ہوم << گھر کے ادارے میں شوہر کی ذمہ داری - بشارت حمید

گھر کے ادارے میں شوہر کی ذمہ داری - بشارت حمید

بشارت حمید مرد اور عورت زندگی کی گاڑی کے دو پہیے ہیں، دونوں اپنے اپنے دائرہ کار میں اپنی ذمہ داریاں پوری کرتے رہیں تو زندگی محبت اور سکون کا گہوارہ بن جاتی ہے، لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے ہاں اکثر گھروں میں لڑائی جھگڑے اور پریشانی کا ماحول بنا رہتا ہے۔ اگر گھر میں جوائنٹ فیملی سسٹم ہو تو عموماً مرد اور خواتین اپنے قریبی عزیزوں کو اس بگاڑ کا ذمہ دار سمجھتے ہیں جبکہ میرے خیال میں اس کے ذمہ دار وہ خود ہوتے ہیں۔
سب سے پہلے تو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ ہم الحمدللہ مسلمان ہیں اور ہمارے دین میں زندگی کے ہر شعبے کے لیے ہدایت موجود ہے۔ جہاں والدین کے حقوق کا ذکر ہے وہیں قریبی رشتہ داروں، بیوی بچوں، دوستوں اور ہمسائیوں کے حقوق کے بارے بھی ہدایت موجود ہے۔
اللہ تعالٰی نے ہمیں مسلمانوں کے گھر میں پیدا کیا اور ہماری ہدایت اور رہنمائی کے لیے قرآن مجید جیسی عظیم الشان ہدایت حضور سرور کائنات صل اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ذریعے نازل فرمائی۔ اس احسان کا جتنا بھی شکر ادا کریں کم ہے۔ اس کلام پاک اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارکہ نے ہمارے لیے زندگی گزارنے کا ایک اسٹینڈرڈ مقرر فرما دیا ہے۔
انسان اگر اس ہدایت کو سامنے رکھتے ہوئے سارے معاملات کو ہینڈل کرتا رہے تو بہت کم امکان ہے کہ اسے کوئی پریشانی لاحق ہو۔ ہم پریشان اس وقت ہوتے ہیں جب ہم اپنے خاندان کے رسوم و رواج اور اپنی ذاتی خواہشات کے مطابق زندگی بسر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ خود ساختہ حقوق دوسروں سے مانگتے ہیں اور اپنا فریضہ ادا کرنا بھول جاتے ہیں۔
دو مختلف ماحول کے گھروں اور خاندانوں میں زندگی کے ابتدائی بیس بائیس سال گزار کر ایک ہی گھر بلکہ ایک ہی کمرے میں ایک دوسرے کے ساتھ زندگی بسر کرنے کا فیصلہ کرنے والے میاں اور بیوی کے درمیان مزاج کا، عادات کا اور پسند نا پسند کا اختلاف ہونا کوئی بڑی بات نہیں ہے۔
ایک مسلمان شوہر کو یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ ہمارے آقا صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ تم اپنی عورتوں کے ساتھ اچھا سلوک کرو اور یاد رکھو کہ عورت پسلی سے پیدا کی گئی ہے، اگر تم اسے زبردستی سیدھا کرنے کی کوشش کرو گے تو یہ ٹوٹ جائے گی۔ یعنی کہنے کا مقصد یہ ہے کہ عورت کی کمی اور کوتاہیوں کے ساتھ ایڈجسٹمنٹ کرو نا کہ ان پر کوئی زبردستی اور زیادتی کا ارتکاب کرو۔ جو لڑکی شوہر کے لیے اپنے سارے خاندان، بہن بھائی اور ماں باپ کو چھوڑ کر آتی ہے اسے جیتا جاگتا انسان سمجھنا چاہیے، وہ کوئی کمپیوٹرائزڈ روبوٹ نہیں ہے کہ کسی سوفٹ ویئر کی طرح بلا چون و چرا عمل کرتا رہے۔ اس کے جذبات اور احساسات کا خیال رکھنا شوہر کی ذمہ داری ہے۔ اللہ تعالٰی نے مرد کو عورت پر ایک درجہ عطا فرمایا ہے اور وہ اس وجہ سے کہ عورت کی کفالت اور نان نفقہ مرد کی ذمہ داری ہے۔ تو مرد حضرات کو اپنے اس درجے کے شایان شان کھلے دل کے ساتھ گھر والوں سے اچھا سلوک کرنا چاہیے۔
