جہانگیر بدر انتقال کر گئے. انا للہ و انا الیہ راجعون.
سپریم کورٹ میں بھٹو ریفرنس کی سماعت ہو رہی تھی. مجھے بھی اس کیس میں وفاق کی جانب سے معاون وکیل مقرر کیا گیا تھا، اس لیے ہر سماعت پر میں سپریم کورٹ میں موجود ہوتا تھا.
ایک روز جب سماعت ابھی شروع نہیں ہوئی تھی، پیپلز پارٹی کے وزیر راجہ ریاض کے بھائی راجہ نعیم نے مجھے کہا کہ پیچھے چلو تمہیں ایک مزے کی چیز دکھاتا ہوں.
میں ان کے ساتھ اٹھ کر پیچھے آگیا.
جہانگیر بدر کو دیکھ رہے ہیں؟ انہوں نے سوال کیا. لیکن وہ خود جہانگیر بدر کی طرف نہیں دیکھ رہے تھے. ان کے نظریں سامنے ججز کی نشستوں کی طرف تھیں.
جی دیکھ رہا ہوں.
وہ کیا کر رہے ہیں؟
ٹیب پر کچھ پڑھ رہے ہیں.
جہانگیر بدر ٹیب پر کچھ پڑھ رہے تھے اور ساتھ ساتھ جیسے کتاب کا صفحہ الٹتے ہیں ویسے ہی ٹیب پر آگے بڑھتے جا رہے تھے.
غور سے دیکھیں، نعیم نے کہا، وہ ٹیب کو انگلی سے آپریٹ کر رہے ہیں یا انگوٹھے سے؟
انگوٹھے سے……. . میں نے انہیں بتایا.
کیا وہ ساتھ ساتھ انگوٹھے پر تھوک بھی لگا رہے ہیں؟
میں نے دیکھا وہ تھوڑی دیر بعد انگوٹھے کو زبان پر لگاتے اور پھر ٹیب پر گھماتے لگتے. یہ ایسے ہی تھا جیسے بعض لوگ نوٹ گنتے گنتے انگلی زبان سے لگا کر گیلی کرتے ہیں.
ہاں لگا رہے ہیں.
نعیم نے مسکراتے ہوئے کہا : بس یہی دکھانا تھا. اب آپ یہ بتائیں کہ وہ ایسا کیوں کرتے ہیں؟
خود بتاؤں یا انہی سے پوچھ کر بتاؤں؟
ان سے پوچھ کے بتا دیں تو زیادہ بہتر ہے. نعیم نے جواب دیا اور ہم دونوں قہقہہ لگا کر خاموش ہو گئے. ججز کمرہ عدالت میں داخل ہو چکے تھے.
کچھ دن بعد سپریم کورٹ بار روم میں کچھ وکلاء کے ساتھ گپ شپ ہو رہی تھی، جہانگیر بدر بھی موجود تھے. ماحول خاصا خوشگوار اور بےتکلف تھا. میں نے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے سارا قصہ سنا کر پوچھ لیا. جہانگیر بدر َصاحب خلق خدا اب یہ جاننا چاہتی ہے کہ آپ ٹیب کو تھوک کیوں لگاتے ہیں.
قہقہے پھوٹ پڑے لیکن سب سے اونچا قہقہہ جہانگیر بدر صاحب کا تھا.
تکلفات اور تصنع سے قدرے بے نیاز ایک سادہ اور جینیوئن جہانگیر بدر مجھے ہمیشہ اچھے لگے. سرمایہ دارانہ سیاست میں وہ کارکن سیاست کی چند نشانیوں میں سے ایک تھے. بھٹو مرحوم کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ انہوں نے سرمایہ دارانہ اور جاگیردارانہ مجبوریوں کے ساتھ ساتھ عوامی رومان کو کسی حد تک زندہ رکھا اور جہانگیر بدر جیسے غریب کارکن کو بھی عزت دی.
جہانگیر بدر نے بھی اس عزت کی لاج رکھی. دھوپ چھاؤں زندگی کا حصہ ہے، جہانگیر بدر ہر دو صورتوں میں اپنی جماعت کے ساتھ رہے.
اللہ انہیں کروٹ کروٹ جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے. آمین
Blog
-
جہانگیر بدر انتقال کر گئے – آصف محمود
-
لنڈے بازار کی لبرل ازم – محمد زاہد صدیق مغل
ویسے تو لبرل ازم سفاکیت و بدتہذیبی (savagery) کا ہی دوسرا نام ہے، البتہ اس کا سب سے سفاک اور قبیح پہلو رحمی رشتوں کے تقدس کی پامالی ہے۔ انسانی تاریخ میں ایسی کوئی گمراہی پیدا نہیں ہوئی جس نے ان رشتوں کے تقدس کو پامال کیا ہو، یہ خصوصی مقام سب سے پہلے تحریک تنویر سے برآمد ہونے والی لبرل ازم کو حاصل ہوا۔ مقدس رشتوں کی پامالی اور لبرل ازم کے مابین یہ تعلق کوئی حادثہ نہیں بلکہ عین اس کی بنیادی سرشت کا اظہار ہے کیونکہ لبرل فریم ورک میں ذاتی اخلاقیات (morality) نامی کسی شے کا وجود ممکن نہیں، یہاں صرف ”قانونی حقوق“ ہوتے ہیں اور بس۔ یہاں ماں، بہن، بیٹی وغیرہ نامی رشتوں کی بندشیں ذاتی ترجیحات (subjective preference) سے زیادہ کسی چیز کا نام نہیں، آزادی کے فروغ کے لیے ان بندشوں کے ارد گرد موجود نفسیاتی گرہیں گرانا ایک ضروری امر سمجھا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لبرل معاشروں میں بدکاری کی کثرت کے ساتھ ساتھ محرم رشتوں کے ساتھ اس شنیع فعل کا فروغ بھی عام ہوتا ہے اور ہم پھر کہے دیتے ہیں کہ یہ کوئی حادثہ نہیں بلکہ عین ”لبرل اخلاقیات“ کا اظہار ہے۔ لبرل ازم کا یہ پہلو اس قدر قبیح ہے کہ خود سلیم الطبع اور سنجیدہ لبرل حضرات بھی اس پر شرمندگی محسوس کرتے ہیں۔
کسی بھی نظریے کی طرح یقینا لبرل ازم کے بھی کچھ پہلو اچھے ہوسکتے ہیں، ہمارے دیسی لبرل حضرات اگر ان پہلوؤں پر توجہ مرکوز کرکے قومی شعور کی کچھ تربیت کرنے کا کام سرانجام دیں تو یہ بھی ایک قابل قدر کام ہوسکتا ہے۔ مگر یہ بات کس قدر افسوس ناک ہے کہ ہمارے یہاں کچھ لوگ لنڈے بازار کی لبرل ازم کے فروغ میں ہی قوم کا بھلا دیکھتے ہیں۔ خواتین کے حوالے سے معاشرے میں پائے جانےوالے چند غلط خیالات کا حل ان کے نزدیک گویا یہ ہے کہ کہ لوگ اپنے محرم رشتوں کے جسمانی خدوخیال بیان کرنا شروع کر دیں۔ جس مذہب کی یہ تعلیم ہو کہ محرم تو کجا کسی غیر محرم خاتون کے جسمانی خدوخال کے بارے میں بھی گفتگو کو معیوب قرار دیا گیا ہو، اب اس کے ماننے والوں پر یہ وقت بھی آنا تھا کہ وہ اپنے محرم رشتوں کے بارے میں ایسی لغو گفتگو کرنے کو فروغ دیں گے۔ جس مذہب کا ”ہم سب“ دم بھرتے ہیں، اس کی یہی تعلیمات ہیں کہ غیر لوگوں کے سامنے اپنی ماں بہن کے جسمانی خدوخال بیان کیے جائیں؟ آخر بہن کے جسمانی خدوخال جیسے بےہودہ موضوع پر گفتگو میں ایسی کون سی تخیلقیت یا ترقی کا کون سا راز پنہاں ہے جس کا دفاع کرنے کے لیے کچھ لوگ دیوانے ہوئے چلے جا رہے ہیں؟ کچھ لوگوں کو ہمارے معاشرے کی پسماندگی پر دکھ ہے کہ یہاں تو بہن کے بارے میں سوال ہی ایک گناہ ہے۔ اس پر صرف یہ عرض ہے کہ ہماری روایتی معاشرت کے محلوں میں ”باجی“ بھی ایک بہن ہی کا کردار رہا ہے، جو صرف سگے بھائیوں کی ہی نہیں بلکہ محلے کے دیگر بھائیوں کی بھی ”باجی“ ہوا کرتی ہے، جس کا نام سنتے ہی سر عزت سے جھک جاتے ہیں، جس کے جسمانی خدو خال کا بیان تو کجا اسے نگاہ بھر دیکھنے کو بھی برا سمجھا جاتا ہے۔ بات یہ ہے کہ ہم بہن کے کردار کو عزت کے مقام پر فائز دیکھنا چاہتے ہیں نہ کہ اس قسم کے بےہودہ موضوعات کا موضوع سخن بن جانے کو۔
پھر کیا وجہ ہے کہ ان حضرات میں سے کسی کو اتنی جرات نہ ہوئی کہ اس کے دفاع میں رطب و یابس پر مبنی طویل مضامین لکھنے کے بجائے ایک مضمون خود اسی سوال کے جواب پر لکھ مارتے، کہ ان کی اپنی بہن کے جسمانی خدوخال کی نوعیت کیا ہے، تاکہ دوسروں کے لیے وہ ”اسوہ“ بن جاتے؟ اگر بالفرض کسی کی بہن نہیں تو وہ اپنے کسی قریبی دوست کی بہن کے جسمانی خدوخال کے بارے میں یہ سب باتیں لکھ کر اپنا ”لبرل فریضہ“ سر انجام دے لیتا۔ ذرا ”ہم سب“ بھی تو دیکھیں کہ اس فریضے کی ادائیگی کے لیے یہ کس حد تک جانے کی ”اخلاقی جرات“ رکھتے ہیں۔ اور اگر ان میں یہ اخلاقی جرات نہیں تو دوسروں کو یہ سبق پڑھانے کی منافقت بند کی جانی چاہیے۔ رشتوں کے لنڈا بازار پر مبنی لبرل ازم کی یہ خرید و فروخت وہاں کی جائے جہاں نہ تو نقل کی کوئی قدر و قیمت ہے اور نہ ہی عقل کی، جہاں صرف خواہش نفس کے سامنے سجدہ کیا جاتا ہے۔
-
جمہوریت کے لیے اتنا تو برداشت کرنا ہو گا-اوریا مقبول جان
یوں لگتا ہے یہ ہمارا قومی رویہ ہے کہ اگر کوئی ہماری خامیاں بیان کرے‘ ہماری خرابیوں اور غلطیوں کے بارے میں سوال کرے تو ہم اس کا جواب دینے کے بجائے مخالف کی خامیاں‘ خرابیاں اور غلطیاں گنوانے لگ جاتے ہیں۔ سیاست دانوں میں تو یہ رویہ آپ کو ہر ٹی وی کے ٹاک شو میں بدرجہ اتم نظر آئے گا۔
اس رویے پر ہمارے دانشور‘ تجزیہ نگار اور کالم نگار اکثر تنقید کرتے نظر آتے ہیں لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ جب کبھی کسی نے ان کے نظریات و خیالات کی خامیوں اور خرابیوں کی نشاندہی کی‘ انھوں نے بھی اس کا جواب دینے کے بجائے تنقید کرنے والے کے نظریات و خیالات کے لتے لینے شروع کر دیے۔ اس رویے میں کمال ان دانشوروں اور تجزیہ نگاروں کا ہے جو جمہوری نظام کے مدح خواں ہیں اور اسے انسانی تاریخ کی سب سے بڑی کامیابی تصور کرتے ہیں۔
اگر جمہوریت سے جنم لینے والی ’’اکثریت کی آمریت‘‘ کے بارے میں گفتگو کی جائے تو وہ اس بہت بڑی اور بنیادی خرابی کا جواب نہیں دیں گے بلکہ فوراً اپنے آپ کو امت مسلمہ سے خارج کر کے پوری اسلامی تاریخ میں پائے جانے والی خرابیوں کا ذکر اس انداز سے کریں گے جیسے یہ کہہ رہے ہوں کہ اگر تم جمہوریت نہیں مانتے ہو تو بتاؤ مسلمانوں نے خود کونسے کارنامے تاریخ میں چھوڑے ہیں اور کونسی قابل تقلید طرز حکومت کا نمونہ پیش کیا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ انھیں جمہوری نظام میں دفاع کے قابل صرف ایک ہی خوبی نظر آتی ہے کہ اس کے ذریعے ایک بدترین حاکم کو پانچ سال بعد حکومت سے علیحدہ کیا جا سکتا ہے جب کہ آمریت میں تو آدمی قابض ہو جائے تو پھر یا مرنے سے جاتا ہے یا پھر جنگ و جدل سے۔
کاش وہ تاریخ کے یہ ورق بھی الٹتے کہ خلافت کے اعلیٰ و ارفع نظام کے تیس سال سید الانبیاءﷺ کے تخلیق کردہ معاشرے کی مرہون منت تھے‘ جو تعصبات سے بالاتر تھا‘ ذمے داری کے خوف سے عہدہ لینے سے دور بھاگتا تھا۔ اپنے جانشین اولاد نہیں‘ اہل لوگوں کو چنتا تھا اور سب سے بڑی بات یہ کہ رائے یا ووٹ کے لیے جاننے اور نہ جاننے والے کے درمیان تمیز رکھتا تھا۔ یہ ایک ایسا جمہوری معاشرہ نہیں تھا جس میں عظیم دانشوران اور مداحین جمہوریت کی رائے یا ووٹ ڈیڑھ سو بچوں کے قاتل جاوید اقبال کے برابر ہوتا ہے۔ جہاں ایک تہجد گزار‘عابد و زاہد اور ہیروئن کا دھندہ کرنے والے سے حکومت چلانے کے لیے برابر رائے لی جاتی ہے اور ان کا وزن بھی برابر ہوتا ہے۔
