Tag: افغانستان

  • امریکہ کے جنگی جرائم – قادر خان افغانؔ

    امریکہ کے جنگی جرائم – قادر خان افغانؔ

    قادر افغان امریکہ دنیا کا تھانے دار بنا ہوا ہے۔ اپنی جارحانہ پالیسیوں اور دنیا پر قبضے کی خواہش نے امریکہ نے مسلم دنیا میں انتشار پیدا کیا ہوا ہے۔ امریکہ جہاں انسانی حقوق کا سب سے بڑا چیمپئن بننے کا دعوے کرتا ہے، وہاں اس کے مکروہ چہرے سے ابلیسیت کا نقاب ، عام معصوم شہریوں پر بمباریوں اور بے قصور انسانوں پر طاقت کے استعمال سے اتر جاتا ہے۔ امریکہ ایک نام نہاد سپر پاور کی حیثیت میں مسلسل جنگی جرائم کا مرتکب ہو رہا ہے لیکن اس کے خون آشام دہانے میں لگام ڈالنے کا وقت آچکا ہے ۔یوں تو امریکی جنگی جرائم کی ایک طویل ترین فہرست ہے، جو لکھنے بیٹھیں تو کتابیں کم پڑ جائیں۔ یہاں صرف افغانستان میں امریکہ کے جنگی جرائم کا پردہ چاک کرنے کے لیے رواں سال کے کچھ واقعات کا تذکرہ کرنا چاہوں، یہ واقعات ہم سب مسلمانوں کے لیے لمحہ فکر ہے کہ امریکہ کے منہ پر لگے انسانی خون پینے کی اس عادت کو کس طرح ختم کیا جاسکے۔ اسلامی ممالک اپنی مخصوص ڈگر پر گامزن ہیں، او آئی سی بس ایک نام کا اتحاد بن کر رہ گیا ہے، جس کا کوئی کام نہیں سوائے نمود و نمائش کے۔

    امریکہ عام شہریوں میں معصوم بچوں، بزرگوں اور خواتین، اسپتالوں، مذہبی تہواروں یا شادی کی تقاریب ہوں، مسلسل سفاکیت سے انسانیت کو نشانہ بنا رہا ہے، اس حوالے سے کچھ واقعات لکھتے وقت دل پھٹ جاتا ہے اور مسلمانوں کی بے بسی و عرب ممالک کی بے حسی پر دل خون کے آنسو روتا ہے۔ بردار ملک افغانستان میں گذشتہ دنوں یکے بعد دیگر دو واقعات ایسے ہوئے جو عالمی برادری کے لیے بھی لمحہ فکریہ ہیں۔ امریکی افواج کی سپیشل فورسزنے افغان طالبان کے مرکز ”برکند باری“ پر چھاپہ مارا، لیکن وہ ناکام ہوگیا، الٹا افغان طالبان کے ہاتھو ں 15 امریکی ہلاک ہوگئے۔ جبکہ امریکیوں نے دو امریکیوں کی ہلاکت کی تصدیق کی ہے۔ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے کہ امریکی اپنی افواج کی ناکامی چھپانے کے لیے اس طرح کی تردید جاری کرتا رہتا ہے۔ امریکہ نے اپنی ناکامی پر غضبناک ہو کر عام شہریوں پر بمباری کی جس میں 50 سے زیادہ گھر تباہ، 60 سے زیادہ عام شہری جاں بحق ہوگئے، افغان حکومت نے اس موقع پر خاموشی اختیار کی، جس سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ امریکی بربریت نے عام شہریوں کو نقصان پہنچایا ہے۔ اسی واقعے سے قبل چار دن قبل صوبہ اروزگان کے مرکز ترین کوٹ سے ملحق درویشان کے علاقے میں بھی غضب کی بمباری میں بچوں اور بزرگ افراد سمیت 30 افراد جاں بحق ہوئے تھے۔ یہ بمباری اس وقت کی گئی، جب واقعے سے صرف ایک دن قبل درویشان فوجی یونٹ کے تمام اہل کاروں نے افغان طالبان کے سامنے ہتھیار ڈال دیے تھے، جبکہ یہ مرکز افغان طالبان کے قبضے میں آگیا تھا۔ جب افغان طالبان نے فوجی عملے اور وہاں سے ملنے والے اسلحے کو محفوظ مقام پر منتقل کیا تو عام شہری صبح اس مرکز کو دیکھنے کے لیے جمع تھے، جو امریکی طیاروں کا نشانہ بن گئے۔ اسی طرح درویشان کے سانحے سے صرف 2 دن قبل امریکی غاصبوں نے نائٹ آپریشن کے دوران صوبہ ننگرہار کے ضلع شیرزاد کے علاقے مرکی خیل میں چھاپے کے بعد علاقے پر شدید بمباری کی، جس میں عینی شاہدین کے مطابق 30 افراد جو عام شہری تھے جاں بحق اور زخمی ہوئے۔ اسی طرح کوسہ قلعہ کے علاقے میں فوجیوں نے شادی کی مراسم کو مارٹر توپوں سے نشانہ بنایا، جس سے 13 خواتین اور بچے جاں بحق، جبکہ 25 مزید زخمی ہوئے۔

    انتہائی افسوس کی بات ہے کہ مذکورہ چاروں سانحات کے بارے میں ابھی تک انسانی حقوق کی نام نہاد تنظیموں نے کوئی مذمتی بیان جاری نہیں کیا۔ معلوم نہیں کہ اس کے بعد وہ کس منہ سے افغانستان میں انسانی حقوق کی حفاظت کا نعرہ لگائیں گے؟ عوام خون میں لت پت ہیں۔گھر ویران ہو رہے ہیں۔ خواتین، بچے اور بوڑھے ملبے تلے دبے ہوئے ہیں۔ کئی ایک تو نکال لیے گئے ہیں، جبکہ بہت سے اب بھی منوں مٹی تلے دفن ہیں۔ باپ کو بیٹے کی خبر نہیں۔ بیوی کو شوہر کا علم نہیں۔ بہن کو بھائی کا پتا نہیں۔ بالکل قیامت کا منظر ہے۔ آہوں اور سسکیوں کی بہتات نے ہر طرف صف ماتم بچھا دی ہے، لیکن انسانی حقوق کے ٹھیکے دار اور آزادی اظہار رائے کا دعوے دار دجالی میڈیا اب بھی امریکی جارحیت پسندوں کے بیانات کا منتظر ہے کہ ان کے منہ سے غلامی کی آلودگی میں لتھڑے ہوئے الفاظ نکلیں، تاکہ وہی اس واقعے کی حقیقی تصویر کے طور پر دنیا کے سامنے پیش کر دیں۔ چاہے وہ حقائق کو کسی بھی طرح مسخ کیوں نہ کر دیں۔ امریکہ کی جانب سے ایک ہفتے میں مسلسل یہ چوتھا واقعہ ہے۔ اس سے پہلے صوبہ ننگرہار ضلع شیرزاد، روزگان کے درویشان کے علاقے، قندوز ضلع چاردرہ، قندہار ضلع میوند، لغمان ضلع علیشنگ، فاریاب ضلع غورماچ، ہلمند ضلع ناد علی، خوست علیشیر، پکتیکا بانجو کے علاقے، زرمت شاہیکوٹ کے علاقے، پروان ضلع سیاگرد اور ملک کے مختلف علاقوں میں امریکی افواج نے اسی نوعیت کی وحشت اور بربریت کو سر انجام دی۔ امریکی فوجیوں نے اپنی وحشت گردی میں صوبہ میدان میں سویڈن رفاہی ادارے کے ہسپتال پر حملہ کیا اور چار مریضوں کو بیرون نکال کر اندھیرے میں خنجروں اور چاقوؤں سے نہایت سفاکیت سے قتل کر دیا۔

    تعلیم کے بجائے اسکول فوجی مراکز اور چوکیوں میں تبدیل ہوگئے ہیں۔ رواں سال17/ اگست کو انسانی حقوق کی تنظیم نے اپنی رپورٹ میں بھی تصدیق کی، کہ کابل انتظامیہ اسکولوں کو فوجی مراکز اور چوکیوں کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔ صوبہ روزگان کے صدر مقام ترین کوٹ شہر کے درویشان کے علاقے میں واقع فوجی مرکز اور آس پاس علاقوں پر صلیبی طیاروں نے اتوار کے روز 30/ اکتوبر 2016ء دوپہر کے وقت بےدریغ بمباری کی، جس کے نتیجے میں 30 نہتے عوام جن میں اکثریت بوڑھوں اور بچوں کی ہے، جاں بحق و زخمی ہوئے۔ صوبہ ننگرہار کے ضلع اچین کے شڈل بازار میں اتحادی کفار کے ایک ڈرون حملے کے نتیجے میں 27 شہری جاں بحق اور زخمی ہوئے۔ یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب اس علاقے سے تعلق رکھنے والے ایک شخص فریضہ حج کی ادائیگی کے بعد گھر پہنچے تھے اور ان کے عزیز واقارب ان کو مبارک باد دینے کے لیے ان کے گھر میں جمع تھے جہاں وہ ڈرون حملے کا نشانہ بنے۔

    رواں سال امریکی افواج کے مختلف حملوں میں جاں بحق ہونے والے عام شہریوں کی تعداد سینکڑوں میں ہے، یہاں صرف چند واقعات نقل کیے جاتے ہیں:
    7ا پریل کو صوبہ پکتیکا کے ضلع گومل میں امریکی افواج کے ایک ڈرون حملے میں قبائلی عمائدین سمیت 19 شہری جاں بحق ہوئے۔ مقامی افراد کے مطابق حملے کا نشانہ بننے والے افراد تین گاڑیوں میں دو قبائل کے درمیان تصفیہ کرنے جا رہے تھے کہ راستے میں ان پر حملہ ہوا۔
    7 اپریل کو ہی صوبہ ننگرہار کے ضلع پچیرا گام کے پچیر مارکیٹ کے قریب امریکی فوجیوں نے عام شہریوں کی ایک گاڑی کو ڈرون کے ذریعے نشانہ بنایا۔ اس حملے میں ایک دینی عالم مولوی عبد السلام اور پیر قمر الدین جاں بحق جبکہ تین افراد زخمی ہوئے۔
    6 مئی کو صوبہ کندہار کے ضلع ازری اور حصارک کے درمیان سپاندو کس کے علاقے میں امریکی کے ڈروں حملے میں 11 شہری بے گناہ جاں بحق ہوئے۔ صوبائی کونسل میں ازری کے رکن عبدالولی وکیل نے اس واقعے کی تصدیق کی ہے اور کہا ہے کہ اس حملے میں طالبان اور عام شہری دونو ں نشانہ بنے ہیں۔
    12 جون کو میدان وردگ کے ضلع سید آباد کے علاقے اتڑی میں امریکی جارحیت پسندوں کے ڈرون حملے میں ایک خانہ بدوش عبداللہ جاں بحق ہوا۔
    19 جولائی کو صوبہ ننگرہار کے ضلع شیرزاد کے علاقے طوطو میں ڈرون حملے کے نتیجے میں ایک عام شہری عبدالکبیر جاں بحق ہوا۔
    12 اگست کو صوبہ پکتیکا کے ضلع خوشامند کے علاقے میناری میں امریکہ کے وحشیانہ ڈرون حملے میں 13 شہری جاں بحق ہوئے۔ یہ حملہ ایک مقامی ڈاکٹر وریشمن کے گھر پر ہوا جس میں ڈاکٹر سمیت ان کے خاندان کے تیرہ افراد جاں بحق ہو ئے۔

