Blog

  • ”دلیل” کی دلیل – انعام رانا

    ”دلیل” کی دلیل – انعام رانا

    13516191_10154288772491667_1347995776475689400_n
    کہتے ہیں فیض صاحب کو کسی غیرملکی سفر میں ایک سکھ قدردان نے بہت خوبصورت انگوٹھی دی۔ انگوٹھی پر بہت خبصورتی سے لفظ “اللہ” نقش تھا۔ فیض صاحب درویش انسان تھے۔ شاید آپ کو علم ہو نہ ہو کہ حافظ بھی تھے اور ایم اے عربی بھی۔ مگر کمیونسٹ پارٹی سے نسبت اور محافل ناؤ نوش سے رغبت کی وجہ سے “یاروں” نے دہریہ مشہور کر رکھا تھا۔ احباب نے انگوٹھی دیکھی تو شرارت سوجی اور کہا چلئے شکر ہے فیض صاحب کسی نے تو آپکو مسلمان سمجھا۔ فیض نے اپنی مشہور کھوں کھوں کی، سگریٹ کا کش کھینچا اور مسکرا کر بولے ” بھئی، کون جانے لوگ اسے بھی سکھ قوم کا لطیفہ ہی سمجھیں”۔

    محترم عاصم اللہ بخش سے میری پرانی محبت ہے۔ فیس بک پر تین طبقات ہیں۔ “کمنٹیا”، “پوسٹیا” اور “لکھاری”۔ ارے ہاں کچھ خاموش بھی ہوتے ہیں جو بس اپنی موجودگی کا احساس دلائے بغیر ہوتے ہیں اور اکثر فائدے میں ہوتے ہیں۔ تو جب میں کمنٹیا تھا، تب عاصم بھائی سے تعلق بنا۔ انکے جوابات نے مجھے پوسٹ لکھنے کا حوصلہ دیا۔ اور ان پر ان کے مزے مزے کے کمنٹ، جنھیں میں اپنی پوسٹ پہ لگا “تڑکا” کہتا ہوں، مجھے باقاعدہ لکھنے کی طرف مائل کرتے رہے۔ مجھے اردو لکھنے کی طرف بھی عاصم بھائی نے ہی لگایا۔ سو صاحبو، جو جو میری تحریر سے تنگ ہے، “ایصال ثواب” کیلیے بندے کا اشارہ دے دیا ہے۔ عاصم بھائی کا حکم ہے کہ “دلیل” کیلیے کچھ پیش کروں۔ بھائیو، ستائس رمضان میرا یوم پیدائش ہے۔ سو اس رات/دن جو بھی پیدا ہو مجھے محبوب ہوتا ہے۔ خواہ قرآن، خواہ پاکستان اور خواہ میں خود؛ اور اب اس فہرست میں دلیل بھی شامل ہے۔ سائیٹ سے جڑا اہم نام عامر خاکوانی کا ہے۔ عامر بھائی انتہائی نفیس انسان ہیں جنکو مخالف کے ساتھ بھی ہمیشہ دلیل اور شائستگی کے ساتھ بات کرتے پایا۔ میں کئی سالوں سے انکا قاری اور فین ہوں۔ عامر بھائی نے فیس بک کے میڈیم کی اہمیت کو تب سمجھا اور استعمال کیا جب بڑے لکھاری اسے “بچوں کی کھیڈ” ہی سمجھتے تھے۔ مگر عامر بھائی نے تلخ تجربات کے باوجود اس میڈیم کے زریعے نوجوانوں سے رابطہ قائم رکھا اور مکالمے کا رواج ڈالنے والوں میں انکا نام اولین ناموں میں ہے۔ جس سائیٹ کے ساتھ عامر خاکوانی اور عاصم اللہ بخش سے “خدائی گھیرو” منسلک ہوں، اسکی کامیابی انشاللہ یقینی ہے۔ یہ بندے کو گھیر گھار کر خدا تک لے جاتے ہیں، اگے تیرے بھاگ لچھیے۔

    “دلیل” ایک واضح ایجنڈے کے ساتھ آ رہی ہے۔ یہی “دلیل” کی قوت بھی ہے اور کمزوری بھی۔ اپنے ایجنڈے کے اس واضح اعلان کی وجہ سے اسے کچھ لوگ شروع سے بطور دشمن لیں گے اور اسکی ناکامی کے دن گنیں گے، حملے کریں گے۔ امید ہے کہ راہی رکے گا نہیں۔ دوسری طرف اسی ایجنڈے کی وجہ سے اس سے ایسی توقعات وابستہ کر لی جائیں گی کہ بس “دلیل” صرف “امت” کا انٹرنیٹ ایڈیشن بن کر رہ جائے یا ایک “ای۔غزنوی” بنے جو روز لیفٹ، سیکیولرزم اور الحاد کے بت توڑتا کشتوں کے پشتے لگا دے۔ میری دعا ہے کہ “دلیل” ان دونوں طبقات کو مایوس کرے۔

    صاحبو، پاکستان ایک اہم دور سے گزر رہا ہے۔ امت کا جو تصور ہم تحریروں اور تقریروں کی وجہ سے بنائے بیٹھے تھے، متزلزل ہو رہا ہے۔ ہم نے جن بہت سی فرسودہ روایات کو مذہبی تقدس دے کر بچائے رکھا تھا، ان پہ سوال اٹھ رہے ہیں۔ سیاسی ، معاشی اور معاشرتی ابتری بڑھی ہے۔ وہ سوال جو والدین یا استاد دبا دیتے تھے اب سوشل میڈیا کے چوک پر سرعام پوچھے جا رہے ہیں۔ روائتی دایاں بازو ہو یا بایاں، وقت کا ساتھ دینے میں، سوالوں کے جواب دینے میں اور بڑھ کر علم اٹھانے میں ناکام ہو گیا۔ اس وقت پاکستان میں سوشل میڈیا سب سے مظبوط میڈیم ہے۔ مگر بھانت بھانت کی بولیوں، خبط عظمت اور عدم برداشت نے اسے بھی بدبودار کرنا شروع کر دیا ہے۔ ایسے میں ضرورت ہے کہ مکالمہ ہو، مظبوطی مگر شائستگی سے موقف پیش کیا جائے اور نئی نسل کی راہنمائی ہو۔ سوال اٹھائے جائیں، جواب دئیے جائیں اور مسائل کا حل مل کر سوچا جائے۔ بایاں ہو، دایاں یا درمیانہ، ہر بازو ہمارا اپنا ہے، پاکستانی ہے اور اہم ہے۔ ضروری ہے کہ یہ بازو ایک دوسرے کو کاٹنے کے بجائے ایک دوسرے کی قوت بنیں۔ اسی لیے مجھے خوشی ہے “دلیل” آئی ہے جو دلیل اور شائستگی سے دائیں بازو کا موقف رکھے گی، مکالمہ کرے گی، مسلک کے بجائے مذہب کی بات کرے گی اور صوبائی تعصب کے بجائے میرے پاکستان کی بات کرے گی۔ اہم مدیران کی موجودگی نئے لکھنے والوں کو تربیت دے گی کہ اپنا موقف کیسے گالی اور فتوے، تضحیک اور تحقیر کے بغیر بھی دیا جا سکتا ہے۔ اور یہی “دلیل” کی پہلی اور بڑی کامیابی ہو گی۔

    تو صاحبو مبارکباد اور دعائوں کے ساتھ “دلیل” کے لیے یہ تحریر حاضر ہے۔ کون جانے “یار” اسے بھی لطیفہ ہی نہ سمجھ لیں۔

     

  • پاکستان میں جاری اسلام اور سیکولرزم کی کشمکش – محمد دین جوہر

    پاکستان میں جاری اسلام اور سیکولرزم کی کشمکش – محمد دین جوہر

    13006688_190862491305745_6488080985877669796_n اس وقت اخبارات، الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا پر اسلام اور سیکولرزم کی بحث زوروں پر ہے۔ دھیمے سروں میں یہ بحث بہت پرانی اور غیرنتیجہ خیز ہے، لیکن آجکل اس میں پھر سے تیزی آئی ہوئی ہے۔ یہ بحث کسی پالیسی، بیان، واقعے یا پبلک رائے وغیرہ کے نتیجے میں اچانک دھواں دھار ہو جاتی ہے، اور کچھ عرصے کے بعد بے نتیجہ ختم ہو جاتی ہے۔ لیکن اس کا ایک اثر ضرور مرتب ہوتا ہے کہ طرفین کی باہمی مخاصمت میں اضافہ ہو جاتا ہے، موقف اور پوزیشنیں سخت ہو جاتی ہیں، اور آئندہ بحث کی نتیجہ خیزی بھی موہوم رہ جاتی ہے۔ ہماری گزارش ہے کہ اس بحث کو مفید اور نتیجہ خیز بنانے کے لیے خود اس بحث کی نوعیت اور خد و خال، اس کے تاریخی اور علمی تناظر، طرفین کی شناخت اور ان کے موقف اور طرز استدلال کو دیکھنے کی ضرورت ہے۔ اس حوالے سے چند ایک گزارشات ہم ذیل میں پیش کر رہے ہیں۔

