ ملک ایسے کرداروں سے بھرا پڑا ہے اور ایک دن انہیں قیمت چکانی ہے۔

    محض کشمیر سے توجہ ہٹانے کی غرض سے نہیں، قبائلی پٹی کی طرح بلکہ اس سے بڑھ کر بلوچستان عالمی طاقتوں کا ہدف ہے۔ ایٹمی پروگرام کی طرح بلکہ اس سے بہت بڑھ کر بلوچستان کا دفاع ملک کی سب سے بڑی ترجیح ہونا چاہیے۔ وزیرِ اعظم وہاں نہیں جاتے۔ اپوزیشن لیڈر بھی نہیں جاتے۔

    ملک رہگزرِ سیلِ بے پناہ میں ہے۔ سلامت اترے تو اس طوفان کے پار ایک مستحکم اور خوش حال پاکستان ہے۔ اب یہ ہم پر ہے کہ ڈٹ کر ہم کھڑے رہتے ہیں یا نہیں۔ پوٹھوہار کے شاعر نے کہا تھا۔ ؎

    ایک دیوار کی دوری ہے قفس
    توڑ پاتے تو چمن میں ہوتے

    ایک عظیم طاقت یا بھارت کا باجگزار پاکستان، انتخاب ہمیں خود کرنا ہے۔ ایٹمی پروگرام کی حفاطت کرنے والا آج کوئی بھٹو نہیں، کوئی ضیاء الحق اور کوئی غلام اسحٰق خاں نہیں۔ انحصار پاک فوج پر ہے اور اس سے زیادہ رائے عامہ کی تائید پر۔

  • ’’کتنے کلو غیرت چاہیے‘‘ – احسان کوہاٹی

    ’’کتنے کلو غیرت چاہیے‘‘ – احسان کوہاٹی

    وہ انسان ہی تھا، خاک سے گندھاہوا، وفا و خطا کا پتلا، اس کے سینے میں بھی ویسا ہی دل تھا جیسا کہ میرے اور آپ کے سینے میں ہے اور اس دل میں بھی خواہشیں ویسے ہی نمو پاتی تھیں جیسے ہمارے دلوں میں پلتی اور بڑھتی ہیں، اسے بھی زندگی اتنی ہی عزیز تھی جتنی کسی بھی انسان کو ہوسکتی ہے بلکہ شاید زندگی اسے زیادہ پیاری ہو کہ اس کے پاس سب کچھ تھا. دولت کی بات کریں تو اتنی کہ محاورتا نہیں سچ میں وہ پیسہ پانی کی طرح بہائے تو اس کی دولت ختم ہونے میں کلینڈروں کے کتنے ہی ورق الٹ پلٹ جائیں، وہ ملک کا بزنس ٹائیکون تھا، مقبولیت کی بات کریں تو وہ شہر کا نہیں پورے ملک کا جانا مانا شخص تھا، طاقت کی بات کریں تو اقتدار کی راہداریاں اس کے قدموں تلے ہوتی تھیں۔

    اللہ تعالٰی نے اسے عجیب صلاحیتوں سے نوازا تھا. وہ مٹی میں بھی ہاتھ ڈالتا تو سونا ہو جاتی، اس نے صحافت کا رخ کیا تو اس کا اخبار ملک کا سب سے بڑا اخبار بن گیا، اس کا رحجان میڈیا کی طرف ہوا تو اس کا نیوز چینل دیس کے تین بڑے نیوز چینلوں میں سے ایک ہو گیا، اسے خیال آیا کہ بنک ہونا چاہیے تو وہ کامیاب بینکار بھی ہوگیا. ان سب کے ساتھ ساتھ وہ ایک شفیق باپ بھی تھا، اسے بھی اولاد اتنی ہی پیاری تھی جتنی کسی بھی باپ کو ہوسکتی ہے، اس نے بھی سینے پر اپنے بچوں کو تھپک تھپک کر سلایا تھا، انگلی پکڑا کر چلنا سکھایا تھا، چلنے کے قابل ہوئے تو دوڑنا سکھایا تھا، بہترین تربیت دی تھی کہ زندگی کی دوڑ میں پیچھے نہ رہیں، اللہ تعالٰی نے بیٹی کی نعمت سے نوازا تو اس کی ویسی ہی تربیت کی جیسا کہ حق تھا، اس نے بیٹی کی آنکھوں کو حیا، زبان کو بڑوں کے لیے احترام اور چھوٹوں کے لیے شقفت دی، جواب میں اسے اولاد سے فرمانبرداری، احترام اور محبت ملی جو کسی بھی باپ کا حق اور خواب ہوتا ہے. اب بتائیں دنیا کی ہر نعمت تک دسترس رکھنے والے اس شخص کے لیے زندگی پرکشش کیوں نہ ہو؟ وہ زندگی کی ساٹھ بہاریں دیکھ چکا تھا، بھرپور جوانی گزار کر قابل رشک بڑھاپا گزار رہا تھا، یہ عمر اس کی نواسوں نواسیوں، پوتوں پوتیوں کے کھلانے کی تھی، پارک کے کسی گوشے میں بنچ پر بیٹھ کر پھول سے بچوں کو کھیلتے دیکھنے کی تھی، ان کی چھوٹی چھوٹی فرمائشیں پوری کرنی کی تھیں، ان کو انگلی تھما کر آہستہ آہستہ ساتھ چلنے کی تھی ۔

    سیلانی نے ایک کامیاب بزنس مین، مقبول سیاستدان ،منظم فلاح کار اور متمول شخص کی زندگی کا نقشہ کھینچ دیا. بس ایک بات رہ گئی کہ ان تمام کامیابیوں اور کامرانیوں کے ساتھ ساتھ اس نے زندگی کے نشیب و فراز بھی قریب سے دیکھ رکھے تھے، اب بتائیں ایسے شخص کے لیے زندگی حسین نہ ہو تو کیا سیلانی کے لیے ہوگی؟ زندگی تو کوڑھ کے مریض کے لیے بھی بڑی دلنواز ہوتی ہے اور اس اندھے کے لیے بھی جس نے کچھ نہیں دیکھا ہوتا لیکن یہاں تو معاملہ ہی کچھ اور تھا. اب ذرا دل تھام کر بیٹھیے اور سوچیے کہ ایسے کامیاب انسان کے لیے زندگی ایک ’’ہاں یا نہ‘‘ کے فاصلے پر آجائے تو اسے کیا فیصلہ کرنا چاہیے؟ تھوڑی دیر کے لیے فرض کرلیں کہ آپ ہی وہ شخص ہیں تو اب بتائیے کہ آپ ایک لفظ میں کیا فیصلہ کریں گے؟ ایک طرف تخت ہو، زندگی کی ساری رعنائیاں ہوں، سعادت مند باحیاء اولاد ہو، عمر بھر ساتھ دینے والی رفیقہ حیات ہو، بنک بیلنس ہو، اسٹیٹس ہو، دوست احباب ہوں، یاروں کی محفلیں ہوں، مقام و مرتبہ ہو تو آپ کا دل چاہےگا کہ آپ مر جائیں؟ انہیں بھی کہا گیا کہ وہ معافی مانگ لے، اپنے جرائم تسلیم کرلے، اس کی جان بخشی کر دی جائے گی. وہ گھر لوٹ جائے گا، باقی زندگی اپنے بچوں میں گزارے گا لیکن وہ سید ابوالاعلی مودودی کا تراشیدہ ہیرا تھا، اس نے زندگی کی بھیک مانگ کر پتھر ہونا قبول نہ کیا اور وہ انکار کیا جو اقرار میں نہ بدل سکا۔
    qasmi
    اس نے مرنا قبول کرلیا اور تختہ دار پر آ کھڑا ہوا، ڈاکٹر نے آخری معائنہ کیا، بلڈ پریشر چیک کیا، دل کی دھڑکنیں سنیں، کلائی ہاتھ میں لے کر حرارت محسوس کرنے کی کوشش کی کہ بخار تو نہیں اور تریسٹھ برس کے بوڑھے قیدی کو پھانسی کے لیے صحت مند قرار دے دیا، بوڑھے قیدی نے خاموشی سے آنکھیں موند لیں، جلاد نے سفید بالوں سے ڈھکے سر سے پھندا گزار کر سفید داڑھی تلے گردن میں کس دیا، اس کے لب ہلنے لگے، جلاد اور جیلر کے کان کھڑے ہوگئے کہ شاید یہ معافی مانگ رہا ہے، غور سے سنا تو وہ اپنے رب کا شکر ادا کر رہا تھا، کلمہ شہادت پڑھ رہا تھا کہ یہ مقام تو وہ مقام ہے جس کی آرزو انبیاء کرتے پائے گئے، صحابہ کرام تہجد کی نمازوں میں ہچکیاں لے لے کر اسے مانگتے رہے، پھر وہ شکر ادا کیوں نہ کرتا کہ اس بڑھاپے میں اسے یہ وقار ملنے والا تھا۔ پھانسی گھاٹ پر اشارے کے منتظر جلاد نے جیلر کی طرف دیکھا، جیلر نے گھڑی پر نظر ڈالی اور فضا میں اٹھا ہوا ہاتھ جھٹکے سے نیچے گرادیا، اشارہ ملتے ہی جلاد نے لیور کھینچ دیا، پھانسی گھاٹ کا بوجھل سناٹا چیخ اٹھا اور بنگلہ دیش جماعت اسلامی کے میر قاسم علی بھی پاکستان پر قربان ہوگئے، اس پاکستان پر جس کے اب وہ شہری بھی نہیں تھے، انہوں نے تو کبھی گلا بھی نہ کیا کہ جس پاکستان کے دفاع کے لیے وہ مکتی باہنی کے سامنے ڈٹ کر کھڑے ہوئے تھے، اس پاکستان نے انہیں بھلا ہی دیا، اجنبی ٹھہرا دیا، انہوں نے ان سے بھی کوئی شکوہ نہ کیا جن کے ساتھ ۱۹۷۱ء میں کاندھے سے کاندھا ملا کر دفاع وطن کے لیے اٹھے تھے، وہ ان کی وفائیں تہہ خاک کر کے انہیں’’ غدار ی کے مقدمات‘‘ بھگتنے کے لیے چھوڑ گئے. مشرقی پاکستان ماضی کا قصہ اور باقی ماندہ مغربی پاکستان صرف پاکستان ہو گیا.