    یہ تمام مسلمانوں کے لیے مقام عبرت ہے کہ وہ امریکہ کی جانب سے امن قائم کے نام پر کس بربریت سے عام شہریوں کو تواتر کے ساتھ نشانہ بنا رہی ہے اور امت مسلمہ امریکی مظالم پر خاموش بیٹھے ہیں۔ امریکہ نے خود ساختہ قوانین کے تحت تمام اسلامی ممالک کو اپنا غلام بنانے کی روش جاری رکھی ہے، ترقی پذیر ممالک کی مجبوریاں تو سمجھ میں آتی ہیں کہ کرپٹ سیاست دانوں کے ہاتھوں عوام امریکی مالیاتی اداروں کے ہاتھوں غلامی کی زنجیروں میں جکڑی جا رہی ہے، لیکن وہ ممالک جو مال و دولت سے مالامال ہیں، کیا ان کے دلوں، کانوں، آنکھوں اور زبانوں پر مہر لگ چکی ہے۔ یہ ہمیں سوچنا سمجھنا ہوگا کہ ایسا کیوں ؟

  • بولوں گا کہ تو ذمہ دار ہے – محمد علی نقی

    بولوں گا کہ تو ذمہ دار ہے – محمد علی نقی

    محمد علی نقی پاکستان میں دہشت گردی کی تاریخ کوئی نئی نہیں، بلکہ یہ 1980 کی دہائی سے شروع ہے، جب ایک ڈکٹیٹر نے اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کے لیے مذہب کی قبا میں خود کو پناہ دینے کی کوشش کی۔ نفاذِ شریعت کو بنیاد بنا کر عوام کے احساسات سے کھیلا گیا، فقہ حنفیہ پر زور دے کر نفاذِ فقہ جعفریہ کے نعرے بھی سڑکوں پر لگوائے گئے، نتیجہ دونوں طرف سے فرقہ وارانہ تنظیموں کی شکل میں قوم آج تک بھگت رہی ہے۔

    افغانستان کی مسلح تحریک کی بےجا حمایت اور اپنے ملک کے عوام کو اسلام پسندی کے نام پر وہاں بھیجنا شروع کر دیا، وجہ صرف خوشنودیِ امریکہ و سعودیہ حاصل کرنا لیکن اپنے ہمسائے کے گھر کو ایندھن بنانے والے نہ جانے یہ کیسے بھول گئے کہ شیشے کے گھروں میں رہنے والے کو پتھر برسانا زیب نہیں دیتا۔ ہماری قوم کے نوجوان انتہاپسندی کی طرف مائل ہوگئے، نااہل پالیسی سازوں کی پالیسیاں نوجوانوں کے دلوں میں مذہبی تشدد کو ہوا دینے لگیں۔ کچھ مولوی برادری بھی سپاہ صحابہ اور سپاہ محمد کی بےجا حمایت کرتے ہوئے میدان میں اتر آئی لیکن اس محاذ نے شاید اس وقت اس قدر نقصان نہ دیا جس قدر یہ گروہ آج اتنی طاقت پکڑ کر دے رہے ہیں. آج انہی گروہوں نے پاکستان میں مختلف نام دھار لیے ہیں اور قابو میں آتے نظر نہیں آ رہے۔

    ان کی بے باک کاروائیوں نے ہسپتالوں کو بخشا نہ تعلیمی اداروں کو، بازاروں کو بخشا نہ گلی کوچوں کو، مسافروں کو بخشا نہ محافظوں کو، ہر ہر ہجوم پر یہ اپنے اثر چھوڑ گئے۔
    دہشت گردی کے ان واقعات میں سب سے دل سوز واقعہ پشاور میں اے پی ایس کے 150 معصوموں کا بہیمانہ قتل تھا جس نے نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر کے ممالک کو ہلا کر رکھ دیا۔ بعد ازاں باچا خان یونیورسٹی کے 35 طلبہ کی شہادت نے بھی سوالیہ نشان کھڑے کردیے۔ 2009ء میں ہونے والے انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی میں دو دھماکے کس کو یاد ہوں گے؟ کس کو یاد ہوں گے ان طلبہ کی شہادت جو سنہری خواب لے کر علم کے حصول میں مگن تھے۔

    خیر سے یہ واقعات تو عوام و حکمرانوں کے ذہن پر دھندلے ہوگئے ہوں گے، جو زخم ابھی تازہ ہے، وہ ہے کوئٹہ کے ٹریننگ سینٹر میں ہونے والے 61 نوجوانوں کی شہادت کیونکہ ان شہداء کا کفن ابھی میلا نہیں ہوا، کچھ ہی دنوں کی تو بات ہے، وقت بہترین مرہم ہے، معمولاتِ زندگی معمول پر آجائیں گے، پھر یہ شہداء بھی دھندلی تصویر بن کر ذہنوں میں کہیں گم ہوجائیں گے، پھر خدانخواستہ اگر کوئی حادثہ پیش آیا تو ان کی یاد بھی تازہ ہوجائے گی۔
    میرے وطن تیری قسمت کہ تیرے باسیوں کا خون بہنے کے بعد یہاں عمارت کو محافظ گھیرے میں لیتے ہیں، کاش یہ گھیرے میں لینے والی رسم حملہ سے پہلے ادا ہوئی ہوتی۔
    بس یہ لفظ کاش ہی کہنے کو بچ جاتا ہے۔

  • حکمت یار کا افغان حکومت کے ساتھ معاہدہ-رحیم اللہ یوسفزئی

    حکمت یار کا افغان حکومت کے ساتھ معاہدہ-رحیم اللہ یوسفزئی

    raheemullah_yusufzai

    گلبدین حکمت یار وہم و گمان سے ماورا الائنس بنانے کے ماہر جانے جاتے ہیں۔ ایک مرتبہ پھر اُنھوں نے افغان صدر ،اشرف غنی کی مخلوط حکومت کے ساتھ امن معاہدے پر دستخط کرکے سب کو حیران کردیا ہے ۔ تاہم یقینی طور پر نہیں کہا جاسکتا کہ معاہدہ کب تک قائم رہے گا کیونکہ ان کے سابق معاہدے بہت جلد پٹری سے اتر گئے۔ حکمت یار کے زیادہ تر الائنسز اقتدار میں آنے کے لئے تھے ، لیکن افغانستان پر حکومت کرنے کی اُن کی کوشش کبھی بارآور نہ ہوسکی ۔ اس مرتبہ البتہ اُن کا کہنا ہے کہ وہ افغان حکومت میں شریک نہیں ہوں گے ۔ اس کی بجائے وہ جنگ و جدل سے کنارہ کشی اختیار کرتے ہوئے مرکزی سیاسی دھارے میں آنا چاہیں گے ۔

    افغانستان اور بیرونی دنیا ، بشمول امریکہ اور اس کے اتحادیوں، نے اس امن معاہدے کا خیر مقدم کیا ہے کیونکہ اسے جنگ زدہ افغانستان سے کشمکش کا خاتمہ کرتے ہوئے استحکام لانے کی طرف ایک قدم سمجھا جارہا ہے ۔ یہ معاہدہ علامتی اور زیادہ سے زیادہ سیاسی اہمیت ضرور رکھتا ہے لیکن اس کے تزویراتی یا عسکری اثرات زیادہ محسوس نہیں کیے جائیں گے کیونکہ حکمت یار کی حز ب ِ اسلامی کی صفوں میں امریکی اور افغان فورسز پر حملہ کرنے کے لئے زیادہ جنگجو موجود نہیں ۔ اس معاہدے پر عمل پیر ا ہونے میں حائل مشکلات نے آغاز سے ہی سر اٹھانا شروع کردیا۔ کابل کے صدارتی محل میں طے پانے والے اس معاہدے میں حکمت یار بذات ِ خود شریک نہیں تھے ۔ اُنہیں ایک ویڈیو کلپ میں مسودے پر دستخط کرتے دکھایا گیا۔ یہ کلپ کسی نامعلوم مقام، زیادہ امکان ہے کہ پاکستان میں کسی جگہ، پر بنایا گیا تھا۔ افغان دارالحکومت میں تحفظ کی ضمانت ملنے تک وہ صدر غنی کے محل میں ہونے والی تقریب میں شرکت نہیں کرسکتے تھے ۔

    اس معاہدے کی شرائط کے عملی نفاذ میں مخصوص حلقوں کی مخالفت ، سیکورٹی کی خراب ہوتی ہوئی صورت ِحال اور گاہے گاہے صدر غنی اور سی ای او، عبداﷲ عبداﷲ کے درمیان سرا ٹھانے والے اختلافات رکاوٹ ڈالیں گے ۔ کابل اور کچھ دیگر شہروں میں اس امن معاہدے کے خلاف سیاسی اور انسانی حقوق کے کارکنوں کی طرف سے احتجاجی مظاہرے بھی دیکھنے میں آئے کیونکہ وہ انسانی حقوق کی پامالی کے الزامات پر حکمت یار کو ایمنسٹی دینے کی بجائے اُن کا احتساب چاہتے ہیں۔ تاہم حکمت یار اور ان کے ساتھیوں کو ملنے والی ایمنسٹی کوئی نادر مثال نہیں ،طالبان کے بعد قائم ہونے والی افغان پارلیمنٹ اور حکومت نے سابق دور کے مجاہدین اور جنگجو سرداروں، جن پر انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں اور اپنے حریفوں کو قتل کرنے کے الزامات تھے ، کو بھی عام معافی دی تھی۔ ان میں سے زیادہ تر جنگجوسابق صدر، حامد کرزئی کی حکومت کا حصہ تھے ۔ کچھ دیگر ارکان ِ پارلیمنٹ، وزرا ، کاروباری افراد اور انتہائی دولت مند ہیں۔

    حکمت یار کے ماضی کا طائرانہ جائزہ دلچسپی سے خالی نہ ہوگا۔ کابل پولی ٹیکنیک میں زمانہ طالب علمی میں اُنھوں نے افغانستان کی نوخیز اسلامی تحریک میں شرکت کی اور 1970 کی دہائی کے اوائل میں سردار محمد دائود کی حکومت کے خلاف ہونے والی بغاوت میں حصہ لیا ، اور پھر گرفتاری سے بچنے کے لئے فرار ہوکر پاکستان آگئے ۔ ذوالفقار علی بھٹو نے اُنکا، احمد شاہ مسعود اور دیگر اسلامی جہادیوں کا خیر مقدم کیا کیونکہ اُس وقت سردار دائود حکومت منحرف پاکستانی پشتون اور بلوچ قوم پرستوں کو پناہ دے رہی تھی۔ اُس وقت سے لے کر اب تک، گلبدین حکمت یار مجاہدین کے مختلف دھڑوں کا ساتھ دیتے ہوئے افغان حکمرانوں، جیساکہ دائود،نورمحمدترکئی، حفیظ اﷲ امین، ببرک کارمل اور ڈاکٹر نجیب ا ﷲ اور طالبان اورامریکی پشت پناہی سے بننے والی کرزئی حکومت کے خلاف لڑتے رہے ہیں۔اس طرح اُنھوں نے ایک طویل اور تھکادینے والی، لیکن بے مقصد جنگ لڑی ہے ۔

