ہوم << خانقاہی نظام تعلیم-ڈاکٹر سیف ولہ رائے

خانقاہی نظام تعلیم-ڈاکٹر سیف ولہ رائے

بر صغیر ایک ایسا خطہ ہے جس میں مختلف اقوام اپنا اپنا ثقافتی و مذہبی نظام لے کر آتی رہی ہیں۔ آنے والے فاتحین اپنے اپنے کلچر کو یہاں مسلط کرنے میں کوشاں رہے ان کی اس کوشش کے مثبت و منفی دونوں طرح کے اثرات مرتب ہوئے۔ اس خطے میں سب سے بڑی قوم جو آباد تھی وہ ہندو تھے۔ ہندوازم بنیادی طور پر سوچوں کا مجموعہ ہے اور سوچوں کا مجموعہ ہمیشہ اختراعی خیالات کے زیر ہوتا ہے۔ ہندو پنڈتوں نے لفظی شعبدہ گری سے اپنے پیروکاروں کو مذہبی معاملات کہانیوں کی صورت میں سنائے۔ اس طرح خطے میں مذہبی رجحانات میں اضافہ ڈرامائی صورت میں ہوا۔ یہاں بسنے والے لوگ توہمات میں زیادہ مبتلا ہوئے، ایسا ہونا ایک فطری عمل تھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان کو توہمات و تعصبات سے نجات ہمیشہ مذہبی فکر سے ملتی ہے مگر جب مذہب ہی صرف ذہنی ذائقے کے لیے ہو اور اس پر سوالات اٹھانے پر بھی قدغن ہو تو ایسے عالم میں سوچوں کو مستقل گرفت میں رکھنا ممکن نہیں رہتا۔ اگرچہ ہندو مت قدیم مذاہب میں سے ہے مگر اس کے ماخذات (وید، مہابھارت اور رمائن) ایسے ہیں جن کا تعلق الہام سے کم ہے بلکہ ان میں فکر و فلسفہ، تعریفات، رسومات، منظومات کے علاوہ کہانیاں اور اسی طرح کی دیگر اصناف زیادہ پائی جاتی ہیں۔ شاعری یا کہانی انسانی مزاج کو ہمیشہ جکڑ کر نہیں رکھ سکتیں۔ اسی لیے یہاں کے لوگ بالخصوص ہندوازم کے پیروکار قلبی سکون سے عاری تھے۔ ان کا شعور انہیں اکساتا تھا کہ حقائق کی تلاش میں زندگی صرف کریں مگر مذہبی ٹھیکیداروں کی ملامت و ممانعت انہیں ایسا کرنے سے روکتی رہی۔
طلوع آفتاب رسالت ﷺ نے مذاہب عالم کو ایک نئی روشنی اور سوچ مہیا کی۔ اگرچہ ایک لاکھ کئی ہزار پیغمبران عظام آپ ﷺ کے ظہور اقدس سے پہلے بھی تشریف لا چکے تھے مگر آپ ﷺ کی آمد نے بت پرستوں کی متعصب سوچ پر توحید کا وار کاری ضرب کے ساتھ کیا۔ مکہ کی سنگلاخ زمین پر محسن انسانیتؐ کی تبلیغ نے پسی ہوئی انسانیت کو جینے کے اصول سمجھائے۔ اسلام کے یہ اصول قوانین بن کر معاشرے کے نظام میں شامل ہوئے۔ مکہ سے یہ روشنی نکل کر ہر خطے تک یوں پھیلی کہ جہالت کی ظلمتوں میں چراغ روشن ہونے لگے۔
برصغیر تک یہ روشنی بزرگان دین کے ذریعے پہنچی۔ برصغیر میں تہذیبی مذہبی رجحان بہت کم تھا بلکہ تشبیہی عبادات کے رجحانات زیادہ تھے۔ ایسے عالم میں جب توحید کا پیغام یہاں عام ہوا تو وہ بے چین قلوب و اذہان جو متعصبانہ مذہبی تہذیب، روایات اور افکار سے اکتائے ہوئے تھے ان کی سوچ کو ایک نیا راستہ مل گیا۔ صوفیا کی متصوفانہ تبلیغ نے ہندو ازم اور دیگر مذاہب کے جال کو کاٹنا شروع کیا۔ ان کی دھیمی گفتگو اور نرم لہجے نے لوگوں کو ان کی طرف مائل کیا تو ان کے سامنے ایک نئی روشنی ظاہر ہوئی جو ان کی بینائی سے ہوتی ہوئی باطنی فکر کو روشن کرنے لگی۔ ایک ایسے مذہب کی تصویر کشی ہونے لگی جس میں سوالات کرنے پر قدغن نہ تھی، جس میں رہبانیت کی مخالفت تھی، جس میں سادھو کی زندگی کو معاشرے سے جوڑنے کے ذرائع موجود تھے، جس میں محبت ایک نئے مزاج میں ظاہر ہوئی تھی، جس میں برداشت کو محبت کی بنیاد بنایا گیا تھا، محبت کا یہ سلجھا ہوا رویہ انسانیت کی عظمت و اہمیت کا سبب تھا۔ بقول شاعر

