ہوم << اردو ادب میں ناول نگاری:حصہ دوم- ڈاکٹر سیف ولہ رائے

اردو ادب میں ناول نگاری:حصہ دوم- ڈاکٹر سیف ولہ رائے

ردو ادب کے۱٥٥ (ایک سو پچپن) شاہکارو بہترین ناولوں کا انتخاب پیش خدمت ہے ۔
۱۔ فسانہ آزاد ۔۱۸۸۰ ۔پنڈت رتن ناتھ سرشار ۔۔صحافتی ناول۔ لکھنؤ کی تہذیب و معاشرت
۲۔ مراۃ العروس ۔۱۸۶۹۔ مولوی نذیر احمد ۔۔ اُردو کا پہلا ناول۔ اصلاحی اور اخلاقی تربیت
۳۔ امراؤجان ادا۔۱۸۹۹۔ مرزا ہادی رسوا۔۔معاشرت وثقافت
۴۔ گئودان ۔۱۹۳۶۔ منشی پریم چند۔۔ یہ ناول ہندوستانی دیہی معاشرے میں کسانوں کے بارےجبر اور استبداد کی ایک واضح جھلک دکھاتا ہے۔
۵۔ آگ کا دریا ۔ ۱۹۵۹۔قراۃ العین حیدر(گیان پیٹھ ایوارڈ یافتہ)۔۔تاریخ و فلسفہ
۶۔ اداس نسلیں ۔ عبداللہ حسین(آدم جی ایوارڈ یافتہ)۔۔جنگ آزادی
۷۔آنگن ۔ ۱۹۶۲۔خدیجہ مستور(آدم جی ایوارڈ یافتہ)۔۔سیاسی و رومانی،انڈیا اور پاکستان کی آزادی
۸۔خدا کی بستی ۔۱۹۵۸۔ شوکت صدیقی(آدم جی ایوارڈ یافتہ)۔۔ افلاس زدہ معاشرے اور مزدور طبقے کی سماجی، معاشی، اقتصادی اور ذہنی اُلجھنوں کو موضوعِ بحث بنایا گیا ہے۔
۹۔ بستی ۔ ۱۹۷۹۔انتظار حسین ۔۔(آدم جی ایوارڈ یافتہ)۔۔ہجرت اور مشرقی پاکستان کا المیہ
۱۰۔ بہاؤ ۔۱۹۹۲۔ مستنصر حسین تارڑ۔۔وادی ٗ سندھ کی تہذیب اورایک قدیم دریا سرسوتی کے معدوم اور خشک ہونے کا بیان
۱۱۔راجہ گدھ ۔ ۱۹۸۱۔بانو قدسیہ (آدم جی ایوارڈ یافتہ) ۔۔یہ ناول نفسیاتی پہلوؤں کے ہمراہ رزق حلال اور حرام اور معاشرتی رویوں میں حلال اور حرام کی ٹکراؤ پر مبنی ہیں۔دوسری جانب یہ ٹرائی اینگل لوسٹوری سیین ہے۔
۱۲۔ راکھ۔ ۱۹۹۷۔مستنصر حسین تارڑ(وزیراعظم ادبی ایوارڈ یافتہ)۔۔سقوط مشرقی پاکستان
۱۳۔ خس و خاشاک زمانے ۔ ۲۰۰۸۔مستنصر حسین تارڑ۔۔یہ ناول پاکستانی معاشرے کی اخلاقی اور تہذیبی اقدار اور اسکے بدلتے رویوں اور ۱۹۲۹ سے لے کر ۲۰۱۰ تک کی سماجی اور ثقافتی زندگی کو بیان کرتا ہے۔
۱۴۔ کئی چاند تھے سرِآسماں ۔۲۰۰۶۔ شمس الرحمان فاروقی۔۔یہ ناول انیسویں صدی کے برصغیر کی مکمل تصویر ہے۔تاریخی ادب ہے۔
۱۵۔ غلام باغ۔۲۰۰۷۔ مرزا اطہر بیگ۔۔یہ ناول علامتی،حقیقی،تجریدی اور اینٹی ناول ہےاور یہ اردو ادب میں ایک اچھوتا تجربہ ہے۔
۱۶۔ دھنی بخش کے بیٹے۔ ۲۰۰۸۔حسن منظر۔۔یہ ناول اپنے وسیع کینوس ،موضوعاتی تنوع،جدید وقت کے مسائل سے آگاہی دیتا،پسے ہوئے طبقوں کی آواز بنتا اور بڑھتی تہذیبی کشمکش کو عیاں کرتا حسن منظر کا نمائندہ ناول ہے۔
۱۷۔بھاگ بھری ۔ صفدر زیدی۔۔اس ناول کا بنیادی موضوع دہشت گردی ہے۔
۱۸۔ دُکھیارے ۔۲۰۱۴۔ انیس اشفاق۔۔یہ ناول لکھنو کی زوال پذیر تہذیب کی عکاسی کرتا ہے۔
۱۹۔ چاکیواڑہ میں وصال ۔۱۹۶۴۔ محمد خالد اختر۔۔ لیاری کے علاقے چاکیواڑہ کے پس منظر میں لکھی گئی اس تخلیق میں چاکیواڑہ کے کردار زندہ ہوجاتےہیں۔
۲۰۔ موت کی کتاب۔ ۲۰۱۱۔خالد جاوید۔۔اس ناول میں ایک حد درجہ مصیبت زدہ انسان کی کہانی ہے جو آخر تک دردو تکلیف سہتا ہے۔