ہم اپنا کاروبار چلانے‘ اپنی اولادوں کا رشتہ کرنے‘ بازار سے کوئی چیز خریدنے کے لیے بھی ان سے رائے لیتے ہیں جنھیں اس کا علم اور تجربہ ہوتا ہے۔ذاتی معاملات میں ہم جمہوری مزاج اور جمہوری رویے پر لعنت بھیجتے ہیں۔ کیا کبھی ایسا ہوا کہ کسی مالک نے اپنی فیکٹری کے مزدوروں سے ووٹ لے کر یہ فیصلہ کیا ہو کہ نیا یونٹ لگاؤں یا نہ لگاؤں‘ تمام جاننے والوں سے ووٹ لے کر بیٹی کا رشتہ کیا ہو‘ یا پھر محلے بھر کے افراد سے اکثریتی رائے کی بنیاد پر مکان میں ایک کمرے کا اضافہ کیا ہو۔ دنیا کے تمام انسانوں کی زندگیاں ہر معاملے کے بارے میں اہل الرائے یعنی رائے دینے کی اہلیت رکھنے والے اور نہ رکھنے والے کے درمیان تقسیم ہوتی ہیں۔
امریکا سے لے کر آسٹریلیا تک دنیا کے کسی ملک میں بھی کوئی شخص اپنے ذاتی معاملے میں اس شخص سے رائے نہیں لے گا جو اس معاملے میں جاہل اور لاعلم ہو۔ لیکن جمہوریت کا یہ نظام انسانی رویوں کے بالکل برعکس تخلیق کیا گیا۔ لیکن میرے اللہ نے تو انسانوں کی درجہ بندی کر رکھی ہے۔’’اے نبی‘ کہہ دو‘ کوئی برابر ہوتے ہیں سمجھ والے اور بے سمجھ‘ اور سوچتے وہی ہیں جن کے پاس عقل ہے (الزمر۔9)۔ ایک اور جگہ تو اللہ نے واضح اعلان کر دیا۔ ’’اے نبی ان سے کہہ دو کہ پاک اور ناپاک بہرحال یکساں نہیں خواہ ناپاک کی بہتات تمہیں کتنا فریفتہ کرنے والی ہو۔
بس اے لوگو‘ جو عقل رکھتے ہو‘ اللہ کی نافرمانی سے بچو‘ امید ہے تمہیں فلاح نصیب ہوگی (المائدہ 100)۔ اللہ نے بار بار قرآن پاک میں انسانوں کی اکثریت کو نہ جانے والے‘ نہ شعور رکھنے والے اور نہ عقل رکھنے والے کہا ہے بلکہ رسول اکرمﷺ کو متنبہ کرتے ہوئے فرمایا ’’اے نبی اگر تم ان لوگوں کی اکثریت کے کہنے پر چلو گے جو زمین پر بستے ہیں تو وہ تمہیں اللہ کے راستے سے بھٹکا دیں گے۔ وہ تو محض گمان پر چلتے ہیں اور قیاس آرائیاں کرتے ہیں (الانعام:116)۔ یہی اکثریت کا ظلم و ناانصافی ہے جو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت بھارت میں اقلیت سہہ رہی ہے اور اب امریکا کے عوام اس کا مزہ چکھیں گے۔
جمہوریت کیسے آہستہ آہستہ اکثریت کو اس بات کا احساس دلاتی ہے کہ تم اس ملک پر اپنی آمریت قائم کر سکتے ہو‘ امریکا میں ڈالے گئے گزشتہ سولہ سال کے ووٹوں کا PEW نے تجزیہ کیا ہے۔ یہ امریکا کا سب سے معتبر تحقیقی ادارہ ہے۔
اس کے نزدیک سفید فام مذہبی تعصب نے ٹرمپ کی صدارت کی راہ ہموار کی۔ یہ تعصب 2000 کے الیکشن سے آہستہ آہستہ بڑھنا شروع ہوا اور اب یہ امریکی سیاست پر مکمل طور پر چھا گیاہے۔ جارج بش نے دوسری دفعہ جب 2004 میں الیکشن لڑا تو اسے سفید فام ایویلنیجکل عیسائیوں نے 78فیصد ووٹ دیے اور کیری کو 21فیصد‘ پروٹسنٹ عیسائیوں نے بش کو59فیصد اور کیری کو 40 فیصد سفید فام کیتھولک عیسائیوں نے بش کو56فیصد اور کیری کو 43فیصد جب کہ یہی کیتھولک اگر لاطینی امریکی یعنی ہسپانوی تھے تو انھوں نے بش کو 33فیصد اور کیری کو 65فیصد ووٹ دیے۔
لوگ جو مذہب کو نہیں مانتے تھے ان میں سے 67فیصد نے کیری کو 31فیصد نے بش کو ووٹ دیا۔ چونکہ بش ایک شدت پسند اور مسلمانوں کے خلاف جنگ کا علمبردار تھا‘ اس لیے سفید فام عیسائی اکثریت نے اسے منتخب کروایا۔ یہ تعصب آہستہ آہستہ نکھرتا گیا اور ٹرمپ کو سفید فام ایویلنیجکل عیسائیوں نے 81فیصد‘ پروٹسنٹ عیسائیوں نے 58فیصد‘ سفید فام کیتھولک نے 60فیصد‘ اور عیسائیوںکے ایک صوفیانہ گروہ مورمون Mormon نے 61فیصد ووٹ ڈالے جب کہ ہلیری کلنٹن کو لا مذہب لوگوں نے 68فیصد اور ہسپانوی عیسائیوں نے 67فیصد ووٹ ڈالے۔ ٹرمپ امریکی جمہوریت میں سفید فام عیسائی اکثریت کے تعصب کو آہستہ آہستہ اس مقام پر لانے کی علامت ہے جہاں کئی سو سال بعد گوروں نے ایک بار پھر امریکا کو فتح کیا ہے اور یہ صرف ایک جمہوری نظام میں ہی ممکن ہے۔
جمہوریت کی جب بات ہوتی ہے تو اس کی اعلیٰ صفات اور اقدار کی بات ہوتی ہے‘ کوئی دنیا میں نافذ بدترین جمہوری حکومتوں کا ذکر نہیں کرتا‘ اچھی مثالیں دے کر ثابت کیا جاتا ہے کہ یہ بہتر نظام ہے‘ آمریت کو گالی دینا ہو تو کسی کو سنگاپورکا لی کوآن ہوا یاد نہیں آتا‘ کوئی مہاتیر محمد کا نام نہیں لیتا جو اقتدار چھوڑ رہا تھا تو قوم رو رہی تھی۔ کوئی معیشت دانوں کے بتائے اس اصول کو بیان نہیں کرتا کہ قوموں کی ترقی ہمیشہ ایک خیرخواہ (Benevolent) آمر کے زمانے میں ممکن ہوتی ہے۔
کوئی چین کی ترقی کا ذکر نہیں کرے گا۔ اسلام میں رائے کے لیے ایک معیار مقرر ہے۔ اگر ووٹ دینے کے لیے 18سال کی عمر کی شرط رکھی جا سکتی ہے تو پھر مزیدشرائط کے طور پر پڑھا لکھا ہونا‘ ایماندار ہونا‘ جرم سے پاک ہونا جیسی شرائط رکھ کر ووٹنگ کارڈ بھی جاری کیا جا سکتا ہے۔ یہ سب کوئی مشکل کی بات نہیں۔ یہ سب ممکن ہے اگر نیت نظام کے نفاذ کی ہو۔ آمریت میں تو آمر کے خلاف جلوس نکال کر تحریک چلا کر اسے نکالا جا سکتا ہے کیونکہ آمر ایک گالی ہوتا ہے۔ لیکن اگر جمہوریت میں اکثریت کی آمریت نافذ ہو گئی اور پھر وہ تاریک رات کی طرح سالوں پر محیط ہو گئی تو ایسے ظالموں کو تخت سے کون اتارے گا۔
اقلیت کو اکثریت کے عذاب سے نجات کون دلائے گا‘ کیا ملک سے وہ ہجرت کر جائیں جیسے ٹرمپ کے جیتنے کے بعد امریکا کے عوام نے کینیڈا‘ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ جیسے ملکوں میں شہریت کی اتنی درخواستیں جمع کروائیں ہیں کہ ان کے سسٹم بیٹھ گئے ہیں۔ لیکن ان لوگوں کے ان ملکوں میں جانے سے اگر وہاں بھی اکثریت کا تعصب جاگ گیا تو پھر کیا ہو گا۔ میرے عظیم دانشور کندھے اچکا کر کہیں گے جمہوریت میں اتنا تو برداشت کرنا ہو گا۔لیکن جو اپنا جمہوری وطن چھوڑ کر بھاگے اور دوسرے جمہوری ملک میں بھی اکثریت کی آمریت کے ظلم کا شکار ہو گئے تو ان کے لیے بقول ذوق
اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے
مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے -
توڑ دیتا ہے کوئی موسٰی طلسمِ سامری – ہمایوں مجاہد تارڑ
راقم نے دیکھا ہے کہ نوع بہ نوع مسائل جوں جوں سر اٹھاتے ہیں، توں توں انسانی معاشروں میں برسرِ پیکار طاقتور آوازوں میں سے کوئی ایک آواز پیغمبرانہ لب و لہجے کی حامل ”برہانِ قاطع“ بن کر اُبھرتی اور ساری بحث گویا لپیٹ ڈالتی ہے، جس کے مقابل دیگر آوازیں کبوتروں کی سی نیم آہنگ غٹر غوں میں بدل جاتی، اپنی تاثیر کھو دیتی ہیں۔ عاطف حسین کی شاہکار تصنیف ”کامیابی کا مغالطہ“ سحرالبیان موٹیویشنل سپیکنگ کی ایمپائر کو چیلنج کرتی ایک ایسی ہی کاٹ دار آواز ہے۔ اسے پڑھ کر بےساختہ علّامہ کا شعر یاد آیا:
کیے ہیں فاش رموز قلندری میں نے
کہ فکرِ مدرسہ و خانقاہ ہو آزاد
اور آپؒ کا وہ مشہور مصرعہ کہ: توڑ دیتا ہے کوئی موسٰی طلسمِ سامریجی ہاں، فی الحقیقت یہ ہے وہ ”لائف چینجنگ“ بُک جو فی الفور ایسے تمام خواتین و حضرات کے پاس ہونی چاہیے جو زندگی کے کسی بھی مرحلہِ ذوق و شوق میں مایوس نہیں ہونا چاہتے۔ کسی نے کیا خوب کہا تھا کہ ایک اچھی کتاب وہ ہے جس کے مطالعہ کے بعد آپ وہ نہ رہیں، جو کتاب پڑھنے سے پہلے ہوا کرتے تھے۔ یقین جانیں یہ سحر طراز ”بول کار“ جس ”پیغمبرانہ“ مسند پر خود کو براجمان کیے ”حشرات الارض“ سے خطاب کرتے ہیں، اب مضحکہ خیز لگنے لگا ہے۔ یوں جیسے موسلا دھار بارش کے بعد گرد آلود فضا ایکدم شفّاف ہوجاتی ہے، اور نیلگوں آسمانی چھتری صاف دکھائی دینے لگتی ہے۔
میں تو اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ ”کامیابی کا مغالطہ“ بارے غلغلہ اس سے کہیں زیادہ بلند آہنگ ہونے کا مستحق ہے، جتنا کہ اِس گزرتی ساعت تک ہوا۔ یہ حقیقتاً ایک سحر پاش کاوش ہے جس پر خالی خولی جذباتیت سے یکسر قطع نظر ”معرکۃ الآرا“ ایسا لفظ بہ آسانی چسپاں کیا جا سکتا ہے۔ حیرت ہے کہ ایمل پبلیکیشنز کے سربراہ شاہد اعوان صاحب نے اب تک لاہور کے علاوہ دیگر شہروں میں اس کی تقریب رونمائی بارے کیوں کوئی اہتمام نہیں کیا۔ یا برادرعامر خاکوانی نے (کہ جنہوں نے ٹرمپ کامیابی بارے تاثرات رقم کرتے ہوئے اپنے ایک کالم میں اس کتاب کا ذکر جلی حروف میں کیا) اس کو ہائی لائٹ کرنے سے متعلق کیوں کوئی آئیڈیا فلوٹ نہیں کیا؟ یا عاصم اللہ بخش اور احمد جاوید صاحب ایسی محترم المقام شخصیات جن کے تعریفی کلمات کتاب میں بہ اہتمام شائع کیے گئے ہیں، نے کیوں اِس خاطرمحض ایک آدھ تعریفی نوٹ پر ہی اکتفا کیا؟
یقین جانیں، کم سے کم بھی، یہ کتاب جامعات کے نصاب میں شامل کیے جانے کے لائق ہے۔ وہ بھی یوں کہ ideally speaking اس کو کسی ایک شعبہ کے ساتھ منسلک یا مخصوص نہ کیا جائے، بلکہ تمام شعبہ ہائے علوم سے وابستہ طلبہ و طالبات کے لیے اس کتاب کا مطالعہ یکساں طور پر لازمی قرار دیا جائے۔ کتاب کے مواد پر ایک آدھ Quiz ڈیزائن کر لینے کا اہتمام برتنا بھی اس کا حق ہے۔ اخلاص اور مستند ریسرچ پر مبنی یہ دانشورانہ رہنمائی مستقبل کے معماران کے لیے ایک چھوٹی بائبل کا درجہ رکھتی ہے۔ اس سے بڑھ کر کچھ کہوں تو اس شاندار تصنیف کے لیے حکومتی سطح سے چھوٹے موٹے ایوارڈ تک کا سوچا جانا چاہیے۔ میں یہ الفاظ لکھتے ہوئے حد درجہ محتاط ہوں کہ کچھ مبالغہ نہ ہو جائے لیکن یہ مبالغہ نہیں، جو کوئی اس کتاب کو ایک بار پڑھنے کی زحمت گوارا کر لے گا، مجھے یقین ہے وہ ناچیز کی رائے سے اتفاق کرے گا۔
اس تصنیف کی ایک نمایاں خوبی اس کے مواد کی ہمہ گیریت ہے۔ دورانِ مطالعہ جو ممکنہ سوالات ایک فتنہ جُو انسانی دماغ ابھار سکتا ہے، انہیں چابکدستی سے گھیر لیا گیا ہے۔ یوں جیسے ایک نکتہ پر پیش کردہ استدلال اور اس کی عالمانہ تشریح و تفسیر کے فوری بعد قاری کے ردّ عمل یا ری فلیکس ایکشن کو مصنّف خود ہی بھانپ لے اور یکلخت، اگلے نکتہ پر سُوِئچ کرنے کا مواد اپنی جانب سے پیش کرنے کے بجائے، قاری کے ذہن میں اُٹھے سوال کا جواب دینے کے عمل سے اُٹھائے۔ یہ ذہانت اور حساسیت کی انتہا ہوتی ہے کہ آپ دیکھنے، سننے، پڑھنے والے کی حسیات کے ساتھ ایسے جڑے ہوں کہ ان کا پورا ادراک رکھتے ہوئے بات کو آگے بڑھائیں۔ فرانسس بیکن نے بلاوجہ نہیں کہہ دیا تھا کہ:
Writing makes a man perfect.
