وہ انسان ہی تھا، خاک سے گندھاہوا، وفا و خطا کا پتلا، اس کے سینے میں بھی ویسا ہی دل تھا جیسا کہ میرے اور آپ کے سینے میں ہے اور اس دل میں بھی خواہشیں ویسے ہی نمو پاتی تھیں جیسے ہمارے دلوں میں پلتی اور بڑھتی ہیں، اسے بھی زندگی اتنی ہی عزیز تھی جتنی کسی بھی انسان کو ہوسکتی ہے بلکہ شاید زندگی اسے زیادہ پیاری ہو کہ اس کے پاس سب کچھ تھا. دولت کی بات کریں تو اتنی کہ محاورتا نہیں سچ میں وہ پیسہ پانی کی طرح بہائے تو اس کی دولت ختم ہونے میں کلینڈروں کے کتنے ہی ورق الٹ پلٹ جائیں، وہ ملک کا بزنس ٹائیکون تھا، مقبولیت کی بات کریں تو وہ شہر کا نہیں پورے ملک کا جانا مانا شخص تھا، طاقت کی بات کریں تو اقتدار کی راہداریاں اس کے قدموں تلے ہوتی تھیں۔
اللہ تعالٰی نے اسے عجیب صلاحیتوں سے نوازا تھا. وہ مٹی میں بھی ہاتھ ڈالتا تو سونا ہو جاتی، اس نے صحافت کا رخ کیا تو اس کا اخبار ملک کا سب سے بڑا اخبار بن گیا، اس کا رحجان میڈیا کی طرف ہوا تو اس کا نیوز چینل دیس کے تین بڑے نیوز چینلوں میں سے ایک ہو گیا، اسے خیال آیا کہ بنک ہونا چاہیے تو وہ کامیاب بینکار بھی ہوگیا. ان سب کے ساتھ ساتھ وہ ایک شفیق باپ بھی تھا، اسے بھی اولاد اتنی ہی پیاری تھی جتنی کسی بھی باپ کو ہوسکتی ہے، اس نے بھی سینے پر اپنے بچوں کو تھپک تھپک کر سلایا تھا، انگلی پکڑا کر چلنا سکھایا تھا، چلنے کے قابل ہوئے تو دوڑنا سکھایا تھا، بہترین تربیت دی تھی کہ زندگی کی دوڑ میں پیچھے نہ رہیں، اللہ تعالٰی نے بیٹی کی نعمت سے نوازا تو اس کی ویسی ہی تربیت کی جیسا کہ حق تھا، اس نے بیٹی کی آنکھوں کو حیا، زبان کو بڑوں کے لیے احترام اور چھوٹوں کے لیے شقفت دی، جواب میں اسے اولاد سے فرمانبرداری، احترام اور محبت ملی جو کسی بھی باپ کا حق اور خواب ہوتا ہے. اب بتائیں دنیا کی ہر نعمت تک دسترس رکھنے والے اس شخص کے لیے زندگی پرکشش کیوں نہ ہو؟ وہ زندگی کی ساٹھ بہاریں دیکھ چکا تھا، بھرپور جوانی گزار کر قابل رشک بڑھاپا گزار رہا تھا، یہ عمر اس کی نواسوں نواسیوں، پوتوں پوتیوں کے کھلانے کی تھی، پارک کے کسی گوشے میں بنچ پر بیٹھ کر پھول سے بچوں کو کھیلتے دیکھنے کی تھی، ان کی چھوٹی چھوٹی فرمائشیں پوری کرنی کی تھیں، ان کو انگلی تھما کر آہستہ آہستہ ساتھ چلنے کی تھی ۔
سیلانی نے ایک کامیاب بزنس مین، مقبول سیاستدان ،منظم فلاح کار اور متمول شخص کی زندگی کا نقشہ کھینچ دیا. بس ایک بات رہ گئی کہ ان تمام کامیابیوں اور کامرانیوں کے ساتھ ساتھ اس نے زندگی کے نشیب و فراز بھی قریب سے دیکھ رکھے تھے، اب بتائیں ایسے شخص کے لیے زندگی حسین نہ ہو تو کیا سیلانی کے لیے ہوگی؟ زندگی تو کوڑھ کے مریض کے لیے بھی بڑی دلنواز ہوتی ہے اور اس اندھے کے لیے بھی جس نے کچھ نہیں دیکھا ہوتا لیکن یہاں تو معاملہ ہی کچھ اور تھا. اب ذرا دل تھام کر بیٹھیے اور سوچیے کہ ایسے کامیاب انسان کے لیے زندگی ایک ’’ہاں یا نہ‘‘ کے فاصلے پر آجائے تو اسے کیا فیصلہ کرنا چاہیے؟ تھوڑی دیر کے لیے فرض کرلیں کہ آپ ہی وہ شخص ہیں تو اب بتائیے کہ آپ ایک لفظ میں کیا فیصلہ کریں گے؟ ایک طرف تخت ہو، زندگی کی ساری رعنائیاں ہوں، سعادت مند باحیاء اولاد ہو، عمر بھر ساتھ دینے والی رفیقہ حیات ہو، بنک بیلنس ہو، اسٹیٹس ہو، دوست احباب ہوں، یاروں کی محفلیں ہوں، مقام و مرتبہ ہو تو آپ کا دل چاہےگا کہ آپ مر جائیں؟ انہیں بھی کہا گیا کہ وہ معافی مانگ لے، اپنے جرائم تسلیم کرلے، اس کی جان بخشی کر دی جائے گی. وہ گھر لوٹ جائے گا، باقی زندگی اپنے بچوں میں گزارے گا لیکن وہ سید ابوالاعلی مودودی کا تراشیدہ ہیرا تھا، اس نے زندگی کی بھیک مانگ کر پتھر ہونا قبول نہ کیا اور وہ انکار کیا جو اقرار میں نہ بدل سکا۔
اس نے مرنا قبول کرلیا اور تختہ دار پر آ کھڑا ہوا، ڈاکٹر نے آخری معائنہ کیا، بلڈ پریشر چیک کیا، دل کی دھڑکنیں سنیں، کلائی ہاتھ میں لے کر حرارت محسوس کرنے کی کوشش کی کہ بخار تو نہیں اور تریسٹھ برس کے بوڑھے قیدی کو پھانسی کے لیے صحت مند قرار دے دیا، بوڑھے قیدی نے خاموشی سے آنکھیں موند لیں، جلاد نے سفید بالوں سے ڈھکے سر سے پھندا گزار کر سفید داڑھی تلے گردن میں کس دیا، اس کے لب ہلنے لگے، جلاد اور جیلر کے کان کھڑے ہوگئے کہ شاید یہ معافی مانگ رہا ہے، غور سے سنا تو وہ اپنے رب کا شکر ادا کر رہا تھا، کلمہ شہادت پڑھ رہا تھا کہ یہ مقام تو وہ مقام ہے جس کی آرزو انبیاء کرتے پائے گئے، صحابہ کرام تہجد کی نمازوں میں ہچکیاں لے لے کر اسے مانگتے رہے، پھر وہ شکر ادا کیوں نہ کرتا کہ اس بڑھاپے میں اسے یہ وقار ملنے والا تھا۔ پھانسی گھاٹ پر اشارے کے منتظر جلاد نے جیلر کی طرف دیکھا، جیلر نے گھڑی پر نظر ڈالی اور فضا میں اٹھا ہوا ہاتھ جھٹکے سے نیچے گرادیا، اشارہ ملتے ہی جلاد نے لیور کھینچ دیا، پھانسی گھاٹ کا بوجھل سناٹا چیخ اٹھا اور بنگلہ دیش جماعت اسلامی کے میر قاسم علی بھی پاکستان پر قربان ہوگئے، اس پاکستان پر جس کے اب وہ شہری بھی نہیں تھے، انہوں نے تو کبھی گلا بھی نہ کیا کہ جس پاکستان کے دفاع کے لیے وہ مکتی باہنی کے سامنے ڈٹ کر کھڑے ہوئے تھے، اس پاکستان نے انہیں بھلا ہی دیا، اجنبی ٹھہرا دیا، انہوں نے ان سے بھی کوئی شکوہ نہ کیا جن کے ساتھ ۱۹۷۱ء میں کاندھے سے کاندھا ملا کر دفاع وطن کے لیے اٹھے تھے، وہ ان کی وفائیں تہہ خاک کر کے انہیں’’ غدار ی کے مقدمات‘‘ بھگتنے کے لیے چھوڑ گئے. مشرقی پاکستان ماضی کا قصہ اور باقی ماندہ مغربی پاکستان صرف پاکستان ہو گیا.