    افغانستان میں کمیونسٹ دور میںحکمت یار نے افغان آرمی چیف اور وزیر ِ دفاع، جنرل شاہ نواز تانی کے ساتھ ایک خفیہ معاہدہ کرتے ہوئے مارچ 1990 میں حکومت کا تختہ الٹنے کا منصوبہ بنایا۔ یہ منصوبہ ناکام ہوگیا اور جنرل تانی اپنے ساتھیوں سمیت ایک ہیلی کاپٹر میں فرار ہوکر پاکستان آگئے ۔ حکمت یار اسلامی جبکہ جنرل تانی کمیونسٹ نظریات رکھتے تھے لیکن اقتدار کی خاطر حکمت یار کو اُن سے معاہدہ کرنے میں کوئی عار نہ ہوا۔ اس کے کئی سال بعد تک ، دونوں پاکستان میں رہے ۔ جنرل تانی تو غیر اہم ہوتے ہوئے فراموش کردئیے گئے لیکن حکمت یار نے افغان سیاست میں اہمیت حاصل کرنے کی جدوجہد جاری رکھی ۔ 1990 ء کی دہائی میں حکمت یار نے کابل کے لئے ہونے والی خونی جنگ میں ازبک جنگجو سردار ، عبدالرشید دوستم کی طرف ہاتھ بڑھایا۔ اس وقت کابل صدر برہان الدین ربانی اور وزیر ِ دفاع احمد شاہ مسعود کے پاس تھا۔ حکمت یار اور دوستم کے درمیان ہونے والا اتحاد بھی غیر فطری تھا کیونکہ حکمت یار افغانستان میں حقیقی اسلامی حکومت قائم کرنا چاہتے تھے ، جبکہ دوستم کا پہلے تو اتحاد کمیونسٹوں کے ساتھ تھا،اس کے بعد اس نے اپنے بے رحم ملیشیا کے ذریعے افغان مجاہدین کے خلاف جنگ کی، اور پھر کچھ افغانستان مجاہدین کے ساتھ معاہدے بھی کرلئے ۔ نظریاتی تفاوت کی وجہ سے حکمت یار کا دوستم کے ساتھ کیا گیا معاہدہ بھی دیر پا ثابت نہ ہوا ۔ آخر کارحکمت یار اس نتیجے پر پہنچے کہ ربانی اور احمد شاہ مسعود کی مخلوط حکومت کے ساتھ معاہدے کے نتیجے میں مجاہدین کی خانہ جنگی ختم ہوسکتی ہے ۔ چنانچہ پاکستانی اور افغان ثالثوں کے ذریعے طے پانے والے اس معاہدے کے نتیجے میں حکمت یاروزیر ِاعظم بن گئے ، لیکن حقیقی طاقت صدر ربانی اور احمد شاہ مسعود کے پاس ہی رہی۔
    حکمت یار کی معاہدے کرنے کے علاوہ ممالک کی پسندیدگی کی چوائس تبدیلی ہوتی رہی۔1970 کی دہائی میں وہ پاکستان کے ساتھ وابستہ تھے ، اور پشاور میں آمد پر اُن سے مہمان ِ خصوصی کا سا سلوک کیا جاتا تھا۔ تاہم بعد میں اسلام آباد کاجھکائو طالبان کی طرف ہوگیا ۔ طالبان نے حکمت ِ یار اور مسعود کی فورسز کو فیصلہ کن شکست سے دوچار کیااور کابل پر حکومت قائم کرلی ۔ ستمبر 1996 ء میں حکمت یار کا جھکائوایران کی طرف دیکھا گیا۔ اُنھوں نے تہران میں رہائش اختیار کرلی، لیکن جلد ہی اُنہیں وہاں کے ماحول کی گھٹن کا احساس ہوا، اور وہ پاکستان لوٹ آئے ۔ اُس کے بعد وہ ایران کے ناقدرہے ہیں۔ اُن کی پاکستان کے ساتھ بھی دوستی نہیں ہے کیونکہ اسلام آباد نے طالبان کو اہمیت دی تھی۔

    جہاں تک تازہ ترین معاہدے کا تعلق ہے تو بظاہر ایسا دکھائی دیتاہے کہ اس میں پاکستان کا کوئی کردار نہیں ہے، اگرچہ کچھ تجزیہ کاروں کی رائے میں پاکستان چاہتا تھا کہ حکمت یار افغان حکومت کا حصہ بن جائیں تاکہ کابل میں بھارت کے بڑھتے ہوئے اثر کا تدارک کیا جاسکے ۔ اگر اس معاہدے کا ناقدانہ جائزہ لیا جائے تو حکمت یار کا غنی حکومت سے معاہدہ ان کے طویل موقف کی نفی کرتا ہے کہ وہ ایسی حکومت کے ساتھ معاہدے میں شریک نہیں ہوسکتے جسے غیر ملکی طاقتوں کی پشت پناہی حاصل ہو۔ اُن کا موقف رہا ہے کہ غیر ملکی طاقتیں افغانستان سے نکل جائیں ، وہاں تازہ انتخابات ہوں اور شریعت نافذ کردی جائے ۔ بہرحال اس معاہدے کا حکمت یار اور ان کی جماعت کو فائدہ ہوگا کیونکہ وہ طویل صحرا نوردی کے بعد مرکزی سیاسی دھارے میں آجائیں گے ۔ یہ معاہدہ پریشانی کا شکار افغان حکومت کے لئے بھی فائدہ مند ہے کیونکہ وہ کئی برسوںسے امن معاہدہ کرنے کی کوشش میں ہے ۔ افغانستان میں امن کے لئے طالبان کےساتھ امن معاہدہ ناگزیر ہے ۔ حکمت یار کی حکومت میں موجودگی ایک توانا پیغام ضرور بھیجے گی کہ افغان حکومت اتنی بھی کمزور نہیں ہے جتنی طالبان کا دعویٰ ہے۔

  • مجھے جنگوں سے نفرت ہے – رضوان اللہ خان

    مجھے جنگوں سے نفرت ہے – رضوان اللہ خان

    رضوان اللہ خان ’’کبھی تاریخ پڑھو تو تمہیں نظر آئے کہ جنگوں میں کیا ہوتا ہے، لوگ کیسے بھوک سے مرتے ہیں اور معیشت کیسے تباہ ہوتی ہے؟‘‘ میرے ایک کالم نگار دوست جنگوں کے نقصانات بیان کر تے ہوئے مجھے کچھ سمجھانے کی کوشش کر رہا تھا۔ میں نے سو فیصد متفق ہونے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ’’ہاں لیکن تم تو بہت کم نقصانات بتا رہے ہو، شاید تم نے تاریخ کا مطالعہ صرف اتنا ہی کیا ہوگا کہ معیشت کہاں سے کہاں پہنچی اور بھوک سے کُل کتنے لوگ دنیائے فانی سے رخصت ہوئے‘‘۔

    درحقیقت جنگوں میں نقصان کس قدر زیادہ ہوتا ہے اس کو دیکھنے کے لیے امتِ محمد ﷺ کی تاریخ سے بھی پہلے کی تاریخ تک جانا ہوگا۔ جہاں وقت کی فراعین گھر گھر میں پیدا ہونے والے بچے کا سر قلم کروادیتے، جہاں ہر پیدا ہونے والی لڑکی کو بادشاہ کی کنیز سمجھا جاتا تھا، جہاں غلاموں کو زنجیروں میں جکڑ کر جانوروں سے بھی سخت کام لیا جاتا۔ ایسے دور میں جنگوں کا بھلا کیا حال ہوتا ہوگا کیا کبھی کسی نے جاننے کی کوشش بھی کی؟ اگر نہیں تو دیکھیں اہل مصر جنگوں میں چھوٹے بچوں کو بھی آگ لگا دیا کرتے، فراعین عورتوں کی کھالیں تک اُتار دیا کرتے، بڑے بڑے جنگجو جنگ سے لوٹنے پر غلام عورتوں کی عزت لوٹنا اپنا فرض سمجھتے تھے، درندگی کی حد تو یہ تھی کہ چھوٹی بچیاں اپنے خوبصورت نین نقش کے حساب سے کسی بڑے کمانڈر کو تحفہ دی جاتیں۔

    جنگ جیتنے کے بعد ہاتھ آنے والے بچے ننگے بدن سار ا سارا دن کام کیا کرتے، بوڑھوں کے بوڑھے کاندھے منوں بوجھ تلے دبا دئیے جاتے اور جوانوں کے عضو خاص تک کاٹ دئیے جاتے تھے۔ سقراط کے ایتھنز اور پورے یونان کی جنگوں کا حال دیکھ لیجئے کہ عین جنگ کے دوران ہی فوج کے شرابی نوجوان کسی گھر میں گھس جاتے، تمام مردوں کو قتل کردیا جاتا اور عورتوں کو زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا۔ کئی کئی راتیں انہی لڑکیوں کو اپنے گھوڑوں پر باندھے رکھتے اور جہاں رات ہوئی وہیں سب چیل کوؤں کی طرح ان پر جھپٹ پڑتے اور سارا جسم نوچ لیتے۔

    قیصر وقیصریٰ کی فوج بھی کچھ مختلف نہ تھی، وہ جہاں جاتے شہر کے شہر روند ڈالتے، گھروں اور کھیتوں کوآگ لگا دیتے ، عورتوں اور بچوں کو گھوڑوں کے ساتھ باندھ کر گھسیٹا کرتے۔ پھر ان چودہ سو سالہ تاریخ میں جنگیں بھی اسی طرز پر ہوتی رہیں، اندلس فتح کرنے کے بعد عیسائیوں نے سزائوں کے نئے نئے طریقے ایجاد کئے، جو شخص عیسائی ہونے سے انکار کر دیتا اس کی ایک ٹانگ ایک گھوڑے کے ساتھ اور دوسری ٹانگ دوسرے گھوڑے کے ساتھ باندھ کر انہیں مختلف سمت میں دوڑا دیا جاتا۔ اینکویزیشن جیسی دہشت گردانہ اور سفاکانہ سزا پادریوں کی ایجاد تھی جس میں مردوں کے ساتھ ساتھ عیسائی نہ ہونے والی یا خفیہ نماز پڑھنے والی لڑکیوں کے بھی بدن سے کپڑے چھین لئے جاتے اور میخوں سے بھری میز پر لٹا دیا جاتا ۔ اللہ اکبر کبیرا ۔۔۔اینکویزیشن میں کیسی کیسی سزائیں تھیں مجھ میں ہمت نہیں کہ ابھی انہیں بیان کرسکوں سو موجودہ دور میں جنگوں میں برپا کئے جانے والے ظلم کی بھی چند جھلکیاں دیکھ لیتے ہیں۔

