ہوم << کنویں اور قلعے-فاروق بھٹی

کنویں اور قلعے-فاروق بھٹی

عمران ریاض کی گمشدگی اور واپسی شاید پراسرار ہی رہے گی لیکن ایک بات تمام صحافیوں کو سمجھ لینی چاہیئےکہ ان کو کسی کی آگ کا ایندھن نہیں بننا۔

ایک رپورٹر اچھے سے یہ جانتا ہے کہ اسے اپنے سورس کو ڈبل چیک کر کے بھی خبر کو "باخبر ذرائع" ہی سے ڈکلیئر کرنا ہے۔ اپنے سورس کی شناخت کی حفاظت بھی فرض ہے۔ سیاسی جماعتیں ہوں یا بااثر افراد صحافیوں، سرکاری ملازمین میں ان کا ترجمان بننے کا شوق پیدا ہو جائے تو ان کو صحافت یا نوکری چھوڑ کر باقاعدہ سیاسی جماعت جائن کر لینی چاہیئے۔

صحافی اپنے سورس کو اعلانیہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ "آپ ہی فراہم کردہ معلومات پر ہم ایمان لا کر یہ بغاوت کر رہے ہیں" یہ نہیں پوچھ سکتا کہ "کیا آپ ہی نے مجھے فائلیں اور وڈیوز نہیں دکھائی تھیں؟" ۔۔۔ اس کا کام رپورٹنگ ہے، اپنی بیٹ کی رپورٹنگ، اگر انوسٹیگیٹنگ رپورٹنگ ہے تو بھی اس کے نتائج اپنے ادارے تک پہنچانے ہوتے ہیں اور اپنی غیرجانبداری کو پروفیشن کا تقاضا سمجھ کر آگے بڑھانا ہوتا ہے۔

سیکرٹریٹ یا پولیٹیکل پارٹیز کی بیٹ کرتے ہوئے کئی ایسے انکشافات سامنے آتے ہیں کہ بندے کے چودہ طبق روشن ہو جاتے ہیں، محکمہ صحت اور محکمہ تعلیم کے بیٹ رپورٹرز بھی اہم معلومات لا کر اپنے اداروں کے حوالے کرتے ہیں لیکن ان کے ادارے پالیسی کے مطابق پِک اینڈ چُوز کر لیتے ہیں جس کی وجہ سے نیوز روم اور رپورٹرز کے باہم حالات کشیدہ ہی رہتے ہیں۔ کرائم اور فنانس کی بیٹ کرنے والے رہورٹرز کے دل بھی منوں ٹنوں رازوں سے بھرے ہوتے ہیں ۔۔۔ یہ ان ہی ہمت اور ظرف کی بات ہوتی ہے اور پروفیشن کا تقاضا ہوتا ہے کہ وہ ان رازوں کو اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز رکھتے ہیں۔

ساوؑتھ ایشیاء کے ممالک بنگلہ دیش، بھارت، سری لنکا، پاکستان میں ایک بڑی تبدیلی انفارمیشن فلو کے ساتھ سوشل میڈیا کے محاذ پر آئی ہے ۔۔۔ "یہ محبت نئی نئی ہے" ۔۔۔ اس لئے ہم جذباتی لوگ ذرا کریز سے نکل جاتے ہیں۔ ٹریفک لینے کے لئے ٹک ٹاکر اور یوٹیوبرز کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ عائشہ ٹھمکے والی ہو، بہاولپور یونیورسٹی سیکنڈل ہو یا عماد فاروق کے معصوم بیٹے کی موت، ان فیم ہنگرز کو بس مواد چاہیئے ہوتا ہے کہ ڈالرز ٹریفک پر تیر کے آتے ہیں۔

بدقسمتی سے ہمارے میڈیا ہاوؑسز بھی اپنی غیرجانبداری چھوڑ کر پارٹی آرگن بن جاتے ہیں۔ آپ چینل کا نام لیں ایک ریڑھی بان اس کی سمت بتا دے گا۔ جو جیو دیکھتا ہے وہ اے آر وائی نہیں دیکھتا، جو چوہدری غلام حسین کو سنتا ہے وہ سلیم صافی کو گالیاں دیتا ہے اور جو مطیع اللہ جان/عبدالقیوم صدیقی کو سنتا ہے وہ صدیق جان اور ملیحہ ہاشمی کے لتے لیتا ہے۔ عجیب صورتحال رہی ہے ہمارے ملک میں۔ 2011ء کے بعد سے سیاسی لوگوں نے باقاعدہ دیواریں اٹھانا شروع کیں۔ روز ایک ردا بڑھاتے جاتے تھے اور ان کے علاقہ کنویں اور قلعے بن گئے۔ پارلیمانی جمہوریت کی جگہ قدیم قبائلی نظام بنتا نظر آیا۔

ایک فلم ہے The Social Dilema ... میڈیا اسٹوڈنٹس اور فیصلہ سازوں کے دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ یہ دیواریں جن کا میں نے اوپر ذکر کیا ہے، سوشل میڈیا algorithm کی پیدوار ہیں۔ آپ کے ذوق کا مواد آپ پر برساتی رہتی ہیں اور آپ ایک سوشل کیپسول میں بند ہو کر قلعہ بند ہو جاتے ہیں۔ ڈائیلاگ کا رستہ مسدود ہو جانا ہے اور گفتگو پہلے گالی بنتی ہے اور پھر گولی ۔۔۔ آپ تک پہنچنے والے سماجی رجحانات کے دائرے عام شخص کو ہارڈ لائنر بنا دیتے ہیں۔ اس ماحول کے گرداب میں وہ لوگ بھی پھنس جاتے ہیں جو پہلے کنارے کنارے چل رہے ہوتے ہیں۔

سیاست کوئی جرم نہیں بلکہ اخلاص اور دیانتداری سے کی جائے تو سراپا عبادت ہے اور ہم جیسے ملک کے عوام کو تو ضرور سیاسی ہونا چاہیئے۔ دھڑے بندیوں کی بجائے جماعتیں جائن کر کے تربیت حاصل کرنی چاہیئے۔ ہاں ریاست کے چاروں ستونوں کو قطعاً غیر سیاسی ہونا چاہیئے۔ اگر یہ چار ستون سیاستدانوں کے رکھیل بن گئے تو عام آدمی پس کے رہ جائے گا۔

عمران ریاض خوش بخت ہے کہ محض سفید داڑھی کے ساتھ واپس پلٹ آیا ہے۔ بدقسمتی سے کئی جذبات میں دور نکل جانے والے صحافیوں کی واپسی نہیں ہو سکی۔

ایک بات من میں تڑپتی رہتی ہے، شوق پورا چند صحافی یا وہ افراد کرتے ہیں جن کی ڈومین سیاست نہیں ہوتی لیکن ریاست کے دیگر ستون مشکوک ہو جاتے ہیں۔ سیاست دان اس شک کو آگے بڑھا کر خطرناک کھیل کھیل جاتے ہیں۔

پلیز اپنی ڈومین میں رہیں، کان کچے مت رکھیں اور ملک و قوم کو کسی آزمائش میں ڈالنے سے گریز کریں 🙏 پلیز

Comments

Click here to post a comment