ہوم << ایک تھا رانگڑ (1) - اویس قرنی

ایک تھا رانگڑ (1) - اویس قرنی

اویس قرنی (یہ سیف الملوک کی کہانی ہے، نہ داستانِ امیر حمزہ ، یہ وہ حکایت ہے جو شیخ سعدی نے نقصِ امن کے خدشے کے باعث گلستان میں نہ لکھی مبادا لینے کے دینے پڑ جائیں۔ یہ پانچویں درویش کا قصہ نہیں بلکہ چھٹے راجپوت کا کچا چٹھا ہے۔ بے شک یہ کہانی صرف ذہنی بالغوں کے لیے ہے.)
پتا نہیں کون سی دفعہ شاید 302 کا ذکر ہے کہ سسی کے پیدائشی علاقے میں ایک بچہ نما پیدا ہوا۔ والدین کو حیرت تو ہوئی لیکن قدرت کا تحفہ سمجھ کر دل و جان سے اسے قبول کر لیا۔ تاہم اس ضمن میں تاریخ گونگے کی طرح خاموش ہے کہ نومولود کے سر پہ موجود دونوں سینگوں کا کریا کرم کیسے ہوا۔ البتہ یادِ رفتگاں کے طور پہ نام رکھ دیا گیا، تاکہ ایک غیر رسمی سند رہے۔ فدوی کا ماننا ہے ”گدھے کے سر سینگ غائب ہونا“ والے محاورے کی وجہ تسمیہ پر تحقیق کی جائے تو محاورے کا سنِ پیدائش بھی شاید وہی نکلے گا۔ کسی نے مذاق میں بھی نہ سوچا ہوگا کہ یہ ایک دن اتنا بڑا آدمی بن جائے گا کہ اس پر قلمکار قلم بازی کرتے پھریں گے، اس لیے موصوف کے حالات ِگزشتہ کسی نے یاد رکھنے یا لکھنے کی زحمت نہ کی۔ موصوف نےاس بات کو اتنا دل پرلے لیا کہ دل میں ”بڑا آدمی“ بننے کی ٹھان لی۔ کچھ سال کی لگاتار کوششیں جب رائیگاں گئیں تو موصوف نے ”واماندگی شوق تراشے ہے پناہیں“ والے کلیے کے تحت کاغذات میں اپنا سنِ پیدائش ایک سال پرانا درج کروا کے سوچا دل کے بہلانے کو غالب یہ خیال اچھا ہے۔
اپنی خدادا د عصری حسیت کو کام میں لا کر بڑے رانا جی نے سو پشت سے چلے آرہے پیشہ آبا یعنی سپہ گری کو خیرباد کہا اور غالب کی طرح شاعری کو بھی ذریعہ عزت ِنہ گردانتے ہوئے کاشت کاری کو شرف بخشاتھا۔ تاآنکہ جب سلطنت دست بدست موصوف تک پہنچی۔ غالب امکان ہے کہ آپ نے آلسی طبیعت سے مجبور ہو کر سکول جانا گوارہ کیا مبادا کہیں کاشت کاری کا کوہِ گراں کھودنا پڑے۔ چند حاسدین کا یہ بھی ماننا ہے کہ بچپن میں لیلیٰ مجنوں کے قصے میں مکتب والی واردات سے متاثر ہو کر آپ نے طالب علم ہونا گوارہ کیا کہ شاید تاریخ کا خود کو دہرانے کا موڈ بن جائے۔ لیکن لیلیٰ تو کیا لیلی (لے+لی) بھی نہ ملی۔ کچھ عرصہ منہ لٹکائے لٹکائے پھرے ۔
ایک دن اٹواٹی کھٹواٹی لیے غور و فکر کے جوہڑ میں آلسی بھینس کی طرح گوڈے گوڈے ڈوبے ہوئے تھے۔ ظاہر ہے کہ زیر ِغور مسئلہ ”وجوہاتِ عدم دستیابی لیلیٰ“ تھا۔ اور بقول شاعر ”ادھر ڈوبے، ادھر نکلے“ والا حال تھا۔ ایک ڈبکی کے دوران اس نتیجے پر پہنچے کہ آج کل کیدو والا کردار ضیاءالحق ادا کر رہے ہیں۔ راجپوت خون تھا، کھول اٹھا۔ پس اس دن کے بعد اٹھتے بیٹھتے صدر کو بددعائیں دینا شروع کر دیں۔ خفیہ ایجنسیوں نے اطلاع صدر تک پہنچا دی۔ صدر صاحب نے مجذوب کی بڑ سمجھ کر چٹکیوں میں کیوں نہ اڑا دیا ، اس ضمن میں موجود سب روایات درجہ ضعیف کی ہیں، اس لیے ان کا ذکر بےمحض اور طوالت کا باعث ہوگا۔ حقائق صرف اتنے ہیں کہ صدر سرکاری دورے کے بہانے دراصل چھوٹے راجپوت سے معاملہ سلجھانے تشریف لا رہے تھے، ادھر چھوٹے راجپوت کی چھٹی حس نے چغلی لگا دی۔ انتقامی جذبات سے مغلوب الغضب چھوٹے راجپوت نے آؤ دیکھا نہ تاؤ، حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء والا منتر (ہنوز بہاولپور دور است) پڑھنا شروع کر دیا اور صدارتی جہاز پانی پانی ہونے کے بجائے آگ آگ ہو گیا۔ دریائے ستلج کا کنارہ دیکھ کر پائلٹ کو خیال سوجھا کہ جہاز کو پانی میں ڈبکی لگوائی جائے۔ مگر پانی تو سندھ طاس معاہدے کی بھینٹ چڑھ چکا تھا۔ پس ریت کے فرش پہ گرتے ہی اناللہ وانا الیہ راجعون۔ یہ بھی عجیب اتفاق تھا کہ ایک بادشاہ کو دفن کے لیے دو گز زمین نہ مل سکی تھی، اور ایک کو چلو بھر پانی نہ مل سکا۔
حکومت بدلی اور پاکستان کی پہلی خاتون وزیراعظم سے چھوٹے راجپوت کو امید ہوئی کہ ولایت سے پڑھ کے آئی ہیں، مخلوط تعلیم والا قانون اب بنا کہ اب بنا، لیکن عوام کو ”خواب دے کے جھوٹے موٹے“ اپنی تجوریاں بھرنے والے سرے محل اور گھوڑوں کے چاؤ چونچلوں میں ہی مصروف رہے۔ ظاہر میں تو غلام اسحٰق خان سبب بنے لیکن بعض لوگوں کو شک ہے کہ پیپلز پارٹی کا بوریا بستر گول کرنے میں چھوٹے راجپوت کی بدعا کارفرما تھی۔ تیر گیا، سائیکل آیا لیکن ”احباب چارہ سازی وحشت نہ کر سکے“ نتیجہ پھر وہی، یعنی دو سال اڑھائی سال بعد حکومتوں کا آنا جانا لگا رہا۔ اور اس دوران رانا جی بھی مکتب سے پرائمری سکول میں علم کی منزلوں پہ منزلیں مارتے چلے گئے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس ضد میں کمی آنے کے بجائے اضافہ ہی ہوتا چلا گیا، اندرونی سبب شاید یہ تھا کہ آتش کی طرح رانا بھی جوانی کی جانب گامزن تھا۔
گو میں رہا رہینِ ستم ہائے روزگار
لیکن تیرے خیال سے غافل نہیں رہا
اقتدار کا بٹیر جب دوسری بار پیپلز پارٹی کے ہاتھ آیا تو غالب کے مصرعے ”آبلوں پر حنا باندھتے ہیں“ کی طرح خاتون وزیر اعظم نے لغاری صاحب کو صدر بنا کر اپنے طور پہ پیش بندی کر لی، لیکن کالی زبان سے کون بچ سکا ہے، نتیجتاً راجپوت کی بددعا نے پیپلز پارٹی کے چراغ سے پیپلز پارٹی کو آگ لگا دی۔ بعض دل جلوں کا ماننا ہے کہ دراصل لغاری صاحب نے حقِ ہمسائیگی ادا کیا تھا۔
مسلم لیگ بھی دوسری بار حکومت میں آئی اور راجپوت بھی سوزِ نہانی سمیت ہائی سکول میں آن پہنچا۔ حکومت شریعت بل، قرض اتارو ملک سنوارو، کارگل جنگ ، اور ایٹمی دھماکوں میں الجھی رہی، اور راجپوت امیدِ بہار میں شجر سے پیوستہ رہا۔ جب دیکھا کہ ان گنجوں میں بھی تیل نہیں تو بددعا والی تسبیح پھیرنے لگا. تسبیح پھرنے کی دیر تھی کہ عوامی مینڈیٹ کا دعویدار اڈیالہ جیل میں پچھتاتا نظر آیا، وہ تو سعودی عرب نے بیچ میں کود ا پھاندی کر کے بچا لیا ورنہ چھوٹے راجپوت نے اس بار طیارہ کیس میں پھانسی لگوانے کے لیے چلہ شروع کیا ہوا تھا۔