    عراق پر امریکی حملہ : سکول جاتی بچیوں کا ریپ، چھوٹے بچوں کو سنائپر سے نشانہ بنا کر قہقے لگانا، عورتوں پر اپنے نشانے سیٹ کرنا ، زندہ لوگوں پر ٹینک چڑھا دینا۔۔۔
    افغانستان پر امریکی حملہ: کم عمر لڑکیوں کو اٹھا کر ہیلی کاپٹر میں لے جا کر ریپ کرنا اور ہوائوں سے اس کا مردہ بدن زمین پر پھینکنا، ڈیزی کٹر بم، کارپٹ بمباری، گھر تباہ، سکول تباہ، حوس کے پجاری چھوٹے بچوں کو بھی حوس کا نشانہ بناتے ہوئے، لاکھوں لوگوں کی جانیں صرف خود کو سپر پاور ثابت کرنے کی خاطر۔
    برما میں بدھوں کا ظلم : اپنی عصمت کی حفاظت میں عورتوں کا دریائوں میں کودنا، بچوں کے اوپر سے گاڑیاں گزاری گئیں، کُند چھریوں سے گلے کاٹے گئے، لاشوں کی بے حرمتی کی گئی، بوڑھوں کی داڑھیاں نوچی گئیں۔۔۔
    افریقہ میں عیسائیوں کا ظلم: کلہاڑوں اور چھریو ں سے مسلمانوں کی گردنیں کاٹنا، ان کے جسم کو چیر پھاڑ دینا، ان کے کلیجے اور دل چپبانا، پوری پوری ٹانگ کاٹ کر اس کا گوشت کھانا۔۔۔
    شام میں بشار کا ظلم: عمر ، ابوبکر، عائشہ، حفصہ اور عثمان نام کے لڑکے لڑکیوں کو زندہ آگ لگانا، بچیوں کی ننگی لاشیں بجلی کی تاروں پر لٹکا دینا، عمر نام کے بچوں کے جسم کو آگ لگا کر عضو خاص کاٹ ڈالنا، حلب کو خون میں نہلا دینا۔۔۔
    کشمیر میں بھارتی ظلم: کون نہیں جانتا اس ظلم سے متعلق، کوئی آج کل کی تو بات ہے نہیں، ایک طویل کہانی ہے جہاں ہر صفحہ خون آلود، ہر صفحے پر عصمت دری، ہر صفحے پر گردن زنی اور ہر صفحے پر ہندوئوں کی دہشت گردی روزِ روشن کی طرح عیاں ہے۔ ۔۔

    ہزاروں جنگیں اور ان میں برپا کیا جانے والا ظلم بیان کرنے اور ان کا احاطہ کرنے کے لیے سینکڑوں جلدوں پر مشتمل کتب بھی کم پڑجائیں گی لیکن سچ کہتا ہوں میرا رب جانتا ہے اس ظلم اور سفاکی کی وجہ سے جب بھی کوئی جنگ کرنے اور جنگ ہونے کی بات کرتا ہے تو میرا خون کھول اُٹھتا ہے، کیونکہ ظلم کی ان طویل داستانوں کی وجہ سے مجھے جنگوں سے نفرت ہے اور جب کوئی مسلمان کسی ملک سے جنگ کی بات کرتا ہے تو سوچتا ہوں کہ ارے نادان جس اُمت کو رب نے ’’جہاد‘‘ جیسا فریضہ دے رکھا ہو، وہ ایسی جنگوں کی بات کیسے کر سکتا ہے؟

    یہی بات اپنے ان کالم نگار دوست کے لیے بھی کہتا ہوں کہ معیشت اور بھوک سے نکل کر بھی جنگوں کی تاریخ دیکھیں اور ان سب کا موازنہ مسلمانوں کے جہاد کے ساتھ کریں، جس جہاد کے خلاف دلائل دینے کے لئے انہوں نے جنگوں کے بیان کا سہارا لیا ۔ ایک ایسا فریضہ جس میں حکم ہی یہی ہے کہ صرف مدِ مقابل فوج ہی کو قتل کر سکتے ہو اس کے سوا، بچے، بوڑھے، عورتیں، گرجوں اور عبادت گاہوں میں مصروف لوگ اور ان کے مال مویشی کبھی تمہاری تلواروں کی زَد میں نہ آئیں۔ اورتاریخ گواہ ہے کہ اوپر بیان کردہ جنگیں ہم پر تب تب مسلط کی گئیں جب جب جہاد کے منکرین جہاد کے خلاف میدانوں میں نکل آئے اور مسلمانوں کے دلوں سے جذبہ جہاد کو کم کرنے یا ختم کرنے کی گھنائونی سازش میں مصروف ہوئے۔

    سو ایسے ہر دانشور کو جان لینا چاہیے کہ کشمیر کی حریت پسند تحریکیں جو اپنا لہو جہادی ولولوں کے ساتھ پیش کررہی ہیں یہ سب اس غزوہ ہند کے شرکاء ہیں جس غزوہ کا اعلان چودہ سو سال قبل نبی رحمتﷺ نے اپنی مبارک زبان سے فرما دیا تھا اور یہ بھی یاد رکھا جائے جب بھی بھارت سے جنگ ہوگی تو وہ ان کی جانب سے جنگ لیکن مسلمانوں کی جانب سے جہاد ہوگا جوکہ غزوہ ہند کا آخری وار ثابت ہوگا۔ ان شاء اللہ

  • سیاپا فروشوں کے نام – ارمغان احمد

    سیاپا فروشوں کے نام – ارمغان احمد

    یہ مضمون بنیادی طور پر ان محترم دوستوں کے لیے ہے جو ہر دہشت گرد حملے کے بعد یہ ”رولا“ ڈال دیتے ہیں کہ ہماری ریاست ”گُڈ“ اور ”بیڈ“ طالبان میں تخصیص کرتی ہے۔ کشمیر میں جدوجہد کرنے والوں کو جب تک پکڑیں گے نہیں تب تک ختم نہیں ہوں گے وغیرہ۔ اس سلسلے میں حافظ سعید جیسے لوگ ان کا پسندیدہ ہدف ہوتے ہیں۔ اگر ان کے تمام تجزیوں کا جائزہ لیا جائے تو نتیجہ یہی نکلتا ہے: ”بس جس دن آپ نے کشمیر پر فاتحہ پڑھ لی، ان کی ہر قسم کی حمایت سے ہاتھ کھینچ لیا، کشمیری مجاہدین کو بھی دہشت گرد قرار دے دیا، اس دن پاکستان میں امن قائم ہو جائے گا۔“

    سب سے پہلی بات تو یہ کہ مثالی طور پر میں اس بات سے متفق ہوں کہ دنیا کو امن کا گہوارہ ہونا چاہیے۔ کسی قسم کی عسکریت پسندی نہیں ہونی چاہئے۔ سویلین تو چھوڑ کسی ملک کی فوج تک پر بھی حملے نہیں ہونے چاہئیں۔ وغیرہ وغیرہ

    لیکن اب آ جائیں حقائق کی دنیا میں۔ عراق میں پاک فوج کی کون سی ”افغانستان پالیسی“ تھی؟ شام میں پاک فوج کی کونسی ”کشمیر پالیسی“ تھی؟ لیبیا میں پاک فوج کے کون سے ”گُڈ اور بیڈ طالبان“ تھے؟ حقائق یہ ہیں کہ ایٹمی ہتھیاروں کے دور میں کوئی بھی ملک براہ راست جنگ کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ اس لیے ہر ملک ہی پراکسی وار میں مشغول ہے۔ امریکا بھی، روس بھی، چین بھی، بھارت بھی، ایران بھی، سعودی عرب بھی اور پاکستان بھی۔ اور مستقبل قریب میں یہ ختم ہوتی نظر نہیں آتی۔

    نرم سے نرم الفاظ میں جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ کشمیری مجاہدین اور سب افغان طالبان کو دہشت گرد قرار دیا جائے تو پاکستان میں امن ہو جائے گا وہ یا تو اول درجے کے ”بھولے“ ہیں یا بددیانت۔ پاکستان میں غیر ممالک کے اشارے پر حملے کرنے والے دہشتگردوں کے تمام ٹھکانوں کا صفایا ہو چکا ہے۔ ابھی وہ افغانستان کو بیس کیمپ بنا کے پاکستان پر حملے کرتے ہیں اور یہ سلسلہ تب تک جاری رہے گا جب تک افغانستان میں پاکستان دوست حکومت نہیں آ جاتی۔ جی ہاں ابھی محض میں آپ کی روح تک ”مسیحائی کی تاثیر“ پہنچانے کے لیے ”تزویراتی گہرائی“ کی اصطلاح استعمال کرنے لگا ہوں۔ یہی ہے وہ تزویراتی گہرائی جس کے حصول کے بغیر پاکستان میں امن قائم نہیں ہو سکتا۔

    اب چاہے آپ کا فرقہ آپ کو یہ تسلیم کرنے سے روکے، چاہے کوئی متجدد، چاہے آپ کی نسل پرستی، چاہے آپ کا دیسی مارکہ لبرل ازم، چاہے آپ کا الحاد، چاہے آپ کا سیکولر ازم اور چاہیے آپ کی ”دانشوری“، یہ حقائق تبدیل نہیں ہو سکتے۔ افغانستان میں ایک دوست حکومت قائم ہوئے بغیر پاکستان میں امن قائم نہیں ہو سکتا باقی آپ کی مرضی ہے جو مرضی اور جتنا مرضی ڈھول بجا لیں۔ نوازش

