Blog

  • ویلکم مسٹر ڈونلڈ ٹرمپ – انعام الحق مسعودی

    ویلکم مسٹر ڈونلڈ ٹرمپ – انعام الحق مسعودی

    انعام مسعودی ولایت میں چند برس گذارنے کے دوران اپنے دوستوں کو اسلامی شریعت کی اصطلاح ”دارلکفر“ اور ”دارالاسلام“ کا فرق سمجھاتا رہا۔ ایک بڑی تعداد ”گلے گلے“ تک اس تصور میں دھنسی ہو ئی ہے کہ پاکستان سمیت اکثر ”دارالاسلاموں“ کی نسبت انصاف پسند مغربی معاشرہ ہزار گنا بہتر ہے۔ ان کے خیال میں مغربی لوگ جھوٹ نہیں بولتے، چوری بازاری اور بےایمانی ان کا شیوہ نہیں، مفافقت نہیں کرتے، بہت مہذب ہیں اور برداشت کا مادہ رکھتے ہیں، شخصی آزادی اور اظہار رائے کی آزادی بے مثال ہے، جمہوریت اور احتساب کا نظام بہترین ہے، ترقی ان کے مرہون منت ہے اور ہم تو صرف ”لینے والی“ طرف ہیں، مزید یہ کہ وہ ”دینے والی“ طرف، جبکہ دینے والا ہاتھ لینے والے ہاتھ سے بہتر ہے۔ اگراچھی طرح تبلیغ کی جائے تو مغرب مسلمان بن جائے گا اور صرف کلمہ پڑھنے سے وہاں اسلامی شریعت عملاً نافذ ہو جائے گی، کیونکہ ان کے باقی ”اوصاف ِحمیدہ“ تو عین مطابقِ شریعت ہیں، بس کلمہ پڑھنے کی دیر ہے، اسی لیے ہم تو بس اب ولایتی ہیں (اصل اصطلاح جس پر زور دیا جاتا ہے وہ ہے برٹش مسلم، سکاٹش مسلم، امریکن مسلم وغیرہ )۔ ویسے بھی اسلام میں وطن پرستی حرام ہے، بچے عربی سیکھ لیں، دین اور اسلام خود بخود سمجھ آجائے گا۔ اسی لیے عربی کی کلاسوں پر زور دیتے ہیں (چاہے وہاں بھی کلاسوں کا ماحول ”فُل ولایتی“ ہو )۔ ہمارا اور ہمارے بچوں کا دیس اب یہی ہے۔ پاکستان سے ہمارا کیا لینا دینا؟ پاکستان میں رکھا کیا ہے؟ رشتہ داروں کی نظر ہماری دولت پر ہوتی ہے اور وہ دھوکے اور فراڈ سے باز نہیں آتے، اسی لیے ہر رشتہ مطلبی ہے وغیرہ وغیرہ۔ اسی خیال کے مطابق وہاں کی اکثریت اُٹھتے بیٹھتے پاکستان کو کوستی رہتی ہے۔ ایک دلیل یہ بھی دی جاتی ہے کہ کو ن سی بُرائی ہے جو کہ پاکستان میں نہیں ہوتی۔ جنہیں انگور کا رس چاہیے ہے وہ بھی ملتا ہے، جو کسی ناری کی مہکتی ہوئی خوشبووں کے اسیر ہیں وہ پا لیتے ہیں، پاکستان کے وزیر ، سیاستدان اور معاشرہ سب کرپٹ ہیں اس لئے ہم نے تو اب بس یہیں بسنا ہے۔