مشرف صاحب کے انقلابی اقدامات سے راجپوت کو امید کی کرن نظر آنے لگی، میراتھن دوڑیں، پی ٹی وی کے خبر نامے سے اکتائے عوام کے لیے نئے چینلز کی بھرمار، روشن خیالی کے نعرے، اور سب سے بڑھ کر انٹر نیٹ تک عوامی رسائی، نیز موبائل نیٹ ورکس کی ابتدا۔ ناامیدی کے اندھیرے چھٹتے ہی چھوٹا راجپوت بھی کھل اٹھا۔ جوانی تو جس پر بھی آئے غضب ہوتی ہے۔
جوانی تو قانونِ قدرت سے مل گئی تھی لیکن ذہنی بلوغت کے لیے راناجی نے کتابوں کا سہارا لیا، مگر موصوف کا صرف عصمت چغتائی، منٹواور ممتاز مفتی کے شاہکاروں میں ہی دل لگتا تھا۔ خوب سے ہے خوب تر کہاں کی تلاش تو مولانا حالی کو تھی، مولانا راجپوت کے اندرونی ولولے انہیں ”محجوب سے ہوتا ہے کشف المحجوب کہاں“ پہ اکساتے کوک شاستر تک لے گئے۔ اب دنیا بازیچہ اطفال نظر آنے لگی، خواب میں پرستان کی سیر کو جایا کرتے، اور صبح اٹھ کے نہایا کرتے۔
بچپن سے سنتے آئے تھے، اور فلموں میں بھی دیکھا تھا کہ کالج میں یہ آزادی اور وہ مزے ہوتے ہیں۔ کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا، سب سے بڑی بات یہ کہ کو ایجوکیشن، اور کچھ نہیں تو کم از کم ”ایک ہوا میں سانس تو لیتے ہیں“۔ پس میٹریکولیشن کی خندق پھاند کے صادق آباد کے کالج میں داخلہ لے لیا۔ مگر ہیہات ہیہات۔۔ جیسے غالب کا بندگی میں بھلا نہ ہوا تھا، بالکل اسی طرح چھوٹے راجپوت کا بھی کالج میں داخلہ تو ہوگیا مگر بھلا نہ ہوا۔ تحصیل سطح پر ابھی تک مطلوبہ انقلاب نہیں پہنچا تھا، اس لیے لڑکے اور لڑکیوں کی علیحدہ کلاسز ہوتی تھیں۔ یوں ہر سال پے درپے آرزؤں کے لہولہان ہونے سے موصوف اس قدر دلبرداشتہ ہوئے کہ اپنے تئیں منحوس فرض کر لیا۔ اور غالب کے مصرعے ”ناامیدی اس کی دیکھا چاہیے“ کا پوسٹر بن کے رہ گئے۔
بجھے ہوئے چونے کی طرح یہ بجھا بجھا رہنا امی حضور سے دیکھا نہ گیا، تو تبدیلی آب و ہوا و دانہ کی غرض سے اپنے طوطے کو چھٹیوں میں بہاولپور بھیج دیا۔
عباسی نوابوں کا دارا لحکومت بہاولپور۔ ہر قسم کے حسن سے مالامال یہ شہر پاکستان کا پرستان کہلاتا ہے۔ کراچی، لاہور، اسلام آباد وغیرہ کے حسینوں کی ایک آدھ نمایاں خوبی کے مقابلے میں بہاولپور کا حسن ”آنچہ ہمہ خوباں، تو تنہا داری“ کا امتیاز رکھتا ہے۔
غالب نے مولانا فضلِ حق خیر آبادی کے سوال کے جواب میں آموں کی جو دو ضروری صفات بیان کی تھیں، کہ میٹھے ہوں اور بہت ہوں، وہ بہاولپور کی غزالانِ حور شمائل پر صادق آتی ہیں۔ غالب اگر کلکتے کے بجائے بہاولپور آئے ہوتے تو خدا لگتی کہتا ہوں کہ وہ غزل کلکتے کے بجائے بہاولپور کی مدح میں ہوتی ۔
کلکتے کا جو ذکر کیا تو نے ہم نشیں
اک تیر میرے سینے میں مارا کہ ہائے ہائے
