Blog

  • الیکٹرانک ریلیشنشپ. عرباض احمد شاہ

    الیکٹرانک ریلیشنشپ. عرباض احمد شاہ

    نہ جان کونسا شاعر کہتا ہے :
    “یہ وفا تو ان دنوں کی بات ہے فراز_ _ _!
    جب مکان تھے کچے اور لوگ تھے سچے ”

    میں اتنا پرانا تو نہیں پر مزے کی بات یہ ہے کہ میرا جنم بھی ایک کچے سے مکان میں ہوا تھا. اس دور میں جب ہمارے گاؤں میں لائیٹ کا چمتکار ابھی نہیں ہوا تھا البتہ آس پاس کے گاؤں میں لائیٹ پہنچ چکی تھی. ،
    اس دور میں ہسپتالوں کا بھی اتنا کوئی خاص رواج نہیں تھا، اس لیئے میں شرافت سے گھر پر ہی پیدا ہوگیا بنا کسی ہسپتال خرچ کے.
    آج کل تو بچے ہسپتالوں کے بنا پیدا ہی نہیں ہوتے، جب تک ڈاکٹروں کو لاکھ ڈیڑھ لاکھ نہ پکڑاؤ تو بچے نے پیدا ہونے سے ہی انکار کر دینا ہے.
    آج ہم اسی لئےتو بڑے بڑے کرپٹ حکمرانوں کو برداشت کر لیتے کیونکہ ہمیں پیدا ہوتے ہی کرپشن کا پہلا ٹیکہ ڈاکٹر لگا دیتا ہے..

    تو بات ہو رہی تھی پرانے لوگوں کی اور کچے مکانوں کی، پرانے دور کی.
    شاعر نے بالکل درست فرمایا، ایسا ہی ہوا کرتا تھا پہلے مکان کچے اور لوگ من کے سچے ہوا کرتے تھے، لوگوں کے پاس ایک دوسرے کیلئے وقت ہوتا تھا، ایک دوسرے کے دکھ درد کو سمجھتے تھے، ایک دوسرے کے دکھ درد میں شامل ہوتے تھے، ایک دوسرے کا احساس ہوتا تھا، لوگ وفادار، ایماندار اور امانت دار ہوا کرتے تھے.

    لوگوں کے پاس اتنے وسائل نہیں تھے کھیتی باڑی اور مزدوری کے علاوہ کوئی خاص زریعہ معاش نہیں تھا، مگر جو چیز پائی جاتی تھی وہ خلوص تھا. لوگ مہمان نواز ہوا کرتے تھے، وہ مہمان کو دیسی گھی، مکئی کی روٹی اور ساگ بھی پیش کر تے تو اس میں خلوص اور محبت کا بھرپور تڑکا شامل ہوتا، جو کھانے کو اور ذائقے کو چار چاند لگا دیتا.

    اُس دور میں محبتیں بھی سچی ہوا کرتی تھی، عاشق لوگ تو کئی کئی دن گلی کی نکڑ پر اسی آس میں گزار دیتے کہ آج وہ یہاں سے گزرے گی اور دیدار یار ہوگا.
    آج کل کی طرح نہیں کمنٹ کے اندر لڑکی سے بات کی، ایک دو ٹویٹ کا ریپلائی ہوا، انباکس میں گئے لڑکی نے مسکرا کر دو باتیں کی اور محبت ہوگئی.

    اس دور میں آج کی کی طرح بے حیائی اور بے شرمی نہیں پائی جاتی تھی کہ ہر آتی جاتی کے اوپر نمبر پھینک دیا ہر آتی جاتی کو چھیڑ دیا .

    اس دور میں محبت کے رشتے پاک اور محبوب بھی ایک ہی ہوتا تھا.
    آج کل تو ہر لڑکی کے ایک دو درجن افیئر ہونگے، اسکے بعد جا کر کہیں شادی ہو بھی گئی تو اتنی کامیاب نہیں ہوتی. اور آج کے لڑکے تو پیدا ہوتے ہی پہلی آنکھ نرس کی انگلی پکڑ کر مار لیتے ہیں. پھر شادی تک افئیر کی سینچری مار کر حاجی ثناءاللہ بن جاتے ہیں.

    پہلے کے دور میں سیدھا منہ پر جا کر اظہار محبت نہیں کیا جاتا تھا، محبت کے بھی کچھ اصول و ضوابط ہوا کرتے تھے لوگ شرمیلے ہوا کرتے تھے. اتنی ہمت ہی نہیں ہوتی تھی کہ ایک لڑکی کا سامنا کیا جائے .
    اپنے محبوب سے اظہار محبت کیلئے خطوط کا استعمال کیا جاتا تھا. اگر محبوب ان پڑھ ہے تو وہ کسی پڑھے لکھے دوست سے خط لکھواتا.
    خط بھی یوں ہی ایک دم سے نہیں لکھ دیا جاتا بار بار لکھا اور مٹایا جاتا، بہترین اور تہذیب یافتہ الفاظ کا چناؤ کیا جاتا، ایک دو دن کی کڑی محنت کے بعد اس خط کو پایہ تکمیل تک پہنچایا جاتا جو کہ بظاہر آسان مگر کٹھن کام ہوتا.
    اسی طرح اگر محبوبہ پڑھی لکھی نہ ہوتی تو وہ اپنی کسی سہیلی کا استعمال کرتی،
    خطوط کی نقل و حرکت اور محبوب تک رسائی کیلئے چھوٹے بچوں کو بطور ڈاکیہ کے استعمال کیا جاتا اور بطور نذرانہ چند فانٹا ٹافیاں عنایت کی جاتی.
    چھوٹو ڈاکیہ بھی اپنا کام انتہائی چالاکی اور ایمانداری سے سرانجام دیتا اور اس تمام کاروائی کو وہ ہمیشہ صیغہ راز میں رکھتا.
    پھر اس تمام کاروائی کے بعد محبوب اپنی محبوبہ کے جوابی خط کا انتظار کرتا. اس خط کا جواب کسی ایس ایم ایس کی طرح فوراً سے نہیں آجاتا اسکے جواب میں بھی ہفتہ، دو ہفتہ لگ جاتے.
    یوں خط و کتابت کے زریعہ دل کا حال بیان کیا جاتا اس میں شعر و شاعری کا عنصر بھی ہوتا اور ایک دوسرے سے ملنے کی جگہ اور وقت کا تعین بھی اسی خط کے زریعہ ہوتا.
    الغرض اتنی محنت کے بعد حاصل ہونے والی محبت خالص اور سچی ہوا کرتی تھی.
    اگر محبوب دور دراز کہیں زریعہ معاش کی خاطر چلا جاتا تو محبوبہ سے وہاں سے خط و کتابت ہوتی، ایک دوسرے کا بے تابی سے انتظار کیا جاتا، سالوں سال محبوبہ اپنے محبوب کے انتظار میں گزار دیتی.

    آج کل تو یہ مشہور ہے کہ گھوڑا اور لڑکی کو باندھ کر رکھو نہیں تو کوئی اور لے جائیگا.
    میرا ایک دوست بزنس ٹور پر دوسرہ شہر گیا 10 دن بعد واپس آیا تو اسکی محبوبہ کہیں اور ٹانکا فٹ کر چکی تھی.10 دن بھی انتظار نہ ہوا اور پھر دوست نے بھی اگلے دن نئی پکڑ لی.

    یوں پہلے کے زمانے میں لوگ سادہ لوح اور من کے سچے ہوا کرتے تھے اور انکا عشق بھی سچا ہوا کرتا تھا.
    اسی لیئے آج کل ہیر رانجھا، لیلی مجنوں، فرہاد جیسے لوگوں نے پیدا ہونا ہی بند کر دیا ہے…

    یوں وقت تیزی سے بدلتا گیا اور لوگ وقت سے بھی تیز نکلے
    پی ٹی سی ایل کا دور آیا انٹرنیٹ آیا فاصلے کم ہوتے گئے اور ساتھ ساتھ انسانوں کی آپس کی محبت بھی کم ہوتی گئی.

    مزید وقت گزرا سمارٹ فون اور سوشل میڈیا نے لوگوں کو مزید قریب کر لیا، اس طرح انسان ایک دوسرے کے بہت قریب آ گئے، پر افسوس کے بظاہر ہی قریب ہیں، اصل میں نہیں. صرف دور سے قریب نظر آتے ہیں.

    پہلے کے دور میں جھوٹ بولنے کے زرائع بھی نہیں تھے اس لیئے لوگ سچے ہوا کرتے تھے. آپ کسی سے ملنے جاتے وہ گھر پر ہی ملتا اور آج کل کسی سے ملنے جاؤ اور کال کرو آپکی طرف آ رہا ہوں. وہ آگے سے جواب دیگا بھائی میں تو گھر پر نہیں جبکہ ہوگا گھر پر ہی. یوں موبائل فون نے جھوٹ بولنا مزید آسان کر دیا.
    میرے ایک دوست نے فیس بک پر چیک ان کیا اور لکھا eating pizza at pizza hut اگلے ہی لمحے دیکھا وہ ڈھابہ ہوٹل پر میرے سامنے بیٹھا چنے کی دال سوت رہا تھا.

    پہلے لڑکیوں میں کسی سے بات کرنے کی ہمت نہیں ہوتی تھی، گھر سے اکیلے باہر نکلنے کو عیب سمجھا جاتا تھا ، سکول کالج بھی جاتی تو آتے جاتے کسی سے بات کرنے کی مجال نہیں ہوتی تھی، غرض شرم و حیا کا پیکر ہوا تھی لڑکیاں،
    آج کل کی لڑکیاں تو میرے جیسے کو بیچ کر کھا جائیں اور کانوں کان خبر تک نہ ہو.
    حالات اتنے گھمبیر ہیں آج ہر لڑکی کی دوسری لڑکی سے ریس لگی ہوتی ہے کہ کس کے دوست زیادہ ہیں.
    پہلے کسی سے بات کرنے کیلئے ہفتوں انتظار کرنا پڑتا تھا اور آج کل ایک میسج کرو انباکس میں چلے جاؤ، اگلے ہی لمحے وڈیو کال پھر محبت کا اظہار کر لو . مسئلہ ہی کوئی نہیں…

    پہلے ایک ہی محبوب ہوتا تھا اور ایک ہی محبوبہ.
    آج کل فب فرینڈ الگ، یونی فرینڈ الگ، فیملی فرینڈ الگ اور پانچھ چھ عدد بوائے فرینڈ/گرل فرینڈز الگ..

    پہلے بریک اپ ہوتے تو لوگ سالوں تک غم مناتے تھے. آج کل پہلے دن دوستی ہوئی، دوسرے دن محبت، تیسرے دن لڑائی، چوتھے دن بلاک اور پانچویں دن تھوڑے سے آنسو چھٹے دن کوئی دوسرا سہارا دیتا ہے، ساتویں دن چھٹی ہوتی ہے اور سوموار کے دن نئے جذبے کے ساتھ نئی محبت شروع ہو جاتی ہے….

    پہلے کی محبت بھی دیسی گھی کی طرح خالص اور اسمیں خالص شہید کی جیسے مٹھاس ہوتی تھے.
    آج کل کی محبت میں آج کل کے گھی اور شہید کی طرح ملاوٹ پائی جاتی یے.
    میرے چچا جی کہا کرتے تھے “چھوڑو یار تم ڈالڈے کے فارمی جوان تو کسی کام کے نہیں”
    مجھے تو ڈالڈا بھی برابر کا قصور وار لگتا ہے.

    پہلے لوگوں کے پاس ایک دوسرے کیلئے وقت ہوا کرتا تھا اور آج کل لوگ گھر والوں سے بات نہیں کرینگے، پاس بیٹھے دوستوں سے بات نہیں کرینگے مگر میلوں دور بیٹے کچے دھاگے اور ایک بلاک کی دوری پر بنے ہوئے ریلیشن نبھائیں گے..
    ایک بار کزن نے ہم پانچ دوستوں کی تصویر لی اور فب پر ڈال دی ہم پانچ کے پانچ کافی دیر سے حضرت مولانا موبائل صاحب کے احترام میں گردن جھکائے مگن تھے. مجال کہ ایک دوسرے سے بات کرنے کی زحمت کی ہو.

    تو بات ہو رہی تھی وفا کی…
    وفا نام کو تو انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا نے اتنا بدنام کر دیا کہ پوچھو مت. جہاں سوشل میڈیا نے لوگوں کو قریب کیا وہیں دور بھی کیا.
    آج کل معاشرے میں لڑکیوں کا گھر سے بھاگ جانا اور طلاق کی شرح میں اضافہ ہو جانا اسی سوشل میڈیا کا دیا ہوا تحفہ ہے، وفا نام کی چیز کو تو لوگوں نے ردی کی ٹوکری کی نظر کر دیا.

    میں ایک دوست سے ملنے چلا گیا اس نے کہا کہ پارک آجاؤ وہیں بیٹھا ہوں اپنی سیم بے بی کے ساتھ. سیم جو کہ اسکی گرل فرینڈ تھی. میں نے سوچا چلو آج اسکی محبوبہ سے بھی مل لیتے ہیں.
    جب میں پارک پہنچا تو وہ ایک کتے کو “سیم بے بی کم، سیم بے بی کم کہ کر کے بلا رہا تھا” وہ کتا دوڑ کر پاس آتا تو اسے پیار سے گلے لگاتا.
    میں بڑا حیران ہوا، میں تو اسکی گرل فرینڈ کو ایکسپیکٹ کر رہا تھا یہ تو کتا نکلا، میں گویا ہوا، بھائی یہ کیا! تو نے اسکا نام سیم کیوں رکھا؟؟؟
    کہنے لگا یار بس کیا بتاؤں وہ بے وفا مجھے چھوڑ کر چلی گئی تو میں نے اسکے نام کا وفادار کتا پال لیا.
    یوں بے وفا سیم کو وفادار سیم میں بدل لیا.
    اسکی یہ بات سن کر میں 15 منٹ تک زمیں پر پیٹ پکڑ کر ہنستا رہا اور لوگ مجھے یوں پاگلوں کی طرح ہنستا دیکھ کر مجھے پاگل سمجھ کر میرے گرد گول دائرہ جما کر میرا تماشا کرتے رہے..
    اس سے بھی زیادہ افسوس ناک بات کیا ہو سکتی ہے کہ آج کے دور میں جب وفا کی بات کی جاتی ہےتو کتے کی مثال دی جاتی ہے

  • جہیز کے ڈاکو، مہر کےرکھوالے – نجم الحسن

    جہیز کے ڈاکو، مہر کےرکھوالے – نجم الحسن

    نجم الحسن ”مہر“ یہ لفظ اسلامی دنیا اور پاکستان میں بالخصوص ایک بہت عام نام ہے، مثلا ”مہر بانو“ جو کہ جگن کاظم کے نام سے جانی جاتی ہیں، شاید بہت ساروں کو نہیں پتہ ہوگا۔ بہر کیف میں یہاں مہر لڑکی کی بات نہیں کر رہا ہوں، میں اس مہر کی بات کر رہا ہوں جسے مہرفاطمی، حق مہر بھی کہا جاتا ہے۔ جی ہاں! اس رقم کی بات کر رہا ہوں جو مسلمانوں میں دولہا نکاح ہونے پر اپنی دلہن کو دیتا ہے۔ یہ رقم یا تو نکاح کے فورا بعد دی جاتی ہے یعنی ”مہر معجل یا مہر غیر مؤجل“ یا جب لڑکی چاہے تب لے سکتی ہے جو کہ ”مہر غیر معجل یا مؤجل“ کہلاتا ہے۔ اسلامی شریعت نے حق مہر ادا کرنے کے لیے وقت کی کوئی قید نہیں لگائی ہے، مرد اپنی زندگی میں کسی بھی وقت جب چاہے اسے ادا کرسکتا ہے اور اگر وہ اپنی زندگی میں کبھی بھی اس قابل نہ ہو پائے کہ ادا کرسکے تو اس کے مرنے کے بعد اس کے ترکہ میں سے حق مہر ادا کیا جائے گا اور یہ قرض ہوگا۔ اگرچہ میری نظر میں چونکہ بندہ اس قابل ہی نہیں کہ حق مہر ادا کر سکے تو اس کو شادی کرنے کا حق بھی نہیں ہونا چاہیے، تاہم یہ میرا ذاتی خیال ہے، شریعت میں ایسی کوئی قدعن نہیں۔ مگر ہاں جو امر ضروری ہے وہ یہ ہےکہ مہر طے ہوتی نکاح سے پہلے ہے اور یہ طے ہونا اتنا آسان نہیں ہوتا جتنا آسانی سے میں نے لکھ دیا۔

    تو تو میں میں ہوتی ہے۔ دلیلیں دی جاتی ہیں۔شریعت کی بات ہوتی ہے۔حیثیت کی بات ہوتی ہے۔کہا جاتا ہے کہ لڑکے کی اتنی حیثیت نہیں تو مہر اتنا کیوں، اور اسی دوران دو نوں خاندانوں میں نفرتیں، ناپسندیدگیاں اور ناچاقیاں اپنی جڑیں جمانا شروع کردیتی ہیں۔ دوریاں بڑھ جاتی ہیں اگر چہ قربتوں نے ابھی پنپنا شروع بھی نہیں کیا ہوتا۔ مطلب شادی تو ہوجاتی ہے لیکن مہر کے جھگڑے کی کھٹاس لے کر۔ اور یہ کھٹاس لڑکی کے لئے طعنوں کی وجہ بن جاتی ہے کہ اس کے گھر والوں نے مہر کے لیے کتنا ہنگامہ کیا تھا۔ مہر طے ہوتے وقت لڑکی والوں کو بدگمان بتایا جاتا ہے۔انہیں جال میں پھنسایا جاتا ہے کہ یہ تو بدظن ہیں جو مہر کی رقم کے لئے جھگڑ رہے ہیں۔ارے جس نے بیٹی دے دی تو پھر مہر کا کیا۔
    مگرحیرانی اس وقت ہوتی ہے جب لڑکے والوں کو کسی بات میں شریعت یاد نہیں آتی۔ بس یاد آتی ہے تو مہر کی رقم لکھواتے وقت۔ ایسے ہو جاتے ہیں جیسے ان سے بڑا کوئی مولوی یا پاک و پاکیزہ نہیں۔اگر یہ نہ ہوتے تو اسلام کی جڑیں ہل گئی ہوتیں۔ ایسے ایسے دلائل دیتے ہیں جیسے اسلام صرف ان کو کندھوں پر ہی ٹکا ہے۔ اور ایسا دباؤ بنایا جاتا ہے کہ چند روپیوں کا مہر ہی لڑکی والوں کو لکھواناپڑتا ہے۔تاہم اگر دیکھا جائے تو مہر کی رقم لڑکی کے لئے کچھ بھی نہیں ہوتی ہے۔ مکمل زندگی گزارنے کے لئے بس ایک سہارا ہوتی ہے، ایک آس ہوتی ایک ڈھارس ہوتی ہے۔جو لڑکے والے کم سے کم لکھوانا چاہتے ہیں۔

    جب لڑکی کا رشتہ طے ہو جاتا ہے۔تو لڑکے کی پسند اور نا پسند کا پٹارا بھی کھل جاتا ہے۔ یہ پسند والی فہرست اتنی تگڑی ہوتی ہے کہ بیٹی کا ہونا لوگ بوجھ سمجھ بیٹھتے ہیں۔اور یہ پسند بتانے والے لڑکے وہ ہوتے ہیں جو کبھی گھر میں پسند کی سبزی بھی پكوا کر نہیں کھا پاتے۔ اور گھر سے باہر یہ ہی بتاتے ہیں کہ آج قورما کھایا، اور آج بریانی کھائی۔ اور ہاں، بیٹے نے اگر کچھ اپنی مرضی کی ڈیمانڈ گھر میں کر دی تو ماں باپ کے ڈائیلاگ ایسے ہوتے ہیں، نالائق کرتا کچھ نہیں، اور مطالبہ ایسے کرتا ہے جیسے سب کچھ کما کے گھر میں اس نے ہی رکھا ہے۔

    اتنا ہی نہیں اگر بیٹا جواب دے دے تو کہتے ہیں، کر نہ کرتوت لڑنے کو مضبوط۔ ‘ مگر یہی ماں باپ جب بیٹے کے لئے دلہن لینے جاتے ہیں تو ان کا منہ لڑکی کے گھر والوں کے سامنے اسی نالائق بیٹے کے لئے ایسے پھٹتا ہے کہ پوچھو مت۔ اگر ان ماں باپ کا بس چلے تو لڑکی کا پورا گھر ہی سر پر اٹھا لائیں۔ اس وقت انہیں شریعت یاد نہیں آتی۔

    بارات کی بات ہوتی ہے توبول دیا جاتا ہے ہمارے اتنے سو باراتي آئیں گے۔ اگر لڑکی والے کہیں کہ تھوڑے کم باراتی لے آنا تو وہی شان بگھارتے ہوئے کہیں گے۔ اجی ماشا اللہ سے کنبہ ہی اتنا بڑا ہے، اور پھر ہمارا لوگوں سے اتنا ملنا جلنا ہے۔لڑکے کے دوست ہیں، احباب ہیں، جان پہچان کے لوگ ہیں وغیرہ وغیرہ۔ تو اب آپ ہی بتایئں کم باراتی کیسے لائیں، کسے انکار کریں۔انکار کریں گے تو ہمارے رشتہ دار ناراض ہو جائیں گے۔ اس وقت لڑکے والوں کو لڑکی والوں کی حیثیت نظر نہیں آتی۔ ہاں اس وقت اپنی حیثیت ضرور یاد آ جاتی ہے جب مہر کی باری آتی ہے۔ پھر ممياتے ہیں، جی ہماری تو اتنی حیثیت ہی نہیں۔

    کوئی ناراض نہ ہو جائے اس وجہ سے بارات میں کسی کو چھوڑ کر نہیں جائیں گے۔لیکن نیا نیا رشتہ ہونے کے باوجود لڑکی والوں کی ناراضگی کے بارے میں نہیں سوچیں گے۔ طویل چوڑی بارات لے کر جائیں گے۔ چاہے لڑکی والوں کی حیثیت ہو یا نہ ہو۔ اور اگر پھر لڑکی والوں کی طرف سے خاطر داری میں نمک بھی کم رہ جائے تو لڑکے کا پھوپھا مختلف ننگا ناچ کرے گا۔ پھپھو (پھوپھی) کی زبان الگ لمبی راگ الاپے گی، خالو (مسے) الگ بڑبڑائےگا۔ تب لڑکے والوں کو نہیں لگے گا کہ وہ کتنی بے غیرتی دکھا رہے ہیں۔ کھانے کو برا بتاتے وقت نہ شریعت یاد آئے گی اور نہ سنت۔ ہاں اگر لڑکی والے مہر کی بات کریں گے تو ضرور لگے گا۔ دیکھو تو صحیح پوری لڑکی دے دی اور مہر کے چند پیسوں کے لئے جھگڑ رہے ہیں۔ مطلب اگر وہ مہر کی بات بھی کریں تو ان کا وہ بات کرنا جھگڑنا نظر آتا ہے۔ جہیز مانگنا، ہر بات میں اپنی چلانا، آپ نئے نئے رسم و رواج بتا کر لڑکی والوں سے وصولی کرنا، لڑکے والوں کو داداگيري یا رنگداری مانگنے جیسا نظر نہیں آتا۔

