مجھ ایسے کمزور ارادے کے حامل انسانوں کی شائد بڑی خوبی یہی ہوگی کہ وہ بلند حوصلہ اور دلیر انسانوں کی مدح کرسکیںُ ۔ ان کی زندگی میں ایسے جی داروں کی تعریف کرنے میں اندر کا خوف اور بزدلی آڑے آتی رہتی ہے ان لوگوں کے مرنے پر مجھ ایسے سماج میں رائج “موت پر ہر کسی کی تعریف کرنے “ کی روایت کی آڑ لے کر اپنے دل کی باتیں کہہ دیتے ہیں جتنا بھی سوچ لوں اس کے علاوہ اپنی بزدلی کو داد دینے کا اور کوئی رستہ نظر نئیں آتا ۔ یہی وجہ ہے بینظیر بھٹو ، عاصمہ جہانگیر ، اسامہ بن لادن اور اس قبیل کے دیگر لوگوں کی مدح میں کاغذوں پر سرخی تب ہی پھیلائی” جب وہ ہمُ میں نہ رہے “
اس روایت کو آگے بڑھاتے ہوئے برصغیر میںُ موجود قدیم ردالیوں کی طرح انتہائی پروفیشنل انداز میں نوحہ گری کرتے ہوئے دل کی چاہ یہی ہے کہ نوحہ گری میں سچ کی گانٹھ لگا کر من کا بوجھ ہلکا کیا جائے ۔ پھر گاہے خیال آتا ہے جس سماج میں ہم نے تربیت حاصل کی ہے وہاں تو ابھی تک ہمیں پاپولزم ،پوسٹ ٹروتھ ،ریٹورک rhetoric ، گوئبلز ،۔۔ “بھوک اور غربت کا نعرہ لگانے والا سرمایہ دار “۔۔۔۔“کرپشُن کا نعرہ لگانے والا کرپٹ “ اور “انسانی زندگی کی بات کرنے والا سفاک “ ان سب عفریتوں کا ادارک حاصل ہی نہیں ہو پایا ۔ اس لئے ہم صرف وہی کچھ دیکھ سکتے جو دکھایا جاتا ہے اور ہم لمحۂ بہ لمحۂ اس سے دور ہو رہے ہوتے ہیں جسے “ حقیقت “ یا “ reality “ کہا جاتا ہے حقائق کی تلاش مشکل ہی نہیں ناممکن ہو جاتی ہے اور نصف صدی سے اپنا عالم یہی ہے
اور فریب کھائیے اور سراب دیکھئے
لیفٹ رائٹ کے جھگڑے یا یوں کہیے کے نظریات کی کشاکش تو اب گیے زمانوں کی بات ہوگئی ہے ۔ مغرب میں سویت یونین کی شکست کے بعد End of history کا اعلان کردیا گیا یوں نظریات کے دور کے خاتمے کا عندیہ بھی دے دیا گیا کہ اب مغرب سمیت پوری دنیا میں “ سرمایہ داری “ نظام اور جمہوریت کا ہی سکہ چلے گا ۔ اور قوموں کے درمیان جنگ یا تصادم کا اگر امکان ہے تو وہ clash of civilisations یا تہذیبی شناخت کی بنیاد پر ہوگی ۔ سویت یونین کی شکست کے بعد دنیا کو نیو ورلڈ آرڈر کا سامنا تھا دائیں بازو بائیں بازو والے سب نظریاتی بھائی تیری سرکار میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے گنگناتے نظر آرہے تھے اور مغرب کی نئی “ فکری “ اور دانشور” بھرتیاں این جی اوز میں ہورہی تھیں جہاں انسانی حقوق بشمول ہر قسم کے حقوق کے رنگ برنگے نعرے لیے ، پر کشش تنخواہوں کے ساتھ ہر قسم کے نظریات کے مذبح خانے تعمیر ہو چکے تھے۔ ایسے میں چند مثالیت پسند سر پھرے ہی باقی بچے تھے جو نظریات کو سینے سے لگائے، انہیں اپنی زندگی کا منترا بنائے اس کارزار میں روبہ عمل تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یوں معلوم ہوتاہے کہ ہمارے ہاں منور حسن اور لال خان ایسے دوچار اس خالص نظریاتی کمٹمنٹ کی آخری آخری نشانیاں تھیں ۔۔۔۔۔وگرنہ نظریہ ، اصول ضابطہ سب کچھ کو اس دور کا فتنۂ دجال یعنی سرمایہ دارانہ نظام بہا لے گیا ہے ۔۔۔۔۔