    اس میں کوئی شک نہیں کہ ان باتوں میں کچھ نہ کچھ وزن بھی ہے، پاکستانی معاشرہ واقعی چند خرابیوں میں بُری طرح جکڑا ہوا ہے۔ انفرادی اور اجتماعی سطح پر اخلاقی طور پر زوال پذیر ہے۔ تاہم مغربی جمہوریت کتنی آزاد اور انصاف پسند ہے اس کا مکمل جائزہ کسی ایک نشست میں لینا ممکن نہیں۔ اگر برطانیہ اور امریکہ کے قصیدہ خوان وہاں کی ان دیکھی اسٹیبلشمنٹ اور اس کی ترجیحات کا جائزہ لینا چاہیں تو برطانیہ اور امریکہ میں ہو نے والے سابقہ الیکشنز کو قریب سے دیکھ لیں یا پھر حال ہی میں ہونے والے ”بریگزٹ“ کے معاملے کو تو ان ممالک کی اصل حکمران قوتوں کے بار ے میں اندازوں سے بڑھ کر حقائق معلوم ہو ں گے۔ امریکہ کے حالیہ الیکشنز کے معاملے میں بھی ہمارے ولایتی بھائی اور ہمارا میڈیا حقیقت پسندی کے بجائے اپنی خواہشات اور جذبات کا اسیر دکھائی دیتا ہے۔ میرے نزدیک ڈونلڈ ٹرمپ کا جیتنا مسلمانوں اور باالخصوص پاکستانیوں کے لیے اس لحاظ سے شاید بہتر ثابت ہو کہ برطانیہ کے مسلمانوں کی طرح ان کی آنکھیں بھی کھل جائیں۔ اس میں کو ئی دوسری رائے نہیں کہ عرصہ دراز سے مغرب میں مقیم پاکستانیوں کی بڑی تعداد ایک کثیر زرمبادلہ پاکستان بھیج رہی ہے تاہم اس کے باجود یورپ، برطانیہ اور امریکہ میں مقیم پاکستانی وہاں کی معیشت میں بھی ایک اہم کردار ادا کررہے ہیں۔

    ٹرمپ کے جیتنے کی صورت میں ایک قابل غور توجہ پہلو یہ بھی ہے کہ وہاں سے خوفزدہ پاکستانی واپسی کے بارے میں ایک بار ضرور سوچیں گے۔ میرے کئی دوست اس پر مجھ سے اظہار خیال کر چکے ہیں۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ برطانیہ میں موجود میرے کئی دوست گذشتہ تین سالوں میں ”نفرت انگیزی“ یا Hate Crimes کی وجہ سے وطن واپسی یا پھر جزوی طور پر یہاں پر بھی اپنے لیے دروازے کھلے رکھنے کےراستے پر گامزن ہیں۔ بالکل اسی طر ح ”اب کی بار – ٹرمپ سرکار“ کے آتے ہی امریکہ سے بھی پاکستانیوں کی ایک بڑ ی تعداد وطن واپسی یا پھر یہاں پر اپنے لیے قابل عزت آپشنز بنانے پر غور کرے گی۔ کیا پاکستان کی حکومت اور یہاں کے پالیسی ساز ادارے اس پر سوچ رہے ہیں کہ وہ کیسے ان پاکستانیوں کو وہ سب سہولتیں دینے کا اہتمام کریں کہ جس سے یہاں پر ایک اچھی اور مثبت معاشی سرگرمی پیدا ہو۔ لیکن کیا کہیے کہ یہاں پر حالات ایسے بالکل بھی نہیں دکھ رہے۔ بلکہ یہاں پر تو پہلے سے موجود سی پیک کی وجہ سے پیداہونے والے سرمایہ کاری کے مواقع سے اپنے مقامی سرمایہ کاروں کو اور ملک کو فائدہ پہنچانے کے لیے سرے سے کوئی منصوبہ بندی ہی نہیں کی گئی۔ ایک دوست نےچند روز قبل لاہور میں ہونے والی ایک کنسٹرکشن کانفرنس اور اس میں بین الاقوامی اداروں کے مقابلے میں مقامی سرمایہ کاروں کے احوال سے متعلق جو صورتحال بتائی ہے اس پر الگ سے لکھنے کی ضرورت ہے۔ لگتا یہ ہے کہ چین کی جانب سے ہمارے ملک میں لگائے جانے والے تنور میں ایندھن کے طور پر تو ہم جلیں گے مگر روٹیاں کوئی اور پکائے گا اور فروخت کسی اور کو ہوں گی، ہمارےحصے کی بھوک ہم ہی بھگتیں گے۔ ہمیشہ کی طرح ”ہر بحران میں سے اچھائی کے مواقع“ موجود ہونے کی صورت میں ٹرمپ کی جیت پاکستان اور پاکستانیوں کے لیے جو مواقع لائی ہے، ہم اور ہمارا ملک اس کے لیے بالکل بھی تیار نہیں۔ اگر ہم تیار ہوتے تو میں بہت پُرجوش ہو کر تمام پاکستانیوں کی طرف سے بھرپور نعرہ لگا کر کہتا، ”ویلکم مسٹر ڈونلڈٹرمپ“

    (انعام الحق مسعودی ماس کمیونیکیشن میں گریجوایشن کے ساتھ برطانیہ سے مینیجمنٹ اسٹڈیز میں پوسٹ گریجوایٹ ہیں۔ گذشتہ سترہ برس سے سوشل سیکٹر، میڈیا اور ایڈورٹائزنگ انڈسٹری سے منسلک ہیں اور ایک پروڈکشن ہاؤس چلانے کے ساتھ ساتھ رفاہی اور سماجی تنظیموں کے لیے بطور فری لانس اور ٹرسٹی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔)

