ہوم << چھوڑ کر شہرِ ہوس عشق کے ویرانے میں (5) - ریحان خان

چھوڑ کر شہرِ ہوس عشق کے ویرانے میں (5) - ریحان خان

ریحان خان ا چاندنی چوک سے جامعہ ملّیہ اسلامیہ کی سمت جانے والی بس میں سوار تھے. شدّت کی گھمس تھی اور خلقت کا ہجوم بس کو طلسم ہوشربا کے عمروعیّار کی زنبیل سمجھ رہا تھا. مرقدِ آزاد کی پرسکون فضا کے بعد یہ جہنّم ہمارا مقدّر تھا جو گاہے گاہے مختلف اسٹاپ پر رکتا ہوا ’’ہل من مزید‘‘ کا نعرہ بلند کرتا تھا. ایک اسٹاپ پر ایک نورانی شکل والے بزرگ بس میں سوار ہوئے جن کی جیب میں نظر آرہا ’’اردو اکادمی‘‘ کا لفافہ یہ ثابت کرنے کےلیے کافی تھا کہ وہ شاعر یا ادیب قسم کی کوئی مخلوق ہیں، لیکن اس وقت سارا ادب اور شاعری تیل لینے چلی گئی جب ایک شخص سے ان بزرگ کی کہا سنی ہوگئی. بزرگ نے اس شخص کو بازاری انداز میں جھاڑ کر رکھ دیا.
میں سارا تماشہ دیکھتا ہوا سوچنے لگا کہ باہر ان بزرگ کی شیریں زبانی اور حسن کلام کے چرچے ہوتے ہوں گے، ان کے نفیس جملوں اور لطیف مصرعوں کی قسمیں کھائی جاتی ہوں گی لیکن ذرا سا مقابلہ آرائی ہونے پر ساری لطافت، نفاست، شوخی اور ادب کو چھٹّی دے دی گئی. خود شعراء کے ہاں بھی مقابلہ آرائی ہوتی ہے، کچھ عجب نہیں کہ ایک شاعر اپنے حریف شاعر کے لیے ویسے ہی’’لطیف خیالات‘‘ رکھتا جیسے اردو اکادمی والے یہ بزرگ اپنے حریف کے لیے رکھتے ہیں.
1920ء کے پرآشوب دور میں جب تعلیمی میدان میں ہندوستانی مسلمانوں کی نمائندگی علی گڑھ تحریک کررہی تھی. سر سیّد احمد خان برٹش گورمنٹ کے تئیں نرم گوشہ رکھتے تھے اور ان کے ساتھ مل کر تعلیمی میدان میں کارہائے نمایاں انجام دینے کی تمنّا رکھتے تھے. ان حالات میں عام ہندوستانی انگریز حکومت سے برگشتہ تھا، اسی برگشتگی کی نمائندگی کرتے ہوئے رئیس الاحرارjohar11 مولانا محمد علی جوہر علیہ الرحمہ نے جامعہ ملّیہ اسلامیہ کی بنیاد ڈالی، جس کا مقصد یہ تھا کہ انگریز حکومت کی مراعات حاصل کیے بغیر تعلیم و تعلّم کے عمل کو فروغ دیا جائے. جامعہ کے قیام کے سلسلے میں شیخ الہند مولانا محمود الحسن علیہ الرحمہ نے مولانا محمد علی جوہر علیہ الرحمہ کی بھر پور معاونت کی.
جامعہ کے قیام سے برسوں پہلے دہلی میں منعقد مسلم ایجوکیشنل کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مولانا محمد علی جوہر نے کہا تھا:
jamiamiliaislamia ’’بے شک ہمیں پوری قوت سے جدید علوم پڑھنے چاہییں اور ایک ایک مسلمان کو اس قدر سائنس پڑھنی چاہیے جس قدر یورپ نے بھی نہیں پڑھی، لیکن اس لیے کہ انسان کی زندگی میں ترقی ہو نہ کہ انسانوں کی موت و ہلاکت کے لیے. دنیا میں تہذیب و شائستگی پھیلانا اور امن وامان قائم کرنا ہمارا کام ہے. ہمیں دنیاحاصل کرنی چاہیے، لیکن دین سے بے نیاز ہوکر نہیں.‘‘
مولانا خود بھی آکسفورڈ کے طالب علم رہ چکے تھے اور ان کی فقید المثال انگلش سننے کے لیے اکثر انگریز بھی ڈکشنری کے محتاج ہوتے تھے. مولانا کا وہ خواب جامعہ کے قیام کی صورت میں تعبیر کی پہلی دہلیز پر قدم رکھ چکا تھا. ڈاکٹر ذاکر حسین جامعہ کے پہلے چانسلر مقرر ہوئے اور ان کے بھائی ڈاکٹر محمود حسین نے کراچی میں جامعہ ملّیہ کالج ملیر کی بنیاد رکھی جو متحدہ ہندوستان میں جامعہ ملّیہ اسلامیہ دہلی کی شاخ تھی. بس کا کنڈکٹر ’’جامعہ جامعہ‘‘ کی پکار لگانے لگا تھا. اس کا لہجہ مجھے گستاخانہ سا لگا. جامعہ ملّیہ ایک تہذیب کا نام ہے. فقر کے حامل غیور دیوانوں کی یہ میراث صحرا کے اس نخلستان کی مانند ہے جس کے درختوں کے سائے میں تھکے ماندے قافلے سکون کا سانس لیتے ہیں.