  • وہ کیوں رحم کریں – احسان کوہاٹی

    وہ کیوں رحم کریں – احسان کوہاٹی

    بدلتی رت میں وہ رات کچھ زیادہ ہی مہیب اور سیاہ تھی، سناٹا ایسا تھا کہ اعصاب چٹخنے کو تھے، ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے کچھ ہونے کو ہے، اس خامشی میں تھکے ہارے وجود دن بھر کی مشقت کے بعد سنہرے خوابوں کی تلاش میں آنکھیں موندے ہوئے تھے اور کچھ ایسے بھی تھے جن کی آنکھوں سے نیند کوسوں دور تھی، وہ کھلی آنکھوں سے صبح ہونے کا انتظار کر رہے تھے کہ صبح ہو تو شاید انہیں واپسی کی اجازت دے دی جائے اور وہ چھوٹے موٹے تحفے لے کر گھروں کی طرف روآنہ ہو جائیں جہاں کسی کی بیمار بوڑھی ماں منتظر تھی، جسے کراچی کے بڑے اسپتال لے کر جانا تھا، کسی نے بوڑھے محنت کش باپ کے سینے سے لگ کر اس کے ہاتھ سے کدال لے کرتسبیح دینی تھی، کسی کی چھوٹی بہن منتظر تھی اور کسی کے لیے سہرے کے پھول منتظر تھے۔
    یہ سب بلوچستان پولیس کے جوان تھے جنہوں نے کچھ عرصہ پہلے ہی تربیت مکمل کر کے وطن پر جان قربان کرنے کا حلف لیا تھا، یہ سب کوئٹہ ٹریننگ سینٹر کے ہال میں تھکن اوڑھے موت کے قدموں کی چاپ سے بے خبر سو رہے تھے۔ دوسری جانب موت ٹریننگ سینٹر کی پانچ فٹ کی عقبی دیوار پھلانگ کر ان کی جانب بڑھنے لگی اور پھر دہشت گردوں نے کوئٹہ پولیس ٹریننگ سینتر پر دھاوا بول دیا اور ایک بار کوئٹہ لہو لہو ہوگیا۔ کتنی ہی ماؤں کی گودیں اجڑ گئیں، کتنے ہی ضعیف باپ سینے پر ہاتھ رکھے بیٹھے کے بیٹھے رہ گئے، کتنی ہی بہنیں بین کرتی رہ گئیں، کتنوں ہی کے سہرے کے پھول زمین پر بکھر گئے، کتنی ہی آنکھوں کو خوابوں کی کرچیوں نے کبھی نہ بھرنے والے زخم دے دیے، کوئٹہ ایک بار پھر لہولہان ہو گیا۔ سیلانی کا دل جیسے کسی آسیب نے مٹھی میں لے لیا ہو، سانحات کے تسلسل کے باوجود ابھی بھی آنکھوں سے گرنے والے اشک کم ہوئے ہیں نہ دل کی دھڑکنوں نے یکساں رفتار سے رہنا سیکھا ہے، اب بھی آنکھیں نم ہو جاتی ہیں اور دھڑکنیں بے ترتیب، اور پھر یہاں تو باسٹھ جوانوں کے لاشے تھے۔
    صبح گھر کے دروازے میں اڑسے ہوئے’’امت ‘‘ نے دل اور مسوس ڈالا، قومی پرچموں سے ڈھکے تابوتوں کی تصویر دیکھنے کے لیے پہاڑوں کا سا حوصلہ چاہیے تھا اور یہ حوصلہ کم از کم سیلانی کے پاس تو نہیں۔ وہ مانتا ہے کہ وہ کراچی پولیس کے ان ڈی آئی جی افسروں اور سندھ اسمبلی کے اسپیکر صاحب کی طرح حوصلے والا نہیں جو کوئٹہ میں اکسٹھ لاشوں کے ہوتے ہوئے کراچی کے امریکی قونصلیٹ میں محفل موسیقی سے محظوظ ہونے پہنچ جاتے ہیں۔
    امت اخبار پر سرسری سی نظر ڈالنے کے بعد سیلانی نے مزید حقائق جاننے کے لیے کوئٹہ میں اپنے دوست عبدالرشید بلوچ کو فون کیا۔ رشید بھائی کے دونوں نمبربند تھے۔ اخبار میں اطلاعات نے بہت سے سوال اٹھا دیے تھے، انٹیلی جنس اداروں نے واقعے سے کئی گھنٹے پہلے ہی دہشت گردوں کے کوئٹہ میں داخل ہونے کی اطلاع دے دی تھی، پھر انتظامات اتنے ناقص کیوں رہے؟
    ٹریننگ سینٹر میں تربیت مکمل کرکے جانے والے سپاہیوں کو دوبارہ کیوں طلب کیا گیا؟
    چھ ستمبر کو ان ہی سپاہیوں کی پاسنگ آؤٹ پریڈ میں آئی جی بلوچستان نے ٹریننگ سینٹر کی مخدوش چار دیواری کا نوٹس لیا لیکن ہوا کیا؟
    سیلانی اخبار ہاتھ میں الٹ پلٹ رہا تھا کہ اسلام آباد سے ایک باخبردوست کی خلاف توقع آنے والی کال نے توجہ اپنی جانب مبذول کرا لی۔
    ’’السلام علیکم ‘‘
    ’’وعلیکم السلام، کیا ہو رہا ہے سیلانی صاحب۔‘‘
    ’’قومی پرچم میں لپٹے تابوت دیکھ رہا ہوں۔‘‘
    ’’واقعی بڑا افسوس ناک واقعہ ہے جس کی بڑی ذمہ داری ہماری نالائق حکمران اور انتظامیہ پر ہے۔‘‘
    ’’مطلب؟‘‘
    ’’کوئٹہ بہت بڑا شہر نہیں ہے، آپ اسے بڑ اقصبہ کہہ لیں، حساس اداروں نے انہیں متنبہ کر دیا تھا کہ کچھ ہونے والا ہے، الرٹ ہو جاؤ، ان سے پوچھا جائے کہ انہوں نے کیا تیاری کی؟ یہ تو ہماری صوبائی حکومت، پولیس اور وہ کیا کہتے ہیں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی نااہلی ہے، پھر ایک بات جو بہت ضروری ہے کہ ہم افغانستان حکومت سے دوٹوک بات کیوں نہیں کرتے؟ عالمی سطح پر اس مسئلے کو کیوں نہیں اٹھاتے؟ کابل کے حکمرانوں کو شرم دلانا تو فضول ہے لیکن دو اور دو چار والی بات کرنے کا وقت نہیں آگیا۔ کرزئی کے بعد اشرف غنی نے کابل کو انڈیا کا شہر بنا دیا ہے، پشاور اور کوئٹہ میں جو بھی دہشت گردی ہوتی ہے، اس کے سارے کھرے افغانستان لے کر جاتے ہیں، اے پی ایس پشاور میں گھسنے والے دہشت گرد افغانستان سے ہینڈل ہو رہے تھے اور کوئٹہ میں بھی یہی ہوا، ڈی جی فرنٹیئر کانسٹیبلری نے بھی یہی کہا کہ دہشت گردوں کو افغانستان سے گائیڈ کیا جا رہا تھا۔ ایک وقت تھا جب روس کے خلاف جنگ میں پاکستان بیس کیمپ تھا اور آج پاکستان کے خلاف بھارت امریکہ نے کابل کو بیس کیمپ بنایا ہوا ہے۔ وہ کبھی بھی پاکستان کو مستحکم نہیں دیکھنا چاہتے۔ اشرف غنی اپنے اقتدار کے لیے امریکہ کو جانے نہیں دینا چاہتا، اس کے لیے سازشیں کر رہا ہے، اطلاعات تو یہاں تک ہیں کہ افغان انٹیلی جنس، طالبان کی صفوں میں شامل اپنے لوگوں سے اپنے ہی ٹھکانوں اور نیٹوکی مخبریاں کراتی ہے۔ پکی اطلاعات ہیں کہ مقابلوں میں افغان فوجی جان بوجھ کر اپنا اسلحہ تک چھوڑ دیتے ہیں تاکہ طالبان کمزور نہ ہوں، حملے کرتے رہیں اور وہ اسے جواز بنا کر نیٹو اور امریکہ کو روکے رکھیں۔‘‘
    دوست کی بات سن کر سیلانی کہنے لگا’’سوال یہ نہیں کہ کابل حکومت کیا کر رہی ہے، سوال یہ ہے کہ ہم کیوں نہیں کچھ کر رہے؟‘‘
    ’’ہم نے فوج کو ہر مسئلے کا حل سمجھ رکھا ہے ہر جگہ فوج کو گھسا دیتے ہیں، ہمارے صوبے کوئی خصوصی فورس کیوں نہیں بناتے اور کب تک نہیں بنائیں گے۔۔۔‘‘
    باخبر دوست کی کال کے دوران ہی کوئٹہ سے رشید بلوچ کی کال بھی آگئی، سیلانی نے اپنے دوست سے معذرت چاہی اور رشید بلوچ سے بات کرنے لگا۔ رشید بلوچ ایک نیوز چینل سے وابستہ ہیں اور کوئٹہ کے اچھے صحافیوں میں شمار ہوتے ہیں، وہ بتانے لگے کہ انہوں نے ہی اپنے نیوز چینل سے سارا واقعہ رپورٹ کیا ہے، وہ جائے وقوعہ پہنچے، سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھا اور رپورٹ کیا۔ عبدالرشید کا کہنا تھا کہ ٹریننگ سینٹر کی عقبی دیوار کئی جگہ سے ٹوٹی ہوئی ہے اور پھر بمشکل چار پانچ فٹ کی ہے، پھر سیکیورٹی کا حال یہ تھا کہ پورے ٹریننگ سینٹر کے لیے بمشکل پندرہ بندے بھی نہ تھے، دہشت گرد عقبی دیوار پھلانگ کر داخل ہوئے اور اپنا کام کر گئے‘‘۔
    ’’رشید بھائی!سنا ہے کہ صوبائی حکومت کو حساس اداروں نے خبردار کر دیا تھا، پھر انہوں نے کیوں کچھ نہیں کیا، یہ لوگ کیا چاہتے ہیں آخر۔‘‘
    ’’سیلانی بھائی!آپ یہاں آ تو چکے ہیں، حکومت کا حال تو سامنے ہی ہے، یہ صرف جھنڈے والی لینڈکروزور چاہتے ہیں، ان کے نزدیک سکیورٹی صرف اپنے گھروں کوٹھیوں بنگلوں کا نام ہے۔ یہاں حال تو یہ ہے کہ فوج، ایف سی نے اپنی تنصیبات کو تو سکیورٹی دے رکھی ہے، ہماری کسی کو پرواہ ہی نہیں۔ سچی بات ہے ہم صبح گھر سے نکلتے ہیں تو نہیں پتہ ہوتا واپسی بھی ہوگی کہ نہیں۔ کوئٹہ پریس کلب کو تین بار دھمکیاں مل چکی ہیں، جس کے جواب میں دو چرسی پولیس والے دیے گئے ہیں جو آنے والے کو روکتے ہیں نہ کچھ پوچھتے ہیں، ہم نے تو اب اپنے طور پر طے کیا ہے کہ کلب میں تین سے زیادہ دوست اکھٹے نہیں بیٹھیں گے، اگرخدانخواستہ اگر کچھ ہوتا ہے تو کم سے کم جانی نقصان ہو‘‘۔
    رشید بلوچ نے یہ بات کہہ کر گویا بات ہی ختم کر دی اور یہ بھی بتا دیا کہ کوئٹہ کے لوگوں کو اپنی حکومت کے سیکیورٹی اقدامات پر کتنا اعتماد ہے۔ چومکھی کی لڑائی میں نااہل صوبائی حکومتوں اور سول اداروں کا یہ حال ہو تو دہشت گرد تابوتوں پر قومی پرچم بچھانے کا موقع کیوں جانے دیں، وہ کیوں نہ سانحات کی فہرست میں اضافہ کریں، خوف و دہشت کے زرد رنگ سے پاکستانیوں کے چہرے رنگیں۔ سیلانی یہ سوچتے ہوئے سامنے رکھے اخبار میں قومی پرچموں میں لپٹے تابوتوں کی تصویر چھلنی دل لیے افسردہ نظروں سے دیکھتا رہا، دیکھتا رہا اور دیکھتا چلا گیا۔

  • عقل نہیں ڈالرز چاہئیں۔۔۔۔!-رؤف کلاسرہ

    عقل نہیں ڈالرز چاہئیں۔۔۔۔!-رؤف کلاسرہ

    m-bathak.com-1421245675rauf-kalasra
    دہشت گردوں نے ایک دفعہ پھر کوئٹہ میں ظلم ڈھا دیا ہے۔ حسب دستور اس کی مذمت جاری ہے اور جاری رہے گی۔ چند دن اجلاس ہوںگے، سخت کارروائی کرنے کے اعلانات کئے جائیں گے، قوم کو دو تین عالمی سازشیں سنائی جائیں گی اور پھرکاروبار زندگی معمول کے مطابق چلتا رہے گا۔

    تحقیقات کے بعدپریس کانفرنسیں کرکے ہمیں وہ راستے سمجھانے کی کوشش کی جائے گی جن کو عبور کرکے دہشت گرد پولیس ٹریننگ سکول تک پہنچے۔ پھر ان کے سہولت کاروں کے بارے میںبتایا جائے گا۔ ایسے لگے گا کہ جب دہشت گرد گھر سے حملہ کرنے نکلے تھے تو ہمارا کیمرہ ان کو دیکھ رہا تھا۔۔۔۔لیکن حملہ رک نہ سکا۔

    ہماری نااہلیوں کی داستان اتنی طویل ہوگئی ہے کہ اب ہر جگہ آپ کو اسی صورت حال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کوئٹہ میں جاری ظلم و ستم تو اپنی جگہ، حالت یہ ہو چکی ہے کہ اب اسلام آباد بھی ایسے لوگوں کے ہاتھ لگ گیا ہے جو اس کی تباہی و بربادی کے در پے ہیں۔ ملک کے پالیسی میکرز اور بیوروکریٹس سے آپ کیا توقع رکھتے ہیں!