ایک عام غلط فہمی جو مردوں کے ذہن میں ہوتی ہے کہ میں بیوی کے سارے اخراجات اٹھا تو رہا ہوں اور کیا کروں۔ اس بارے میں عرض یہ ہے کہ انسان کی زندگی میں پیسہ ایک ضرورت تو ہے لیکن پیسہ ہی سب کچھ نہیں ہوتا۔ جس نے آپ کے لیے اپنا گھر اور خاندان چھوڑا اور آپ کے بچوں کو جنم دیا اور اب ان بچوں کے سارے معاملات بخوشی سنبھال رہی ہے، اسے آپ کی توجہ اور محبت کی بےانتہا ضرورت ہے۔ ایسے پیسے کو کیا کرنا جس کے ساتھ عزت نہ ہو۔ شوہر کو سوچنا چاہیے کہ یہ عورت اللہ تعالٰی نے زندگی کے ایک محدود وقت تک اس کی ذمہ داری میں دی ہے اور قیامت کے روز اس کے بارے میں جواب دینا ہوگا، اب وہ اس کے سہارے پر ہے اور مرد کی ذمہ داری بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے کہ وہ اس کا ہر طرح خیال رکھے اور اس کے حقوق بخوشی پورے کرے۔
گھروں میں کچھ نہ کچھ اختلاف رائے ہوتا رہتا ہے اور ہمارے ہاں اکثر مرد حضرات چھوٹی چھوٹی باتوں پر طلاق کی دھمکیاں دے دے کر بےچاری عورت کو ساری زندگی سولی پر ٹانگے رکھتے ہیں اور کئی عقل و شعور سے عاری لوگ طلاق جیسا انتہائی ناپسندیدہ کام کر بھی گزرتے ہیں، پھر جب دماغ آسمان سے نیچے اترتا ہے تو علماء سے راستہ نکالنے کی درخواست کرتے ہیں۔ یہ ہماری دین سے دوری کا نتیجہ ہے کہ ہم ہر وہ کام کرتے ہیں جو اللہ اور اس کے رسول کو پسند نہیں، پھر بھی ہمارا اسلام اتنا مضبوط ہے کہ اسے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
ایک حدیث مبارکہ میں ارشاد ہوتا ہے کہ شیطان اپنے چیلوں کی مجلس بلاتا ہے اور سب سے ان کی کارگزاری کی رپورٹ لیتا ہے۔ ایک چیلا کہتا ہے کہ میں نے ایک بندے کو اکسا کر دوسرے کو قتل کروا دیا تو شیطان کہتا ہے کہ تم نے کوئی بڑا کام نہیں کیا۔ اسی طرح دوسرے چیلے اپنی اپنی رپورٹ پیش کرتے ہیں لیکن شیطان مطمئن نہیں ہوتا۔ پھر ایک کہتا ہے کہ میں نے آج میاں بیوی میں لڑائی کروا دی۔ اس پر شیطان اتنا خوش ہوتا ہے کہ اٹھ کر اسے گلے لگا کر شاباش دیتا ہے کہ تم نے بہت اچھا کام کیا۔
ہمارا دین خاندان کے ادارے کو مستحکم بنانا چاہتا ہے۔ یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہیے کہ گھر میں لڑائی جھگڑے سے بچوں کی زندگی پر بہت برا اثر پڑتا ہے۔ ہمیں اپنا جائزہ لینا چاہیے کہ ہمارے افعال اللہ اور رسول صل اللہ علیہ و سلم کی پسند کے مطابق ہیں یا پھر شیطان کی پسند کے۔ جو لوگ کسی میاں بیوی کی لڑائی پر خوش ہوتے ہیں وہ بھی سوچیں کہ کہیں ہم شیطان کے چیلے کا کردار تو ادا نہیں کر رہے۔
اللہ تعالٰی ہمیں صراط مستقیم کی طرف ہدایت عطا فرمائے. آمین۔

Comments

Click here to post a comment