ہوم << سانحۂ کربلا، اعتباری شخصیت اور مطلق العنانیت: چند قابلِ غور پہلو - ڈاکٹر محمد مشتاق احمد

سانحۂ کربلا، اعتباری شخصیت اور مطلق العنانیت: چند قابلِ غور پہلو - ڈاکٹر محمد مشتاق احمد

محمد مشتاق برادر محترم جناب عمار خان ناصر صاحب نے اس موضوع پر ایک فکر انگیز مضمون لکھا ہے۔ یہاں اس مضمون پر تبصرہ چند نکات کی صورت میں پیش کیا جاتا ہے:
1۔ یہ بات بہت اہم ہے کہ سانحۂ کربلا اور ریاست کی اعتباری شخصیت کے تعلق کو قابلِ غور سمجھا گیا ہے۔ ذرا ایک لمحے کے لیے فرض کیجیے کہ جس وقت یہ سانحہ ہوا، اس وقت مسلمان بھی’’ریاست‘‘ نامی اعتباری شخصیت کے قائل تھے۔ اس مفروضے کے ساتھ سانحۂ کربلا کا جائزہ لیجیے۔ جن لوگوں نے ’’حکومت‘‘ کے حکم پر یہ ’’کارروائی‘‘ کی، کیا انھیں اس کام کے لیے کسی عدالت میں ذمہ دار قرار دیا جا سکتا ہے؟ (تفہیم میں آسانی کی خاطر فی الحال سانحۂ کربلا کو بھول کر اس کی جگہ سانحۂ لال مسجد، جسٹ فار دا سیک آف ایگزامپل، فرض کیجیے۔) وہ تو ریاست نامی شخص کے کارندے ہیں، اس کے ہاتھ میں محض آلہ ہیں، ان کی کوئی قانونی ذمہ داری نہیں ہے۔ (کیا لال مسجد کے مسئلے میں کسی نے ان اہلکاروں کی ذمہ داری کی بات کی ہے جنھوں نے احکامات پر عمل کیا؟ صرف پرویز مشرف اور چند افراد کی حد تک کیوں معاملہ محدود رکھا گیا ہے؟)
اچھا تو کیا ’’حکومت‘‘ ذمہ دار ہے؟ نہیں کیونکہ وہ تو ریاست نامی شخص کی نمائندہ ہے۔ البتہ اگر یہ ثابت کیا جائے کہ اس نمائندے نے ان حدود سے تجاوز کیا ہے جو ریاست نامی شخص نے اس کے لیے مقرر کیے ہیں تو پھر اسے ذمہ دار قرار دیا جاسکتا ہے۔ (پرویز مشرف اور شوکت عزیز کے خلاف کارروائی کی بنیاد یہی امر ہے۔) تاہم مسئلہ یہ ہے کہ حکومت صرف مفروضے کی حد تک ہی ریاست کی مقررہ حدود کی پابند ہے۔ عملاً ان حدود کا تعین دستور اور قانون کے ذریعے ہوتا ہے اور دونوں میں ترمیم کا اختیار حکومت کے پاس ہی ہے کیونکہ جمہوریت میں یہ کام اکثریت سے کیا جاتا ہے اور مفروضہ یہ ہے کہ جمہوری حکومت میں اکثریت حکومت ہی کے پاس ہے۔
پھر دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ کیا کوئی شخص حکمران ہونے کے ناطے بطور حکمران ذمہ دار ہے یا ذاتی حیثیت میں بطور فرد ذمہ دار ہے؟ (پرویز مشرف نے مثلاً آرمی چیف کے طور پر دستور معطل کرکے پرویزمشرف کو بطور صدر اختیارات منتقل کردیے، اور پرویزمشرف بطور پرویزمشرف سائیڈ پر کھڑا دیکھتا رہا۔ یہی پیچیدگی غداری کیس میں سب سے بڑی رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔)
