فاروق ستار نے انتہائی کامیابی سے متحدہ قومی موومینٹ کو پابندی کے عتاب سے بچا لیا ہے. ایک طرف انہوں نے وقتی طور پر الطاف حسین سے لاتعلقی کا اظہار کیا ہے تو دوسری طرف انہوں نے الطاف حسین کی واپسی کا دروازہ بهی کهلا رکها ہے. اس نئے کهیل کا جواب اس سوال میں پوشیدہ ہے کہ آیا کارکنان فاروق ستار کے ساته کهڑے ہوں گے یا قائد کے جانثار بروئے کار آئیں گے.
آپ دیکهیں گے کہ تمام کارکنان ساته کهڑے رہیں گے, رہنما بهی سر ہلائیں گے اور کچه عرصے لندن آفس بهی خاموش رہے گا. اگر یہ سیاسی چال نہ ہوتی تو لندن آفس بهی فورا" حرکت میں آتا, عزیزآباد سے خواتین بهی باہر نکلتیں اور دوسرے رہنما بهی اس عمل کو قبضہ سے تعبیر کرتے. بند دفاتر کو کهلوانے, ملک گیر پابندی سے بچنے اور کل ہونے والے مئیرز الیکشن کو بچانے کا اس کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ موجود نہ تها. آپ اسے سیاست کہیں یا منافقت, فاروق ستار کے ہاتهوں کہانی کا ڈراپ سین ہوچکا ہے.
فاروق ستار کی سیاسی حکمت علمی سے جہاں ایم کیو ایم پابندی سے بچ گئی ہے وہیں مصطفی کمال کی سیاست کو بهی شدید دهچکا پہنچا ہے. کل رات تک جو لوگ جوق در جوق پاکستان ہاوس کی طرف جارہے تهے, آج وہ واپس پلٹنا شروع پوگئے ہیں. کوئی کہ سکتا ہے کہ مصطفی کمال کے ساته ہوگیا ہے, ہم کہیں گے کہ اصل ہاته کراچی کی عوام کے ساته ہوا ہے جسے دوبارہ الطاف حسین کی ایم کیو ایم پر گزارا کرنا پڑے گا. بظاہر لگتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کو بهی ماموں بنادیا گیا ہے لیکن ذرائع کہتے ہیں مطالبہ بس اتنا ہی تها.
ایم کیو ایم لیکن ابهی بهی اپنی سابقہ پوزیشن پر واپس نہیں آئی ہے, آپریشن جاری رہے گا, ہاته پاوں ایسے ہی بندهے رہیں گے اور تشدد میں ملوث کارکنان کی گرفتاری کا سلسلہ بهی بدستور چلتا رہے گا. دوسری طرف الطاف حسین کی عدم موجوگی میں انکے نام سے پارٹی چلتی رہے گی. حالات کا رخ بدلتے ہی الطاف حسین واپس منظر عام پر اجائیں گے. انڈر ولڈ کی سیاست ایسے ہی چلتی ہے.
تبصرہ لکھیے