    شریعت کے مطابق مہر ”مہرفاطمی“ ہوتا ہے جس کے تحت موجودہ دور میں تقریبا 150 تولا چاندی یا اس کی رقم بنتی ہے۔ مہرفاطمی مطلب جب نبی محمد ﷺ کی بیٹی حضرت فاطمہ کا نکاح حضرت علی سے ہوا تو مہر کی رقم اس دور کے حساب سے طے کی گئی۔یہ رقم موجودہ دور میں انتہائی کم ہے، اس لیے ہی لڑکے والوں کو مہر کے وقت شریعت یاد آتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ فاطمی باندھ لو۔لیکن انہیں یہ یاد نہیں رہتا کہ جہیز کا لین دین نہیں ہوا تھا۔ جہیز مانگنا تو لڑکے والوں کا پیدائشی حق جیسا لگتا ہے۔ جہیز لیتے وقت ان کی شریعت جہیز میں کسی صندوق میں بند ہو جاتی ہے۔ اور صندوق کی چابی پتہ نہیں کہاں کھو جاتی ہے۔حقیقت میں ہم شریعت کو ایک لبادہ سمجھ بیٹھے ہیں، جب ٹھنڈک محسوس ہوئی اوڑھ لیا اور جب گرمی لگے تو اتار پھینکا۔

  • وطن کی مٹی گواہ رہنا – عشوارانا

    وطن کی مٹی گواہ رہنا – عشوارانا

    بابا بابا! مجھے یہ والے کھلونے چاہیے۔ معاذ نے میرے ہاتھ میں اپنا ہاتھ ڈالے کھلونوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
    اچھا میرے بیٹے کو کون سا کھلونا چاہیے؟
    یہ جہاز والا اور یہ گن بھی۔ معاذ نے خوشی سے کہا۔
    آپ ان کا کیا کرو گے؟میں نے تجسس سے پوچھا۔
    بابا! میں جہاز اڑا کر گن سے سارے دشمنوں کو ختم کر دوں گا۔ ایسے ٹھیشا ٹھیشا۔ اس نے ہاتھ سے گن بناتے ہوئے ٹھیشا ٹھیشا کرتے ہوئے کہا۔ مجھے اس کی معصومیت پہ بےاختیار پیار آیا تھا۔

    آج معاذ چھ سال کا ہوگیا ہے۔ کل ہی کی بات لگتی ہے جب میں نے اسے پہلی بار گود میں اٹھایا تھا۔ وقت بھی کتنی تیزی سے گزر جاتا ہے۔ معاذ کی امی تو اس کی پیدائش کے وقت ہی وفات پا گئی تھی۔ تین سال تک اس کی خالہ نے اس کی دیکھ بھال کی۔ میں نے بھی سب کے کہنے کے باوجود دوسری شادی نہیں کی اور اپنے بچے کا خود خیال رکھا۔ آج بھی کھلونے دیکھ کر مچل اٹھتا ہے۔ اللہ اسے ہمیشہ خوش رکھے۔ نیک بنائے۔ آمین۔ رشید صاحب نے ڈائری بند کرتے ہوئے سوچا تھا۔

    سنیں بابا! ہوم ورک کرتے ہوئے معاذ نے پکارا تھا۔
    بابا! آج سر کلاس میں پوچھ رہے تھے کہ آپ بڑے ہو کر کیا بنو گے۔ میں نے کہا۔ فوجی۔۔ تو سر ہنسنے لگے۔ کہتے بیٹا، آپ ایک چوٹ سے رونے لگتے ہو۔۔ وہاں کیسے رہ پاؤ گے۔ میں ہنس پڑا۔
    بابا آپ بھی ہنس رہے۔۔ آپ دیکھنا میں یونیفارم میں کتنا اچھا لگوں گا۔ میں نے اس کے چہرے کی طرف دیکھا۔ چہرے پہ خوشی کے رنگ تھے تو آنکھوں میں خوابوں کا عکس۔۔
    اللہ اسے نظر بد سے بچائے۔ میرے دل سے بے اختیار دعا نکلی۔
    معاذ اتنا بڑا ہوگیا ہے۔ کل تک میں اسے ہاتھ پکڑ کر چلنا سکھاتا تھا۔ آج وہ ہاتھ پکڑ کر اٹھاتا ہے۔ میرے کام کر دیتا ہے۔ کل کہہ رہا تھا، بابا! آپ سست سے ہوگئے ہیں۔ بوڑھا ہو گیا ہوں۔ اللہ میرے بچے کو زندگی دے۔ آمین۔ تنہائی میں ان کی ڈائری ہی ان کی دنیا ہوتی تھی۔

    آج سیکنڈایئر کی الوداعی تقریب تھی۔ والدین نے بھی شرکت کی تھی۔ معاذ کی نمایاں پوزیشن تھی۔ محنتی وہ ہمیشہ سے تھا۔ استاتذہ سے ملتے اور اسٹیج پہ چلتے پھرتے میرا بچہ بہت پیارا لگ رہا تھا۔ آج اسے انٹر کی ڈگری بھی مل گئی تھی۔ میں سوچ رہا تھا کہ اسے یونیورسٹی میں داخل کروا دوں۔ کل میں نے پوچھا بھی تھا معاذ سے۔ وہ فوج میں جانے کا کہہ رہا تھا۔ میرا ایک ہی تو بیٹا ہے۔ میں اسے اپنے سے دور کیسے بھیج سکتا ہوں۔ سمجھاؤں گا اسے۔ چھوٹا ہے نا ۔۔ اسی لیے سمجھ نہیں آتی اسے۔
    بابا گھر چلیں ۔۔ کہاں گم ہیں آپ؟ معاذ نے مجھے ہلاتے ہوئے کہا اور میں نے سوچوں سے نکل کر سر ہلا دیا۔
    معاذ بیٹا! یہیں داخلہ لے لو۔ میں تمہیں دور کیسے بھیج سکتا۔ ہم دونوں کے علاوہ ہمارا ہے ہی کون۔ میں نے معاذ کو سمجھاتے ہوئے کہا تھا۔ وہ سن رہا تھا۔
    بابا آپ ہی تو کہتے ہیں کہ اللہ تعالی ہر وقت ہمارے ساتھ ہوتے ہیں۔ ہم ان کی امانت ہیں ۔۔ جب چاہے لے لیں ۔۔ ہمیں بس اللہ کی رضا میں راضی رہنا چاہیے، اسی میں ہماری بھلائی ہی ہوتی۔ ہمیں کبھی نا امیدی اور مایوسی کو پاس نہیں آنے دینا چاہیے۔
    وہ بول رہا تھا۔ میں سن رہا تھا۔ میں کیوں یہ بھول گیا۔ ہم پہلے اولاد کو سارے سبق پڑھاتے ہیں ۔۔ اور جب وہ سیکھ جاتے تو ہم بھول جاتے ہیں۔ میں سوچوں میں گھرا تھا۔
    کیا سوچ رہے بابا ۔اگر آپ کا دل نہیں مان رہا تو نہیں جاتا۔ اس نے اداسی سے کہا تھا۔ نظریں میرے چہرے پہ ٹکی تھی۔ میں نے فیصلہ کر لیا۔
    ٹیسٹ کب ہے تمہارا۔ میں نے سنجیدگی سے کہا تھا اور وہ خوشی سے میرے گلے لگ گیا۔ اس کی خوشی ہی میری خوشی تھی۔

    معاذ ٹریننگ کے لیے جا چکا ہے۔ میرا دل بہت اداس ہو رہا اس کے بغیر۔ کل اس کا فون آیا تھا تو کہہ رہا تھا بابا اپنا خیال رکھا کریں۔ میں نے کہا کہ اب کی بار تم آؤ گے تو اپنا اور تمہارا خیال رکھنے والی پیاری سی بیٹی لے آؤں گا۔۔ ہنس کر کہنے لگا۔۔ میں اپنے لیے مما ڈھونڈتا ہوں ۔۔ اور آپ بیٹی ۔۔ اللہ اس کی عمر دراز کرے۔
    وقت بھی کتنی تیزی سے گزر جاتا ہے۔ معاذ کہ نوکری کو بھی کافی سال ہو گئے ہیں۔ فون پر بتا رہا تھا کہ بارڈر پہ تعیناتی ہوگئی ہے۔ بھارتی فوجیوں کی جانب سے معصوم لوگوں پہ فائرنگ کی کوشش کی جاتی ہے۔ میرا خون کھول اٹھتا ہے۔ بس نہیں چلتا کہ ختم کر دوں ۔۔ وہ بول رہا تھا ۔۔ میں پریشان ہو گیا۔ حالات بھی تو ایسے ہیں۔ اللہ اس کی حفاظت کرے۔ آمین

    بریکنگ نیوز ۔۔ بھارتی افواج کی جانب سے دو فوجی اور کئی شہری زخمی ۔ پاکستانی فوج کی بھرپور جوابی کاروائی۔ وزارت خارجہ کو طلب کر لیا گیا۔
    آج پھر وہی خبر چل رہی تھی، یہ تو اب روز کا معمول تھا۔ ہر ایسی خبر پہ میرا دل کسی بچے کی طرح روتا اور معاذ کی خیریت کی اطلاع ملتے ہی خاموش ہو جاتا جیسے بچے کو ماں نے پیار کیا ہو ۔۔ میرا دل بہت پریشان ہو رہا تھا۔ فون کی گھنٹی پر میں نے فورا ریسیور اٹھایا۔۔
    معاذ بیٹا ۔۔ میں نے اٹھاتے ہی بےساختہ کہا تھا۔
    بولنے والی آواز کسی گولی کی طرح میرے سینے کے پار ہوئی تھی۔ ٓآپ کے لیے فخر کی بات ہے کہ آپ کا بیٹا بھارتی افواج کی جانب سے فائرنگ پہ اک شخص کو بچاتے دشمن کو گولیوں کا نشانہ بن گیا۔
    اللہ آپ کو صبر کی تو فیق دے۔ خبر تھی کہ گولی۔۔؎۔۔ میرا دل چھلنی ہوگیا۔۔ درد تھا بےانتہا درد ۔۔ اپنے لخت جگر کی موت پہ دل نے سسکنا چاہا۔ میں گم صم سا بیٹھ گیا۔میرے دماغ میں اس کی باتیں گونج رہی تھی۔۔ اور پھر جیسے رب کی رحمت نے مجھے اپنے سائے میں لیا ہو ۔۔ یہ قربانی تھی ۔۔ شہادت تھی ۔۔ اس وطن کے لیے جسے پانے میں ہم نے ایک دن میں لاکھوں لوگ گنوائے ۔۔ میرے اللہ نے اس کی خواہش کو پورا کر کر اسے ہمیشہ کے لیے زندہ کر دیا تھا ۔۔ بےشک ہم سب اللہ کی امانت ہیں ۔۔ میرا بیٹا شہید ہوا تھا۔دل و دماغ خالی ہو رہے تھے۔ میں نے خود کو سنبھالا ۔۔ آنسوؤں پہ بھلا کس کا اختیار؟

    انہی آنکھوں نے اسے بڑا ہوتا دیکھا تھا.. اس کی میت پہنچا دی گئی تھی.. لوگوں نے نعرہ لگاتے، اسے رخصت کیا تھا ۔۔ میں اسے اس کی آخری آرام گاہ میں پہنچا آیا ۔۔ اب روز وہاں جاتا ہوں اور مسکرا کر آنکھ میں آئے آنسو صاف کر کر کہتا ہو ں ۔۔گواہ رہنا۔۔
    وطن کی مٹی گواہ رہنا ۔۔ اس کے کتبے پہ بڑے واضح لفظوں میں لکھوایا گیا تھا۔
    وطن کی مٹی گواہ رہنا
    کہ تمہاری آس میں
    بہت کچھ لٹایا ہے
    تم سے بے لوث محبت میں
    بہت سوں کو گنوایا ہے
    وطن کی مٹی گواہ رہنا

  • سیرت ِطیبہ کے دو واقعات – نعیم الرحمان شائق

    سیرت ِطیبہ کے دو واقعات – نعیم الرحمان شائق

    اس امت ِ مرحومہ کو اس پر آشوب اور سخت دور میں اسوہ ِحسنہ یعنی پیغمبر ِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ پر عمل کرنے کی جتنی اب ضرورت ہے ، شاید اس سے پہلے کبھی نہیں تھی ۔ سوچتا ہوں کہ ہماری اخلاقیات کہاں گم ہوگئیں ؟ ہم کبھی زمانے کے امام تھے ، مگر اب کیا ہیں ؟ کچھ بھی تو نہیں ۔ سچ یہ ہے کہ جب سے ہم نے اپنے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک سیرت پر عمل کرنا چھوڑ دیا ، تب سے ہم پر مصیبتوں کے دور کا آغاز ہوگیا ۔ میں اکثر کہتا رہتا ہوں کہ ہم قرآن ِ حکیم کی تعلیمات پر کس طرح عمل کریں گے ، جب کہ ہمیں معلوم ہی نہیں ہے کہ اس پاک کلام کی تعلیمات کیا ہیں؟ بالکل اسی طرح، جب ہمیں آقا علیہ السلام کی پاک سیرت کے بارے میں معلوم ہی نہیں ہے تو ہم کیوں کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پر عمل کر سکیں گے؟ ضرورت اس بات کی ہے کہ سیرت ِ طیبہ کی حتی المقدور تشہیر کی جائے ۔ مکتبوں میں ، درس گاہوں میں ، کالجوں میں ، یو نی ورسٹیوں میں ، فیکٹریوں میں ، کارخانوں میں اور یہاں تک کہ پارلیمنٹ میں ۔ کیوں کہ آقا علیہ السلام کی سیرت انسانی زندگی کے ہر ہر گوشے کی رہنمائی اور تربیت کرتی ہے ۔ تعلیم ہو یا سیاست ، امور ِ خانہ داری ہوں ، یا تجارت ، معیشت ہو یا رہن سہن کے اطوار ، ہر جگہ اسوہ ِ حسنہ کی پیروی کرنا ہمارے لیے از حد ضرور ی ۔ آںحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت ِ طیبہ ایک بحر ِ بے کراں ہے ۔ اس کا پورا پورا احاطہ کرنا مشکل ہی نہیں ، نا ممکن ہے ۔ جی چاہتا ہے ، آقا علیہ السلام کی سیرت ِ پاک کے دو واقعات سے آج کی اپنی تحریر کو معطر کروں۔

    1۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، ایک دن میں حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بالائی منزل پر تشریف رکھتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم ِ مبارک پر صرف ایک تہہ بند تھا۔ ایک کھری چارپائی تھی، سرہانے ایک تکیہ پڑا تھا، جس میں خرمے کی چھال بھری ہوئی تھی۔ ایک طرف مٹھی بھر جو رکھے تھے۔ ایک کونے میں پائے مبارک کے پاس کسی جانور کی کھال پڑی تھی۔ کچھ مشکیزے کی کھالیں سر کے پاس کھونٹی پر لٹک رہی تھیں۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ یہ دیکھ کر میری آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے رونے کا سبب دریافت کیا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کی، یا رسول اللہ ! میں کیوں نہ روؤں۔ چار پائی کے بان سے جسم ِ اقدس پر بدھیاں پڑ گئی ہیں۔ اس میں جو سامان ہے، وہ نظر آ رہا ہے۔ قیصر و کسریٰ تو باغ و بہار کے مزے لوٹیں اور خدا کے پیغمبر و برگزیدہ ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامان ِخانہ کی یہ کیفیت ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا، ”اے ابنِ خطاب ! تم کو یہ پسند نہیں کہ وہ یہ دنیا لیں اور ہم آخرت۔“
    یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیر ت ِطیبہ کا مشہور واقعہ ہے۔ اب ذرا غور کیجیے کہ ہم دنیا و آخرت میں سے کس کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں؟ ہمیں ان دونوں میں سے کون سی شے زیادہ مرغوب ہے؟ اسلام کا جھکاؤ دنیا کے مقابلے میں آخرت کی طرف زیادہ ہے، کیوں کہ وہ ابدی زندگی ہے ۔

    2۔ قبیلہ ِاراش کا ایک شخص مکہ مکرمہ میں اپنے اونٹ بیچنے کے لیے لایا۔ ابوجہل نے اس سے سارے اونٹوں کا سودا کر لیا۔ اونٹ لینے کے بعد ابوجہل نے قیمت ادا کرنے میں ٹال مٹول شروع کر دی۔ اراشی کئی روز مکہ مکرمہ میں ٹھہرا رہا، مگر ابوجہل برابر حیلے بہانے کرتا رہا۔ جب اراشی تنگ آگیا تو اس نے ایک روز حرم ِکعبہ میں پہنچ کر قریش کے سرداروں کو اپنی بپتا سنائی اور فریاد کی کہ میری رقم ابوجہل سے دلوادو۔ میں ایک غریب الوطن مسافر ہوں، خدارا میری مدد کرو۔ جس وقت وہ قریش کے سرداروں سے فریاد کر رہا تھا، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی حرم ِکعبہ کے ایک گوشے میں تشریف فرما تھے۔ سرداران ِقریش کو مذاق سوجھا تو انھوں نے اس کو آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اس معاملے میں مدد طلب کرنے کو کہا۔ مظلوم اراشی اپنی فریا د لے کر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا۔ دوسری طرف سرداران ِقریش خوش ہو رہے تھے کہ اب مزہ آئے گا۔ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس اجنبی مظلوم کی فریاد سن کر اسی وقت اٹھ کھڑے ہوئے اور ابوجہل کے مکان پر پہنچ گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رعب دار آواز میں کہا، تم نے اس اراشی سے اونٹ خریدے ہیں، فوراََ اونٹوں کی رقم لا کر اس شخص کو دے دو ۔ یہ ایک سچے کردار کی عظمت اور رعب کا نتیجہ تھا کہ ابوجہل نے مطلوبہ رقم اراشی کے سپرد کر دی۔

    اس واقعے سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ ہمیں مظلوم کی حمایت کرنی چاہیے، چاہے وہ مظلوم کسی اور قوم کا ہی کیوں نہ ہو! اللہ تعالیٰ ہمیں اسوہ ِحسنہ پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین )

  • اگر وہ چلا گیا-جاوید چوہدری

    اگر وہ چلا گیا-جاوید چوہدری

    566527-JavedChaudhryNew-1469464911-239-640x480

    بس پہاڑی علاقے سے گزر رہی تھی‘ اچانک بجلی چمکی‘ بس کے قریب آئی اور واپس چلی گئی‘ بس آگے بڑھتی رہی‘ آدھ گھنٹے بعد بجلی دوبارہ آئی‘ بس کے پچھلے حصے کی طرف لپکی لیکن واپس چلی گئی‘ بس آگے بڑھتی رہی‘ بجلی ایک بار پھر آ ئی‘ وہ اس بار دائیں سائیڈ پر حملہ آور ہوئی لیکن تیسری بار بھی واپس لوٹ گئی‘ ڈرائیور سمجھ دار تھا‘ اس نے گاڑی روکی اور اونچی آواز میں بولا ’’بھائیو‘ بس میں کوئی گناہگار سوار ہے۔
    یہ بجلی اسے تلاش کر رہی ہے‘ ہم نے اگر اسے نہ اتارا تو ہم سب مارے جائیں گے‘‘ بس میں سراسیمگی پھیل گئی اور تمام مسافر ایک دوسرے کو شک کی نظروں سے دیکھنے لگے‘ ڈرائیور نے مشورہ دیا‘ سامنے پہاڑ کے نیچے درخت ہے‘ ہم تمام ایک ایک کر کے اترتے ہیں اور درخت کے نیچے کھڑے ہو جاتے ہیں‘ ہم میں سے جو گناہ گار ہو گا بجلی اس پر گر جائے گی اور باقی لوگ بچ جائیں گے‘ یہ تجویز قابل عمل تھی‘ تمام مسافروں نے اتفاق کیا‘ ڈرائیور سب سے پہلے اترا  اور دوڑ کر درخت کے نیچے کھڑا ہو گیا۔

    بجلی آسمان پر چمکتی رہی لیکن وہ ڈرائیور کی طرف نہیں آئی‘ وہ بس میں واپس چلا گیا‘ دوسرا مسافر اترا اور درخت کے نیچے کھڑا ہو گیا‘ بجلی نے اس کی طرف بھی توجہ نہیں دی‘ تیسرا مسافر بھی صاف بچ گیا یوں مسافر آتے رہے‘ درخت کے نیچے کھڑے ہوتے رہے اور واپس جاتے رہے یہاں تک کہ صرف ایک مسافر بچ گیا‘ یہ گندہ مجہول سا مسافر تھا‘ کنڈیکٹر نے اسے ترس کھا کر بس میں سوار کر لیا تھا‘ مسافروں نے اسے برا بھلا کہنا شروع کر دیا۔

    لوگوں کا کہنا تھا ’’ہم تمہاری وجہ سے موت کے منہ پر بیٹھے ہیں‘ تم فوراً بس سے اتر جاؤ‘‘ وہ اس سے ان گناہوں کی تفصیل بھی پوچھ رہے تھے جن کی وجہ سے ایک اذیت ناک موت اس کی منتظر تھی‘ وہ مسافر اترنے کے لیے تیار نہیں تھا لیکن لوگ اسے ہر قیمت پر بس سے اتارنا چاہتے تھے‘ مسافروں نے پہلے اسے برا بھلا کہہ کر اترنے کا حکم دیا‘ پھر اسے پیار سے سمجھایا اور آخر میں اسے گھسیٹ کر اتارنے لگے۔

    وہ کبھی کسی سیٹ کی پشت پکڑ لیتا تھا‘ کبھی کسی راڈ کے ساتھ لپٹ جاتا تھا اور کبھی دروازے کو جپھا مار لیتا تھا لیکن لوگ باز نہ آئے‘ انھوں نے اسے زبردستی گھسیٹ کر اتار دیا‘ ڈرائیور نے بس چلا دی‘ بس جوں ہی ’’گناہ گار‘‘ سے چند میٹر آگے گئی‘ دھاڑ کی آواز آئی‘ بجلی بس پر گری اور تمام مسافر چند لمحوں میں جل کر بھسم ہو گئے‘ وہ گناہگار مسافر دو گھنٹوں سے مسافروں کی جان بچا رہا تھا۔