    میر قاسم علی اسلامی جمعیت طلبہ بنگلہ دیش کے رکن تھے، پھر جماعت اسلامی کے قافلے میں شامل ہوگئے، ۱۹۷۱ء میں مکتی باہنی نے بھارت کے ساتھ مل کر بغاوت کی تو انہوں نے دفاع وطن کے لیے پاک فوج کا ساتھ دیا. یہی ان کا جرم تھا جسے حسینہ واجد کی کینہ پروری بھلانے کو تیار نہ تھی، اس نے متنازعہ جنگی ٹربیونل بنا کر ’’غداروں‘‘پر مقدمات چلانے اور پھانسیاں دینے کا سلسلہ شروع کر دیا، میر قاسم کو بھی گرفتار کرکے ۱۴ مقدمات چلائے گئے اور مجرم قرار دے کر پھانسی کی سزا سنا دی گئی۔

    سیلانی کو واٹس اپ پر یہ اطلاع ملی کہ بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کے راہ نما میر قاسم علی کو بھی پھانسی دے دی گئی. وہ دو برس سے اسیر تھے اور اب انہیں اس طرح رہائی ملی کہ ان کا بوڑھا جسم بےجان کر کے جیل کی پھاٹک سے باہر کر دیا گیا، میر قاسم علی کی پھانسی سیلانی ہی کیا کسی کے لیے بھی اچنبھے کی بات نہیں تھی، مودی کے چرن چھونے والی حسینہ واجد سے اور بعید بھی کیا ہے، دفاع پاکستان کے مہینے میں یوم دفاع پاکستان سے محض تین دن پہلے میر قاسم علی کو پھانسی دے کر بنگلہ دیش کی وزیر اعظم نے ہاٹ لائن پر یقیننا نریندر مودی کا قہقہہ سنا ہوگا لیکن پاکستانی بھی اسلام آباد سے کچھ سننا چاہتے تھے، خاص کر آواران، خاران، تربت، قلات،گوادر، لسبیلہ اور ڈیرہ بگٹی کے ’’میر قاسم علی‘‘ اسلام آباد سے کچھ سننا چاہتے تھے مگرانہیں اسلام آباد سے کوئی آواز سنائی دی اور نہ ہی راولپنڈی سے۔

    raheel sharif

    بلوچستان میں ویسے حالات نہیں جیسے کبھی مشرقی پاکستان میں تھے، یہاں علیحدگی پسندوں کو ویسی پذیرائی بھی حاصل نہیں جیسی مشرقی پاکستان میں مکتی باہنی کو تھی لیکن اس سچ سے کیسے انکار کیا جاسکتا ہے کہ بلوچستان میں علیحدگی کی تحریک نہیں؟ آواران، خاران، تربت کے در و دیوار پر پاکستان کے خلاف نعرے تحریر نہیں؟ سیلانی کو آواران میں سیکنڈری اسکول کے بچوں سے ملاقات یاد ہے جن کے سینے میں علیحدگی پسندوں نے ویسے ہی زہر بھر دیا تھا جیسے کبھی مشرقی پاکستان میں احساس محرومی کے گرم نوکیلے پتھروں پر برہنہ پا کھڑے بنگالیوں کے سینوں میں بھرا گیا تھا. وہ بچے سیلانی سے پوچھ رہے تھے کہ ہمیں پاکستان نے دیا ہی کیا ہے جو ہم پاکستان کے ساتھ رہیں؟ ایکسپریس ٹیلی ویژن کا اینکر صدام حال ہی میں بلوچستان میں کئی دن گزار کر آیا ہے، وہ ڈیرہ بگٹی سے نصیر آباد تک کی خاک چھاننے کے بعد کراچی کے پریس کلب میں سیلانی سے ملا تو اس کا یہی کہنا تھا کہ بلوچستان کا ایک ہی مسئلہ ہے، بلوچوں کو برابری چاہیے، عزت سے روزگار چاہیے۔ وہ بلوچستان اپنے پروگرام کی شوٹنگ کے سلسلے میں گیا تھا، سیلانی سے کہنے لگا
    ’’سیلانی بھائی! میں وہاں فراریوں سے ملا، ان بلوچوں سے جنہوں نے ہتھیار ڈالے ہیں، میں نے ان سے پوچھا کہ وہ کیوں پہاڑوں پر گئے تھے؟ انہوں نے اپنی بیوی بچوں، بوڑھے ماں باپ کو کیوں چھوڑا تو وہ ایک ہی جواب دیتے تھے کہ یہاں کیا کرتے؟ انہیں کہاں سے کھلاتے؟ ان کی ضروریات کیسے پوری کرتے؟ ماں باپ بیمار پڑتے تو دوا دارو کے لیے خرچ کہاں سے لاتے؟ ہمیں جب بی ایل اے والوں نے کہا کہ پہاڑوں پر چلو، اپنا حق مانگو مت بلکہ چھینو، ہم تمہیں خرچا بھی دیں گے، گھر والوں کا خیال بھی کریں گے تو ہم ان کے ساتھ چلے گئے۔ صدام بتا رہا تھا کہ انہوں نے مجھے بتایا کہ انہیں افغانستان میں ٹریننگ دی گئی، انہیں بم رکھنے کی ٹریننگ دی گئی، راستوں میں مائینز رکھنے کی تربیت دی گئی، انہیں لیکچر دیے گئے اور بتایا سمجھایا گیا کہ پاکستان سے جان چھڑاؤ پھر بلوچستان میں عیش ہی عیش ہوگی‘‘۔

    nawaz modi

    یہ سب کچھ سیلانی کے لیے نیا نہیں تھا اس لیے وہ صدام کے پاس بیٹھا خاموشی سے سنتا رہا لیکن جب صدام نے ایک ایسے فراری کا ذکر کیا جس نے صاف گوئی سے کام لیتے ہوئے پاکستانی بھائیوں کو قتل کرنے سے انکار کر دیا تھا تو وہ چونک گیا، صدام بتا رہا تھا کہ وہ نوجوان پڑھا لکھا لگتا تھا، وہ بتانے لگا کہ ہمیں یہاں سے افغانستان لے جایا گیا، جہاں گوریلا ٹریننگ دی گئی، سکھایا گیا کہ پل کیسے اڑاتے ہیں؟ ریموٹ کنٹرول بم کیسے رکھتے ہیں؟ مائینز کیسے چھپا کر لگائی جاتی ہیں؟ فوجی قافلوں پر حملہ کیسے کرتے ہیں؟ راکٹ لانچر کیسے فائر کرتے ہیں؟ یہ سب سیکھ کر جب ہمیں ٹاسک ملے تو میں سوچ میں پڑگیا کہ مجھ میں اور کرائے کے قاتل میں کیا فرق ہے؟ میں اپنے مسلمان بھائیوں کو اس لیے قتل کر دوں کہ وہ پنجابی ہیں؟ وہ بےچارا بھی تو مجبور ہوگا جبھی اپنا گھر بار چھوڑ کر یہاں کام دھندا کرنے آیا. اس بلوچ کا کہنا تھا کہ قصور پاکستان کا نہیں اس سسٹم کا ہے، ایسی ہی غربت سندھ میں بھی ہے، وہاں ایسے بھی لوگ ہیں جنہوں نے اپنی پوری زندگی میں پانچ ہزار کا نوٹ تک نہیں دیکھا، ایسا ہی حال پنجاب کے سرائیکی علاقوں کا بھی ہے. یہ پاکستان کا نہیں پاکستان کے سسٹم کا قصور ہے، اس سسٹم پر مائینز لگانی چاہییں‘ اسے تباہ کرنا چاہیے‘‘.

    اس بلوچ نوجوان کو گارنٹی دی گئی تھی کہ اسے ملازمت بھی دی جائے گی اور تحفظ بھی دیا جائے گا، میر قاسم کی شہادت سے سیلانی کو وہ پڑھا لکھا بلوچ یاد آ گیااور وہ سوچنے لگا کہ اس بلوچ سے کسی علیحدگی پسند نے پوچھ لیا کہ تم سے پہلے یہی حماقت جماعت اسلامی بنگلہ دیش نے کی تھی، وہ مشرقی پاکستان کے دفاع کے لیے اٹھے تھے اور آج ان کے جنازے اٹھائے جا رہے ہیں، سفید داڑھیوں والوں کو پھانسیاں دی جا رہی ہیں اور پاکستان آنکھیں پھیر کر بیٹھا ہوا ہے۔ اس طعنے کے جواب میں کوئی دانشور، سیاست دان، جرنیل، کرنیل اور اکیس گریڈ کا بیوروکریٹ انہیں کیا جواب دے گا؟ کیسے تشفی کرائے گا؟ کیادلیل لائے گا؟

    nawaz sharif

    پاکستان بتائے کہ بنگلہ دیش میں دفاع پاکستان کے جرم میں محبان پاکستان کی پھانسیوں پر اسلام آباد نے کیا رد عمل دیا؟ کرکٹ میچ میں قومی ٹیم کی کامیابی اور چھوٹو گینگ کے اسلحہ پھینکنے پر پریس ریلیزیں جاری کرنے والے کیوں خاموش ہیں؟ اس ننگے ظلم کے باوجود اسلام آباد میں بنگالی سفیر کیوں دھونی جمائے بیٹھا ہے؟ اسے احتجاجا نکال باہر کرنے کے لیے ہمیں کتنی کلو غیرت درکار ہوگی؟ آدھابازو کٹوانے کے بعد کیا ہم نے ناک بھی کٹوادی ہے؟ غیرت مند مت بنیے، خودغرض ہو جائیے اور سوچیے کہ بنگلہ دیش سے تعلقات ہماری کون سی مجبوری ہیں؟ کیا وہاں سے بھی کوئی انجینئر ہماری شوگر ملوں کی مشینری دیکھنے آئیں گے؟ کیاہم نے ڈھاکہ سے بھی آلو پیاز کی تجارت کرنی ہے؟ ہمیں خودغرض بن کر بلوچستان میر قاسموں کے لیے یہ چپ توڑنا ہوگی، ہمیں ڈھاکہ سے سخت احتجاج کرنا ہوگا، سفارتی تعلقات ختم ہوتے ہیں تو ہماری بلا سے. ہمیں مشرقی پاکستان کے بزرگوں کی قربانیوں کو بھی ماننا ہوگا، انہیں تسلیم کرنا ہوگا، ہم 65 کے شیر جوانوں کی یاد میں 2016ء میں یادگاریں بنا سکتے ہیں تو1971ء کے ان غازیوں شہیدوں کو خراج تحسین کیوں نہیں پیش کر سکتے؟ تیس بوری سیمنٹ سے کوئی یادگار کیوں نہیں بناسکتے؟ سیلانی یہ سوچتے ہوئے چشم تصور میں 63 برس کے میر قاسم علی کو پاکستان پر قربان ہوتا دیکھتا رہا، دیکھتا رہا اور دیکھتا چلا گیا۔

  • فریب ِ ناتمام-حامد میر

    فریب ِ ناتمام-حامد میر

    hamid_mir1

    یہ دسمبر 1997ء کی ایک سرد شام تھی۔ اسلام آباد کے بلوچستان ہائوس میں نواب اکبر بگٹی کے ساتھ ایک طویل انٹرویو میں سعید قاضی اور عصمت ہاشوانی میرے ساتھ تھے۔ بگٹی صاحب اس وقت کے وزیراعظم نوازشریف کے اتحادی تھے اور بلوچستان کے وزیراعلیٰ اختر مینگل کی حمایت کررہے تھے۔ میں ان سےبار بار پوچھ رہا تھا کہ کبھی آپ غدار بن جاتے ہیں کبھی پاکستان کے وفادار بن جاتے ہیں یہ کھیل کب بند ہوگا؟ انہوں نے کہا کہ جب پنجاب کو ضرورت نہیں ہوتی ہمیں غدار کہہ دیتا ہے جب ضرورت پڑتی ہے وفادار بنا لیتا ہے۔ میں نے پوچھا کہ جب سید جعفر علی خان نجفی عرف میر جعفر کےپڑپوتے میجر جنرل اسکندر مرزا نے ری پبلکن پارٹی بنائی تھی توکیا آپ کو اس پارٹی میںشامل ہونے کا مشورہ کسی پنجابی نے دیا تھا؟ اس پارٹی میں شامل ہو کر خان عبدالغفار خان کے بھائی ڈاکٹر خان صاحب مغربی پاکستان کے وزیراعلیٰ بن گئے اورآپ رکن اسمبلی بن گئے پھر آپ کو وزیر داخلہ اور وزیر دفاع بھی بنایا گیا۔