  • ڈونلڈ ٹرمپ اور ہم – عبدالسلام

    ڈونلڈ ٹرمپ اور ہم – عبدالسلام

    عبد السلام پاکستانی ٹی وی چینلز اور اخبارات سے لے کر ایک عام آدمی تک، سب امریکی صدارتی انتخابات میں کافی سرگرم نظر آئے۔ہر جگہ تبصرے اور تجزیے ہوتے رہے کہ اگر ہیلری صدربنی توہم پر کیا اثرات مرتب ہونگے۔اور اگر ٹرمپ بن گیا تو ہمارا کیا ہوگا۔ ایک پریشانی جو کہ چارسو پھیلی ہوئی تھی ہمیں بھی متاثر کئے بغیرنہ رہ سکی۔ لیکن بھلا ہو پاکستان میں تعینات امریکی سفیر کا۔ جس نے ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے خوشخبری سنائی کہ امریکی صدر کوئی بھی بنے۔ پاکستان کے لئے ہماری پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئیگی۔ لہٰذا کم ازکم ہمیں تو اطمینان ہوگیاکہ جو مرضی امریکی صدر بنے کچھ بدلنے والا نہیں ۔ پاکستان کے ساتھ وہی دوغلی پالیسی اور ڈو مور کے مطالبے ہوں گے اور بھارت کو علاقے کا چوہدری بنانے کی مہم جاری رہیگی۔ لیکن دوسرے کے کام میں ٹانگ اڑانے کی عادت سے ہم پھر بھی باز نہ آئے اور مسلسل براہ راست کوریج کے ذریعے امریکی انتخابات کو مانیٹر کرتے رہے۔ اس دوران معلوم یہ ہوا کہ زیادہ تر لوگ ٹرمپ سے خوف زدہ ہے جبکہ ہیلری کے لئے نرم گوشہ رکھتے ہیں۔پورے دن کی خبروں ، تجزیوں اورسروے رپورٹس کی جھلکیوں سے ہم نے ہیلری کلنٹن کو امریکی صدر تسلیم کر لیا اور دل ہی دل میں سوچھتے رہے کہ واہ کیا قسمت پائی ہے میاں بھی ایک سپر پاور ملک کا صدر رہا اور اب بیوی بھی۔ اس بات پر بھی خوش ہوتے رہے کہ امریکہ میں بھی ہماری طرح خاندانی سیاست سرایت کر رہی ہے۔ اور امریکی سیاست بھی زوال پذیر ہونے جارہی ہے۔ لیکن شام تک حالات پریشان کن حد تک تبدیل ہو گئے اور اس بدلتی صورتحال میں پنسلوانیا کے نتائج نے ایک کاری ضرب لگا کر ڈونلڈ ٹرمپ کو امریکہ کا پینتالیسواں صدر بنا دیا۔ اعلان کے ساتھ ہی پوری دنیا حیرت کدہ بن گئی کہ کیا امریکی عوام ٹرمپ جیسے آدمی کو بھی اپنا صدر بنا سکتی ہے۔ منفی شہرت کے حامل شخص کو کوئی بھی مہذب قوم اپنا لیڈر کیسے بنا سکتی ہے۔

    ٹرمپ جو کہ ایک بڑے کاروباری شخصیت ہے سیاست سے دور دور تک ان کا کوئی تعلق نہیں رہا جبکہ ان کے مقابلے میں ہیلری کی ملک کے لئے چالیس سالہ سیاسی خدمات سے سب واقف تھے۔ لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ ٹرمپ اب امریکہ کا صدر ہے۔ اور اس کے صدر ہونے کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ میں اور آپ کیا سوچھتے ہیں یا امریکہ کے چند شہروں میں چند ہزار مظاہرین کیا نعرہ لگاتے ہیں۔ کیونکہ وہ امریکہ کے اکثریت کا منتخب نمائندہ ہے۔