سید منور حسن کی کہانی بھی عجیب ہے ساری زندگی کسی نہ کسی نظریے کی آبیاری میں بسر کردی ۔۔۔۔ لیفٹ سے وابستہ ہوئے تو اس وفاداری سے استوار ہوئے ۱۹۵۹ میں نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن کے صدر بن گئیے ۔۔۔۔ نظریے میں انقلاب آیا تو دائیں بازو سے اس شدت سے رشتہ جوڑا کہ ۱۹۶۴ میں جمعیت کے ناظم اعلی کی حیثیت سے حلف اٹھاتے نظر آئے۔۔۔ ایوب خان کی آمریت کے خلاف آواز اٹھائی اور زمانۂ طالب علمی میں ہی زنداں سے رہ و رسم کی ابتداءً کر دی ۔۔۔۔۔۱۹۷۷ میں قومی اسمبلی کا الیکشن لڑا ملک بھر میں سب سے زیادہ ووٹ حاصل کیے صبح منور شام منور ۔۔۔ روشن تیرا نام منور ، کے نعروں سے کراچی گونج رہا تھا ۔۔۔ ۲۰۰۹ میں اپنی جماعت کے سربراہ کے طور پر سامنے آئے ۔۔۔۔ کیری لوگر بل کیخلاف “ گو امریکہ گو” کی تحریک برپا کردی ۔۔۔۔ انکے خیال میں امریکہ کی مخالفت استعماری نظام کی مخالفت تھی ۔۔۔۔ ۹/۱۱ کے بعد دہشت کردی اور وار آن ٹیرر کی عفریت کا پوری دنیا بالخصوص مسلم ورلڈ کو سامنا تھا ۔۔۔۔ منور حسن دہشت گردی اور دہشت گردی کیخلاف جنگ کے بڑے ناقدین میں سے تھے ۔۔۔۔ سید کے الفاظ میں
“Terrorism is a weapon of weak but mostly used by the strong
دہشت گردی کو کمزور کا ہتھیار کہا جاتا ہے لیکن اسکا استعمال عمومأ جارح ریاستیں ہی کرتی ہیں ۔ دنیا کو ماؤوادیوں اور کشمیریوں کیخلاف ہونے والی انڈین دہشت گردی اور غزہ اور فلسطین کیخلاف ہونے والی اسرائیلی دہشت گردی نظر نہیں آتی جبکہ برہان وانی اور فلسطین کی تحریک مزاحمت کو دنیا کے لیے خطرہ بنا دیا جاتا ہے “۔۔۔۔۔
سید منور حسن کے بارے کیا کہا جاسکتا ہے شائد انگریزی میں erudite and brave اور loud and clear ۔ بیباکی اور بے خوفی ان کی شخصیت کا خاصۂ تھا جب لوگ سات پردوں میں اداروں اور خوفناک شخصیات کا ذکر نہیں کر پاتے تھے جب زبانیں لڑکھڑا جاتی تھیں ۔ انہوں نے ایم کیو ایم اور الطاف حسین کی بوری بند لاشوں اور سفاکی پر غیر مبہم انداز میں میں انتہائی سوالات اٹھائے اور ریاست کو اس ظلم پر خاموشی کا ذمہ دار ٹھہرایا ۔ جب اپنے پرائے اداروں کے ہاتھوں “ ٹڈی دل “ بننے پر شاداں و فرحاں تھے تب انہوں نے وار آن ٹییرر کو امریکی جنگ قرار دیا اور ڈرون حملوں اور لاپتہ افراد کے whereabouts سے متعلق شدت سے سوالات اٹھائے اور اسے ریاستی دہشت گردی کا نام دیا ۔ جب مظبوط اداروں نے ان کے بیان پر معافی مانگنے کا مطالبہ کیا تو سید زادے نے کہا ادارے کو سیاست میں مداخلت کا کوئی حق نہیں ۔ اور شائدملکی اور” جماعتی” تاریخ میں پہلی دفعہ کسی پارٹی کی طرف سے اداروں کو اپنی حد میں رہنے کا واضح پیغام دیا گیا ۔ یہ نہیں ہے کہ انہیں اس سب کے نتائج نہیں بھگتنا پڑے ۔ پر وہ نتائج سے بے نیاز اور مصائب کے لئے ہر دم تیار رہنے والا مرد آزاد تھا ۔ ریاست ، ریاستی ادارے اور میڈیا ان پر پل پڑے تھے لعن طعن ، دشنام طرازی اور تہمت غداری کیا تھا جو سید زادے کے اجلے دامن پر نئیں لگا ۔پھر اس مرد آزاد کے خلاف ففتھ جنریشن وار لڑی گئی ۔ یہی نہیں جماعتی تاریخ میں پہلی دفعہ” سٹنگ امیر جماعت “ کو پریذیڈنشل الیکشن میں ہروا دیا گیا
انکی سیاست سے ، انکے موقف سے کسی کو بھی اختلاف ہو سکتا ہے تاریخ اس پر اپنا فیصلہ ضرور سنائے گی ۔ پر ہر گزرنے والا دن انکی بیباکی اور بے خوفی کو نمایاں کرتا جائے گا ۔
اس مرد آزاد کی کہانی یہی تھی ۔
شہر جاناں میں اب باصفا کون ہے
دست قاتل کے شایاں رہا کون ہے
تبصرہ لکھیے