    مجھے کسی صاحب نے ایک دلچسپ واقعہ سنایا‘ وہ ترکی کے راستے یونان جانا چاہتے تھے‘ ایجنٹ انھیں ترکی لے گیا‘ یہ ازمیر شہر میں دوسرے لوگوں کے ساتھ برفباری کا انتظار کرنے لگے‘ سردیاں یورپ میں داخلے کا بہترین وقت ہوتا تھا‘ برف کی وجہ سے سیکیورٹی اہلکار مورچوں میں دبک جاتے تھے‘ بارڈر پرگشت رک جاتا تھا‘ ایجنٹ لوگوں کو کشتیوں میں سوار کرتے تھے اور انھیں یونان کے کسی ساحل پر اتار دیتے تھے‘ یہ ایجنٹوں کی عام پریکٹس تھی۔

    اس صاحب نے بتایا ’’ہم ترکی میں ایجنٹ کے ڈیرے پر پڑے تھے‘ ہمارے ساتھ گوجرانوالہ کا ایک گندہ سا لڑکا تھا‘ وہ نہاتا بھی نہیں تھا اور دانت بھی صاف نہیں کرتا تھا ‘ اس سے خوفناک بو آتی تھی‘ تمام لوگ اس سے پرہیز کرتے تھے‘ ہم لوگ دسمبر میں کشتی میں سوار ہوئے‘ ہم میں سے کوئی شخص اس لڑکے کو ساتھ نہیں لے جانا چاہتا تھا‘ ہم نے اسے روکنے کی کوشش کی لیکن وہ رونا شروع ہو گیا‘ ایجنٹ کے پاس وقت کم تھا چنانچہ اس نے اسے ٹھڈا مار کر کشتی میں پھینک دیا‘ کشتی جب یونان کی حدود میں داخل ہوئی تو کوسٹ گارڈ ایکٹو تھے۔

    یونان کو شاید ہماری کشتی کی مخبری ہو گئی تھی‘ ایجنٹ نے مختلف راستوں سے یونان میں داخل ہونے کی کوشش کی مگر ہر راستے پر کوسٹ گارڈ تھے‘ اس دوران اس لڑکے کی طبیعت خراب ہو گئی‘ وہ الٹیاں کرنے لگا‘ہم نے ایجنٹ سے احتجاج شروع کر دیا‘ ایجنٹ ٹینشن میں تھا‘ اسے غصہ آ گیا‘ اس نے دو لڑکوں کی مدد لی اور اسے اٹھا کر یخ پانی میں پھینک دیا‘ وہ بے چارہ ڈبکیاں کھانے لگا‘ ہم آگے نکل گئے‘ ہم ابھی آدھ کلو میٹر آگے گئے تھے کہ ہم پر فائرنگ شروع ہو گئی‘ ایجنٹ نے کشتی موڑنے کی کوشش کی۔

    کشتی اپنا توازن برقرار نہ رکھ سکی اور وہ پانی میں الٹ گئی‘ ہم سب پانی میں ڈبکیاں کھانے لگے‘ میں نے خود کو سردی‘ پانی اور خوف کے حوالے کر دیا‘ میری آنکھ کھلی تو میں اسپتال میں تھا‘ مجھے عملے نے بتایا کشتی میں سوار تمام لوگ مر چکے ہیں‘ صرف دو لوگ بچے ہیں‘ میں نے دوسرے شخص کے بارے میں پوچھا‘ ڈاکٹر نے میرے بیڈ کا پردہ ہٹا دیا‘ دوسرے بیڈ پر وہی لڑکا لیٹا تھا جسے ہم نے اپنے ہاتھوں سے سمندر میں پھینکا تھا‘ سمندر کی لہریں اسے دھکیل کر ساحل تک لے آئی تھیں۔

    مجھے کوسٹ گارڈز نے بچا لیا تھا جب کہ باقی لوگ گولیوں کا نشانہ بن گئے یا پھر سردی سے ٹھٹھر کر مر چکے تھے‘ میں پندرہ دن اسپتال رہا‘ میں اس دوران یہ سوچتا رہا ’’میں کیوں بچ گیا‘‘ مجھے کوئی جواب نہیں سوجھتا تھا‘ میں جب اسپتال سے ڈسچارج ہو رہا تھا‘مجھے اس وقت یاد آیا میں نے اس لڑکے کو لائف جیکٹ پہنائی تھی‘ ایجنٹ جب اسے پانی میں پھینکنے کے لیے آ رہا تھا تو میں نے فوراً باکس سے جیکٹ نکال کر اسے پہنا دی تھی‘ یہ وہ نیکی تھی جس نے مجھے بچا لیا‘ مجھے جوں ہی یہ نیکی یاد آئی۔

    مجھے چھ ماہ کا وہ سارا زمانہ یاد آ گیا‘ جو ہم نے اس لڑکے کے ساتھ گزارہ تھا‘ ہم نہ صرف ترکی میں اس کی وجہ سے بچتے رہے تھے بلکہ وہ جب تک ہماری کشتی میں موجود رہا ہم کوسٹ گارڈز سے بھی محفوظ رہے‘ یخ پانی سے بھی اور موت سے بھی‘ ہم نے جوں ہی اسے کشتی سے دھکا دیا موت نے ہم پر اٹیک کر دیا‘ میں نے پولیس سے درخواست کی ’’میں اپنے ساتھی سے ملنا چاہتا ہوں‘‘ پولیس اہلکاروں نے بتایا ’’وہ پولیس وین میں تمہارا انتظار کر رہا ہے‘‘ میں گاڑی میں سوار ہوا اور جاتے ہی اسے گلے سے  لگا لیا۔

    مجھے اس وقت اس کے جسم سے کسی قسم کی کوئی بو نہیں آ رہی تھی‘ مجھے معلوم ہوا میرے ساتھیوں کو اس کے جسم سے اپنی موت کی بو آتی تھی‘ یہ ان لوگوں کی موت تھی جو انھیں اس سے الگ کرنا چاہتی تھی اور وہ جوں ہی الگ ہوئے سب موت کی آغوش میں چلے گئے۔

    میرے ایک بزرگ دوست جوانی میں ارب پتی تھے لیکن ان کی زندگی کا آخری حصہ عسرت میں گزرا‘ مجھے انھوں نے ایک دن اپنی کہانی سنائی‘ انھوں نے بتایا ’’میرے والد مل میں کام کرتے تھے‘ گزارہ مشکل سے ہوتا تھا‘ ان کا ایک کزن معذور تھا‘ کزن کے والدین فوت ہو گئے‘ اس کے آگے پیچھے کوئی نہیں رہا‘ میرے والد کو ترس آ گیا‘ وہ اسے اپنے گھر لے آئے‘ ہم پانچ بہن بھائی تھے‘ گھر میں غربت تھی اور اوپر سے ایک معذور چچا سر پر آ گرا‘ والدہ کو وہ اچھے نہیں لگتے تھے‘ وہ سارا دن انھیں کوستی رہتی تھیں۔

    ہم بھی والدہ کی وجہ سے ان سے نفرت کرتے تھے لیکن میرے والد کو ان سے محبت تھی‘ وہ انھیں ہاتھ سے کھانا بھی کھلاتے تھے‘ ان کا بول براز بھی صاف کرتے تھے اور انھیں کپڑے بھی پہناتے تھے‘ اللہ کا کرنا یہ ہوا‘ ہمارے حالات بدل گئے‘ ہمارے والد نے چھوٹی سی بھٹی لگائی‘ یہ بھٹی کارخانہ بنی اور وہ کارخانہ کارخانوں میں تبدیل ہو گیا‘ ہم ارب پتی ہو گئے‘ 1980ء کی دہائی میں ہمارے والد فوت ہو گئے‘ وہ چچا ترکے میں مجھے مل گئے‘ میں نے انھیں چند ماہ اپنے گھر رکھا لیکن میں جلدہی تنگ آ گیا۔

    میں نے انھیں پاگل خانے میں داخل کرا دیا‘ وہ پاگل خانے میں رہ کر انتقال کر گئے بس ان کے انتقال کی دیر تھی ہمارا پورا خاندان عرش سے فرش پر آ گیا‘ ہماری فیکٹریاں‘ ہمارے گھراور ہماری گاڑیاں ہر چیز نیلام ہو گئی‘ ہم روٹی کے نوالوں کو ترسنے لگے‘ ہمیں اس وقت معلوم ہوا ہمارے معذور چچا ہمارے رزق کی ضمانت تھے‘ ہم ان کی وجہ سے محلوں میں زندگی گزار رہے تھے‘ وہ گئے تو ہماری ضمانت بھی ختم ہو گئی‘ ہمارے محل ہم سے رخصت ہو گئے‘ ہم سڑک پر آ گئے۔

    یہ تینوں واقعات آپ کے لیے ہیں‘ہم نہیں جانتے ہم کن لوگوں کی وجہ سے زندہ ہیں‘ ہم کن کی وجہ سے کامیاب ہیں اور ہم کن کی بدولت محلوں میں زندگی گزار رہے ہیں‘ ہم یہ بھی نہیں جانتے ہم کس کو بس سے اتاریں گے‘ ہم کس کو کشتی سے باہر پھینکیں گے اور ہم کس کے کھانے کی پلیٹ اٹھائیں گے اور وہ شخص ہمارا رزق‘ ہماری کامیابی اور ہماری زندگی ساتھ لے جائے گا‘ ہم ہرگزہرگز نہیں جانتے لہٰذا ہم جب تک اس شخص کو نہیں پہچان لیتے ہمیں اس وقت تک کسی کو بس‘ کشتی اور گھر سے نکالنے کا رسک نہیں لینا چاہیے‘ کیوں؟ کیونکہ ہو سکتا ہے ہمارے پاس جو کچھ ہو وہ سب اس شخص کا ہو اور اگر وہ چلا گیا تو سب کچھ چلا جائے‘ ہم ہم نہ رہیں‘ مٹی کا ڈھیر بن جائیں۔

  • ایک تھا رانگڑ (1) – اویس قرنی

    ایک تھا رانگڑ (1) – اویس قرنی

    اویس قرنی (یہ سیف الملوک کی کہانی ہے، نہ داستانِ امیر حمزہ ، یہ وہ حکایت ہے جو شیخ سعدی نے نقصِ امن کے خدشے کے باعث گلستان میں نہ لکھی مبادا لینے کے دینے پڑ جائیں۔ یہ پانچویں درویش کا قصہ نہیں بلکہ چھٹے راجپوت کا کچا چٹھا ہے۔ بے شک یہ کہانی صرف ذہنی بالغوں کے لیے ہے.)

    پتا نہیں کون سی دفعہ شاید 302 کا ذکر ہے کہ سسی کے پیدائشی علاقے میں ایک بچہ نما پیدا ہوا۔ والدین کو حیرت تو ہوئی لیکن قدرت کا تحفہ سمجھ کر دل و جان سے اسے قبول کر لیا۔ تاہم اس ضمن میں تاریخ گونگے کی طرح خاموش ہے کہ نومولود کے سر پہ موجود دونوں سینگوں کا کریا کرم کیسے ہوا۔ البتہ یادِ رفتگاں کے طور پہ نام رکھ دیا گیا، تاکہ ایک غیر رسمی سند رہے۔ فدوی کا ماننا ہے ”گدھے کے سر سینگ غائب ہونا“ والے محاورے کی وجہ تسمیہ پر تحقیق کی جائے تو محاورے کا سنِ پیدائش بھی شاید وہی نکلے گا۔ کسی نے مذاق میں بھی نہ سوچا ہوگا کہ یہ ایک دن اتنا بڑا آدمی بن جائے گا کہ اس پر قلمکار قلم بازی کرتے پھریں گے، اس لیے موصوف کے حالات ِگزشتہ کسی نے یاد رکھنے یا لکھنے کی زحمت نہ کی۔ موصوف نےاس بات کو اتنا دل پرلے لیا کہ دل میں ”بڑا آدمی“ بننے کی ٹھان لی۔ کچھ سال کی لگاتار کوششیں جب رائیگاں گئیں تو موصوف نے ”واماندگی شوق تراشے ہے پناہیں“ والے کلیے کے تحت کاغذات میں اپنا سنِ پیدائش ایک سال پرانا درج کروا کے سوچا دل کے بہلانے کو غالب یہ خیال اچھا ہے۔

    اپنی خدادا د عصری حسیت کو کام میں لا کر بڑے رانا جی نے سو پشت سے چلے آرہے پیشہ آبا یعنی سپہ گری کو خیرباد کہا اور غالب کی طرح شاعری کو بھی ذریعہ عزت ِنہ گردانتے ہوئے کاشت کاری کو شرف بخشاتھا۔ تاآنکہ جب سلطنت دست بدست موصوف تک پہنچی۔ غالب امکان ہے کہ آپ نے آلسی طبیعت سے مجبور ہو کر سکول جانا گوارہ کیا مبادا کہیں کاشت کاری کا کوہِ گراں کھودنا پڑے۔ چند حاسدین کا یہ بھی ماننا ہے کہ بچپن میں لیلیٰ مجنوں کے قصے میں مکتب والی واردات سے متاثر ہو کر آپ نے طالب علم ہونا گوارہ کیا کہ شاید تاریخ کا خود کو دہرانے کا موڈ بن جائے۔ لیکن لیلیٰ تو کیا لیلی (لے+لی) بھی نہ ملی۔ کچھ عرصہ منہ لٹکائے لٹکائے پھرے ۔

    ایک دن اٹواٹی کھٹواٹی لیے غور و فکر کے جوہڑ میں آلسی بھینس کی طرح گوڈے گوڈے ڈوبے ہوئے تھے۔ ظاہر ہے کہ زیر ِغور مسئلہ ”وجوہاتِ عدم دستیابی لیلیٰ“ تھا۔ اور بقول شاعر ”ادھر ڈوبے، ادھر نکلے“ والا حال تھا۔ ایک ڈبکی کے دوران اس نتیجے پر پہنچے کہ آج کل کیدو والا کردار ضیاءالحق ادا کر رہے ہیں۔ راجپوت خون تھا، کھول اٹھا۔ پس اس دن کے بعد اٹھتے بیٹھتے صدر کو بددعائیں دینا شروع کر دیں۔ خفیہ ایجنسیوں نے اطلاع صدر تک پہنچا دی۔ صدر صاحب نے مجذوب کی بڑ سمجھ کر چٹکیوں میں کیوں نہ اڑا دیا ، اس ضمن میں موجود سب روایات درجہ ضعیف کی ہیں، اس لیے ان کا ذکر بےمحض اور طوالت کا باعث ہوگا۔ حقائق صرف اتنے ہیں کہ صدر سرکاری دورے کے بہانے دراصل چھوٹے راجپوت سے معاملہ سلجھانے تشریف لا رہے تھے، ادھر چھوٹے راجپوت کی چھٹی حس نے چغلی لگا دی۔ انتقامی جذبات سے مغلوب الغضب چھوٹے راجپوت نے آؤ دیکھا نہ تاؤ، حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء والا منتر (ہنوز بہاولپور دور است) پڑھنا شروع کر دیا اور صدارتی جہاز پانی پانی ہونے کے بجائے آگ آگ ہو گیا۔ دریائے ستلج کا کنارہ دیکھ کر پائلٹ کو خیال سوجھا کہ جہاز کو پانی میں ڈبکی لگوائی جائے۔ مگر پانی تو سندھ طاس معاہدے کی بھینٹ چڑھ چکا تھا۔ پس ریت کے فرش پہ گرتے ہی اناللہ وانا الیہ راجعون۔ یہ بھی عجیب اتفاق تھا کہ ایک بادشاہ کو دفن کے لیے دو گز زمین نہ مل سکی تھی، اور ایک کو چلو بھر پانی نہ مل سکا۔

    حکومت بدلی اور پاکستان کی پہلی خاتون وزیراعظم سے چھوٹے راجپوت کو امید ہوئی کہ ولایت سے پڑھ کے آئی ہیں، مخلوط تعلیم والا قانون اب بنا کہ اب بنا، لیکن عوام کو ”خواب دے کے جھوٹے موٹے“ اپنی تجوریاں بھرنے والے سرے محل اور گھوڑوں کے چاؤ چونچلوں میں ہی مصروف رہے۔ ظاہر میں تو غلام اسحٰق خان سبب بنے لیکن بعض لوگوں کو شک ہے کہ پیپلز پارٹی کا بوریا بستر گول کرنے میں چھوٹے راجپوت کی بدعا کارفرما تھی۔ تیر گیا، سائیکل آیا لیکن ”احباب چارہ سازی وحشت نہ کر سکے“ نتیجہ پھر وہی، یعنی دو سال اڑھائی سال بعد حکومتوں کا آنا جانا لگا رہا۔ اور اس دوران رانا جی بھی مکتب سے پرائمری سکول میں علم کی منزلوں پہ منزلیں مارتے چلے گئے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس ضد میں کمی آنے کے بجائے اضافہ ہی ہوتا چلا گیا، اندرونی سبب شاید یہ تھا کہ آتش کی طرح رانا بھی جوانی کی جانب گامزن تھا۔
    گو میں رہا رہینِ ستم ہائے روزگار
    لیکن تیرے خیال سے غافل نہیں رہا
    اقتدار کا بٹیر جب دوسری بار پیپلز پارٹی کے ہاتھ آیا تو غالب کے مصرعے ”آبلوں پر حنا باندھتے ہیں“ کی طرح خاتون وزیر اعظم نے لغاری صاحب کو صدر بنا کر اپنے طور پہ پیش بندی کر لی، لیکن کالی زبان سے کون بچ سکا ہے، نتیجتاً راجپوت کی بددعا نے پیپلز پارٹی کے چراغ سے پیپلز پارٹی کو آگ لگا دی۔ بعض دل جلوں کا ماننا ہے کہ دراصل لغاری صاحب نے حقِ ہمسائیگی ادا کیا تھا۔
    مسلم لیگ بھی دوسری بار حکومت میں آئی اور راجپوت بھی سوزِ نہانی سمیت ہائی سکول میں آن پہنچا۔ حکومت شریعت بل، قرض اتارو ملک سنوارو، کارگل جنگ ، اور ایٹمی دھماکوں میں الجھی رہی، اور راجپوت امیدِ بہار میں شجر سے پیوستہ رہا۔ جب دیکھا کہ ان گنجوں میں بھی تیل نہیں تو بددعا والی تسبیح پھیرنے لگا. تسبیح پھرنے کی دیر تھی کہ عوامی مینڈیٹ کا دعویدار اڈیالہ جیل میں پچھتاتا نظر آیا، وہ تو سعودی عرب نے بیچ میں کود ا پھاندی کر کے بچا لیا ورنہ چھوٹے راجپوت نے اس بار طیارہ کیس میں پھانسی لگوانے کے لیے چلہ شروع کیا ہوا تھا۔

    مشرف صاحب کے انقلابی اقدامات سے راجپوت کو امید کی کرن نظر آنے لگی، میراتھن دوڑیں، پی ٹی وی کے خبر نامے سے اکتائے عوام کے لیے نئے چینلز کی بھرمار، روشن خیالی کے نعرے، اور سب سے بڑھ کر انٹر نیٹ تک عوامی رسائی، نیز موبائل نیٹ ورکس کی ابتدا۔ ناامیدی کے اندھیرے چھٹتے ہی چھوٹا راجپوت بھی کھل اٹھا۔ جوانی تو جس پر بھی آئے غضب ہوتی ہے۔
    جوانی تو قانونِ قدرت سے مل گئی تھی لیکن ذہنی بلوغت کے لیے راناجی نے کتابوں کا سہارا لیا، مگر موصوف کا صرف عصمت چغتائی، منٹواور ممتاز مفتی کے شاہکاروں میں ہی دل لگتا تھا۔ خوب سے ہے خوب تر کہاں کی تلاش تو مولانا حالی کو تھی، مولانا راجپوت کے اندرونی ولولے انہیں ”محجوب سے ہوتا ہے کشف المحجوب کہاں“ پہ اکساتے کوک شاستر تک لے گئے۔ اب دنیا بازیچہ اطفال نظر آنے لگی، خواب میں پرستان کی سیر کو جایا کرتے، اور صبح اٹھ کے نہایا کرتے۔

    بچپن سے سنتے آئے تھے، اور فلموں میں بھی دیکھا تھا کہ کالج میں یہ آزادی اور وہ مزے ہوتے ہیں۔ کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا، سب سے بڑی بات یہ کہ کو ایجوکیشن، اور کچھ نہیں تو کم از کم ”ایک ہوا میں سانس تو لیتے ہیں“۔ پس میٹریکولیشن کی خندق پھاند کے صادق آباد کے کالج میں داخلہ لے لیا۔ مگر ہیہات ہیہات۔۔ جیسے غالب کا بندگی میں بھلا نہ ہوا تھا، بالکل اسی طرح چھوٹے راجپوت کا بھی کالج میں داخلہ تو ہوگیا مگر بھلا نہ ہوا۔ تحصیل سطح پر ابھی تک مطلوبہ انقلاب نہیں پہنچا تھا، اس لیے لڑکے اور لڑکیوں کی علیحدہ کلاسز ہوتی تھیں۔ یوں ہر سال پے درپے آرزؤں کے لہولہان ہونے سے موصوف اس قدر دلبرداشتہ ہوئے کہ اپنے تئیں منحوس فرض کر لیا۔ اور غالب کے مصرعے ”ناامیدی اس کی دیکھا چاہیے“ کا پوسٹر بن کے رہ گئے۔