ایک عمدہ و جامع تحریر ذہنِ انسانی کی معراج ہے گویا۔ اور برادر عاطف کا یہ کام اسی معراج کو چھوتا نظر آتا ہے۔ آزمائش شرط ہے! یوں، اپنی کہوں تو شاید ہی کوئی سوال ہو جو تشنہ رہ گیا ہو۔
”کامیابی کا مغالطہ“ موٹیویشنل سپیکرز کے پھیلائے مغالطہ ہائے کامرانی کے میل کچیل کی زد میں آئے ا ذہان کے لیے وہ دھوبی گھاٹ ہے جہاں سے وہ صاف شفّاف، ہشاش بشاش ہو کر نکلیں گے، ان شااللہ! یہ تصنیف وہ کلینک ہے جہاں ڈرگ ایڈکٹس کا شافی علاج کیا جاتا ہے۔ یہ وہ منتروں کا شہنشاہ منتر ہے جو موٹیویشنل سپیکرز کی دانش گاہوں سے پھوٹنے والےسحر آفریں اقوالِ زرّیں کے ”زیرِاثر“ حضرات و خواتین کے لیے سورۃ النّاس کا درجہ رکھتا ہے۔ یہ وہ اسمِ اعظم ہے جو فسوں زدہ ”پتھر بنے“ یعنی سحر زدگاں کو واپس انسانی رُوپ میں ڈھال دینے کی یقینی تاثیر لیے ہے۔ یہ اسمِ اعظم ہاتھ آ جانے پر، مستقبل میں بھی، ایک پروٹیکٹو شیلڈ کا کام دے گا۔ یہ ایک ویل ریسرچڈ تھیسس ہے جو اس نام نہاد لائف چینجنگ سیلف ہیلپ کے صنم کدے میں ابراہیم کی صدائے لا الہ ہے۔ عاطف حسین نے خالصتاً عقلی، علمی، تجربا تی، حقیقی اور تحقیقاتی بنیاد پریہ ثابت کیا ہے کہ اس کمبخت لا آف اٹریکشن کی علمی بنیادیں سخت کمزور اور مخدوش ہیں۔”یہ محض چند ذہنی محدودات کا پیدا کیا ہوا سراب ہے جس کے پیچھے بھاگنے سے کچھ حاصل نہیں ہونے کا۔“
محنت کو صرف دنیاوی خوشحالی کے حصول کا ذریعہ ہونے کا تصوّر بنا کر رکھ دینا، اور زیرِ ورکشاپ Victims کو چہروں پر مصنوعی مسکراہٹیں سجائے رکھنے اور مصنوعی ملمّع کاری ایسے بعض عادات و خصائل کو اپنا لینے کی تربیت دینا، ”گول“ لکھوانا اور مادّی اشیا کے تعاقب میں بھگوانا خلافِ فطرت بات ہے۔ ایک ایسا مبالغہ ہے جس کی حقیقت سے یہ ہادیانِ عصر خود بھی ناواقف ہیں۔ وہ اسی کو حقیقت خیال کرتے اور مطلوبہ نتائج حاصل نہ ہونے پر بیچارے توجیہات اور وضاحتیں پیش کرتے نظر آتے ہیں۔ عاطف حسین نے منطق، دلیل، تحقیق اور مثال سے بہ خوبی سمجھایا ہے کہ:
”مثبت خیالات کی کرشماتی طاقتیں محض افسانہ ہیں، اور رجائیت پر بےجا اصرار نقصان دہ۔ اسی طرح کامیابی کے نام نہاد اصول اور ٹوٹکے بےکار اور لایعنی ہیں۔ محض کچھ عادات اپنا کر کوئی امیر نہیں بنتا، نہ ہی ان کو ترک کر نے سے کوئی غریب ہوتا ہے۔ اس نوع کا پرچار لوگوں کے لیے مفید ثابت ہونے کے بجائے الٹا انہیں ڈپریشن کا شکار کیے دیتا ہے۔ اپنی قسمت کا مالک ہونے کا نظریہ محنت کو ایک اخلاقی قدر کے مقام سے گرا کر محض حصولِ مال کے ٹول کے بطور پیش کرتا ہے جو اگر مطلوبہ نتائج پیدا نہ کرے تو بے کار ہی سمجھا جائے گا۔ اس کے برعکس قسمت کی حاکمیت کے تصوّر پر یقین رکھنے والا محنت کے مثبت یا منفی نتائج سے قطع نظر اپنی محنت کے عمل پر فخر اور اس سے خوشی کشید کر سکتا ہے۔“راقم کے نزدیک یہ تصنیف وہ عصائےموسٰی ہے جس کے روبرو طلسمِ سامری بے بس نظر آئے۔ سحرالبیان دنیائے موٹیویشنل سپیکنگ کیطرف سے ارزاں کیے جانیوالے سنہری قوانین، اور اسرار و رموز کا سودا خرید چکے اور چُکنے کے لیے پُرعزم نوجوانانِ ملّت یہ تحریرضرور پڑھیں، جیسا کہ اس کے ٹائٹل سے ہی عیاں ہے، یہ آپ کو ”کامیابی کے گُر“ سکھانے کا دعوٰی نہ رکھنے والی کتاب ہے۔ ہے نا حیرت کی بات!
البتہ یہ آپ کو مایوس ہونے سے بچانے کا بھرپور دعوٰی رکھتی ہے۔ یہاں واصف علی واصف مرحوم کی ایک خوبصورت سٹیٹمنٹ کا حوالہ بنتا ہے۔ فرمایا: ”خواہش پوری کرنے والا بزرگ اور ہے، خواہش سے نجات دلانے والا اور۔“ عاطف حسین خواہش سے نجات دلانے والا بزرگ ہے۔ یعنی اصلی والا پیر۔ نقلی پِیروں سے ہشیار رہیے!
اس کے ناشر شاہد اعوان کے اپنے الفاظ بھی غور طلب ہیں:
”مثبت سوچ“ کا منجن بیچنا خود ان سپیکرز اور ٹرینرز کے حق میں تو بہت ”مثبت اور کارآمد“ ثابت ہوتا ہے، مگر سامعین کو ایک فوری، یا اکثر تاخیری ڈپریشن، گِلٹ، غیر حقیقی آدرش اور منفی اثرات کا شکار کر چھوڑتا ہے۔ یہ جدید جہلا کارپوریٹ کلچر کے وہ آلے (Tools) ہیں، جو زبانِ غیر کے منہ زور گھوڑے پر سوار مانگے کے افکارِ مایہ کو ”مایہ“ کے لیے سونا بنا کر اپنے ہی ہم وطنوں کو مرعوب کر کے تالیاں پٹواتے ہیں۔ جعلی تحقیقات کے حوالے اور تیسرے درجہ کے لکھاریوں کے ادھ کچرے خیالات کی جگالی، بدن بولی، متاثر کن حلیہ اور سامعین کی نفسیات سے کھیلنے کی جادوگرانہ تراکیب ان کا کل اثاثہ ہوتی ہیں۔“کتاب کے مصنّف، عاطف حسین، نے اِن ٹرینرز کی جعلی یا غیر مستند تحقیقات پر تفصیل سے بات کی ہے۔ اور اپنے بیانیہ کی تصدیق کے لیے خود مغربی دنیا سے بھی مضبوط مواد پیش کیا ہے، جو بہت اپیل رکھتا ہے۔
المختصر:
کہہ ڈالے قلندر نے اسرارِ کتاب آخر -
بچپن کے اقبال، ماضی کے کچھ بھولے بسرے اوراق – سعدیہ نعمان
بچوں کی بلند آواز سے پورا سکول گونجتا، اسمبلی گراؤنڈ میں قطاریں باندھے ہم سب اپنے دھیان پڑھتے چلے جاتے۔
*لپےےے آتیی ہےے دعاا بن کے تمناا میری ی *
یہ تو کچھ بڑے ہو کے معلوم ہوا کہ لپے آتی دراصل لب پہ آئی ہوئی دعا ہے جو علامہ اقبال نے بچوں کے لیے کہی.
زندگی ہو میری پروانے کی صورت یا رب
علم کی شمع سے ہو و مجھ کو مو و حابت یا رب **
ہم محبت کو ایسے ہی کھینچ کے پڑھا کرتے۔
کسی کسی دن زرا تبدیلی ہوتی اور
*یا رب دل مسلم کو وہ زندہ تمنا دے
جو قلب کوگرما دے جو روح کو تڑ پا دے *
پڑ ھایا جاتا۔ اک سماں بندھ جاتا اور جب اس مصرع پہ پہنچتے
*رفعت میں مقاصد کو ہمدوش ثریا کر *
تو ہم کن انکھیوں سے مس رفعت اور سانولی سلونی سی مس ثریا کو دیکھا کرتے کہ پورا سکول ان کا نام لے رہا ہے، تو یہ دل میں کیسا محسوس کر رہی ہوں گی۔
یہی سوچتے دوسرا مصرع ادا کر لیتے
*خود داری ساحل دے آزادی دریا دے یا رب
قومی ترانہ میں سایہ خدائے ذوالجلال پڑھتے سر کو جھکاتے اور ڈسپلن کی ٹیچر کے سامنے سے ڈرتے ہوئے گزرتے کلاس روم میں جا بیٹھتے۔ کلاس دہم تک یہی ترتیب رہی۔ گورنمننٹ مسلم سکول کی میڈم نظامی کے مشہور زمانہ ڈسپلن میں تربیت پاتے، ہم گرلز گائیڈ بزم ادب کی دلچسپ سر گرمیوں سے گزرتے سیکھنے کے مراحل طے کرتے سکول کی منزل عبور کر گئے
اقبال اس پورے سفر میں ساتھ رہتے اپنی نظموں کی صورت۔ سالانہ تقریبات میں **ماں کا خواب ** پہ کیا گیا ٹیبلو زہن و دل پہ ایسے نقوش چھوڑ گیا کہ آج بھی زندہ ہیں۔
میں سوئی جو اِک شب تو دیکھا یہ خواب
بڑھا اور جس سے مِرا اِضطراب
یہ دیکھا، کہ میں جا رہی ہوں کہیں
اندھیرا ہے اور راہ مِلتی نہیں
لرزتا تھا ڈر سے مِرا بال بال
قدم کا تھا دہشت سے اُٹھنا محال
کالے کپڑوں میں ملبوس ماں کا کردار ادا کرتی اداس سی چال چلتی طالبہ ایک قطار میں سفید کپڑے پہنے کچھ لڑکے ہاتھوں میں دئے اٹھائے ہوئے آ رہے ہیں کچھ دور ایک اور بچہ ہے رفتار بھی آہستہ اور دیا بھی بجھا ہوا۔ یہی لڑکا اس ماں کا بیٹا ہے۔ سانس رکنے لگتی اب کیا ہو گا-
جو کچھ حوصلہ پا کے آگے بڑھی
تو دیکھا قطار ایک لڑکوں کی تھی
زمرد سی پوشاک پہنے ہوئے
دِیے سب کے ہاتھوں میں جلتے ہوئے
وہ چپ چاپ تھے آگے پیچھے رَواں
خُدا جانے، جانا تھا اُن کو کہاں
اِسی سوچ میں تھی کہ، میرا پسر
مجھے اُس جماعت میں آیا نظر
وہ پیچھے تھا اور تیز چلتا نہ تھا
دِیا اُس کے ہاتھوں میں جلتا نہ تھا
کہا میں نے پہچان کر ، میری جاں!
مجھے چھوڑ کر آ گئے تم کہاں
جُدائی میں رہتی ہُوں میں بے قرار
پروتی ہوں ہر روز اشکوں کے ہار
نہ پروا ہماری ذرا تم نے کی
گئے چھوڑ ، اچھی وفا تم نے کی
جو بچے نے دیکھا مِرا پیچ و تاب
دِیا اُس نے منہ پھیر کر یُوں جواب
رُلاتی ہے تُجھ کو جُدائی مِری
نہیں اِس میں کچُھ بھی بَھلائی مِری
یہ کہہ کر وہ کچُھ دیر تک چپ رہا
دِیا پھر دِکھا کر یہ کہنے لگا
سمجھتی ہے تُو، ہو گیا کیا اِسے؟
تِرے آنسوؤں نے بُجھایا اِسے
ایک دوسری کلاس کی طالبہ کےذہن میں یہ مناظر چپک گئے، ٹیبلو کا اختتام ہوتا ہے۔ ماں خواب سے جاگتی ہے اور دوسری کلاس کی طالبہ کی آنکھیں چھلکنے کو بے تاب ہیں۔ بھرے گراؤنڈ میں موجود ہر طالب علم اور ہر استاد کی یہی کیفیت ہے.