    (۱) بحث کی نوعیت اور خدوخال:
    ہمارے ہاں اسلام اور سیکولرزم کی بحث کے خدوخال واضح نہیں۔ یہ کوئی علمی بحث نہیں ہے کہ طرفین کے مواقف قطعیت سے معلوم ہوں، اور اس کی حیثیت ایک فٹ بال میچ کی طرح بھی نہیں ہے کیونکہ یہ ہمیشہ بے نتیجہ ختم ہو جاتی ہے۔ اسے زیادہ سے زیادہ اسلام اور سیکولرزم کی دھینگامشتی کہا جا سکتا ہے جو پست ترین انسانی اور ذہنی سطح پر واقع ہوتی ہے۔ دھینگا مشتی ”بحث“ اور ”میچ“ کا ملغوبہ ہوتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ یہ نہ کبھی نتیجہ خیز ہوئی ہے اور نہ ثمرآور۔ یعنی اس بحث کے نتیجے میں کہیں کوئی علمی ترفع واقع نہیں ہوتا، دلیل کو کوئی سرفرازی نصیب نہیں ہوتی، اور اعلیٰ اخلاقیات کے مظاہر بھی سامنے نہیں آتے۔ بات جوتم پیزار، تکفیربازی، غدارسازی وغیرہ سے آگے ہی نہیں بڑھ پاتی۔ ہماری ناقص رائے میں یہ بحث نہایت اہم ہے، لیکن اس کے نتائج نہایت افسوسناک ہوتے ہیں جو سماجی صحت اور قومی سلامتی کے لیے گہرے ضرر کا پہلو لیے ہوئے ہیں۔ جس بحث کا نتیجہ طرفین کی تذلیل، گالم گلوچ، اتہام بازی وغیرہ کی صورت میں سامنے آئے وہ انسانوں کے لیے کبھی مفید نہیں ہو سکتی۔
    ”علمی بحث“ اور ”فٹبال میچ“ دو مختلف چیزیں ہیں، ایک ذہن کی جدلیات ہے اور دوسری ارادے کی۔ ہمیں اس وقت ذہن کی جدلیات کی ضرورت اس کی پوری شرائط کے ساتھ ہے، کیونکہ اجتماعی سطح پر راستہ صرف ذہن کی جدلیات سے گزر کر ہی روشن ہو سکتا ہے۔ ہمیں یہ فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ راستے کی نشاندہی صرف علم ہی سے ہو گی، اور اقدار اس راستے کو طے کرنے کے وسائل اور منزل کے عزم کے لیے ضروری ہوں گی۔ ہم اپنی دینی اقدار کی وجہ سے مسلمان ہیں، لیکن اقدار پر کاربند ہونا ازخود کسی علمی موقف کا اظہار نہیں ہوتا، کیونکہ اقدار کو بنیاد میں رکھتے ہوئے علمی موقف کی عصری تشکیل ضروری ہوتی ہے۔ تاریخی صورت حال علم کا موضوع ہے اور دونوں تغیرپذیر ہوتے ہیں، اور اقدار کا مخاطب انسان ہے، اور وہ ابدی حق کا مستقل اظہار ہیں اور انسان سے بدلتی ہوئی تاریخ میں ”عبد“ رہنے کا تقاضا کرتی ہیں۔ اقدار، ارادے کی نفسی اور تاریخی جدلیات میں ضروری اور کارگر ہوتی ہیں، ان کو علمی قضایا کے روبرو لانے یا ان کے رد میں پیش کرنے سے ارادے کا اقدار سے تعلق میکانکی ہو کر ختم ہو جاتا ہے اور ساتھ ہی ذہن کا بھی خاتمہ ہو جاتا ہے۔
    قرن اول میں ہماری دینی اقدار فوراً ہماری تہذیبی اقدار بھی بن گئیں، اس لیے انہیں کسی علمی اور فکری توسیط کی ضرورت نہیں پڑی۔ ہمارے ہاں علمی اور فکری بحث کی ضرورت اس وقت پیش آئی جب خاص تاریخی حالات میں ہماری تہذیبی اقدار داخلی جدلیات کا شکار ہو گئیں۔ جدید دنیا کی تشکیل اس سے بالکل برعکس طریقے پر ہوئی ہے۔ اس میں پہلے سے قائم مذہبی تہذیبی اقدار کے انخلا اور ان کی جگہ جدیدیت کی اقدار کو غلبہ دینے کے لیے آگے پیچھے، دائیں بائیں علم کے جنگی دستے چلانے پڑے، جنہوں نے نئی اقدار کو جدید تہذیب کے عین قلب میں قائم کر دیا۔ اب یہ تاریخ کا معمول ہے اور اس کا لحاظ رکھنا ہم پر بھی ایک جبر کی صورت میں مسلط ہے۔ اس میں ہم اپنی دینی اقدار کا بار بار اعادہ کر کے نہ ان کو قوت دے سکتے ہیں، اور نہ انہیں معاشرے اور اجتماع میں فنکشنل بنا سکتے ہیں۔ اس کے لیے علم کے دستوں کی ضرورت ہے اور سچ یہ ہے کہ علم دشمنی ہمارے انفرادی اور اجتماعی وجود کی نادیدہ تہوں میں بھی رچ بس گئی ہے۔
    جیسا کہ ہم نے عرض کیا کہ روایتی طور پر اجتماعی معاملات ہمارے ہاں اقدار کا موضوع رہے ہیں لیکن جدید دنیا میں وہ علم کا موضوع ہیں۔ مثلاً سیاسی طاقت سے کیا مراد ہے؟ سیاسی طاقت کی جدید تشکیل کا منہج کیا ہے؟ ریاست کی نوعیت کیا ہے؟ قانون اور قانون سازی کے منابع اور طریقۂ کار کیا ہے؟ کلچر کیا ہے؟ خود علم اور اقدار سے کیا مراد لیا جاتا ہے؟ وغیرہ وغیرہ۔ گویا سوالات کی ایک طویل فہرست ہے جس پر جدید تہذیب اور ذہن نے علمی گولہ بارود کے ذخیرے جمع کیے ہوئے ہیں اور ان کی توپیں بھی بڑے دھانے والی اور دورمار ہیں۔ اگر اقدار کو علم کی کمک حاصل نہ رہے تو ان کی حیثیت اس کی آدمی کی طرح ہو جاتی ہے جس کی آنکھوں پر پٹی بندھی ہو۔ ہم نے دیانت داری سے عصری صورت حال کو سمجھنے اور اس کا مقابلہ کرنے کی کبھی کوئی کوشش نہیں کی۔ یہ کام صرف ذہن کی جدلیات میں رہ کر ہی ممکن تھا۔ مثلاً کوئی ہم سے اگر پوچھ لے کہ دین کا سیاسی نظام کیا ہے؟ تو ہم جواب میں کہیں گے خلافت۔ لیکن عصر حاضر میں انسانی اجتماع کو منظم کرنے کے لیے اس کی علمی تفصیل اور فکری جہات کو اجاگر کرنا پڑے گا جن کا ہمیں ابھی کوئی شعور ہی نصیب نہیں ہے، جواب تو بعد کی بات ہے۔ مثلاً ہم جدید ریاست کی فکری تفصیلات طے کیے بغیر اسے اسلامی کہنا چاہتے ہیں۔ جدید سرمایہ داری نظام کو بھی اسی بنیاد پر اسلامی کہنا چاہتے ہیں۔ علیٰ ہذا القیاس۔ اس رویے کا نتیجہ صرف یہ ہوتا ہے کہ اہل علم کو معلوم ہو جاتا ہے کہ ہمیں نہ اسلامی کا کوئی شعور باقی رہا ہے اور نہ ہم میں جدید ریاست یا جدید دنیا کے موثرات وغیرہ کا کوئی ادراک پایا جاتا ہے۔
    سیکولر طبقہ یہی سوالات اٹھا رہا ہے اور مسلم ذہن ان سوالوں کے سامنے جھنجھلاہٹ کا شکار ہو کر فوراً ہزیمت کا شکار ہو جاتا ہے یا لڑنے مارنے پر اتر آتا ہے۔ اس جھنجھلاہٹ میں ہم اپنی اقدار کو اشتہار بنانے کا کام کرتے ہیں اور وہ بھی صرف ان جگہوں پر جہاں ہمیں کوئی گنجائش ملتی ہے۔ ابھی پاکستان میں اسلام پسندوں کے لیے کچھ گنجائش باقی ہے۔ جس دن پاکستانی ریاست نے سیکولر ہونے کا فیصلہ کر لیا، جس کا امکان بڑھتا جا رہا ہے، اس دن کوئی ہماری بات سننے کا بھی روادار نہیں ہو گا اور ہمیں اپنے سارے نعرے اور مواقف طاق نسیاں میں دھرنے پڑیں گے۔ دنیا میں ان پڑھ آدمی کو بھی اپنی اقدار ازبر ہوتی ہیں جس کا لازمی نتیجہ اس کا صاحب علم ہونا نہیں ہوتا۔ ہم اپنی اقدار کی آڑ میں سیکولر طبقے کو گالیاں دے کر یہ جنگ نہیں جیت سکتے، کیونکہ اقدار کی حفاظت کا پہلا مرحلہ علم ہے اور دوسرا تلوار۔ ہمیں خوش فہمی ہے کہ سیکولر طبقے سے ہمارا سابقہ صرف گوالمنڈی تک محدود ہے۔ ایسی بات نہیں ہے۔ یہاں تو ہم اپنے دو چار لڑکوں کو بلا کر انہیں سٹکنے پر مجبور کر دیتے ہیں، لیکن باہر عالمی مال روڈ پر تو ان کے ٹھٹھ کے ٹھٹھ لگے ہوئے ہیں، اس کا ہم کیا علاج تجویز فرماتے ہیں؟
    پاکستان میں سیکولر طبقے کی یہ بڑی مہربانی ہے کہ وہ طاقت، معیشت، کلچر اور تعلیم کے تمام وسائل پر قابض ہونے اور عالمی دھارے میں شامل اور اس سے جڑے ہونے کے باوجود ہم سے بات کرنے کی کوشش کرتے ہیں، باقی جگہوں پر تو وہ مذہبی آدمی سے بات کرنا ہی اپنی کسرشان سمجھتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان سے بات اسی سطح پر شروع کی جائے جس پر وہ چاہتے ہیں۔ لیکن ہم اپنی نااہلی اور عدم تحفظ کی نفسیات کی وجہ سے اس موقعے سے فائدہ نہیں اٹھا پائے۔ اوریا مقبول جان صاحب کے دیندار ہونے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ کسی علمی یا تہذیبی بصیرت کے حامل بھی ہیں، اور اس دینداری کی وجہ سے انہیں فتوے یا کاروکاری کا اختیار بھی حاصل ہو گیا ہے۔ جس طرح ضیاء الحق کی اصلاحات سے ہم ایک اسلامی معاشرہ بنانے میں کامیاب رہے ہیں، اسی طرح اوریا صاحب کی کوششوں سے ہم اسلامی فکر میں بھی اتنی ہی پیشرفت کر پائیں گے۔ ہمیں یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ ہمارے ہاں سیکولر طبقہ اس طرح کا زہریلا اور قاتل نہیں ہے جس طرح کا مثلاً مصر، مراکش، تیونس، الجزائر، ترکی، ایران، وسطی ایشیا وغیرہ میں رہا ہے یا ہے۔ ہمارے ہاں سیکولر طبقے میں کشادگی کا ایک عنصر ہمیشہ موجود رہا ہے، جو مذہبی طبقے میں بالکل ہی غیرموجود ہے۔
    سیکولر طبقے سے ہمارا گلہ دوسری نوعیت کا ہے۔ ان کا رویہ مقامی کلچر اور مذہب کی طرف بالکل ویسا ہی تحقیر کا ہے جو یہاں استعماری گوروں کا تھا۔ بدقسمتی سے کچھ مخصوص ثقافتی حالات کی وجہ سے، جس میں تعلیم سرفہرست ہے، یہ ان کی نفسیات کا حصہ ہے، علمی موقف نہیں ہے۔ افسوس کہ اس تحقیر میں بعض اوقات اپنے ملک، کلچر اور یہاں کی روایات سے بے وفائی کا رنگ بھی نمایاں ہو جاتا ہے۔ ان کے اپنے درست ہونے کی واحد دلیل ان کا عالمی طاقت اور سرمائے سے جڑے ہونا ہے، اور وہ سمجھتے ہیں کہ انہیں اپنی جدید تعلیم اور جدید ثقافتی شناخت کے باعث مغرب سے کبریت احمر ہاتھ لگ گئی ہے جو یہاں کے سارے مسائل کا حل ہے، جبکہ اس کبریت احمر کا وہاں جو ملیدہ بنا ہوا ہے اس کی طرف وہ کوئی دھیان نہیں دیتے۔ سیکولر طبقے نے وسائل کے باوجود یہاں کے خاص ثقافتی، تاریخی اور مذہبی مسائل کو پیش نظر رکھتے ہوئے کسی بڑی فکر کی طرف بھی کبھی کوئی پیشرفت نہیں کی، اور اپنی بہتر سماجی اور معاشی پوزیشن کی آڑ لے کر غیر سنجیدہ بحثوں سے اہل وطن کا ناطقہ بند کیے رکھتے ہیں۔ وہ ملک میں جن سیاسی، معاشی اور ریاستی اداروں پر مکمل طور پر قابض ہیں ان کی اصلاح اور ان کو عوام دوست بنانے کی بھی وہ کبھی بات نہیں کرتے۔ اپنی نادانی کی وجہ سے وہ یہ سمجھتے ہیں کہ آئین اور قانون کی چند ایک ایسی شقیں جو مذہبی محتویٰ کی حامل ہیں، ہماری ترقی میں رکاوٹ ہیں۔ انہوں نے ریاست کے پورے استعماری ڈھانچے کو کبھی موضوع بنانے کی بات نہیں کی۔ وہ جلب منفعت اور لوٹ مار کے لیے ریاست کے سارے ذرائع کو استعمال کر کے اپنی معاشی حالت بہتر بنانے اور وسائل بیرون ملک منتقل کرنے میں مصروف رہتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ ان کی معلوماتی پوزیشن مضبوط ہو لیکن ان کی اخلاقی پوزیشن خاصی افسوسناک ہے۔
    یہ عرض کرنا بھی ضروری ہے کہ عوام دوستی پر سیکولر اور مذہبی طبقہ بالکل ایک جیسی سیاسی اور نام نہاد علمی پوزیشن رکھتے ہیں۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ ان کے سیکولرزم اور مذہبی تعبیرات سے عوام کو کوئی سکھ یا فائدہ ملنے والا نہیں ہے۔ اس کی بڑی وجہ سیکولر اور مذہبی طبقات کی ریاست کی بحث میں حد درجہ اقتصاری اور بیمارانہ دلچسپی ہے۔ ایک کہتا ہے کہ ریاست سیکولر ہوتی ہے اور دوسرا کہتا ہے کہ مذہبی ہوتی ہے۔ بس یہ ہے ان کی بحث۔ کیا ریاست قومی ترقی، عوام کی معاشری بہتری، عدلِ اجتماعی، انسان کی آزادی اور انصاف کی فراہمی میں بھی کوئی معنی یا رول رکھتی ہے یا نہیں، یہ ان سب کی بحث سے خارج ہے بلکہ اگر کوئی یہ سوال اٹھائے تو اس کے خلاف یہ دونوں متحد ہو جاتے ہیں۔ دونوں طبقات یہ بھول گئے ہیں کہ عدل اجتماعی کا آدرش سیکولر یا مذہبی میں منقسم نہیں ہو سکتا کیونکہ اس کا واحد مطلب معاشی استحصال کا خاتمہ اور معاشی وسائل کی منصفانہ تقسیم ہے، اور یہ بات دونوں طبقات کو ایک آنکھ نہیں بھاتی۔ سیکولر طبقہ تخلیق پاکستان سے اب تک حکمران ہے، اور اگر وہ اسے ایک ترقی یافتہ ملک اور منصفانہ معاشرہ بنانے ہی کا ارادہ کر لیتے تو یہ بحث ویسے ہی ختم ہو جاتی۔