۲۱۔لے سانس بھی آہستہ۔۲۰۱۱۔مشرف عالم ذوقی۔۔یہ ناول ہندستانی مسلمانوں کی سائکی، سماجی صورت حال اور معاشرتی کشمکش کا منظرنامہ بیان کرتا ہے۔
۲۲۔جاگے ہیں خواب میں ۔۲۰۱۵۔ اختر رضا سلیمی۔مابعد الطبیعات ، نفسیات،مذہبیات،تاریخ سائنس اور فلسفہ جیسے مختلف علوم کو ایک لڑی میں پرویا گیا ہے۔
۲۳۔ چار درویش اور ایک کچھوا۔۲۰۱۸۔ سید کاشف رضا۔۔ مرد اور عورت کے تعلق سے پھوٹ پڑنے والی جنس کی لذت،سیاسی اکھاڑ پچھاڑ،مذہبی تعصب اور دہشت گردی کو موضوع بنایا گیا ہے۔
۲۴۔نولکھی کوٹھی ۔۲۰۱۵۔ علی اکبر ناطق۔۔ یہ ناول متحدہ ہندوستان کے وسطی پنجاب میں 1930 ء کی دہائی سے لے کر 1990 ء کی دہائی میں زندگی کرنے والے چند افراد کی زندگیوں کے گرد گھومتی کہانی ہے۔
۲۵۔ روحزن(ساہتیہ اکیڈمی انعام یافتہ) ۔۲۰۱۶۔ رحمٰن عباس۔۔ روحزن کی کہانی میں، بارش، جنس اور محبت تثلیث کی صورت ابھرتی ہے اور مجسم ہوتی ہے۔
۲۶۔ قربت مرگ میں محبت ۔۲۰۰۱۔ مستنصر حسین تارڑ۔۔اس ناول میں تارڑ سر نے داخلی مسائل اور اس کے زیر اثر جنم لینے والے نفسیاتی مسائل کو موضوع بنایا ہے، اس میں ایک اور معاشرے کےاہم سماجی مسئلے کی طرف اشارہ ہے اور وہ نوجوان نسل کی زندگی کی مصروفیا ت میں گم ہو کر اپنے بزرگوں کو نظر انداز کرنا ہے۔
۲۷۔علی پور کا ایلی۔۱۹۶۱۔ ممتاز مفتی۔۔سوانحی ناول
۲۸۔ جندر۔۲۰۱۷۔ اختر رضا سلیمی۔۔جندر میں ایک مرتا ہوا شخص ہے اورجندرسے منسلک مرتی ہوئی تہذیب کی کہانی ہے۔حال ہی میں پشاور یونیورسٹی نے جندر کو بی ایس اردو کے نصاب کا حصہ بنایا ہے۔
۲۹۔ فردوس بریں۔ ۱۸۹۹۔عبدالحلیم شرر۔۔ تاریخی ناول، اردو ادب میں حشیشیوں اور ان کے سردار حسن بن صباح کی مصنوعی جنت کی داستان
۳۰۔ اے غزال شب۔۲۰۱۳۔ مستنصر حسین تارڑ۔۔یہ ناول سوویت یونین کے زوال کے بعد،پھیکے پڑ چکے سرخ رنگ کی کہانی ہے۔تاریخی ادب
۳۱۔ قلعہ جنگی۔۲۰۰۲۔ مستنصر حسین تارڑ۔۔یہ ناول افغانستان پر اتحادی افواج کی یلغار کے ردعمل میں ہونے والی قتل وغارت کے بعد کی کہانی ہے۔
۳۲۔ آخر شب کے ہم سفر۔ ۱۹۷۹۔قرۃالعین حیدر۔۔اس ناول کے اندر ہندوستان،پاکستان اور بنگلہ دیش کے شورش اور انقلابات کو محور بنایا گیا ہے۔
۳۳۔ حسن کی صورت حال ۔خالی جگہیں پُر کرو۔۲۰۱۵۔ مرزا اطہر بیگ۔۔اس ناول میں انسانی نفسیات کے مختلف پہلوؤں کو واضح کیا گیا ہے۔
۳۴۔ ۔گردشِ رنگ و چمن۔ ۱۹۸۷۔قراۃالعین حیدر۔۔اس ناول کا موضوع قدیم اور جدید کے درمیان کشمکش ہے۔ایک دستاویزی ناول
۳۵۔ حبس ۔ ۲۰۱۹۔حسن منظر۔۔برسوں پر پھیلی ہوئی ناانصافی کا المیہ جو مغرب کے دوہرے معیا ر کا آئینہ دار ہے۔
۳۶۔مرگِ انبوہ۔۲۰۱۹۔ مشرف عالم ذوقی۔۔یہ ناول دراصل ایک طویل نوحہ ہے،ہندوستان میں بسنے والے مسلمانوں کی کھتا ہے۔
۳۷۔ پوکے مان کی دنیا۔۲۰۰۴۔ مشرف عالم ذوقی۔۔پو کے مان کی دنیا‘ میں ذوقی نے عہد حاضر کی تکنیکی ایجادات کے پس منظر میں بچوں کی نفسیات میں در آنے والی تبدیلیوں کو پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔
۳۸۔ مٹی آدم کھاتی ہے۔۲۰۰۷۔ محمد حمید شاہد۔۔ناول نگار نے اپنے اس ناول کو انسان اور اس کی محبتوں کی کتاب قرار دیا ہے۔
۳۹۔ نادار لوگ۔۱۹۹۷۔ عبداللہ حسین۔۔سانحہ مشرقی پاکستان کے تکلیف دہ سیاسی اور سماجی حالات کے تناظر میں تخلیق کیا گیا۔
۴۰۔ توبۃ النصوح۔۱۹۷۷۔ ڈپٹی نذیر احمد۔۔ اولاد کی تربیت ، سماجی و تہذیبی مسائل
۴۱۔دشتِ سوس۔۱۹۸۳۔ جمیلہ ہاشمی۔۔یہ ناول بغداد کے درویش صوفی حسین بن منصور حلاج کی زندگی سے متعلق ہے،
۴۲۔ آتشِ رفتہ۔۱۹۶۱۔ جمیلہ ہاشمی۔۔پنجاب میں خاندانی جھگڑے کی وجہ سے پیدا ہونے والی دشمنی اس ناول کا موضوع ہے۔
۴۳۔ تلاشِ بہاراں(آدم جی ایوارڈ یافتہ)۔۱۹۶۱۔ جمیلہ ہاشمی۔۔ہندوستان میں عورت پر ہونے والے جبر و استحصال کو پیش کیا ہے۔
۴۴۔ دستک نہ دو۔۱۹۶۴۔ الطاف فاطمہ۔۔یہ ناول تقسیم ہند سے پہلے چند برسوں کے بارے میں ہے،اس میں متحدہ ہندوستان کے شاندار ماضی کا ذکر ہے۔
۴۵۔ نشان ِمحفل۔۱۹۷۵۔الطاف فاطمہ۔۔خواتین کے بارے میں
۴۶۔ قید ۔ ۱۹۸۹۔عبداللہ حسین۔۔ پاکستان کے کسی گاؤں میں نمازیوں نے کسی نوزائید ناجائز بچے کو سنگسار کر کے مار ڈالا، اسی سچے واقعے کو بنیاد بنا کر مصنف نے تابا بانا بُنا ہے۔
۴۷۔ پریشر ککر۔۱۹۸۳۔صدیق سالک۔۔اس ناول میں پاکستانی معاشرےکے مسائل،جبر اور گھٹن کو موضوع بنایا گیا ہے۔
۴۸۔میں اور وہ۔۱۹۸۳۔ انیس ناگی ۔۔الجزائر میں مقیم ایک پاکستانی کی کہانی ہے جو وہاں رہنا چاہتا ہے ،خاندان کے لئے کچھ کرنا چاہتا ہے مگر اسے بہت مشکلات کا سامنا ہے۔
۴۹۔محاصرہ۔ ۱۹۹۲۔انیس ناگی۔۔تاریخی ناول
۵۰۔ مکلی میں موت۔غافر شہزاد۔۔یہ ناول قبروں،مزاروں اور مقبروں سے جڑی زندگی کے رشتے اور عقیدے کے بارے میں ہے
۵۱۔ زینو۔۲۰۰۳۔ وحید احمد۔۔یہ ناول فلسفہ،حکمت،دانش اور قولی نظریات سے بھر پور ہے۔
۵۲۔کنجری کا پل۔۲۰۱۱۔ یونس جاوید۔۔یہ ناول لاہور کے تناظر میں دنیا کے قدیم ترین پیشے کے وہ زاوئیے سامنے لاتا ہے جس کا ہمارا ادبی ورثہ اٹا پڑا ہے۔
۵۳۔آبلہ پا(آدم جی ایوارڈ یافتہ)۔۱۹۶۴۔ رضیہ فصیح احمد۔۔اس ناول میں پاکستانی معاشرے کے عمومی مسائل کی عکاسی کی گئی ہے۔
۵۴۔ گرگ شب ۔۱۹۷۷۔ اکرام اللہ ۔۔اس ناول میں مصنف محرمات کے جنسی تعلقات کے نتیجے میں پیدا ہونے والی ناجائز پیدائش کی وجہ سے اس پر مرتب ہونے والے تباہ کن نفسیاتی اثرات اور ان میں ناکامی کا جائزہ لیتے ہیں۔
۵۵۔ٹیڑھی لکیر۔۱۹۴۴۔ عصمت چغتائی۔۔ ان کی اپنی زندگی کے پس منظر سے ابھرا۔ اس کا مرکزی کردار شمن ان کی ذاتی اور نفسیاتی زندگی کا آئینہ ہے۔
۵۶۔ اک چادر میلی سی۔۱۹۶۲۔راجندر سنگھ بیدی۔۔ عورت کے مثبت اور منفی روپ کو پیش کرتا ہے۔
۵۷۔جنت کی تلاش۔۱۹۸۲۔ رحیم گل۔۔یہ ایک رومانی ناول ہے جس میں ایک نئے انداز،نئےزاویے اور انوکھے تجربے کے ساتھ محبت کو پیش کیا ہے۔
۵۸۔ تن تارارا۔۱۹۷۱۔رحیم گل۔۔رومانی ناول