پس رانائے موصوف کے چودہ طبق روشن ہونا لازمی امر تھا۔ چھٹیاں گزار کے واپس تو چلے گئے لیکن دل بہاولپور ہی اٹکا رہا۔
اٹھتے بیٹھتے بہاولپور کے خواب دیکھتے اور وہاں جا کے رہنے کی ترکیبیں سوچا کرتے۔ انہی دنوں پطرس بخاری کا مضمون ”ہوسٹل میں پڑھنا“ زیر مطالعہ آیا تو موصوف کو جیسے گیدڑ سنگھی ہاتھ آ گئی۔ آپ نے پطرس کے دلائل میں سے ”ہوسٹل“ کا لفظ ہٹا کے ”بہاولپور“ لکھا اور ”بہاولپور میں پڑھنا“ نامی تحریک کا آغاز کر دیا۔ اس سلسلے میں پیش آمدہ واقعات جزوی تبدیلی کے علاوہ بالکل پطرس کے مضمون جیسے ہی تھے، جن کا ذکر محض طوالت کا باعث ہوگا۔
قصہ کوتاہ۔! رانا جی ایف ایس سی پاس کرتے ہی بی ایس سی کی غرض سے بہاولپور آن وارد ہوئے۔ شکر خورے کو خدا شکر دیتا ہے تو رانا جی کے لیے بھلا کیوں ہاتھ روک لیتا، پس موصوف کو قائداعظم میڈیکل کالج اور وکٹوریہ ہسپتال بہاولپور کے قریب فرودگاہ دے دی گئی۔ گویا
میڈیکل کالج کے پاس گھر بنا لیا ہے
یہ بندہ حسینہ ہمسایہ وکٹوریہ ہے
بہاولپور کا فسوں انگیز شہر ۔۔۔ اور وہ نازنین بتانِ خود آرا کہ ہائے ہائے ۔۔۔ وکٹوریہ ہسپتال کی خوش ادا تقویٰ شکن لیڈی ڈاکٹرز ۔۔۔ صبر آزما وہ ان کی نگاہیں کہ حف نظر ۔۔۔ زہد سے تائب کر دینے کی صلاحیت سے مالا مال، نظر نواز نرسیں ۔۔۔۔ طاقت ربا وہ ان کاا شارہ کہ ہائے ہائے ۔۔۔
بس پھر کیا تھا ۔۔۔ رانا جی نے جب حسن کو تغافل سے جرات آزما پایا تو کچھ عرصہ اس چکا چوند کے باعث سکتے میں ہی رہے۔ جب ذرا ہوش حواس قائم ہوئے تو ”کعبہ میرے پیچھے ہے، کلیسا میرے آگے“ والی صورت حال درپیش رہی۔ بھلے وقتوں میں کیا ہوا ”علی پور کا ایلی“ کا مطالعہ کام آیا، اور رانا جی اینکر اینڈی باماؤں، ہکوری ڈکوری اور کپ، کیپ والی تھیوری کی حقیقت کا کھلی آنکھوں سے مشاہدہ کرتے ہوئے ممتاز مفتی صاحب کے دل و جان سے معتقد ہو گئے۔ آنکھیں سیکتے سیکتے جب موصوف کے دماغ کو بھی اچھا خاصا سیکا لگ گیا، اور نوبت بہ اینجا رسید کہ ان کی گرسنہ نگاہی سے استانیاں بھی شرمانے لگیں۔ حالانکہ موصوف اس بات سے آج بھی صاف مکر جاتے ہیں لیکن معاملے کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ اربابِ یونیورسٹی کے کانوں پر جوؤں نے رینگنے کے بجائے جلسے جلوس شروع کر دیے تھے۔ صاحبان اختیار چونکہ اہنسا کے قائل تھے، اس لیے جوئیں مارنے کے بجائے ”سانپ بھی مر جائے اور آمدنی بھی نہ چھوٹے“ والی ترکیب پر عمل کیا۔ یعنی دو سمسٹرز بعد رانا جی کو جبری ہجرت پر مجبور کر دیا گیا۔ ناقدین کے سامنے رانا جی نے ناک بچانے کے لیے، اپنی علمی پیاس اور لاہور بہاولپور سے بڑا شہر ہے، قسم کے دلائل کا سہارا لیا، نیز یہ تک کہہ دیا ”ہے اس معمورہ میں قحطِ غم الفت اسد“ اور ”انشا جی نکلو اب کوچ کرو ، اس شہر میں جی کو لگانا کیا“ ، گنگناتے ہوئے لاہور چل پڑے۔

Comments

Click here to post a comment