    (۲) تاریخی اور فکری تناظر
    ہمارے ہاں اسلام اور سیکولرزم (ہم یہاں ناموں کی تفصیل میں نہیں جاتے) کی بحث ۱۸۵۷ سے پہلے کی ہے اور اس جنگ کے بعد اس بحث کا فیصلہ مذہبی طبقے کے خلاف اور جدید طبقے کے حق میں ہو گیا۔ اب تک تاریخ سیکولر یا نیم سیکولر طبقے کے ہمرکاب ہے، اور مذہبی طبقہ صرف ردعمل میں ہے۔ جدید تعلیم، نئی ثقافت اور خاص طور پر جدید معاشی رشتوں کی وجہ سے زمین مذہبی طبقے کے پیروں تلے سے مسلسل نکل رہی ہے اور اسے اپنے موقف کا دفاع کرنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ مذہبی طبقے کے موقف اور کوشش کے علی الرغم ہمارا معاشرہ سیکولر بننے کا عمل تقریباً مکمل کر چکا ہے، اور مذہبی طبقہ اس عمل میں اب شکست اور پسپائی سے دوچار ہے۔ اس عمل کے محرک تمام سیاسی، معاشی اور ثقافتی مؤثرات سیکولر طبقے کے پاس ہیں۔ جدید ٹیکنالوجی اور نئی معاشی قوتوں کی وجہ سے بھی اس عمل میں بہت تیزی آ گئی ہے اور مذہبی طبقے اور مذہب سے لگاؤ رکھنے والوں کی جگہ کم ہوتی جا رہی ہے۔ اگر آدمی حالت انکار میں نہ ہو تو تاریخ کے سفر کی سمت صاف ظاہر ہے۔
    اگر بات کو بالکل سادہ بنایا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ سیکولر طبقے کا نعرہ ”ترقی“ رہا ہے اور مذہبی طبقے کا نعرہ مذہب کا ”دفاع“ رہا ہے۔ ان دونوں نعروں کا اظہار ایک مشترک سیاسی دائرے میں ہوتا ہے، جس سے ایک جدلیاتی فضا کا التباس پیدا ہو جاتا ہے۔ سیاسی موقف کا کوئی بھی تعلق علم، اخلاق وغیرہ سے نہیں ہوتا، صرف طاقت اور سرمائے سے ہوتا ہے۔ سیکولر طبقے کی ”ترقی“ کا مطلب صرف ان کی اپنی ترقی ہے اور مذہبی طبقے کے ”دفاع“ کا مطلب بھی صرف ان کا اپنا دفاع ہے۔ اس ”ترقی“ اور ”دفاع“ میں دونوں طبقات کو ریاست کی مرکزی اہمیت کا اندازہ ہے۔ علم اور بحث کے سارے قلابے اس لیے ملائے جاتے ہیں کہ ریاست کے طاقتی اور معاشی وسائل تک رسائی حاصل ہو جائے۔ ان دونوں کی باہمی جنگ سے اب تک جتنی ”ترقی“ ہوئی ہے، اور اسلام کا جس قدر ”دفاع“ ہوا ہے وہ تو اب نوشتۂ دیوار ہے، اس کے لیے کسی تحقیق کی ضرورت نہیں ہے۔ سیکولر طبقہ اہل مذہب کو ”ترقی“ کی راہ میں رکاوٹ خیال کرتا ہے اور مذہبی طبقہ سیکولرسٹوں کو ”دفاع“ میں رکاوٹ خیال کرتا ہے۔ لیکن ہمیں نہیں بھولنا چاہیے کہ ان کا باہمی نزاع بھی مستقل ہے اور مفادات پر مفاہمت بھی مستقل ہے۔ سیکولرسٹوں کی وجہ سے عوام کے حصے میں جتنی ”ترقی“ آئی ہے اور مذہبی لوگوں کی وجہ سے عوام میں دینداری کو جو فروغ حاصل ہوا ہے وہ تو سب کو نظر آ رہا ہے۔ عوام کے حصے میں صرف تماش بینی ہی آتی ہے۔ اگر سماجی، سیاسی اور معاشی تجزیے کے دیانتدارانہ اسالیب کو اختیار کیا جائے تو صاف اندازہ ہو جاتا ہے کہ اس ”ترقی“ اور ”دفاع“ کی قیمت عوام نے خاک و خون سے ادا کی ہے۔
    اسلام سے محبت رکھنے اور اسے ابدی سرچشمۂ ہدایت ماننے والوں کے لیے یہ صورت حال انتہائی افسوسناک ہے۔ ہمارے خیال میں اس صورت حال کی بڑی وجہ ہمارے ہاں علوم کی موت ہے، جس سے نہ ملکی ترقی ہو پاتی ہے اور نہ اسلام کا دفاع ہو پاتا ہے کیونکہ ملکی ترقی اور مذہب کے دفاع کے لیے واحد ضروری وسیلہ علم ہی ہے۔ ہمارے ہاں علوم کی موت کی دو بنیادی وجوہات ہیں۔ ان میں سے ایک آقائے سرسید کا استعماری علم الکلام ہے اور دوسری وجہ ہمارے ہاں بنیادی عقائد پر ہونے والا وہ داخلی مناقشہ ہے جو اٹھارھویں صدی کے اواخر میں شروع ہوا اور بیسویں صدی کے نصف اول میں بے نتیجہ ختم ہو گیا۔ ہماری کلاسیکل پوزیشن ہمیشہ یہ رہی ہے کہ علم، عقیدے کی فرع ہے اور عقیدے کی بحث میں فتوی یا اخلاقی مواعظ کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔ متقدمین میں اشاعرہ اور معتزلہ کی بحث کا یہی بنیادی نکتہ ہے۔ سیکولرسٹوں کے ساتھ بھی بحث کا اسلوب وہی ہو گا جو معتزلہ کے ساتھ تھا، کہ دلیل اور رد دلیل سے بات کی جائے گی، اور فتوی اور اخلاقی مواعظ سے کام نہیں لیا جائے گا۔ سیکولرسٹوں سے ہونے والی بحث میں ہم کوئی علمی بات تو نہیں کرتے، بس فتوی اور مواعظ جاری کرتے ہیں۔ اس صورت حال میں سیکولرسٹ خاموش ہو جاتے ہیں۔ لیکن جدید تاریخ کے مؤثرات تو اس بحث کے تابع نہیں ہیں، اور وہ اپنا کام کرتے رہتے ہیں، اور انہوں نے ہمارے مذہبی معاشرے کو اندر سے بالکل کھوکھلا کر دیا ہے۔ سیکولرسٹوں کی بات رک جانے سے معاشرے کے سیکولر بننے کا عمل تو نہیں رک پاتا۔ اس صورت حال کو مذہبی طبقہ اپنی فتح کا اعلامیہ سمجھتا ہے اور اسے معلوم نہیں ہو رہا کہ اس کی جگہ اور گنجائش کس قدر کم ہو گئی ہے۔ یہ عمل صرف ریاست کی سطح پر واقع نہیں ہو رہا، بلکہ معاشرے کی ہر سطح پر بھی بہت تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے۔ کوئی قانونی شق تو ہم مظاہرہ وغیرہ کر کے بچا سکتے ہیں، جو ضروری بھی ہے، لیکن معاشرہ جس نہایت بنیادی تبدیلی سے گزر رہا ہے، اور جس طرح سے دینی اقدار اجنبی ہوتی جا رہی ہیں، کیا ان کی بات کرنا دین کے دفاع میں شامل نہیں ہے؟ تاریخی مؤثرات کو وعظ و نصیحت سے لگام نہیں دی جا سکتی۔ اس کام کے لیے علمی اور فکری تجزیے اور ان کی بنیاد پر بننے والی جامع حکمت عملی کی ضرورت ہوتی ہے، اور ہر قدم پر مورچہ لگانا پڑتا ہے، لیکن ہم اس دفاع کی بات نہیں کرتے۔ تحکم، ادعایت، مذہبی بلیک میل اور مانعاتی ہتھکنڈوں سے لوگوں کو مذہب سے دور تو کیا جا سکتا ہے، قریب نہیں لایا جا سکتا۔ مذہبی دفاع اور بقا کے لیے صرف سیاسی وسائل پر مرتکز رہنا اور دیگر تمام تہذیبی وسائل کو سیکولرزم کے سپرد کر دینے سے ہم دینی دفاع کی کون سی جنگ لڑ رہے ہیں؟ ہمیں تھوڑی دیر رک کر دیانتداری سے اپنے حالات اور احوال کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔

  • دلیل ، تازہ ہوا کا جھونکا ہے. فضل ہادی حسن

    دلیل ، تازہ ہوا کا جھونکا ہے. فضل ہادی حسن

    10929198_936951229648955_6554040637456884104_nبحث علمی ہو یا سیاسی، موضوع مغرب ہو یا اسلام، لیڈر اسلامسٹ ہو یا سیکولرسٹ، پارٹی مذہبی ہو یا لسانی، کسی بھی ایشو یا موضوع کو دلیل کی بنیاد “قبول” کرنا اور دلیل ہی کی بنیاد پر “رد” کرنا ہوگا ۔ اسی سے معاشرہ آگے بڑھے گا، تحمل وبرداشت کی صفات پیدا ہوں گی اور وہ مثبت تبدیلی آئے گی جس کے ہم سب بلاتفریق اسلامسٹ و سیکولرسٹ خواہشمند ہیں ورنہ جہاں ہم آج کھڑے ہیں اور سوشل میڈیا پر جیسے بحث جاری ہے، اسے دیکھ کر خوف آتا ہے اور گاہے گمان ہوتا ہے کہ یہ ایک لاوا ہے جو کسی وقت پھٹ کر معاشرے کو تباہی سے دوچار کرسکتا ہے ۔
    اگر استدلال کی بنیاد پر قبول و رد ہوگا اور دلیل سے گفتگو ہوگی تو فضا خوشبو سے معطر ہوگی ورنہ گھٹن اور متعفن فضا میں سانس لینا بھی مشکل و محال اور بازی ہارنے کا ذریعہ و سبب بھی بن سکتا ہے۔
    جب نظریات و افکار کے درمیان کشمکش اور جنگ و جدال عروج پر پہنچتا ہے تو زوال و تباہی کا رونما ہونا بھی تقریبا “مقدر” ہوتا ہے، مغلوب سائیڈ کےلیے جینا محال ہو جاتا ہے، نتیجتا ایک ردعمل پیدا ہوتا ہے، اور معاشرہ سکڑ کر جمود، لاعلمی و جہالت کا شکار ہوجاتا ہے۔
    آج سوشل میڈیا کے اس دور میں اگر ہم اپنے مزاج اور جذبات و خیالات کو تحمل وبرداشت اور رواداری کے پیرامیٹر سے ماپنے کی کوشش کریں تو اس وقت خود کو اخلاقی اور علمی طور پر نچلی سطح پر موجود پایئں گے۔ ہمارا معاشرہ ماڈل تو دور کی بات “تذکرہ” کرنے کا بھی قابل نہیں رہا ہے۔ “دلیل” کا جواب “گالی” سے اور “اعتراض” کا جواب “تھپڑ” سے دینا چاہتے ہیں۔ ہم علم و تحقیق کا جواب جہالت و درندگی سے دینے کا سوچتے ہیں۔ ہمارے سماج میں تحمل و برداشت کو غیرت و بہادری کے متضاد معنوں میں استعمال کیا جانے لگا ہے۔ ہم “دلیل و استدلال” کی بجائے “زور و زبردستی” سے نظریات کو ٹھونسے کے لیے حکمت عملیاں تیار کرنے لگےہیں۔

    ایک ایسے معاشرے میں رہتے ہوئے:

    اب ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم پھر سے اس روایت کو زندہ کریں۔
    جہاں بات سلیقے سے شروع ہو۔
    جہاں شائستگی و متانت کے ساتھ مکالمہ ہو۔
    جہاں بحث و مباحثوں کے دوران برداشت و اخلاق کا دامن تھاما جائے۔
    جہاں پھر سے “دلیل” کی بنیاد پر “قبول و رد” تو ہو لیکن “سرکوبی و شکست” مقصود و مطلوب نہ ہو۔

    ہمارے محترم جناب محمد عامر ہاشم خاکوانی صاحب کی قیادت میں “دلیل” کی ٹیم مبارک باد کی مستحق ہے جس نے ایسے حالات میں ایک اچھا قدم اٹھایا ہے۔ مجھے “دلیل” کی آمد پر بے حد خوشی بھی ہے اور میں اس پلیٹ فارم سے مثبت تبادلہ خیال کے لیے پرامید و متمنی بھی ہوں۔