یوں اقبال سے شناسائی کی یہ پہلی منزل تھی۔ اب جو مائیں جوان اولاد رخصت ہونے کے بعد اس کیفیت سےگزرتی ہیں، حقیقت میں انہیں دیکھا ہے تو اقبال یاد آتے ہیں کہ کیسے فطرت سے آشنا اور غم شناس تھے کہ ماؤں کے اندر کے دکھ پہچانتے تھے۔
اقبال ہمارے بچپن میں اجنبی نہ تھے۔ بانگ درا بال جبریل نصابی کتابوں کی طرح مطالعہ کا حصہ ہوتی ساتھ ساتھ رہتی، پرندے کی فریاد پڑھتے تو گھنٹوں اداس رہتے، سوچتے رہتے کہ یہ قید کی زندگی بھی کوئی زندگی ہے، کاش کوئی اسے رہائی دلا دے۔
یہ درختوں پہ چہچہاتے ہی بھلے لگتے ہیں۔
آتا ہے یاد مجھ کو گزرا ہوا زمانہ
وہ باغ کی بہاریں وہ سب کا چہچہانا
لگتی ہے چوٹ دل پر آتا ہے یاد جس دم
شبنم کے آنسوؤں پر کلیوں کا مسکرانا
(یہاں پہنچ کر ہمارے ننھے دل کو بھی چوٹ لگتی )
جب سے چمن چھٹا ہے یہ حال ہو گیا ہے
دل غم کو کھا رہا ہے ، غم دل کو کھا رہا ہے
(یہ مصرع بار بار دہراتے)
گانا اسے سمجھ کر خوش ہوں نہ سننے والے
دکھتے ہوئے دلوں کی فریاد یہ صدا ہے
آزاد مجھ کو کر دے، او قید کرنے والے
میں بے زباں ہوں قیدی ، تُو چھوڑ کر دعا لے
بس بار بار دہراتے اور سوچتے کاش کوئ رہائ دلا دے اسے
ایک مکڑا اور مکھی پڑھتے ہوے رونگٹے کھڑے ہو جاتے سوچتے اف یہ خوشامد کیسی بری بلا ہے کیوں مکڑے کی باتوں میں آئ مکھی اور اپنی جان گنوائی،
مکڑے نے کہا دل میں، سُنی بات جو اُس کی
پھانسوں اِسے کس طرح یہ کم بخت ہے دانا
سو کام خوشامد سے نکلتے ہیں جہاں میں
دیکھو جسے دنیا میں خوشامد کا ہے بندا
کیا سبق دیا زندگی بھر کے لیے
درختوں کی شا خوں پہ جھولتے **ٹہنی پہ کسی شجر کی تنہا * گایا کرتے اور کسی سہیلی کو اداس دیکھتے تو پو چھتے کیا ہوا کیوں اداس بلبل بنی بیٹھی ہو۔ گاؤں کی ٹھنڈی تاروں بھری رات میں جگنو تلاشتے پھرتے، ٹارچ کی مانند جلتے بجھتے اس ننھے سے پرندے کے پیچھے پاگل ہو جاتے ۔
کیا غم ہے جو رات ہے اندھیری
میں راہ میں روشنی کروں گا
اللہ نے دی ہے مجھ کو مشعل
چمکا کے مجھے دیا بنایا
ہیں لوگ وہی جہاں میں اچھے
آتے ہیں جو کام دوسروں کے
کتنا پیارا کردار ہے جگنو کا۔ بھولے بھٹکوں کو راہ دکھانے والا
**پہاڑ اور گلہری نے ہمیں گلہری کی محبت میں ایسا گر فتار کیا کہ ہم آج بھی کہیں گلہری دیکھ لیں تو نظر اس سے ہٹا نہیں پاتے، اسے کیاریوں لان کی دیواروں اور درختوں پہ پھدکتا دیکھتے رہتے ہیں اور سوچتے ہیں کیا کمال کا جواب دیا گلہری نے۔ کیا کہنے اس ننھی مخلوق کے۔
بڑا ہے تو مجھ سا ہُنر دکھا مجھ کو
یہ چھالیا ہی ذرا توڑ کر دکھا مجھ کو
نہیں ہے چیز نکمی کوئی زمانے میں
کوئی بُرا نہیں قدرت کے کارخانے میں
*گائے اور بکری * تو ایسے چلتے پھرتے کردار تھے کہ ان کی ہر ادا ازبر تھی۔ چھٹیوں میں گائوں جا نا ہوتا تو وہ سارا منظر تخلیق شدہ ہوتا
اک چراگاہ ہری بھری تھی کہیں
تھی سراپا بہار جس کی زمیں
کیا سماں اس بہار کا ہو بیاں
ہرطرف صاف ندیاں تھیں رواں
تھے اناروں کے بے شمار درخت
اور پیپل کے سایہ دار درخت
ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں آتی تھیں
طائروں کی صدائیں آتی تھیں
چھپڑ کنارے ؛ بھینسوں اور بکریوں کے ریوڑ آتے تو ہم ان کی کیریکٹر اسٹڈی کیا کرتے۔ سوچا کرتے واقعی بھینس نے ناشکری کی ہوگی، ابھی بھی دیکھو کیسی بے زاری ہے، چال میں اور چلتا منہ رکتا نہیں ہے، دوسری جانب بکری، واہ کتنی منظم سی زندگی ہے اس کی اور کیسی صابر وشکر ہے۔
سن کے بکری یہ ماجرا سارا
بولی، ایسا گلہ نہیں اچھا
قدر آرام کی اگر سمجھو
آدمی کا کبھی گلہ نہ کرو
گائے سن کر یہ بات شرمائی
آدمی کے گلے سے پچتائی
دل میں پرکھا بھلا بُرا اُس نے
اور کچھ سوچ کر کہا اُس نے
یوں تو چھوٹی ہے ذات بکری کی
دل کو لگتی ہے بات بکری کی!
شکر ہے بکری نے گائے کوآدمی کی قدر سکھادی پھربھی گائے کے تیور دیکھ کے ڈر ہی لگتا رہا
پھر ہم بکریوں کا سکول بناتے اور چھڑی لے کر انکو مزید ڈسپلن سکھاتے اور شام پڑنے پہ انہیں اگلے دن وقت پہ آنے کا کہہ کر گھر کی طرف دوڑ لگا دیتے۔
یوں بچپن کی کئ خوشیاں *علامہ اقبال** کے سنگ گزارتے ہم بڑے ہو گئے
کیسے خوب صورت انداز سے زہن سازی کی اقبال نے اور اس فکر کو لے کر پروان چڑ ھنے والے بچوں کو ستاروں سے آگے کی منازل دکھایئں شاہیں کی پرواز اور انداز سکھائے کہیں عقل و خرد سے گھتیاں سلجھائیں تو کبھی عشق کو امام بتایا کبھی ساقی نامہ تو کبھی شکوہ جواب شکوہ کبھی امام بر حق کی پہچان بتائ تو کبھی لا الہ الاللہ کے اسرارورموز سمجھائے. تو پھر کیا خیال ہے ننھے منے پھولوں کی پیاری پیاری امیوں کا، بچوں کو شاہین بنانا ہے تو انہیں اقبال سے آشنا کریں؟ ہاں! تو پھر آج سے ہی آغاز کریں۔
لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری
زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری۔
دور دنیا کا میرے دم سے اندھیرا ہو جائے
ہر جگہ میرے چمکنے سے اجالا ہو جائے
آمین۔ -
ریڈیوپاکستان میں کام کرنےوالی عروج کی سچی اور دردناک داستان – جمال عبداللہ عثمان
’’عروج اختر‘‘ کی شادی 19 سال کی عمر میں ہوئی۔ یہ شادی والدین کی مرضی کے بغیر ایک 50 سالہ ادھیڑ عمر ڈاکٹر سے ہوئی۔ شادی کے فوراً بعد شوہر نے نشہ کرنا اور جوا کھیلنا شروع کردیا۔ ’’عروج اختر‘‘ کے شوہر کو آخری عمر میں فالج ہوا اور فالج کے دوران ہی اپنے گزشتہ رویوں پر پشیمان ہوکر عروج کو طلاق دے دی۔ عروج کے مطابق اس طرح وہ اپنی کوتاہیوں کا ازالہ چاہتے تھے۔ ”عروج اختر“ نے مشکل حالات کے باوجود گریجویشن کیا اور ریڈیو پاکستان میں بھی کچھ عرصے تک کام کرتی رہیں۔ وہ اس وقت کراچی میں اپنے بچوں کے ساتھ رہ رہی ہیں۔ یہاں بوجوہ ان کا اصل نام نہیں دیا جارہا۔
٭
’’میں ایک ایسے گھر میں پیدا ہوئی، جہاں ہمیشہ لڑائی، جھگڑا اور فساد ہی دیکھا۔ میری چار بہنیں تھیں۔ والد صاحب انتہائی سخت مزاج کے مالک تھے۔ خصوصاً مجھے یاد نہیں پڑتا کہ انہوں نے بیٹیوں کو کبھی محبت بھری نظر سے دیکھا ہو۔ جس طرح انسان صبح، دوپہر اور شام کو کھانا کھاتا ہے۔ اسی طرح ہمارے والد ہمیں تین وقت جسمانی سزا ضرور دیتے تھے۔ مجھے کبھی یاد نہیں پڑتا کہ والد نے کسی بیٹی کو پیار کیا ہو۔ وہ اسکول کالج کے بھی مخالف تھے۔ میری ایک ٹانگ پولیو سے متاثر تھی۔ اس کے باوجود اللہ نے بڑا کرم کیا اور میں نے اتنی مشکلات کے ہوتے ہوئے بی اے کا امتحان دے دیا۔ اس کے بعد کچھ عرصہ اسکول میں پڑھایا۔ ریڈیو پاکستان میں مختصر عرصے کے لیے کام کیا۔ لکھنے کا شوق تھا، کچھ رسائل کے لیے لکھا بھی۔ اللہ نے بہت سی صلاحیتوں سے نوازا تھا، مگر اس دوران ایک ایسا حادثہ پیش آیا، جس نے زندگی کو تباہ کرکے رکھ دیا۔‘‘’’یہ ایسا حادثہ ہے جس کی تفصیلات بیان کرنا مناسب نہیں۔ بہرحال! مختصراً یہ بتادیتی ہوں کہ ایک ڈاکٹر سے ملاقات ہوئی۔ یہ ڈاکٹر کراچی میں ملازمت کرتے تھے۔ ان کی عمر تقریباً 50 سال تھی۔ یہ پہلے سے شادی شدہ تھے اور بچے وغیرہ بھی تھے، لیکن پہلی بیوی اور بچوں کے ساتھ تعلقات نہ ہونے کے برابر تھے۔ ان کے ہاں گھریلو ناچاقی چل رہی تھی۔ میری اور ان صاحب کی ملاقاتیں شروع ہوئیں۔ اکثر کہا کرتے تھے کہ مجھے تم میں اور کوئی دلچسپی نہیں، بس مجھے تمہارا نام پسند ہے اور میں تمہارے نام کو اپنے نام کا حصہ بنانا چاہتا ہوں۔ میں بھی مسائل اور پریشانیوں میں گھری ہوئی تھی۔ گھر کا ماحول انتہائی گھٹن زدہ تھا۔ ہر وقت لڑائی جھگڑا رہتا تھا۔ اس سے فرار چاہتی تھی۔ لہٰذا اسے سنہرا موقع سمجھا اور بدقسمتی سے ان کی باتوں میں آگئی، فرار کا راستہ اختیار کرلیا۔ یہ صاحب مجھے فیصل آباد سے اپنے شہر کراچی لے کر آئے، اس وقت میری عمر 19 سال تھی۔‘‘
’’جب ہم کراچی پہنچے، اس وقت ہمارا نکاح نہیں ہوا تھا۔ ان صاحب نے مجھے ایک رشتہ دار کے گھر رکھا۔ وہاں لوگ مجھے بڑی عجیب نظروں سے دیکھتے تھے۔ شاید وہ مجھے کوئی بہت ہی بری عورت سمجھتے تھے۔ میرے پاس اپنے گھر کے کسی فردکو قریب نہیں پھٹکنے دیتے تھے۔ خصوصاً لڑکیاں میرے پاس آنے سے بہت ہچکچاتی تھیں۔ جب میں نے ان صاحب سے تذکرہ کیا، انہوں نے اپنے رشتے داروں کو بتایا کہ یہ کوئی ایسی ویسی لڑکی نہیں۔ خاندانی لڑکی ہے۔ حالات کی ترسی ہوئی ہے۔ اس کے بارے میں آپ لوگ غلط نہ سوچیں۔ اس طرح وہ لوگ مطمئن ہوگئے اور ان کا رویہ بہت بہتر ہوگیا۔ ہم نے وہاں 20، 22 دن گزارے۔ میں اس وقت انتہائی خوفزدہ تھی، کیونکہ میری عمر زیادہ نہیں تھی۔ اس کے بعد وہ صاحب مجھے ایک اور رشتے دار کے گھر لے گئے۔ جہاں میرا نکاح پڑھایا گیا۔ نکاح کے بعد مجھے اپنے گھر لے گئے اور میں نے ایک نئی زندگی میں قدم رکھا۔ میں اُداس تھی، مگر سوچتی تھی والدین کو راضی کرلوں گی۔ مجھے معلوم نہیں تھا کہ آسمان سے گرکر کھجور میں اٹک گئی ہوں۔‘‘
’’آج اس واقعے کو تقریباً 20 سال ہوچکے ہیں۔ والدین سے اس کے بعد کوئی ملاقات ہوئی نہ ہی رابطہ۔ البتہ کئی بہنوں سے کچھ عرصے بعد رابطہ بحال ہوگیا تھا۔ ایک بھائی باہر ہوتے ہیں۔ ان سے فون پر بات ہوجاتی ہے۔ باقی تمام بہنوں کی شادیاں ہوگئی ہیں۔ سب اپنے اپنے گھروں میں بہت خوش ہیں۔ جو مجھ سے بڑی ہیں، ان کی بھی شادی ہوگئی ہے۔ ان کے جوان بچے ہیں۔ مجھ سے چھوٹی بہن نے کورٹ میرج کی ہے۔ چوتھی نمبر کی بہن یہاں کراچی میں رہتی ہے۔ وہ بھی بہت خوش ہے۔ اللہ نے اسے ہر نعمت سے نوازا ہے۔ میں سمجھتی ہوں میری بہنوں نے ماں باپ کے گھر میں بہت دُکھ دیکھے اور مصائب جھیلے۔ اللہ نے ان پر بڑا رحم کیا۔ ان کی مشکلات ان کی شادیوں کے ساتھ ختم ہوگئیں۔‘‘