    کوئٹہ کے پولیس ٹریننگ سکول کی چار دیواری تک نہیں تھی۔ باقی اندازہ آپ خود کر لیں۔ اگر ہوتی بھی تو ہم نے کیا کر لینا تھا۔ پشاور آرمی سکول کی تو عمارت بھی تھی، اس پر حملے کی دھمکی بھی آئی ہوئی تھی۔ وزیراعلیٰ بلوچستان فرماتے ہیںکہ اس سکول پر حملے کی خبر پہلے سے موجود تھی۔ سو، سب پتا ہوتا ہے۔ ہماری اوقات ہی یہ ہے کہ اس کے باوجود حملے ہو جاتے ہیں۔ ہمارے بچے مارے جاتے ہیں۔ جب ہم یہ رونا رو رہے ہیں کہ کوئٹہ کے ٹرینگ سکول کی دیوار تک نہ تھی تو اسلام آباد کی حالت بھی سن لیں۔

    میجر عامر ایک پرائیویٹ ہسپتال میں زیرعلاج ہیں۔ خیریت پوچھنے گیا تو حیرت کا پہاڑ مجھ پر آ گرا۔ ان کے بیٹے عمار نے بتایا کہ چند دن پہلے بابا کی طبیعت اچانک خراب ہوگئی۔ وہ انہیں اسلام آبادکے بڑے ہسپتال پمز لے کرگئے۔ وی آئی پی روم لیا۔ چوبیس گھنٹوں تک کوئی ڈاکٹر چیک اپ کے لئے نہ آیا۔ فریج کھولا تو اس کی بہت بری حالت تھی، واش روم کی حالت اس سے بھی زیادہ خراب! جو صاحب پمزکے سربراہ ہیں وہ ایک بڑے سیاسی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ چوبیس گھنٹے گزرنے کے بعد بابا کی طبیعت بگڑنی شروع ہوئی تو ان کی چھوٹی بہن نے والد کے دوست ملک ریاض کو فون کیا کہ انکل بابا کی طبیعت بگڑ گئی ہے اور ہسپتال میں انہیں اٹنڈکرنے والا کوئی نہیں۔ ملک ریاض آئے اور انہیں پرائیویٹ ہسپتال لے گئے، جہاں ان کی طبیعت بہتر ہو رہی ہے۔ پرائیویٹ ہسپتال میں آپ کی زندگی بچ سکتی ہے، سرکاری ہسپتال میں آپ صرف مرنے کا انتظار کریں۔

    میجر عامر وضع دار انسان ہیں۔ دوستوں کا گلہ نہیںکرتے۔ نواز شریف سے قریبی تعلق رہا، حرف شکایت زبان پر نہ لائے۔ اگر میجر عامر جیسا نامور اور وسیع تعلقات رکھنے والا انسان بھی سرکاری ہسپتال سے بھاگ جائے اور پرائیویٹ ہسپتال میں علاج کرانے پر مجبور ہو تو کیا وزیراعظم کے رحیم یار خان میں غریبوں کا علاج نہ ہونے پر بہائے گئے آنسوئوں کو ہمیں سنجیدہ لینا چاہیے؟ اگر اسلام آباد کے ایک ہسپتال کی یہ حالت ہے کہ چوبیس گھنٹے تک علاج شروع نہ ہوسکا توکیا ایسی حکومت کے سربراہ کو آنسو بہانے کا ڈرامہ کرنا چاہیے؟ خود کو چھینک بھی آ جائے تو اگلے دن لندن تشریف لے جاتے ہیں۔

    درست، جوکچھ کوئٹہ میں ہوا اس کے سامنے پمز میں میجر عامرکی کہانی عام سی بات لگے گی۔ لیکن اسے سنانے کا مقصد یہ تھا کہ جن حکمرانوں سے اسلام آباد کا ایک چھوٹا سا ہسپتال نہیں چل پا رہا، وہ ملک کو در پیش بڑے مسائل سے کیسے ہماری جان چھڑائیںگے؟ ہرجگہ اپنا بندہ لگانے کی کوشش ہوگی تو پھر گورننس اور سروس لیول تو نیچے ہی جائے گا!

    ہم سب جانتے ہیںکہ شاید پاکستان کے پاس دہشت گردی کے ناسورکا کوئی پائیدار حل موجود نہیں ہے۔ ہم اس خطے میں جاری پراکسی وار کا حصہ ہیں۔ کچھ پراکسی کھیل ہم کھیل رہے ہیں اور کچھ ہمارے دشمن۔ معصوم شہریوںکو مارا جاتا ہے اور الزام دوسرے پر لگا دیا جاتا ہے۔کابل،کوئٹہ، ممبئی۔۔۔۔ ہر جگہ بے گناہ شہری مارے جاتے ہیں۔ اسّی کی دہائی میں بھی اس طرح کی دہشت گردی ہوئی تھی۔ بازاروں میں اسی طرح بم دھماکے ہوتے تھے۔ اس وقت ہم افغانستان میں روس کے خلاف جنگ لڑ رہے تھے۔ جی ہاں، وہی روس جس کے فوجی دستے کچھ روز قبل ہمارے ہاں مشترکہ مشقیں کرتے پائے گئے۔ دوست اور دشمن بدلتے رہتے ہیں۔ اُس وقت امریکی ہمارے جان جگر تھے اور آج روس پر ہم صدقے واری جا رہے ہیں۔ اُس وقت امریکی ہماری جان تھے اور ہمیں بتایا جاتا تھا کہ وہ اہل کتاب ہیں، ان کی خواتین سے تو شادی جائز ہے جبکہ روسی تو کمیونسٹ ہیں، خدا تک کو نہیں مانتے۔ آج ہمیں بتایا جا رہا ہے، اسلامی فرمودات کے مطابق یہود و ہنود تمہارے دوست نہیں ہو سکتے۔ یوں آج ہم نے کیمونسٹوں سے دوستی کر لی ہے۔

    ہمارے ملک کے اصل حکمرانوں کے پاس جنرل ضیاء دور میں روس کے خلاف لڑنے کی ہزاروں دلیلیں تھیں۔ آج اسی روس کے ساتھ دوستی کی بھی وجوہات ہیں۔ ہمیں بتایا گیا تھا روس گرم پانیوں تک پہنچنے کے لیے افغانستان کے بعد پاکستان پر قبضہ کرے گا۔ روس نے تو آج تک بھول کر بھی گرم پانیوںکا ذکر نہیں کیا؛ تاہم پتا چلا کہ ہم تو افغانستان میں روسیوں کوگرم پانی تک نہ پہنچنے دینے کے لئے لڑتے رہے جبکہ گرم پانی پر نظریں تو چین کی تھیں۔ اب چین گوادرکے ذریعے بیرونی دنیا تک پہنچ گیا ہے۔ ہمیں کبھی کسی نے بتانے کی کوشش نہیں کی کہ ہم کیوں اورکب دشمن اور دوست بناتے ہیں۔

    افغانستان کو ہی لے لیں۔ چار سابق پاکستانی سفارتکاروں نے پچھلے دنوں ایک انگریزی اخبار میں اہم مضمون لکھا تھا۔ یہ چاروں عام لوگ نہیں۔ پوری دنیا دیکھی ہوئی ہے۔ اچھا برا سب سمجھتے ہیں۔ یہ سفارت کار بھی یہ کہنے پر مجبور ہوگئے کہ دنیا میں ہمارے بارے میں مشہور ہوگیا ہے کہ ہم دہشت گردوں کے ساتھی ہیں۔ غلط یا درست لیکن ہمار امیج یہی بن گیا ہے۔ مثلًا افغانستان ہمارے بارے میں کہتا ہے کہ ہم حقانی نیٹ ورک کے ذریعے وہاں کارروائیاں کراتے ہیں۔ بھارت کہتا ہے ہم مسعود اظہرگروپ کے ذریعے وہاں کارروائیاں کراتے ہیں۔ ہم یہی الزامات افغانستان اور بھارت پر لگاتے ہیں کہ وہ اپنی اپنی پراکسی کے ذریعے پاکستان میں حملے کراتے ہیں۔

    ان سفارتکا روں نے ایک اہم سوال اٹھایا: ہم ہر بار افغانستان میں طالبان کے ساتھ کیوں کھڑے ہوتے ہیں جو وہاں بربادی، قتل و غارت اور پس ماندہ قوتوں کے نمائندہ سمجھے جاتے ہیں؟ ہم افغانستان کے پڑھے لکھے، روشن خیال اور سمجھدار طبقات کے ساتھ کیوں تعلقات نہیں رکھتے؟ طالبان کو افغانستان میں پروموٹ کر کے ہم نے کیا نتائج حاصل کیے؟ پاکستان کو کیا فائدہ ہوا ہے؟ تیس برس سے زیادہ عرصے سے ہم افغانستان کے معاملات میں دخل اندازی کر رہے ہیں، اس کے بدلے میں افغانستان اور بھارت نے پاکستان میں تحریک طالبان کو ایکٹوکرکے ہمارے ساٹھ ہزار افراد قتل کرا دیے۔

    ہمیں یہ بات سمجھنی چاہیے تھی کہ افغانستان میں باون ملکوں کی افواج پر مشتمل عالمی فورس موجود ہے۔ ہم پوری دنیا سے ٹکر لے رہے ہیں۔ اب پوری دنیا دہشت گردی کا سامنا کر رہی ہے۔ ہمیں دنیا میں بھارت نے تنہا نہیں کیا بلکہ ہم نے خود اپنے آپ کو تنہا کیا ہے۔ ہمیں طالبان کو راضی کرنا چاہیے کہ وہ بھی کابل کے ساتھ تعلقات درست کریں۔ گلبدین حکمت یار کی طرح پاور میں شیئر لیں اور وہاں بیٹھ کر پاکستان کے مفادات کی نگرانی کریں۔ طالبان کابل حکومت میں بیٹھ کر ہمارے لیے زیادہ فائدہ مند ہو سکتے ہیں، پہاڑوں پر رہتے ہوئے کابل کی مارکیٹوں پر حملہ آور ہوکر بے گناہ افغانوںکو قتل کر کے نہیں۔ پاکستان کو بہر صورت افغانستان میں امن کرانے کے لیے آخری حد تک جانا ہوگا۔ میرے خیال میں اس وقت افغانستان میں امن قائم کرنا افغانوں سے زیادہ پاکستان کے لیے ضروری ہے۔اس پر ٹھنڈے دل سے غور کریں۔بڑھکیں بہت مار لیں اور اس کے نتائج بھی بھگت لیے۔