  • دلیل پر لکھنے کےلیے رہنما ہدایات –  عامر ہاشم خاکوانی

    دلیل پر لکھنے کےلیے رہنما ہدایات – عامر ہاشم خاکوانی

    محمد عامر ہاشم خاکوانی

    11866265_1085617161465765_1795389247132538024_n سوشل میڈیا پر نوجوان لکھنے کے حوالے سے متحرک ہوئے ہیں۔ مجھے خوشی ہے کہ نوجوان نسل کسی مثبت اور تعمیری کام میں لگی ہے اور کتابیں پڑھنے، سوچنے اور دلیل کے ساتھ بات کرنے کی طرف مائل ہوئی ہے، جو ہمارے سماج کے لیے بڑی خوش آئند بات ہے۔ کنزیومراِزم کے اس بے رحم، سفاک دور میں بے غرض قلمی جدوجہد کرنے والے مبارک اور تحسین کے مستحق ہیں۔ دلچسپی سے ان نوجوانوں کی تحریریں پڑھتا رہا ہوں، اور داد دینے میں بھی کبھی بخل سے کام نہیں لیا۔
    ہماری ویب سائیٹ’’ دلیل ‘‘ نئے لکھنے والوں‌کے لئے اوپن ہے، اس میں اپنی تحریریں ضرور بھیجیں، اچھی اور دلچسپ تحریریں پہلی ترجیح میں شائع ہوجائیں گی۔ چند ایک نکات کا خیال رکھیں گے تو ہمارے لئے بھی آسانی ہوجائے گی۔
    دلیل ایک ویب سائیٹ ہے، خالص علمی یا فکری جریدہ نہیں، اس کے پڑھنے والوں‌میں‌ہر قسم کے لوگ شامل ہوں گے، بہت سے ایسے جنہیں ثقیل بحثیں اور گنجلک نثر کا ابلاغ نہیں ہوسکے گا۔ اس لئے تحریر کو عام فہم اور سلیس رکھا جائے تو زیادہ بہتر ابلاغ ہوسکتا ہے۔
    ’’دلیل‘‘ فرقہ ورانہ، مسلکی مباحث کی حوصلہ شکنی کرتی اور نفرت انگیز مواد کے حامل کسی بھی مضمون کو شائع کرنے کے حق میں نہیں ہے، ایسا رجحان رکھنے والے صاحبان زحمت نہ فرمائیں۔
    ان پیج میں‌تحریر لکھ کر یا اسے یونی کوڈ کے ذریعے ان پیج میں کنورٹ کر کے ای میل کیجئے ۔ بھیجنے سے پہلے اس کی اچھی طرح پروف ریڈنگ کر لی جائے، املا کی غلطیاں‌خاص طو پر درست کرنا ضروری ہیں۔ ایسی تحریریں جلد شائع ہوجائیں گی۔ بعض اوقات کنورٹ‌کرتے ہوئے تاریخ اور ہندسے الٹ جاتے ہیں، اسے چیک کر کے بھیجنا چاہیے ۔
    ہم صرف فکری تحریروں‌تک محدود نہیں رہنا چاہتے، ہلکی پھلکی شگفتہ تحریریں بھی بھیجی جا سکتی ہیں، ادبی تخلیقیت لئے بلاگز اور سپورٹس کے حوالے سے مضامین بھی شامل کئے جا سکتے ہیں۔
    بعض نوجوان جوش جذبات میں مخالفوں پر فتوے لگانے کو ترجیح دیتے ہیں، یہ مناسب رویہ نہیں۔ اسلامسٹ بمقابلہ سیکولراِزم کا معرکہ ٹی ٹوئنٹی میچ ہرگز نہیں، اسے ون ڈے بھی نہیں سمجھنا چاہیے۔ یہ کرکٹ کی اصطلاح میں ٹیسٹ میچ ہے۔ طویل دورانیے کا کھیل۔ جس میں دو تین باتیں اہم ہیں۔اس میچ نے جلدی ختم نہیں ہوجانا۔ لمبا معرکہ ہوگا۔ یہ قسطوں میں لڑی جانے والی جنگ ہے، باربار غنیم کے لشکر پلٹ پلٹ کر آئیں گے۔ ہر بار تلوار سونت کر لڑنا پڑے گا۔ انداز بدلتے رہیں گے، سپاہیوں کے چہرے تبدیل ہوں گے، مگر اہداف وہی ہیں۔ جانے پہچانے، دیکھے بھالے۔ اس محاذ کا رُخ کرنے والے سوچ سمجھ کر میدان میں اتریں۔ نظریاتی جدوجہد بعض اوقات مختلف انداز میں کی جاتی ہے۔پچھلی نسل نے اپنے انداز میں یہ معرکہ لڑا۔ اب ہمارے زمانے میں اور ہمارے بعد یہی مسائل، مکالمے اور مُجادلے چلتے رہیں گے۔ٹیسٹ میچ میں جلدبازی اور عجلت کے بجائے کھلاڑی کی محنت، تکنیک اور مہارت زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔ فکری مکالمے میں بھی یہ چیزیں اتنی ہی اہم ہیں۔ اچھی طرح تیاری کر کے، سوچ سمجھ کر قدم بڑھانا چاہیے۔
    مکالمہ ہر حال میں شائستگی سے کرنا چاہیے۔ انکسار، استدلال اور علمی شائستگی تحریر کے بنیادی جوہر ہونے چاہئیں۔ طنز، تضحیک، دَشنام اور اختلافِ رائے رکھنے والے کو تحمل سے برداشت کرنا ہوگا۔ رائٹسٹ ہونے کے دعوے داروں کو یہ سوچ کر لکھنا چاہیے کہ وہ اسلامی ذہن کے علمبردار ہیں اور ان کی تحریر ہی سے مذہبی سوچ رکھنے والوں کے کردار کو جانچا جائے گا۔ اس لیے اخلاق، شائستگی اور متانت کا دامن قطعی نہ چھوڑا جائے۔ یہی اصول لبرل اور ترقی پسند کہلانے والوں‌ پر عائد ہوتا ہے ۔
    ہر تحریر یہ سوچ کر لکھی جائے کہ ہمارے سرکار، آقا اور محسنِ اعظم حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم اگر اسے پڑھیں تو آپؐ کا ردعمل کیا ہوسکتا ہے۔ کوئی ایسا جملہ یا لفظ نہ ہو، جس سے سرکارِ مدینہؐ کی منور پیشانی پر کوئی شکن نمودار ہو اور انہیں لگے کہ ان کے اُمتی، ان کے نام لیوا دینِ اسلام کی بے توقیری کا باعث بنے۔ کوئی بھی سچا، کھرا لکھاری صرف اس لیے اس میدان میں اُترتا اور اپنے دین، اپنی اخلاقی اقدار اور تصورِ دین کا دفاع کرتا ہے کہ روزِ آخرت اس کی یہ کاوش قبول ہو اور بخشش کا باعث بنے۔ اس لیے تحریر کا معیار بھی ویسا ہی کڑا اور سخت ہونا چاہیے۔ بدتمیزوں، بداخلاق، عامیانہ گفتگو کرنے والوں، پست الفاظ استعمال کرنے والوں کی یہاں کوئی جگہ نہیں۔
    دلیل اور منتظم دلیل کو کسی بھی تحریر کو ایڈٹ کرنے، رد کرنے کا مکمل حق حاصل ہے۔ لکھنے والوں کو یہ حق تسلیم کرنا اور ہماری ادارتی مجبوریوں کو سمجھنا ہوگا۔ بعض مباحث پبلک فورم کے لئے نہیں ہوتے، ان پر نجی، محدود نشست میں بات ہوسکتی ہے، لکھنے والوں کو یہ بات ذہن میں رکھنا ہوگی۔

  • بہت سی کائناتوں کا نظریہ – ادریس آزاد

    بہت سی کائناتوں کا نظریہ – ادریس آزاد

    12983425_10206383337009150_3234894972904837408_o
    جب قدیم انسان رات کے آسمان کو دیکھتے تھے تو سوچتے تھے کہ ساری کائنات صرف انہی کے گِرد گھوم رہی ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ خیال ایک لطیفہ محسوس ہونے لگا۔ اور ہم انسانوں نے جان لیا کہ ہم ایک سیّارے پر آباد ہیں جو ایک ستارے یعنی سُورج کے گرد گھوم رہا ہے۔ آج ہمیں یہ پتہ ہے کہ ہمارا سولر سسٹم، ہماری کہکشاں کے بہت دور دراز کے ایک کونے میں واقع ہے۔ اور ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ ہماری کہکشاں جیسی اربوں کہکشائیں اور بھی ہیں۔

    اب ہم جو یہ سمجھتے ہیں کہ دکھائی دینے والی تمام کائنات ہی کُل کائنات ہے، کہیں ہم قدیم انسان کی طرح تو نہیں سوچ رہے؟ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اگر ہم ’’ملٹی ورس‘‘ میں ہوں یعنی ہماری کائنات محض ایک چھوٹا سا، دُور دراز کا کوئی حصہ ہو کسی بہت بڑی ’’ملٹی ورس‘‘ کا اور سوسال بعد ہمیں پتہ چلے کہ ہماری کُل کائنات تو فقط ایک ذرّے سے بھی کم حیثیت کی مالک تھی تو آج کی ساری فلکیات کتنی حقیر سی لگے گی، جیسے قدیم انسان کی فلکیات، آج ہمیں حقیر لگتی ہے جو یہ سوچتا تھا کہ ساری کائنات اس کے گرد گھوم رہی ہے۔

    میساچیوسِٹس (Massachusetts ) اِنسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے پروفیسر، انفلیشن تھیوری کے خالق، ڈاکٹر ایلن گُوتھ (Dr Alan Guth) کا کہنا ہے کہ،

    ’’ملٹی ورس ایک عام سا تصور ہے ۔ یہ کہنا غلط نہیں، کہ ہوسکتاہے ہماری کائنات کوئی منفرد شئے نہ ہو۔ ہوسکتاہے کائناتیں بہت زیادہ ہوں‘‘۔

    سٹینڈفورڈ اِنسٹیٹیوٹ فار تھیوریٹکل فزکس کے ڈائریکٹر معروف ماہر ِ طبیعات لیونارڈ سسکنڈ (Leonard Susskind) کے بقول،

    ’’ملٹی ورس کا تصور، محض خیالی طور پر ترقی نہیں پارہا بلکہ یہ تصور خالص تجربی فزکس اور تھیوریٹکل فزکس کے ملاپ سے پیدا ہوا ہے اور مسلسل پَنپ رہا ہے‘‘

    ملٹی ورس کے کئی نظریات اب تک متعارف ہوچکے ہیں۔ جن میں ’’کاسمولوجیکل ویو‘‘، ’’پاکٹ یونیورسز‘‘، ’’سٹرنگ تھیوری کی ملٹی ورس‘‘ اور کوانٹم کی ’’مینی ورلڈز‘‘ تھیوری خاص طور پر قابل ِ ذکر ہیں۔

    ۱۔ کاسمولوجیکل ویو

    غالباً سسکنڈ نے اِسی وجہ سے کہا کہ ملٹی ورس کا نظریہ ’’تجربی فزکس‘‘ کی جانب سے بھی آرہاہے۔ کیونکہ پہلا نظریہ یہ ہے کہ ہم جہاں تک دیکھ سکتے ہیں، فقط وہاں تک ہی دیکھ پاتے ہیں۔ ہم آئندہ بھی جہاں تک دیکھ سکیں گے فقط وہاں تک ہی دیکھ پائیں گے۔ زمین تک جس کسی سیارے ستارے یا کہکشاں کی روشنی پہنچ رہی ہے اور پہنچ سکتی ہے ، وہیں تک ہمارے دیکھنے کی حدود ہیں۔ آج ہم جانتے ہیں کہ ہماری کائنات کا ایک سِرا بِگ بینگ ہے جو آج سے تیرہ اعشاریہ آٹھ (13.8) بلین سال پہلے پیش آنے والا ایک حادثہ ہے۔ چونکہ کائنات پھیل رہی ہے اور اس نے خلا کو بہت دور دور تک پھیلا دیا ہے اس لیے اب ہم بیالیس بلین سال دُور تک دیکھنے کی صلاحیت کے سائنسی طور پر مالک ہوچکے ہیں۔

    فی زمانہ ماہرینِ طبیعات نظر آنے والی کائنات کو ’’آبزرویبل یونیورس‘‘ یعنی قابل ِ مشاہدہ کائنات کہہ کر پکارتے ہیں۔ قابل ِ مشاہدہ کائنات کو ’’ہبل ریڈی اَس‘‘ بھی کہا جاتاہے۔ ایسا کہنے کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ اب سب جانتے ہیں کہ تمام کہکشائیں بہت زیادہ اونچے درجے کی رفتار کے ساتھ ایک دوسرے سے دور جارہی ہیں۔ ان تمام کہکشاؤں کی گنتی کا جو اندازہ لگایا گیا تھا کہ ہماری کائنات میں ایک کھرب کہکشائیں ہیں، اب وہ اندازہ بہت پرانا ہوچکاہے۔ اب فلکیات کے ماہرین کہتے ہیں کہ ایسی کہکشائیں بھی ہیں جن کا ہم کبھی مشاہدہ نہیں کرسکتے کیونکہ کائنات بہت زیادہ اونچے درجے کی رفتار کے ساتھ باہر کی طرف پھیل رہی ہے۔ قابل ِ مشاہدہ کائنات سے پَرے کیا ہے، یہ ہم ابھی نہیں جان سکتے ہیں لیکن اس بات کے نناوے اعشاریہ نناوے فیصد چانسز ہیں کہ قابل ِ مشاہدہ کائنات سے پَرے اور کائناتیں ہیں اور بےشمار کائناتیں ہیں۔ اور یہ سب کائناتیں جو ہبل ریڈی اَس سے باہر ہیں، اپنے اپنے شاہد کے لیے اپنے اپنے الگ الگ ’’ہبل ریڈی اَسز‘‘ کی بھی حامل ہیں۔ فی زمانہ دنیا میں ایک بھی فزکس کا ماہر ایسا نہیں پایا جاتا جو یہ سمجھتاہوں کہ ہماری کائنات اپنے آخری کناروں پر ختم ہوجاتی ہے۔

    ۲۔ پاکٹ یونیورسز

    یہ دوسرا نظریہ ہے جس میں سب سے پہلے ’’انفلیشن تھیوری‘‘ کو بیان کیا جاتاہے جو ایلن گُوتھ کی دریافت ہے اور جسے فزکس درست نظریہ تسلیم کرچکی ہے۔ سٹینڈ فورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر ’’اینڈری لِنڈے‘‘ نے اس تھیوری پر مزید کام کیا اور اسے ایک طرح سے نئی جہات فراہم کیں۔ اس تھیوری کے مطابق ہماری کائنات فقط ایک سیکنڈ کے ٹریلینتھ آف دی ٹریلینتھ آف دی ٹریلینتھویں حصے میں پھیل کر اتنی بڑی ہوگئی کہ تمام تر قابل ِ مشاہدہ کائنات، اپنے تمام تر مادہ اور توانائی سمیت وجود میں آگئی۔ اس نظریہ کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ ’’انفلیشن‘‘ ہرکہیں، کسی ایک ہی وقت میں رُک تو نہ گئی ہوگی۔ سو جس کائنات کو ہم دیکھتے ہیں یہ ’’انفلیشن کے انڈے‘‘ سے نکلنے والا فقط ایک بچہ ہے۔ لیکن اِسی انفلیشن سے ، کہیں اور، کئی ’’بَبل یونیورسز‘‘ یا ’’پاکٹ یونیورسز‘‘ بھی تخلیق ہوئی ہونگی۔ خود ایلن گوتھ کے الفاظ ہیں کہ،