جامعہ کا محرابی ’’بابِ ابوالکلام آزاد‘‘ ہمارا استقبال کررہا تھا. بے اختیار چہرے پر ایک مسکراہٹ دوڑ گئی.....ع
’’میں کہاں کہاں نہ پہنچا تری دید کی طلب میں‘‘
jamiaImilliya_islamia-660x330 گیٹ سے گزر کر اندر داخل ہوئے تو داہنی جانب پھولوں کی کیاریوں میں ایک کتاب تھامے اسداللّہ خاں غالب مجسمے کی شکل میں نظر آئے. قریب ہی ’’گلستانِ غالب‘‘ کا بورڈ لگا ہوا تھا. اپنے دوست کاشف حسن کو فون کرکے جامعہ میں آمد کی اطلاع دی. کاشف جامعہ کے قریب بٹلہ ہاؤس میں مکین تھے. جامعہ آنے کا ایک مقصد کاشف سے ملاقات کی تمنّا بھی تھی. جامعہ میں البیرونی بلاک اور ابن سینا بلاک کے بورڈ دیکھ کر ذہن پر اس عظمت رفتہ کا خمار طاری ہوگیا جس سے ہم صدیوں قبل محروم ہوگئے ہیں. گزشتہ دنوں جامعہ کا اقلیتی کردار سلب کردینے کی تجویز حکومتِ ہند کی جانب سے آئی تھی. اس کا مقصد محض یہ تھا کہ ایک پوری قوم و ملّت حوصلہ کھو بیٹھے اور مایوسی کی شکار ہوجائے.
اٹارنی جنرل مکل روہتگی نے یہ تجویز پیش کی ہے، اور یہ فروغ انسانی وسائل کی وزارت یا بہ الفاظ دیگر اس وزارت کی سربراہ اسمرتی ایرانی کو دی گئی تھی. روہتگی کے مطابق تکنیکی طور پر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ’’اقلیتی کردار‘‘ والا ادارہ ہے نہ جامعہ ملیہ اسلامیہ. مطلب یہ کہ اسمرتی ایرانی اگر چاہیں تو اِن دونوں ہی یونیورسٹیوں کے انجینئرنگ، ڈاکٹریٹ اور ایسے ہی دوسرے اعلیٰ تعلیمی شعبوں میں، مسلمانوں کو ملنے والے پچاس فیصد داخلے کی آزادی کو سلب کرلیں اور اِن یونیورسٹیوں کو بھی اُن دوسری یونیورسٹیوں کی طرح ہی بنادیں، جہاں مسلمان اگر داخلہ لینا چاہیں تو’’قطار‘‘ میں لگ کر ’’میرٹ‘‘ کی بنیاد پر ہی آئیں۔ پھر داخلہ ملے تو ٹھیک نہ ملے تو چلتے پھرتے نظر آؤ. نریندر مودی سرکار کی ’’اقلیت دشمنی‘‘ خوب واضح ہے، اسی لیےعلی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور جامعہ ملّیہ اسلامیہ کے ’’اقلیتی کردار‘‘ کو چھین لینے کی یہ جو کوششیں ہورہی ہیں، ان پر کوئی حیرت نہیں ہے.
انہیں یہ جان لینا چاہیے کہ اس نخل کی آبیاری ناگپور کے بند کمروں میں بیٹھ کر سازشیں رچنے والوں اور احمدآباد کی سڑکوں پر چائے بیچنے والوں نے نہیں کی ہے. یہ ان دیوانوں کی میراث ہے جو برطانوی ایوانوں میں گرجتے تھے. جوہر کی روشن کی ہوئی اس شمع کے گرد پروانوں کا ایک حصار ہے. جامعہ سے متصل مسجد میں عصر کی ادائیگی کے لیے داخل ہوئے تو جماعت ختم ہوچکی تھی. لوگ باہر نکل رہے تھے. مصلّیان کی اکثریت نوجوانوں پر مشتمل تھی. یہ جامعہ کے طلبہ تھے. یقیناً یہ مسجد اللّہ کی محبوب مساجد میں سے ہوگی جس کے مصلّیان کی کی بڑی تعداد نوجوانوں پر مشتمل ہو.
جامعہ کا اقلیتی کردار چھینا جا سکتا ہے لیکن ان جوانوں کی روشن جبینوں سے سجدوں کے نقوش نہیں مٹائے جاسکتے جو یہ بتانے کےلیے کافی ہیں کہ یہ اس جامعہ کے طلبہ ہیں جس کی بنیاد رکھنے والا محمد علی جوہر برٹش پارلیمنٹ میں بھی وقت نماز آنے پر قبلہ رو ہوجاتا تھا.
نہ مسجد میں نہ بیت اللہ کی دیواروں کے سائے میں
نماز عشق ادا ہوتی ہے تلواروں کے سائے میں
(جاری ہے)
سفرنامے کی پہلی قسط یہاں ملاحظہ کریں
سفرنامے کی دوسری قسط یہاں ملاحظہ کریں
سفرنامے کی تیسری قسط یہاں ملاحظہ کریں
سفرنامے کی چوتھی قسط یہاں ملاحظہ کریں
سفرنامے کی چھٹی قسط یہاں ملاحظہ کریں
سفرنامے کی ساتویں قسط یہاں ملاحظہ کریں

Comments

Click here to post a comment