اک شجر ایسا محبت کا لگایا جائے
جس کا ہمسائے کے آنگن میں بھی سایا جائے

مندروں کی گھنٹیوں کی آوازوں کو خانقاہوں کے سکون نے اپنے زیر اثر اس انداز میں کیا تھا کہ تیر و تلوار و نیزہ بھی نہ چلا تھا مگر اعلان فتح صوفیا کی درگاہوں سے ان کی متصوفانہ شاعری کے ذریعے ہونے لگا۔ بلند و بالا بتوں کے سامنے پیشانیاں رگڑنے والے، سجدوں کی نرمی میں اپنی پیشانیوں کو رکھنے پر آمادہ ہونے لگے۔
پر سکون اور بے خوف انداز عبادت نے ان کے رویوں کو نا محسوس طور پر یہ سمجھایا تھا کہ خالق کل کے بعد وصف خالقیت صرف اور صرف انسان کی سوچ میں ہے پھر خالق اپنی ہی تخلیق کے سامنے کیوں پیشانیاں رگڑ کر اپنی عظمت کی تضحیک کرے۔ اس خالق کل کی طرف دل مائل ہونے لگا جو دکھائی نہ دینے کے باوجود بھی ہر طرف، ہر لمحہ موجود تھا۔ اس کے ہونے کا احساس صوفیا کی تعلیمات نے اور نمایاں کر دیا کہ ہر کوئی اس رب کو اپنے دل میں محسوس کرنے لگا اس کے شواہد کو تخلیق کائنات میں ڈھونڈنے لگا اور یہ خواہش پختہ کرنے لگا ۔ بقول شاعر

تجھ کو دیکھا نہیں محسوس کیا ہے میں نے
آ کسی دن مرے احساس کو پیکر کر دے

بزرگان دین کی تعلیمی کاوشوں اور تبلیغی کوششوں کا محور کتاب ہدایت اور اسوۂ حسنہ ﷺ تھا۔ دراصل وہ لوگ جو کہانیوں کے کرداروں کی خود ساختہ پرستش پر مجبور تھے یا محدود تھے ان کے سامنے پہلے بار حقیقی کردار کی صورت نمایاں ہوئی ۔
ان کے سامنے اصل پیشوا اپنے عظیم کردار کے ساتھ سامنے آئے تھے۔ ان کے لیے یہ کیفیت حیرت انگیز اور خوشگوار تھی، اس لیے کہ انہوں نے پہلی بار باطنی سکون کو عالم یقین میں محسوس کیا تھا۔ کچھ نہ دیکھ کر بھی خانقاہی نظام نے انہیں سب کچھ دکھا دیا تھا اس لیے کہ محدود مذہبی سوچ سے ان کا واسطہ کمزور ہوا اور وسعتوں والی لا محدود فکر کی طرف وہ عالم یقین و محبت میں بڑھے۔ با شعور خمار نے ان کی فکر کو متعصبانہ نشے سے آزادی دلا دی۔
ایسا ہونا فطری تقاضا تھا اس لیے کہ دستور کائنات کا مطالعہ کریں تو واضح ہوتا ہے کہ ہر چیز ایک خاص ترتیب کے ساتھ محو سفر ہے اور اپنا راستہ بنانے میں مگن ہے جس طرح پانی ہمیشہ نشیب کی طرف ہی بہتا ہے اور یہی اس کی ترتیب کا حسن بھی ہے بقول شاعر

بہتا ہے ہمیشہ نشیبوں کی طرف ہی
دریاؤں کا پانی بھی سمجھ دار ہے کتنا

اسی طرح اسلام مکہ سے پھیلنا شروع ہوا تو اس کا رخ عجم کی طرف تھا۔ اہل عرب کی سخت گیر یوں کو نرم مزاجی میں بدلنے کے بعد اہل عجم کی متعصبانہ سوچ کو حقیقی روایت عطا کرنا ضروری تھی۔ یہی وجہ ہے کہ اصحاب صفہ سے ہوتا ہوا یہ دین حق کا سفر کوفہ، دمشق، بغداد، قسطنطنیہ، شیراز و اصفہان ، غزنی وہرات، لاہور، آستانہ عالیہ سیال شریف اور دلی سے ہوتا ہوا اپنی جامعیت اور اوصاف پاکیزہ لے کر ایک فکری کائنات کو اس انداز میں ترتیب دیا کہ اس کی تشکیلی صورت خانقاہی نظام میں ظاہر ہوئی۔ اس فکر کا نمونہ صرف صوفیا یا بزرگان دین تک ہی محدود نہ رہا بلکہ ادب، فکر و فلسفہ، نفسیات، منطق اور شاعری میں بھی اس کے اصول نمایاں ہوئے۔ اسی لیے اقبالؒ اہل یورپ کی فکر سے متاثر نہ ہوئے بلکہ وہ حضرت ابراہیمؑ، حضرت اسماعیلؑ اور اسوۂ حسنہ ؐسے روشنی حاصل کرتے ہیں اور اس روشنی کو مزید تقویت انہیں اس خطے کے صوفیا سے اور بزرگان دین سے ملتی ہے۔ وہ سینہ تان کر دعویٰ کرتے ہیں

خیرہ نہ کر سکا مجھے جلوۂ دانش فرنگ
سرمہ ہے میری آنکھ کا خاک مدینہ و نجف

روشنی کا یہ تسلسل دلی اور لکھنو کے علاوہ، اجمیر شریف، اورنگ آباد، داتا علی ہجویریؒ، لاہور، بہاؤالدین زکریاؒ، ملتان، آستانہ عالیہ سلطان باہوؒ، عبدالطیف بھٹائیؒ، عبدالرحمان بابا،آستانہ عالیہ تونسہ شریف، آستانہ عالیہ گولڑہ شریف ، بھیرہ شریف، آستانہ عالیہ سیال شریف (حضور خواجہ غریب نوازؒ) کی صورت میں آج بھی قلوب و اذہان کو روشن کرنے میں مستعد کردار ادا کرنے میں محو ہے۔ اس خانقاہی نظام تعلیم نے مقامی زبان و ادب کے علاوہ اردو زبان و ادب کی ترویج میں بھی اعلیٰ کردار ادا کیا ہے جس کی بازگشت آج بھی شعور پختہ کرنے میں مصروف عمل ہے۔

Comments

Click here to post a comment