    ’’ہم نہیں جانتے کہ انفلیشن کیسے شروع ہوئی۔ ہم یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ انفلیشن صرف ایک بار واقع ہوئی یا بار بار بھی واقع ہوئی ہوگی۔ لیکن فرض کریں کہ انفلیشن فقط ایک ہی بارپیش آئی ہو تب بھی یہ لاتعداد ’’پاکٹ یونیورسز‘‘ پیدا کرنے کا باعث ہوسکتی ہے‘‘۔

    یہ دیگر کائناتیں کبھی ہم بھی دیکھ پائینگے؟ اس سوال کا جواب دینا ابھی ممکن ہیں۔ التبہ ماہرین یہ تسلیم کرتے ہیں کہ ایسی کائناتوں میں فزکس کے قوانین ہمارے قوانین سے بالکل مختلف ہوسکتے ہیں۔ ممکن ہے وہاں کشش ثقل نہ ہو۔ ممکن ہے وہاں کیمیائی عناصر کوئی اور ہوں یا ان کی ساخت ہی سرے سے ایسی ہو کہ انہیں مادہ نہ کہاجاسکے۔ ضروری نہیں کہ ان میں ستارے ہوں اور اگر ہوں تو کیا معلوم وہ کیسے ہوں۔

    ۳۔ سٹرنگ تھیوری کی کائناتیں

    سٹرنگ تھیوری بنیادی طور پر تھیوری آف جنرل ریلیٹوٹی اور کوانٹم میکانیکس کو یکجا کرنے کی کوشش کا نام ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ سٹرنگ تھیوری کے مطابق ایسی بہت سی باتیں جو تھیوری تجویز کرتی ہے اور جو ریاضیاتی طور پر درست ہیں جیسا کہ مثلاً ’سپیس کی دس ڈائمینشنز‘ کی بات ، تو ایسی باتیں جو ہم اپنی قابلِ مشاہدہ کائنات میں نہیں دیکھ پارہے عین ممکن ہے کہ دوسری کائناتوں میں واقع ہورہی ہوں۔ سٹرنگ تھیوری ملٹی ورس کے نظریہ کی سب سے بڑی حامی ہے۔ سٹرنگ تھیوری کے مطابق ہم ایک ملٹی ورس کا حصہ ہیں جہاں فزکس کے مختلف قوانین ایک دوسرے کے پہلو میں وجود رکھتے ہوئے یا مخالف ہوتے بھی قائم رہتے ہیں۔ اس خیال کو ’’اینتھروپک سیلیکشن‘‘ کہا جاتاہے۔ اینتھروپک پرنسپل یہ ہے کہ کسی بھی کائنات کو پہنچاننے کا طریقہ ہمیشہ وہ ہونا چاہیے جو شعوری طور پر قابل ِ فہم ہو اور ذہانت کو اپیل کرتاہو۔ اسی پرنسپل کے مطابق ہم کہتے ہیں کہ ہماری کائنات انسانوں کے لیے بطور خاص مناسب ترین کائنات ہے۔ (سٹرنگ تھیوری کی ملٹی ورس پر میں نے پہلے کافی لکھاہے)۔

    ۴۔ مینی ورلڈ تھیوری

    مینی ورلڈ تھیوری سب سے دلچسپ ہے۔ یہ تھیوری براہِ راست کوانٹم فزکس کی جانب سے وارد ہوئی ہے۔ اس تھیوری کے مطابق دوسری کائناتوں میں فزکس کے قوانین ہم سے مختلف نہیں ہیں۔ دوسری کائناتیں دراصل ہم سے فاصلوں کے اعتبار سے الگ نہیں ہیں بلکہ ٹائم کے اعتبار سے الگ ہیں۔ یہ کوائنٹم امکانات کی بنا پر تشکیل پانے والی تھیوری ہے۔ اس کے مطابق ہر وہ امکان جو ہم سوچ سکتے ہیں، کسی دوسری کائنات میں ممکن ہے۔ اسے ملٹی ٹائم لائنز، یا پیرالل رئیلٹیز بھی کہا جاتاہے۔ یہ تھیوری بنیادی طور پر کوانٹم فزکس کے پرنسپل آف اَن سرٹینٹی کی وجہ سے وجود میں آئی ہے۔ بقول ایل گُوتھ،

    ’’کوانٹم میکانکس ’’پری ڈِکٹِو‘‘ تھیوری نہیں ہے بلکہ یہ ’’پرابیبلسٹک‘‘ تھیوری ہے۔ مثال کے طور پر ایک فوٹان کسی پولرائزر پر، اینگل آف پولرائزیشن سے پینتالیس ڈگری کا زاویہ بنا کر گزرتاہے تو اس بات کے ففٹی ففٹی چانسز ہیں کہ وہ پولرائزز سے اسی زاویے کے ساتھ گزرے گا یا نہیں؟ کوئی نہیں بتاسکتا۔ چنانچہ کوانٹم میکانیکس کی ایک تشریح جو میرے نزدیک کافی مناسب ہے اس کے مطابق جب فوٹان پولرائزر کو پینتالیس ڈگری پر چھوتاہے تو دراصل دونوں صورتیں بیک وقت پیش آتی ہیں یعنی وہ پینتالیس ڈگری پر گزرا بھی اور نہیں بھی گزرا‘‘

    مینی ورلڈ تھیوری میں پوری کائنات کا وجود ایسے ہے جیسے ایک فوٹان کا وجود ہے۔ ایک فوٹان ہزارہا جگہ پر بیک وقت ہونے کے ثبوت دیتاہے۔ اور جس طرح فوٹان ہر ممکنہ راستے سے بیک وقت گزرتاہے بعینہ اسی طرح ہرممکن کائنات وجود رکھتی ہے۔ کیونکہ کائنات میں مادے اور توانائی کے تمام تر ذرّات اسی کوانٹم نیچر کا مظاہرہ کرتے ہیں۔

  • تبدیلی مگر کیسے؟ غلام اصغر ساجد

    تبدیلی مگر کیسے؟ غلام اصغر ساجد

    1939656_1647114415508774_2201907491607776658_oغلام اصغر ساجد
    انسان کی سرشت تبدیل ہو جانا ہے، اس کے لیے اسے کسی خارجی دباؤ کی ضرورت نہیں پڑتی- مثلاً آپ کسی ایک ہی جوتے کو سالہا سال پہننا پسند نہیں کرتے، کچھ عرصے بعد ہی اسے تبدیل کرنے کی خواہش آپ میں جنم لینے لگتی ہے چاہے اس جوتے کی حالت بہتر ہی کیوں نہ ہو- اس تبدیلی پر اثر انداز ہونے والے خارجی عناصر میں آپ کی تنخواہ ہے یا آپ کا شیخ و میمن ہونا- آپ ہفتے کے سات دن اور ہر دن کے تین اوقات میں فقط روٹی کھانا پسند نہیں کرتے، اگر بہت ہی برے حالات بھی ہوں تو ہفتہ میں ایک آدھ دن آپ چاول بھی تناول کرتے ہیں- پھر خود روٹی کے ساتھ سالن کو تبدیل کرتے رہتے ہیں- آپ روز بینگن کے ساتھ روٹی کھا کے دکھائیں- ایسا تو حکماء مریضوں کے ساتھ کرتے ہیں کہ صبح دوپہر شام کدو چھیل کے کچا کھانا ہے- ہم اپنے گھروں میں اپنی خواتین کو دیکھتے ہیں کہ ہر سال وہ کمرے کی سینٹنگ تبدیل کر دیتی ہیں، بیڈ بھی وہی ہوتا ہے، صوفہ بھی وہی ہوتا ہے، الماری اور شو کیس بھی وہی ہوتا ہے لیکن تبدیل ہونے کی سرشت مجبور کرتی ہے کہ کچھ آگے پیچھے کر کے ہی حلیہ بدل دیا جائے- اس کار جہاں میں باریک بینی سے جائزہ لیجئے تبدیل ہونے کی یہ اندرونی خواہش آپ کو پورے معاشرے میں نظر آئے گی- لیکن آپ نے دیکھا کہ کبھی انسان نے سوچا ہو کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کا جو طریقہ بتایا ہو انسان کی جبلت نے اسے بدلنے کی خواہش ظاہر کی ہو، خدا کو سجدہ ہی کرنا ہے نا، تو کیا مغرب میں خدا ہے مشرق میں نہیں ہوگا؟ کیوں نہ رخ بدل لیا جائے؟ چلیں ایک ہی سورۃ فاتحہ بار بار پڑھنے سے اکتاہت پیدا ہو گئی ہو، قرآن مجید تو پورا معتبر اور فصیلت والا ہے سورۃ فاتحہ کی جگہ کوئی اور سورت پڑھ لیتے ہیں؟ ایسی سوچ نہیں آتی کیوں کہ یقین ٹوٹنے لگتا ہے، تعلق کمزور ہونے لگتا ہے- یہاں دین کی تقریبا ساری ہی تعلیمات اور اعمال رکھے جا سکتے ہیں اور صاف محسوس کیا جا سکتا ہے کہ الہام خود ایک خارجی عنصر ہے جسے ایمان کی طاقت بہم پہنچ رہی ہے، انسان کی دماغی ارتقاء سے ان کا مادی وجود بدل رہا ہے، ایسے میں شریعت کے فروع میں تبدیلی کا فطری جذبہ پیدا ہوتا ہے لیکن وہ اپنے ایمان کے بچاؤ کے لیے اسے روکنے کی کوشش کرتا ہے- اور اگر ایمان پر اس کی گرفت کمزور پڑ گئی تو پھر وہ اگلا سوال کرتا ہے کہ مصافحہ درست تو پھر معانقہ بھی درست ہونا چاہیے- اور اگر لونڈی حلال تھی تو گرل فرینڈ بھی حلال کرو- اور پھر کوئی اس کو اجتہاد کا نام دے تو ہمیں ضرور سوچنا چاہیے کہ خواہش کو پورا کرنے کا نام اجتہاد ہوگا؟ اب ہم سوچنے لگیں گے کہ کیا مذہب کو جامد بنانے والی سوچ پیدا کی جا رہی ہے- نہیں انسان کو بنانے والا خالق اپنی کاریگری سے خوب واقف ہے، اس لیے اپنی تعلیمات اور ہدایات کی روشنی میں بدلنے کی آزادی دیتا ہے لیکن اس آزادی کو خواہش کے تابع رکھنے کے بجائے ایمان کے تابع بناتا ہے- لیکن اکثر ایسا ہوا ہے کہ حد درجہ انتہا پسندی، مسلمان کو مادی وسائل جیسے لاوڈ اسپیکر کو برتنے سے بھی روکتی ہے اور حد درجہ آزاد روی، خواتین سے مصافحے کی اجازت دے دیتی ہے

  • اللہ کے قرب کا نزدیک ترین راستہ

    اللہ کے قرب کا نزدیک ترین راستہ

    13096214_1084936381564885_2826449074714780519_nایک وقت تھا کہ مسلم معاشرے میں خانقاہ ایک زندہ ادارہ تھا جس میں آدم سازی اور آدم گری کا کام ہوتا تھا. صوفیا کی زندگی کی نمایاں خوبیوں میں سے ایک خوبی اللہ کے بندوں کے حق میں دل کو حسد اور کینے سے پاک رکھنا تھا. اخلاق کی اس اعلی فضیلت کے باعث وہ نفرتیں کرنے کے بجائے محبت تقسیم کرنے والے لوگ تھے. انسانوں سے محبت کا محرک کبھی جنسی شہوت بھی ہو سکتی ہے، کسی کے مادی اور دنیاوی مقام کی وجہ سے کسی تعریف یا اور غرض کی لالچ بھی؛ ان محرکات کو اگر کوئی چیز سفلی مقام سے اٹھا کر بالا کر سکتی ہے تو وہ اللہ کی رضا کا سچا جذبہ اور دربار رسالت صلی اللہ علیہ وسلم سے اخلاص کی نسبت ہے. صوفیا تو اپنے ہاں ایک نظم کے ساتھ سالک پر محنت کرتے تھے تاکہ اس کے من کا میلاپن دھل سکے. آج دلوں میں نہ وہ جذب باقی رہا اور نہ وہ ادارے باقی رہے تاہم مسلم دنیا میں تجدید و احیاے دین کی تحریکیں ان اداروں کا کافی حد تک بدل ہیں جنھوں نے انسانوں کو دین کے ساتھ جوڑے رکھا. بات لمبی ہو گئی. اصل میں ایک مختصر عمل کی ترغیب دینا مقصود تھا جس کے بارے میں مولانا محمد زکریا صاحب ر ح نے لکھا ہے کہ یہ اللہ کے قرب کا سب سے نزدیک ترین راستہ ہے. وہ عمل سرکار دو جہاں صلی اللہ علیہ و سلم پر کثرت سے درود شریف پڑھنا ہے. اس عمل سے بندہ اللہ اور فرشتوں کے عمل میں شریک ہو جاتا ہے. اس کے ساتھ گناہوں سے اپنی حفاظت کی پوری کوشش بھی کرتے رہنا چاہیے. یہ عمل انسان کی دعا اور عبادت میں بھی طاقت کا سبب بنتا ہے. ہمارا دل جتنا ایمان کے مرکز پر ٹکتا چلا جائے، یہ آج کی مادیت کے ظلماتی فتنوں کے مقابلے میں ڈھال ہے. اس کے ساتھ تھوڑی ذہانت اور تھوڑا علم بھی حفاظت کا ذریعہ ہے ورنہ دل اگر نا محکمی کے مرض کا شکار ہے تو اعلی ذہانت اور زیادہ علم کے ساتھ بھی بعید نہیں ہے کہ انسان کا دل لادینیت کے ہاتھوں مغلوب ہو کر رہ جائے. آج بعض اوقات مدرسوں کے فاضل بھی زندگی کے میدان میں آ کر جو دین کا جوہر کھو رہے ہیں، اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ وہ طالب علمی میں دل کی دنیا پر صحیح توجہ نہیں دے سکے