اچھا تو کیا ریاست کو اس سانحے کا ذمہ دار قرار دیا جائے؟ یہاں دو مسائل کھڑے ہوجاتے ہیں: ایک یہ کہ ریاست کبھی غلط نہیں کرسکتی (The king can do no wrong)۔ دوسرا یہ کہ ریاست کو جرم کی سزا کیسے دی جائے؟ جسمانی سزا تو اعتباری شخصیت کو دی نہیں جاسکتی اور مالی سزا کا بوجھ اس کے بجائے اس کی رعایا کی جیبوں پر آتا ہے۔
پس یہ وہی بات ہوئی جو اعتباری شخصیت پر تفصیلی بحث میں واضح کی گئی تھی کہ اعتباری شخصیت دراصل ذمہ داری سے بچنے اور اسے کسی اور کی طرف منتقل کرنے (shifting the liability) کےلیے وجود میں لائی گئی ہے، نہ کہ ’’مطلق العنانیت‘‘ سے نمٹنے کے لیے۔
2۔ اگر اس نکتے کے جواب میں عصرحاضر میں بعض سربراہانِ حکومت یا بعض فوجی جرنیلوں کے خلاف فوجداری کارروائی اور مقدمات کا ذکر کیا جائے، تو ابھی سے وضاحت کردوں کہ ایسا تبھی ممکن ہوا ہے جب ریاست کی اعتباری شخصیت کے پردے میں چھید کر لیے گئے ہیں۔ جب تک ریاست کا پردہ بیچ میں حائل ہوتا ہے، ان افراد کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوسکتی۔ یہ کارروائی تبھی ہوسکتی ہے اور ان افراد کو ذمہ دار تبھی قرار دیا جاسکتا ہے، جب یہ پردہ اٹھالیا جائے۔ (پردہ جو اٹھ گیا تو پھر؟)
3۔ تیسری اہم بات یہ ہے کہ اس بحث میں ریاست اور حکومت کے فرق کو نظرانداز کیا گیا ہے۔ طاقت کی جس تقسیم کی مثال دی گئی ہے (مقننہ، عدلیہ اور انتظامیہ) وہ حکومت کی شاخیں ہیں، نہ کہ ریاست کی۔ ریاست نامی اعتباری شخص کے لیے حکومت محض ایک نمائندہ ہے۔ پھر حکومت کی تین شاخیں فرض کی گئی ہیں جن کا ذکر کیا گیا ہے۔
مونٹیسکیو نے، جس نے طاقت کی تقسیم کا یہ تصور دیا ہے، یہ فرض کیا تھا کہ فرد واحد میں یہ تینوں اختیارات مرتکز ہوں تو مطلق العنانیت وجود میں آتی ہے۔ یہ مفروضہ نظری طور پر بھی اور عملاً بھی غلط ثابت ہوا ہے۔ جس وقت مونٹیسکیو نے یہ نظریہ دیا عین اسی وقت برطانیہ میں لارڈ چانسلر کے پاس عدالتی اختیارات بھی تھے (کہ وہ سب سے بڑی عدالت کا سربراہ تھا)، مقننہ کے اختیارات بھی (کہ وہ مقننہ کے ایوانِ بالا کا سب سے اہم رکن تھا) اور انتظامی اختیارات بھی (کہ وہ کابینہ کا سب سے اہم رکن تھا)۔ اس کے باوجود وہ مطلق العنان نہیں تھا۔گویا مطلق العنانیت کا سبب غلط بتایا گیا اور علاج بھی غلط ہی بتایا گیا۔
علاج کی غلطی یہ ہے کہ جب طاقت تقسیم ہو تو طاقت کے ان ستونوں میں تصادم کی کیفیت پیدا ہوتی ہے۔ (پاکستان میں ہی پارلیمنٹ اور سپریم کورٹ کے درمیان کھینچا تانی دیکھ لیجیے۔) یہ تصادم بارہا ریاست کا سارا نظام معطل کرنے کا باعث بن جاتی ہے۔ (سجاد علی شاہ کی سپریم کورٹ نے کیسے نواز شریف کی حکومت کو عضو معطل بنا کر رکھ دیا تھا۔ پھر جو کچھ ہوا وہ نہ دستور کے مطابق تھا نہ طاقت کی تقسیم کے نظریے کے مطابق۔ غیر قانونی و غیر دستوری طریقے سے سجاد علی شاہ کو برطرف کیا گیا تو نظام واپس سیدھی راہ پر آگیا۔ گویا فوج کی مطلق العنانیت نے نظام بچا لیا۔ یہ کوئی ایک تنہا مثال نہیں ہے۔ اندرا گاندھی کے دور میں اس کے اور سپریم کورٹ کے جھگڑے کو دیکھ لیں۔ بیسیوں مثالیں اور بھی دی جاسکتی ہیں۔)
دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ جب طاقت کی تقسیم کے نظریے کو عملاً امریکا کے دستور میں نافذ کرنے کی کوشش کی گئی تو معلوم ہوا کہ یہ ناممکن ہے۔ چنانچہ صدر کے لیے، جو نظری اعتبار سے انتظامیہ کا سربراہ ہے، قانون سازی کے اختیارات بھی مان لیے گئے کہ وہ جو ایگزیکٹو آرڈر جاری کرتا ہے، اس کی حیثیت کانگریس کے منظور کردہ قانون کی ہے اور اس کے لیے یہ اختیار بھی مانا گیا کہ کانگریس کے منظور کردہ قانون کو ویٹو کردے۔ پھر اس کے لیے عدالتی اختیارات بھی مان لیے گئے کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ بھی وہ ختم کرسکتا ہے اور مجرم کو معاف کرسکتا ہے، اور سپریم کورٹ میں ججز کی تعیناتی بھی وہ اپنی مرضی سے اور خالص سیاسی بنیادوں پر کر سکتا ہے۔ اسی طرح سپریم کورٹ کے لیے قانونی و انتظامی اختیارات اور کانگریس کے لیے عدالتی و انتظامی اختیارات بھی مان لیے گئے۔ اس کو ’’چیک اینڈ بیلنس‘‘ کا نام دیا گیا لیکن آسان الفاظ میں اس کا مطلب یہ اعتراف تھا کہ طاقت کی تقسیم کا نظریہ عملاً ناقابلِ تنفیذ ہے۔
4۔ پھر جس وقت مونٹیسکیو نے طاقت کی تقسیم کا نظریہ دیا تو اس کے سامنے حکومت، نہ کہ ریاست، کی تین شاخیں تھیں: مقننہ ، عدلیہ اور انتظامیہ۔ طاقت کے بعض اہم ستون اس نے نظرانداز کیے ہیں۔ سب سے اہم ستون فوج ہے جو طاقت کی اس تقسیم میں کہیں دکھائی نہیں دیتی اور مطلق العنانیت کا سب سے بڑا سبب ماضی میں بھی فوج ہی تھی اور اب بھی فوج ہی ہے۔ اس کے پاس قانون سازی کے اختیارات نہیں ہوتے، قانون کی تعبیر کے اختیارات نہیں ہوتے، قانون کی تنقید کے اختیارات نہیں ہوتے اور اس کے باجود سب کچھ اسی کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ پاکستان میں ہی نہیں، امریکا میں بھی۔ پھر فوج کی اس مطلق العنانیت کو روکنے کے لیے، یا اس کو کسی حد تک محدود کرنے کے لیے، امریکا نے بھی کچھ نظام بنانے کی کوشش کی ہے اور فقہائے کرام نے بھی کی تھی لیکن ان دونوں نظاموں میں اعتباری شخصیت کو مطلق العنانیت پر روک لگانے کے لیے ناگزیر نہیں مانا گیا۔
5۔ فقہائے کرام نے جب ’’شریعت کی بالادستی‘‘ کا نعرہ بلند کیا تو یہ وہی بات تھی جسے اب Rule of Law کہا جاتا ہے اور ارسطو نے کہا تھا Rule of law is better than the rule of any individual.