    جنرل ایوب خان نے مارشل لاء لگا کرآپ کو جیل میں ڈال دیا وہ بھی پنجابی نہیں تھے۔ بگٹی صاحب نے مجھے کہا کہ تم پنجابی النسل نہیں ہو پھر پنجاب کا دفاع کیوں کررہے ہو؟ میں نے عرض کی کہ جناب آپ پنجاب سے تعلق رکھنے والے ایک کشمیری النسل وزیراعظم کے اتحادی ہیں لہٰذا پنجاب پر تنقید آپ کو زیب نہیں دیتی۔ پھر میں نے یہ بھی پوچھ ڈالا کہ 1973ء میں بلوچستان میں سردار عطاء اللہ مینگل کی حکومت کو ذوالفقار علی بھٹو نے برطرف کیا اورپھر آپ نے گورنر کا عہدہ سنبھال لیا کیا آپ کو کسی پنجابی نے یہ عہدہ سنبھالنے پر مجبورکیا؟ بگٹی صاحب نے کمال برداشت اور تحمل کامظاہرہ کرتے ہوئے میرے سوال کا بڑی تفصیل کے ساتھ جواب دیا اورکہا کہ اچھی بات ہے تم میرا ماضی مجھے یاد دلا رہے ہو، ہمیں سچ بولنا چاہئے کیونکہ صرف سچ ہمیں تباہی سے بچا سکتا ہے توپھر یہ بھی پوچھو کہ جب جنرل ایوب خان نے قائداعظم کی بہن فاطمہ جناح کو بھارتی ایجنٹ قرار دیا اور صدارتی الیکشن میں مادر ملت کو شکست دیدی توپنجاب کہاں تھا؟ کیا ایوب خان کی اصل طاقت پنجاب نہیں تھی؟

    جب مادر ملت کو غدار کہا گیا تو پنجاب خاموش کیوں رہا؟ بگٹی صاحب نے کہا کہ ہاں مجھ سے غلطی ہوئی مجھے 1973ء میں گورنر نہیں بننا چاہئے تھا لیکن ایک سندھی وزیراعظم نے پنجابی جرنیلوں کے دبائو پر نیشنل عوامی پارٹی پر پابندی لگائی اس پر بغاوت کا مقدمہ بنایا پچاس ساٹھ لوگوں کو جیل میں ڈال دیا لیکن پھر اس سندھی وزیراعظم کو پھانسی پر لٹکا کرجنرل ضیاء الحق نے نیپ کے گرفتار لیڈروں کو رہا کردیا اور جی ایم سید کو بھی گلے لگا لیا۔ اگرکوئی سندھی، بلوچ یا پختون لیڈر جی ایم سید کو گلے لگائے تو غدار لیکن کوئی پنجابی گلے لگائے تو یہ ملکی مفاد میں ہوتا ہے۔ بگٹی صاحب نے کہا کہ انہوں نے اختر مینگل کی حمایت کر کے سردار عطاء اللہ مینگل کے ساتھ 1973ء میں ہونے والی زیادتی کا کفارہ ادا کرنے کی کوشش کی ہے اور اب ہم نواز شریف کا ساتھ نہیں چھوڑیں گے ہمیں جب بھی چھوڑیں گے وہی چھوڑیں گے۔ ایسا ہی ہوا۔ کچھ ماہ کے بعد اختر مینگل کو ہٹا کر جان جمالی کو وزیراعلیٰ بنا دیا گیا اور پھر اکبر بگٹی واپس اسلام آباد نہیں آئے۔

    نواب اکبر بگٹی کی باتیں آج مجھے پھر یاد آرہی ہیں۔ پاکستان میں سب سے غلطیاں ہوئیں لیکن غلطیوں کا اعتراف کوئی کوئی کرتا ہے اور کفارہ ادا کرنے والوں کی تعداد انگلیوں پر گنی جاسکتی ہے۔ حکومت پاکستان نے ایم کیو ایم کے بانی الطاف حسین کے خلاف ایک ریفرنس برطانوی حکومت کوبھیج دیا ہے۔ جب سے الطاف حسین نے پاکستان کے خلاف اشتعال انگیز گفتگو کی ہے تو یہ سوال زیربحث ہے کہ اگر 1975ء میں نیپ پر پابندی لگ سکتی ہے تو ایم کیو ایم پر پابندی کیوں نہیں لگائی جاسکتی؟ نیپ کیخلاف کارروائی اورایم کیو ایم کے خلاف کارروائی کو تاریخی تناظر میں سمجھنے کی ضرورت ہے۔ نیپ نے 1971ء میں پاکستان بچانے کی بھرپور کوشش کی۔ غوث بخش بزنجو اپنی سوانح عمری میں لکھتے ہیں کہ وہ ولی خان کے ساتھ ڈھاکہ گئے اورشیخ مجیب الرحمان کے سامنے ہاتھ جوڑ کر کہا کہ خدارا پاکستان نہ توڑو جس پر شیخ صاحب نے کہا کہ 1947ء میں آپ لوگوں کے سامنے میں نے ہاتھ جوڑے تھے کہ پاکستان کی مخالفت نہ کرو آج تم مجھے کہتے ہو پاکستان نہ توڑو، پاکستان میں نہیں وہ توڑ رہے ہیں جو 1970ء کے انتخابات میں اکثریت حاصل کرنے والوں کو اقتدار نہیں دے رہے۔

    نیپ کی قیادت نے 1973ء کا آئین بنانے میں بھی اہم کردار ادا کیا لیکن ذوالفقار علی بھٹو نیپ کے ساتھ نہ چل سکے۔ انہوں نے کچھ فوجی جرنیلوں کی بلوچستان میں کی جانے والی کارروائیوں پر خاموشی اختیار کی اور اپنی غلطیوں کا اعتراف اپنی کتاب ’’افواہ اور حقیقت‘‘ میں کیا۔ ولی خان اور عطاء اللہ مینگل کے خلاف پہلی چارج شیٹ اکبر بگٹی نے 31 جنوری 1973ء کو لاہور میں پیش کی تھی لیکن نیپ پر پابندی نہیں لگائی گئی۔ نیپ پر پابندی پیپلز پارٹی کے رہنما حیات محمد خان شیر پائو کے پشاور میں قتل کا ردعمل تھا۔ شیر پائو 8 فروری 1975ء کو پشاور یونیورسٹی میں بم دھماکے کا نشانہ بنے اور 10فروری 1975ء کو وفاقی حکومت نے نیپ پر پابندی لگا دی۔

    سپریم کورٹ میں ایک ریفرنس داخل کیاگیا اور ولی خان کو پاکستان کا دشمن قرار دیا گیا لیکن انہوں نے الزامات مسترد کردیئے۔ حکومت نے سپریم کورٹ میں ولی خان کی تقاریر کے کچھ ٹیپ اور 14 جنوری 1974ءکے اخبارات کے تراشے پیش کئے جن میں ولی خان نے کہا تھا کہ برطانیہ نے طورخم پر ایک زنجیر لگائی تھی جسے اتار کے پشاور کے چوک یادگار میں رکھ دیا جائے گا۔ سپریم کورٹ نے نیپ پر پابندی کے فیصلے کی توثیق کر دی اور حیدرآباد میں نیپ کے رہنمائوں کیخلاف بغاوت کے مقدمے کی سماعت شروع ہو گئی۔ بھٹو اپنی کتاب ’’اگر مجھے قتل کردیا گیا‘‘ میں لکھتے ہیں کہ وہ یہ مقدمہ ختم کرنے پر تیار ہوگئے لیکن فوجی جرنیلوں نے انہیں منع کیا۔ بھٹو کی حکومت ختم کرنے کے بعد ایک دن جنرل ضیاء الحق حیدرآباد جیل گئے انہوں نے ولی خان سے ملاقات کی اور ان کے خلاف بغاوت کا مقدمہ ختم کردیا۔

    حال ہی میں نیپ کے ایک پرانے کارکن جمعہ خان صوفی کی کتاب ’’فریب ناتمام‘‘ سامنے آئی ہے جس میں اعتراف کیا گیا ہے کہ نیپ کے رہنما اجمل خٹک کابل میں بھارتی سفارتکاروں کی مدد سے پاکستان دشمن سرگرمیوں میں مصروف تھے اور حیات محمد خان شیر پائو کے قتل کا منصوبہ کابل میں تیار کیا گیا۔ انور اور امجد نامی دو نوجوانوں نے ٹیپ ریکارڈر میں بم نصب کر کے دھماکہ کیا جس میں شیر پائو مارے گئے اور یہ دونوں قاتل بھاگ کر واپس کابل آگئے۔ جمعہ خان صوفی لکھتے ہیں کہ ہمیں اوپر سے ہدایت تھی کہ اپنی کارروائیوں کی اطلاع اسفند یار ولی اور افراسیاب خشک کو نہ ہونے دینا۔ انہوں نے یہ بھی لکھا کہ وہ اور اجمل خشک کابل میں سندھو دیش کے حامیوں کی مدد بھی کرتے تھے اور جب جنرل ضیاء نے جی ایم سید کو بھارت کے دورے کی اجازت دی تو نیپ کے لوگوں نے دہلی میں جی ایم سید سے ملاقات کی۔ آپ خود ہی سوچئے کہ کیا جنرل ضیاء الحق ان سب حقائق سے بے خبر تھے؟ انہوں نے صرف بھٹو کی دشمنی میں یہ حقائق نظر انداز کئے اور جی ایم سید سے بھی ملاقاتیں کرتے رہتے۔

    جنرل ضیاء الحق کے دور میں ایم کیو ایم بنی اور الطاف حسین کی پاکستان دشمن سرگرمیوں کو نظرانداز کیا گیا۔ کیا جنرل پرویز مشرف کو الطاف حسین کی اصل حقیقت کا علم نہ تھا؟ پوچھئے علی قلی خان صاحب سے وہ بتائیں کہ جب مشرف میجر جنرل تھے تو کس طرح ایم کیو ایم کے ذریعہ کراچی میں اپنے کام کرایا کرتے تھے۔ وہ اقتدار میں آئے تو انہوں نے 12مئی 2007ء کو ایم کیو ایم کا استعمال کیا۔ آج کراچی کے نئے میئر وسیم اختر 12مئی کے واقعات کے مجرم ہیں اور مشرف کو کوئی نہیںپوچھتا۔ حساب کتاب کرنا ہے تو پھر سب کا کریں۔ الطاف حسین نے اپنے خلاف تمام ثبوت خود دے دیئے ان کے خلاف کارروائی بالکل ٹھیک ہے لیکن جو لوگ ان سے لاتعلقی کا اعلان کررہے ہیں انہیں زبردستی غداربنانا ٹھیک نہیں۔ اگر وہ سب بھی قصور وار ہیں تو پھر مشرف جیسے لوگ بے قصور کیسے ہوگئے؟ سچ بولنا ہے تو سب کے بارے میں سچ بولا جائے۔

  • مظلوم کشمیریوں کا پاکستان پر احسان-حامد میر

    مظلوم کشمیریوں کا پاکستان پر احسان-حامد میر

    hamid_mir1

    مارک پیری ایک امریکی رائٹر ہے جو دفاعی امور اور علاقائی تنازعات پر بہت گہری نظر رکھتا ہے۔ مارک پیری نے جنوری 2012میں امریکہ کے معروف فارن پالیسی میگزین میں لکھا کہ اسرائیل کے خفیہ ادارے موساد کی طرف سے پاکستان کے راستے ایرانی بلوچستان میں مداخلت کی جارہی ہے۔مارک پیری نے امریکی سی آئی اے کی کچھ دستاویزات کا حوالہ دیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ موساد کے ایجنٹ امریکی پاسپورٹ ا ستعمال کرتے ہیں اور امریکی سی آئی اے کے نمائندے بن کر بلوچ نوجوانوں کو عسکریت کی طرف راغب کرتے ہیں اور جو نوجوان راضی ہوجائیں انہیں جند اللہ میں بھرتی کرلیا جاتا ہے۔ یہ عسکری تنظیم ایرانی بلوچستان میں آزادی کی تحریک چلارہی ہے۔ اس تنظیم کے سربراہ عبدالمالک ریگی کو ایران نے2010میں بڑے ڈرامائی انداز میں گرفتار کیا۔ ریگی دبئی سے کرغزستان جارہا تھا۔ جب امارت ائیر لائنز کا ہوائی جہاز ایرانی حدود سے گزر رہا تھا تو ایرانی فضائیہ نے اس جہاز کو زبردستی بندر عباس ائیر پورٹ پر اتارا اور ریگی کو گرفتار کرلیا جو افغان پاسپورٹ پر سفر کررہا تھا۔