  • پسند کی شادی ، اسلامی احکامات اور غیرت کا معاملہ – کاشف حفیظ صدیقی

    پسند کی شادی ، اسلامی احکامات اور غیرت کا معاملہ – کاشف حفیظ صدیقی

    10953200_10152705232588341_7738640678239656909_nجس طرح آپ کو میری رائے سے اختلاف ہے ، مجھے اجازت دیں کہ یہ میرا حق ہے کہ میں آپ کی رائے سے بھی اختلاف کروں ۔ رائے سے اختلاف کا مطلب ذاتی دشمنی نہیں ، ہاں مکالمہ ضرور ہونا چاہیے ۔ لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ مجھے کہا جائے کہ تم ایک بند اور تنگ ذہن کے آدمی ہو اور میں ایک روشن خیال ۔ میں آپ کی رائے سے اختلاف رکھتا ہوں مگر اس کا احترام کرتا ہوں اور آپ سے بھی یہی توقع رکھتا ہوں

    کچھ معاملات پر میرے کچھ محبت رکھنے والے دوست میری درد دل کے ساتھ اصلاح چاہتے ہیں مگر میں ہوں کوڑھ مغز ، کچھ سمجھ میں دیر سے آتا ہے ۔ مجھے کہا گیا ہے کہ حامد میر کا پسند کی شادی پر کالم پڑھوں اورکھلے دل کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی رائے سے رجوع کر لوں ۔ مگر اس کالم کو پڑھنے کے باوجود میں ایسا کرنے سے قاصر ہوں. سب سے پہلے تو حامد میر نے اپنے کالم میں ایک بےباک تبصرہ یہ کیا ہے کہ حضرت خدیجہ ؓ نے نبی مہربان ﷺ سے پسند کی شادی کی تھی ۔ ذرا ٹھہریے الفاظ کے چنائو میں احتیاط برتیے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ نبی کریم ﷺ مردانہ وجاہت کا نمونہ تھے بلکہ حسن یوسف ؑ سے بڑھ کر حسین تھے۔ مگر کیا حضرت خدیجہ ؓ نے ان میں مردانہ وجاہت دیکھی یا نبی کریم ﷺ کی امانت داری اور دیانت داری سے متاثر ہوئیں۔ ساتھ میں عرض یہ بھی ہے کہ عرف عام میں متاثر ہونا ایک علیحدہ بات ہے اور پسند اور عشق ایک جدا چیز ہے۔ یہ شادی کسی بازاری عشق اور عام معاشرتی پسند سے بڑھ کر امانت داری اور تقویٰ کی بنیاد کسی سعید روح کی ترجیح بنی۔ بات اتنی آسان نہیں جتنی جرات سے کہہ دی گئی ۔ کسی خبر کی رپورٹنگ اور روئے زمین کی سب سے مقدم ترین ہستی صلی اللہ علیہ و سلم کے بارے میں کچھ کہتے ہوئے ادب کا دامن ملحوظ خاطر رکھا جانا چاہیے

    اسلام میں عورت کو مکمل آزادی دی گئی کہ وہ کسی رشتے سے کسی بھی بنیاد پہ انکار کر دے ۔ ابودائود، نسائی اور ترمذی کی روایت مشکوۃ شریف کے باب ، باب الولی فی النکاح، میں موجود ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ کنواری لڑکی سے نکاح کرتے وقت اس سے پوچھا جائے، اگر خاموشی اختیار کرے تو یہی اس کا اذن ہے اور اگر انکار کر دیا تو اس پر کوئی جبر نہیں۔ ابو داؤد کی ہی ایک اور روایت ہے کہ ایک کنواری لڑکی نبی کریم ﷺ کے پاس آئی اور کہنے لگی کہ میرے باپ نے میرا نکاح جبرا کر دیا ہے ، میں راضی نہیں ہوں ۔ آپ ﷺ نے اس کو اختیار دے دیا ۔ نبی مہربان ﷺ کے اس دیے گئے حق کا کون ظالم انکار کر رہا ہے ۔ نکاح کے وقت اس کو طلاق کا حق لینے کا بھی اختیار ہے اور مہرلڑکی کا ضامن بنایا گیا.

    مگر یاد رکھنا چاہیے کی اسلامی معاشرت کی بنیاد شرم اور حیا پر ہے (جو مرد اور عورت دونوں کے لیے لازمی ہے) ۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ حیا اور ایمان ، ہمیشہ اکھٹے ہی رہتے ہیں ۔ جب ان میں سے ایک کو اٹھا لیا جائے تو دوسراخود بخود اٹھ جاتا ہے ۔ (مشکوۃ) سورۃ النور میں “غص بصر” یعنی نظریں نیچی رکھنے کا حکم دیا گیا اور حدیث ﷺ میں بتایا گیا کہ پہلی نظر تمھاری اور دوسری شیطان کی ہوتی ہے ۔ یہ بھی بیان کیا گیا کہ غیر مرد اور غیرعورت کے درمیان تیسرا ہمیشہ شیطان ہی ہوتا ہے ۔ مشکوۃ ۔ سورۃ النور میں یہ بھی ہدایت کی گئی کہ غیر محرم لوگوں سے اونچی آواز میں بات مت کرو. سورۃ النور میں ہی اسلامی معاشرت میں فواحش کی روک تھام پر زور دیا گیا اور اس کو پھیلانے والوں پہ وعید کی گئی اور مرد و خواتین کے آزادانہ اختلاط کو ناپسند کیا گیا. ساتھ ہی پورے قرآن میں جہاں جہاں اطیع اللہ و اطیع رسول ﷺ کی بات کی گئی وہاں فورا بعد اطاعت والدین کا حکم دیا گیا ۔ ماں باپ کی اطاعت کی حد درجہ اہمیت رکھی گئی اور اولاد کو اپنے والدین کی اطاعت کا حکم دیا گیا چاہے وہ کتنی ہی ناگوار ہو الا یہ کہ وہ اللہ کی معصیت پر مبنی ہو کہ وہاں اطاعت لازمی نہیں. نکاح کے لیے ولی کو لازمی کیا گیا۔ احمد، ترمذی ، ماجہ اور دارمی میں سیدہ عائشہ ؓ سے مروی یہ حدیث موجود ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ جو عورت اپنے ولی کے بغیر نکاح کرے اس کا نکاح باطل ہے، اس کا نکاح باطل ہے، اس کا نکاح باطل ہے

    اقبال نے کہا کہ “خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی ﷺ”

    بھائی جان، میرے نزدیک (ہو سکتا ہے کہ آپ کے نزدیک نہ ہو) اسلامی معاشرے میں شرم اور حیا لازمی عنصرہے اور اس کے ساتھ والدین کی اطاعت ہمارا دینی فریضہ ۔ والدین کو کہا گیا کہ اپنے بچوں کی تربیت دینی اصولوں پہ کرو اور شرم و حیا کا احساس اور پاس ان میں جاں گزیں کرو

    اسلامی سوسائٹی میں مغربی طرز کے عشق و عاشقی کی کوئی گنجائش نہیں. ہاں کسی کو کوئی پسند آسکتا ہے ۔اس لیے نکاح کے حوالے سے اس کا ایک طریق کار ہے جو ہمارے معاشرے میں موجود ہے ۔ جو نبی کریم ﷺ کے زمانے کے معاشرے میں بھی موجود تھا ۔ اسی طریقے کو اپنایا جائے اسی میں برکت اور خیر ہے.

    گھر سے فرار، والدین سے بغاوت، عشق و عاشقی جو میرے نزدیک بے راہ روی کی علاوہ کچھ اور نہیں ، کی قطعا کوئی گنجائش نہیں۔ کسی لڑکی کی اپنے والد کی ترجیح سے انکار کی خبر دینے والے ایسے کتنے کیسسز نبی کریم ﷺ کے زمانے کے لا کر دکھا سکتے ہیں ، جہاں عشق و عاشقی کا جذبہ کار فرما ہو ۔جہاں ولی کے بغیر گھر سے باہر بھاگ کر شادی کر لی گئی ہو؟
    بلند مقاصد کی راہ پہ چلنے والے اس دنیا سے باہر اور بلند ہوتے ہیں ۔
    ؁ جن کے رتبے ہیں سوا ان کی سوا مشکل ہے
    جتنا اس فلمی عشق و عاشقی کو سپورٹ مغربی فکر کے زیر اثر رہ کر کیا جائے گا، ہمارے معاشرے میں المیہ اتنے ہی زیادہ رپورٹ ہوں گے. غیرت کے نام پر قتل ہو یا نافرمانی کے نام پہ (ان دو چیزوں کو بھی خلط ملط کر دیا جاتا ہے) ناقابل قبول ، ناقابل معافی اور ناقابل برداشت ہیں ۔ اس کا کوئی تعلق دین سے نہیں ۔ اسلام اس کی اجازت نہیں دیتا. مگر ہم کو کہا جائے کہ عاصمہ جہانگیر جن کا نعرہ تھا “میں تو ناچوں گی، میں تو گائوں گی” ۔ میرے لیے قابل تقلید ہیں تو میں معذرت چاہتا ہوں

    اسلامی معاشرت کی بنیاد اللہ کا خوف ، اسوہ رسول ﷺ اور تعلیمات رسول ﷺ پہ کامل ایمان ، شرم و حیا ، والدین کی اطاعت اور حسن اخلاق مع ایثار اور وفاداری پہ قائم ہے ۔ اس میں سے کسی ایک چیز کو بھی ہلایا جائے گا تو عمارت کا انہدام ہوگا ۔ جس کی کاوش آج کا میڈیا ور اس کے ایجنٹ کر رہے ہیں