۵۹۔عشق کا عین ۔۱۹۹۸۔ علیم الحق حقی۔۔عشق مجازی سے عشق حقیقی تک کے سفر کی داستان
۶۰۔ جب زندگی شروع ہوگی۔۲۰۱۱۔ ابو یحیٰ۔۔ناول کا مرکزی خیال آخرت کی زندگی ہے۔
۶۱۔ دل بھٹکے گا۔۲۰۰۳۔ احمد بشیر۔۔اس ناول کی کہانی قیام پاکستان سے چالیس سال قبل سے لے کر قیام پاکستان کے تیس سال بعد یعنی ستر برس کی مدت پر محیط ایک ہنگامہ خیز عہد کی داستان ہے۔
۶۲۔جھوٹے روپ کے درشن۔ ۱۹۷۴راجہ انور۔۔پنجاب یونیورسٹی کی فضاؤں میں پروان چڑھنے والی محبت کی داستان۔
۶۳۔ تنہا۔۲۰۰۹۔ سلمیٰ اعوان۔۔سقوط ڈھاکہ
۶۴۔ کاغذی گھاٹ۔ ۲۰۰۲۔خالدہ حسین۔۔سماجی اور قومی سطح کے مسائل
۶۵۔ آگے سمندر ہے۔۱۹۹۵۔ انتظارحسین۔۔مہاجرین کے بارے میں ہے
۶۶۔ سو سال وفا۔۲۰۱۸۔ فارس مغل۔۔بلوچستان کے پس منظر میں لکھا گیا یہ ایک سیاسی رومانی ناول ہے۔
۶۷۔خواب سراب(ساہتیہ اکیڈمی انعام یافتہ) ۔۲۰۱۸۔ انیس اشفاق۔۔مصنف نے تہذیب کو موضوع بنایا ہے۔
۶۸۔ بارش میں جدائی ۔۱۹۶۱۔ اے حمید۔۔رومانوی
۶۹۔سیاہ آئینے۔۱۹۷۷۔فاروق خالد۔۔سماجی صورتحال کو شخصی تجربے کے استناد کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔
۷۰۔شکست۔ ۱۹۴۲۔کرشن چندر۔۔ اقتصادی بدحالی اور طبقاتی آویزش کو کشمیر کے پس منظر سے ابھارا ہے۔
۷۱۔غدار۔۱۹۵۷۔کرشن چندر۔۔ناول کا موضوع ۱۹۴۷ کے فساداتِ پنجاب ہے۔
۷۲۔محبت مردہ پھولوں کی سمفنی۔۱۹۹۹۔ مظہرالاسلام۔۔دنیا سے ختم ہوئی محبت بچانے کے لئے لکھا گیا ناول
۷۳۔نعمت خانہ ۔ ۲۰۱۵۔خالد جاوید۔۔موضوع کے لحاظ سے یہ ناول جوائنٹ فیملی سے نیو کلیر فیملی تک کے اذیت ناک سفر کی داستان ہے۔ اس ناول نے جے سی بی انعام برائے ادب 2022 جیت لیا ہے۔واضح ہو کہ پہلی بار کسی اردو کی کتاب کو یہ انعام ملا ہے۔
۷۴۔ غروب شہر کا وقت۔۲۰۲۲۔ اُسامہ صدیق۔۔ناول کو لاہور جیسے تاریخی شہر کے پس منظر میں تحریر کیا گیا ہے۔
۷۵۔انواسی۔۲۰۱۹۔محمد حفیظ خان۔۔اس میں انگریز حکومت کا دوسرے علاقوں پر قبضہ کرنا اور وہاں کے اصل باشندوں کو غلام بنانا،ان کے وسائل پر قابص ہو کر ان کے ساتھ ناانصافی اور جبری مشقت کروانا جیسے مسائل کو بیان کیا گیا ہے۔
۷۶۔کرک ناتھ۔ محمد حفیظ خان۔۔معاشرے میں پھیلے ہوئے چند سیاہ المیوں کو موضوع بنایا ہے۔ہم جنس پرستی،سوشل میڈیا دوستی کے ذریعے خواتین کی عزتوں سے کھیلنا،پولیس کے گھناؤنے افعال وغیرہ۔
۷۷۔خوشبو کی ہجرت ۔ ۲۰۰۸۔صلاح الدین عادل۔۔یہ ناول ایک سیدھے سادے واقعے سے شروع ہو کرماورائی بلکہ جادوئی دنیا میں داخل ہوجاتا ہے۔
۷۸۔جانگلوس۔۱۹۷۸۔شوکت صدیقی۔۔یہ ناول مجرمانہ معاشرے کی عکاسی کرتا ہے۔
۷۹۔گراں۔ طاہرہ اقبال۔۔پوٹھو ہاری تہذیب کا نمائندہ ناول
۸۰۔ نیلی بار۔۲۰۱۷۔ طاہرہ اقبال۔۔یہ ناول اکیسویں صدی کی پہلی دہائی پر محیط سیاسی،سماجی،ثقافتی،تہذیبی اور شعوری ارتقا کی ایک طویل داستان ہے۔
۸۱۔ہری یوپیا۔۲۰۲۱۔حنا جمشید۔۔یہ ناول قدیم تہذیب و تمدن کے تاریخی شہر ہڑپہ کے پس منظر میں لکھا گیا ہے۔