    بجھے ہوئے چونے کی طرح یہ بجھا بجھا رہنا امی حضور سے دیکھا نہ گیا، تو تبدیلی آب و ہوا و دانہ کی غرض سے اپنے طوطے کو چھٹیوں میں بہاولپور بھیج دیا۔
    عباسی نوابوں کا دارا لحکومت بہاولپور۔ ہر قسم کے حسن سے مالامال یہ شہر پاکستان کا پرستان کہلاتا ہے۔ کراچی، لاہور، اسلام آباد وغیرہ کے حسینوں کی ایک آدھ نمایاں خوبی کے مقابلے میں بہاولپور کا حسن ”آنچہ ہمہ خوباں، تو تنہا داری“ کا امتیاز رکھتا ہے۔
    غالب نے مولانا فضلِ حق خیر آبادی کے سوال کے جواب میں آموں کی جو دو ضروری صفات بیان کی تھیں، کہ میٹھے ہوں اور بہت ہوں، وہ بہاولپور کی غزالانِ حور شمائل پر صادق آتی ہیں۔ غالب اگر کلکتے کے بجائے بہاولپور آئے ہوتے تو خدا لگتی کہتا ہوں کہ وہ غزل کلکتے کے بجائے بہاولپور کی مدح میں ہوتی ۔
    کلکتے کا جو ذکر کیا تو نے ہم نشیں
    اک تیر میرے سینے میں مارا کہ ہائے ہائے
    پس رانائے موصوف کے چودہ طبق روشن ہونا لازمی امر تھا۔ چھٹیاں گزار کے واپس تو چلے گئے لیکن دل بہاولپور ہی اٹکا رہا۔
    اٹھتے بیٹھتے بہاولپور کے خواب دیکھتے اور وہاں جا کے رہنے کی ترکیبیں سوچا کرتے۔ انہی دنوں پطرس بخاری کا مضمون ”ہوسٹل میں پڑھنا“ زیر مطالعہ آیا تو موصوف کو جیسے گیدڑ سنگھی ہاتھ آ گئی۔ آپ نے پطرس کے دلائل میں سے ”ہوسٹل“ کا لفظ ہٹا کے ”بہاولپور“ لکھا اور ”بہاولپور میں پڑھنا“ نامی تحریک کا آغاز کر دیا۔ اس سلسلے میں پیش آمدہ واقعات جزوی تبدیلی کے علاوہ بالکل پطرس کے مضمون جیسے ہی تھے، جن کا ذکر محض طوالت کا باعث ہوگا۔

    قصہ کوتاہ۔! رانا جی ایف ایس سی پاس کرتے ہی بی ایس سی کی غرض سے بہاولپور آن وارد ہوئے۔ شکر خورے کو خدا شکر دیتا ہے تو رانا جی کے لیے بھلا کیوں ہاتھ روک لیتا، پس موصوف کو قائداعظم میڈیکل کالج اور وکٹوریہ ہسپتال بہاولپور کے قریب فرودگاہ دے دی گئی۔ گویا
    میڈیکل کالج کے پاس گھر بنا لیا ہے
    یہ بندہ حسینہ ہمسایہ وکٹوریہ ہے
    بہاولپور کا فسوں انگیز شہر ۔۔۔ اور وہ نازنین بتانِ خود آرا کہ ہائے ہائے ۔۔۔ وکٹوریہ ہسپتال کی خوش ادا تقویٰ شکن لیڈی ڈاکٹرز ۔۔۔ صبر آزما وہ ان کی نگاہیں کہ حف نظر ۔۔۔ زہد سے تائب کر دینے کی صلاحیت سے مالا مال، نظر نواز نرسیں ۔۔۔۔ طاقت ربا وہ ان کاا شارہ کہ ہائے ہائے ۔۔۔
    بس پھر کیا تھا ۔۔۔ رانا جی نے جب حسن کو تغافل سے جرات آزما پایا تو کچھ عرصہ اس چکا چوند کے باعث سکتے میں ہی رہے۔ جب ذرا ہوش حواس قائم ہوئے تو ”کعبہ میرے پیچھے ہے، کلیسا میرے آگے“ والی صورت حال درپیش رہی۔ بھلے وقتوں میں کیا ہوا ”علی پور کا ایلی“ کا مطالعہ کام آیا، اور رانا جی اینکر اینڈی باماؤں، ہکوری ڈکوری اور کپ، کیپ والی تھیوری کی حقیقت کا کھلی آنکھوں سے مشاہدہ کرتے ہوئے ممتاز مفتی صاحب کے دل و جان سے معتقد ہو گئے۔ آنکھیں سیکتے سیکتے جب موصوف کے دماغ کو بھی اچھا خاصا سیکا لگ گیا، اور نوبت بہ اینجا رسید کہ ان کی گرسنہ نگاہی سے استانیاں بھی شرمانے لگیں۔ حالانکہ موصوف اس بات سے آج بھی صاف مکر جاتے ہیں لیکن معاملے کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ اربابِ یونیورسٹی کے کانوں پر جوؤں نے رینگنے کے بجائے جلسے جلوس شروع کر دیے تھے۔ صاحبان اختیار چونکہ اہنسا کے قائل تھے، اس لیے جوئیں مارنے کے بجائے ”سانپ بھی مر جائے اور آمدنی بھی نہ چھوٹے“ والی ترکیب پر عمل کیا۔ یعنی دو سمسٹرز بعد رانا جی کو جبری ہجرت پر مجبور کر دیا گیا۔ ناقدین کے سامنے رانا جی نے ناک بچانے کے لیے، اپنی علمی پیاس اور لاہور بہاولپور سے بڑا شہر ہے، قسم کے دلائل کا سہارا لیا، نیز یہ تک کہہ دیا ”ہے اس معمورہ میں قحطِ غم الفت اسد“ اور ”انشا جی نکلو اب کوچ کرو ، اس شہر میں جی کو لگانا کیا“ ، گنگناتے ہوئے لاہور چل پڑے۔