    بس یہ ہمیں منظور نہیں ۔ میں زہر ہلاہل و کبھی کہہ نہ سکا قند

  • تصوف ؛ کس کو صحیح سمجھیں؟ عمران زاہد

    تصوف ؛ کس کو صحیح سمجھیں؟ عمران زاہد

    10155883_10154733532529478_5886019418085289879_nتصوف سے میرا پہلا باقاعدہ تعارف منارہ شریف چکوال تھا۔ 1994 میں کالج کے امتحانات سے فارغ ہو کر مجھے رمضان میں چند دن وہاں گزارنے کا موقعہ ملا تھا ۔۔۔۔ پاس انفاس کے ذکر کا طریقہ سیکھا تھا ۔۔۔ طویل القامت مولانا اکرم اعوان کے خطابات سنے تھے ۔۔۔ حاضر سروس جرنیلوں کو مولانا سے عقیدت سے ملتے دیکھا تھا ۔۔۔ وہیں مولانا اللہ یار خان چکڑالوی مرحوم کے متعلق پتہ چلا تھا ۔۔۔ ان کے صوفی سلسلے سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ کی باقی سلاسل سے امتیازی خصوصیات کا پتہ چلا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سچی بات ہے میں خاصا متاثر ہوا تھا ۔۔۔۔
    :
    منارہ جانے سے پہلے صرف تصوف کی صرف اتنی خبر تھی کہ ہمارے ہمسائیوں میں ، میرے دوست ارشد کے والد صوفی اکرم صاحب ہوتے تھے جو نہایت عبادت گزار تھے ۔۔۔ ایک دن کہنے لگے کہ رام اور رحیم ایک ہی ہستی کے دو نام ہے ۔۔ ہمیں تب اتنا شعور نہیں ہوتا تھا ۔۔۔
    :
    اسی طرح دادی اماں سے پتہ چلا تھا کہ والد صاحب بچپن میں گاؤں کے ایک بزرگ جنہیں صوبیدار صاحب کہا جاتا تھا سے بیعت تھے۔ صوبیدار صاحب ابوکو نماز کے وقت مسجد لیجانے آتے تھے اور ابو ایک ہاتھ میں کتاب پڑھتے رہتے تھے اور صوبیدار صاحب انہیں سہارے سے مسجد لیجاتے تھے ۔۔۔ تایا اختر ، جو ابو کو بچپن کے دوست ہیں، بھی ابو کے ساتھ ہی صوبیدار صاحب سے بیعت ہوئے تھے۔ وہ اکثر ہنستے ہوئے بتاتے ہیں کہ صوبیدار صاحب نے ابو کی ڈیوٹی لگائی تھی کہ وہ اختر کو لازمی نماز پڑھوا دیا کریں ۔۔۔ اور ابو انہیں ہمیشہ نماز کا کہا کرتے تھے ۔۔۔آج بھی تایا جان سے نشست ہوتی ہے تو بہت سے واقعات سناتے ہیں ۔۔ ابو اپنی بیعت کا کبھی کبھی ذکر ضرور کیا کرتے تھے لیکن شاذونادر ۔۔۔
    خیر۔۔۔۔
    :
    منارہ جانے کے اگلے ہی سال جب شہاب نامہ پڑھا تو پتہ چلا کہ شہاب صاحب بھی ایک صوفی تھے ۔۔۔ تصوف کے ضمن میں انہوں نے اپنے روحانی تجربات کو کتاب کے آخری باب “چھوٹا منہ بڑی بات” میں تفصیل سے لکھ دیا تھا۔ میں اس سے بھی خاصا متاثر ہوا تھا۔۔ اس باب کی وضاحت میں ممتاز مفتی صاحب کو الکھ نگری لکھنی پڑی، جس میں انہوں نے شہاب صاحب کو خاصا مافوق الفطرت قسم کی ہستی بنا کر پیش کیا ہے۔
    :
    اسکے بعد تصوف اور صوفیا پہ خاصی کتب پڑھنے کو ملیں ۔۔۔ ایسے صوفیا سے ملنے کا اتفاق بھی ہوا ذکر اذکار کی محفلیں جماتے تھے ۔۔۔ اپنے مریدوں کی قلب ماہیت کر دیا کرتے تھے ۔۔۔ لوگوں کے خیالات اور حالات بدلتے ہوئے بھی دیکھے ۔۔۔ ان میں سے ایک تو کرنٹ مارنے والے بھی تھے ۔۔۔۔ میں ان سب سے دور دور ہی رہا ۔۔۔ کسی کے کہنے پر کبھی ان کی مجالس میں گیا لیکن مجھے یوں لگتا تھا کہ یہ لوگ شاید میری سوچیں اور خیالات پڑھنے پر قادر ہیں اور میں اپنی پرائیویسی میں کسی کو شامل نہیں کرنا چاہتا ۔۔۔ لہٰذا ان کو دور سے سلام تھا۔ ہاں ان میں سے جس سے متاثر ہوا تھا وہ صوفی برکت علی لدھیانوی صاحب تھے ۔۔۔ اس کی وجہ ایک وجہ ان کی سادگی اور خدمت خلق ہے اور دوسری وجہ ہر خاص و عام کا ان کی طرف رجوع تھا۔ ان کے بارے میں پڑھنے کو بھی خاصا ملا۔
    :
    اشفاق احمد صاحب بھی اپنی تحریروں اور گفتگوؤں میں صوفیانہ رنگ لیے ہوئے تھے۔ ہم ان سے بھی متاثر تھے ۔۔۔ بابایحییٰ خان نے پیا رنگ کالا لکھی جو بظاہر ان کے ذاتی واقعات پہ مبنی لگتی ہے ۔۔۔ لیکن وہ واقعات اتنے محیر العقول ہیں کہ آپا بانو قدسیہ نے پیش لفظ میں ہی اسے فکشن قرار دے دیا ہے۔
    :
    عبداللہ بھٹی کے خود نوشت پڑھ کر ان کی چلہ کشی اور مجاہدوں کے بارے میں پتہ چلا اور اندازہ ہوا کہ وہ اپنے علم کو خدمت خلق کے لئے استعمال کر رہے ہیں ۔۔۔۔۔
    :
    خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کے وظیفوں اور تعویزوں کی کتاب بھی زمانہ طالبعلمی میں پڑھی تھی ۔۔ لیکن ان اعمال کرنے کے لئے اجازت ایک خاص ذکر سے مشروط تھی وہ شادی کے بعد کیا۔ کئی لوگوں کو تعویز وغیرہ بنا کر بھی دیے تھے ۔۔۔ پتہ نہیں کسی کو فائدہ ہوا کہ نہیں۔
    :
    چھوٹے بڑے متفرق واقعات بہت سے ہیں ۔۔۔ مشرف دور کی امریکی چندے سے چلنے والی صوفی کونسل وغیرہ کا ذکر رہنے دیں۔
    :
    تصوف کے متعلق سب سے جامع رائے قدرت اللہ شہاب کی لگی جن کے بقول اصل چیز تو شریعت ہے ۔۔ تصوف شریعت کا کنڈرگارڈن ہے ۔۔۔ جو لوگ شریعت کی سیدھی اور خشک راہ پر چلنا دشوار پاتے ہیں انہیں تصوف کی پگڈنڈی کے ذریعے کھیل ہی کھیل میں شریعت کی شاہراہ پر ڈال دیا جاتا ہے ۔۔۔۔۔
    :
    پچھلے دنوں جاوید غامدی صاحب کا تصوف کے متعلق ایک لیکچر اور ایک ٹی وی مذاکرہ یوٹیوب پہ دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ لیکچر خاصا جوانی کی عمر کا تھا ۔۔ لیکن ٹی وی مذاکرہ کوئی زیادہ پرانا نہیں لگتا ۔۔۔ اس میں خورشید ندیم صاحب میزبان تھے اور چار مہمانوں میں سے غامدی صاحب کے علاوہ قابل ذکر شخصیت احمد جاوید صاحب کی تھی ۔۔۔۔۔۔
    :
    غامدی صاحب تصوف کو اسلام سے الگ ایک نیا دین گردانتے ہیں۔ ان کے نزدیک صوفیاء کرام کی تعلیمات دو پرتوں میں ہے۔۔۔ ایک عوام کے لئے جو کہ شریعت کے عین مطابق ہیں ۔۔۔ دوسری خواص اور خواص سے بھی آگے کے لوگوں کے لئے ۔۔۔ وہ سراسر قران و حدیث کے خلاف ہے۔۔۔ انہوں نے خاص طور پر توحید و رسالت پر صوفیا کے نظریات پیش کیے ہیں ۔۔۔ جو سن کر صاف لگتا ہے کہ واقعی یہ قران و حدیث سے صریحاً متصادم ہیں۔۔ ان نظریات کو کم از کم اسلام نہیں کہا جا سکتا, کوئی روحانی واردات ہو تو کہا نہیں جا سکتا ۔۔۔۔ انہوں نے مختلف صوفیا مثلاً ابن عربی، غزالی، شاہ ولی اللی، شاہ اسمعٰیل شہید کی تحریروں میں سے چن چن کر وہ اقتباسات پیش کیے جنہیں ایک عام مسلمان کبھی بھی قبول نہیں کر سکتا ۔۔۔ غامدی صاحب نے یہ بھی بتایا کہ صوفیا کی کتب میں لکھا ہوا ہے کہ عام لوگوں کی توحید اور خاص لوگوں کی توحید مختلف ہے اور خاص لوگوں کی توحید کو عام لوگوں پر آشکار کرنا کفر ہے ۔۔۔ (وہی بات جو میاں محمد بخش نے کی تھی کہ خاصاں دی گل عاماں اندر نئیں مناسب کرنی ۔۔ مٹھی کھیر پکا محمد، تے کتیاں اگے دھرنی)۔۔۔ منصور حلاج کے اناالحق کا ذکر بھی کیا ۔۔۔ جس کو صوفیا کے بقول سرِّ ربانی فاش کرنے کے جرم میں سولی چڑھنا پڑا ۔۔۔۔ جوخواص کی توحید انہوں نے بتائی، اس میں اور شرک میں کوئی خاص فرق نہیں ہے۔ قران میں بیان کردہ توحید تو فوراً سمجھ آ جاتی ہے لیکن صوفیاء کرام کی خواص کی توحید ایک چیستان ہے ۔۔۔ رسالت کے متعلق صوفیا کے خیال یہ ہے کہ تشریعی نبوت ختم ہو گئی لیکن مقام ِ نبوت تک رسائی آج بھی ممکن ہے۔اس مقام پر جا کر سالک براہ راست خدا سے رہنمائی لیتا ہے ۔۔ اس مقام پہ کسی شریعت کی ضرورت باقی رہتی ہے ۔۔ مرزا غلام احمد کی دعاوی بھی کچھ ایسے ہی تھے ۔۔ صوفیا کی تحریروں کے پیمانے پر دیکھا جائے تو وہ ایک صوفی تھا (نعوذ باللہ) ۔۔۔
    :
    حضرات ۔۔ غامدی صاحب نے جو اقتباسات پیش کیے وہ واقعی ہی اس طرح کے مفاہیم پہ مشتمل تھے جو میں نے اوپر شئیر کیے ۔۔ میں جتنا سمجھ سکا سلیس زبان میں شئیر کر دیا۔۔ نبوت کے بارے میں باتوں سے یاد آیا کہ یوسف کذاب بھی ایسی ہی باتیں کیا کرتا تھا ۔۔۔عام مسلمان صوفیاء کی خواص کے لئے لکھی ہوئی کتب سے شاید اس لئےزیادہ واقف نہیں کہ ایک تو وہ فارسی یا عربی میں ہیں ۔۔ اور دوسرا وہ عوام کے لکھی ہوئی کتب سے اتنے مرعوب ہو چکے ہوتے ہیں کہ خواص کے لئے لکھی ہوئی کتب میں لکھی ہوئی باتوں کو سر جھکا کر مان لیتے ہیں۔ ایک اور پہلو شاید یہ ہو کہ یہ عبارات ایسی مشکل اور ادق اصطلاحات پر مشکل ہیں کہ انہیں سمجھنا ہی کارِ دارد ہے۔ مثلاً اس اقتباس کو سمجھنے کی کوشش کیجیے ۔۔
    “پس جس نے حق کو ، حق سے ، حق میں ، چشم حق سے دیکھا، وہی عارف ہے ۔ اور جس نے حق کو حق سے ، حق میں دیکھا ، مگر بچشم خود دیکھا، وہ عارف نہیں ہے ۔ اور جس نے حق کو نہ حق سے دیکھا اور نہ حق میں اور اِس انتظار میں رہا کہ وہ اِسے بچشم خود ہی دیکھے گا ۹؂ تو وہ مشاہدۂ حق سے محروم محض جاہل ہے۔”
    :
    یا اسے سمجھنے کی کوشش کیجیے ۔
    “اگرچہ مخلوق، بظاہر خالق سے الگ ہے ، لیکن باعتبار حقیقت خالق ہی مخلوق اور مخلوق ہی خالق ہے ۔ یہ سب ایک ہی حقیقت سے ہیں ۔ نہیں، بلکہ وہی حقیقت واحدہ اور وہی اِن سب حقائق میں نمایاں ہے ۔ ‘‘
    :
    اس اقتباس میں صوفی اپنے شیخ کو ہی نبی کریم ؐ کے درجے پر فائز کر رہا ہے (نعوذ باللہ)

    “انسان کامل وہ مدار ہے جس پر اول سے آخر تک وجود کے سارے افلاک گردش کرتے ہیں، اور جب وجود کی ابتدا ہوئی، اُس وقت سے لے کر ابدالآباد تک وہ ایک ہی ہے ، پھر اُس کی گوناگوں صورتیں ہیں اور وہ یہودونصاریٰ کی عبادت گاہوں میں ظاہر ہوتا ہے۔ چنانچہ اُس کی ایک صورت کے لحاظ سے اُس کا ایک نام رکھا جاتا ہے، جبکہ دوسری صورت کے لحاظ سے اُس کا وہ نام نہیں رکھا جاتا۔ اُس کا اصلی نام محمد ہے۔ اُس کی کنیت ابو القاسم، وصف عبد اللہ اور لقب شمس الدین ہے ؛ پھر دوسری صورتوں کے لحاظ سے اُس کے دوسرے نام ہیں ، اور ہر زمانہ میں جو صورت وہ اختیار کرتا ہے، اُس کے لحاظ سے اُس کا ایک نام ہوتا ہے۔ میں نے اُسے اپنے شیخ شرف الدین اسمٰعیل الجبرتی کی صورت میں اِس طرح دیکھا کہ مجھے یہ بات بھی معلوم تھی کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور میں یہ بھی جانتا تھا کہ وہ میرے شیخ ہیں ۔”
    :
    اس مذاکرے میں احمد جاوید صاحب نے بھی غامدی صاحب کے موقف سے جزوی اتفاق کیا تھا ۔۔۔ انہیں کہنا پڑا کہ بعض اقتباس ایسے ہی کہ جن کی تاویل کرنا بھی ممکن نہیں۔۔ انہیں رد کر دینا چاہیئے۔۔