    ریگی نے ابتدائی تعلیم کراچی کے ایک مدرسے میں حاصل کی لیکن اسے شہرت 2007میں ملی جب وائس آف امریکہ کی فارسی سروس نے اس کا انٹرویو نشر کیا جس میں دعویٰ کیا گیا کہ عبدالمالک ریگی ایک ڈاکٹر ہے جو ایران میں بلوچوں کے حقوق کے لئے مسلح جدوجہد میں مصروف ہے۔ مارک پیری کو یقین ہے کہ اسرائیلی خفیہ ادارے موساد کی طرف سے عبدالمالک ریگی جیسے نوجوانوں کو صرف پاکستان اور افغانستان سے نہیں بلکہ مشرقی وسطیٰ اور مغربی ممالک سے بھی بھرتی کیا جاتا ہے اور انہیں دہشت گردی کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔

    فارن پالیسی میگزین میں مارک پیری کے مضمون کی اشاعت پر اسرائیلی حکومت بہت سیخ پا ہوئی کیونکہ اس سے قبل امریکی میڈیا میں یہ دعوے کئے گئے تھے کہ امریکی سی آئی اے ایرانی بلوچستان میں جنداللہ کی مدد کررہی ہے۔ اے بی سی نیوز نے اپریل2007اور سیمورہرش نے نیویارکر میگزین میں جولائی2007میں واضح طور پر دعویٰ کیا کہ سی آئی اے کی طرف سے جند اللہ کو مدد فراہم کی جارہی ہے۔ مارک پیری نے جنداللہ کا تعلق سی آئی اے کی بجائے موساد سے جوڑ دیاا ور کچھ عرصے کے بعد یہ دعویٰ بھی کردیا کہ اسرائیل نے آذربائیجان میں ایرانی سرحد کے پاس خاموشی سے کچھ فوجی اڈے حاصل کرلئے ہیں۔ مارک پیری نے موساد کے ایجنٹوں کی طرف سے امریکی پاسپورٹوں کے استعمال کے بارے میں تحقیق 2010میں شروع کی تھی جب برطانوی حکومت نے الزام لگایا تھا کہ موساد کے ایجنٹ برطانوی پاسپورٹ استعمال کرکے دبئی گئے جہاں19جنوری2010کو ایک ہوٹل میں حماس کے ایک رہنما کو قتل کردیا گیا۔

    اس واقعہ کے کچھ ہفتوں کے بعد23فروری2010کو عبدالمالک ریگی دبئی سے کرغزستان روانہ ہوا تو ایران کو کیسے پتہ چل گیا کہ امارت ائیر لائنز کی پرواز میں جنداللہ کا کمانڈر انچیف افغان پاسپورٹ پر سفر کررہا ہے؟ کیا یہ کسی طاقتور خفیہ ادارے کی طرف سے موساد کو پیغام تھا کہ ہمارا نام استعمال کرنا بند کردو ورنہ ہم تمہارا بھانڈا پھوڑ دیں گے؟ عبدالمالک ریگی کی گرفتاری اور مارک پیری کے مضمون سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ اکثر اوقات طاقتور خفیہ ادارے سب جانتے ہیں کہ کب اور کون مطلوب شخص کہاں سے کون سے ملک کے پاسپورٹ پر کدھر کو سفر کررہا ہے لیکن یہ خفیہ ادارے اپنی اپنی مصلحتوں کے تحت خاموش رہتے ہیں۔ مطلوب افراد کی شناخت کو اسی وقت بے نقاب کیا جاتا ہے جب کسی کو کوئی پیغام دینا مقصود ہو۔

    بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی نے بھی پاکستان کو ایک پیغام دینا تھا۔ نریندر مودی یہ پیغام دینا چاہتے تھے کہ اگر پاکستان نے مقبوضہ جموں و کشمیر کے عوام کی تحریک آزادی کی حمایت بند نہ کی تو بھارت بلوچستان کے علیحدگی پسندوں کی حمایت کرے گا۔ انہوں نے غلطی یہ کی کہ مغربی ممالک میں موجود کچھ بلوچ علیحدگی پسندوں سے تقاضا کیا کہ وہ مودی کے بیان کی حمایت کے ساتھ ساتھ کشمیر میں تحریک آزادی کو دہشت گردی قرار دیں۔ براہمداغ بگٹی اور دو خواتین نے مودی کے حکم پر من و عن عملدرآمد کیا لیکن تین بلوچ رہنمائوں نے مودی کے حق میں بیان دینے سے انکار کردیا۔ انکار کرنے والوں کا مؤقف تھا کہ ہمیں مودی کا شکریہ ادا کرنے میں کوئی تامل نہیں لیکن ہم کشمیریوں کی تحریک آزادی کی مذمت کرکے خود کو بھارتی خفیہ اداروں کا زرخرید غلام کیوں ثابت کریں؟ کیا پاکستان سے آزادی مانگنے کا مطلب بھارت کی غلامی ہے؟ مودی کے بیان کی کچھ بلوچ علیحدگی پسندوں کی طرف سے حمایت اور کچھ کی طرف سے اس بیان پر خاموشی انتہائی قابل غور ہے۔ بلوچ علیحدگی پسندوں کا ایک گروپ مودی کو ناقابل اعتبار سمجھتا ہے، کیونکہ مودی بیک وقت ایران، اسرائیل اور امریکہ کے ساتھ دوستی کو فروغ دینے کی کوشش میں مصروف ہیں جبکہ یہ گروپ پاکستانی بلوچستان اور ایرانی بلوچستان کو متحد کرکے نئی ریاست بنانے کے خواب دیکھتا ہے۔

    میری ذاتی معلومات کے مطابق نریندرمودی کے 15اگست 2016کے بیان نے ایران کے سیاسی و سفارتی حلقوں میں کھلبلی مچادی ہے۔ امریکی اسکالر کرسٹین فیئر نے مارچ2009میں فارن پالیسی میگزین میں لکھا تھا کہ ایرانی بلوچستان کے شہر زاہدان میں بھارتی قونصلیٹ پاکستانی بلوچستان کے علیحدگی پسندوں کو پیسہ بھیج رہا ہے لیکن پاکستان کے پاس بلوچستان میں بھارتی مداخلت کا کوئی ٹھوس ثبوت موجود نہ تھا۔ پاکستانی اداروں نے بلوچستان سے ایک بھارتی جاسوس کلبوشن یادیو کی گرفتاری کو بہت بڑا بریک تھرو قرار دیا لیکن اس گرفتاری کے باوجود بلوچستان میں دہشت گردوں کا نیٹ ورک نہیں توڑا جاسکا۔ 8اگست کو کوئٹہ میں ہونے والے ایک بم دھماکے نے پاکستانی اداروں کے بڑے بڑے دعوئوں اور کارکردگی کے متعلق بہت سے سوالات پیدا کردئیے۔ بلوچستان کے وزیر اعلیٰ اور وزیر داخلہ نے اس بم دھماکے کا ذمہ دار’’را‘‘ کو قرار دیا جبکہ داعش اور طالبان کے ایک گروپ نے بھی اس دھماکے کی ذمہ داری قبول کرلی۔ متضاد دعوئوں نے بہت کنفیوژن پیدا کررکھی تھی لیکن نریندر مودی کے بیان نے بلوچستان میں آئندہ کسی بھی قسم کی دہشت گردی کو’’را‘‘ کے کھاتے میں ڈال دیا ہے۔ اس بیان کے بعد ایران میں بھی یہ سوچا جارہا ہے کہ مودی ایران کا دوست ہے یا دشمن؟ کہیں بھارتی اور اسرائیلی خفیہ ادارے مل کر پاکستانی بلوچستان اور ایرانی بلوچستان میں کوئی کھیل تو نہیں کھیل رہے ؟ کیا مودی نہیں جانتے کہ جند اللہ نے چابہار میں کئی حملے کئے ہیں اور یہ وہی علاقہ ہے جہاں بھارت کی طرف سے ایک بندرگاہ تعمیر کی جارہی ہے؟ کہیں بندر گاہ تعمیر کرنے کی آڑ میں تخریب کاری کے منصوبے تو نہیں بن رہے؟

    نریندر مودی کا 15اگست کا بیان ان کی زندگی کی بڑی سیاسی غلطیوں میں سے ایک شمار کیا جائے گا لیکن اہل پاکستان کو یہ قطعاً نہیں سمجھنا چاہئے کہ مودی کے اعتراف جرم کے بعد بلوچستان میں سب مسائل ختم ہوجائیں گے۔ اس حقیقت میں کوئی شک نہیں کہ بلوچ عوام کی اکثریت علیحدگی پسندوں کے ساتھ نہیں ہے کیونکہ پاکستان اور ایران کو توڑ کر ایک نیا ملک بنانا بہت مشکل ہے لیکن بلوچوں کا احساس محرومی ایک حقیقت ہے جس سے ا نکار پاکستان سے محبت نہیں دشمنی ہے۔ جب تک یہ احساس محرومی ختم نہیں ہوگا تو پاکستان کے دشمنوں کو بلوچستان میں سازشوں کے جال بچھانے کے لئے مقامی افراد دستیاب رہیں گے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ نریندر مودی کو15اگست کا بیان دینے پر کس نے مجبور کیا؟ کیا یہ پاکستانی وزیر اعظم کے کسی بیان کا ردعمل تھا؟ بالکل نہیں۔ مودی کو یہ بیان دینے پر مقبوضہ کشمیر کے عوام کی طویل ترین ہڑتال نے مجبور کیا اور اسی ہڑتال کے باعث مودی اور براہمداغ بگٹی کا تعلق بے نقاب ہوا۔ کیا پاکستانی عوام اس مودی کو سارک کانفرنس کے موقع پر پاکستان آکر ایک اور تقریر کرنے کی اجازت دیں گے؟

  • محسن کُش-محمد اظہار الحق

    محسن کُش-محمد اظہار الحق

    izhar

    یہ جمعرات کی شام تھی۔ سرحدی افغان قصبے سپن بولدک کے گلی کوچوں میں جلوس نکالا جا رہا تھا۔ افغان ”آزادی‘‘ کی 97ویں سالگرہ تھی! دلچسپ بات یہ تھی کہ ”آزادی‘‘ کے اس جلوس میں بینر اور پلے کارڈ جن لوگوں نے اٹھا رکھے تھے، ان پر پاکستان کے خلاف نعرے لکھے ہوئے تھے۔