  • سیٹھ کی بیٹی اور ڈرائیور کی محبت – آخری قسط – ریحان اصغر سید

    سیٹھ کی بیٹی اور ڈرائیور کی محبت – آخری قسط – ریحان اصغر سید

    بیڈ پر میرے مختلف خواتین کے ساتھ خلوت میcں گزارے لمحات کی تصاویر تھیں۔ یہ سب عورتیں چونکہ پیشہ ور ہوتی تھیں، اس لیے ہر دوسری تصویر میں مختلف عورت نظر آ رہی تھی۔ سب تصویریں میرے فلیٹ کے بیڈ روم کی ہی تھیں۔ یقیناً میرے بیڈروم میں خفیہ کیمرے نصب کیے گئے تھے جن سے میں بالکل بے خبر رہا تھا۔ ولی خان نے نے کھنکار کر مجھے متوجہ کیا تو میں چونکا۔
    مخل ہونے پر معذرت چاہتا ہوں سر۔ لیکن مجھے خدشہ محسوس ہوا کہ کہیں آپ ان ہوشربا تصویروں کے نظارے میں کھو کر اپنی فلائٹ ہی نہ مس کر دیں۔
    دونوں ہاتھ جیب میں ڈالے انتہائی شائستہ لہجے میں اردو بولتا یہ نوجوان اس ولی خان سے بلکل مختلف تھا جسے میں جانتا تھا۔
    آپ کو دکھانے کے لیے میرے پاس کچھ اور بھی ہے سر۔
    یہ کہہ کر ولی خان نے جیب سے ایک پیپر نکال کر مجھے پکڑایا۔ میں نے ڈرتے ڈرتے اسے کھول کر دیکھا تو وہ میری خالہ زاد شمسہ سے میرے نکاح نامہ کی فوٹو کاپی تھی۔ میں بےاختیار بیڈ پر گرنے کے انداز میں بیٹھ گیا۔
    سیگریٹ لیں گے سر؟ ولی خان نے انتہائی مہنگے برانڈ کے سیگریٹ کی ڈبی اور ایک قیمتی نظر آنے والا لائٹر نکالتے ہوئے مصنوعی ادب سے کہا۔
    میں نے بے اختیار انکار میں سر ہلا دیا۔ مجھے اپنا دل ڈوبتا ہوا محسوس ہو رہا تھا۔ لگتا تھا کہ ولی خان نے اپنے عیاری سے بازی پلٹ دی ہے۔ میں خود بھی قصوروار تھا، نہ میں بہکتا اور نہ آج میں ولی خان کے سامنے یوں شرمندہ ہوتا۔
    آپ کی مرضی ہے سر۔۔! آپ میرے مالک بھی ہیں اور بہنوئی بھی، عزت تو پھر دینی ہی پڑتی ہے آپ کو۔ اگرچہ آپ اس عزت کے قطعاً لائق نہیں ہیں۔
    ولی خان کے لہجے میں طنز کی کاٹ بڑھتی چلی جا رہی تھی۔
    تم کیا چاہتے ہو ولی؟
    ھا ھا ھا ۔۔! چلیں کسی کو تو خیال آیا کہ ہم بھی منہ میں زبان رکھتے ہیں۔ کاش کے کوئی پوچھے کے مدعا کیا ہے۔۔ اور جہاں تک چاہنے کی بات ہے،
    ہم آپ کا لاکھ برا چاہیں کیا ہوگا
    وہی ہوگا جو منظور خدا ہوگا
    ولی خان میری بے بسی اور صورتحال سے پوری طرح لطف اندوز ہو رہا تھا۔
    ولی میں فلائٹ سے لیٹ ہو رہا ہوں۔ مجھے دو ٹوک الفاظ میں بتاؤ، تمہاری ان گھٹیا حرکات کا مقصد کیا ہے۔
    ولی کے چہرے پر کچھ سنجیدگی کے تاثرات ابھرے۔ اس نے اپنی جیب سے مڑے تڑے کاغذات نکالے۔
    سر یہ طلاق نامہ ہے۔ آپ کو اس پر دستخط فرمانے ہیں۔ یہ میں کچھ عرصہ پہلے بھی لے کر حاضر ہوا تھا۔ تب آپ نے میری بات کو قابل اعتنا نہیں سمجھا تھا، تب سے میں اسے جیب میں ڈالے گھوم رہا ہوں کہ کبھی نہ کبھی تو آپ شفقت فرمائیں گے۔
    میں نے بے خیالی میں طلاق نامہ پکڑ لیا اور خالی خالی نظروں سے اسے تکنے لگا۔
    میرے پاس زیادہ وقت نہیں ہے لارڈ صاحب۔۔! کن سوچوں میں گم ہو۔ آج میں تمہیں کوئی دوسرا آپشن نہیں دوں گا، اور کوئی دوسرا آپشن ہے بھی نہیں تمہارے پاس۔ جب تمہارے ان کرتوتوں کے ثبوت بیگم صاحبہ کے پاس پہنچیں گے تو وہ جو تمہارا حشر کریں گی، تم اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ کتے کی طرح ذلیل ہونے سے بہتر ہے کہ چپ چاپ طلاق نامے پر دستخط کر دو! میں بڑے صاحب سے کہہ کر تمیں کچھ پیسے بھی دلوا دوں گا، یورپ یا امریکہ کی طرف نکل جانا زندگی بن جائے گی تمہاری۔
    ولی کے الفاظ کوڑوں کی طرح میری سماعتوں سے ٹکرا رہے تھے اور مجھے یوں لگ رہا تھا کہ میں ٹوٹ کر پاش پاش ہو جاؤں گا۔
    مجھے تھوڑا وقت دو ولی۔! یہ اتنا آسان نہیں ہے میرے لیے۔ میں طلاق نامے پر دستخط کر دوں گا لیکن کچھ عرصے بعد، مجھے کچھ سوچنے کا موقع تو دو۔ تمہیں بڑے صاحب کا واسطہ ! میں بول رہا تھا مگر مجھے خود بھی اپنی آواز اجنبی لگ رہی تھی۔
    ولی کے چہرے پر نرمی اور کچھ سوچ بچار کے تاثرات نمودار ہوئے۔
    کتنی مہلت درکار ہے تمہیں؟ اس نے پینسل کو واپس اپنی جیب میں ڈالتے ہوئے پوچھا۔
    تین ماہ۔۔ تین ماہ دے دو مجھے؟
    تین ماہ تو بہت زیادہ ہیں۔ میں تمہیں ایک ماہ کی مہلت دیتا ہوں۔ اس کے بعد تمہیں ہر صورت میں اس طلاق نامے پر دستخط کرنا ہوں گے۔ وہ بھی اس شرط پر کہ تم اپنے وعدے کی ویڈیو ریکارڈنگ کرواؤ گے۔
    میں ایک دفعہ پھر ولی کی عیاری کا قائل ہو گیا۔ وہ میرے ہاتھ پاؤں بالکل ہی باندھ دینا چاہتا تھا۔
    ویڈیو ریکارڈنگ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا خان۔۔ تمہیں میری زبان پر اعتبار کرنا چاہیے۔ میں نے آخری کوشش کے طور پر کہا۔
    الیاس خان تم بھول رہے ہو کہ بڑے صاحب کی ایک کال پر تمہیں گرفتار کر لیا جائے گا۔ پھر سڑتے رہنا یہاں جیل میں اور بیٹھے رہنا تصور جاناں کیے ہوئے۔ تمہارے پاس کوئی دوسرا آپشن نہیں ہے۔ میں کیمرہ آن کر رہا ہوں۔ ولی خان نے کیمرہ آن کر کے ویڈیو ریکارڈنگ شروع کر دی۔
    میرا ذہن ماؤف ہو چکا تھا۔ میں نے کیمرے کے سامنے اعتراف کیا کہ میرا پہلے بھی نکاح ہو چکا ہے اور میں نے یہ بات چھوٹی بیگم صاحبہ سے چھپائی ہوئی تھی۔ میں نے یہ بھی اقرار کیا کہ میں یہاں رنگ رلیاں مناتا رہا ہوں اور چھوٹی بیگم صاحبہ سے بے وفائی کا مرتکب ہوا ہوں۔
    یہ ویڈیو ریکارڈنگ ولی کی ڈکٹیشن میں مکمل ہوئی۔ اگلے کچھ گھنٹے بعد میں ٹیکسی پر ابوظہبی ائیرپورٹ کی جانب جا رہا تھا۔ اپنی کار میں نے فلیٹ کی بلڈنگ تلے واقع زیر زمین پارکنگ میں ہی چھوڑ دی تھی۔ میرے ضبط کا بندھن ٹوٹ چکا تھا اور میں دھاڑیں مار مار کر رو رہا تھا۔ سچ تو یہ تھا کہ میں چھوٹی بیگم صاحبہ کے قابل ہی نہ تھا۔ میرا ضمیر مجھے ملامت کرتا رہتا تھا مگر آج ولی خان نے مجھے تصویریں دکھا کر میری انا کے پندار کو جو چوٹ پہنچائی تھی، میں ان سے نظریں ملانے کے قابل بھی نہیں رہا تھا۔
    چھوٹی بیگم صاحبہ کا حسین و جمیل چہرہ اور ان کی مہربانیاں یاد آتی رہیں اور میرا دل کٹتا و خون کے آنسو روتا رہا۔ میرے لیے یہ تصور ہی سوہان روح تھا کہ چھوٹی بیگم صاحبہ جیسی معصوم اور پاک خاتون میری وہ تصویریں دیکھے۔
    کراچی ائیرپورٹ پر اتر کر میں اپنے خالہ زاد کزن کے گھر چلا گیا۔ اس کا نام شبیر تھا۔ شبیر نے ہی مجھے بڑے صاحب کے پاس نوکری دلوائی تھی۔ میں نے شبیر کو یہی بتا رکھا تھا کہ مجھے بڑے صاحب نے ترقی دے دی ہے اور مجھے ابوظہبی بھیج رہے ہیں۔ وہاں سے ڈھیر سارے پیسے اکھٹے کر کے لاؤں گا تو شمسہ کو رخصت کر کے ساتھ لے جاؤں گا۔
    شبیر کے سامنے سچ بولنے کی ہمت و جرات مجھ میں نہ تھی۔ اتفاق سے شبیر اور شمسہ کی ماں بھی کراچی آئی ہوئی تھیں۔ وہ مجھے دیکھ کر کھل اٹھیں اور میری بلائیں لینے لگیں۔ وہ جلد سے جلد شمسہ کی رخصتی چاہتی تھیں، میں ہوں ہاں کرتا رہا اور پھر نیند کا بہانہ کر کے اٹھ گیا۔ اگلے دن صبح سویرے میں بڑے صاحب کے بنگلے میں جا پہنچا۔
    چھوٹی بیگم صاحبہ نے پورچ میں آ کر میرا استقبال کیا۔ وہ ٹریک سوٹ میں ملبوس تھیں اور ابھی جاگنگ کر کے لوٹی تھیں۔ پسینے کے قطرے ان کے صبیح چہرے پر موتیوں کی طرح چمک رہے تھے۔
    واؤ! گریٹ۔۔ یو آر لکنگ ہینڈسم ۔۔! انھوں نے مسرت سے مجھے چاروں طرف گھوم کر دیکھا۔ ان کے چہرے پر شوخی کے تاثرات تھے۔
    آپ تو جینٹل مین بن کر آئے ہیں۔ اگر آپ کو ایک چکر لندن کا بھی لگوا دیا جائے، پھر تو آپ ہیرو ہی لگیں گے۔ چھوٹی بیگم صاحبہ بہت خوش لگ رہی تھیں اور ان کی خوشی دیکھ دیکھ کر میرا احساس زیاں بڑھتا جا رہا تھا۔
    چھوٹی بیگم صاحبہ نے ناشتہ میرے ساتھ ہی کیا۔ وہ بلڈنگ کولیپس والے حادثہ پر مجھے حوصلہ دیتی رہیں اور دلجوئی کرتی رہیں۔ ناشتہ کرنے کے بعد وہ مجھے ہمراہ لے کر بڑے صاحب کے سامنے پیش ہوئیں۔
    بڑے صاحب ابھی نائٹ گاون میں ملبوس اخبارات کا مطالعہ کر رہے تھے۔ انھوں نے سرسری سے نگاہوں سے مجھے دیکھا اور بیٹھے بیٹھے نیم دلی سے اپنا دایاں ہاتھ آگے بڑھا دیا۔
    میں دونوں ہاتھوں سے بمشکل ان کی انگلیوں کی پوروں کو ہی چھو پایا۔
    سیٹھ صاحب نے مجھے بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ ان کی نظریں بدستور اخبار پر ہی تھیں۔ کمرے میں ایک بوجھل خاموشی کا راج تھا۔ میں اور چھوٹی بیگم صاحبہ چپ چاپ بڑے صاحب کو دیکھتے رہے۔ آخر بڑے صاحب نے اطمینان سے اخبارات کا مطالعہ کیا۔ اپنی عینک اتار کر کیس میں رکھی۔ اس دوران ملازمہ ہمارے سامنے چائے کے کپ رکھ گئی تھی۔
    سیٹھ صاحب نے اپنا کپ اٹھا کر چائے کی چسکی لی اور میری طرف متوجہ ہوئے۔
    ابوظہبی میں تمہاری نااہلی اور غفلت کی وجہ سے کمپنی کو غیر معمولی نقصان پہنچا ہے۔ اس پر مستزاد کہ تم بغیر بتائے وہاں سے بھاگ آئے ہو جیسے کہ وہ تمہیں کل ہی گرفتار کر کے پھانسی کے پھندے پر لٹکا دیں گے۔ ایسا نہیں ہوتا جیسا تم سوچ رہے تھے۔ خیر جو ہوا وہ ماضی تھا۔ تم اپنے پہلے امتحان میں بری طرح ناکام رہے ہو لیکن ابھی بھی میں مکمل طور پر تم سے ناامید نہیں ہوں۔ میں تمہیں مزید مواقع بھی دوں گا۔ تم کلفٹن والے فلیٹ میں واپس چلے جاؤ۔ آرام کرو، اطمینان سے سوچو کہ تم کیا کرنا چاہتے ہو؟ تم جو بھی کام کرنا چاہتے ہو بلاجھجک کرو۔ سرمایہ فراہم کرنا میری ذمہ داری ہے۔
    چائے ختم کر کے میں باہر نکلا۔ چھوٹی بیگم صاحبہ مجھے چھوڑنے پورچ تک آئیں۔
    آپ واپس کیسے جائیں گے؟ آپ اس طرح کیجیے کہ میری ہنڈا لے جائیے۔ کل تک ہم آپ کو آپ کی پسند کی کار دلوا دیں گے۔ تب تک ہماری کار کو خدمت کا موقع دیجیے۔
    لیکن بیگم صاحبہ۔۔۔۔۔
    لیکن ویکن کچھ نہیں۔۔! ہمارے پاس گاڑیوں کی کمی نہیں ہے۔ آپ اطمینان سے ہماری کار لے جائیے۔
    میں نے ہنڈا میں بیٹھ کر بیک گئیر لگایا اور چھوٹی بیگم صاحبہ کی طرف دیکھا جو ابھی تک سیڑھیوں میں کھڑی مجھے دیکھ رہی تھیں۔
    کچھ دیر ہم ایک دوسرے کو دیکھتے رہے۔۔۔۔۔ پھر وہ آہستہ آہستہ چلتی میرے پاس آئیں۔ ان کے چہرے پر تشویش اور خوف کے ہلکے سے تاثرات تھے۔
    الیاس ! آر یو اوکے،، کیا ہوا ہے آپ کو؟؟ آپ اتنے اتنے بجھے بجھے اور سیڈ کیوں لگ رہے ہیں۔
    میرے چہرے پر ایک پھیکی سے مسکراہٹ دوڑ گئی۔ میں آپ کو سب کچھ بتاؤں گا، سب کچھ۔۔ بس تھوڑی سی ہمت جمع کر لوں۔
    یہ کہنے کے بعد میں چھوٹی بیگم صاحبہ کو حیران و پریشان چھوڑ کر تیزی سے گاڑی دوڑاتا نکل آیا۔
    اب کلفٹن کا فلیٹ تھا، میں تھا اور سوچیں تھیں۔ بڑے صاحب کے رویے سے لگ رہا تھا کہ جیسے وہ ابھی تک میری حقیقت سے آگاہ نہیں ہیں مگر یہ ان کی اداکاری بھی ہو سکتی تھی۔
    اگلے دن پھر ولی خان آ دھمکا۔
    ابھی پینتالیس دن نہیں ہوئے۔۔! میں نے اس کے لیے دروازہ کھولتے ہوئے کہا۔
    میں یہاں تمہاری منحوس شکل دیکھنے نہیں آیا اور نہ ہی مجھے کوئی ایسا شوق ہے۔ میں صرف یہ بتانے آیا ہوں کہ چھوٹی بیگم صاحبہ سے دور رہنا۔ میں تمہارا غلیظ سایہ بھی ان کے آس پاس نہیں دیکھنا چاہتا۔
    ولی خان ! میں چھوٹی بیگم صاحبہ کو ڈنر پر لے کر جانا چاہتا ہوں۔ میں انھیں اپنے بارے میں سب سچ بتانا چاہتا ہوں، جب ڈنر ختم ہوگا تو ہم میاں بیوں نہیں ہوں گے۔ میں نے ولی خان کی طرف دیکھے بغیر کہا۔
    ولی خان نے چونک کر مجھے دیکھا اور کچھ دیر سوچ کر بولا،
    لیکن میں آس پاس ہی رہوں گا۔
    شام کو میں نے بال بنوائے، شیو کی اور اپنا سب سے خوبصورت سوٹ پہنا اور چھوٹی بیگم صاحبہ کے پسندیدہ پرفیوم میں نہا کر ایک فائیو سٹار ہوٹل پہنچا۔
    کچھ دیر بعد ولی خان بھی چھوٹی بیگم صاحبہ کو لے کر پہنچ گیا۔ وہ ہم سے کچھ دور ٹیبل پر بیٹھ گیا۔
    چھوٹی بیگم صاحبہ نے لانگ سکرٹ پہن رکھا تھا۔ ہاف سلیف بازو اور گلے میں موتیوں کا نیکلس۔ وہ اتنی پیاری لگ رہی تھیں کہ ان پر نظر کا ٹھہرنا مشکل تھا۔
    تھنک گاڈ ! آپ کو بھی ہمارا خیال آیا۔
    چھوٹی بیگم صاحبہ نے میری نظروں کی تاب نہ لاتے ہوئے مینیو کارڈ اٹھاتے ہوئے کہا۔
    ڈنر کرتے ہوئے میں چھوٹی بیگم صاحبہ کو ہنساتا رہا اور وہ کھلکھلا کر ہنستی رہیں۔ کچھ دور ولی خان بظاہر اپنے لیپ ٹاپ میں مگن کافی کے کپ پر کپ پیتا چلا جا رہا تھا اور بے نیاز نظر آنے کی کامیاب کوشش کر رہا تھا۔ ڈنر کر کے چھوٹی بیگم صاحبہ کی پسندیدہ آئس کریم منگوائی گئی۔
    یہ میری زندگی کے سب سے مشکل لمحات تھے۔ میں نے جیب سے ایک جیولری کیس نکال کے چھوٹی بیگم صاحبہ کو پیش کیا۔ اس میں گولڈ کا ایک کڑا تھا جس میں سستے سے پتھر جڑے تھے۔ بیگم صاحبہ یہ تحفہ میں نے ان پیسوں سے خریدا ہے جو میں نے محنت مزدوری کر کے بڑی مشکل سے اپنی شادی کے لیے جوڑے تھے، اس میں بڑے صاحب کا دیا ہوا ایک پیسہ بھی شامل نہیں ہے۔ میں جانتا ہوں یہ آپ کے شایان شان نہیں ہے لیکن میں صرف اس کا ہی بندوبست ہی کر پایا ہوں۔ اس کو نہ صرف قبول کیجیے بلکہ مجھ سے وعدہ کیجیے کہ چاہے کچھ بھی ہو جائے آپ اسے کبھی خود سے جدا نہیں کریں گی۔
    معمولی سا کنگن پا کے بھی بیگم صاحبہ کی خوشی دیدنی تھی۔ انھوں نے کنگن کلائی پر پہنتے ہوئے وعدہ کیا کہ اب اسے میری موت کے بعد غسل دینے والی ہی اتارے گی۔میں دل کو پتھر کر کے آیا تھا۔ مجھے لگ رہا تھا کہ میں نے جتنا رونا تھا، رو چکا ہوں، مگر اب چھوٹی بیگم صاحبہ کے خوشی سے دمکتے چہرے کو دیکھ کر مجھے اپنے حوصلے ٹوٹتے محسوس ہو رہے تھے۔
    ہم ایک قدرے نیم تاریک گوشے میں بیٹھے تھے۔ کینڈل لائٹس میں چھوٹی بیگم صاحبہ کا چہرہ افسانوی منظر پیش کر رہا تھا اور ان کی بڑی بڑی کالی آنکھوں کی چمک ہیروں کو ماند کرتی تھی۔
    چھوٹی بیگم صاحبہ ۔۔۔۔ ! میں۔۔۔ آج۔۔۔۔۔ آپ کو ۔۔۔۔۔ اپنے بارے میں کچھ ایسی باتیں،،،، بتانا چاہتا ہوں جن سے آپ ابھی تک لاعلم ہیں۔ کچھ غلطیاں ہیں جن کا اعتراف کرنا ہے اور کچھ گناہ ہیں جن کی سزا پانی ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ آپ میری باتیں تحمل سے سنیں اور انھیں سمجھیں۔
    چھوٹی بیگم صاحبہ کے چہرے پر کچھ گھمبیرتا کے اثرات نمودار ہوئے۔۔
    چھوٹی بیگم صاحبہ۔۔ میں نے آپ کو اپنے ماضی کے بارے میں سب کچھ بتا دیا تھا لیکن یہ نہیں بتا سکا۔۔۔۔ کہ میرا نکاح کچھ سال پہلے میری خالہ زاد سے بھی ہو چکا ہے۔۔ اگر میرا نکاح آپ سے نہ ہوتا تو اس گزرے مارچ اپریل میں ہمارے شادی ہو جاتی۔
    میں نے بمشکل نظریں اٹھا کر چھوٹی بیگم صاحبہ کو دیکھا۔۔ چہرے پر ہلکا سا تغیر، آنکھوں میں نمی کی چمک دیکھ کر میں نے گھبرا کر دوبارہ نظریں جھکا لیں۔
    چھوٹی بیگم صاحبہ۔۔۔ ہم چھوٹے دیہات میں رہنے والے لوگوں کی کچھ محرومیاں اور کمپلیکس ہوتے ہیں، جو ساری عمر ہمارا پیچھا نہیں چھوڑتے۔ آپ سے نکاح کے بعد میں ایک دن بھی حق ملکیت کا احساس لیے، سکون سے نہیں سو پایا۔ ہر صبح کا آغاز اس خدشے سے ہوا کہ آپ کو مجھے سے چھین لیا جائے گا یا پھر میں اپنی کمزوری کے باعث آپ کو کھو دوں گا۔۔ کاش آپ احساس کرتیں کہ غلام غلام ہوتے ہیں، مالک اور محبوب نہیں بن سکتے۔۔
    چھوٹی بیگم صاحبہ۔۔۔ ابو ظہبی،،،، اچھا شہر نہیں ہے۔۔۔۔ ابوظہبی میں ایسی جگہیں ہیں جہان بسنے والی ڈائنییں پردیسیوں سے ان کے خواب، مان اور ان کے محبوب چھین لیتی ہیں۔
    میں پھوٹ پھوٹ کر رو پڑا۔۔
    چھوٹی بیگم صاحبہ تو پہلے ہی بے آواز رو رہی تھیں۔
    میں آپ کا مجرم ہوں۔ میں نے آپ کو دھوکہ دیا۔ میں اپنے سارے جرائم تسلیم کرتا ہوں اور سزا کا طلب گار ہوں اور میری سب سے بڑی سزا تو یہی ہے کہ میں آپ کو ہمیشہ کے لیے کھو دوں۔ میں نے آنسو پونجھ کر جیب سے طلاق نامہ نکالا۔
    یہ کیا ہے ؟ بیگم صاحبہ کچھ چونکی۔
    انھوں نے میرے ہاتھ سے طلاق نامہ چھین کر دیکھا۔ ان کی آنکھوں اور چہرے میں شدید حیرانی کے تاثرات تھے۔
    آپ۔۔ آپ ہمیں طلاق دینا چاہتے ہیں؟ ان کے لہجے میں اتنا درد تھا کہ میرا دل کٹ کر رہ گیا۔۔
    الیاس! آپ نے جو کچھ کیا ہے، وہ آپ کا فعل ہے۔ انسان تو ہے ہی خطا کا پتلا۔۔ آپ نے ہم سے محبت کی وجہ سے اپنا نکاح ہم سے چھپایا، ہمیں اس جھوٹ کا کوئی دکھ نہیں ہے۔ اس کے علاوہ بھی آپ سے کوئی بھول ہو چکی ہے تو ہم آپ کو معاف کرتے ہیں لیکن آپ کی اس بے وقوفی پر آپ کو کبھی معاف نہیں کریں گے۔ ہمارا رشتہ اتنا کچا تھا کیا؟ آپ کون ہوتے ہیں اکیلے ہمارے بارے میں فیصلہ کرنے والے۔۔
    ہمیں بتائیے؟؟
    بے آواز آنسو چھوٹی بیگم صاحبہ کی آنکھوں سے ٹپک رہے تھے۔ مجھے لگ رہا تھا کہ میں کچھ دیر مزید انھیں دیکھتا رہا تو پتھر کا ہو جاؤں گا۔
    چھوٹی بیگم صاحبہ! میں آپ کی غلامی کے قابل نہیں ہوں۔ میں اپنی نظروں سے گر چکا ہوں۔ آپ کی خاطر جان دے سکتا ہوں مگر اب آپ کو مزید دھوکہ نہیں دے سکتا۔ آپ سے میری محبت کا تقاضا یہی ہے کہ میں آپ سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے محروم ہو جاؤں۔ شمسہ میرا انتظار کر رہی ہے بیگم صاحبہ۔۔
    بیگم صاحبہ روتی رہیں اور انکار میں سر ہلاتی رہیں۔
    میں انھیں ہر طریقے سے سمجھا سمجھا کر تھک گیا تھا۔ وقت گزرتا چلا جا رہا رہا تھا۔ بیگم صاحبہ کی آنکھیں مسلسل رونے سے سوج کر بوٹی کی طرح لال ہو رہی تھیں۔
    الیاس! ہم نے ساری دنیا کی مخالفت مول لے کر آپ سے نکاح کیا۔ ہمیں مت چھوڑئیے۔ ہم ساری عمر بابا اور ولی سے نظریں ملانے کے قابل نہیں رہیں گے۔ فار گاڈ سیک ہمیں ہماری نظروں سے مت گرائیے۔ ہمارا انسانیت اور انسانوں سے اعتبار اٹھ جائے گا۔ ہم مر جائیں گے۔۔ ہم جانتے ہیں کہ آپ پر آپ کی فیملی کا دباؤ ہے۔ آپ نے شمسہ سے شادی کرنی ہے تو ضرور کیجیے مگر ہمیں طلاق مت دیجیے۔
    ہم ساری عمر آپ کے نام پر بیٹھے رہیں گے اور کبھی آپ کے سامنے نہیں آئیں گے۔ آپ کو اللہ کا واسطہ ہمارے ساتھ اس طرح مت کیجیے۔
    رو رو کر چھوٹی بیگم صاحبہ کی ہچکی بندھ گئی تھی۔ میں نے تیزی سے جیب سے پینسل نکال کر طلاق نامے پر دستخط کیے اور اپنے آنسو پونچھتا ہوا کھڑا ہو گیا۔
    بیگم صاحبہ لپک کر میرے پیروں سے لپٹ گئیں۔
    جانے میرے اندر اتنی درندگی اور وحشت کہاں سے عود آئی۔ میں نے انھیں کندھوں سے پکڑ کر کھڑا کیا اور تین بار کہا۔
    لائبہ بی بی میں آپ کو طلاق دیتا ہوں، میں آپ کو طلاق دیتا ہوں، میں آپ کو طلاق دیتا ہوں۔۔۔!
    اف خدایا ۔۔۔ چھوٹی بیگم صاحبہ کا وہ چہرہ ۔۔۔
    اس کے بعد میں پلٹا اور تیزی سے چلتا ہوا ہوٹل سے نکل آیا۔ بیگم صاحبہ کی کار میں نے ہوٹل میں ہی چھوڑ دی تھی۔ جانے وہ رات اور اس کا اگلا دن میں نے کہاں اور کیسے گزارا۔۔
    میں چلتا رہا۔۔ چلتا رہا۔۔۔ جانے کہاں بیٹھتا رہا، کہاں گرتا رہا۔۔ میرے دماغ میں چھوٹی بیگم صاحبہ کی آوازیں اور سسکیاں گونجتی رہیں۔
    دو تین بےخودی میں گزارنے کے بعد میں اپنے کزن کے فلیٹ پر لوٹ گیا۔ وقت گزرتا جا رہا تھا اور میرے دل کے زخم مندمل ہو رہے تھے۔ ولی خان چاہتا تھا کہ میں کچھ پیسے لے لوں اور پاکستان سے چلا جاؤں۔
    میں نے اس کے منہ پر تھوک دیا۔ اس سے بہتر میرے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔
    میں کراچی میں رہنا بھی نہیں چاہتا تھا اور اسے چھوڑنا بھی نہیں چاہتا تھا۔ چھوٹی موٹی نوکریاں کرتے ہوئے محض وقت گزار رہا تھا۔ چھوٹی بیگم صاحبہ کو طلاق دیے مجبھے تین ماہ ہونے کو آئے تھے۔
    میں ایک فیکٹری میں نائٹ ڈیوٹی کر کے اپنے کوارٹر کی طرف پیدل ہی جا رہا تھا کہ ایک سوزوکی کیری کے ٹائر میرے پاس پہنچ کر چرچرائے۔ گاڑی میں اسلحہ بردار داڑھیوں والے سخت مشکوک قسم کے لوگ سوار تھے۔ ایک نے اپنی بندوق مجھ پر تانی اور دوسرے نے مجھے کھینچ کر سلائیڈنگ دروازے سے گاڑی کے فرش پر گرا دیا۔ کچھ دیر بعد میں ہاتھ پاؤں بندھوائے گاڑی کے فرش پر پڑا تھا اور گاڑی کسی انجان منزل کی طرف اڑی چلی جا رہی تھی۔
    ان لوگوں نے میرے اوپر ایک ترپال سا ڈال دیا تھا۔ اب یقیناً باہر سے دیکھنے والوں کو یہی لگ رہا ہو گا کہ گاڑی کے فرش پر سامان پڑا ہے۔ میں چپ چاپ گاڑی کے فرش پر الٹا لیٹا رہا۔ ان دنوں میں جس ذہنی کفیت میں تھا زندگی بہت حد تک اپنی اہمیت کھو چکی تھی۔ کافی دیر بعد گاڑی ایک جگہ پر جا کر رکی۔ ہارن بجایا گیا اور ایک بھاری گیٹ صدائے احتجاج بلند کرتا ہوا کھل گیا۔ گاڑی اندر داخل ہو گئی۔
    لگنے والے جھٹکوں سے میں نے اندازہ لگایا کہ یہ کوئی کچا احاطہ سا ہے۔ کہیں پاس ہی سے ویلڈنگ کٹر کے چلنے کی آواز آ رہی تھی، ہو سکتا ہے یہ کوئی ورکشاپ ہو۔ مجھے اتارنے سے پہلے میرے سر پر ایک کالا تھیلا سا چڑھا دیا گیا۔ جس سے میں بالکل ہی اندھا سا ہو گیا تھا۔ میرے میزبان پشتو بول رہے تھے۔ ایک آدمی میرا ہاتھ پکڑے مجھے ٹھوکریں لگواتا کسی عمارت کے اندر لے گیا۔ پھر ہم سیڑھیاں اترے میں نے ابھی تک ایک لفظ بھی نہیں بولا تھا۔ آخر مجھے ایک کرسی پر بیٹھا کے میرے چہرے سے کالا تھیلا اتار دیا گیا۔ آنکھوں کو روشنی سے مانوس ہونے میں کچھ وقت لگا۔ میرے ہاتھ بدستور پشت پر بندھے تھے۔ میرے سامنے چھوٹی چھوٹی حضاب لگی کالی داڑھی والا آدمی بیٹھا تھا۔ اس نے مجھے بغور دیکھا، پھر پشتو میں میری پشت پر کھڑے مجھے لانے والے آدمی سے کچھ سوال جواب کیے۔ پھر میری پشت پر کھڑا آدمی ایک بغلی کمرے میں غائب ہوگیا، جب وہ لوٹا تو اس کے ساتھ تین آدمی اور تھے۔ ان تینوں کے ہاتھ بھی کمر پر بندھے ہوئے تھے اور وہ صرف شلواروں میں ملبوس تھے۔ ان کی حالت دیکھ کر لگ رہا تھا کہ انھیں بدترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے۔
    یہی ہے وہ شخص؟
    میرے سامنے بیٹھے شخص نے ان تینوں سے مخاطب ہو کے پوچھا۔ ان تینوں نے مجھے غور سے دیکھا پھر باری باری انکار میں سر ہلا دیا۔ میرے سامنے بیٹھا شخص اب کچھ حیران تھا اور مجھے لانے والے پریشان۔ وہ آپس میں تیز تیز باتیں کر رہے تھے۔ بظاہر ایسا لگ رہا تھا کہ وہ مجھے غلطی سے کسی اور کی جگہ اُٹھا لائے ہیں۔ میں لاتعلقی اور بیزاری سے بیٹھا ان کے منہ دیکھتا رہا۔ آخر ان تین آدمیوں کو واپس اسی بغلی کمرے میں پہنچا دیا گیا۔ میرے سامنے بیٹھا کالی داڑھی والا شخص جو بظاہر ان سب کا باس لگتا تھا، سگریٹ کے کش لیتے ہوئے مجھے دیکھتا رہا۔ اس نے میرا تفصیلی انٹرویو لیا۔ اس کا موقف تھا کہ اس کے آدمی مجھے غلطی سے اُٹھا لائے ہیں تو یہ سراسر میرا قصور ہے۔ مجھے کیا ضرورت تھی کہ ان کے مطلوبہ شخص جیسی شکل لے کر دنیا میں آنے کی۔۔ اگر آ ہی گیا تھے تو کہیں اور چلا جاتا، کراچی کے علاوہ اور بھی تو بہت سے شہر ہیں۔ مزید یہ کہ مجھے واپس چھوڑنے جانے سے آسان کام یہی ہے کہ قتل کر کے تین چار درجن دیگر مقتولوں کی طرح یہی گاڑ دیا جائے۔ مجھے ذاتی طور پر تو اس کی تجویز پر کوئی خاص اعتراض نہیں تھا لیکن اپنے بوڑھے والدین کا خیال مجھے بے چین کر رہا تھا۔ آخر کار باس کے چہرے پر نرمی کے کچھ آثار نمودار ہوئے اور اس نے کمال مہربانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مجھے پیشکش کی کہ اگر میں اسے دو لاکھ کا بندوبست کر دوں تو مجھے زندہ واپس بھیجنے پر غور کیا جا سکتا ہے۔ میری جیب میں صرف چند سو روپے تھے۔ اس لیے مجھے بھی ایک کال کوٹھری میں بند کر دیا گیا۔ یہ جگہ کسی نجی جیل جیسی تھی، یہاں شاید اغوا برائے تاوان کے قیدیوں اور دشمنوں کو رکھا جاتا تھا۔ اکثر آنے والوں کو تشدد کا نشانہ بھی بنایا جاتا تھا۔ میں فی الحال تو مار پیٹ سے بچا ہوا تھا۔ تیسرے دن پھر مجھے باس کے سامنے پیش کیا گیا، اس نے مجھ سے پوچھا کہ میرا کیا ارادہ ہے؟ کیوں کہ اس کے پاس فالتو روٹیاں نہیں ہیں مجھے کھلانے کے لیے۔ حالانکہ مجھے تین دن میں صرف تین خشک روٹیاں دی گئی تھیں بغیر پانی اور سالن کے۔ اس دنیا میں ایک ہی ایسی ہستی تھی جو میرے لیے یہ پیسے بھر سکتی تھی، میں نے کافی سوچ بچار کے بعد اس کو چھوٹی بیگم صاحبہ کا نمبر دے دیا۔۔ کون ہے یہ؟
    باس نے اپنے سستے سے سیل پر نمبر ڈائل کرتے ہوئے کہا۔
    میری مالکن ہے۔ مجھے امید ہے میرے پیسے دے دی گی۔
    دوسری طرف سے کال ریسو کر لی گئی۔۔ میرا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا۔۔ باس نے بتایا کہ آپ کا ڈرائیور الیاس ہمارے پاس ہے۔ دو لاکھ دے کے اس کی جان بخشی کروائی جا سکتی ہے۔ لو اس سے بات کرو۔ باس نے مجھے فون پکڑایا۔
    ہیلو، میں بمشکل بولا۔
    الیاس آپ کہاں ہیں؟ یہ شخص کون ہے؟ یہ کہہ رہا ہے آپ اس کے قبضے میں ہو؟
    اس سے پہلے کہ میں جواب دیتا، باس نے مجھ سے سیل فون چھین لیا اور مجھے کال کوٹھڑی میں واپس بھیج دیا گیا۔ اس کے کچھ گھنٹے بعد ہی ایک کارندے نے بتایا کہ میرے پیسے مطلوبہ مقام تک پہنچا دیے گئے۔۔ مجھے آج رات چھوڑ دیا جائے گا۔
    رات کو مجھے دوبارہ کالا تھیلا پہنایا گیا، پھر گاڑی میں ایک ویران جگہ پر دھکا مار کے اتار دیا گیا۔ میرے ہاتھ کھولنے کی زحمت کی گئی تھی نہ چہرے سے کالا تھیلا اتارنے کا تکلف۔ کچھ دیر بعد کسی اللہ کے نیک بندے نے میرے پشت سے ہاتھ کھولے اور میرے سر سے تھیلا اتارا۔ تو میں اپنے کواٹر میں جا سکا۔ میں نے میسج کر کے چھوٹی بیگم صاحبہ کو اپنی زندہ اور بخیریت واپسی کی اطلاع کر دی۔
    اب میرا کراچی سے دل اچاٹ ہو چکا تھا۔ میں سیالکوٹ واپس اپنے گاؤں میں آ گیا۔ جانے کیسے شمسہ کے گھر والوں کو میرے بیگم صاحبہ کے ساتھ نکاح کی بھنک مل چکی تھی۔ دونوں گھروں کے آپسی تعلقات سخت کشیدہ ہو چکے تھے۔ آخر بات میری اور شمسہ کی باقاعدہ شادی سے پہلے ہی طلاق پر ختم ہو گئی۔۔ میں ہر چیز سے بیزار ہو چکا تھا۔۔ میں نے پاکستان چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ میں نے گاؤں میں جو ہماری تھوڑی بہت زمین تھی، اس کو بیچ دیا اور پیسے ایک ٹریول ایجنٹ کو دے دیے کہ مجھے سنگاپور یا ہانگ کانگ بھیج دے ۔۔ کچھ ہفتوں بعد ہی میرا سنگاپور کا ویزہ لگ کے آ گیا۔ میں کبھی نہ لوٹ کے آنے کے ارادے سے جا رہا تھا۔ ہماری فلائٹ صبح چار بجے سنگارپور کے انٹرنیشنل ائیرپورٹ پر پہنچی۔ اپنی باری پر میں نے اپنا پاسپورٹ لیڈی امیگریشن آفیسر کے کاؤنٹر پر رکھا۔ میں نے محسوس کیا کہ وہ ویزہ دیکھ کر کچھ چونکی ہے۔ اس نے ویزے والے سٹیکر کو کاؤنٹر میں لگی ایک لائٹ کے نیچھے کر کے دیکھا، پھر مجھے غور سا دیکھا۔ اب وہ انٹر کام پر مقامی زبان میں کچھ بات کر رہی تھی، ساتھ ساتھ مجھے بھی دیکھتی جا رہی تھی۔ مجھے احساس ہو گیا تھا کہ حسب معمول میرے ساتھ کچھ گڑبڑ ہو چکی ہے۔ کچھ لمحوں میں ہی مجھے ئیرپورٹ سکیورٹی کے اہلکاروں نے گھیر لیا۔ مجھے ایک اندرونی ہال میں لے جایا گیا جہاں مجھے بتایا گیا کہ میں جعلی ویزے پر سنگاپور میں داخل ہونے کا سنگین جرم کر چکا ہوں۔ میرے فرشتوں کو بھی جعلی ویزے کی خبر نہیں تھی۔ غالباً یہ اس ٹریول ایجنٹ کی کاریگری کا کمال تھا۔ بہرحال میں برے طریقے سے پھنس چکا تھا۔ چند ہفتوں کے اندر ہی مجھے جج نے بارہ سال قید کی سزا سنا دی۔۔
    جیل ائیرپورٹ کے نزدیک ہی تھی۔ جیل میں ہماری واحد تفریح یہی تھی کہ جب جہاز رن وے سے ٹیک آف کرتے تو کچھ دیر کے لیے جیل کے روشن دان سے نظر آتے۔ میری بیرک میں دو تین ہندوستانی قیدی بھی میرے ساتھ تھے۔ وہ بھی جعلی ویزے کے جرم میں سزا کاٹ رہے تھے۔ کچھ وقت ان سے باتوں میں کٹ جاتا۔ باقی وقت سوچیں اور یادیں کھا جاتیں۔ سچ تو یہ ہے کہ جیسے جیسے وقت گزرتا جاتا تھا، چھوٹی بیگم صاحبہ کے لیے میری محبت بڑھتی جا رہی تھی۔ میں ان سے کی گئی اور ان سے سنی گئی ہر ہر بات کو درجنوں دفعہ یاد کر چکا تھا۔ میری نیند ختم ہو چکی تھی۔ ساری رات تنگ سی بیرک میں ٹہلتے رہنا اور روشندان سے چاند یا ٹیک آف کرتے یا اترتے جہازوں کی روشنیوں کو بےخیالی سے تکتے رہنا ہی میرا مشغلہ ہوتا۔
    جیل میں ہمیں ہر پندرہ دن بعد دس منٹ کال کے لیے دیے جاتے۔ میں سات آٹھ منٹ کی کال اپنے والدین کو کرتا، باقی رسیور تھام کے کھڑا رہتا اور سوچ بچار میں وقت گزر جاتا۔ آخر ایک دن میں نے آخری دو منٹ میں کانپتے ہاتھوں سے چھوٹی بیگم صاحبہ کا نمبر ملا لیا۔۔ بیل جا رہی تھی، دوسری بیل، تیسری بیل۔ میرا سانس پھول گیا تھا۔ میں نے جلدی سے فون بند کر دیا۔ اگلی دفعہ میں نمبر ملانے کی ہمت نہیں کر پایا۔ اس سے اگلی دفعہ اتفاق سے چھوٹی بیگم صاحبہ نے فوراً ہی کال ریسو کر لی۔ میرے پاس ایک سو پانچ سینکڈ رہ گئے تھے۔۔ السلام علیکم ۔۔ میں نے پہلی دفعہ بیگم صاحبہ کو فون پر سلام کرتے سنا۔۔ ورنہ وہ ہیلو کہتی تھیں۔۔ بیگم صاحبہ نے دو تین دفعہ سلام کیا لیکن میرے حلق میں تو کانٹے پڑ گئے اور دل ایسا دھڑک رہا تھا جیسے پھٹ جائے گا۔ اس دن میں بیرک کے باتھ روم میں جا کے بہت دیر روتا رہا۔ پندرہ دن بعد ابو سے میں نے سات منٹ بات کی۔ اب میرے پاس تین منٹ تھے، ایک منٹ ہمت جمع کرنے میں گزر گیا۔۔ آج بھی بیگم صاحبہ نے جلدی کال ریسیو کر لی۔۔
    السلام علیکم۔۔آپ کون بول رہے ہیں؟ ہیلو الیاس؟ آپ الیاس ہیں نہ؟ آپ بولتے کیوں نہیں؟
    جب تک میں بولنے کے قابل ہوا، میرا کال کا وقت ختم ہو چکا تھا۔ اگلے پندرہ دن بہت بھاری تھے۔ میرے پاس سوائے انتظار کے اور کچھ بھی نہیں تھا۔ پندرہ دن بعد میں نے پہلے چھوٹی بیگم صاحبہ کو ہی کال ملائی۔۔ میں نے ایک ایک مکالمہ پہلے ہی سوچ رکھا تھا۔ ان کا حال احوال پوچھا اور انھیں اپنے حال سے آگاہ کیا۔ جسے سن کے وہ حسب توقع بہت پریشان ہوئیں۔ پھر مجھے حوصلہ اور تسلی دی، اور کہا کہ وہ فوراً کچھ کرتی ہیں ۔۔ بیگم صاحبہ کے لہجے میں میرے لیے ایسی شفقت تھی، مجھے لگا جیسے میں اپنی ماں سے بات کر رہا ہوں۔۔ میں ان سے معذرت کرنا چاہتا تھا، ان کا شکریہ ادا کرنا چاہتا تھا لیکن کال کا وقت ختم ہو گیا۔ اگلے دن شام کو مجھے بتایا گیا کہ مجھ سے ملنے پاکستان سے کوئی آیا ہے۔ مجھے ملاقات والے کمرے میں لے جایا گیا جہاں چالیس پنتالیس سال کا ایک بارعب آدمی میرا انتظار کر رہا تھا۔ اس نے اپنا نام ایم ایچ رضوی بتایا۔ رضوی سندھ ہائی کورٹ کا نامی گرامی وکیل تھا اور اسے چھوٹی بیگم صاحبہ نے بھیجا تھا۔ رضوی نے میرے کیس کی ساری تفصیلات حاصل کر لی تھیں۔ اس نے مجھ سے بھی بہت سے سوال پوچھے اور چلا گیا۔ میں نے اس دن وضو کر کے بہت عرصے بعد نماز پڑھی اور اللہ سے دعا کی کہ چھوٹی بیگم کو ایسا شخص عطا کر جو ان کے قابل ہو اور وہ ان سے ٹوٹ کے محبت بھی کرے۔
    مقررہ دن پر دوبارہ چھوٹی بیگم صاحبہ سے بات ہوئی تو انھوں نے بتایا کہ مقامی قوانین کے مطابق مجھے جیل سے نکلوانا مشکل ہے۔ رضوی صاحب اس کا دوسرے طریقے سے حل نکال رہے ہیں۔۔ دوسرا طریقہ یہ تھا کہ مجھے ایک جعلی عدالتی کارروائی کے ذریعے قتل کے مقدمے میں سزا موت سنائی گئی تھی۔ پھر پاکستان کی وزارت داخلہ کی طرف سے سنگاپور کی حکومت سے مجرم یعنی میری حوالگی کا مطالبہ کیا گیا۔ کچھ مہینے یہ ضروری قانونی کاروائی چلتی رہی۔ چونکہ دونوں ملکوں میں مجرموں کی حوالگی کا معاہدہ موجود تھا، اس لیے مجھ سے طویل انٹرویو کے بعد مجھے پاکستان حکومت کے حوالے کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ ایک دن مجھے الٹی ہتھکڑی لگا کے پی آئی اے میں بٹھا دیا گیا۔ نیو دہلی میں جا کے میری ہتھکڑی کھول کے سامنے لگائی گئی۔۔ کراچی ائیرپورٹ پر مجھے پولیس نے اے ایس ایف سے وصول کیا اور مجھے گاڑی میں ڈال کر وہ تھانے لے گئے جہاں رضوی صاحب پہلے ہی موجود تھے۔۔ رضوی صاحب نے پولیس والوں کو ان کی خدمات کا صلہ دیا اور مجھے تھانے سے لےکر نکلے۔۔ اب میں آزاد تھا ۔۔ میری آزادی بیگم صاحبہ کی انتھک کوششوں اور بےدریغ پیسے کے استعمال کی وجہ سے ممکن ہوئی تھی۔۔ چھوٹی بیگم صاحبہ مجھ سے ملنا نہیں چاہتی تھیں اور مجھ میں بھی ان کا سامنا کرنے کی ہمت نہیں تھی۔ انھوں نے مجھے بتایا کہ ان کی شادی ایک ڈاکٹر کے ساتھ طے ہو چکی ہے جو جرمنی میں مقیم ہے۔ شادی کے بعد وہ بھی وہاں شفٹ ہو جائیں گی اور ان کا نمبر بند ہو جائے گا، شاید اب ہماری دوبارہ کبھی بات نہ ہو سکے۔۔
    میں نے اسی دن کراچی کا چھوڑ دیا، اور پنجاب لوٹ آیا۔ کچھ ماہ بعد میری ماں نے بھی میری شادی میری طرح ایک واجبی اور معمولی عورت سے کر دی۔ میری بیوی کا نام اقرا تھا۔ وقت اپنی مخصوص رفتار کے ساتھ گزرتا رہا۔ اب ہمارے چار بچے تھے اور میں ٹرک چلاتا تھا۔ ایک دن مجھے اچانک ہی چکر آیا اور میرے کانوں اور ناک سے خون بہنے لگا۔۔مجھے ایک سرکاری ہسپتال پہنچایا گیا جہاں سے انھوں نے مجھے لاہور ریفر کر دیا۔ لیے گئے ٹیسٹس کی رپورٹس کے بعد پتا چلا کہ میں ایک موذی اور ناقابل علاج مرض میں مبتلا ہو چکا ہوں۔ کچھ دن بعد مجھے کراچی کے سب سے بڑے سرکاری ہسپتال میں بھیج دیا گیا۔ اقرا بھی میرے ساتھ تھی۔ سرکاری ہسپتالوں میں نادار اور غریبوں کے ساتھ جو سلوک کیا جاتا ہے، وہ آپ سے پوشیدہ نہیں ہے۔ میری جمع پونجی ختم ہو چکی تھی۔ قرضے کا بوجھ بڑھتا جا رہا تھا لیکن درد کی شدت تھی کہ کم ہونے کا نام نہیں لے رہی تھی۔ میرا وزن بہت گر گیا تھا۔ ایک دن اقرا مجھے سہارا دیے ہاسپٹل کے ایک وارڈ سے دوسرے میں لےکر جا رہی تھی کہ ہمارے پاس سے گزرتی دو خواتین اچانک رک گئیں۔۔
    الیاس؟ او مائی گاڈ! یہ آپ ہیں؟ کیا ہوا ہے آپ کو؟؟
    میں نے چونک کر سر اٹھا کے دیکھا، سامنے چھوٹی بیگم صاحبہ کھڑی تھیں۔ دس سال پہلے جیسا ان کو دیکھا تھا، وہ ابھی بھی ویسی کی ویسی تھیں۔ میری حالت دیکھ کر ان کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ انھوں نے اقرا سے سلام دعا کی، پھر میری فائل دیکھنے لگیں۔۔ اس کے بعد وہ مجھے اور اقرا کو کراچی کے سب سے مہنگے پرائیوٹ ہاسپٹل میں لے گئیں۔۔جہاں میرا باقاعدہ علاج شروع کیا گیا۔ مرض اس سٹیج پر پہنچ چکا تھا کہ یہ اب ناقابل علاج تھا۔ ڈاکٹر صرف میری تکلیف مستقل طور پر کم کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔۔ بیگم صاحبہ روز ہم سے ملنے ہاسپٹل آتیں اور ہم تینوں گھنٹوں باتیں کرتے۔۔ بیگم صاحبہ کے بھی دو بچے تھے۔ وہ کچھ دن کے لیے ہی پاکستان آئی تھیں۔ کچھ دن بعد ہم زبردستی واپس آ گئے اور بیگم صاحبہ واپس جرمنی چلی گئیں۔۔ میرا جسم بہت لاغر ہو چکا ہے۔ میں کوئی کام کاج یا مزدوری نہیں کر سکتا۔ میری دوائیاں، علاج کے پیسے اور گھر کے اخراجات آج بھی جرمنی سے آتے ہیں۔
    آج میری عمر صرف اکتالیس سال ہے اور میں موت کا انتظار کر رہا ہوں۔ ڈاکٹر کہتے ہیں کہ میرے پاس مہلت بہت کم ہے۔ لیکن مجھے مہلت درکار بھی نہیں ہے۔۔ میں دراصل اسی دن مر گیا تھا جب میں نے چھوٹی بیگم صاحبہ کو طلاق دی تھی۔ چھوٹی بیگم صاحبہ نے مجھے معاف کر دیا ہے۔ آپ میرے لیے دعا کریں کے میرا اللہ بھی مجھے معاف کر دے۔
    اللہ حافظ
    ختم شد