    ہاں جو چیز واضح نہ ہو سکی وہ تصوف میں قطب ابدال وغیرہ ہیں۔ ممتاز مفتی بھی الکھ نگری میں اپنی حیرت کو چھپا نہ پایا اس کائنات میں بابوں کا ایک متوازی نظام کار فرما ہے جہاں فائلیں، سمریاں، سفارشیں چلتی ہیں ۔۔ بڑے بڑے فیصلے ہوتے ہیں ۔۔ واللہ اعلم۔ حضرت ابن عربی رح اپنی تصانیف میں اس نظام پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔
    :
    :
    ڈاکٹر امین صاحب ،جو ایک مستند سکالر ہیں اور معروف مجلے البرہان کے مدیر ہیں، سے میں نے غامدی صاحب کی تصوف پر رائے کے متعلق پوچھا ۔۔۔ انہوں نے مختصراً یہ بتایا کہ غامدی صاحب کی رائے درست نہیں ۔۔۔ تصوف میں بلاشبہ بہت سے خرابیاں در آئی ہیں لیکن اس کا حل تصوف سے جان چھڑانا نہیں، اس کی اصلاح کرنا ہے۔ تصوف کو انہوں نے تزکیہ نفس سے معنون کیا جس کا ذکر قران پاک میں کئی جگہوں پر ہے اور مسلمانوں کی اس کی ترغیب دلائی گئی ہے۔ تصوف کی جو تعریف انہوں نے فرمائی اس کے مطابق تصوف (یا تزکیہ نفس) دو اجزاء پر مشتمل ہے۔ ۔۔ ایک ذکر دوسرا صحبت ۔۔ صحبت سے مراد نیک لوگوں کی کمپنی جس میں رہ کر آپ بھی نیک ہو سکتے ہیں۔

    صحبت صالح ترا صالح کند
    صحبت طالح ترا طالح کند
    یعنی نیک کی صحبت آپ کو نیک بنائی گی اور برے کی صحبت برا۔
    :
    انہوں نے زور دے کر کہا کہ تصوف کو آخر کیسے رد کر دیا جائے کہ یہ صدیوں سے آزمودہ ہے اور اس کے اثرات معاشرے اور افراد پر تزکیہ نفس کے حوالے سےثابت شدہ ہیں ۔۔۔
    :
    انہوں نے تصوف پر ہونے والے اعتراضات کے ضمن میں ارشاد فرمایا کہ صوفیا کے دو مشہور گروہ گزرے ہیں ۔۔ ایک وہ جنہوں نے عملی اصلاح کی ۔۔ لوگوں کا تزکیہ کیا۔۔۔ بڑے بڑے محدثین اور فقہا اس صف میں شامل ہیں ۔۔۔ جن کی پاکیزہ صحبت سے لاکھوں لوگوں نے فیض پایا اور اپنے نفوس کو پاک کیا۔۔۔ دوسرا گروہ وہ ہے جس نے تصوف کو ایک فلسفے کے طور پر دلائل سے پیش کیا ۔۔ اس میں انہوں نے ضرور ٹھوکر کھائی ہے۔۔ اور اس کی وجہ اُس دور کے صوفیا پر یونانی فلسفے اور ان کے دیومالا کا اثر ہے۔ یہ لوگ وحدت الوجود اور اس طرح کے فلسفوں اور بحثوں میں الجھے رہے ۔۔۔ اور غامدی صاحب کے جو اعتراضات ہیں وہ شاید اس گروہ کے لئے ہیں ۔۔۔ گویا تصوف کی دو اقسام ہیں۔۔ عملی تصوف اور نظریاتی تصوف۔۔۔ ڈاکٹر امین صاحب کی حتمی رائِے یہی تھی کہ موجودہ تصوف میں جو جھاڑ جھنکار اگ آیا ہے اس کو صاف کر کے اس کی اصل شکل یعنی افراد کے تزکیے کے نظام کو بحال کرنے کی ضرورت ہے ۔ تصوف قران و حدیث میں بیان کردہ حدود سے باہر کوئی چیز نہیں ہے ۔۔۔۔۔
    :
    اشغالِ تصوف یعنی پاس انفاس، چلے، حق ہو کی ضربوں وغیرہ کے متعلق ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ یہ مشقیں دین کا حصہ نہیں ہیں ۔۔ لیکن صوفیاء نے انہیں ارتکاز توجہ حاصل کرنے کے لئے استعمال کیا ہے اور ذکر کے ساتھ ملا دیا۔۔۔ ان مشقوں کے استعمال سے اللہ کے ذکر میں ارتکاز حاصل ہوتا ہے ۔۔۔ اس سے زیادہ ان مشقوں کی کوئی حیثیت نہیں۔۔۔۔
    :
    ڈاکٹر صاحب نے عام لوگوں کے لئے “تصوف کیا ہے” نامی کتابچہ بھی لکھا ہے، جو ابھی ہماری دسترس میں نہیں ہے۔
    :
    اب ہم اس شش و پنج میں ہیں کہ بات غامدی صاحب کی بھی پھینکنے والی نہیں اور غلط ڈاکٹر امین بھی نہیں ہیں۔
    :
    آپ کیا کہتے ہیں اس ضمن میں؟

  • ہمارے ٹی وی اینکرز کا طرزعمل 

    ہمارے ٹی وی اینکرز کا طرزعمل 

    مولانا زاہدالراشدی

    11207283_730027597102152_1025614031351883226_nرمضان المبارک کے دوران (۱۲ سے ۱۶ رمضان ) پانچ دن کراچی میں گزارنے کا موقع ملا۔ ماہ مقدس میں مختلف ٹی وی چینلز کی خصوصی نشریات میں سے جناب انیق احمد کا سنجیدہ اور با مقصد پروگرام ’’روح رمضان‘‘ اس سفر کا باعث بنا۔ میں عام طور پر ٹی وی پروگراموں سے گریز کرتا ہوں اور دعوت کے باوجود معذرت کر دیتا ہوں جس کی سب سے بڑی وجہ ہمارے بہت سے اینکرز کی یہ پالیسی اور طریق کار ہے کہ وہ اپنے مہمانوں کو بات کہنے کا موقع دینے کی بجائے ان سے اپنی بات کہلوانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اور خاص طور پر مذہبی راہ نماؤں کے بارے میں تو یہ بات طے شدہ ہے کہ مذہب کی نمائندگی کے لیے چن چن کر ایسے حضرات کو سامنے لایا جاتا ہے اور ان سے بعض باتیں حیلے بہانے سے اس انداز سے کہلوائی جاتی ہیں کہ مذہب کے نام پر کوئی ڈھنگ کی بات پیش نہ ہو سکے۔اور جو بات بھی ہو وہ مذہب اور مذہبی اقدار پر عوامی یقین و اعتماد کو کمزور کرنے کا ذریعہ بن جائے۔ یہ بہت اوپر کی سطح پر طے شدہ پالیسی ہے اور اس ماحول میں اگر کوئی سنجیدہ شخص اپنی بات کہنے کی کوشش بھی کرے تو اسے زبردستی کرنا پڑتی ہے۔ میں خود ایسے متعدد مراحل سے گزر چکا ہوں جن میں سے چند کا ذکر مناسب معلوم ہوتا ہے۔
    نائن الیون کے بعد جب افغانستان کی طالبان حکومت سے امریکہ یہ مطالبہ کر رہا تھا کہ نائن الیون کے سانحہ میں مبینہ طور پر ملوث ہونے کی وجہ سے اسامہ بن لادن کو امریکہ کے حوالہ کر دیا جائے جس پر طالبان یہ کہہ رہے تھے کہ اگر کسی مسلمہ بین الاقوامی فورم پر یہ الزام ثابت کر دیا جائے تو وہ یہ مطالبہ پورا کرنے کے لیے تیار ہیں۔ اس دوران لندن کے ایک ٹی وی کی دعوت پر میں ایک پروگرام میں شریک ہوا۔ محترم لارڈ نذیر احمد بھی اس کے شرکاء میں سے تھے۔ بعض دانش ور حضرات یہ کہہ رہے تھے کہ جب امریکہ اسامہ کو ملزم سمجھتا ہے اور حوالگی کا مطالبہ کر رہا ہے تو طالبان حکومت کو یہ بات تسلیم کر لینی چاہیے۔ جبکہ میرا موقف یہ تھا کہ طالبان حکومت کا یہ موقف بے وزن نہیں ہے کہ محض الزام پر وہ ایسا نہیں کریں گے جب تک کسی مسلمہ بین الاقوامی فورم پر اس کے ثبوت فراہم نہ کر دیے جائیں۔ پروگرام اردو زبان میں تھا اور لائیو تھا۔ ہم سب اردو میں بات کر رہے تھے لیکن میں نے جوں ہی یہ بات زور دے کر کہی کہ امریکہ اس کیس میں مدعی ہے یا جج کی حیثیت بھی اسی کو حاصل ہے؟ تو پروگرام کا ماحول یکلخت تبدیل ہوگیا، گفتگو انگریزی میں ہونے لگی، اور میں انگریزی زبان سے نابلد ہونے کی وجہ سے خاموش تماشائی بن کر رہ گیا۔
    اسی طرح ایک بار مجھے اسلام آباد میں پی ٹی وی کے ایک پروگرام میں کسی موضوع پر گفتگو کے لیے بلایا گیا۔ میزبان ایک معروف صحافی تھے جو وفات پا چکے ہیں، اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائیں۔ انہوں نے پروگرام کا آغاز کیا اور میرا مختصر تعارف کرانے کے بعد گفتگو شروع کر دی۔ گفتگو زیادہ تر علماء کرام کے طرز عمل پر تنقید کے حوالہ سے تھی، وہ مسلسل گفتگو کرتے چلے گئے، میں خاموش بیٹھا سن رہا تھا، جب پروگرام کا طے شدہ وقت ختم ہونے کے قریب پہنچا تو میں نے مجبورًا مداخلت کی اور کہا کہ محترم! آپ نے مجھے اس موضوع پر گفتگو کرنے کے لیے بلایا ہے یا اپنی تقریر سنانے کے لیے؟ یہ تو میں کسی جگہ بھی ٹی وی سیٹ کے سامنے بیٹھ کر سن سکتا تھا، اس پر وہ مجھے موقع دینے پر مجبور ہوئے اور میں بمشکل چند منٹ گفتگو کر پایا۔
    تیسرا واقعہ اس سے بھی دلچسپ ہے۔ چند سال قبل میں اپنے بعض تعلیمی پروگراموں کے لیے کراچی میں تھا، ایک پرائیویٹ ٹی وی چینل کی طرف سے دعوت ملی کہ ’’اسلامائزیشن کے لیے ہوم ورک‘‘ کے حوالہ سے ایک پروگرام ہو رہا ہے، کیا آپ اس میں شریک ہوں گے؟ موضوع میری دلچسپی کا تھا اس لیے میں نے ہاں کر دی۔ جب پروگرام میں پہنچاتو گفتگو کے لیے چند دیگر حضرات بھی موجود تھے۔ میزبان نے گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے کم و بیش طنزیہ لہجے میں سوال داغ دیا کہ آپ علماء کرام کے پاس نفاذ اسلام کے لیے کوئی ہوم ورک بھی موجود ہے یا ویسے ہی نعرے لگاتے چلے جا رہے ہیں؟ یہ کہہ کر انہوں نے سوال کا رخ ایک مولانا صاحب کی طرف کر دیا جن سے میں متعارف نہیں تھا لیکن مجھے اتنا اندازہ تھا کہ ان کی اس موضوع پر تیاری نہیں ہے، یا اس موضوع پر وہ مدلل گفتگو نہیں کر سکیں گے۔ میں ساری تکنیک سمجھ گیا کہ اس سوال پر نامکمل اور مبہم جواب ہی اینکر صاحب کی ضرورت ہے جس کے لیے یہ شریف سے مولانا صاحب قابو کیے گئے ہیں۔ جبکہ اس سوال و جواب کے موقع پر میری موجودگی دکھانا بھی پروگرام والوں کی حکمت عملی کا حصہ ہے۔
    میں نے مداخلت کی اور کہا کہ اس سوال کا جواب میں دوں گا۔ میزبان نے کہا کہ نہیں مولانا آپ سے ہم کچھ اور سوال کریں گے اور اس سوال کا جواب یہ مولانا صاحب ارشاد فرمائیں گے۔ میں اس پر ڈٹ گیا کہ نہیں اس سوال کا جواب تو میں ہی دوں گا۔ میرا اصرار اور ان کا انکار چند لمحے جاری رہا، بہرحال انہیں ہتھیار ڈالنا پڑے اور میں نے وضاحت کی کہ اسلامائزیشن کے لیے ہمارے پاس اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات اور وفاقی شرعی عدالت کے فیصلوں کے ساتھ ساتھ تمام مکاتب فکر کے اکابر علماء کرام کی متعدد اجتماعی علمی و فقہی کاوشوں کی صورت میں اس قدر مکمل اور جامع ہوم ورک موجود ہے کہ دنیا کا کوئی بھی مسلم ملک نفاذ اسلام کے لیے اس سے استفادہ کر سکتا ہے۔
    یہ چند ذاتی واقعات اس لیے عرض کیے ہیں کہ میں ٹی وی چینلز کے پروگراموں میں شریک ہونے سے عام طور پر گریز کرتا ہوں۔ البتہ انیق صاحب کا پروگرام چونکہ سنجیدہ اور بامقصد ہوتا ہے اس لیے اس میں شریک ہونے کے لیے مصروفیات میں سے ہر سال وقت نکالنا پڑتا ہے۔ چنانچہ اس رمضان المبارک میں بھی تین دن کے دوران سحری اور افطاری کے چھ پروگراموں میں شریک ہوا اور مختلف دینی عنوانات پر کچھ معروضات پیش کرنے کی سعادت حاصل ہوگئی۔