    پاکستان کے خلاف نعرے لگاتے لگاتے ان افغانوں نے ”بابِ دوستی‘‘ پر چڑھائی کر دی۔ نعرے زیادہ بلند ہو گئے۔ پاکستانی سائڈ پر مودی کے خلاف احتجاج ہو رہا تھا۔ اچانک افغانوں نے ایک پاکستانی سے پاکستانی جھنڈا چھین لیا اور اسے نذرِ آتش کر دیا۔ پاکستانی حکام نے سرحد بند کر دی۔ دس سے پندرہ ہزار افراد روزانہ یہ سرحد دونوں طرف سے عبور کرتے ہیں۔ گاڑیوں کی ایک طویل قطار ہے جو سرحد کھلنے کا انتظار کر رہی ہے۔

    پاکستانی جھنڈے کو جلا کر، دل میں بھڑکتی ہوئی پاکستان دشمنی کی آگ کو ٹھنڈا کیا گیا۔ نعرے کیوں لگے اور پاکستانی پرچم کی یہ دلخراش اور ناقابلِ برداشت توہین کیوں کی گئی؟ اس کی وجہ جاننے کے لیے امیر المومنین سیدنا علی المرتضیؓ کی چوکھٹ پر جانا پڑے گا۔ فرمایا: جس پر احسان کرو، اس کے شر سے بچو۔ پاکستانی قوم افغانوں پر 38سال سے احسان کر رہی ہے۔ کیا پاکستانی حکومتیں اور کیا پاکستانی عوام۔ سب نے احسان کیا۔ لاکھوں مہاجرین کو پناہ دی، پھر یہ پاکستان ہی تھا جس کی وجہ سے مختلف افغان گروہوں کو اسلحہ ملا اور ڈالر، جس کی وجہ سے وہ اس قابل ہوئے کہ روسیوں سے جنگ کر سکیں اور انہیں اپنے ملک سے نکال سکیں۔ روسی چلے گئے۔ پھر افغانوں نے آپس میں لڑنا شروع کر دیا۔ یہ خانہ جنگی اب تک جاری ہے۔ 38سال پہلے جو افغان پناہ گزین بن کر پاکستان آئے تھے، اب وہ یہاں مالک بن بیٹھے ہیں۔ واپس جانے کا نام نہیں لے رہے۔ خیمے میں گھسنے والے اونٹ کی کہانی، اِس کہانی کے سامنے کچھ حیثیت نہیں رکھتی۔

    ایک گھر میں مہمان آیا۔ ہفتے گزر گئے واپس جانے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔ ایک دن مظلوم میاں بیوی نے، جو بدقسمتی سے میزبان تھے، تجویز سوچی۔ مہمان سے کہا کہ آئو چھلانگ چھلانگ کھیلتے ہیں۔ پہلے میاں نے گھر کی ڈیوڑھی میں کھڑے ہو کر باہر کی طرف لمبی چھلانگ لگائی اور گھر کے باہر جا گرا۔ پھر بیوی نے بھی ایسا ہی کیا۔ اب مہمان کی باری تھی۔ وہ باہر گیا اور باہر سے اندر کی طرف اتنی لمبی چھلانگ لگائی کہ گھر کے وسط میں آن گرا۔ اب پاکستانی قوم افغانوں کو واپس بھیجنے کے لیے باہر کی سمت چھلانگیں لگا رہی ہے مگر کوئی منصوبہ کارگر نہیں ہوتا۔ ڈالر لے کر کئی خاندان واپس جاتے ہیں اور دوبارہ آ جاتے ہیں۔ پاکستان کا ہر شہر، ہر قصبہ، ہر بازار، ہر ملازمت، ہر کاروبار، ان کی جولان گاہ بنا ہوا ہے۔ یہاں تک کہ مقامی لوگوں کو دن دہاڑے قتل کر دیا جاتا ہے۔ وفاقی وزیر جنرل عبدالقادر بلوچ کا یہ بیان ریکارڈ پر ہے کہ دس لاکھ ملازمتوں پر افغانوں کا قبضہ ہے۔ بلوچستان کے سابق وزیر اعلیٰ عبدالمالک نے ایک ہفتہ پہلے کہا ہے کہ کوئٹہ شہر میں پاکستانی اب اقلیت میں ہیں اور افغان اکثریت میں ہیں۔

    اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ روس کے خلاف افغان جنگ میں صدر ضیاء الحق کا کود پڑنا ملکی بقا کے لیے ضروری تھا تب بھی صدر ضیاء الحق کا یہ جرم معاف نہیں کیا جا سکتا کہ سرحدی لکیریں مٹا کر، ملک کو افغانوں کی چراگاہ بنا دیا۔ آج ہی محمود اچکزئی نے کرنل امام کا حوالہ دیا ہے۔ کرنل امام نے، اچکزئی صاحب کے بقول، کہا تھا کہ ”ہم‘‘ نے 95ہزار لوگوں کو جنگ کی تربیت دی اور شناختی کارڈ فراہم کیے کوئی اور ملک ہوتا تو جنرل ضیاء الحق اور اس کے ان سارے ساتھیوں کے خلاف مقدمہ چلایا جاتا جنہوں نے پاکستانی شناختی کارڈ ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں افغانوں کو دیے!

    کن افغانوں کو؟ وفا جن کی سرشت میں نہیں۔ احسان فراموشی جن کی گھٹی میں پڑی ہے۔ محسن کُشی جن کے خون میں رچی ہے۔ جو ملک اِن افغانوں کو ستر سال سے ادویات، آٹا، گوشت، گھی سے لے کر سیمنٹ تک، حتیٰ کہ بچوں کی کاپیاں تک فراہم کر رہا ہے، اُس ملک کے جھنڈے کو یہ احسان فراموش آگ لگا رہے ہیں۔ ع

    تفو بر تو اے چرخ گردوں تفو!

    اس سے بھی زیادہ المناک حقیقت یہ ہے کہ ملک میں ایک طبقہ اِن پاکستان دشمن افغانوں کے ساتھ ہے۔ اس طبقہ نے افغان مہاجرین کی چیرہ دستیوں کی کبھی مذمت کی نہ برا منایا مگر جب ان کی افغانستان واپسی کی بات ہوتی ہے تو اُٹھ کر واویلا مچانے لگتا ہے کہ نہیں نہیں، یہ ظلم نہ کرو! افغان مہاجرین کو واپس نہ بھیجو۔ دو طاقت ور مذہبی رہنما افغانوں کی پشت پناہی کر رہے ہیں۔ اس کی ایک وجہ تو نفسیاتی ہے۔ چونکہ یہ حضرات پاکستان کے قیام کے مخالف تھے، اس لیے وہ پاکستانی سالمیت اور پاکستانی سرحدوں کے تقدس کے بارے میں سرد مہر ہیں۔ ستر سال جن حضرات نے قائدِ اعظم بانیٔ پاکستان کا نام تک لینا گوارا نہ کیا ہو، وہ غیر ملکیوں کی مداخلت کا کیا برا منائیں گے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ یہ ایک لحاظ سے ان کے حلقہ ہائے اثر ہیں۔ یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ یہ حضرات افغانوں کو شناختی کارڈ دلوانے میں سرگرم رہے ہیں۔ یہ سچ ہے یا محض الزام! اس کی حقیقت شاید کبھی بھی نہ معلوم ہو۔

    ان میں سے ایک مذہبی رہنما نے کہا ہے کہ افغانستان کی صورت حال میں بہتری تک مہاجرین کو پاکستان میں رہنے کا حق دیا جائے۔ ایک بچہ بھی جانتا ہے کہ افغانستان کی صورتِ حال سینکڑوں سال تک ابتر رہے گی اس لیے کہ گزشتہ سینکڑوں سال سے ابتر چلی آ رہی ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہا جا رہا ہے کہ یہ ”مہمان‘‘ ہمیشہ کے لیے یہیں رہیں۔

    اس سے بھی زیادہ ”دلچسپ‘‘ بات یہ ہوئی کہ افغان جہادیوں کا ایک وفد، ایک مذہبی رہنما کو ملا اور ”فریاد‘‘ کی کہ مہاجرین کو ”پریشان‘‘ کیا جا رہا ہے! اس پر مذہبی رہنما نے ”انکشاف‘‘ کیا کہ یہ تو بین الاقوامی سازش ہے جس کی رو سے مہاجرین کو نکالنے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ یہ بھی فرمایا کہ دفاع پاکستان کونسل کی ساری جماعتیں ان مہاجرین کے ساتھ ہیں۔ یہ بیان کسی تبصرے کا محتاج نہیں۔ مگر کھونٹے ان حضرات کے مضبوط ہیں۔ ایک کی پشت پناہی حکومت وقت کر رہی ہے اور دوسرے کو دامے درمے سخنے، امداد، خانِ اعظم، عمران خان دے رہے ہیں بلکہ دامے درمے میں کروڑوں روپے شامل ہیں۔ خیبرپختون خوا کے وزیر اعلیٰ پرویز خٹک نے برملا کہا ہے کہ افغان مہاجرین کی عزت اسی میں ہے کہ اب وہ عزت سے واپس چلے جائیں۔ اس پر یقینا خان صاحب نے اپنے وزیر اعلیٰ سے باز پرس کی ہو گی۔ کیونکہ اگر دونوں میں سے ایک کو چھوڑنا پڑا تو عمران خان پرویز خٹک کو چھوڑ سکتے ہیں، دامنِ یار نہیں چھوڑ سکتے۔اگر تحریکِ انصاف کو ایک مذہبی جماعت میں ضم نہ بھی کیا تو کم از کم کسی دن دفاع پاکستان کونسل کے سٹیج پر ضرور تشریف فرما ہوں گے۔

    اس کالم کے آغاز میں آپ نے افغان سرحدی قصبے سپن بولدک کا ذکر پڑھا۔ کیا آپ کو معلوم ہے کہ سپن بولدک اور اس کے اردگرد کے علاقے میں اچکزئی قبیلے کی کثرت ہے؟ اب یہ یاد کیجیے کہ ڈاکٹر عبدالمالک پہلے غیر سردار، اور قوم پرست بلوچ رہنما تھے جو وزیر اعلیٰ بلوچستان بنے، گزشتہ ہفتے ڈاکٹر عبدالمالک نے ڈنکے کی چوٹ کہا کہ کوئٹہ میں افغان اکثریت میں اور پاکستانی اقلیت میں ہیں۔ اب دو اور دو جمع کر کے خود ہی جان لیجیے کہ پہلے غیر سردار وزیر اعلیٰ کو محض دو سال بعد چیف منسٹری سے کیوں ہٹا دیا گیا؟ انہیں ہٹانے میں کن کا مفاد تھا؟ اوریہ حضرات کس قدر طاقت ور تھے؟ ان سوالوں کے جواب ہر اُس پاکستانی کو معلوم ہیں جو بلوچستان میں آبادی کے اتار چڑھائو کا مطالعہ کر رہا ہے۔ افغان مہاجرین کو پاکستان ہی میں رکھنے کی جدوجہد، صرف انسانی ہمدردی کی بنیاد پر نہیں کی جا رہی، اس میں ایک بڑا محرک ایک خاص طبقے کی آبادی میں اضافہ کرنا بھی ہے۔!!