۸۲۔پنجر۔۱۹۵۰۔امرتا پریتم۔۔تقسیم ہند کے وقت پیش آنے والے مسائل
۸۳۔ درواز ہ کھلتا ہے۔۲۰۰۶۔ ابدال بیلا۔۔بہترین ناول
۸۴۔ پانی مر رہا ہے۔۲۰۱۸۔ آمنہ مفتی۔۔دوانتہاؤں کے ایک دوسرے سے الگ ہونے اور ایک دوسرے میں مدغم ہوجانے کی کہانی۔
۸۵۔گمان ۔۱۹۹۰۔ارشد وحید۔۔تنظیم بائیں بازو کی المناک کہانی
۸۶۔ پیار کا پہلا شہر۔۱۹۷۵۔مستنصر حسین تارڑ۔۔ اس ناول کی شہرت کا یہ عالم ہے کہ اب تک اس کے ۷۵ سے زیادہ ایڈیشن شایع ہو چکے ہیں۔سفرنامے کے طرز پر ایک رومانوی ناول۔
۸۷۔معتوب۔۱۹۹۵۔ امراؤ طارق ۔۔اس میں عہد حاضڑ کی دگرگوں سیاسی اور سماجی صورت حال کو پیش کیا گیا ہے۔
۸۸۔دائرہ۔۲۰۰۱ ۔ محمد عاصم بٹ۔۔اس ناول میں مصنف نے عام انسانوں اور ان کی زندگی کا دائرے سے تشبیہ دی ہےاور زندگی کو لکھنے کا ایک نیا تجربہ کیا گیا ہے۔
۸۹۔ حاصل گھاٹ ۔۲۰۰۵۔ بانو قدسیہ۔۔مغربی تہذیب کی تنقید اس کا موضوع ہے۔
۹۰۔ ایک دن۔۲۰۰۶۔ بانو قدسیہ۔۔ایک گھریلو سی ،روایتی سی خواتین سے مخصوص کہانی ہے۔
۹۱۔ ترنگ (نیشنل بک کونسل ادبی ایوارڈ یافتہ)۔۱۹۸۲۔ ابو الفضل صدیقی۔۔یہ ناول جاگیرداری کلچر کی مخصوص اقدار، سازشوں، سیر شکار اور عیش پسند رئیس زادے کے رومان کے گرد بُنا گیا ہے۔
۹۲۔اندھیرا پگ ۔ ثروت خان۔۔ہ ناول راجستھانی پروہتوں اور پنڈتوں کی معاشرت، سماجی زندگی، رسم و رواج، اور مذہب و کلچر کی آڑ میں جاری عورتوں کے استحصال کو بیان کرتا ہے۔
۹۳۔ دو گز زمین(ساہتیہ اکیڈمی انعام یافتہ) ۔ ۱۹۸۸۔عبدالصمد۔۔یہ ناول ہندوستان اور پاکستان کے تقسیم کے تناظر میں ہے۔
۹۴۔ سوا نیزے پر سورج۔ اکرام اللہ(وزیراعظم ادبی ایوارڈ یافتہ)۔۔چار ناولٹوں کا مجموعہ
۹۵۔ زندیق ۔ ۲۰۲۲۔رحمٰن عباس۔۔ ناول کی کہانی ہند و پاک کے مذہبی و سیاسی تضادات کے گرد گھومتی ہے۔ مصنف نے آج سے لگ بھگ نصف صدی بعد کا زمانہ دکھایا ہے (یا کم از کم 2050 کے بعد کا)۔ جس میں ممکنہ طور پر دونوں ملکوں میں شدید رجعت پرست حکومتیں قائم ہوں گی اور دونوں ممالک کے درمیان جنگ چھڑ جائے گی۔
۹۶۔تلاشِ وجود۔۲۰۱۶۔ اسلم سراج الدین۔۔اس ناول کی کہانی حقیقت کی تلاش کی کہانی ہے، تجسس کی کہانی ہے، اس کہانی میں مصنف نے ایک عظیم تخلیقی عمل(جو کائنات اورانسان کی تخلیق سے عبارت ہے) کے تناظر میں کائنات، انسان اور اشیاء کو ان کی ماہیت کے حوالے سے سمجھنے کی کوشش کی ہے۔
۹۷۔بے وطن(وزیر اعظم ادبی ایوارڈ یافتہ)۔۱۹۹۷۔اشرف شاد۔ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے مسائل اور پریشانیوں کی کہانی۔
۹۸۔ٹوٹی ہوئی طناب اُدھر۔۲۰۱۹۔اصغر نعیم سید۔۔ایک مٹتے ہوئے شہر کی داستان۔
۹۹۔ لاوا۔۱۹۷۸۔ اکرام بریلوی۔۔اس میں ایک زندگی، اس کی عہد اور اس زندگی اور عہد کے واقعات کے بعد ماورا کی ان حدوں کی نشان دہی کی گئی ہے۔ گرتی دیواریں۔۱۹۴۱۔اوپندرناتھ اشک۔۔روزمرہ کی زندگی کو موضوع بنایا گیا ہے۔
