ہوم << پاکستان زندہ باد کا نعرہ اور چانکیہ جی - ریاض علی خٹک

پاکستان زندہ باد کا نعرہ اور چانکیہ جی - ریاض علی خٹک

ریاض خٹک پاکستان زندہ باد
14 اگست 1947ء کو اس نعرے کی گونج میں برصغیر تقسیم ہوا. اس کی گونج نے بہت قربانی لی، لاکھوں جانوں کا تاوان لیا، گھر اجڑے، عزتیں پامال ہوئیں، لہولہان سفر، قدم قدم قربانی مانگتے اس سفر کے مسافروں نے پیچھے پلٹ کے نہ دیکھا. آگے بڑھتے رہے.
ایک ہی نعرہ ایک ہی آواز
پاکستان زندہ باد
جس نے وطن چھوڑا، اپنی خواب نگری واسطے مہاجر ہوا، جس نے بازو پھیلا کر خوش آمدید کہا انصار ہوا، ہجرت مدینہ کی یادیں دہرائی گئیں. آنے والا بھی پاکستان زندہ باد کا نعرہ زن تھا، خوش آمدید کہنے والا بھی پاکستان زندہ باد کا استقبالی تھا.
آنے والا تعلیم یافتہ تھا، قربانی دے کر آیا تھا، لاشیں چھوڑ کر آیا تھا، شعور رکھتا تھا تو آیا تھا، سابقہ پڑوس کو جانتا تھا، اس نے آکر باگ دوڑ سنبھالی، مقننہ ہو کہ انتظامیہ خارجہ ہو کہ داخلہ ہر سمت اپنے نئے گھر کو مضبوط کیا، اسے طاقتور پڑوسی کے مقابل کھڑا کیا، اسے چانکیہ کے پیروکاروں کی چلتر بازیوں کے مقابل جینا سکھایا.
سفر چلتا رہا، آنے والے اپنی عمر کی متاع تمام کر کے رخصت ہوتے گئے. چانکیہ کے پیروکاروں نے پھر سے نقب لگائی، اُس نے اسے ہی چنا جو اس سے سب سے زیادہ نفرت کرتا تھا، اُس کے اسی وصف کو نشانہ بنایا جس نے اسے بہت پریشان کیا تھا. تیسری نسل میں جب ہر طرف آنے والے پاکستانی ہو چکے تھے، ایک طرف پھر سے انھیں مہاجر کردیا، مہاجر کو سالوں کی بربادیوں میں تعلیم پر پیچھے کردیا.
وہ شعور والا مسافر جس کی نسل نے منزل واسطے اپنا آبائی گھر چھوڑا، اپنی نسلوں کے قبرستان چھوڑے، اس منزل واسطے ہر قدم ہر منزل جانوں کی قربانیاں دیں. اسی نسل کے شعور کو اس مقام پر لایا کہ وہ چیخ چیخ کر کہتے ’’ہمیں منزل نہیں راہنما چاہیے.‘‘
آج تو پورا پاکستان ہی اُردو ہے,، بلوچ اردو ہے، سندھ اردو ہے، پنجاب اردو ہے، خیبر اردو ہے، پر پھر بھی اردو سپیکنگ کو الگ نسل بنادیا. آگ و خون کا وہ سفر جس پاکستان زندہ باد واسطے تھا، اسی پاکستان میں پھر دہرا دیا.
واہ چانکیہ واہ، کیا کمال تیرے چلتر، پر ایک غلطی تو کر بیٹھا. اچھی دکان تو نے چلائی تھی، بنیا کا کاروبار چلتا ہی رہتا، پر پھر ایک غلطی کر ہی بیٹھا. بنیا سمجھا بس اب یہ سب میرا، اور کہلوا دیا اپنے یار سے’’پاکستان مردہ باد‘‘، اس نعرہ نے 1947ء کے مسافروں کو بھی جھنجھوڑ ڈالا. کیا..؟ پاکستان مردہ باد..؟؟ اس نسل سے جس نے زندہ باد پاکستان کے لیے آگ و خون کا سفر کیا تھا؟ بساط پلٹ گئی. خون نے واپس جوش مارا کہ پاکستان زندہ باد پر بھی خیبر سے کراچی متحد اور پاکستان مردہ باد کی زبان نوچنے پر بھی خیبر سے کراچی اور وزیرستان سے گوادر سب متحد.
چانکیہ جی اس نعرہ نے آپ کی دکان بند کردینی ہے. اس گونج نے آپ کی بساط پلٹ دینی ہے کہ پاکستان زندہ باد کا نعرہ تو لاکھوں فوجوں، عشرے کے ظلم کے ساتھ آپ کشمیر سے نہ نکال سکے، عروس العباد کراچی میں کیسے ممکن؟

Comments

Click here to post a comment

  • سیانے کہہ گئے ہیں کہ
    ہر روز عید نیست کہ حلوہ خورد کسے...
    بس اب ماضی کے نام پہ بلیک میلنگ کا تماشا روکا جائے. اب اپنا حال دیکھا جائے اور اپنا حال ثابت کیا جائے.
    پاکستان پائندہ باد