  • فاٹا پر مغربی ریڈیو چینلز کی یلغار اور گریٹر پختونستان منصوبہ – بادشاہ خان

    فاٹا پر مغربی ریڈیو چینلز کی یلغار اور گریٹر پختونستان منصوبہ – بادشاہ خان

    بادشاہ خان فاٹا میں ریاستی رٹ کی بحالی تقریبا مکمل ہونے کو ہے، مگر اس دوران غیر ملکی ریڈیو چینلز اور بیرونی امداد پر چلنے والی این جی اوز کو یہاں پروپیگنڈہ کرنے میں آزادی حاصل رہی، یہ غیر سرکاری تنظیمیں بیرونی ایجنڈے کے فروغ کے لیے سرگرم رہیں، کسی کو کینیڈا سے ڈیل کیا جاتا رہا تو کوئی جرمنی سے، یورپی اداروں نے اس دوران جاسوسی بھی کی جس کی ایک رپورٹ خود برطانوی نشریاتی ادارے نے چند روز قبل جاری کی ہے. محرومی کا شکار قبائلی جوان براہ راست ٹارگٹ تھے اور ہیں، مصنوعی چکاچوند اور چمک کے ذریعے ان کی برین واشنگ کی جاتی رہی ہے اور اب بھی جاری ہے. فاٹا کے اکثر علاقے الیکٹرونک میڈیا کی سہولت سے محروم ہیں، آج بھی اخبارات اور ریڈیو معلومات اور خبروں کا بنیادی ذریعہ ہیں. ان علاقوں میں ریڈیو کی اہمیت آج بھی ہے، اسی وجہ سے مغربی میڈیا اور بیرونی ممالک کے ریڈیو چینلز نے فاٹا میں اس پر فوکس کیا ہوا ہے. انتہائی فعال ان چینلز کی نشریات پورے دن جاری رہتی ہیں۔ ان پروگرامات میں اکثر کا ٹارگٹ آڈینس قبائلی نوجوان ہیں، غیر محسوس طریقے سے بےحیائی اور فحاشی کو فروغ دیا جارہا ہے. جیسے ہی فجر کی نماز کا وقت ختم ہوتا ہے، یہ ریڈیو جاگ اٹھتے ہیں اور گانے بجانے اور گفتگو کے نام پر قبائلی معاشرے میں رائج جوائنٹ فیملی سٹسم پر ضرب لگانے میں مصروف ہوجاتے ہیں۔

    سال میں دو تین بار اپنے آبائی علاقے کرم ایجنسی جانا ہوتا ہے ، اس بار بھی جانا ہوا. یہاں بیرونی دنیا سے رابطے کا ذریعہ یہی غیر ملکی ریڈیو چینلز ہیں، ہمیں بھی ریڈیو کے چینلز کے ذریعے خبریں سننا پڑیں. ایک ہفتے کے دوران یہ محسوس کیا کہ ایک منظم سازش کے تحت قبائل میں پروپیگنڈے اور ایجنڈے کو فروغ دیا جا رہا ہے. ہر چینل کی کوشش ہے کہ نوجوانوں کو بیکار اور لغویات کی جانب لایا جائے اور مزید احساس کمتری میں مبتلا کیا جائے، محرومیوں کو ہوا دی جائے. کیا پیمرا اس سنگین سازش سے بےخبر ہے؟ ان کی نشریات پر کوئی چیک اینڈ بیلنس کیوں نہیں ہے؟ پاکستانی ریڈیو چینلز بھی ان سے متاثر ہیں اور قبائلی نوجوانوں میں آگاہی وشعور کے بجائے بیرونی چینلز کی پیروی کرتے ہوئے ٖفضول پروگرامات نشر کرنے میں مصروف ہیں. ریڈیو فاٹا میں اہم تبدیلی لاسکتا ہے اور اس کے ذریعے تعلیم اور رواداری کو عام کیا جاسکتا ہے. کئی نوجوان ہر وقت ریڈیو لیے نظر آئے، پوچھنے پر بتایا کہ اب عادت بن گئی ہے. ایک اور عجیب بات سامنے آئی، جمعہ کے دن ایک بجے سے دو بجے تک خصوصی فرمائشی پروگرامات ان چینلز سے نشر کیے جاتے ہیں، نوجوانوں کے پسندیدہ گانے نشر کیے جاتے ہیں، نوجوان اپنا نام ریڈیو پر سننے کے لیے انتظار کرتے ہیں، اس طرح ہزاروں نوجوانوں کی جمعہ کی نماز رہ جاتی ہے.

    اس ایک اور اہم بات یہ ہے کہ چند برس پہلے قبائلی علاقوں میں سولر توانائی سے چلنے والے لاکھوں ریڈیو سیٹ تقسیم کیے گئے، وہ بھی بالکل مفت، تاکہ شمسی توانائی والے یہ سیٹ آسانی سے ان کے ایجنڈے کے فروغ میں معاون ثابت ہوں. اس کے بعد آگاہی و امداد کے نام پر غیر سرکاری تنظیمیں سرگرم کی گئیں جن کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے. ان کی آڑ میں کئی غیر ملکی ادارے پختونستان کی تحریک کو فعال کرنے کے لیے سرگرم ہیں، نوجوان خصوصی نشانے پر ہیں، ورکشاپس، سیمینارز، بڑی تنخواہیں، اعلی سرکاری عہدیداروں سے ملاقاتیں. آزادی رائے کے نام پر انھیں گمراہ کیا جارہا ہے، نا پختہ ذہن کے نوجوان بیرونی ایجنڈے کو سمجھنے سے قاصر ہیں. انڈیا سمیت کئی ممالک اس سازش میں ملوث ہیں. اس وقت افغانستان کے صوبہ جلال آباد میں گریٹر پشتونستان منصوبے پر نہایت ہی سرگرمی کے ساتھ کام ہورہا ہے. فاٹا و خیبر پختونخوا سے تقریباً 2500 پڑھے لکھے بیروزگار پختون نوجوان جلال آباد میں مقیم ہیں، جبکہ کئی پڑے لکھے نوجوان کابل میں میڈیا سے منسلک ہوچکے ہیں اور ان کے اندر پاکستان کے خلاف اتنا زہر بھرا جارہا ہے جس کا تصور نہیں کیا جا سکتا. اس منصوبے کے مرکزی کرداروں میں ایک بڑی لسانی جماعت کے چند رہنما اور کچھ دوسرے رہنما اور این جی اوز کے کارندے شامل ہیں. خاموشی سے اس سازش پر زور و شور سے کام ہو رہا ہے، را فنڈز مہیا کر رہی ہے جبکہ افرادی قوت افغان انٹیلیجنس این ڈی ایس فراہم کرتی ہے۔

    سوال یہ ہے کہ ریاستی ادارے اس سنگین سازش کو کیوں محسوس نہیں کر رہے؟ مغربی ریڈیو چینلز کے ذریعے کیا جانے والا پروپیگنڈہ ملکی سالمیت کے لیے انتہائی خطرناک ہے. را اور این ڈی ایس کی سازشوں کے سدباب کے لیے چیک اینڈ بیلنس مزید ضروری ہوگیا ہے. یہ قبائلی نوجوان ملک کی ترقی کے لیے قیمتی سرمایہ بن سکتے ہیں، ان کو بیرونی عناصر کے ہاتھوں استعمال ہونے سے بچانے کا فرض ریاست کا ہے. قبائل کو ان کی دہلیز پر سہولیات فراہم کی جائیں، ریاستی توجہ کی فوری ضرورت ہے. قبائل آج بھی پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگاتے ہیں، دوسری طرف برہمداغ بگٹی کا تازہ ویڈیو بیان آپ کے سامنے ہے جس میں اس نے مودی کے بیان کو بلوچ عوام کے لیے اچھا قرار دیا ہے. کہیں ایسا نہ ہو کہ فاٹا میں بھی دشمن کی سازش کامیاب ہو، دشمن ہمارے لیے گڑھے کھود رہا ہے، بچنا ہم نے خود ہے، وقت کم ہے اور دشمن چاروں طرف پھیل چکا ہے، فوری طور پر غور کرنے اور لائحہ بنانے کی ضرورت ہے۔

  • ضیاء الحق اعصاب پر سوار کیوں؟ – ارشد اللہ

    ضیاء الحق اعصاب پر سوار کیوں؟ – ارشد اللہ

    آج تک یہ سمجھ نہیں آئی کہ آخر جنرل ضیاءالحق کا وہ جرم کیا ہے جس کی وجہ سے سیکولر لابی انھیں کسی صورت معاف کرنے کو تیار نہیں؟ روزانہ نت نئے الزامات کی گردان سیکولر لابی کا مرغوب مشغلہ ہی نہیں بلکہ ماضی کی ناآسودگی کا آئینہ دار بھی ہے. جنرل ضیاء الحق کا ذکر آتے ہی یار دوست ناک بھوں چڑھانے کے بعد دنیا کو درپیش تمام مسائل اور خطرات ان کے کھاتے میں ڈال دیتے ہیں۔ ان چیزوں کی ذمہ داری بھی ان پر ڈال دی جاتی ہے جو ان کی پیدائش سے پہلے رونما ہوئیں۔ اس روش سے گمان ہوتا ہے کہ شاید بابا آدم سے آج تک تمام معاملات میں خرابی کا ذمہ دار ضیاء الحق ہے. سیکولر لابی کی تاریخ اسی سے شروع ہو کر انھی پر ختم ہو جاتی ہے۔ آئیے جائزہ لیتے ہیں کہ وہ کون سے کردہ و ناکردہ گناہ تھے جو ضیاءالحق سے پہلے اور بعد کے لوگوں نے بھی انجام دیے لیکن ’’تعریف‘‘ صرف ضیاء کے حصے میں آئی۔

    اگر آئین توڑنا جرم ہے تو یہ کارنامہ ایوب خان و یحییٰ خان پہلے انجام دے چکے تھے جبکہ بعد میں جنرل مشرف بھی اسی آئین و قانون شکنی کے مرتکب ہوئے۔ ان پر تبرا بازی کیوں نہیں؟ بلکہ ان کی تعریف کی جاتی ہے، ضیاء الحق پر اعتراض کرنے والے تو مشرف کے دست و بازو رہے اور ان کے زور پر قوانین میں تبدیلی کے ذریعے اپنی خواہشات پوری کرنی چاہیں. ان آمروں کی اعانت کرنے والے مثلا بھٹو جو 8 سال تک ایوب خان کی گود میں بیھٹے اور انھیں ڈیڈی کہہ کر پکارتے رہے یا نوازشریف، جنھیں خود ضیاء الحق اپنی عمر لگنے کی دعائیں دیتے رہے اور نوازشریف ان کی برسیوں پر ان کا مشن پورا کرنے کا اعلان کرتے رہے۔

    اگر ملک کی حفاظت کے لیے جنگ کا محاذ گرم کرنا جرم ہے تو یہ جرم تو خود بابائے قوم کے ہوتے ہوئے اس وقت سرزد ہوا جب کشمیر میں قبائل داخل ہوئے اور آزادکشمیر اور گلگت بلتستان کا علاقہ آزاد کروا لیا، ایوب خان سے بھی یہ جرم سرزد ہوا، اور جو 65ء کی جنگ کی بنیادی وجہ بنا. 71ء میں ملک دو ٹکڑے ہو گیا، بنگالیوں کی آواز دبانے کےلیے فوجی آپریشن کا راستہ اختیار کرنے والے یحی خان اور بھٹو پر کوئی بات کرتا ہے نہ ان کی اس ہوس اقتدار کو تنقید کا نشانہ بناتا ہے جس کی وجہ سے ملک ہی دولخت ہو گیا. حمود الرحمن کمیشن نے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کر دیا ہے مگر اسے منظر عام پر آنے سے روک دیا گیا۔