    چکوال کے ٹاپ آسٹرولوجسٹ پروفیسر غنی جاوید مجھے بڑے عرصے سے خبردار کر رہے ہیںکہ تم کالموں میں لکھو اور بار بار لکھو کہ پاکستان سمجھداری سے کام لے۔ پاکستان کے حالات 1971ء سے بھی زیادہ خراب ہونے جا رہے ہیں۔ ہمیں اس وقت دنیا کو دوست بنانے اور بچا کچھا پاکستان بچانے کی ضرورت ہے۔ میں انہیںکہتا ہوں پروفیسر صاحب! ہمارے عقلمندوں کو ان مشوروں کی ضرورت نہیں ہے۔وہ 1971ء میں بھی سمجھدارکہلاتے تھے اور اب بھی ماشاء اللہ سمجھدار ہیں۔ آپ لاکھ انہیں ستاروں کی چالیں سمجھاتے رہیں، انہیں آسمان پر ہونے والی تبدیلیوں سے خبردار کرتے رہیں، انہوں نے پھر بھی کرنی وہی ہے! یہ واحد قوم ہے جس نے ماضی سے سیکھنے سے انکار کیا ہوا ہے۔ جس روس کے ساتھ جنگیں لڑیں، ہزاروں بچے مروائے آج اس کے ساتھ فوجی مشقیں اور جس امریکہ کے لیے اپنے بچے مروائے آج اسے دشمن بنایا ہوا ہے۔ ان کو عقل کی نہیں ڈالروں کی ضرورت ہے۔جہاں سے ملیں، جیسے ملیں۔ پراکسی جنگوں میں دہشت گردوں کے ہاتھوں مرنے والے ہمارے نوجوان بچوںکی ماتم کرتی مائوںکا کیا ہے، وہ اور پیدا کر لیں گی۔۔۔۔!

  • اسامہ بن لادن کی موت کا 2001 سے 2011 تک 11 دفعہ اعلان کیا گیا – مولوی روکڑا

    اسامہ بن لادن کی موت کا 2001 سے 2011 تک 11 دفعہ اعلان کیا گیا – مولوی روکڑا

    دہشت گردی کو تقویت اس وقت ملی جب امریکہ نے نام نہاد ”وار آن ٹیرر“ نامی جنگ میں بےگناہ لوگوں کا قاتل عام کیا. 11 ستمبر، 2001ء کو نائن الیون کا واقعہ پیش آیا اور ٹھیک چھببیس دن بعد یعنی 7 اکتوبر 2001ء کو افغانستان پر چڑھائی کی گئی. اس دوران دنیا کو جو ثبوت دیا گیا وہ صرف یہ کہ فاکس نیوز، سی این این، بی بی سی پر کچھ ویڈیوز چلائی گئیں جن کی تصدیق بھی کرنا اتنا ہی مشکل ہے جتنا کہ سوات میں کوڑے مارے جانے والی ویڈیو کی تصدیق کرنا.
    یہاں تک کہ اسامہ کے خلاف آج بھی امریکہ میں باضابطہ طور پر کوئی قانونی ایف آئی آر درج نہیں ہے، اور نہ ہی کوئی عدالتی ٹرائل ہوا. فرانسیسی انٹیلی جنس ذرائع کے مطابق جولائی 2001ء میں اسامہ بن لادن کو گردے کے علاج کے لیے دبئی میں امریکی ہسپتال لایا گیا تھا اور وہاں پر ان کی ملاقات سی آئی اے کے اتاشی سے ہوئی. اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ 11 ستمبر کو پاکستان میں کہیں زیر علاج تھا. اسامہ اس جنگ میں”نو“ دفعہ مردہ قرار دیا گیا. اسامہ کو مردہ قرار دینے والے کوئی عام شخص نہیں تھے بلکہ،
    26 دسمبر، 2001ء کو فاکس نیوز کے مطابق طالبان نے،
    18 جنوری، 2002ء کو پرویزمشرف نے،
    17 جولائی، 2002ء کو ایف بی آئی میں انسداد دہشت گردی کے اس وقت کے سربراہ، ڈیل واٹسن نے،
    اکتوبر 2002ء میں، افغان صدر حامد کرزئی نے سی این این کو انٹرویو میں بتایا کہ اسامہ اس دنیا میں نہیں رہا.
    نومبر 2005ء میں، سینیٹر ہیری ریڈ کے مطابق اکتوبر میں پاکستان میں آنے والے زلزلے میں،
    ستمبر 2006ء میں، فرانسیسی انٹیلی جنس کی ایک لیک رپورٹ میں میں بتایا گیا کہ اسامہ مر چکا ہے،
    2 نومبر، 2007 ء کو، پاکستان کی سابق وزیر اعظم بینظیر بھٹو نے الجزیرہ پر ڈیوڈ فراسٹ کو بتایا کہ عمر شیخ نے اسامہ بن لادن کوقتل کر دیا تھا !
    مارچ 2009ء میں سابق امریکی فارن انٹیلی جنس افسر اور بوسٹن یونیورسٹی میں بین الاقوامی تعلقات کے پروفیسر ینجیلو Codevilla نے کہا کہ تمام ثبوتوں سے پتہ چلتا ہے کہ ایلوس Presley اسامہ بن لادن کے مقابلے میں آج زیادہ زندہ ہے.
    مئی 2009ء، پاکستان کے صدر آصف علی زرداری نے کہا کہ مجھے نہیں لگتا کہ اب اسامہ زندہ ہے ،
    اور 2011ء میں اوبامہ اور اس کے با اختیار عہدے داروں نے اسامہ کی موت کی تصدیق کی!

    ایبٹ آباد آپریشن کتنا سچا ہے، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اسامہ کو مارنے کی خاطر امریکا کو 1.5 کھرب ڈالر خرچ کرنے پڑے، اس کے ساتھ ساتھ تین ہزار امریکی فوجی ہلاک اور بیس ہزار کے قریب زخمی ہوئے. لیکن باوجود اس کے اسامہ کے مردہ جسم کو نہ میڈیا کو دکھایا گیا اور نہ امریکہ کی عوام کو جن کے ٹیکس سے افغانیوں اور پاکستان کے قبائلیوں کے چیتھڑے اڑائے گئے!

    دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مسلمان ممالک اور لیڈروں کا کردار کوئی خاص نہیں رہا، جہاں پاکستان اتحادی تھا وہاں مشرق وسطی میں عرب ممالک بھی امریکہ کے ساتھ کھڑے تھے. یوروپ اور امریکہ کے ساتھ دنیا بھر میں ہونےوالے جرائم اور دہشت گردی کو اسلام اور دہشت گردی کے کھاتے میں ڈال دیا گیا. انسداد دہشت گردی کے امریکی ماہرین کہتے ہیں کہ دہشت گردی میں اضافے کا سبب بےگناہ لوگوں کا قتل عام اور ان کے خاندان کا قتل ہے. سی آئی اے کے افسران کا ہی کہنا ہے کہ ڈرون حملے دہشت گردی میں اضافے کا سبب ہیں. اب سوال یہ ہے کہ یہ حملے کیونکر دہشت گردی میں اضافے کا سبب بنے، اس کا آسان جواب بےگناہ لوگوں کا قتل ہونا ہے. شکاگو کے پروفیسر Robert A. Pape جو بین الاقوامی سلامتی کے معاملات میں مہارت رکھتے ہیں،کے بقول وسیع تحقیق سے ثابت ہوتا ہے کہ ”خودکش دہشت گردی کی اصل وجوہات غیر ملکی فوجی تسلط ہےنہ کہ اسلام.“

    اگر مدرسے واقعی دہشت گرد پیدا کر رہے ہوتے تو مدرسوں کا سلسلہ نائن الیون کے بعد شروع نہیں ہوا تھا بلکہ دو سو سال پہلے سے برصغیر پاک و ہند میں مدارس موجود ہیں. مسلکی اختلاف تو اس سے پہلے سے موجود تھے لیکن ان اختلافات میں جارحانہ پن اس وقت آیا جب فرقہ واریت کی بنیاد پر عسکری تنظیمیں بنیں. ان تنظیموں کو ہر اس ملک نے سپورٹ کیا جس کا کہیں نہ کہیں کوئی پوائنٹ آف انٹرسٹ تھا. ان تنظیموں کو اپنے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا، میڈیا کا کردار انتہائی دوغلا اور لبرل اور سیکولر افراد کا جلتی پر تیل ڈالنے والا کردار کسی صورت بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا. وہ علمائے کرام جو حق زبان پر لائے، انھیں قتل کروا کر فرقہ واریت کو اور ہوا دی گئی.

    دہشت گردی کے اضافہ میں ایک اور اہم وجہ حکومتی سطح سے لے کر عوام تک یکطرفہ انصاف ہے، جس کا فائدہ دہشت گرد تنظیموں نے اٹھایا. ڈرون حملوں میں مارے جانے والے اور زخمی ہونے والوں کے لواحقین نے ایسی تنظیموں کے لیےایندھن کا کام کیا، اس سے دہشت گرد تنظیموں اور دوسرے ممالک کے پوائنٹ آف انٹرسٹ کو کامیابی ملی کیوں کہ ہم بحثیت قوم یکطرفہ انصاف اور یکطرفہ آنسو بہانے کے عادی ہو چکے ہیں.
    میرے ایک دوست نے کیا خوب کہا !
    Our sorrow, our sympathies and our EMPATHIES are directly proportionate to the quality of life a victim had
    ہمارے دکھ اور ہمدردی کی گہرائی کا انحصار اس بات پر ہے کہ نقصان اٹھانے والے کا میعار زندگی کتنا بلند تھا
    بلند معیار زندگی => زیادہ دیرپا غم ، زیادہ ہمدردی
    پست معیار زندگی => فی الوقت دکھ کا اظہار ، ہمدردی کی کمی یا فقدان
    (جاری ہے)

  • ذکر ایک مسلمِ غیور کا – احمد الیاس نعمانی

    ذکر ایک مسلمِ غیور کا – احمد الیاس نعمانی

    احمد الیاس نعمانی نام عبد الواحد تھا، حج کرلیا تھا اس لیے حاجی عبد الواحد کے نام سے مشہور تھے، ہمارے ہم وطن وہم محلہ تھے، نسلا ترک تھے اور مزاجا پٹھان؛ اب سے چند برس قبل جب انتقال ہوا تو عمر غالبا اسی کے لپیٹے میں رہی ہوگی؛ لیکن کیا مجال کہ بڑھاپا مزاج کی جوانی پر کچھ اثر انداز ہوسکے؛ موضوع گفتگو ہر وقت مسلمانوں کی فوقیت اور بہادری نیز غیر مسلموں کی تحقیر اوربزدلی رہتا؛ اور جس مجلس میں ہوتے اسے قہقہہ زار بنائے رکھتے؛ ہم وطن جاتے تو خواہش ہوتی کہ ایک نشست ان کے ساتھ ضرور ہوجائے؛ اور عام طور پر قسمت یاوری کرتی اور وہ کہیں نہ کہیں مل ہی جاتے؛ اور جب مل جاتے تو بس وہ ملاقات حاصل سفر بن جاتی؛ ان کے کچھ ملفوظات حاضر خدمت ہیں:

    چین کے ساتھ ہندوستان کی جنگ کا ذکر چل رہا تھا؛ اسی اثنا میں فرمایا: امریکہ نے ہندوستان کو مشورے دینے کے لیے اپنا ایک تجربہ کار فوجی جنرل بھیجا؛ جس نے ہند چین سرحد کا فضائی جائزہ لیا؛ وہ سرحد کے قریب کا ہندوستانی علاقہ دیکھ کر حیرت میں پڑگیا؛ اس نے دیکھا کہ سارے کھیتوں میں بم ہی بم پھیلے ہوئے ہیں۔
    اتنے بم تو ہمارے پاس بھی نہیں ہیں؛ اس نے ایک ہندوستانی افسر سے کہا۔
    سر! یہ بم نہیں، کاشی پھل (کدو) ہیں۔
    کاشی پھل؟….وہ کس لیے؟
    سر! فوج کے کھانے کے لیے۔
    فوج کو کاشی پھل کھلاؤگے؟ پھر وہ خاک لڑے گی؛ ارے بڑے کے نلے کھلاؤ نلے؛ تبھی تو کچھ لڑ سکے گی۔

    پھر وہ افسر نیچے اترا؛ اس نے ہندوستان کی صفوں کا جائزہ لیا؛ اگلی صف والے کا نام پوچھا؛ بتایا گیا عبد الشکور؛ سب سے پچھلی صف میں ایک فوجی کا نام پوچھا؛ تو معلوم ہوا کہ اس کا نام رام پرشاد ہے؛ فورا بولا اِسے آگے کرو اور اُسے پیچھے؛ ورنہ جب جنگ ہوگی تو عبد الشکور جام شہادت نوش کرلے گا اور یہ پیچھے سے بھاگ جائے گا۔

    بل کلنٹن کے زمانہ میں افغانستان پر حملہ ہوا تو ان دنوں وہ شمشیر بے نیام تھے؛ کسی شوخ نو عمر نے عرض کیا چچا: آج کے اخبار میں ہے کہ آج کلنٹن اور بن لادن کی کشتی ہوگی؛ بولے: اچھا صاحبزادے! اپنا والاشیر ہے شیر؛ چیر کے کھا جائے گا۔

    سوویت یونین کے خلاف افغان جہاد کا تذکرہ بہت کرتے؛ اور ہمیشہ یہ بات ضرور سناتے کہ روسی جہاز جب بم برساتے تو افغانی انہیں لُپک لیتے (لُپکنا بمعنی کیچ کرنا)؛ اور انہیں واپس روس پھینک دیتے؛ بس وہاں تباہی مچ جاتی۔

    اپنی نسل کے اکثر ”باحمیت“ ہندوستانی مسلمانوں کی طرح وہ بھی پاکستان سے بڑی والہانہ محبت کرتے تھے؛ ہندوستان اور پاکستان کا کرکٹ میچ ان کے لیے کسی معرکہء حق وباطل سے کم نہ ہوتا تھا؛ کسی نے ان کے سامنے پاکستان کے مشہور بلے باز جاوید میاں داد کی برائی کردی؛ سنتے ہی اکھڑ گئے؛ اور بولے میاں! ہاتھ پاؤں باندھ کر بھی ڈال دو گے تو بھی ہندوستان کے خلاف تو ففٹی بناکر ہی آئے گا۔

  • امریکہ نے 7 ارب ڈالر کا فوجی سامان کیوں جلایا؟ قادرخان افغان

    امریکہ نے 7 ارب ڈالر کا فوجی سامان کیوں جلایا؟ قادرخان افغان

    قادر افغان امریکہ کو اپنی واپسی کےلیے افغان فوج پر تکیہ کرنے کے سبب، سب سے بڑی پریشانی افغانیوں اور امریکی مخالف گروپ کا باہمی طور پر ایک دوسرے سے واقفیت و تمدن و ثقافت ہے، جس بنا پر وہ افغان فوجیوں پر بھی اعتماد کرنے سے تامل برت رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ کو اپنا سات ارب ڈالر مالیت کا وہ عسکری سامان تلف کرنا پڑا جو وہ پاکستان اور افغانستان میں کسی کو بھی نہیں دیناچاہتا۔ اندازے کے مطابق امریکی فوج نے ستر ہزار ٹن مجموعی وزن کے حامل ساز و سامان کوسکریپ میں بدل دیا تھا جس میں سات ارب ڈالر کی خطیر مالیت کے سامان کوتلف کر دیا گیا۔ ان میں بارودی سرنگوں کے خطرے سے محفوط تقریبا دو ہزار مشینوں کے علاوہ تعدادلاکھوں میں تھی۔ امریکہ افغانیوں کودفاع کےلیے ساز و سامان نہیں دے رہا اور اس کو اسکریپ میں تبدیل کر رہا ہے تو امریکہ کی دل جیتنے کی تمام ایسی کوششیں بھی لاحاصل ہوں گی کہ فوجی انخلا سے بیشتر پورے ملک میں ایسے مذہبی و تمدنی امور سے متعلق افسر مقرر کیے جائیں جو امریکیوں اور ان کے بعد افغان فوجیوں کے راہ میں رائے ہموار کریں کیونکہ ان کے خیال میں فوجی انخلا کے بعد سب سے بڑا چیلنج مقامی لیڈروں کا اعتماد حاصل کرنا ہے، جس میں امریکہ، بر طانیہ اور نیٹو ممالک ناکام نظر آتے ہیں۔

    امریکہ اپنے تئیں ایسی پلاننگ اپناتا ہے جس میں اس کی دانست کے مطابق سو فیصد کامیابی مل سکتی ہے گو کہ وقتی طور پر جبر کے ذریعے وہ قابض تو ہوجاتا ہے لیکن کسی کے دل پر راج کرنا ایسے ممکن نہیں ہے۔ بین الاقوامی تنظیم فرینڈز کمیٹی آف نیشنل لیجسلیشن کے مائیک شینک کہتے ہیں کہ ایسا کرنا ماحولیات کے لیے نقصان دہ اور خوفناک ہے، اوراس ملک کے لیے بُرا، جہاں یہ کیا جائے گا۔ لیکن ایسا کرنا اسلحہ سازوں کے لیے سود مند ہوگا کیونکہ انھیں مستقبل میں نئی فرمائشیں مل جائیں گی۔ لیکن یہ امریکہ کے ٹیکس دہنددگان کے سات ارب ڈالر کانقصان ہوگا۔” اور یہ سب امریکہ کے خلاف اٹھنے والی تحریک مدارس کے طلبہ سے ہوا جنھیں طالبان کا نام دیا گیا، کیونکہ اسلحہ تلف کرنے کا معاملہ عراق اور کویت جنگ میں نہیں ہوا تھا، یہ صرف افغانستان میں ہو رہا ہے کیونکہ امریکہ جانتا ہے کہ افغانستان میں علمی و مذہبی لحاظ سے جڑیں انتہائی مضبوط ہیں۔

    نیٹو افواج افغانستان کے مخصوص علاقوں کے علاوہ آزادی ساتھ کہیں نہیں جاسکتے، خودکشیوں کے بےتحاشا واقعات نے امریکی فوجیوں کو نفسیاتی مریض بنا دیا ہے۔ افغانستان اور پاکستان کے مسلمان جانتے ہیں کہ امریکہ و برطانیہ دوغلے پن کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ باقی یورپ بھی ان کے نقش ِ قدم پر ہے۔ فرانس کے وزیر داخلہ نے2012ء میں فرانس کے شہر سٹراس بگ میں ایک مسجد کے افتتاح کے موقع پر متعصبانہ بیان دیتے ہوئے کہا تھا کہ وہ نہیں چاہتے کہ اسلام زیر زمین پھیلنے والا مذہب بن جائے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ فرانس یورپ میں سب سے زیادہ مسلم آبادی والا ملک ہے جہاں پچاس لاکھ سے زیادہ مسلمان آباد ہیں۔ فرانس کےلیے یہ بہت پریشان کن بات ہے کہ اسلام تیزی کے ساتھ یورپ میں پھیل رہا ہے اور ان کے منفی پروپیگنڈے ناکام ہو رہے ہیں۔ برطانیہ اور امریکہ کے مکروہ چہرے یورپ کے پڑھے لکھے عوام کے سامنے آچکے ہیں۔اس کے علاوہ مسلم ممالک بھی سمجھ چکے ہیں ہمیں ان کے طلسمی شکنجے سے باہر نکلنا ہے لیکن بد قسمتی سے مسلمانوں کے درمیان مسلکی اور فقہی اختلافات کا بھرپور فائدہ اٹھانے میں یورپ ماہر ہے۔

    یہی وجہ ہے کہ جب امریکہ میں بننے والی گستاخانہ فلم نے مسلمانوں کے جذبات مشتعل کردیے تھے تو انھیں اسے فرو کرنے کے لیے ایسے ہتھکنڈے استعمال کرنے پڑے جس کے بعد میڈیا میں اس گستاخانہ فلم کی گونج کم ہوگئی۔ امریکہ اور افغانستان میں قرآن کریم کی بےحرمتی اور ناروے میں گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کے بعد اب شام میں مذہبی مقامات پر متحارب گروپوں سے حملوں کا مقصد مسلم امہ میں ایک ایسی انارکی پیدا کرنا ہے کہ جس میں فرقوں کے نام پر بٹے مسلمان آپس میں لڑنے مرنے پر تیار ہوجائیں اور امریکہ اس کوشش میں کامیاب نظر آتا ہے ورنہ آج تک ایسا نہیں ہوا کہ فوجی آمریت کے خلاف نام نہاد جمہوری حکومتیں پابندیاں عائد نہ کریں۔

    امریکہ اور اس کے اتحادی افغانستان کی زبوں حالی کا فائدہ اٹھانے کی کوشش میں اب افغانستان میں ایسا ماحول پیدا کرنا چاہتے ہیں جو پختون رواج کے برخلاف ہو۔ یقینی طور پر اس پر جہاں چہ میگوئیاں ہوں گی، وہاں پختون اپنی روایات کی بنا پر مشتعل بھی ہوسکتا ہے اور امریکہ کو مزید رکنے کے لیے بہانہ مل سکتا ہے کہ افغانستان اب بھی محفوظ نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ کی جانب سے اپنی فوج اور اسلحے کے انتقال کا مکمل ٹائم فریم نہیں دیا تھا، کبھی وہ اسلحہ تلف کرنے کا ارادہ ظاہر کرتا ہے تو کبھی اسے دیگر افغانستان کے ساتھ جڑے اور مخالف ممالک کو دینے کے لیے پلاننگ بناتا ہے۔