۱۰۰۔خوشیوں کا باغ۔۱۹۸۱۔ انور سجاد۔۔یہ ناول بظاہر پندرہویں صدی کے ایک یورپی مصور بوش کی تین پینلز پر مشتمل ایک مشہور تصویر ارضی خوشیوں کا باغ سے متاثر ہو کر لکھا گیا جس کے تین حصے ہیں ہوا کی تخلیق،خوشیوں کا باغ اور موسیقی کا جنم۔
۱۰۱۔ چیخ۔ ۱۹۸۷۔ انور سن رائے۔۔اس میں مصنف نے اذیت خانے میں گزرنے والے درد،تکلیف اور تشدد کو بیان کیا ہے۔
۱۰۲۔ فائر ایریا(ساہتیہ اکیڈمی انعام یافتہ)۔۱۹۹۴۔الیاس احمد گدی۔۔یہ ناول کول فیلڈ میں کام کرنے والے محنت کشوں کی سسکتی،بلکتی،بے بسی ولاچار زندگی پے مرکوز ہے۔
۱۰۳۔ایک دن کی زندگی۔۲۰۱۵۔آزادمہدی۔۔ایک طوائف کی ایک دن کی زندگی کو مرکز بنایا گیا ہے۔
۱۰۴۔دشتِ وفا۔۱۹۸۲۔آغا گل۔۔اس ناول میں بلوچستان کی حالیہ دہشت گردی ،علیحدگی پسندی کے رحجان اور سیاست کو موضوع بنایا گیا ہے۔
۱۰۵۔رقص نامہ۔۲۰۲۱۔ جیم عباسی۔۔یہ ناول ہمارا تعارف انتہائی دل چسپ کرداروں کی بہت اہم تفصیلات اور ان کے اعمال و واقعات سے کرواتا ہے۔
۱۰۶۔ پاگل خانہ۔۱۹۸۸۔حجاب امتیاز علی۔۔یہ ناول ماحولیاتی مسائل اور جنگ میں استعمال کیے جانے والے جدید ترین اسلحہ کی تباہ کاریوں کو اپنا موضوع بناتا ہے۔
۱۰۷۔گینڈا پہلوان۔۱۹۶۱۔حمید شیخ۔۔یہ ان دو ناولوں میں ایک ہے جن کی تعریف فیض احمد فیض کی کی۔مصنف نے اپنی خوش طبعی اور انسانی ہم دردی سے ایسی فضا تخلیق کی جو مکر و ریا،حماقت اور سنگدلی،بدی اور کراہت کے بہت سے مظاہروں کے باوجود مکدر نہیں ہونے دیتی۔
۱۰۸۔بالوں کا گچھا۔۲۰۱۲۔ خالد طور۔۔اس ناول میں دو کہانیوں ہیں ایک تو بالوں کے اس گچھے کی ہے جس کے ذریعے توہمات اور اس استحصال کو دکھایا گیا ہے جو پیری فقیری کے نام پر کیا جاتا ہےاور دوسری کہانی محبت کی ہے۔
۱۰۹۔زینہ ۔۲۰۱۹۔خالد فتح محمد۔۔ناول کا پلاٹ منطقی طور پر پیش آنے واقعات کے بجائے اتفاقات و حادثات اور اچانک رونما ہونے والے انکشافات کے ذریعے بُنا گیا ہے۔
۱۱۰۔آفت کا ٹکڑا۔۱۹۶۲۔خان محمد فضل الرحمٰن۔۔یہ ناول ایک ایسے کردار کی کہانی ہے جو اپنے آئیڈیل کی خاطر دنیا کی تمام راحتیں چھوڑ دیتا ہے،اپنے مطمح نظر کے لئے دکھ اُٹھاتا ہے،غم سہتا ہے اور دنیوی لذت سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔
۱۱۱۔میر واہ کی راتیں۔۲۰۱۵۔ رفاقت حیات۔۔ایک ایسے کردار کی زندگی سے وابستہ واقعہ پر مبنی ہے جس کی جذباتی کیفیات پیچیدہ صورت اختیار کر گئی ہیں، اس کی جبلی خواہشات اتنی شدید ہوچکی ہیں کہ ان کی آسودگی کے لئے وہ سماجی تقاضوں سے بیگانہ ہو جاتا ہے۔
۱۱۲۔ گلِ مینہ۔۲۰۱۹۔زیف سید۔۔گزشتہ کئی دہائیوں سے پاکستان کے صوبہ سرحد میں جس آگ اور خون کے سلسلے کا راج ہے اور اس کے اثرات نے جس بے رحمی کے ساتھ لوگوں کی زندگیاں تباہ کی ہیں، یہ ناول اسی کے بارے میں ہے۔
۱۱۳۔گرداب۔۲۰۱۴۔ سعید نقوی۔۔سوانحی ناول