    اگر جنرل ضیاءالحق کا جرم یہ ہے کہ اس نے سیاست کرنے والوں کو پھانسی پر چڑھایا، حالانکہ اس نے صرف بھٹو کو پھانسی دی تھی وہ بھی عدالت کے ذریعے ماروائے عدالت نہیں (عدالتی طریق کار پر بحث ہو سکتی ہے مگر حقیقت سے انکار ممکن نہیں)۔ تو یہ جرم تو ان سے پہلے اور بعد بھی ہوا جب مخالفین کو بیچ چوراہوں میں موت کے گھاٹ اتارا گیا۔ ا ذوالفقار بھٹو کے دور میں یہ سلسلہ بام عروج پر پہنچا، بغیر کسی وجہ کے مخالف سیاستدانوں کو بے دریغ قتل کیا گیا۔ رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر نذیر احمد، وفاقی وزیر ریلوے سعد رفیق کے والد خواجہ رفیق اور نواب احمد علی قصوری اسی دور میں قتل ہوئے. نواب قصوری کے قتل میں ہی عدالت نے انھیں سزائے موت سنائی۔ سیاسی مخالفین کے ساتھ جیلوں میں بدترین سلوک، پریس پر پابندی، صحافیوں کی گرفتاریاں، بلوچستان حکومت کا خاتمہ اور وہاں فوجی آپریشن بھی انھی کے دور کی یادگار ہی. بعد کے ادوار میں محترمہ بےنظیر بھٹو اور میاں نوازشریف نے بھی سیاسی مخالفین سے کچھ اچھا سلوک نہیں کیا۔

    اگر ضیاءالحق کا جرم یہ ہے کہ اس نے سرخ ریچھ کی پیش قدمی کو روکا (اور اصل جرم یہی ہے) تو اس میں محب وطن حلقوں کے لیے اچھنبے کی بات ہی نہیں۔ روبل کی کمائی کرنے والوں کو بےروزگار کرنا بہت بڑا جرم تھا۔کمیونزم کا پرچار کرنے اور سرخ ٹینکوں پر بیٹھ کر پشاور فتح کرنے کا خواب دیکھنے والوں کو سرمایہ دارانہ نظام کے در پر ڈالر کی بھیک مانگنے کے لیے یوں پھینک دیا کہ آج تک سمجھ ہی نہیں آئی کہ کہاں کمیونزم اور کہاں سرمایہ دارانہ نظام!

    مخالفین کا بس چلے تو حضرت آدم علیہ السلام کے وقت سے لے کر آج تک تمام آفات و حادثات کا ذمہ دار جنرل ضیاءالحق کو قرار دے دیں لیکن خدا لگتی کہیے کہ کہ کیا یہ انصاف ہے؟

  • ضیاء الحق سے نفرت کی وجہ کیا ہے؟ ارشد زمان

    ضیاء الحق سے نفرت کی وجہ کیا ہے؟ ارشد زمان

    ارشد زمان جنرل ضیاء الحق مرحوم کی آمریت، ایم کیو ایم کی تخلیق اور دیگر کئی پالیسیوں اور فیصلوں سے شدید اختلاف کے باوجود انھیں پاکستان بلکہ دنیا کی تمام تر خرابیوں اور انتہاپسندی، دہشت گردی، لسانیت اور فرقہ واریت کا ذمہ دار ٹھہرانا قرین انصاف نہیں ہے۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ داعش کو بھی بعض حضرات نے ضیاء الحق کے کھاتے میں ڈال دیا ہے، اس سے ان کی نفرت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔

    ضیاءالحق سے بغض رکھنے والوں میں ایک وہ پکے کیمونسٹ یا کیمونزم سے متاثر لوگ ہیں جو کیمونزم کے بت پاش پاش ہونے اور سویت یونین کے حصے بخرے ہونے پہ دل گرفتہ ہیں اور اس کا ذمہ دار ضیاء الحق اور افغان جہاد کو سمجھتے ہیں، اس لیے بھڑاس نکالنے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ دوسرے وہ سیکولر حضرات ہیں جو دراصل دل میں اسلام سے پرخاش رکھتے ہیں اور جہاد کو کسی صورت برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں۔ پہلے یہ طبقات روس کی گود میں بیٹھے روبلز سے جی بہلا رہے تھے اور اب روس سے باقاعدہ طلاق لیے بغیر مغرب اور امریکہ کے ساتھ ہنی مون منانے سے لطف اندوز ہو رہے ہیں جبکہ تیسرے وہ روشن خیال اور ماڈریٹ دوست ہیں جو کسی بھی نظام کے ساتھ کشمکش سے جی کتراتے ہیں اور حکمت و مفاہمت کےنام پر صرف ’’امن‘‘ کے ساتھ جینے کے قائل ہیں، نفاذ اسلام، اقامت دین، اسلامی ریاست اور جہاد کی اصطلاحات سے انھیں چڑ ہے اور دنیا کی تمام تر انتہاپسندی اور ریاستی دہشت گردی تک کو وہ اسی فکر کا نتیجہ گردانتے ہیں۔

    کیا یہ سوالات قابل غور نہیں ہے کہ
    ضیاءالحق کے دور سے پہلے پاکستان میں کون سی دودھ اور شہد کی نہریں بہہ رہی تھیں؟
    کیا مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا ذمہ دار ضیاءالحق ہے؟
    کیا سندھو دیش، آزاد بلوچستان اور پختونستان کے نعرے پہلے کبھی نھی لگے؟
    کیا ضیاءالحق پہلا اور آخری ڈکٹیٹر ہے؟
    کیا وسطی ایشیا کے ممالک کو روس نے ضیاءالحق کی وجہ سے ہڑپ کر رکھا تھا؟
    کیا افغانستان پر جارحیت روس نے ضیاء الحق کی دعوت پر کی تھی؟
    کیا فرقہ واریت، انتہاپسندی اور دہشت گردی صرف پاکستان کا مسئلہ ہے؟
    کیا فلسطین، شام، شیشان، برما، عراق وغیرہ میں ریاستی دہشت گردی کا ذمہ دار بھی ضیاء الحق ہے؟

    اس بات کا بھی سنجیدہ اور منصفانہ تجزیہ کرنا ضروری ہے کہ نائن الیون سے پہلے اور بعد کے حالات میں دہشت گردی کی کیفیت، حالت اور حجم کیا رہا ہے؟
    کیا موجودہ حالات سے پرویز مشرف بالکل بری الذمہ ہے؟

    افغان جہاد اور مجاہدین کی ’’تخلیق‘‘ کا باقاعدہ عمل تو ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کے دور میں شروع ہوچکا تھا جبکہ طالبان کی تخلیق کار محترمہ بےنظیر بھٹو تھیں جس پر انھیں فخر بھی تھا اور انھیں ہمارے بچے گردانتی تھیں۔

    یہ بھی نہایت اہم سوال ہے کہ ضیاء الحق کی پالیسیوں کو ’’سیکولر ولبرل حضرات‘‘ نے کیوں برقرار رکھا بلکہ پوری شدت کے ساتھ جاری رکھا؟
    معلوم ہوتا ہے کہ معاملہ ضیاء الحق کے بجائے کچھ اور ہے۔
    کیمونزم کا انہدام
    سویت یونین کا بکھر جانا
    سیکولرازم کی ناکامی
    اور
    اسلامی احیاء کی تحریکات کی بڑھوتری
    نفاذ اسلام، اسلامی ریاست کے قیام اور اسلامی احکامات پر عملدرآمد۔

    اسلام کی وجہ سے جنرل ضیاء الحق اور ملا آج تک ہدف کے طور پر چلے آ رہے ہیں

  • جب جنرل ضیاء الحق نے پاکستان کو سپرپاور بننے سے روکا – فیض اللہ خان

    جب جنرل ضیاء الحق نے پاکستان کو سپرپاور بننے سے روکا – فیض اللہ خان

    فیض اللہ خان جنرل ضیاء الحق کے منفی مثبت پہلو اتنے ہیں کہ بندہ سمجھ نہیں پاتا کیا لکھے اور کیا جانے دے. پہلی بات تو بالکل واضح ہے کہ اقتدار پہ شب خون مارنے اور بھٹو کی پھانسی جنرل ضیاء کا ایسا اقدام تھا جس کی کہیں کوئی تاویل نہیں ہوسکتی. یہ سیدھا سیدھا بدترین جرم تھا اور اس کی حمایت جرم میں شرکت ، باوجود اس کے کہ ذوالفقار علی بھٹو کے نظریات اور بعض اقدامات سے اختلاف کیا جاسکتا ہے لیکن پھانسی بتاتی ہے کہ یہ فیصلہ جنرل ضیاء سے زیادہ کسی اور کا لکھا ہوا تھا. اسلامی بلاک کا معاشی اتحاد، پاکستان کا اسلامی آئین، جوہری پروگرام اور قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینا بھٹو کے ایسے گناہ تھے جنھیں عالمی اسٹیبلشمنٹ معاف نہیں کرسکتی تھی۔

    البتہ جنرل ضیاء الحق بدعنوان نہیں تھے، محب وطن پاکستانی تھے، اسلام سے محبت کرتے تھے، ذاتی زندگی سادگی سے عبارت تھی، افغان جہاد کے دوران پاکستان کے دفاع کی بےمثال جنگ لڑی، ایٹمی پروگرام جاری رکھا، معاشرے کی اسلامی خطوط پہ رہنمائی کی کوشش کی لیکن بعد ازاں اس میں انتہا پسندی کا تڑکا لگ گیا جس نے معاملات خراب کیے۔ جنرل ضیاء الحق پہ انتہاپسندی کا الزام لگتا ہے لیکن سچی بات یہ ہے کہ ان کے دور میں فنون لطیفہ کی ترویج ہوئی، پی ٹی وی کے شاھکار ڈرامے اسی دور میں تخلیق ہوئے ، پاکستانیت کو فروغ ملا۔

    ہر آمر کی طرح ضیاءالحق کا پہلا پیار اپنے اقتدار سے تھا. اس کے لیے ضروری تھا کہ حقیقی سیاسی جماعتوں کو کارنر کیا جائے، یہی وجہ تھی پیپلزپارٹی کے حصے بخرے کرنے اور نواز شریف کو آگے لانے کا فیصلہ کیا گیا، اندرون سندھ جی ایم سید اور شہری علاقوں میں مہاجر قومی موومنٹ کی سرپرستی کی گئی یوں پیپلز پارٹی کو نقصان پہنچا، وفاق کی سیاست پس پشت چلی گئی اور اس کی جگہ ذات برادری، فرقے، رنگ، نسل اور زبان نے لے لی. اس فتنے سے ابھی تک سیاست پاک نہیں ہوسکی. جنرل کے لیے سکون فقط اس میں تھا کہ سیاست بری طرح سے تقسیم ہو رہی تھی اور ان کا اقتدار مضبوط تر۔

    جنرل ضیاءالحق کے دور میں پہلی مرتبہ فوجی اداروں میں تبلیغی جماعت اور جماعت اسلامی کے لٹریچر کو کسی حد تک نفوذ کی اجازت ملی، مذہبی سوچ رکھنے والے اختلاف کے باوجود ڈکٹیٹر کے حامی تھے۔ پی این اے کی تحریک میں شامل جماعتوں نے ضیاء کابینہ میں شمولیت اختیار کی لیکن مکمل بدنامی صرف جماعت اسلامی کے حصے میں آئی اگرچہ تین ماہ بعد ہی وزارتوں سے علیحدگی اختیار کر لی گئی تھی. سونے پہ سہاگہ میاں طفیل سے منسوب وہ بیان تھا جس میں ضیاء کو اپنا بھانجا بنادیا، جماعت ضیاء رومانس کی بڑی وجہ بھٹو کا جماعت اسلامی کے ساتھ روا رکھا جانے والا ظالمانہ سلوک اور اسلامی نظام کے نفاذ کا نعرہ تھا، یہ بھی ستم ظریفی تھی کہ جماعت اسلامی ضیاء کی مددگار جبکہ اسلامی جمعیت طلبہ تعلیمی اداروں میں جنرل کے خلاف تحریک چلا رہی تھی. اس صورتحال سے تنگ آ کر ضیاء نے طلبہ یونین کے الیکشن پر پابندی عائد کرکے اسلامی جمعیت طلبہ کا کام اتار دیا۔

    پیپلز پارٹی اور جے یو آئی سمیت دیگر جماعتیں ایم آر ڈی کے پلیٹ فارم سے آمریت کے خلاف تحریک کا حصہ تھے ، سن چھیاسی میں لاہور میں بےنظیر بھٹو کے فقید المثال استقبال نے جنرل کی نیندیں اڑا دی تھیں۔ یہ اور بات ہے کہ ضیاء الحق کے ساتھی بعد میں بےنظیربھٹو اور پیپلزپارٹی کے ساتھی بنے، اور اس وقت تو نمایاں چہروں میں اکثر ضیاء کے ساتھی ہیں یہاں تک کہ آصف زرداری کے والد محترم بھی.