میر قاسم علی اسلامی جمعیت طلبہ بنگلہ دیش کے رکن تھے، پھر جماعت اسلامی کے قافلے میں شامل ہوگئے، ۱۹۷۱ء میں مکتی باہنی نے بھارت کے ساتھ مل کر بغاوت کی تو انہوں نے دفاع وطن کے لیے پاک فوج کا ساتھ دیا. یہی ان کا جرم تھا جسے حسینہ واجد کی کینہ پروری بھلانے کو تیار نہ تھی، اس نے متنازعہ جنگی ٹربیونل بنا کر ’’غداروں‘‘پر مقدمات چلانے اور پھانسیاں دینے کا سلسلہ شروع کر دیا، میر قاسم کو بھی گرفتار کرکے ۱۴ مقدمات چلائے گئے اور مجرم قرار دے کر پھانسی کی سزا سنا دی گئی۔
سیلانی کو واٹس اپ پر یہ اطلاع ملی کہ بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کے راہ نما میر قاسم علی کو بھی پھانسی دے دی گئی. وہ دو برس سے اسیر تھے اور اب انہیں اس طرح رہائی ملی کہ ان کا بوڑھا جسم بےجان کر کے جیل کی پھاٹک سے باہر کر دیا گیا، میر قاسم علی کی پھانسی سیلانی ہی کیا کسی کے لیے بھی اچنبھے کی بات نہیں تھی، مودی کے چرن چھونے والی حسینہ واجد سے اور بعید بھی کیا ہے، دفاع پاکستان کے مہینے میں یوم دفاع پاکستان سے محض تین دن پہلے میر قاسم علی کو پھانسی دے کر بنگلہ دیش کی وزیر اعظم نے ہاٹ لائن پر یقیننا نریندر مودی کا قہقہہ سنا ہوگا لیکن پاکستانی بھی اسلام آباد سے کچھ سننا چاہتے تھے، خاص کر آواران، خاران، تربت، قلات،گوادر، لسبیلہ اور ڈیرہ بگٹی کے ’’میر قاسم علی‘‘ اسلام آباد سے کچھ سننا چاہتے تھے مگرانہیں اسلام آباد سے کوئی آواز سنائی دی اور نہ ہی راولپنڈی سے۔
بلوچستان میں ویسے حالات نہیں جیسے کبھی مشرقی پاکستان میں تھے، یہاں علیحدگی پسندوں کو ویسی پذیرائی بھی حاصل نہیں جیسی مشرقی پاکستان میں مکتی باہنی کو تھی لیکن اس سچ سے کیسے انکار کیا جاسکتا ہے کہ بلوچستان میں علیحدگی کی تحریک نہیں؟ آواران، خاران، تربت کے در و دیوار پر پاکستان کے خلاف نعرے تحریر نہیں؟ سیلانی کو آواران میں سیکنڈری اسکول کے بچوں سے ملاقات یاد ہے جن کے سینے میں علیحدگی پسندوں نے ویسے ہی زہر بھر دیا تھا جیسے کبھی مشرقی پاکستان میں احساس محرومی کے گرم نوکیلے پتھروں پر برہنہ پا کھڑے بنگالیوں کے سینوں میں بھرا گیا تھا. وہ بچے سیلانی سے پوچھ رہے تھے کہ ہمیں پاکستان نے دیا ہی کیا ہے جو ہم پاکستان کے ساتھ رہیں؟ ایکسپریس ٹیلی ویژن کا اینکر صدام حال ہی میں بلوچستان میں کئی دن گزار کر آیا ہے، وہ ڈیرہ بگٹی سے نصیر آباد تک کی خاک چھاننے کے بعد کراچی کے پریس کلب میں سیلانی سے ملا تو اس کا یہی کہنا تھا کہ بلوچستان کا ایک ہی مسئلہ ہے، بلوچوں کو برابری چاہیے، عزت سے روزگار چاہیے۔ وہ بلوچستان اپنے پروگرام کی شوٹنگ کے سلسلے میں گیا تھا، سیلانی سے کہنے لگا