’’میں نے اپنے تمام رشتہ داروں اور خاندان سے جھگڑا مول لے کر شادی کی۔ ایک شخص کی خاطر اپنا سب کچھ چھوڑدیا۔ بدقسمتی سے وہ ایسا بدلا جس کا میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔ چند دن تک ان کا رویہ میرے ساتھ ٹھیک رہا، اس کے بعد ذہنی ٹارچر شروع کردیا۔ انہوں نے ملازمت چھوڑدی۔ میرے پاس جو کچھ تھا، وہ ایک ایک کرکے مجھ سے لے لیا۔ مجھے اس وقت بہت شدید دھچکا لگا جب پتا چلا کہ میرے شوہر نے جوا کھیلنا شروع کر دیا ہے۔ پھر کچھ عرصہ بعد اس انکشاف نے میرے تن بدن میں آگ لگا دی کہ وہ شراب پینے لگے ہیں۔ میں نے اس شخص کی خاطر سب کو چھوڑ دیا تھا۔ اب دنیا میں میرا کوئی نہیں رہا تھا۔ والدین سے رابطے ختم ہوگئے تھے۔ دیگر رشتہ داروں کے ساتھ بھی تعلقات نہ ہونے کے برابر تھے۔ میں نے اتنا بڑا قدم اُٹھایا تھا۔ آج بھی میں سوچتی ہوں کہ 20 سال ہوگئے ہیں، میں نے اپنے والدین کی شکل تک نہیں دیکھی، لیکن جس کی خاطر یہ سب کچھ کیا، اس نے بہت زیادتی کی۔ اچھا صلہ نہ دیا۔ اس نے مجھے ترسایا۔ گھر میں راشن ہوتا نہ سبزی۔ فاقوں پر فاقے ہوتے۔ پڑوس والے کھانے پینے کی اشیا بھیجتے۔‘‘
’’میرا خیال ہے کہ میں نے اپنے شوہر کو سمجھنے میں غلطی کی تھی۔ وہ شروع سے ہی ایسے تھے۔ محنت سے جی چراتے تھے۔ بیٹھے بٹھائے کچھ مل جائے۔ اسی طرح ملازمت کی اور چھوڑ دی۔ کلینک کھولا اور بند کردیا۔ وہ آرام پسند تھے۔ کبھی ان میں غیرت آجاتی اور کام شروع کردیتے، مگر جلد ہی اپنی ڈگر پر واپس آجاتے۔ میں نے ان کا یہ رویہ بدلنے کی بہت کوشش کی۔ میرے پاس الفاظ نہیں جن کا سہارا لے کر میں بتاسکوں کہ میں نے کتنی کوششیں کیں۔ ظاہر سی بات ہے کون چاہتا ہے کہ اس کا گھر تباہ ہو، لیکن مسئلہ یہ تھا کہ ان کے اندر فریب کاری بہت تھی۔ یہاں وعدہ کیا، آگے جاکر توڑ دیا۔
آپ اس سے اندازہ لگائیں کہ جب دُکھ درد اور غموں میں اللہ نے مجھے بیٹے کی نعمت سے نوازا۔ اس وقت میں نے ان سے فیصلہ کن انداز میں بات کی۔ انہیں اپنی عادات اور رویہ بدلنے کے لیے کہا۔ میں نے انہیں بتایا کہ اب آپ پر ذمہ داریاں بڑھ گئی ہیں۔ خدارا! اپنے لیے نہیں، اس ننھی جان کی خاطر ہی اپنے آپ کو بدل ڈالیں۔ اس کا وقتی اثر ہوا۔ انہوں نے جوا اور نشہ چھوڑ دیا۔ ملازمت پر بھی جانا شروع ہوگئے، لیکن ایک دن پتا چلا کہ ملازمت پھر چھوڑدی اور شراب پی کر آ رہے ہیں۔ وہ بالکل مستقل مزاج نہیں تھے۔ اپنا مکان بیچ کر کرائے کے مکانوں میں لیے پھرتے رہتے تھے۔ کہتے تھے میرے بچوں کی تربیت پر اثر پڑے گا۔ آج یہاں، کل وہاں۔ پھر بھی میں ان کے ساتھ زندگی گزارتی رہی، کیونکہ میرے لیے اور کوئی راستہ نہیں تھا۔‘‘
’’میرے ہاں پہلے سالوں میں دو بیٹوں کی ولادت ہوئی، اس کے بعد اللہ نے ایک بیٹی سے نوازا۔ میں نے زندگی میں ہمیشہ دُکھ دیکھے ہیں۔ اگر کوئی مجھ سے پوچھے کہ زندگی کا پرمسرت لمحہ کون سا تھا تو میں کہہ سکتی ہوں کہ جب مجھے اللہ نے اپنی رحمت سے نوازا۔ مجھے بیٹی کی بڑی خواہش تھی۔ جتنی میرے والد کو بیٹیوں سے نفرت تھی، اتنی ہی میری بیٹیوں کی آرزو تھی۔ پھر یہ بھی سنا تھا کہ جس گھر میں ایک لڑکی ہو، اس پر اللہ کی رحمت ہوتی ہے۔ اس لیے میں نے مزاروں پر حاضری دی۔ منتیں مانیں۔ اللہ کے سامنے گڑگڑا کر دُعائیں مانگیں۔ حالانکہ لوگ کہتے تھے تمہاری قسمت میں بیٹی نہیں ہے۔ جب لوگ اس طرح کی باتیں کرتے، میرے دل میں بیٹی کے لیے اور خواہش پیدا ہوتی۔ میں بیٹی کو اللہ کی رحمت سمجھتی تھی اور یہی سوچتی تھی کہ لوگ کچھ بھی کہیں، میں اللہ کی رحمت سے نااُمید نہیں ہوسکتی۔ آج بھی اپنی بیٹی کو دیکھتی ہوں، سکون ملتا ہے۔ سارے غم دور ہوجاتے ہیں۔ میں تمام والدین سے کہتی ہوں کہ بیٹیوں کو کبھی نہ دھتکاریں۔ کبھی انہیں تنہا نہ چھوڑیں۔ ان سے نفرت نہ کریں۔ وہ بہت معصوم ہوتی ہیں۔ بڑی مظلوم ہوتی ہیں۔‘‘
’’میرے شوہر کو بچوں سے محبت تھی۔ یہاں تک کہ جب بیٹی کی ولادت ہوئی، انہوں نے ایک بار پھر تمام خرافات سے توبہ کی۔ رمضان کے روزے باقاعدگی سے رکھنا شروع کردیے۔ ملازمت پر جانے لگے، لیکن میں نے بتایا کہ وہ مستقل مزاج نہیں تھے۔ کاہل قسم کے تھے۔ بہت جلدی بہک جاتے تھے۔‘‘
’’ایک بار جب میرے شوہر بیمار ہوئے، میری ہمت ٹوٹ گئی۔ میں سوچتی تھی کہ بچوں کو اکیلے کیسے سنبھالوں گی؟ حالات کا مقابلہ کیسے کروں گی؟ کیونکہ میرے شوہر جیسے بھی تھے، بہرحال مرد ایک سہارا ہوتا ہے۔ اس لیے میں اتنی پریشان ہوئی کہ سوچا اب زندگی کا خاتمہ کرلینا ضروری ہے۔ اور ایک بار اس وقت ٹوٹ کر رہ گئی جب میرے شوہر نے میری ساری پروفائل جلادی۔ آخری وقت میں وہ کچھ نفسیاتی ہوگئے تھے۔ اس وقت انہوں نے میری پوری لائبریری اور ڈائریاں بیچ ڈالیں۔ میں نے زندگی بھر اتنی پریشانیوں کے باوجود کتابیں اکٹھی کی تھیں۔ مجھے بہت سی کتابیں تحفے میں ملی تھیں۔ لوگ دولت کماتے ہیں۔ میں نے اپنی دولت کتابوں کو بنایا۔ اس دن میں ان کے رشتہ داروں کے ہاں گئی تھی۔ جب واپس آئی تو پتا چلا کہ اس ظالم نے ایک ہزار پچاس روپے میں میری پوری لائبریری بیچ ڈالی ہے۔‘‘
’’اصل میں وہ ہائی بلڈ پریشر کے مریض تھے۔ آخری عمر میں ان کے پورے جسم پر فالج کا حملہ ہوا۔ اس وقت وہ پریشان رہتے تھے۔ انہوں نے مجھے کہا کہ میں نے تمہیں کچھ نہیں دیا۔ اب تم کہیں اور چلی جائو۔ میں ان سے کہتی کہ جو جوانی کا زمانہ تھا، وہ آپ کے ساتھ گزارا۔ آپ کے لیے اپنا گھر بار چھوڑا، والدین کی شکل بھلادی۔ اب اس دنیا میں میرا کون ہے اور اس عمر میں تین بچوں کے ساتھ مجھے کون قبول کرے گا؟ لیکن وہ کہتے تھے تم کہیں بھی جاؤ، بس مجھے میرے حال پر چھوڑ دو۔ وہ چیختے تھے، چلاتے تھے اور بار بار کہتے تھے تم چلی جاؤ، ورنہ میں طلاق دے دوں گا۔ مجھے سمجھ نہیں آتی تھی کس طرح ان حالات کا سامنا کروں، کیونکہ وہ کسی بھی وقت روح کو گھائل کردینے والے یہ الفاظ بول سکتے تھے۔ مجھے ہر وقت یہ خوف لگارہتا تھا۔ اور ایک روز ایسا ہی ہوا۔ انہوں نے مجھے کئی طلاقیں دیں۔ وہ بار بارکہتے جارہے تھے اب تم چلی جاؤ۔ میں نے تمہارے ساتھ انصاف نہیں کیا۔ پوری زندگی تمہیں پریشان رکھا۔ دکھ دیے، درد دیے۔ تم مجھے معاف کردینا۔ شاید وہ اس طرح اپنی غلطیوں کا ازالہ کرنا چاہتے تھے۔‘‘
’’میں انہیں اس حال میں کیسے چھوڑکر جاتی؟ وہ بستر پر تھے۔ ان کی حالت خراب تھی۔ وہ خود اُٹھ کر پانی نہیں پی سکتے تھے۔ میری زندگی میں دکھ کا زمانہ یہ بھی تھا کہ طلاق کے باوجود میں نے دو ڈھائی سال تک ان کی خدمت کی۔ میں اپنے اللہ کے حضور بہت روتی تھی اور کہتی تھی اے اللہ! میں انہیں اس حال میں چھوڑکر کیسے چلی جائوں؟ میں کہتی تھی: ’’میرے اللہ! آپ جانتے ہیں کہ میں ان کے ساتھ میاں بیوی کا کوئی تعلق نہیں رکھ رہی۔ میں بطورِ نرس ان کی خدمت کر رہی ہوں۔‘‘
میں اس بات پر آج بھی شرمندہ ہوں۔ اپنے آپ کو گنہگار سمجھتی ہوں کہ طلاق کے باوجود ان کے ساتھ دو ڈھائی سال گزارے۔ مگر میں یہی کہہ رہی ہوں کہ انہیں کیسے چھوڑتی؟ اس کے خاندان والے طعنے دیتے کہ جب وہ کسی کام کا نہ رہا، تب اسے بے یار و مددگار چھوڑ دیا۔ میں نے انتقال کے بعد لوگوں کی باتوں سے بچنے کے لیے عدت کے ایام گزارے۔‘‘
’’میں نے ان کے تمام رشتہ داروں کو بتایا تھا کہ میرے شوہر نے مجھے طلاق دی ہے، لیکن تب بھی میں ہی بری تھی۔ وہ سب یہی سمجھتے تھے کہ شاید میں آخری عمر میں ان سے جان چھڑانا چاہتی ہوں۔ یہی وجہ ہے میں نے مجبوراً عدت کے چار ماہ دس دن بھی گزارے۔ صرف اس لیے کہ کل کہیں لوگ میرے بچوں کو طعنے نہ دیں۔ مجھے معلوم ہے کہ یہ چار ماہ دس دن مجھ پر کس اذیت میں گزرے؟ کوئی رات ایسی نہیں آئی جب میں نے انہیں آگ میں جلتا ہوا نہ دیکھا ہو۔ اور جب میں انہیں آگ سے بچانے کے لیے آگے بڑھتی، کوئی اَن دیکھی قوت مجھے زور سے پیچھے دھکیل دیتی۔‘‘
’’انتقال سے تین چار ماہ پہلے ان کا نفسیاتی مسئلہ بہت بڑھ گیا تھا۔ وہ رات کو اُٹھ کر بچوں کا گلا دبانے کی کوشش کرتے۔ وہ کہتے تھے میں ان سب کو قتل کردوں گا۔ جب یہ حال ہوا، میں نے ان کی پہلی بیوی کے بیٹے کو فون کیا۔ انہیں بتایا کہ میرے پاس کوئی راستہ نہیں۔ آپ خدارا! انہیں کسی ہسپتال لے جائیں یا انہیں اپنے گھر پر علاج کرائیں۔ وہ سرکاری دفتر میں اچھی پوسٹ پر ہوتے ہیں، مگر انہوں نے قبول کرنے سے انکار کردیا۔ پھر میں نے ان کے دیگر رشتے داروں کو بلوایا اور پوچھا کہ ان کے ساتھ کیا کروں، کیونکہ اب یہ بچوں کی جان کے لیے خطرہ بن رہے ہیں۔ رشتہ داروں میں سے کسی نے مشورہ دیا کہ انہیں ’’ایدھی ہوم‘‘ میں داخل کرا دیں۔ میرے پاس اور کوئی راستہ نہیں تھا۔ مجبوراً انہیں رشتہ داروں کے مشورے سے ایدھی ہوم میں داخل کرایا۔ تین ماہ بعد ہمیں ان کے انتقال کی خبر ملی۔ میں نے ان کے انتقال کے بعد مجبوراً عدت کی مدت بھی گزاری، تاکہ کل کوئی مجھے طعنہ نہ دے سکے۔‘‘
”تب سے لے کر اب تک میں اسی مکان میں رہ رہی ہوں۔ زندگی میں بہت دکھوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ بس اب تو اپنی اولاد کی خاطر جی رہی ہوں۔ انہیں دیکھتی ہوں تو ہمت کچھ کچھ بندھ جاتی ہے۔“
”میں نے اپنی زندگی سے بس ایک ہی سبق سیکھا ہے اور آپ سے بھی یہی درخواست کر رہی ہوں کہ اسے زیادہ لوگوں تک پہنچائیں۔ وہ یہ کہ والدین اپنے بچوں، خصوصاً بچیوں پر کبھی سختی نہ کریں۔ آج اگر میرا یہ برا انجام ہوا ہے تو میں اس کا ذمہ دار اپنے گھر کے حالات اور اپنے والد کے رویے کو سمجھتی ہوں۔ میں آج شاید مشکل میں نہ ہوتی، اگر میں گھر کی مشکلات سے بچنے کے لیے یہ قدم نہ اُٹھاتی۔“
-
تمھاری بہن کیسی ہے؟ ابن سید
علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے میڑک کے انگریزی کے پیپر میں ممتحن صاحب نے کمال کر دیا۔ سوال جاذب نظر تھا، دلچسپ بھی تھا۔ جناب شاید منٹو سے متاثر تھے۔ ان کا افسانہ پسندیدہ تھا۔ مجھے ممتحن کے کردار پر انگلی اٹھانے کا کوئی حق نہیں پہنچتا، مجھے میٹرک کے طلبہ و طالبات سے بھی کوئی ہمدردی نہیں ہے۔ میں اس معاشرے کا فرد ہوں جہاں الفاظ کہنے پر پابندی ہے۔ ہاں مجھے اپنی حدود وقیود کا بھی خیال رکھنا ہے۔ مجھے اپنے چہرے پر تقوے کا لبادہ اوڑھے رکھنے کا بھی احساس ہے۔ سوسائٹی کے تند و تیز نشتر سہنے کا بھی حوصلہ نہیں میرے اندر۔ میں اس دور کا لکھاری ہوں جہاں پیار کے بول بولنے پر پابندی اور عزتیں اچھالنے کی آزادی ہے۔ میں پیپر کے سوال پر قلم اُٹھانے کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ میرا خیال نہیں تھا کہ اس پیپر کو زیر بحث لاؤں، اپنی تحریر کو کسی اختلافی موضوع پر لکھنے کی جسارت کروں، مگر گذشتہ روز ہی ایک چینل پر اوپن یونیورسٹی کے ریجنل ڈائریکٹر جناب رسول بخش بہرام صاحب کی منطق سننے کا موقع ملا۔ پروگرام اینکر آصف محمود صاحب نے جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس موضوع پر اوپن یونیورسٹی کا مؤقف جاننے کے لیے ان سے رابطہ کیا جو کہ قابل ستائش تھا۔ علم کے پیاسے لاکھوں نوجوانوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے والی جامعہ، دنیا بھر میں اپنا ایک ممتاز مقام رکھنے والی درسگاہ اور اسی عظیم درسگاہ کے امتحانی پرچے میں ایسی نادانی، یقین جانیے قابل مذمت ہی نہیں قابل سرزنش فعل تھا۔ اس حوالے سے یونیورسٹی کو بروقت مؤقف دینا چاہیے تھا، خیر دیر آید ، درست آید۔ چلیں جناب ریجنل ڈائریکٹر صاحب ہی کو سن لیتے ہیں۔
اینکر سوال پوچھتا ہے کہ سوشل میڈیا پر چلنے والے سوال کے بارے میں آپ کا کیا مؤقف ہے؟سوال یہ تھا کہ اپنی بہن کے بارے میں مندرجہ ذیل چیزوں کو مد نظر رکھتے ہوئے ایک مضمون لکھیں۔ Age، Height، physique، Look، Height ،attitude۔ انہوں نے physique کا مطلب سمجھاتے ہوئے کہا کہ اس کا مطلب ہوتا ہے کہ تمھاری بہن کی صحت کیسی ہے؟ جناب رسول بخش صاحب جہاں تک Physiqye کے معانی کا تعلق ہے تو انگریزی لغات کے مطابق اس کے معانی body, build, figure, frame, anatomy constitution, shape, form بنتے ہیں۔ قبلہ ان الفاظ کے معانی اردو میں کرکے دیکھ لیں، شاید ہی کوئی بھی مطلب آپ کے جواب سے مطابقت نہیں رکھتا۔ قبلہ! آپ تو یہ فرما رہے ہیں کہ بچہ اپنی بڑی بہن سے ڈر رہا ہے۔ خوف زدہ ہے اس لیے اس کو حوصلہ اور ہمت دینے کے لیے یہ سوال پوچھا گیا ہے کہ وہ بڑی بہن کے بارے میں لکھے۔ حضور والا! منٹو کے افسانے کا مرکزی خیال بھی یہی تھا۔ دنیا کے کسی بھی ملک میں آج تک بہن کے بارے میں ایسا سوال نہ پوچھا گیا ہے اور نہ ہی پوچھا جائے گا۔ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کی جانب سے ایسا سوال کس مقصد کی خاطر پوچھا گیا۔ اس کا جواب تلاش کرنے کے لیے کئی مزید سوالات جنم لیتے ہیں۔
کوئی بھی معاشرہ ہو، بہن کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ بہنوں کی تکریم دلوں میں نقش ہوتی ہے۔ بہنیں گھروں کی رونق ہوتی ہیں، جہاں باپ کی شفقت اور ماں کا لاڈ انہیں حوصلہ دیتا ہے، وہیں بھائیوں کی شرارتیں ان کے چہروں پر مسکراہٹیں بکھیر دیتی ہیں۔ بھائیوں کے ناز و نخرے خندہ پیشانی کے ساتھ اٹھاتی ہیں۔ اوپن یونیورسٹی کی جانب سے چھیڑی گئی بحث کی وجہ سے بہن اور بھائی کے مقدس رشتے کو متنازعہ بنایا گیا ہے۔ بہنوں کے پیار اور محبت کو خوف میں مبتلا کرنے کی جسارت کی گئی ہے۔ بہنیں جو بازار میں اپنی جانب اٹھنے والی نگاہوں سے عزت و تکریم کی حفاطت کرتی تھیں، انہیں اپنے بھائیوں سے بھی خود کو بچانا ہوگا ، ہاں بھائی کی تعاقب کرتی نگاہوں سے تحفظ کرنا ہوگا۔ کیا خبر کب بھائی بہن کی Physique پر تنقیدی نگاہیں ڈالنا شروع کردے، جی یہ نگاہیں بھائی اپنے مضمون کی تکمیل ہی کے لیے ڈالے گا۔ ہاں بہنوں کی Look بھی بھائیوں کے لیے ضروری ہوگی۔ بہن کا بھائی اور باقی افراد کے ساتھ Attitude کا بھی موازنہ ہوگا۔ یہ الفاظ تحریر کرتے ہوئے میرے ہاتھ کانپ رہے ہیں، میری زبان لرزاں ہے مگر مجھے اس ممتحن کے رویے پر ترس آتا ہے۔
پیارے ممتحن صاحب! معذرت کے ساتھ مجھے ذرا اپنی بہن کے بارے میں ضرور بتائیے گا۔ وہ دکھنے میں کیسی ہے؟ اس کی چال مورنی جیسی ہے؟ یا اس کے بدن میں ہرنی جیسی پھرتی ہے؟ نہیں نہیں یہ بھی دیکھیے، وہ بھینس کی طرح سست ہے یا گوریلا کی طرح لمبے لمبے ڈگ بھرتی ہے، ارے ہاں! اس کا قد بھی تو بتائیے، جناب ضرورت رشتہ کے لیے نہیں صرف ایک مضمون لکھنا ہے. اس مضمون کے بعد مجھے تو محض 20 نمبر ملیں گے مگر شاید کوئی نگران یا پیپر مارک کرنے والا ٹھرکی ممتحن اس میں دلچسپی اختیار کرتے ہوئے رشتے کا پیغام ہی بھیج دے۔ چلیں بہن کی عمر بھی بتا دیں۔ کیا اس کی شادی کی عمر گزر چکی ہے؟ کیا اس کے بالوں میں چاندی چھا گئی ہے یا ابھی وہ جوانی کی دہلیز پر قدم رکھ رہی ہے؟ ارے! اس کا رویہ کیسا ہے؟ کھری کھری سناتی ہے یا بس چپ چاپ سب سن لیتی ہے؟ قسم لے لیں مجھے آپ کی بہن میں کوئی دلچسپی نہیں ہے. بس ایک مضمون کو مکمل کرنا ہے، وہی مضمون جو آپ نے میٹرک کے امتحانی پرچے میں پوچھا ہے، وہی مضمون جس سے میرا مستقبل وابستہ ہے ، ہاں جی وہی پرچہ جس کے تمام سوالات کا جواب دینا ضروری ہے، کیوں کہ آپ نے وہاں تو آپشن بھی نہیں دیا کہ کوئی سوال چھوڑا بھی جا سکتا ہے، اگر میرے پاس سوال چھوڑنے کا کوئی آپشن ہوتا تو شاید یہ باتیں آپ سے نہ پوچھتا، آپ کی بہن کے بارے میں آپ سے سوالات نہ کرتا، وہ کیا ہے ناں میری کوئی بہن نہیں ہے اس لیے آپ کی بہن میں دلچسپی لینا میری مجبوری بن گئی ہے. اور ہاں ایک اور بات مجھے ریجنل ڈائریکٹر صاحب کا جواب بھی مطمئن نہیں کر سکا ، وہ آپ کی غلطی کے دفاع میں جھوٹ کی تمام حدوں کو پار کر رہے ہیں۔ شاید میں نے اخلاقیات کی پاک و بابرکت حدوں کو پار کر دیا ہے۔ شاید میرے الفاظ امتحانی پرچے میں کیے گئے سوال سے زیادہ احمقانہ اور بے حیائی کا مظاہرہ کر رہے تھے، ہر اس بھائی سے معذرت جس کے لیے اس کی بہن عزت و حرمت کا نمونہ ہے۔ مگر مجھے تو اوپن یونیورسٹی کا یہ پیپر بنانے والے ممتحن اور ریجنل ڈائریکٹر سے ضرور پوچھنا ہے۔ ارے بھائی مجھے بتانا ذرا ’’ تمھاری بہن کیسی ہے؟‘‘
-
ہم جنس پرستی کا فروغ، صہیونی تنظیم الیومیناٹی کا ایجنڈا – حمزہ زاہد
لاس اینجلس ٹائمز نے اپنی 14جولائی 2016ء کی اشاعت میں ایک خبر رپورٹ کی جس میں بتایا گیا کہ کیلیفورنیا اسٹیٹ بورڈ آف ایجوکیشن نے دوسری کلاس کے نصاب میں LGBT (ہم جنس پرستی) کی تحریک کی تاریخ کو شامل کر لیا ہے۔ یعنی کے کیلیفورنیا میں اب دوسری کلاس کے بچوں کے ہم جنس پرستی کی تعلیم دی جائے گی۔ LGBT 1990ء میں بنائی گئی ایک کمیونٹی کا نام ہے جس کا مقصد ان لوگوں کو جو عام دنیا میں فٹ نہیں بیٹھتے، پہچان دلانا ہے۔ اس کمیونٹی کو 2016ء میں میڈیا پر بہت زیادہ پروموٹ کیا جا رہا ہے اور اسے GLAAD کا نام دیا گیا ہے۔ ہم جنس پرست وہ لوگ ہوتے ہیں جو ہوتے تو عام مرد اور عورت ہی ہیں لیکن ان کا دل جنس مخالف کی طرف مائل نہیں ہوتا، بلکہ ان کا جنسی میلان اپنی ہی جنس کے لوگوں کی طرف ہوتا ہے۔
آج کل دنیا بھر میں ہم جنسی پرستی کو فروغ دیا جا رہا ہے اور بھرپور پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے، لیکن ہمیں اندازہ نہیں ہے کہ یہ کتنی بڑی سازش ہے، یہ ایجنڈا کتنا خطرناک ہے اور اس سے ہماری نسلوں کا کتنا زیادہ نقصان ہوگا۔ رالف ایپرسن ( Ralph Epperson) نے 1989ء میں ایک کتاب لکھی تھی جس کا نام تھا نیو ورلڈ آرڈر (New World Order)۔ ایپرسن امریکہ کا ایک لکھاری اور محقق تھا جو سازشی نظریات (Conspiracy Theroies) پر تحقیق کرتا تھا۔ ایپرسن نے اپنی کتاب کے ابدائیہ میں لکھا:
’’دنیا کا پرانا نظام اپنے آخر کو پہنچنے والا ہے اور اسے نئے نظام میں تبدیل کر دیا جائے گا۔ نئی دنیا کا نام نیو ورلڈ آرڈر ہو گا اور اس نظام کو پوری دنیا میں پھیلایا جائے گا۔ اس نئے نظام میں خاندانی نظام کچھ اس طرح کا بنا دیا جائے گا جس میں ہم جنس شادیاں قانونی طور پر جائز ہوں گی۔ والدین بچوں کی دیکھ بھال نہیں کریں گے بلکہ حکومت ان بچوں کی دیکھ بھال کرے گی۔ دنیا کی ساری عورتوں کو حکومت نوکریاں دے گی تاکہ عورتیں گھر نہ بنائیں۔ طلاق حد سے زیادہ آسان کر دی جائے گی اور ایک شادی کے تصور کو آہستہ آہستہ ختم کر دیا جائے گا۔ اس نظام میں کوئی بھی شخص اپنا ذاتی کاروبار نہیں کر سکے گا بلکہ حکومت ہر ایک کاروبار کی خود مالک ہوگی۔ اس نظام میں مذہب غیر قانونی قرار دے دیے جائیں گے، اور جو بھی مذہب کی بات کرے گا یا تو اُسے ختم کر دیا جائے گا یا قید کر دیا جائے گا۔ ایک نیا مذہب متعارف کروایا جائے گا، یعنی انسانی کی پرستش کا مذہب اور اس کے ذہن کی پرستش کا مذہب، اور تمام انسان اس مذہب کے پیروکار بنیں گے۔ امریکہ اس نظام کے نفاذ میں سب سے اہم کردار ادا کرے گا‘‘۔مردوں کی طرح خواتین بھی کاروبار کر رہی ہیں اور جگہ جگہ روزگار کی تلاش میں کوشاں نظر آتی ہیں۔ حضرت ابن معسود ؓسے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا : ’’قیامت کے قریب سلام صرف مخصوص لوگوں کو کیا جائے گا، تجارت پھیل جائے گی جتی کہ عورت تجارت میں اپنے خاوند کا تعاون کرے گی‘‘(حدیثِ حسن: مسند احمد:407,408/1 ، حاکم: 493/4 ، بزار: 04/2)۔ یہاں یہ بات واضح رہے کہ اگرچہ اسلام نے بوقتِ ضرورت عورت کو ’’شرعی حدود‘‘ میں رہتے ہوئے، معاشی جدوجہد کی اجازت دی ہے لیکن اس کے لیے زیادہ بہتر گھر کی چار دیواری ہی ہے۔ تاہم جو عورتیں کسی مجبوری کی وجہ سے ملازمت یا کاروبار میں حصہ لیں تو ان پر لازم ہے کہ ایسی نوکری کریں جہاں مردوں کے ساتھ اختلاط اور بے پردگی نہ ہواور جہاں انہیں محض گاہکوں کو راغب کرنے کے لیے نمائش نہ بنایا جائے۔ بصورتِ دیگر معاشرے میں بگاڑ جنم لے گا جس کے مظاہر وقتا فوقتا ہمارے سامنے نظر آتے رہتے ہیں۔