لیکن قانون کی حکمرانی ہو کیسے؟ جب یہ فرض کیا جائے کہ ریاست نامی اعتباری شخص ہی قانون کا ماخذ ہے۔ قانون تو اس اعتباری شخص کی مرضی کے اظہار کو کہتے ہیں۔ اس قانون کے جواز پر کوئی سوال نہیں اٹھایا جاسکتا (سپریم کورٹ میں بعض قوانین کو چیلنج کرنے کی بات دراصل دستور کے تحت ہوتی ہے اور دستور بھی ریاست ہی کی تخلیق ہوتی ہے)۔ جب حکومت کے پاس یہ اختیار ہو کہ وہ کسی بھی قانون کو تبدیل کرسکتی ہے تو اس کا آسان مطلب یہ ہوا کہ وہ کسی بھی جائز کو ناجائز اور ناجائز کو جائز کرسکتی ہے۔
اس کے برعکس جب یہ کہا جائے کہ کچھ امور ایسے ہیں جو’’ریاست‘‘ کے اختیار سے ہی باہر ہیں، تب ریاست کی مطلق العنانیت کو لگام ڈالی جاتی ہے۔ امریکی نظام میں یہ (جان لاک کے فطری حقوق کے تصور اور سوشل کنٹریکٹ کے نظریے کی بنیاد پر) ’’قانونِ فطرت‘‘ کے موہوم تصور کے ذریعے کیا گیا، جبکہ فقہائے کرام نے ایسا شریعت کی بالادستی، یعنی رول آف لا، کے تصور کے ذریعے کیا۔ جیسے امریکی سپریم کورٹ کانگریس کے بعض قوانین یا صدر کے بعض احکامات کو فطری حقوق کی خلاف ورزی قرار دے کر کالعدم قرر دے سکتی ہے، ایسے ہی فقہائے کرام نے اپنے وقت کے مطلق العنان حکمرانوں کے احکامات کو خلافِ شریعت قرار دے کر ان کی اطاعت ناجائز قرار دی (متغلب کے بعض احکام کی اطاعت دراصل de jure اور de facto کے درمیان فرق پر مبنی ہے جو جدید ریاستوں نے بھی تسلیم کیا ہے)۔
یہ فقہائے کرام کی کاوشوں کا ہی نتیجہ ہے کہ امت کے اجتماعی ضمیر نے صدیوں سے سانحۂ کربلا کو ظلم مانا ہوا ہے اور چند ذہنی مریضوں کو مستثنی کیا جائے تو کوئی بھی یہ نہیں کہتا کہ جو کچھ ہوا اس میں شریعت کی خلاف ورزی نہیں تھی۔ اگر یہ کہا جائے کہ شریعت کی خلاف ورزی کے باوجود اس کی روک تھام نہیں کی گئی تو یہ بھی غلط ہے کیونکہ یہ بات مستشرقین بھی مانتے ہیں کہ اموی اور عباسی مطلق العنانیت کے سامنے اپوزیشن کی حیثیت صرف طبقۂ فقہاء و علماء کو ہی حاصل تھی۔ پھر یہ بھی دیکھیے کہ کیسے یہ ممکن ہوا کہ ان مطلق العنان حکمرانوں نے فقہائے کرام ہی کے اخذ کردہ قوانین کو عملاً نافذ کیا اور عدالتوں میں بھی فقہائے کرام ہی کو بٹھانے پر مجبور ہوئے؟ ہارون الرشید جیسے طاقت ور خلیفہ کو یہ جرات نہ ہوسکی کہ ایک عام قاضی سے پوچھ سکے کہ اس نے ایک مقدمے میں اس کی چہیتی ملکۂ زبیدہ کی سفارش کیوں نہیں مانی؟
6۔ سیاسہ کے متعلق یہ تصور کہ یہاں حکمران کو کھلی چھٹی تھی، بالکل غلط ہے۔ فقہائے کرام نے جس طرح کا نظام وضع کیا، اور جو عملاً صدیوں رائج رہا ہے، اس میں ’’سیاسہ‘‘ کا اختیار ’’شریعہ‘‘ کے قواعد عامہ کی حدود کے اندر مقید تھا اور اس کی حیثیت delegated legislation کی تھی، جیسے آج پارلیمنٹ قانون سازی کا اختیار رکھتی ہے لیکن بعض افراد یا اداروں کو قانون سازی کے اختیارات تفویض کرلیتی ہے اور اس تفویض کی بنا پر جو قانون بنے وہ تب تک جائز ہوتا ہے جب تک وہ تفویض کے حدود کے اندر ہو۔ چنانچہ جب بھی حکمران نے شریعت کے حدود کی خلاف ورزی کی ہے، فقہائے کرام نے اسے سیاسہ ظالمہ قرار دیا اور شرعاً اسے ناجائز، یعنی کالعدم، قرار دیا ہے۔ اسی لیے تو کسی نے بھی ابن زیاد یا حجاج کے اقدام کو جائز نہیں کہا۔