’’سیلانی بھائی! میں وہاں فراریوں سے ملا، ان بلوچوں سے جنہوں نے ہتھیار ڈالے ہیں، میں نے ان سے پوچھا کہ وہ کیوں پہاڑوں پر گئے تھے؟ انہوں نے اپنی بیوی بچوں، بوڑھے ماں باپ کو کیوں چھوڑا تو وہ ایک ہی جواب دیتے تھے کہ یہاں کیا کرتے؟ انہیں کہاں سے کھلاتے؟ ان کی ضروریات کیسے پوری کرتے؟ ماں باپ بیمار پڑتے تو دوا دارو کے لیے خرچ کہاں سے لاتے؟ ہمیں جب بی ایل اے والوں نے کہا کہ پہاڑوں پر چلو، اپنا حق مانگو مت بلکہ چھینو، ہم تمہیں خرچا بھی دیں گے، گھر والوں کا خیال بھی کریں گے تو ہم ان کے ساتھ چلے گئے۔ صدام بتا رہا تھا کہ انہوں نے مجھے بتایا کہ انہیں افغانستان میں ٹریننگ دی گئی، انہیں بم رکھنے کی ٹریننگ دی گئی، راستوں میں مائینز رکھنے کی تربیت دی گئی، انہیں لیکچر دیے گئے اور بتایا سمجھایا گیا کہ پاکستان سے جان چھڑاؤ پھر بلوچستان میں عیش ہی عیش ہوگی‘‘۔
یہ سب کچھ سیلانی کے لیے نیا نہیں تھا اس لیے وہ صدام کے پاس بیٹھا خاموشی سے سنتا رہا لیکن جب صدام نے ایک ایسے فراری کا ذکر کیا جس نے صاف گوئی سے کام لیتے ہوئے پاکستانی بھائیوں کو قتل کرنے سے انکار کر دیا تھا تو وہ چونک گیا، صدام بتا رہا تھا کہ وہ نوجوان پڑھا لکھا لگتا تھا، وہ بتانے لگا کہ ہمیں یہاں سے افغانستان لے جایا گیا، جہاں گوریلا ٹریننگ دی گئی، سکھایا گیا کہ پل کیسے اڑاتے ہیں؟ ریموٹ کنٹرول بم کیسے رکھتے ہیں؟ مائینز کیسے چھپا کر لگائی جاتی ہیں؟ فوجی قافلوں پر حملہ کیسے کرتے ہیں؟ راکٹ لانچر کیسے فائر کرتے ہیں؟ یہ سب سیکھ کر جب ہمیں ٹاسک ملے تو میں سوچ میں پڑگیا کہ مجھ میں اور کرائے کے قاتل میں کیا فرق ہے؟ میں اپنے مسلمان بھائیوں کو اس لیے قتل کر دوں کہ وہ پنجابی ہیں؟ وہ بےچارا بھی تو مجبور ہوگا جبھی اپنا گھر بار چھوڑ کر یہاں کام دھندا کرنے آیا. اس بلوچ کا کہنا تھا کہ قصور پاکستان کا نہیں اس سسٹم کا ہے، ایسی ہی غربت سندھ میں بھی ہے، وہاں ایسے بھی لوگ ہیں جنہوں نے اپنی پوری زندگی میں پانچ ہزار کا نوٹ تک نہیں دیکھا، ایسا ہی حال پنجاب کے سرائیکی علاقوں کا بھی ہے. یہ پاکستان کا نہیں پاکستان کے سسٹم کا قصور ہے، اس سسٹم پر مائینز لگانی چاہییں‘ اسے تباہ کرنا چاہیے‘‘.