نیو ورلڈ آرڈر نامی یہ کتاب 1989ء میں لکھی گئی تھی، اور جیسا جیسا اس کتاب میں لکھا گیا ہے آج بالکل ویسا ہی ہو رہا ہے۔ اگر آج آپ اپنے آس پاس دیکھیں اور کسی بھی سیکٹر میں چلے جائیں، وہاں خواتین کو مردوں سے زیادہ نوکریاں دی جا رہی ہیں، بے روزگاری اسی لیے بڑھ رہی ہیں کیونکہ مردوں کو نوکری دینے کے بجائے خواتین کو ترجیح دی جا رہی ہے۔ امریکہ اور برطانیہ میں 14-15سال کے بچوں کو اس بات کی تعلیم دی جا رہی ہے، بچوں کو اکسایا جا رہا ہے کہ اگر کوئی لڑکا لڑکی بننا چاہتا ہے تو وہ اس کا حق ہے۔ سکولوں میں اس بات کو بھی عام کیا جا رہا ہے کہ اگر کلاس میں ایسے رجحانات کا حامل کوئی طالب علم ہے تو اسے چھیڑا مت جائے بلکہ اس کی حوصلہ افزائی کی جائے کہ وہ جو کر رہا ہے، بالکل صحیح کر رہا ہے۔ آپ سب لوگ جانتے ہیں کہ 14-15سال کا بچہ جنسیات کے موضوع کی اتنی آگاہی نہیں رکھتا۔ بعض لڑکے لڑکیوں والی چیزوں کو اپنا لیتے ہیں تو کبھی لڑکیاں لڑکا بننے کے چکر میں لڑکوں جیسے کپڑے پہننے لگتی ہیں، ایسے موقع پر ماں باپ ہی ہوتے ہیں جو اپنی اولاد کو سمجھاتے ہیں، لیکن آج کل معاملات کچھ اس طرح کے ہوگئے ہیں کہ بچے ماں باپ کی بات کم اور سکول والوں کی بات کو زیادہ اہمیت دینے لگے ہیں، اور عمل بھی کرتے ہیں کیونکہ نسلی خلا بہت زیادہ بڑھ گیا ہے۔ اس نسلی خلا کی بنا پر بچے ماں باپ کی سنتے ہیں نہ سمجھتے ہیں، جس کی وجہ سے ان معصوم بچوں کی سکول اور میڈیا جو پروگرامنگ کر رہا ہے، یہ اسی کو سچ مان بیٹھتے ہیں۔
یہ فتنہ ان بچوں کوعام مرد اور عورت رہنے کے بجائے ہم جنس پرست بننے پر اُکسا رہا ہے، جس کی وجہ سے ان بچوں میں بھی ویسا بننے اور اس ناپاکی کو آزمانے کی جستجو جنم لے گی۔ دنیا کا کوئی بھی مذہب ہم جنس پرستی کو جائز قرار نہیں دیتا۔ اللہ تعالی نے حضرت آدم ؑ کو مرد اور حضرت حواؑ کو عورت بنایا تھا اور یہی نظام فطرت ہے نہ کہ ہم جنس پرستی۔ یہ شیطانی دجالی تنظیمیں اسے فروغ دے کر اللہ تعالی کے قانون سے بغاوت کر دیں۔ جو شخص بھی ہم جنس پرستی جیسی ناپاک دلدل میں پھنسے گا، وہ ہر مذہب سے انکاری ہو جائےگا کیونکہ دنیا کے کسی بھی مذہب میں ہم اس کی گنجائش نہیں ہے۔ یہ تنظیمیں دنیا کو پروپیگنڈا سے اس بات کے لیے مجبور کر دیں گی کہ لوگ اللہ تعالی کے قانون کی خلاف ورزی قبول کر لیں۔ جب لوگ اس طرف راغب ہوں گے اور کھلے عام یہ سب کرنے لگیں گے تو دنیا سے آہستہ آہستہ تمام مذاہب رخصت ہو جائیں گے۔
ہنری کسنجر امریکہ کا ایک سفارت کار اور سیاستدان ہے اور اس کا کہنا ہے کہ دنیا کے امیر ترین لوگوں کا نمبر ون مقصد اس دنیا کی آبادی کو کنٹرول کرنا ہونا چاہیے۔ یہ ہم جنس پرستی کا سارا پروپیگنڈا آبادی کو کنٹرول کرنے کے لیے اور مذہب کو اس دنیا سے ختم کر دینے کے لیے ہے۔ جو انسان لڑکا پیدا ہوا ہے، وہ چاہے آپریشن کروا کر اپنے جنس ہی کیوں نہ بدل ڈالے، وہ مکمل طور پر لڑکی نہیں بن سکتا اور نہ ہی ماں بن سکتا ہے، کیونکہ لڑکوں میںX-Y کروموسومز ہوتے ہیں اور لڑکیوں میں X-X کروموسومز۔ اگر دو لڑکا اور لڑکی، جن دونوں نے اپنے جنس تبدیل کروا رکھے ہیں ، ان دونوں کے اختلاط سے شاید ہی کوئی بچہ جنم لے سکے لیکن 90% چانس ناکامی کے ہی ہیں۔ اللہ تعالی نے جو چیز قدرتاً بنائی اور جو چیز انسانی آپریشن سے بنتی ہے، اس میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ آنے والے مستقبل میں جن لڑکوں کو آپریشن کروا کر لڑکی بننے کا خبط چڑھے گا، انہیں یہ پتہ ہونا چاہیے کہ اس آپریشن پر لاکھوں روپے لگتے ہیں اور اس کی کامیابی کی بھی 100%گارنٹی نہیں ہوتی، اور نہ ہی اس بات کی گارنٹی ہے کہ ایک آپریشن کے بعد اور زیادہ آپریشنز کی ضرورت نہیں پڑے گی۔
یہ سب پڑھنے کے بعد اگر چند احباب یہ سوچ رہے ہیں کہ یہ سب تو امریکہ یا یورپ میں ہی ہو رہا ہے اور پاکستان میں یہ سب نہیں ہو سکتا، تو ان سب احباب کے لیے عرض ہے کہ 12 جنوری 2016ء کو ایکسپریس نیوز میں ایک خبر رپورٹ ہوئی جس میں بتایا گیا کہ ایک پاکستانی نوجوان رضوان کی محبت میں گرفتار بھارتی لڑکے گوروو نے جنس ہی تبدیل کر ڈالی اور گوروو سے میرا بن گیا۔ پاکستان میں ہم جنس پرستی کے پروپیگنڈے کو خواجہ سراؤں کے ذریعے پروموٹ کیا جا رہا ہے۔ 2جنوری2016ء کو دی نیشن نے ایک خبر LGBT Rights In Pakistan: An Open Letter To Imran Khan کے نام سے شائع کی تھی۔ یہ سلسلہ 10مئی 2012ء سے جاری ہے جب اسلام آباد کے ایک نجی سکول میں اس بارے میں آگاہی کے لیے سکول کے بچوں میں آپس میں تقریری مقابلہ کروایا گیا، ایسے تقریری مقابلے اور پروگرامز پوری دنیا کے سکولوں میں کروائے جا رہے ہیں اور ان کا حلقہ مزید وسیع بھی کیا جائے گا۔ آج اگر صرف میڈیااور ان نام نہاد Awareness Programs کے ذریعے بچوں کے دماغ خراب کیے جا رہے ہیں تو آنے والے وقتوں میں کتابیں لکھی جائیں گی جو ان معصوم بچوں کو پڑھائی جائیں گی، ان کے نصاب میں شامل ہوں گی، جس کا آغاز کیلیفورنیا میں کر دیا گیا ہے۔ ایسا نصاب پڑھنے اور ایسے پروگرامز میں حصہ لینے کی وجہ سے بچوں کے دماغ ناپختہ حالت میں ہی خراب ہوجائیں گے جس کی وجہ سے یہ دجالی ایجنڈا کامیاب ہوگا۔
اب آپ سب یہ سوچ رہے ہوں گے کہ اس دجالی فتنے سے کیسے بچا جائے، تو اس کا واحد حل یہ ہے کہ اس پروپیگنڈے کو بےنقاب کیا جائے اور اس کے پیچھے کی اصل حقیقت سب کے سامنے لائی جائے۔ سب کو یاد رکھنا چاہیے کہ قوم لوط ہم جنس پرستی جیسے قبیح ترین گناہ میں ملوث تھی اور اس وجہ سے اللہ نے قوم لوط کو صفحہ ہستی سے مٹا ڈالا۔
اللہ تعالی اُمت محمدی ﷺ پر اپنے خاص رحمت نازل فرمائے اور ہمیں فتنہ دجال سے محفوظ فرمائے، آمین ثم آمین۔
-
گزرے زمانے سے الیکٹرانک ریلیشن شپ تک – عرباض احمد شاہ
نہ جانے کس شاعر کا قول ہے؛
یہ وفا تو اُن دنوں کی بات ہے فراز
جب مکان کچے اور لوگ سچے ہوا کرتے تھےمیں اتنا پرانا تو نہیں پر مزے کی بات یہ ہے کہ میرا جنم بھی ایک کچے سے مکان میں ہوا تھا. اس دور میں جب ہمارے گاؤں میں لائٹ کا چمتکار ابھی نہیں ہوا تھا، البتہ آس پاس کے گاؤں میں لائٹ پہنچ چکی تھی. اس دور میں ہسپتالوں کا بھی اتنا کوئی خاص رواج نہیں تھا، اس لیے میں شرافت سےگھر پر ہی پیدا ہوگیا، بنا کسی ہسپتال خرچ کے. آج کل تو بچے ہسپتالوں کے بنا پیدا ہی نہیں ہوتے، جب تک ڈاکٹروں کو لاکھ ڈیڑھ لاکھ نہ پکڑاؤ تو بچے نے پیدا ہونے سے ہی انکار کر دینا ہے. آج ہم اسی لیےتو بڑے بڑے کرپٹ حکمرانوں کو برداشت کر لیتے ہیں کیونکہ ہمیں پیدا ہوتے ہی کرپشن کا پہلا ٹیکہ ڈاکٹر لگا دیتا ہے.
تو بات ہو رہی تھی پرانے لوگوں کی اور کچے مکانوں کی، پرانے دور کی. شاعر نے بالکل درست فرمایا، ایسا ہی ہوا کرتا تھا پہلے مکان کچے اور لوگ من کے سچے ہوا کرتے تھے، لوگوں کے پاس ایک دوسرے کے لیے وقت ہوتا تھا، ایک دوسرے کے دکھ درد کو سمجھتے تھے، ایک دوسرے کے دکھ درد میں شامل ہوتے تھے، ایک دوسرے کا احساس کا ہوتا تھا، لوگ وفادار، ایماندار اور امانت دار ہوا کرتے تھے. لوگوں کے پاس اتنے وسائل نہیں تھے، کھیتی باڑی اور مزدوری کے علاوہ کوئی خاص ذریعہ معاش نہیں تھا، مگر جو چیز پائی جاتی تھی وہ خلوص تھا. لوگ مہمان نواز ہوا کرتے تھے، وہ مہمان کو دیسی گھی, مکئی کی روٹی اور ساگ بھی پیش کر تے تو اس میں خلوص اور محبت کا بھرپور تڑکا شامل ہوتا، جو کھانے کو اور ذائقے کو چار چاند لگا دیتا.
اُس دور میں محبتیں بھی سچی ہوا کرتی تھی، عاشق لوگ تو کئی کئی دن گلی کی نکڑ پر اسی آس میں گزار لیتے کہ آج وہ یہاں سے گزرے گی اور دیدار یار ہوگا. آج کل کی طرح نہیں، کمنٹ کے اندر لڑکی سے بات کی، ایک دو ٹویٹ کا ریپلائی ہوا، انباکس میں گئے، لڑکی نے مسکرا کر دو باتیں کیں، اور محبت ہوگئی. اس دور میں آج کی کی طرح بے حیائی اور بے شرمی نہیں پائی جاتی تھی کہ ہر آتی جاتی کے اوپر نمبر پھینک دیا، ہر آتی جاتی کو چھیڑ دیا. اس دور میں محبت کے رشتے پاک اور محبوب بھی ایک ہی ہوتا تھا. آج کل تو ہر لڑکے اور لڑکی کے ایک دو درجن افیئر ہوں گے، اس کے بعد جا کر کہیں شادی ہو بھی گئی تو اتنی کامیاب نہیں ہوتی. آج کے لڑکے تو پیدا ہوتے ہی پہلی آنکھ نرس کی انگلی پکڑ کر مار لیتے ہیں. پھر شادی تک افئیر کی سینچری مار کر حاجی ثناءاللہ بن جاتے ہیں.
پہلے کے دور میں سیدھا منہ پر جا کر اظہار محبت نہیں کیا جاتا تھا، محبت کے بھی کچھ اصول و ضوابط ہوا کرتے تھے، لوگ شرمیلے ہوا کرتے تھے. اتنی ہمت ہی نہیں ہوتی تھی کہ ایک لڑکی کا سامنا کیا جائے. اپنے محبوب سے اظہار محبت کے لیے خطوط کا استعمال کیا جاتا تھا. اگر محبوب ان پڑھ ہے تو وہ کسی پڑھے لکھے دوست سے خط لکھواتا. خط بھی یوں ہی ایک دم سے نہیں لکھ دیا جاتا، بار بار لکھا اور مٹایا جاتا، بہترین اور تہذیب یافتہ الفاظ کا چناؤ کیا جاتا، ایک دو دن کی کڑی محنت کے بعد اس خط کو پایہ تکمیل تک پہنچایا جاتا جو کہ بظاہر آسان مگر کھٹن کام ہوتا. اسی طرح اگر محبوبہ پڑھی لکھی نہ ہوتی تو وہ اپنی کسی سہیلی کا استعمال کرتی. خطوط کی نقل و حرکت اور محبوب تک رسائی کے لیے چھوٹے بچوں کو بطور ڈاکیہ کے استعمال کیا جاتا اور بطور نذرانہ چند فانٹا ٹافیاں عنایت کی جاتی. چھوٹو ڈاکیہ بھی اپنا کام انتہائی چالاکی اور ایمانداری سے سرانجام دیتا اور اس تمام کارروائی کو وہ ہمیشہ صیغہ راز میں رکھتا. پھر اس تمام کاروائی کے بعد محبوب اپنی محبوبہ کے جوابی خط کا انتظار کرتا. اس خط کا جواب کسی ایس ایم ایس کی طرح فوراً سے نہیں آجاتا تھا، اس کے جواب میں بھی ہفتہ دو ہفتہ لگتے تھے. یوں خط و کتابت کے ذریعہ دل کا حال بیان کیا جاتا اس میں شعر و شاعری کا عنصر بھی ہوتا اور ایک دوسرے سے ملنے کی جگہ اور وقت کا تعین بھی اسی خط کے ذریعہ ہوتا. الغرض اتنی محنت کے بعد حاصل ہونے والی محبت خالص اور سچی ہوا کرتی تھی. اگر محبوب دور دراز کہیں ذریعہ معاش کی خاطر چلا جاتا تو محبوبہ سے وہاں سے خط و کتابت ہوتی، ایک دوسرے کا بے تابی سے انتظار کیا جاتا، سالوں سال محبوبہ اپنے محبوب کے انتظار میں گزار لیتی. آج کل تو یہ مشہور ہے کہ گھوڑا اور لڑکی کو باندھ کر رکھو، نہیں تو کوئی اور لے جائے گا. میرا ایک دوست جوش میں آ کر تبلیغ پر چلا گیا، 10 دن بعد واپس آیا تو لڑکی کہیں اور ٹانکا فٹ کر چکی تھی. 10 دن بھی انتظار نہ ہوا اور پھر دوست نے بھی اگلے دن نئی جگہ دل لگا لیا. یوں پہلے کے زمانے میں لوگ سادہ لوح اور من کے سچے ہوا کرتے تھے اور ان کا عشق بھی سچا ہوا کرتا تھا. اسی لیے آج کل ہیر رانجھا، لیلی مجنوں، شیریں فرہاد جیسے لوگوں نے پیدا ہونا ہی بند کر دیا ہے..
