ہوم << حکومت، نظام اور عوام - عالیہ چودھری

حکومت، نظام اور عوام - عالیہ چودھری

ترقی پذیر سے ترقی یافتہ کی صف میں آنے کے لیے کسی ملک کا سسٹم ہی بنیاد بنتا ہے۔ وہ سسٹم جو دنیا میں اسے روشناس کرواتا ہے۔ ہر ترقی یافتہ اور مہذب ملک اپنے شہریوں کے لئے ایک مضبوط سسٹم کا ڈھانچہ فراہم کرتا ہے اور پھر عملی طور پر شہریوں کو اس میں زعم کر دیتا ہے۔ قومیں اسی صورت ترقی کرتی ہیں جب ان کو ملکی مفاد کی دوڑ میں شامل کیا جاتا ہے۔ ان کے حقوق کی پاسداری کی جاتی ہے تاکہ وہ محنت اور لگن کے ساتھ ملک کو آگے لے جا سکیں۔ اور ایسا بھی ممکن ہوتا ہے جب ملک کے اندر ایک مضبوط نظام موجود ہو، جو حکمران طبقہ اور عوام کے درمیان تفریق کا باعث نہ بنے، جو ملکی خوشحالی کی راہ میں رکاوٹ نہ بنے، جو اپنے لوگوں کی زندگیوں اور ضرورتوں کا تحفظ کر سکے۔
اگر اس سسٹم کو کرپشن زدہ، ذاتی مفاد اور اقتدار کی شاہی کے لیے بنایا جائے تو پھر ملک کے اندر بے چینی عروج پہ ہوتی ہے۔ تب حق دینا نہیں بلکہ کسی کا حق چھین لینا یاد رہتا ہے۔ حکمران طبقہ اپنی اقتدار کی کرسی کے مزے لوٹتا ہے اور عوام وہ عزت اور حکم شاہی کے بوجھ تلے دب جاتے ہیں۔ ہم جو فلاحی اسلامی ریاست کی بنیاد کو مظبوط کرنے والے تھے۔ ہمارے حکمرانوں نے اسے اسلامی تو کیا فلاحی ریاست بھی نہ بننے دیا۔ ہمارے بعد آزاد ہونے والے ملک کہاں سے کہاں پہنچ گئے، مخلص پالیسیاں بنائی گئیں جو انھیں ترقی کی راہ پہ آگے لے گئیں۔ دوسری طرف ہمارے ہاں اقتدار کی جنگ ملکی مفاد پہ ہمیشہ حاوی رہی ہے اور جو یہ جنگ جیت گئے انہوں نے وقت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے سارے فائدے لے لیے۔ عوام کا وہی حال رہا، ایک دوسرے کے پیچھے بھاگنا، کیا پتا کوئی آس رنگ لے آئے، خوابوں کو تعبیر مل جائے۔ مگر نظر کا دھوکہ وہی رہا اور عوام یہی دھوکہ آج بھی کھا رہی ہے۔ جب بے روزگاری عام ہو تب محنت اور جفا کشی کا جذبہ سرد پر جاتا ہے۔ اسی لیے آج کے دور میں ہر کوئی اپنے حالات میں الجھا ہوا بے بسی سے اس فرسودہ سسٹم کے ساتھ لڑ رہا ہے۔ معاشی قتل عام ہو رہا ہے، ادارے آگے بڑھنے کے بجائے اپنے نام کو ہی ڈبوتے جا رہے ہیں۔ نعروں اور وعدوں میں ملاوٹ ہے ذاتی مفاد کی۔ عوام کو اتنا کمزور کیا جا رہا ہے کہ وہ اب آواز اٹھائیں بھی تو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ یہ کیسا سسٹم ہے جہاں اعلیٰ ڈگریوں والے تو خاک در خاک گھوم رہے ہیں مگر جعلی ڈگریوں والے ملک کو چلا رہے ہیں۔ کیونکہ یہ ملک کو نہیں بلکہ اپنے ذاتی اکاؤنٹس کو بہتر بنا رہے ہیں۔ شخصی آزادی پہ آواز کون اٹھائے، اب تو آزادی رائے پہ پابندی لگ جاتی ہے۔ حکومت آسودہ حال ہے جبکہ سسٹم فرسودہ ہے۔ فارن پالیسی کے نام پر ہمارے پاس ذاتی دورے اور فوٹو سیشن ہی رہ گیا ہے۔ مظبوط ڈائیلاگ پالیسی ہمیں کہیں نظر نہیں آتی۔ سفارتکاری دوسرے ممالک کے ساتھ مل کر اپنے ملکی مفادات اور معشیت کو استحکام بخشتی ہے۔ ہم ابھی اس میں بہت کمزور ہیں ۔