    جنرل ضیاء الحق کے زمانے میں مدارس کی نرسریاں لگ گئیں ، افغان مجاہدین سے متاثرہ پاکستانی گروہ سرکاری سرپرستی میں ترتیب دیے گئے، جنہیں بعد میں مقبوضہ کشمیر بھیجا گیا. اس میں بھی کوئی دو رائے نہیں کہ ہر پالیسی کے مثبت منفی پہلوئوں کی طرح اس کے بھی بعض منفی پہلو سامنے آئے اور ان میں سے بعض کی بندوقیں ریاست پاکستان مخالف فرقوں اور عوام کی طرف سوچے سمجھے منصوبے کے ذریعے پھیر دی گئیں۔ اور بعد میں یہ خود ریاست کی طرف پھر گئیں.

    جنرل پہ الزام ہے کہ اس نے افغانستان میں امریکہ کی جنگ لڑی ، درست یہ ہے کہ تب افغان مجاہدین اور پاکستان سمیت امریکہ و سعودی عرب اور باقی دنیا کا مفاد اسی میں تھا کہ روس کو محدود کیا جائے. اس معاملے میں ضیاءالحق سے کہیں زیادہ قصوروار روس تھا، اس کے پاکستانی ایجنٹ اس زمانے میں پشتونستان بنانے کی باتیں کرتے تھے اور کے جی بی ان کے ذریعے ملک میں دھماکے کراتی تھی. حقیقت یہ ہے کہ چین نے بھی گرم پانیوں تک پہنچنے کا مقصد حاصل کیا لیکن پیار محبت اور معیشت کے ذریعے، اس نے کہا کہ معاشی راہداری کا کیک مل کر کھائیں گے جبکہ روس چاہتا تھا کہ پہلے ہمیں غلام بنائے، پھر مرضی سے حصہ دے اور چاہے تو انکار کر دے۔ ایجنٹوں کی باقیات اب بھی رونا روتی ہیں اور معاملہ کچھ اس طرح ہو جاتا ہے کہ جنرل ضیاء الحق نے پاکستان کو سپر پاور بننے سے روکا ورنہ ہم عظیم سپر پاور سوویت یونین کا حصہ ہوتے.
    بہرحال ، جنرل ضیاءالحق امریکیوں کو بھی خاص پسند نہیں تھے بس مفادات جب تک وابستہ تھے، ہاتھ سر پہ رکھا، پورے ہوگئے تو پراسرار موت مقدر بنی۔
    جنرل کی برسی پہ نواز شریف قبر پہ آئیں نہ آئیں، ماسکو میں بیٹھے موٹے دماغ روسی ضرور اس سپاہی کو یاد کرتے ہوں گے جو سویت یونین سے مشرقی پاکستان کا بدلہ لینے میں کامیاب رہا

  • میں ایک افغانی ہوں – عبداللہ نیازی

    میں ایک افغانی ہوں – عبداللہ نیازی

    عبداللہ نیاز میں ایک افغانی ہوں، میرا خاندان 37 سال سے پاکستان میں مہاجر ہے۔ میں یہاں پیدا ہوا، یہیں پلا بڑھا، یہی تعلیم حاصل کی، ابھی پشاور میں پروفیشنل اکاؤنٹینسی کی ڈگری کی ہے ، اور اب میں اس ملک کو الواداع کہہ رہا ہوں۔

    مجھے پاکستان سے محبت ہے۔ یہاں میری زندگی گزری۔ میرا کرکٹ ہیرو شاہد آفریدی ہے۔ میرے دوستوں نے شاہد آفریدی کو ہنسی مذاق میں برا بھلا کہنا میری چھیڑ بنا رکھی ہے، کیونکہ میں فوراً ان سےلڑنا شروع کر دیتا ہوں۔ یہاں پولیس کبھی کبھار ہمیں تنگ کرتی تھی لیکن عوام نے کبھی ہمیں برا نہیں کہا، تنگ نہیں کیا۔ اکا دکا لوگ ہم پر جملے کستے تھے، لیکن ایسا تو بلوچ پنجابیوں کو، پنجابی پٹھانوں اور باقی ایک دوسرے کو بھی کہتے ہیں۔ مجموعی طور پر لوگوں نے ہم سے بہت اچھا سلوک کیا اور ہم ان کے تہہ دل سے احسان مند ہیں۔

    ابھی کچھ عرصے سے بعض لوگوں نے ہمیں برا کہنا شروع کیا ہے۔ کہتے ہیں کہ تم لوگ نمک حرام ہو، تم نے ہمارے دشمن انڈیا سے دوستی کر رکھی ہے۔ تم لوگ پاکستان سے نفرت کرتے ہو، تم نے پاکستان کا جھنڈا جلایا، تم نے ہمارا میجر شہید کیا۔ اور میں جب یہ سنتا ہوں تو اس سطحی سوچ پر ہنسی بھی آتی ہے اور افسوس بھی ہوتا ہے کہ ایک مسلمان کو دوسرے مسمان کے خلاف ورغلانا کتنا آسان ہے.

    اولا تو میں’’تم اور میں‘‘ کی بات سے ہی متفق نہیں۔ میں اور تم کیا ہوتے ہیں؟ میں تم ہوں اور تم میں ہو۔ یہ میرے رب نے کیا ہے کہ ہم میں سے کوئی بھی چاہے تو ہمیں ایک دوسرے سے الگ نہیں کر سکتا۔ پھر ہمارا تو خون کا رشتہ ہے۔ آدھے پاکستانیوں کی نسل افغانستان سے ہے۔ تمہارے ہیرو غوری، ابدالی اور غزنوی ہیں۔ یہی ہمارے بھی ہیرو ہیں۔ ایک انگریز مسٹر مونٹیمر ڈیورنڈ کیسے ہمارا رشتہ توڑ سکتا ہے۔ ہم بےشک ایک دوسرے سے ناراض ہو جائیں، برا بھلا کہیں، لیکن ہمیں کوئی جدا نہیں کر سکتا۔ ہمیں طعنے دینے والے بھی نہیں!!

    ان طعنوں کو سمجھنے کیلئے ’’آپ اور میں‘‘ کی چند باتیں کر لیتے ہیں۔ آپ ہمیں کہتے ہیں کہ ہم آپ کے دشمن انڈیا سے دوستی کر رہے ہیں۔ آپ یہ کیوں بھول رہے ہیں کہ ہمارے ملک کا حاکم جان کیری ہے اور اس کے دو وزیر اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ ہیں۔ یہ دونوں امریکہ کے ویسے ہی پٹھو ہیں جیسے کہ آپ اپنے حکمرانوں کے بارے میں کہتے ہیں۔ انڈیا سے دوستی کا پلان امریکہ کا ترتیب دیا ہوا ہے جیسا کہ آپ کی حکومت بھی اسی پلان کے تحت مذاکرات کی بات کرتی ہے اور آپ کے ادارے امن کی آشائیں چلاتے ہیں۔ یہ امریکی منصوبہ ہے۔ ہمارے لوگ تو جنگوں کے مارے ہوئے ہیں، انھیں کوئی سہولت دیتا ہے تو قبول کر لیتے ہیں۔ انڈیا سے کسی افغان کو پیار نہیں ہے۔ بھلا ان گائے کا پیشاب پینے والوں سے کیوں پیار کریں گے جو مسلمانوں کے قاتل ہیں، اور جن سے صدیوں پہلے ہماری لڑائی رہی ہے، جن پر ہم نے حکومت کی ہے۔ یہ ہندو 2001ء، 2002ء میں افغانستان آئے تھے، آج دیکھ لیں کہ آنے والوں میں سے کتنے باقی رہ گئے ہیں۔ ہم مسلمان ہیں اور ہمارا ان کے ساتھ کوئی گزارہ نہیں۔ لیکن کوئی ہمیں بھی تو یہ بتائے کہ آپ نے ہمارے دشمن سے کیوں دوستی اور اتحاد کیا۔ اسے ہم پر حملہ کرنے کا راستہ دیا، تیل سپلائی کیا، اڈے دیے جس کے ذریعے اس نے ہمارے ملک پر ہزاروں ٹن بارود برسایا، ہمارے بچوں، بوڑھوں اور مردوں کو قتل کیا اور نسلیں تک معذور ہو گئیں۔ آخر کوئی ہمیں نمک حرامی کا طعنہ کیسے دے سکتا ہے؟

    آپ ایک میجر کو روتے ہیں، ہمارے تو 3 کروڑ لوگ اس جنگ سے لہو لہو رس رہے ہیں۔ آپ کا ٹی وی آپ کو ایک میجر اور اس کا خاندان دکھاتا ہے، اور ہمارا ٹی وی ہمیں پاکستانی سرحد سے آنے والا راکٹ اور توپ کا گولہ دکھاتا ہے جس سے درجنوں شہری اپنی زندگی سے ہاتھ دھوتے ہیں، اور جب ہمارے سادہ لوگ اس کے خلاف مظاہرہ کر کے پاکستانی جھنڈے کی بےحرمتی کرتے ہیں تو آپ کے انٹرنیٹ کے صفحات وہ لاشیں نہیں دکھاتے بلکہ جھنڈے کی بےحرمتی دکھاتے ہیں جبکہ ہمارے ٹی وی ہمیں پاکستانیوں کا مہاجروں سے سلوک دکھاتے ہیں۔ ایک منصوبے سے یہ نفرت بڑھائی جاتی ہے۔ وہی بات کہ کتنا آسان ہے ہم مسلمانوں کو ورغلانا.

    آج میں اس وطن سے جا رہا ہوں ، دل میں ایک کسک سی ہے۔ اپنے مسلمانوں کی سادگی کا افسوس بھی ہے۔ اس بات کا افسوس ہے کہ ہمیں ہمارے مقبوضہ ملک بھیجا جا رہا ہے، جبکہ اللہ نے صلاحیت والے لوگوں پر یہ فرض کیا ہے کہ اگر ایک قوم اپنے آپ کو قبضے سے نہ چھڑا سکے تو اس کی مدد کرنا ان پر فرض ہے۔ مجھے ان پاکستانیوں سے کوئی گلہ نہیں، جنہوں نے مجھ سے زیادتی کی، اور میں ان افغانیوں کے عمل سے بری ہوں جنہوں نے پاکستانیوں سے بدسلوکی کی۔ میرا وطن آپ کا ہے اور آپ کا وطن میرا ہے۔ کوئی ہم سے حق نہیں چھین سکتا، ہمیں ایک دوسرے سے دور نہیں کر سکتا. ہم سب ایک ہیں، ایک رہیں گے. ہمیں ان حکمرانوں اور اس استعماری ڈھانچوں سے نجات ملے گی. ان شاء اللہ