اس بلوچ نوجوان کو گارنٹی دی گئی تھی کہ اسے ملازمت بھی دی جائے گی اور تحفظ بھی دیا جائے گا، میر قاسم کی شہادت سے سیلانی کو وہ پڑھا لکھا بلوچ یاد آ گیااور وہ سوچنے لگا کہ اس بلوچ سے کسی علیحدگی پسند نے پوچھ لیا کہ تم سے پہلے یہی حماقت جماعت اسلامی بنگلہ دیش نے کی تھی، وہ مشرقی پاکستان کے دفاع کے لیے اٹھے تھے اور آج ان کے جنازے اٹھائے جا رہے ہیں، سفید داڑھیوں والوں کو پھانسیاں دی جا رہی ہیں اور پاکستان آنکھیں پھیر کر بیٹھا ہوا ہے۔ اس طعنے کے جواب میں کوئی دانشور، سیاست دان، جرنیل، کرنیل اور اکیس گریڈ کا بیوروکریٹ انہیں کیا جواب دے گا؟ کیسے تشفی کرائے گا؟ کیادلیل لائے گا؟
پاکستان بتائے کہ بنگلہ دیش میں دفاع پاکستان کے جرم میں محبان پاکستان کی پھانسیوں پر اسلام آباد نے کیا رد عمل دیا؟ کرکٹ میچ میں قومی ٹیم کی کامیابی اور چھوٹو گینگ کے اسلحہ پھینکنے پر پریس ریلیزیں جاری کرنے والے کیوں خاموش ہیں؟ اس ننگے ظلم کے باوجود اسلام آباد میں بنگالی سفیر کیوں دھونی جمائے بیٹھا ہے؟ اسے احتجاجا نکال باہر کرنے کے لیے ہمیں کتنی کلو غیرت درکار ہوگی؟ آدھابازو کٹوانے کے بعد کیا ہم نے ناک بھی کٹوادی ہے؟ غیرت مند مت بنیے، خودغرض ہو جائیے اور سوچیے کہ بنگلہ دیش سے تعلقات ہماری کون سی مجبوری ہیں؟ کیا وہاں سے بھی کوئی انجینئر ہماری شوگر ملوں کی مشینری دیکھنے آئیں گے؟ کیاہم نے ڈھاکہ سے بھی آلو پیاز کی تجارت کرنی ہے؟ ہمیں خودغرض بن کر بلوچستان میر قاسموں کے لیے یہ چپ توڑنا ہوگی، ہمیں ڈھاکہ سے سخت احتجاج کرنا ہوگا، سفارتی تعلقات ختم ہوتے ہیں تو ہماری بلا سے. ہمیں مشرقی پاکستان کے بزرگوں کی قربانیوں کو بھی ماننا ہوگا، انہیں تسلیم کرنا ہوگا، ہم 65 کے شیر جوانوں کی یاد میں 2016ء میں یادگاریں بنا سکتے ہیں تو1971ء کے ان غازیوں شہیدوں کو خراج تحسین کیوں نہیں پیش کر سکتے؟ تیس بوری سیمنٹ سے کوئی یادگار کیوں نہیں بناسکتے؟ سیلانی یہ سوچتے ہوئے چشم تصور میں 63 برس کے میر قاسم علی کو پاکستان پر قربان ہوتا دیکھتا رہا، دیکھتا رہا اور دیکھتا چلا گیا۔
تبصرہ لکھیے