    کہانی کی پہلی قسط یہاں ملاحظہ کریں

    کہانی کی دوسری قسط یہاں ملاحظہ کریں

    کہانی کی تیسری قسط یہاں ملاحظہ کریں

  • فرقہ آرائی اور گروہ بندی کے نقصانات – خطبہ جمعہ مسجد نبوی

    فرقہ آرائی اور گروہ بندی کے نقصانات – خطبہ جمعہ مسجد نبوی

    فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر جسٹس عبد المحسن بن محمد القاسم حفظہ اللہ نے11-صفر -1438 کا خطبہ جمعہ مسجد نبوی میں ’’فرقہ آرائی اور گروہ بندی کے نقصانات‘‘ کے عنوان پر ارشاد فرمایا، جس میں انہوں نے کہا کہ فرقہ آرائی مذموم عمل ہے اس سے اللہ تعالی اور رسول اللہ ﷺ نے منع فرمایا ، تفرقہ پروری منافقوں کی صفت ہے، شرک کی صورت میں سب سے بڑا تفرقہ پیدا ہوا، لوگوں کو متحد کرنا اہل علم کی ذمہ داری ہے، اسلام نے انتشار کی عارضی اور معمولی صورتوں کو بھی اچھا نہیں سمجھا اور اختلافات کا باعث بننے والے تمام امور سے روکا، مثلاً: بد ظنی، حسد، جاسوسی، چغلی، سود، کسی کی بیع پر بیع کرنا، کسی کی منگنی پر منگنی کا پیغام بھیجنا، عیب جوئی کرنا، ملاوٹ کرنا وغیرہ، پھر انہوں نے کہا کہ: گروہ بندی ذلت اور خفت ہے، تنازعات بدی اور بلا ہیں، اختلافات کمزوری اور دیوانگی ہیں، انتشار دین و دنیا دونوں کیلیے تباہی ہے، اس کی وجہ سے دشمن خوش ہوتا ہے اور امت کمزور ہوتی ہے، اس کی وجہ سے دعوت الی اللہ کے راستے میں رکاوٹیں پیدا ہوتی ہیں، علم کی نشر و اشاعت بند ہوتی ہے، سینے میں کینہ اور دلوں میں ظلمت چھا جاتی ہے، معیشت کمزور اور وقت رائیگاں ہو جاتا ہے، انسان کو نیک کاموں سے موڑ دیتی ہے، آخر میں انہوں نے کہا کہ: مسلمان کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ اس نعمت کی حفاظت کے لیے اپنا سینہ صاف رکھے، دوسروں سے محبت کرے اور ان کی خیر خواہی چاہے۔

    پہلا خطبہ:
    یقیناً تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں، ہم اس کی تعریف بیان کرتے ہیں، اسی سے مدد کے طلب گار ہیں اور اپنے گناہوں کی بخشش بھی مانگتے ہیں، نفسانی و بُرے اعمال کے شر سے اُسی کی پناہ چاہتے ہیں، جسے اللہ تعالی ہدایت عنایت کر دے اسے کوئی بھی گمراہ نہیں کر سکتا، اور جسے وہ گمراہ کر دے اس کا کوئی بھی رہنما نہیں بن سکتا، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبودِ بر حق نہیں، وہ تنہا ہے اس کا کوئی شریک نہیں، اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمد اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں، اللہ تعالی آپ پر، آپ کی آل، اور صحابہ کرام پر ڈھیروں درود و سلامتی نازل فرمائے۔

    حمد و صلاۃ کے بعد:
    اللہ کے بندو! کماحقہ اللہ سے ڈرو اور تقوی الہی راہِ ہدایت اور اس سے تصادم کا راستہ بدبختی ہے۔
    مسلمانو!
    اللہ تعالی نے آدم کو پیدا کیا اور اپنی عبادت کیلیے زمین پر انہیں خلیفہ بنایا، تو اولاد آدم دس صدیوں تک اللہ تعالی کی وحدانیت اور محبت پر متحد رہی، پھر شیطان نے انہیں پھسلا کر دینِ الہی اور اللہ کی ا طاعت سے منحرف کر دیا، ایک امت رہنے کے بعد بکھرنے لگے، حدیث قدسی میں اللہ تعالی کا فرمان ہے: (میں نے اپنے تمام بندوں کو یکسو پیدا کیا، لیکن شیاطین نے ان کے پاس آ کر انہیں دین سے گمراہ کر دیا ) مسلم
    تو اللہ تعالی نے ان کے بکھرنے پر مذمت فرمائی اور رسولوں کو مبعوث فرمایا تا کہ ان میں اتحاد اور حق بات پر ان کے دل متحد ہو جائیں، فرمانِ باری تعالی ہے:
    [pullquote]كَانَ النَّاسُ أمَّۃ وَاحِدَۃ فَبَعَثَ اللہ النَّبِيِّينَ مُبَشِّرِينَ وَمُنْذِرِينَ [البقرة: 213][/pullquote]

    اللہ تعالی نے بنی اسرائیل کو چنا اور ان میں انبیائے کرام اور رسولوں کو بھیجا؛ لیکن انہوں نے رسولوں کی مخالفت کی اور کتابِ الہی کو پس پشت ڈال کر گروہوں اور فرقوں میں بٹ گئے، آپ ﷺ کا فرمان ہے: یہودی اکہتر فرقوں میں بٹے، عیسائی بہتر فرقوں میں بٹے، اور میری امت تہتر فرقوں میں بٹے گی. ابن حبان
    اور آپ ﷺ نے اس امت میں تفرقہ بازی رونما ہونے کی خبر دی، عہدِ نبوت سے جس قدر دور ہوتے جائیں گے، گروہ بندیاں اور اختلافات بڑھتے جائیں گے، آپ ﷺ کا فرمان ہے: بیشک تم میں سے جو بھی میرے بعد زندہ رہے گا وہ بہت زیادہ اختلافات دیکھے گا. احمد
    نبی ﷺ نے فرقہ آرائی سے خبردار فرمایا تا کہ مشیتِ الہی میں جس کے لیے سلامتی لکھی ہوئی ہے وہ فرقہ واریت سے بچ جائے، آپ ﷺ کا فرمان ہے: اپنے آپ کو فرقوں میں بٹنے سے بچاؤ. ترمذی
    اللہ تعالی نے بھی اپنے بندوں کو گروہ بندی سے منع کرتے ہوئے فرمایا:
    [pullquote]وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللہ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا[/pullquote]

    اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور گروہ بندی میں مت پڑو۔ [آل عمران: 103]
    نیز اللہ تعالی نے یہ بھی بتلایا دیا کہ اس کا راستہ ایک ہی ہے، لہذا جو بھی کتاب و سنت سے متصادم راستہ ہوگا وہ شیطان کا راستہ ہے، جو کہ مخلوق کو رحمن سے دور کرتا ہے، اللہ تعالی نے اقامت ِ دین اور گروہ بندی سے دوری کی تاکیدی نصیحت تمام اقوامِ عالم کو اسی طرح فرمائی جیسے انبیائے کرام کو فرمائی، فرمانِ باری تعالی ہے:
    [pullquote]شَرَعَ لَكُمْ مِنَ الدِّينِ مَا وَصَّى بِہ نُوحًا وَالَّذِي أوْحَيْنَا إلَيْكَ وَمَا وَصَّيْنَا بِہ إبْرَاھيمَ وَمُوسَى وَعِيسَى أَنْ أقِيمُوا الدِّينَ وَلَا تَتَفَرَّقُوا فِيہ[/pullquote]

    اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے وہی دین مقرر کردیا ہے جسے قائم کرنے کا اس نے نوح (علیہ السلام) کو حکم دیا تھا اور جو (بذریعہ وحی) ہم نے تیری طرف بھیجا ہے، اور جس کا تاکیدی حکم ہم نے ابراہیم اور موسیٰ اور عیسیٰ (علیہم السلام) کو دیا تھا کہ اس دین کو قائم رکھنا اور اس میں گروہ بندیاں مت کرنا۔[الشورى: 13]
    اللہ تعالی نے گروہ بندی اور تفرقہ پردازوں کی مذمت فرمائی:
    [pullquote]وَإنَّ الَّذِينَ اخْتَلَفُوا فِي الْكِتَابِ لَفِي شِقَاقٍ بَعِيدٍ[/pullquote]

    اور بیشک جن لوگوں نے کتاب میں اختلاف کیا وہ دور کی بد بختی میں پڑ گئے۔[البقرة: 176]
    تفرقہ پردازوں کی کیفیت بیان کرنے کے لیے فرمایا:
    [pullquote] كُلُّ حِزْبٍ بِمَا لَدَيْھمْ فَرِحُونَ[/pullquote]

    جس گروہ کے پاس جو کچھ ہے وہ اسی پر اترا رہا ہے ۔[المؤمنون: 53]
    گروہ بندی کے لیے تگ و دو منافقوں کی صفات میں سے ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
    [pullquote]وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مَسْجِدًا ضِرَارًا وَكُفْرًا وَتَفْرِيقًا بَيْنَ الْمُؤْمِنِينَ[/pullquote]

    اور کچھ لوگوں مسجد بنائی نقصان پہنچانے کےلیے ، کفر کےلیے اور مؤمنوں میں پھوٹ ڈالنے کےلیے۔[التوبہ: 107]
    اور مزید یہ بھی فرمایا کہ منافقین اسی پر پروان چڑھتے ہیں:
    [pullquote]تَحْسَبُھمْ جَمِيعًا وَقُلُوبُھمْ شَتَّى[/pullquote]

    تم انہیں متحد سمجھتے ہو حالانکہ ان کے دل جدا جدا ہیں۔[الحشر: 14]
    فرقہ واریت جاہلوں کی خصوصی صفات میں سے ہے، آپ ﷺ کا فرمان ہے: جو شخص بھی اطاعت سے رو گردانی کرے اور اجتماعیت سے نکل جائے تو وہ جاہلیت کی موت مرا. مسلم
    اللہ تعالی نے فرقہ آرائی میں ملوث لوگوں سے مشابہت اور ان کی ڈگر پر چلنے سے منع فرمایا اور کہا:
    [pullquote]وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ تَفَرَّقُوا وَاخْتَلَفُوا مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَھمُ الْبَيِّنَاتُ [/pullquote]

    اور ایسے لوگوں کی طرح مت ہو جاؤ جنہوں نے نشانیاں آنے کے بعد بھی اختلاف کیا اور بٹ گئے۔[آل عمران: 105]
    اللہ تعالی نے اپنے رسول ﷺ کو دھڑے بندیاں کرنے والوں سے لا تعلق قرار دیا اور فرمایا:
    [pullquote]إنَّ الَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَھمْ وَكَانُوا شِيَعًا لَسْتَ مِنْھمْ فِي شَيْءٍ[/pullquote]