اگر سوال یہ ہے کہ پھر روکنے کا نظام کیوں نہیں بنایا گیا تو جواب یہ ہے کہ نظام بنتے بنتے عشرے اور بعض اوقات صدیاں لگ جاتی ہیں اور نظام بالآخر وجود میں آگیا۔ جس دور کی یہ مثالیں پیش کی جارہی ہیں وہ دور تو تشکیلی دور (formative phase) تھا۔ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت ہو یا دیگر واقعات، یا فقہائے کرام کی قربانیاں اور کاوشیں ہوںِ، ان سے بالآخر وہ تفصیلی قانونی نظام وجود میں آیا جو سیاسہ اور شریعہ کے دو حصوں میں تقسیم تھا اور ان حصوں کے درمیان ہم آہنگی تھی۔ (سیاسہ کی باقی تفصیلات میرے پی ایچ ڈی مقالے میں دیکھی جاسکتی ہیں۔)
7۔ اعتباری شخصیت مطلق العنانیت کا علاج نہیں بلکہ ذمہ داری سے فرار کا طریقہ ہے۔ فقہائے کرام نے جو نظام وضع کیا ہے اس میں معلوم ہے کہ ذمہ داری کس کی ہے اور اس ذمہ داری کی حد کیا ہے۔ یہ مفروضہ غلط ہے کہ امام مطلق العنان تھا۔ امام کے اختیارات ایک جانب شریعت کی حدود کے پابند تھے اور اس کی خلاف ورزی پر اس کے احکامات کی کوئی قانونی حیثیت نہیں تھی، اور دوسری طرف وہ امت کا وکیل تھا اور اس حیثیت سے اس کے اختیارات وکیل کی طرح وکالت کے حدود میں مقید تھے۔ اس پروپوزیشن کو امریکی اعلانِ آزادی کے ساتھ ملا کر پڑھیے تو فقہائے کرام کے مؤقف کی معنویت واضح ہوجائے گی۔
We hold these truths to be self-evident, that all men are created equal, that they are endowed by their Creator with certain unalienable rights, that among these are life, liberty and the pursuit of happiness. That to secure these rights, governments are instituted among men, deriving their just powers from the consent of the governed. That whenever any form of government becomes destructive to these ends, it is the right of the people to alter or to abolish it, and to institute new government, laying its foundation on such principles and organizing its powers in such form, as to them shall seem most likely to effect their safety and happiness.
(ہمارے نزدیک یہ سچائیاں کسی ثبوت کی محتاج نہیں ہیں کہ تمام انسان برابر پیدا کیے گئے ہیں؛ کہ انھیں ان کے خالق کی طرف سے بعض ایسے حقوق بخشے گئے ہیں جو ان سے چھینے نہیں جاسکتے؛ کہ ان حقوق میں زندگی، آزادی اور خوشی کے حصول کے حقوق شامل ہیں؛ کہ ان حقوق کے تحفظ کے لیے انسانوں کے درمیان حکومتیں تشکیل دی جاتی ہیں جو اپنے عادلانہ اختیارات ان لوگوں سے ہی حاصل کرتے ہیں جن پر وہ حکومتیں قائم ہوتی ہیں؛ کہ جب بھی کوئی نظامِ حکومت ان مقاصد کی بربادی کا باعث بنتا ہے تو لوگوں کا یہ حق ہے کہ اسے تبدیل یا ختم کردیں اور اس کی جگہ ایسی حکومت قائم کریں، اس کی بنیادیں ایسے اصولوں پر استوار کریں اور اس کے اختیارات اس طرح تقسیم کریں جو ان کے خیال میں ان کے تحفظ اور خوشی کے حصول کے لیے زیادہ مفید ہو۔)
8۔ اعتباری شخصیت دو طرح کی ہوتی ہے:
ایک کارپوریشن سول: جیسے برطانوی دستور میں ’’کراؤن‘‘ کو مستقل شخصیت مانا جاتا ہے اور ملکہ یا بادشاہ آتے جاتے ہیں (The king is dead; long live the king)۔
اور دوسرا کارپوریشن ایگریگیٹ جب کئی حقیقی اشخاص کے مجموعے کو ایک اعتباری شخص مان لیا جاتا ہے، جیسے کمپنی۔
عمار خان ناصر صاحب کے مضمون میں مسئلہ یہ ہے کہ وہ ریاست کی اعتباری شخصیت کی بات کرتے ہیں، جو کارپوریشن ایگریگیٹ ہے، لیکن اس کے لیے استدلال کارپوریشن سول کے تصور سے کرتے ہیں۔ یہ وہ غلط فہمی ہے جس میں ہمارے کئی دیگر دانشور بھی اس وقت مبتلا ہیں۔
کارپوریشن سول کے دو بڑے فوائد ذکر کیے جاتے ہیں:
ایک یہ کہ یہ ’’نظام کے تسلسل‘‘کے لیے ضروری ہے؛ بادشاہ آئے یا جائے، نظام چلتا رہے۔ ایک صدر کے بعد دوسرا، یا ایک وزیراعظم کی جگہ دوسرا آتا ہے۔
دوسرا یہ کہ اس طرح نواز شریف بطور وزیراعظم اور نواز شریف بطور ابن محمد شریف (یا آصف زرداری بطور صدر یا آصف زرداری بطور ابن حاکم زرداری) میں فرق کیا جاتا ہے۔
فقہائے کرام نے جو نظام وضع کیا اس میں یہ دونوں فوائد موجود ہیں۔ ایک خلیفہ کے بعد دوسرے خلیفہ، یا ایک قاضی کے بعد دوسرا قاضی آتا لیکن نظام چلتا رہتا؛ اسی طرح وہ عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی اہلیت بطور امیرالمؤمنین اور بطور ابن الخطاب میں فرق کرتے (جنین کے غرہ کی مثال یاد کیجیے)، لیکن اس کے لیے انھیں اعتباری شخصیت کی ضرورت پیش نہیں آئی۔
9۔ عمار خان ناصر صاحب کی یہ بات نظری طور پر قابل قبول ہے کہ اگر کسی اجنبی تصور کو آج اپنانے کی ضرورت پڑے تو اس سے صرف اس بنیاد پر اعراض نہ کیا جائے کہ وہ اجنبی ہے۔ ان کی یہ بات بھی صحیح ہے کہ یہ اجنبی تصور اپناتے ہوئے اس میں مناسب تبدیلیوں کی بھی ضرورت ہوگی۔ اس لیے اگر آج پیچیدہ مالیاتی امور یا بین الاقوامی سیاست کے تقاضوں سے نمٹنے کے لیے اعتباری شخصیت کو اپنانے کی ضرورت ہے تو محض یہ ضرورت اسے جواز نہیں دیتی بلکہ پہلے اس تصور کا صحیح فہم حاصل ہونا چاہیے اور پھر اسے اسلامی قانون کے تصورات اور قواعد سے ہم آہنگ بنانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اس کے بعد ہی اس تبدیل شدہ شکل، یا نئے جنم، میں یہ قابل قبول ہوسکتا ہے۔ اس کے برعکس ہمارے اہل علم نے فقہ کی کتابوں سے اس تصور کو برآمد کرنے کی کوشش کی ہے جس کا فائدہ کچھ نہیں ہے اور نقصان بہت زیادہ ہے کیونکہ اس طرح یہ تصور کیا ہمارے نظام کا حصہ بنتا، الٹا اپنے نظام کے متعلق ہی ہمارا تصور ناقص ہوگیا ہے۔
10۔ آخری بات یہ ہے کہ ہمیں اس بات پر اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ سانحۂ کربلا کے وقت فقہائے کرام نے اعتباری شخصیت کا تصور نہیں مانا ہوا تھا ورنہ ریاست کے پردے کے پیچھے چھپنے کی وجہ سے یزید کیا، ابن زیاد بھی اس سانحے کی ذمہ داری سے بری ہوتا۔
ھذا ما عندی، و العلم عند اللہ۔
(ڈاکٹر محمد مشتاق احمد، ایسوسی ایٹ پروفیسر قانون، بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی، اسلام آباد)

Comments

Click here to post a comment