یوں وقت تیزی سے بدلتا گیا اور لوگ وقت سے بھی تیز نکلے. پی ٹی سی ایل کا دور آیا، انٹرنیٹ آیا، فاصلے کم ہوتے گئے اور ساتھ ساتھ انسانوں کی آپس کی محبت بھی کم ہوتی گئی. مزید وقت گزرا، سمارٹ فون اور سوشل میڈیا نے لوگوں کو مزید قریب کر لیا، اس طرح انسان ایک دوسرے کے بہت قریب آ گئے، پر افسوس کہ بظاہر ہی قریب ہیں صرف، دور سے قریب نظر آتے ہیں.
پہلے کے دور میں جھوٹ بولنے کے ذرائع بھی نہیں تھے اس لیے لوگ سچے ہوا کرتے تھے. آپ کسی سے ملنے جاتے، وہ گھر پر ہی ملتا اور آج کل کسی سے ملنے جاؤ اور کال کرو آپ کی طرف آ رہا ہوں، آگے سے جواب ملے گا بھائی میں تو گھر پر نہیں جبکہ ہوگا گھر پر ہی. یوں موبائل فون نے جھوٹ بولنا مزید آسان کر دیا. میرے ایک دوست نے فیس بک پر چیک ان کیا اور لکھا eating pizza at pizza hut ، اگلے ہی لمحے دیکھا وہ ڈھابہ ہوٹل پر میرے سامنے بیٹھا چنے کی دال سوت رہا تھا.
پہلے لڑکیوں میں کسی سے بات کرنے کی ہمت نہیں ہوتی تھی، گھر سے اکیلے باہر نکلنے کو عیب سمجھا جاتا تھا ، سکول کالج بھی جاتی تو آتے جاتے کسی سے بات کرنے کی مجال نہیں ہوتی تھی، غرض شرم و حیا کا پیکر ہوا کرتی تھی لڑکیاں، آج کل کی لڑکیاں تو میرے جیسے کو بیچ کر کھا جائیں اور کانوں کان خبر تک نہ ہو. حالات اتنے گھمبیر ہیں کہ آج ہر لڑکی کی دوسری لڑکی سے ریس لگی ہوتی ہے کہ کس کے دوست زیادہ ہیں. پہلے کسی سے بات کرنے کے لیے ہفتوں انتظار کرنا پڑتا تھا اور آج کل ایک میسج کرو، ان باکس میں چلے جاؤ، اگلے ہی لمحے ویڈیو کال، اور پھر محبت کا اظہار کر لو . مسئلہ ہی کوئی نہیں…
پہلے ایک ہی محبوب ہوتا تھا. آج کل فیس بک فرینڈ الگ، یونی فرینڈ الگ، فیملی فرینڈ الگ اور پانچھ چھ عدد بوائے/گرل فرینڈز الگ..
پہلے بریک اپ ہوتے تو لوگ سالوں تک غم مناتے تھے. آج کل پہلے دن دوستی ہوئی، دوسرے دن محبت، تیسرے دن لڑائی، چھوتے دن بلاک اور پانچویں دن تھوڑے سے آنسو چھٹے دن کوئی دوسرا سہارا دیتا ہے، ساتویں دن چھٹی ہوتی ہے اور سوموار کے دن نئے جذبے کے ساتھ نئی محبت شروع ہو جاتی ہے…
پہلے کی محبت بھی دیسی گھی کی طرح خالص اور اس میں خالص شہید کی جیسے مٹھاس ہوتی تھے. آج کل کی محبت میں آج کل کے گھی اور شہد کی طرح ملاوٹ پائی جاتی یے.
میرے چچا جی کہا کرتے تھے کہ چھوڑو یار تم ڈالڈے کے فارمی جوان تو کسی کام کے نہیں، مجھے تو ڈالڈا بھی برابر کا قصور وار لگتا ہے.پہلے لوگوں کے پاس ایک دوسرے کے لیے وقت ہوا کرتا تھا، اور آج کل لوگ گھر والوں سے بات نہیں کریں گے، پاس بیٹھے دوستوں سے بات نہیں کریں گے مگر میلوں دور بیٹھے کچے دھاگے اور ایک بلاک کی دوری پر بنے ہوئے ریلیشن نبھائیں گے.. ایک بار کزن نے ہم پانچ دوستوں کی تصویر لی اور فیس بک پر ڈال دی. ہم پانچ کے پانچ کافی دیر سے حضرت مولانا موبائل صاحب کے احترام میں گردن جھکائے مگن تھے. مجال ہے کہ ایک دوسرے سے بات کرنے کی زحمت کی ہو.
تو بات ہو رہی تھی وفا کی… وفا نام کو تو انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا نے اتنا بدنام کر دیا کہ پوچھو مت. جہاں سوشل میڈیا نے لوگوں کو قریب کیا وہیں دور بھی کیا. آج کل معاشرے میں لڑکیوں کا گھر سے بھاگ جانا اور طلاق کی شرح میں اضافہ ہو جانا اسی سوشل میڈیا کا دیا ہوا تحفہ ہے، وفا نام کی چیز کو تو لوگوں نے ردی کی ٹوکری کی نذر کر دیا.
-
کرنسی نوٹوں کی تبدیلی، غریبوں کی موت اور مودی کی مسکراہٹ – ریحان خان
آٹھ نومبر کی شام مختلف ٹی وی چینلز سے ایک نادر شاہی اعلان ہوتا ہے کہ پانچ سو روپے اور ہزار روپے کے نوٹ رات بارہ بجے کے منسوخ قرار پائیں گے. اس کے پیچھے کیا حکمتِ عملی اور دانشوری کار فرما تھی، اس سے قطع نظر ہم نے یہ دیکھا کہ ممبئی کے ایک نوجوان کا پورا دن پانچ سو روپے کے نوٹ لے کر اپنی ماں کی لاش کے لیے کفن ڈھونڈنے میں گزر گیا. ایک بوڑھی بھکارن جس کی کل متاع انہی منسوخ شد نوٹوں کے تیس ہزار روپے کے شکل میں تھی، وہ ہارٹ اٹیک سے انتقال کرگئی. جہیز میں دیے جانے والے کیش کے لیے نئے نوٹ دستیاب نہ ہونے پر بیٹی کی ڈولی کی جگہ صدمے میں خودکشی کرلینے والی ماں کی ارتھی اٹھی. جس بچّے کی پیدائش پر اس کے ناز اٹھائے گئے تھے، منسوخ نوٹوں کی وجہ سے بروقت طبّی امداد نہ ملنے پر اس بچّے کا جنازہ اٹھ گیا، کیونکہ ہاسپٹل اسٹاف ڈپازٹ میں منسوخ نوٹ قبول نہیں کررہا تھا جو بعد میں بینک سے تبدیل کیے جاسکتے تھے. وہ ہاسپٹل نوئیڈا کے ڈاکٹر مہیش شرما کا تھا جو حکمراں جماعت کے وزیر ہیں. ممبئی میں نوٹ تبدیل کرانے کےلیے قطار میں کھڑے ایک معمر شہری کی موت واقع ہوجاتی ہے. ایک ہارٹ پیشنٹ کو فوری ادویات کی ضرورت تھی تو میڈیکل اسٹور نے ازراہِ انسانیت اسے ادویات ادھار دیں. یہ انسانیت کی پہلی مثال تھی جو اس افراتفری کے عالم میں سامنے آئی. جب شب و روز کے اس جھمیلے میں لوگ جاں سے گزر گئے، جب چہیتے اپنوں کے ہاتھوں میں دم توڑ گئے، جن کاندھوں پر سر رکھ کر بہن کو رونا تھا، وہاں ماں کی ارتھی رکھ دی گئی.
اسی دوران وزیرِ اعظم نریندر مودی کے حالیہ جاپان دورے کی ایک تصویر میڈیا میں وائرل ہوتی ہے جس میں وہ ساز و سنگ کے ماحول میں ایک رباب کے تاروں کو مضراب سے چھیڑ رہے ہیں اور ایک اطمینان بخش مسکراہٹ ان کے چہرے پر رقص کررہی ہے. اس تصویر کو دیکھ کر ہندوستانیوں کو رومن شہنشاہ نیرو یاد آیا جو سارے شہر کو آگ لگا کر دور کی ایک پہاڑی پر بانسری بجا رہا تھا-اسی طرح وزیرِ اعظم نریندر مودی سارے انڈیا کو نوٹ کھسوٹ کی اس آگ میں جھونک کر جاپان کے کسی نغار خانے میں ساز و سنگ میں مست تھے.
ان حالات کا ذمّہ دار کون ہے؟
ہم حکومت کو اس سے بری کرتے ہیں. یہ حالات ہمارے اجتماعی شعور کا شاخسانہ ہیں. وہ جانیں جو چلی گئیں اس کے لیے ہم میں سکستی انسانیت ذمّہ دار ہے. حکومت وقت نے تو صرف ایسا ماحول بنایا ہے جس میں ہم اپنی چہروں سے مکر و ریا کے نقاب نوچ پھینکنے پر مجبور ہوجائیں. کیا وہ جانیں بچائی نہیں جاسکتی تھیں؟؟ بالکل بچائی جاسکتی تھیں لیکن ہم نے بچائی نہیں. بچّہ مر گیا اور ہم بضد رہے کہ نئے نوٹ لائے جائیں، تب ہی آپریشن شروع کیا جائے گا. جس نوجوان کی ماں کی لاش گھر پہ رکھی ہوئی تھی، اسے کفن نہ دینے والے بھی ہم ہی تھے. ہم جو جانتے ہیں کہ کفن کیوں خریدا جاتا ہے. بچّی کی ڈولی نا اٹھا کر اس کی ماں کو خودکشی پر مجبور کردینے والے بھی ہم ہی تھے. شمشان میں ایک لاش کا انتم سنکسار محض اس لیے نہ ہوسکا کہ پنڈت کو دینے کے لیے میت کے ورثاء کے پاس نئے نوٹ نہیں تھے. وہ پنڈت بھی ہم میں سے ہی ہے اور اس کا رویہ بھی ہمارے اجتماعی رویّے میں ہی شمار ہوتا ہے. وہ اجتماعی رویّہ جو ووٹ دیتا ہے اور حکومت منتخب کرتا ہے، اور یہ ہماری منتخب کردہ حکومت کا فیصلہ ہے جسے ہم نے بلاشرکتِ غیرے اقتدار ایک تھالی میں رکھ کر پیش کیا ہے-.
لیکن یہ بھی سچ ہے کہ شب و روز بینکوں میں خوار ہونے والے چھوٹے لوگ ہیں. ان میں امیر و کبیر افراد نہیں ہیں. وہ لوگ ہیں جن کی زمینیں اور جائیدادیں چھوٹی ہیں، صبر کا پیمانہ بھی چھوٹا ہے. جن کا سرمایہ کم ہے، جو بلیک منی نہیں رکھتے، جنہوں نے تنکا تنکا جوڑ کر آشیانہ بنایا ہے، جب اسی آشیانے پر برق کے سائے دیکھے تو لرز اٹھے اور کچھ جاں سے گئے. ان کو ہراساں کرکے حکومت یہ سوچتی ہے کہ وہ کالے دھن کو واپس لا رہی ہے، وہ کالا دھن جو سوئس بینکوں میں موجود ہے، وہ کالا دھن جوگولڈ کی شکل میں امراء و رؤساء کی محفوظ تجوریوں میں رکھا ہوا ہے، وہ کالا دھن جو ریئل اسٹیٹ کے کاروبار میں لگا ہوا ہے، وہ کالا دھن جس سے اپنے ملازمین کے نام پر زمینیں خریدی گئی ہیں. کالے دھن کو ان شکلوں میں محفوظ رکھنے والے بنیوں کا کرنسی نوٹوں کی تبدیلی کا عمل کیا بگاڑ سکتا ہے؟ عام آدمی کا دیوالیہ نکال دینے والی سرکار کے چہیتے اور کروڑوں کا قرض لے کر ملک چھوڑ دینے والے وجے مالیا کا نوٹوں کی تبدیلی کے اس عمل سے کیا بگڑ گیا؟ کیا آئی پی ایل میں کروڑوں کی ہیرا پھیری کرنے کے بعد ملک سے فرار ہوجانے والا للت مودی اس سے باخبر بھی ہے کہ ہندوستان میں کرنسی تبدیل ہوگئی ہے؟
جہاں بلیک منی میں اضافہ جاری رکھنے کے ساتھ محفوظ رکھنے کے اتنے طریقے ہیں، کیا بلیک منی رکھنے والے اس بنیے اور سیٹھیے اس سے لا علم ہیں؟ اگر کوئی اس کے باجود بھی بلیک منی کرنسی کی شکل میں رکھتا ہے تو اس سے بڑا بیوقوف کوئی نہیں ہے، اور انہیں بےوقوفوں کےلیے ایک بےوقوف گورننس سے اتنا سخت اور بےوقوفانہ فیصلہ لیا ہے، جس کی زد میں ملک کا مفلوک الحال اور مڈل کلاس طبقہ آگیا ہے، اور حکومت اس فیصلے پر پشیمان ہونے کے بجائے اپنے ہاتھوں سے اپنی پیٹھ تھپتھا رہی ہے.
کاش ہمارا پرائم منسٹر کوئی پڑھا لکھا اور اہل و عیال والا شخص ہوتا جو بیٹی کی ڈولی کی جگہ اس کی ماں کی ارتھی کو کاندھا دینے والے، ماں کی لاش کے لیے کفن ڈھونڈنے والے اور بچّے کا علاج نہ کروا پانے والوں کا درد سمجھ سکتا-