    بےشک جن لوگوں نے اپنا دین ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور ڈھڑوں میں بٹ گئے، آپ کا ان سے کوئی تعلق نہیں ہے۔[الانعام: 159]
    فرقہ واریت میں ملوث لوگ رسول اللہ ﷺ کے مخالف اور مومنوں کے ساتھ تصادم رکھتے ہیں، فرمانِ باری تعالی ہے:
    [pullquote]وَمَنْ يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَہ الْھدَى وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّہ مَا تَوَلَّى وَنُصْلِہ جَھنَّمَ وَسَاءَتْ مَصِيرًا[/pullquote]

    جو شخص باوجود راہ ہدایت کے واضح ہو جانے کے بھی رسول اللہ کے خلاف کرے اور تمام مومنوں کی راہ چھوڑ کر چلے، ہم اسے ادھر ہی متوجہ کر دیں گے جدھر وہ خود متوجہ ہو اور دوزخ میں ڈال دیں گے وہ پہنچنے کی بہت ہی بری جگہ ہے۔ [النساء: 115]
    سب سے بڑا اختلاف رب العالمین کی وحدانیت سے انحراف ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
    [pullquote]وَلَا تَدْعُ مِنْ دُونِ اللَّهِ مَا لَا يَنْفَعُكَ وَلَا يَضُرُّكَ فَانْ فَعَلْتَ فَانَّكَ إذًا مِنَ الظَّالِمِينَ[/pullquote]

    اور اللہ کے سوا کسی کو مت پکاریں جو نہ آپ کو کچھ فائدہ پہنچا سکتا ہے اور نہ نقصان اگر آپ ایسا کریں گے تو تب یقیناً ظالموں سے ہو جائیں گے [يونس: 106]
    بالکل اسی طرح بدعات ایجاد کرنا خیر المرسلین ﷺ کی اتباع سے دوری ہے، آپ ﷺ کا فرمان ہے: جس شخص نے کوئی ایسا عمل کیا جس کا حکم ہم نے نہیں دیا تو وہ مردود ہے. متفق علیہ
    حکمرانوں اور حکومتی قائدین کے خلاف بغاوت، ملکی قیادت سے قیادت چھیننے کےلیے اختلاف بہت بڑی خرابی کا باعث ہے، آپ ﷺ کا فرمان ہے: جس شخص نے اللہ تعالی کی اطاعت سے ہاتھ کھینچا تو وہ قیامت کے دن آئے گا تو اس کے پاس کوئی عذر نہیں ہو گا، اور جو شخص اجتماعیت کو چھوڑنے کی حالت میں مرے تو وہ جاہلیت کی موت مرتا ہے. احمد
    تمام معاشروں میں اہل علم افراد ہی قابل اتباع ہوتے ہیں، لوگوں کے دلوں میں الفت ڈالنے اور ان میں باہمی اتحاد قائم کرنے کی ذمہ داری بھی انہیں پر عائد ہوتی ہے، اگر وہی آپس میں چپقلش رکھیں تو یہ ان کی باتوں کو مسترد کرنے کا باعث بنتا ہے۔
    یہی وجہ ہے کہ نبی ﷺ نے سیدنا معاذ اور ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہما کو یمن ارسال کرتے ہوئے فرمایا تھا: آسانی کرنا تنگی میں مت ڈالنا، خوشخبریاں سنانا، متنفر مت کرنا، ایک دوسرے کی بات ماننا اختلاف مت کرنا. متفق علیہ
    اسی طرح حق بات میں اختلاف سے منع کرتے ہوئے فرمایا: قرآن مجید کی اس وقت تک تلاوت کرو جب تک تمہارے دل مانوس رہیں اور جب [قراءت میں اختلاف کی وجہ سے ] اختلاف ہونے لگے تو اٹھ جاؤ. متفق علیہ
    نماز کےلیے الگ الگ دھڑے بنانا اور اکٹھے با جماعت نماز ادا نہ کرنا شیطان کے غلبہ پانے کی صورت ہے، آپ ﷺ کا فرمان ہے: کسی بھی بستی یا بادیہ میں تین افراد نماز با جماعت کا اہتمام نہ کریں تو شیطان ان پر غالب ہے، اپنے آپ کو اجتماعیت سے جوڑے رکھو؛ کیونکہ بھیڑیا دور نکلنے والی بکری کو کھا جاتا ہے۔ ابو داود
    بلکہ نبی ﷺ نے بکھر کر نماز کے انتظار کو بھی اچھا نہیں سمجھا، جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ہمارے پاس رسول اللہ ﷺ [نماز پڑھانے کے لیے]داخل ہوئے تو ہمیں ٹولیوں کی شکل میں [نماز کا انتظار کرتے ہوئے]دیکھ کر فرمایا: (کیا ہے کہ میں تمہیں ٹولیوں میں دیکھ رہا ہوں!؟). مسلم
    نبی ﷺ نے صف بندی کرتے ہوئے نمازیوں کو اختلاف سے روکا اور اختلاف کرنے والوں کو چہروں میں بگاڑ اور دلوں میں نفرت پیدا ہونے کی وعید سنائی؛ کیونکہ ظاہری طور پر بگاڑ کا پیدا ہونا اندرونی بگاڑ کا باعث ہے، نبی ﷺ کا فرمان ہے: تم ضرور صفیں سیدھی کرو گے یا اللہ تعالی تمہارے چہروں میں بگاڑ پیدا کر دے گا. مسلم
    نماز میں امام کی مخالفت بھی اختلاف کے ان مظاہر سے ہے جن سے اسلام نے منع فرمایا ہے، آپ ﷺ کا فرمان ہے: بیشک امام اقتدا کے لیے مقرر کیا گیا ہے؛ لہذا امام کی مخالفت مت کرو. بخاری

    اسلام نے جس طرح دینی امور میں اختلاف سے روکا ہے اسی طرح دنیاوی امور میں بھی اختلافات سے روکا ہے؛ چنانچہ کھانے کے لیے اکٹھے ہونے سے برکت حاصل ہوتی ہے اور الگ الگ کھانے سے برکت ختم ہو جاتی ہے، جیسے کہ کچھ لوگوں نے رسول اللہ ﷺ سے شکایت کی کہ: ہم کھاتے تو ہیں لیکن سیر نہیں ہوتے! تو آپ ﷺ نے فرمایا: لگتا ہے تم کھانا اکٹھے نہیں کھاتے، انہوں نے کہا: بالکل ایسے ہی ہے تو آپ ﷺ نے فرمایا: کھانے کے لیے اکٹھے بیٹھو اور اس پر بسم اللہ پڑھو، تمہارے لیے اس میں برکت ڈال دی جائے گی. ابو داود
    دورانِ سفر رفقائے سفر سے بکھر جانے کو شیطانی راستہ قرار دیا گیا، آپ ﷺ نے فرمایا: ان گھاٹیوں اور وادیوں میں تمہارا بکھر جانا شیطان کی طرف سے ہے. ابو داؤد
    معاشرے کے افراد کی باہمی قطع تعلقی اور بے رخی سے منع فرمایا اور بتلایا کہ: جنت کے دروازے سوموار اور جمعرات کے دن کھولے جاتے ہیں، تو ہر اس شخص کو معاف کر دیا جاتا ہے جو اللہ کے ساتھ شرک نہیں کرتا، سوائے اس شخص کے جس کی اپنے بھائی کے ساتھ چپقلش ہو، تو اس کے بارے میں کہا جاتا ہے: ان دونوں کو آپس میں صلح کرنے تک مہلت دو، ان دونوں کو آپس میں صلح کرنے تک مہلت دو. مسلم
    نبی ﷺ نے تعصب اور جاہلانہ نعروں سے بھی منع فرمایا: ایک انصاری شخص نے آواز لگائی: اے انصاریو! تو دوسرے نے صدا لگا دی: اے مہاجرو! تو اس پر نبی ﷺ نے فرمایا: جاہلانہ نعرے کیوں لگا رہے ہو؛ انہیں ترک کر دو یہ بدبودار ہیں. متفق علیہ

    اللہ تعالی کو اپنے بندوں کے درمیان اختلاف پسند نہیں ہے، لہذا لوگوں میں اختلافات غیر اللہ کی جانب سے ہوتے ہیں، شرعی اصولوں نے یہ واضح طور پر کسی بھی ایسی چیز کو حرام قرار دے دیا ہے جو گروہ بندی اور اختلاف کا باعث بنے، بلکہ ادیانِ رسالت میں ممنوعہ چیزوں کی ممانعت کا مقصد بھی یہی ہے، چنانچہ ہر اس چیز کو منع کر دیا گیا جو مسلمانوں میں اختلافات کا باعث بنے، مثلاً: بد ظنی، حسد، جاسوسی، چغلی، سود، کسی کی بیع پر بیع کرنا، کسی کی منگنی پر منگنی کا پیغام بھیجنا، عیب جوئی کرنا، ملاوٹ کرنا وغیرہ، نیز اللہ تعالی نے باہمی اتحاد قائم کرنے اور اختلافات سے بچانے کےلیے اچھی سے اچھی گفتگو کرنے کا حکم دیا اور بری گفتگو سے روکا، فرمان باری تعالی ہے:
    [pullquote]وقُلْ لِعِبَادِي يَقُولُوا الَّتِي ھيَ أحْسَنُ إنَّ الشَّيْطَانَ يَنْزَغُ بَيْنَھمْ[/pullquote]

    اور میرے بندوں سے کہہ دیں کہ وہی بات کیا کریں جو بہترین ہو، بیشک شیطان ان کے درمیان فساد ڈلواتا ہے۔ [الاسراء: 53]
    اختلاف کا سب سے بڑا موجب شرک ہے، شرک اختلاف پرور اور معبودانِ باطلہ میں اضافے کا موجب ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
    [pullquote]وَلَا تَكُونُوا مِنَ الْمُشْرِكِينَ (31) مِنَ الَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَھمْ وَكَانُوا شِيَعًا[/pullquote]

    اور مشرکوں کی طرح مت ہو جانا [31] جنہوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور دھڑوں میں بٹ گئے۔[الروم: 31، 32]
    کتاب و سنت سے مکمل روگردانی یا کچھ حصے کو مان لینا اور باقی مسترد کر دینا تنازعات اور تصادم کا راستہ ہے
    [pullquote]وَمِنَ الَّذِينَ قَالُوا إنَّا نَصَارَى أخَذْنَا مِيثَاقَھمْ فَنَسُوا حَظًّا مِمَّا ذُكِّرُوا بِہ فَاغْرَيْنَا بَيْنَھمُ الْعَدَاوَۃ وَالْبَغْضَاءَ إلَى يَوْمِ الْقِيَامَۃ} [/pullquote]

    جو اپنے آپ کو نصرانی کہتے ہیں ہم نے ان سے بھی عہد و پیمان لیا، انہوں نے بھی اس کا بڑا حصہ فراموش کر دیا جو انہیں نصیحت کی گئی تھی، تو ہم نے بھی ان کے آپس میں بغض اور عداوت ڈال دی جو تا قیامت رہے گی [المائدة: 14]
    متَشابہ نصوص کی ٹوہ لگانا گمراہی اور سب کیلیے آزمائش ہے:
    [pullquote]فَامَّا الَّذِينَ فِي قُلُوبِھمْ زَيْغٌ فَيَتَّبِعُونَ مَا تَشَابَہ مِنْہ ابْتِغَاءَ الْفِتْنَۃ وَابْتِغَاءَ تَاوِيلِہ[/pullquote]

    جن کے دلوں میں کجی ہے وہ تو اس کی متَشابہ آیتوں کے پیچھے لگ جاتے ہیں، فتنے کی طلب اور ان کی مراد کی جستجو کے لیے [آل عمران: 7]
    شبہات اور شہوات کے دروازے میں قدم رکھنے کی وجہ سے کئی اقوام تباہ ہو گئیں اور نسلوں میں اختلافات ڈال دیے۔
    شیطانی راستوں پر چلنے کا نتیجہ اختلاف ہی ہوتا ہے، جیسے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
    [pullquote]وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَنْ سَبِيلِہ [/pullquote]

    اور مختلف راستوں پر مت چلو یہ تمہیں اللہ کے راستے سے دور لے جائیں گے۔[الانعام: 153]
    کوئی بھی قوم سرکشی کرے تو وہ گروہوں میں تقسیم ہو جاتی ہے فرمانِ باری تعالی ہے:
    [pullquote]وَمَا اخْتَلَفَ الَّذِينَ أوتُوا الْكِتَابَ إلَّا مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَھمُ الْعِلْمُ بَغْيًا بَيْنَھمْ[/pullquote]

    جن لوگوں کو کتاب دی گئی انہوں نے علم آ جانے کے بعد ہی اختلاف کیا صرف آپس میں سرکشی کی وجہ سے. [آل عمران: 19]
    جس اختلاف کی بنیاد بھی ہوس پرستی، تعصب، سرکشی اور تقلید، حمیت، گروہی تعصب ہو تو وہ فرقہ آرائی کا راستہ ہے اس سے بچنا انتہائی ضروری ہے: شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں: ’’فرقہ آرائی اور اختلاف عام طور پر بد ظنی اور ہوس پرستی سے جنم لیتے ہیں.‘‘
    حصولِ دنیا کے لیے بڑھ چڑھ کر دوڑ دھوپ کرنا عداوت اور بغض کا باعث ہے، آپ ﷺ کا فرمان ہے: اللہ کی قسم! مجھے تمہارے بارے میں غربت کا اندیشہ نہیں ہے، مجھے اندیشہ ہے کہ تمہیں دنیا ایسے ہی فراوانی کے ساتھ دے دی جائے گی جیسے تم سے پہلے لوگوں کو دی گئی، پھر تم بھی انہیں کی طرح بڑھ چڑھ کر دنیا کے لیے آگے بڑھو گے، اور یہی دنیا تمہیں بھی تباہ کر دے گی جیسے سابقہ اقوام کو دنیا نے تباہ کیا) متفق علیہ
    جب لوگ گروہوں میں بٹ جائیں تو شیطان ان پر غالب آ جاتا ہے، آپ ﷺ کا فرمان ہے: اپنے آپ کو ملت سے پیوستہ رکھو، اور الگ ہونے سے بچاؤ؛ کیونکہ شیطان تنہا کے ساتھ ہوتا ہے، جبکہ دو افراد سے دور رہتا ہے. ترمذی

    ابلیس کا چہیتا چیلا بھی وہی ہے جو امت میں سب سے زیادہ تفریق پیدا کرے، آپ ﷺ کا فرمان ہے: بےشک ابلیس اپنا تخت پانی پر لگا کر اور اپنے چیلوں کو بھیجتا ہے، ان میں سے شیطان کا قریبی وہی ہوتا ہے جو سب سے زیادہ فتنہ پرور ہو، ان چیلوں میں سے ایک آ کر کہتا ہے: میں نے یہ کیا ، میں نے وہ کیا تو ابلیس اسے کہتا ہے: تو نے کچھ نہیں کیا! پھر ایک اور آ کر کہتا ہے: میں نے اس وقت تک پیچھا نہیں چھوڑا جب تک میاں بیوی میں تفریق نہیں ڈال دی. ابلیس اس کے قریب ہو کر کہتا ہے: تو سب سے اچھا ہے. مسلم
    دینی امور میں اختلاف، ہوس پرستی اور گمراہ نظریات اللہ کے راستے اور دینِ الہی سے روکتے ہیں، اسی کی وجہ سے انبیائے کرام کے راستے اور منہج سے انحراف پیدا ہوتا ہے؛ کیونکہ سب انبیائے کرام نے دینِ الہی کے قیام اور حق بات پر باہمی اتحاد کا حکم دیا نیز تفرقہ سے روکا، اور جب اختلاف پیدا ہو جائے، متخاصم لوگوں کا دین خطرے میں پڑ جاتا ہے، انہیں کتاب و سنت سے تعلیمات لینے کی برکت سے محروم کر دیا جاتا ہے، ان پر ہوس غالب آ جاتی ہے، علم و ہدایت کا تسلط ختم ہو جاتا ہے، گروہ بندی سے دلوں میں کدورت اور رابطہِ اخوت منقطع ہو جاتا ہے، آپ ﷺ کا فرمان ہے: تم اختلاف میں مت پڑو وگرنہ تمہارے دل گدلے ہو جائیں گے. مسلم
    گروہ بندی دشمنی اور بغض کا باعث بنتی ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
    [pullquote]وَلَا تَفَرَّقُوا وَاذْكُرُوا نِعْمَتَ اللہ عَلَيْكُمْ إذْ كُنْتُمْ أعْدَاءً فَالَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ[/pullquote]

    اور تفرقہ میں نہ پڑو اور اللہ کی اس نعمت کو یاد کرو جو اس نے تم پر اس وقت کی جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے۔ پھر اللہ نے تمہارے دلوں میں الفت ڈال دی۔[آل عمران: 103]
    کوئی بھی قوم بٹ جائے تو کمزور اور ناتواں بن جاتی ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
    [pullquote]وَلَا تَنَازَعُوا فَتَفْشَلُوا وَتَذْھَبَ رِيحُكُمْ[/pullquote]

    تنازعات میں مت پڑو وگرنہ تمہاری ہوا تک اکھڑ جائے گی۔[الانفال: 46]
    اور اگر کسی قوم میں گروہ بندی پیدا ہو جائے تو یہ اللہ تعالی کے ان سے ناراض ہونے کی علامت ہوتی ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
    [pullquote]قُلْ ھُوَ الْقَادِرُ عَلَى أنْ يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذَابًا مِنْ فَوْقِكُمْ أوْ مِنْ تَحْتِ أرْجُلِكُمْ أوْ يَلْبِسَكُمْ شِيَعًا وَيُذِيقَ بَعْضَكُمْ[/pullquote]

    آپ کہہ دیں کہ وہ قادر ہے کہ تم پر کوئی عذاب تمہارے لئے بھیج دے یا تو تمہارے پاؤں تلے سے یا کہ تم کو گروہ گروہ کر کے سب کو بھڑا دے اور تمہارے ایک کو دوسرے کی لڑائی چکھا دے [الانعام: 65]
    ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: یعنی تمہیں خواہشات اور اختلافات کا مزہ چکھا دے.
    اختلافات کی فوری سزا دشمنوں کے مسلط ہونے کی صورت میں ملتی ہے، اللہ تعالی نے اپنے نبی کو وعدہ دیا ہوا ہے کہ: ان کے اپنے نفسوں کے علاوہ بیرونی کوئی دشمن مسلط نہیں کیا جائے گا جو انہیں تہس نہس کر دے، چاہے ساری دھرتی کے دشمن ان کے خلاف متحد ہو جائیں، یہاں تک یہ خود ایک دوسرے کو ہلاک کرنے لگے گیں اور ایک دوسرے کو قیدی بنانے لگے گے. مسلم

    تنازعات، اختلافات اور تفرقہ بازی سے حق تباہ ہوتا ہے، دینی اقدار منہدم ہوتی ہیں اور یہ مشرکین کی مشابہت بھی ہے، یہ گمراہی پھیلنے اور جہالت پر مبنی باتیں پھیلنے کا ذریعہ ہیں، ان میں ملوث ہو کر دینی احکام پر عمل، دین کی تعلیم اور دعوت شدید متاثر ہوتی ہیں، بلکہ دینی شعائر معطل ہو جاتے ہیں، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر اور دیگر نیک سرگرمیاں معدوم ہو جاتی ہیں، اختلافات کے باعث نعمتیں زائل ہوتی ہیں، نبی ﷺ کو لیلۃ القدر دکھائی گئی تو آپ ﷺ نے لیلۃ القدر کے متعلق بتلانے کے لیے نکلے، [باہر] دو آدمی جھگڑ رہے تھے، تو آپ ﷺ نے فرمایا: میں تمہیں لیلۃ القدر کے بارے میں بتلانے کے لیے نکلا تھا، لیکن فلاں اور فلاں جھگڑ رہے تھے تو اس کی تعیین اٹھا لی گئی. بخاری
    اگر گروہ بندی پیدا ہو جائے تو یہ بڑے سنگین جرائم کا پیشہ خیمہ ہو سکتی ہے، جن کی وجہ سے قتل و غارت اور خون بہہ سکتا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
    [pullquote]وَلَوْ شَاءَ اللَّہ مَا اقْتَتَلَ الَّذِينَ مِنْ بَعْدِھِمْ مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَتْھُمُ الْبَيِّنَاتُ وَلَكِنِ اخْتَلَفُوا[/pullquote]

    اور اگر اللہ تعالی چاہتا تو ان رسولوں کے بعد لوگ آپس میں لڑائی جھگڑا نہ کرتے جبکہ ان کے پاس واضح احکام بھی آ چکے تھے۔ لیکن انہوں نے آپس میں اختلاف کیا [البقرة: 253]
    اختلافات کا نتیجہ تباہی ہوتا ہے، آپ ﷺ کا فرمان ہے: اختلافات مت کرو؛ کیونکہ تم سے پہلے لوگوں نے اختلافات کیے تو تباہ ہو گئے. بخاری

    آخرت میں اختلافات کرنے والوں کے چہرے سیاہ ہوں گے، فرمانِ باری تعالی ہے:
    [pullquote]يَوْمَ تَبْيَضُّ وُجُوہ وَتَسْوَدُّ وُجُوہ فَامَّا الَّذِينَ اسْوَدَّتْ وُجُوھھمْ أكَفَرْتُمْ بَعْدَ إيمَانِكُمْ فَذُوقُوا الْعَذَابَ بِمَا كُنْتُمْ تَكْفُرُونَ[/pullquote]

    اس دن جب کہ کچھ چہرے روشن ہوں گے اور کچھ سیاہ ہو رہے ہوں گے تو جن لوگوں کے چہرے سیاہ ہوں گے (انہیں کہا جائے گا) کیا تم ہی وہ لوگ ہو جنہوں نے ایمان لانے کے بعد کفر اختیار کیا تھا ؟ سو جو تم کفر کرتے رہے اس کے بدلے عذاب کا مزہ چکھو [آل عمران: 106]
    ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: اہل سنت کے چہرے سفید ہوں گے اور اہل بدعت و فرقہ واریت والوں کے چہرے سیاہ ہوں گے. اللہ تعالی کا ہاتھ ملت اور اجتماعیت کے ساتھ ہوتا ہے، اور جو کوئی ملت سے بیزار ہو کر تنہا ہو گا اسے جہنم میں بھی تنہا ہی ڈالا جائے گا۔