حکومت اور سسٹم کو باہم جوڑا جا سکتا ہے مگر ان کو ہم معنی نہیں لے سکتے۔ دونوں کا اپنے دائرے میں رہتے ہوئے کام کرنا ہی بہتر ہے۔ حکومتیں آتی جاتی رہتی ہی، اگر نظام کو صحیح فعال بنایا جائے تو نئی آنے والی حکومت اس میں گڑ بڑ نہیں کر سکتی۔ حکومت پالیسی میکر ہے جبکہ ایک مظبوط سسٹم کی نشاندہی ملک کا ہر ادارہ اپنے طور پر کرتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ پاکستان کے اندر نظام کو یرغمال بنانے کی کوشش ہوتی رہی ہے۔ ابھی تک ہر ادارہ نوکر شاہی کے ہاتھوں تباہ ہو رہا ہے۔ عوام ووٹوں کے ذریعے حکمران منتخب کرتی ہے اور حکمران ایسے سسٹم کو فعال کرتے ہیں جو ان کو فوائد دے سکے۔ اقتدار سے پہلے عوام کا ساتھ، اقتدار ملنے کے بعد غیروں کا ساتھ بھلا لگتا ہے۔ ایک بہتر سسٹم ملک کے اندر چلے یا نہ چلے بہرحال اپنی سیاست پورے پانچ سال چلنی چاہیے۔
کسی بھی اچھے معاشرے کی نشاندہی اس کے اندر بسنے والوں کے اخلا قی کردار اور سوچ کی پختگی پر ہے۔ اگر بگاڑ ہی یہیں ہوگا تو پھر اس ملک کے اندر ایک مستحکم اجتماعی نظام مشکل سے ہی بن سکتا۔ باشعور معاشرہ ہی باطل اور حق کی پہچان کر کے شر کو خیر سے الگ کرتا ہے۔ جبکہ یہاں وعدوں کے بھنور میں پھنسے عوام بھی اپنی پسند کو لیے ایسے لوگوں کا دفاع کرتے ہیں جو انہی کو لوٹ رہے ہیں۔ لوٹتے بھی ایسے کہ خود معصوم ہی ٹھہرے۔ یہاں کی جمہوریت کے انداز ہی نرالے ہیں جبکہ ایوانوں کے اندر تحفظ دینے والے نہیں لوٹنے والے بیٹھے ہیں۔
جب خداکا نائب اس کے احکام کے بجائے اپنی حاکمیت کا پرچار کرتا ہے تو وہ دنیاوی طور پر بادشاہ ہی سہی مگر رب کے سامنے حقیر سے حقیر تر ہو جاتا ہے۔ دولت کی چمک شخصیت پہ اثر دکھاتی ہے، دوسری طرف آگے پیچھے ایک آگ ہے جو لپٹی ہے حقوق العباد کو اپنے پیروں تلے روندنے والوں کے ساتھ ۔ اپنی اکڑ کو زمین پہ قائم رکھنے والے
اس دن کیا کریں گے جب زمین اپنا آپ ظاہر کر دے گی۔ اگر ظلم و بے انصافی کی بنیاد ڈال کر ترقی اور امن کے خواب دِ کھائے جائیں گے تو انتشار کا پھیلنا یقینی ہے۔ ہمارے ہاں تقسیم کرنے والے ہی رہ گئے ہیں کیا؟ سوچنا ہوگا، بدلنا ہوگا ایسے سسٹم کو جو ملک اور عوام دونوں کو تباہ کیے جا رہا ہے۔
ایک حکم وہ جو مقررہ وقت تک ہے اور ایک وہ جو ہمیشہ قائم رہنے والا ہے۔ سمت کا صحیح تعین ہی کر کے چلنا ہو گا ورنہ مہذب اور تہذیب یافتہ قوموں کی صف میں کھڑا ہونا تو در کنار اپنی خود ساختہ حاکمیت کے ہی نذر ہو جائیں گے۔ نظام کو سہی کرنے سے پہلے خود کو اس قابل تو یہ بنا لیں کہ خود ہی سیاست کر سکیں۔ ملکی مفاد کی سوچ ہی مظبوط منصوبہ سازی کر سکتی ہے اور یہی ملک کو ایک ایسا سسٹم مہیا کرتی ہے جس کی بنا پر عوام آسودہ حال ہوں۔کرپشن کے نظام کو اکھاڑ پھیکنا ہو گا ورنہ عوام اور حکمرانوں کا نباہ ہونا مشکل ہے۔ جمہوریت کے ایوانوں کو حقیقی طور پر عوامی مفادات کی ترجمانی کرنی چاہیے۔ اگر عوام اور اداروں کو تباہ کرنا ہی رہ گیا ہے تو پھر اس جال میں پکڑ کرسی اور اقتدار کے مزے لوٹنے والوں کی بھی ہوگی۔

Comments

Click here to post a comment