۱۱۴۔جھوک سیال ۔۱۹۷۲۔ سید شبیر حسین۔۔اس ناول میں مصنف نے پنجاب کے زمین داروں،افسروں،اہل کاروں،رہنماؤں،مذہبی پیشواؤں کی دھاندلیوں،بد اعمالیوں اور سیاہ کاریوں کی پردہ کشائی کی ہے۔اس پر پی ٹی وی کا ڈرامہ سیریل بھی بنا ہوا ہے۔
۱۱۵۔غزالہ۔۱۹۴۷۔شوکت تھانوی۔۔ہلکا پھلکا نیم رومانوی اور نیم مزاحیہ ناول
۱۱۶۔آفرینش۔۱۹۸۵۔صغیر ملال۔۔علامت، تجرید اور استعارے کی گپھاؤں میں ڈوبا ہوا ناول۔
۱۱۷۔ایسی بلندی ایسی پستی۔۱۹۴۷۔عزیز احمد۔۔اس ناول میں حیدر آباد کے امیر طبقے کی واضح اور جاندار تصویر پیش کی گئی ہے۔
۱۱۸۔خون جگر ہونے تک۔۱۹۴۸۔فضل احمد کریم فضلی۔۔یہ ناول قحط بنگال کی ہولناک صورتحال اور تہذیبی معاشرتی سیاسی صورتحال کے عکاس ہیں۔
۱۱۹۔کراچی۔۱۹۹۶۔فہمیدہ ریاض۔۔اس ناول میں کراچی کے انتہائی پیچیدہ اور ہمہ جہت مسئلہ کا جائزہ لینے کی کوشش کی گئی ہے۔
۱۲۰۔جنم کنڈلی۔۱۹۸۴۔فہیم اعظمی۔۔یہ ایک تجرباتی ناول ہے جس میں بے ترتیب قسم کے خیالات اور تصورات کا اظہار کیا گیا ہے۔غیر مربوط تکنیک میں ایک نیا تجربہ ہے۔ انہوں نے تلازمہ خیال سے بے معنویت کوآشکار کرنے کی سعی کی ہے۔
۱۲۱۔یاخدا۔۱۹۴۸۔قدرت اللہ شہاب۔۔ مظلوم عورت کا المیہ ہے۔ جسے فسادات کے مظالم نے بے حس بنا دیا تھا۔
۱۲۲۔شام اودھ۔۱۹۴۸۔محمد احسن فاروقی۔۔ لکھنوی تہذیب کا حقیقی مرقع ہے۔ صبح بنارس، شامِ اودھ کا ضمیمہ ہے۔ لیکن اس میں مستقبل کی چاپ اور نئی تہذیب کا غلبہ نمایاں ہے۔
۱۲۳۔کہر (ادبی ایوارڈ یافتہ)۔۲۰۰۷۔محمد الیاس۔۔رومانوی ناول
۱۲۴۔کراچی والے۔۲۰۰۹۔محمد امین الدین۔۔اس ناول میں کراچی کو موضوع بنایا گیا ہے۔
۱۲۵۔مشک پور کی ملکہ۔۲۰۱۴۔محمد عاطف علیم۔۔اس ناول کی کہانی کا مرکزی کردار ایک مادہ گلدار(چیتے کے خاندان کا یک جانور) ہے، جو کچھ عاقبت نا اندیش انسانوں کی وجہ سے آدم خور بن جاتی ہے۔
۱۲۶۔ڈھاڈری۔۲۰۱۹۔محمد وسیم شاہد۔۔چلتن اور بولان کے عشق کی کہانی۔۔
۱۲۷۔راستہ بند ہے۔۲۰۰۸۔مصطفٰی کریم۔۔نیم سوانحی ناول
۱۲۸۔انخلاع۔۱۹۸۸۔سید مظفر اقبال۔۔اس ناول میں پاکستان کی عصری سیاسی تاریخ اور قادیانیوں کا اقلیت قرار دینے اور اس سے پیدا ہونے والی انسانی صورت حال کو موضوع بنایا گیا ہے۔
۱۲۹۔نے چراغ نے گلے۔۱۹۷۳۔ نثار عزیز بٹ۔۔اس میں برصغیر کے تمام سیاسی،معاشرتی،تاریخی اور سماجی رحجانات کو موضوع بنایا گیا ہے۔
۱۳۰۔سَہیم۔۲۰۱۹۔نجم الدین احمد۔۔سہیم کا مرکزی کردار کسی وڈیرے،وزیر کا خاصا پڑھا لکھا مگر وڈیروں کی ہی سی سوچ اور اعمال رکھنے والا سپوت ہے۔
۱۳۱۔جاگنگ پارک۔۲۰۱۰۔نکہت حسن۔اس ناول کا موضوع ایک عورت کا کرب ہے جو اپنے ارد گرد کے مسائل سے جھوجھ رہی ہے۔
۱۳۲۔ منازل السائرہ۔۱۸۹۷۔راشدالخیری۔۔اصلاحی ناول
۱۳۳۔ شام ِزندگی۔۱۹۱۷۔راشدالخیری۔اصلاحی ناول
۱۳۴۔ مہا ماری۔۲۰۰۳۔شموئل احمد۔۔یہ ناول انسانی رشتوں کی پاسداری کی اور ہندوستانی سیاست کی کہانی ہے۔
۱۳۵۔ پیر کامل۔۲۰۰۴۔عمیرہ احمد۔۔اس کتاب میں ختم نبوت جیسے اہم اور حساس موضوع پر قلم اٹھایا ہے۔