    ان تمام تر تفصیلات کے بعد:
    مسلمانو!
    گروہ بندی ذلت اور خفت ہے، تنازعات بدی اور بلا ہیں، اختلافات کمزوری اور دیوانگی ہیں، انتشار دین و دنیا دونوں کے لیے تباہی ہے، اس کی وجہ سے دشمن خوش ہوتا ہے اور امت کمزور ہوتی ہے، اس کی وجہ سے دعوت الی اللہ کے راستے میں رکاوٹیں پیدا ہوتی ہیں، علم کی نشر و اشاعت بند ہوتی ہے، سینے میں کینہ اور دلوں میں ظلمت چھا جاتی ہے، معیشت کمزور اور وقت رائیگاں ہو جاتا ہے، انسان کو نیک کاموں سے موڑ دیتی ہے ۔ عقلمند انسان اختلافات سے رو گردانی کر کے کتاب و سنت پر کار بند رہتا ہے اور دوسروں کے ساتھ اپنی بھی اصلاح کرتا ہے، یہی نبی ﷺ کی امت کو انتشار اور اختلاف سے خلاصی کے لیے نصیحت ہے۔
    [pullquote]يَاأيُّھَا الَّذِينَ آمَنُوا أطِيعُوا اللہ وَأطِيعُوا الرَّسُولَ وَأولِي الْامْرِ مِنْكُمْ فَانْ تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوہُ إلَى اللہ وَالرَّسُولِ إنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللہ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ذَلِكَ خَيْرٌ وَأحْسَنُ تَاوِيلًا[/pullquote]

    اے ایمان والو! اللہ کی اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور ان حاکموں کی بھی جو تم میں سے ہوں۔ پھر اگر کسی بات پر تمہارے درمیان جھگڑا پیدا ہو جائے تو اگر تم اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہو تو اس معاملہ کو اللہ اور اس کے رسول کی طرف پھیر دو۔ یہی طریق کار بہتر اور انجام کے لحاظ سے اچھا ہے۔ [النساء: 59]
    اللہ تعالی میرے اور آپ سب کے لیے قرآن مجید کو خیر و برکت والا بنائے، مجھے اور آپ سب کو ذکرِ حکیم کی آیات سے مستفید ہونے کی توفیق دے، میں اپنی بات کو اسی پر ختم کرتے ہوئے اللہ سے اپنے اور تمام مسلمانوں کے گناہوں کی بخشش چاہتا ہوں، تم بھی اسی سے بخشش مانگو، بیشک وہی بخشنے والا اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔

    دوسرا خطبہ
    تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں کہ اس نے ہم پر احسان کیا، اسی کے شکر گزار بھی ہیں کہ اس نے ہمیں نیکی کی توفیق دی، میں اس کی عظمت اور شان کا اقرار کرتے ہوئے گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں وہ یکتا اور اکیلا ہے، اور یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمد اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں ، اللہ تعالی ان پر، ان کی آل و صحابہ کرام پر ڈھیروں رحمتیں و سلامتی نازل فرمائے۔

    مسلمانو!
    جو شخص بھی کتاب و سنت اور آثار صحابہ کا جس قدر تابعدار ہوگا وہ اتنا ہی زیادہ کامل ہوگا، وہ شخص اتحاد، ہدایت، اللہ کی رسی کو تھامنے والا اور فرقہ واریت، اختلافات سمیت فتنوں سے بھی اتنا ہی دور ہوگا۔
    اسلام کے بڑے مقاصد میں سے ایک یہ ہے کہ مسلمانوں کو یک زبان بنا دے، ان کے دلوں میں الفت ڈال دے، ناراض لوگوں کی آپس میں صلح کروا دے، مخلوق کیلیے بہتری دین اور حق بات پر متحد ہونے کی صورت میں ہی حاصل ہوگی، اللہ تعالی نے تمام مؤمنوں کو بھائی بھائی قرار دیتے ہوئے فرمایا:
    [pullquote]إنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إخْوَۃ[/pullquote]

    بیشک مومن آپس میں بھائی بھائی ہیں۔[الحجرات: 10]
    اور اسی طرح نبی ﷺ کے ہاں مؤمنوں کی باہمی محبت، شفقت اور پیار کی مثال ایک جسم جیسی ہے، ایک عضو بھی تکلیف میں ہو تو اس کا سارا جسم بے خوابی اور بخار کسی سی کیفیت میں رہتا ہے. مسلم
    ایک اور جگہ فرمایا: ایک مؤمن اپنے دوسرے مؤمن بھائی کے لیے دیوار کی طرح ہے، جس کا ایک حصہ دوسرے حصے کو مضبوط بناتا ہے. متفق علیہ
    باہمی اتحاد و اتفاق اللہ تعالی کی نعمتیں ہیں، جو کہ اللہ تعالی اپنے بندوں کو خاص فضل و کرم کے ساتھ عنایت فرماتا ہے:
    [pullquote]وَألَّفَ بَيْنَ قُلُوبِھمْ لَوْ أنْفَقْتَ مَا فِي الْارْضِ جَمِيعًا مَا ألَّفْتَ بَيْنَ قُلُوبِھمْ وَلَكِنَّ اللہ ألَّفَ بَيْنَھمْ[/pullquote]

    ان کے دلوں میں باہمی الفت بھی اسی نے ڈالی ہے، زمین میں جو کچھ ہے تو اگر سارا کا سارا بھی خرچ کر ڈالتا تو بھی ان کے دل آپس میں نہ ملا سکتا۔ یہ تو اللہ ہی نے ان میں الفت ڈال دی ہے [الانفال: 63]
    مسلمان کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ اس نعمت کی حفاظت کے لیے اپنا سینہ صاف رکھے، دوسروں سے محبت کرے اور ان کی خیر خواہی چاہے۔
    یہ بات جان لو کہ ، اللہ تعالی نے تمہیں اپنے نبی پر درود و سلام پڑھنے کا حکم دیا اور فرمایا:
    إنَّ اللہ وَمَلَائِكَتَہ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أيُّھَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيہ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا
    اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو! تم بھی ان پر درود و سلام بھیجا کرو۔ [الاحزاب: 56]
    [pullquote]اللھم صل وسلم وبارك على نبينا محمد، [/pullquote]

    یا اللہ! حق اور انصاف کے ساتھ فیصلے کرنے والے خلفائے راشدین : ابو بکر ، عمر، عثمان، علی اور بقیہ تمام صحابہ سے راضی ہو جا؛ یا اللہ !اپنے رحم و کرم اور سخاوت کے صدقے ہم سے بھی راضی ہو جا، یا اکرم الاکرمین!
    یا اللہ !اسلام اور مسلمانوں کو غلبہ عطا فرما، شرک اور مشرکوں کو ذلیل فرما، یا اللہ !دین کے دشمنوں کو نیست و نابود فرما، یا اللہ! اس ملک کو اور مسلمانوں کے تمام ممالک کو خوشحال اور امن کا گہوارہ بنا دے۔
    یا اللہ! پوری دنیا میں مسلمانوں کے حالات درست فرما، یا اللہ! ان کے علاقوں کو امن و امان اور ایمان والا بنا، یا قوی! یا عزیز!
    یا اللہ! ہماری سرحدوں کو پر امن بنا، ہمارے فوجیوں کی مدد فرما، انہیں ثابت قدم بنا، اور دشمنوں کے خلاف ان کی مدد فرما، یا قوی! یا عزیز!
    یا اللہ! ہمارے حکمران کو تیری رہنمائی کے مطابق توفیق عطا فرما، اور ان کے سارے اعمال اپنی رضا کیلیے مختص فرما، یا اللہ! تمام مسلمان حکمرانوں کو تیری کتاب پر عمل کرنے اور نفاذِ شریعت کی توفیق عطا فرما، یا ذو الجلال و الاکرام!
    یا اللہ! تو ہی اللہ ہے اور تیرے سوا کوئی معبودِ حقیقی نہیں ہے، تو ہی غنی ہے ہم فقیر ہیں، ہمیں بارش عطا فرما، اور ہمیں مایوس مت فرما، یا اللہ! ہمیں بارش عطا فرما، یا اللہ! ہمیں بارش عطا فرما، یا اللہ! ہمیں بارش عطا فرما، یا اللہ! رحمت کی بارش ہو، عذاب والی نہ ہو، گرانے یا پانی میں غرق کرنے والی یا آزمائش میں ڈالنے والی بارش نہ ہو، یا ارحم الراحمین!
    یا اللہ! ہم نے اپنی جانوں پر ظلم ڈھائے اگر تو ہمیں نہ بخشے تو ہم خسارہ پانے والوں میں ہو جائیں گے۔
    اللہ کے بندو!
    [pullquote]إنَّ اللہ يَامُرُ بِالْعَدْلِ وَالْاحْسَانِ وَإيتَاءِ ذِي الْقُرْبَى وَيَنْھى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ[/pullquote]

    اللہ تعالی تمہیں عدل، احسان اور قرابت داروں کو دینے کا حکم دیتا ہے اور بے حیائی، برے کام اور سرکشی سے منع کرتا ہے۔ وہ تمہیں اس لئے نصیحت کرتا ہے کہ تم اسے [قبول کرو]اور یاد رکھو۔ [النحل: 90]
    تم عظیم و جلیل اللہ کا ذکر کرو وہ تمہیں یاد رکھے گا، اللہ تعالی کی نعمتوں کا شکر ادا کرو تو وہ اور زیادہ دے گا ،یقیناً اللہ کا ذکر بہت بڑی عبادت ہے ، تم جو بھی کرتے ہو اللہ تعالی جانتا ہے۔

    (مسجد نبوی ﷺ میں فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر جسٹس عبد المحسن بن محمد القاسم حفظہ اللہ کے اس خطبہ جمعہ کا ترجمہ شفقت الرحمن نے کیا ہے. جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں ایم ایس تفسیر کے طالب علم ہیں اور ادارہ ترجمہ، مسجد نبوی میں بطور اردو مترجم فرائض انجام دے رہے ہیں. مسجد نبوی ﷺ کے خطبات کا ترجمہ اردو دان طبقے تک پہنچانا ان کا مشن ہے. ان کے توسط سے دلیل کے قارئین ہر خطبہ جمعہ کا ترجمہ دلیل پر ملاحظہ کرتے ہیں.)

  • کیا عمران خان ڈونلڈ ٹرمپ بن سکتے ہیں؟ محمد عامر خاکوانی

    کیا عمران خان ڈونلڈ ٹرمپ بن سکتے ہیں؟ محمد عامر خاکوانی

    پچھلے دو تین ماہ سے مسلم لیگ ن کے رہنما، کارکن اور میڈیا میں ان کے حامی لکھاری بڑے شدومد سے عمران خان کو ڈونلڈ ٹرمپ سے تشبیہ دے رہے تھے۔ اسلام آباد میں احتجاج اور لاک ڈاؤن کی دھمکی کے بعد زیادہ جوش وخروش سے عمران اور ٹرمپ میں مماثلت ڈھونڈی جانے لگی تھی۔ اس وقت تک ن لیگ والوں کا یہ خیال تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ ایک مضحکہ خیز شخصیت ہے اور الیکشن ڈے کے بعد وہ ناکامی کی ایک علامت بن کر سامنے آئے گا۔ ٹرمپ کی ممکنہ ناکامی کو عمران خان کے خلاف بطور حربہ استعمال کرنے کی سوچ بھی کہیں کارفرما تھی۔ معلوم نہیں کہ مسلم لیگ ن کے اندر ٹرمپ کی کامیابی سے کیا قیامت گزری ، مگراب ٹرمپ کا طعنہ دینا ختم ہوچکا ہے۔

    عمران خان کے ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ موازنے میں ویسے حرج کوئی نہیں، اب تو خیر وہ جیتے ہوئے گھوڑے ہیں تو ہر کوئی ان کی مثال دینا چاہے گا۔ دو تین باتیں تو دور سے ہی مشترک نظر آ رہی ہیں۔ دونوں ہی منہ پھٹ اور تیزدھار تبصرے کرنے کے شائق ہیں۔ ٹرمپ نے بھی بہت سے ایسے تبصرے کر رکھے ہیں ،جنہیں پڑھ یا سن کر حیرت ہوتی ہے۔ ادھر اردو محاورے کے مطابق خان صاحب کی زبان کے آگے بھی خندق نہیں۔ اکثر وہ بولنے کے بعد ہی اس پر غور فرماتے ہیں، پھر ان کے ساتھیوں کو تاویلیں دے کر بات سنبھالنا پڑتی ہے۔ڈونلڈ ٹرمپ پر یہ الزام رہا کہ وہ تہذیب کے دائرے میں رہ کر خطاب نہیں کرتے۔

    ایک آدھ اور کامن پوائنٹ بھی ڈھونڈا جا سکتا ہے، مگر دیانت داری سے جائزہ لیں تو نومنتخب امریکی صدر اور پاکستان کے اپوزیشن لیڈر میں بڑا واضح فرق موجود ہے۔ کئی اہم امور پر دونوں کی آرا ایک دوسرے سے بہت مختلف ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ اعلانیہ قسم کے نسل پرست ہیں، ان کی انتخابی مہم پر بھی وائٹ مین سپرمیسی (سفید فام کی بالا دستی) کے اثرات نمایاں رہے ۔عمران خان کی سیاست میں نسل پرستی یا قوم پرستی کے جذبات موجود نہیں۔ پھر ٹرمپ کی تیز زبان کا نشانہ معاشرے کے کئی طبقات بنے، تارکین وطن پر وہ گرجتے برستے رہے، اسلاموفوبیا کا شکار نظر آئے، میکسیکو سے آنے والوں پر تیر برساتے رہے، خواتین ان کے خاص کرم کا نشانہ بنیں، ٹی وی اینکرز کے حوالے سے نہایت معیوب جملے کہہ ڈالے۔ ایسی باتیں جن کا دفاع کرنا ممکن نہیں تھا۔ عمران خان کے زبانی حملوں کا ہدف سیاسی نظام، سٹیٹس کو کی روایتی سیاست کرنے والی جماعتیں، خاص کر حکمران جماعت اور شریف خاندان ہے۔ ایک میڈیا گروپ اور الیکشن کمیشن پر بھی برستے رہے اور بلاسوچے سمجھے پینتیس پنکچر والی بات اعلانیہ کہہ ڈالی، یہ ادراک کیے بغیر کہ اگرالزام درست ہو، تب بھی اسے ثابت کیسے کیا جا سکتا ہے، بعد میں پھر معذرت کرنا پڑی۔ ٹرمپ کے برعکس خواتین کے حوالے سے خان کا رویہ بہت شائستہ اور مہذب رہا۔ ان کے حوالے سے کبھی کوئی عامیانہ بات بھی نہیں کی۔

    عمران خان کے حوالے سے ان کے مداحین اور حامی البتہ یہ دعا ضرور کر سکتے ہیں کہ جس نہج پر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکہ میں کامیابی حاصل کی، اسی طرح تحریک انصاف کے قائد بھی میدان مار لیں۔ ٹرمپ کی کامیابی ایک طرح سے کامیابی کے تمام جگمگاتے روایتی ماڈلز کی نفی ہے۔ کامیابی کا لٹریچر امریکہ میں بے پناہ شائع اور فروخت ہوتا ہے، اب وہی لٹریچر ہمارے ہاں بھی عام ہے۔ کامیاب بنیے، کروڑ پتی بننے کے نسخے، کامیاب ترین زندگی کیسے گزاری جائے، اپنی شخصیت کو پراثر بنایا جائے وغیرہ وغیرہ۔ امریکی سیاست میں بھی مختلف کامیابی کے ماڈلز STORIES SUCCESS موجود ہیں۔ صدارتی امیدوار ان کو فالو کرتے ہیں، جیسے ہیلری کلنٹن نے کیا۔ ان کو دیکھنے سے لگتا ہے کہ وہ بنی ہی کامیاب ہونے کے لیے ہیں۔ سجی سجائی، نفیس، تراشا ہوا پیکر، خوبصورت انگریزی، مرتب گفتگو، شائستگی، تحمل، دلنواز مسکراہٹ ، تجربہ کار ٹیم، آزمودہ سیاسی حربے۔ یہ ایک اور کامیابی کی داستان معلوم ہو رہی تھی، آئیڈیل لیڈی، ایک یقینی جیت جس کا انتظار کر رہی تھی۔ نتیجہ مگر ہر ایک کی امیدوں کے برعکس نکلا۔

    ٹرمپ ایک اینٹی ہیرو ہیں۔ غیر مہذب، کرخت، درشت لہجے میں بات کرنے والے، جھگڑالو، تیز مزاج، برداشت نہ کرنے والے، مخالف پر سیدھے اور تیز حملے کرنے والے، ناتجربہ کار۔ جنہوں نے کوئی بھی سیاسی عہدہ آج تک حاصل نہیں کیا، ہاں کچھ ادارے اچھے طریقے سے چلائے، اپنے کاروباری ادارے۔ ٹرمپ نے اپنی تمام تر خامیوں، تمام تر منفی امیج کے باوجود ہیلری کلنٹن کے سحرانگیز امیج کو پاش پاش کیا اور ان کی امیدیں خاک میں ملا دیں۔ ہنستی مسکراتی دیوی ہار گئی اور رف اینڈ ٹف ٹرمپ جیت گئے۔

    اگر کوئی چاہے تو پاکستانی سیاست پر بھی نظر دوڑا سکتا ہے۔ اسے وہ چہرے نظر آئیں گے جو ایسے ہی مرتب، چمکتے چہروں، صاف لباس، تجربہ کار مشیروں، آزمودہ سیاسی حربوں سے آراستہ اور طاقتور دوستوں سے مزین سیاسی نیٹ ورک کے مالک ہیں۔ کامیابی جن کے دروازوں پر دستک دیتی آئی، جن کی کامیابی پر شرطیں لگائی جا سکتی ہیں۔ کیا ہیلری کلنٹن کی مانند ان ”کامیاب سیاستدانوں“ کو شکست دی جا سکتی ہے؟ جواب میں ہاں کہا جا سکتا ہے، تاہم اس کے ساتھ کئی اگر مگر بھی ہیں۔

    ٹرمپ نے عام امریکیوں کو اپنی طرف متوجہ کیا۔ دیہات، چھوٹے شہروں، پسماندہ ریاستوں میں مقیم امریکی جو پچھلے دو تین عشروں سے ترقی کی شاہراہ پر دوسروں سے پیچھے رہ گئے تھے۔ بے روزگاری، غربت اور محرومی کے سائے جن پر منڈلا رہے تھے۔ ٹرمپ نے ان کے لیے فراموش لوگوں (Forgotten Peoples) کی اصطلاح استعمال کی۔ وہ انتخابی ایجنڈا سیٹ کیا، جس نے ان کے دل جیت لیے، انہیں متحرک کیا اور الیکشن کے دن دیوانہ وار باہر نکلنے پر آمادہ کیا۔ انہی لوگوں نے ہیلری کلنٹن سے یقینی جیت چھین لی۔ ایسے فراموش لوگوں کی تعداد پاکستان میں امریکہ سے بہت زیادہ ہے۔ ہمارے ہاں تو بڑے شہروں میں بھی محرومی اور مسائل کی کمی نہیں۔ کراچی، لاہور، پنڈی جیسے شہروں میں بھی ہزاروں لاکھوں لوگ ایسی زندگی گزار رہے ہیں، جس میں کوئی رس، ذائقہ یا خوشی نہیں۔ چھوٹے شہروں کے مسائل بے پناہ ہیں، ملک کے کئی علاقوں میں دیہات کے لوگ ایک صدی پرانی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ تعلیم، صحت، صاف پانی، انصاف اور امن عامہ کو وہ ترس رہے ہیں۔ ان کی اگلی نسلوں کے لیے اعلیٰ تعلیم، سستا علاج اور باعزت روزگار ایک خواب بن چکا ہے۔ عمران خان ان فراموش شدہ لوگوں کے دلوں کی آواز بن سکتا ہے۔ خان نے کرپشن کو بڑے زوردار طریقے سے ہدف بنایا اور اسے نیشنل ایجنڈا بنا دیا۔ الیکشن اصلاحات پر اس نے بھرپور طریقے سے بات کی۔ تعلیم، صحت، صاف پانی، روزگار، تھانہ کچہری کے معاملات، پٹواریوں کے مظالم اور سسٹم کی بے حسی کو اب ایجنڈا بنانے کی ضرورت ہے ۔

    عمران خان اگر کامیابی حاصل کرنا چاہتا ہے تو اسے عام پاکستانی کے مزاج، جذبات اور خواہشات کا ادراک کرنا ہوگا۔ ملک کے مختلف علاقوں میں مختلف انداز کی سوچ ہوسکتی ہے۔ اندرون سندھ کا رہنے والا، جنوبی پنجاب کے باسی، بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے حرماں نصیب لوگ، حتیٰ کہ سنٹرل پنجاب کے عام آدمی کے اپنے اپنے مسائل ہیں۔ ان سب کو سمجھنا، انہیں بھرپور انداز میں اٹھانا اور ایک اچھا ٹھوس پلان دینے کی ضرورت ہے۔ ووٹر کو علم ہونا چاہیے کہ اگر عمران خان کو جتوایا گیا تو ملک میں کیا تبدیلی آئے گی؟ اسے یقین ہوجائے کہ ایسی صورت میں نظام بدل جائے گا، تھانہ، کچہری، پٹوار کے مظالم ختم ہوجائیں گے، انصاف ملنے لگے گا اور کاشت کار کی جھکی کمر ایک بار پھر سیدھی ہوجائے گی … ایسی صورت میں ٹرمپ جیسا معجزہ پاکستان میں بھی تخلیق ہوسکتا ہے۔ جب عام آدمی دل وجاں سے کسی کی حمایت میں اٹھے، تب مخالف کی میڈیا مینجمنٹ، اربوں کی انتخابی مہم، سسٹم کی سپورٹ بھی کام نہیں آتی۔ تب کامیابی کی مثالیں دھندلا جاتیں اور جگمگاتے پیکر اپنے رنگ کھو بیٹھتے ہیں۔ ہم پاکستانی ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی سے یہ ایک مثبت بات تو سیکھ سکتے ہیں ۔

  • مذموم محبت – حنا تحسین طالب

    مذموم محبت – حنا تحسین طالب

    محبت دل میں اتری تھی
    کسی آسیب کی صورت
    میری خوش رنگ دنیا میں
    اندھیری رات کی صورت
    شب ماہ کامل میں
    بھیانک خواب کی صورت
    سلگتی راکھ کی صورت
    محبت دور تھی جب تک
    بہت خوش باش رہتے تھے
    ہمیشہ شاد رہتے تھے
    ویرانے رہ گئے اب تو
    محبت کھا گئی رونق
    اجاڑا دل کی دنیا کو
    کسی سفاک کی صورت
    محبت دل میں اتری تھی
    کسی آسیب کی صورت