۱۳۶۔ لیلیٰ کے خطوط۔۱۹۳۲۔قاضی عبدالغفار۔۔ایک طوائف کی زندگی کی کہانی جو مردوں کے بنائے ہوئے سماج سے بیزار ہے۔
۱۳۷۔ نمبر دار کا نیلا۔۱۹۹۷۔سید محمد اشرف۔۔ایک علامتی اور سماجی ناول،فیوڈل ازم،طبقاتی افتراق،سیاسی و سماجی جبر و استبداد۔
۱۳۸۔ فرات۔۱۹۹۲۔حسین الحق۔۔مصنف نے اپنے ناول میں دو تہذیبوں کے تصادم کے علاوہ جنسی، نفسیاتی اور معاشرتی پیچیدگیوں کی سچی تصویر کو پیش کیا ہے۔
۱۳۹۔طاؤس فقط رنگ۔۲۰۱۷۔نیلم احمد بشیر۔۔بہترین پلاٹ سازی،انوکھی کہانی جدت طرازی کی بدولت روایت کی زنجیروں کو توڑتا ہوا ناول،بنیادی طور پر ناول کی کہانی نائن الیون کے بطن سے ہی جنم لیتی ہے۔
۱۴۰۔زندگی۔۱۹۲۲۔چوہدری افصل حق۔۔دینا،آخرت اور اخلاقیات سے متعلقہ موضوعات کو مصنف سے دل نشین نثر کا جامہ پہنایا ہے،یہ کتاب جیل میں تحریر کی گئی۔
۱۴۱۔ اماوس میں خواب (ساہتیہ اکیڈمی انعام یافتہ)۔۲۰۱۷۔حسین الحق۔ مصنف نے اس ناول میں سیاست کی بد ترین آگ میں جھلسنے والی خوفناک دنیا کا چہرہ دکھایا ہے۔
۱۴۲۔شب گزیدہ۔۱۹۵۰۔قاضی عبدالستار۔۔ایک تہذیبی رویہ ان کی تحریر کا خاصہ ہے۔
۱۴۳۔می سوزم۔ڈاکٹر حمیرا اشفاق۔۔بلوچستان کے قبائلی رسم ورواج ،معاشی بدحالی،سماجی گھٹن اور غریبوں کا استحصال اس ناول کا موضوع ہے۔
۱۴۴۔کینچلی۔۱۹۹۲۔غضنفرعلی۔۔اس ناول میں عورت کی شخصیت پر بات کرنے والی عام بحثوں کو نیزے کی نوک پر اُٹھالیتے ہیں۔
۱۴۵۔لہو کے پھول(ساہتیہ اکیڈمی انعام یافتہ) ۔۱۹۶۹۔ حیات اللہ انصاری۔۔ہندوستان کی جدوجہد آزادی کی تاریخ پر مبنی۔
۱۴۶۔آئیڈنٹٹی کارڈ(ساہتیہ اکیڈمی انعام یافتہ) ۔۱۹۸۹۔صلاح الدین پرویز۔ایک بہترین ناول
۱۴۷۔تکون کی چوتھی جہت۔۲۰۱۹۔اقبال خورشید۔۔یہ دو ناولٹوں کا مجموعہ ہے۔ایک کہانی دہشت گردی جب کہ دوسری شہر کراچی کے بارے میں ہے۔
۱۴۸۔ ایک عورت ہزار دیوانے۔ ۱۹۷۹۔کرشن چندر۔۔تاریخ ،حقیقت اور خانہ بدوشوں کی زندگی پر مبنی
۱۴۹۔ دوسری برف باری سے پہلے ۔۱۹۶۷۔کرشن چندر۔۔انسانی جذبات،حرص،لالچ،انس،محبت،ہمدردی اور انتقام کی کہانی
۱۵۰۔ بانو۔رضیہ بٹ۔۔قیام پاکستان کے بعد کی ہجرت کی کہانی۔
دوستوں کی بھرپور فرمائش پر کچھ اہم تاریخی و جاسوسی ناول کو بھی شامل کیا گیا ہے۔
۱۵۱۔ بازی گر۔شکیل عادل زادہ۔۔ یہ سب رنگ ڈائجسٹ کی طویل ترین کہانی ہے۔
۱۵۲۔کمانڈو۔طارق اسماعیل ساگر۔جاسوسی ناول
۱۵۳۔دیوتا۔محی الدین نواب۔۔یہ ناول اردو ناولز کی دنیا کا سب سے طویل ناول مانا جاتا ہے۔ جو اردو ماہنامہ سسپنس ڈائجسٹ میں 1977ء سے 2010ء تک بلا ناغہ شائع ہوتا رہا اور اردو ادب میں جاری رہنے والا سب سے طویل ترین ہے۔
۱۵۴۔خاک و خون۔نسیم حجازی۔ تاریخی ناول، 1947 میں تقسیم ہند کے دوران میں برصغیر کے مسلمانوں کی قربانیوں کو بیان کرتا ہے۔
١٥٤ یہ عشق نہیں آساں:ناول نگار وحید عزیز ہیں اس ناول کو٢٠١٣ میں مکتبہ تعمیر انسانیت نے پبلش کیا ہے- اس کا موضوع رومانویت اور تصوف کا حسین امتزاج ہے۔

Comments

Click here to post a comment