    اصل سوال یہ ہے کہ ایسا کیسے ممکن ہوا۔اور اس میں ہمارے لیے کیا سبق ہے۔ تجزیہ نگار اس کی مختلف وجوہات پر سیر حاصل تبصرے کر رہے ہیں لیکن میری ناقص رائے میں اس کا جواب یہ ہے کہ قومیں ہمیشہ نڈر اور بے باک قیادت کو اسلئے پسند کرتی ہے کیونکہ وہ بولڈ فیصلے کرنے سے نہیں کتراتے، چیلنجز کا سامنا بہادری سے کرتے ہیں اورڈوبتی کشتی کو بھنور سے نکالنے کا ہنر جانتے ہیں۔ اسلئے جب بھی کوئی ایسا آپشن موجود ہو لوگ اس کا انتخاب کرتے ہیں۔ ترکی کا طیب ارودوان ہو یا بھارت کا نریندر مودی، ان کی باقی خوبیاں اور خامیاں اپنی جگہ لیکن ان میں یہ خاصیت موجود ہے کہ اپنے موقف کوبھرپور انداز میں بیان کرتے ہیں اپنی قوم کے جذبات کی ترجمانی کرتے ہیں اور بولڈ فیصلے کرتے ہیں۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ ٹرمپ نے بلا جھجھک اسلام اور مسلمانوں کو تنقید کا نشانہ بنایا، اور امیگرینٹس کو امریکہ کے بڑے مسائل میں سے ایک قرار دیتے ہوئے اس کو حل کرنے کا وعدہ کیا۔ گزشتہ نصف صدی سے پوری دنیا میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف میڈیا کے ذریعے جو پروپیگنڈہ کیا گیا اس کے نتیجے میں پوری دنیا میں غیر مسلموں کی اکثریت تمام مسائل کی جڑ اسلام اور مسلمانوں کو سمجھنے لگی۔ ایسے میں ٹرمپ کے مسلمانوں کے خلاف نفرت آمیز تقاریر نے امریکہ کے ووٹر کو متاثر کیا۔ خیال کیا جاتا ہے کہ امریکہ میں بڑھتی ہوئی بیروزگاری کے تناظر میں نئے مواقع اور نوکریاں دینے کے اعلان نے بھی ٹرمپ کے سپورٹرز میں اضافہ کیا۔

    اس الیکشن کے نتائج سے ایک اور پہلو بھی نمایاں ہو گیا کہ امریکی عہدیدار جو کہ ہمیں اعتدال پسندی کا درس دیتے نہیں تھکتے، خود وہاں کے عوام نے ایک انتہا پسند شخص کو منتخب کر کے یہ واضح کر دیا کہ امریکی معاشرہ خود کتنا انتہا پسند ہے۔ عورت کا مرد کے برابر ہونے کا بھاشن دینے والے ملک میں اکثر ووٹرز نے ہیلری کو اسلئے ووٹ نہیں دیا کہ وہ ایک خاتون کو امریکہ کا صدر نہیں دیکھنا چاہتے تھے۔اس الیکشن سے امریکی معاشرہ بری طرح ایکسپوز ہوگیااور ان کے دوہرے معیارات بالکل واضح ہو گئے۔ پوری دنیا نے دیکھا کہ آج کے جدید دور میں بھی امریکہ کالے اور گورے میں بری طرح تقسیم ہے۔ خواتین کو برابری کے دعوے کے با وجود برابری حاصل نہیں ہے۔ لبرل معاشرے کا تاثر اپنی جگہ لیکن انتہا پسندوں کی اکثریت ہے۔ جبکہ علاقائی اور نسلی تعصب بھی انتہاپرہے۔اب ٹرمپ کا امتحان شروع ہوچکا ہے اور وقت ثابت کر دیگا کہ وہ اپنے ووٹرز کے توقعات پر پورا اترتے ہیں یا دنیا بھر کے تجزیہ نگاروں کو ٹھیک ثابت کرتے ہیں۔

    جہاں تک ہماری بات ہے، تو ہمیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ ہم پہلے بھی نشانے پر تھے اور آئندہ بھی رہیں گے۔ ہمیں امریکی انتخابات کے بعد اب اپنے معاملات پر توجہ دینی ہوگی۔ آئندہ عام انتخابات میں کسی ایماندار ، دیانت دار، محب وطن اور ملک وقوم کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے والا راہنما چننا ہوگا۔ ورنہ یہ کرپٹ، خود غرض اور بے حس حکمران اس ملک کو کھا جائیں گے۔

  • اک آنسو کہہ گیا سب حال دل کا – خالد ایم خان

    اک آنسو کہہ گیا سب حال دل کا – خالد ایم خان

    دنیا کی تاریخ کروڑوں اربوں سالوں پر محیط ہے، بہت سی مخلوقات اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس دنیا میں پیدا کیں جن میں قابل ذکر جنات اور فرشتے تھے، جنات کو اللہ تبارک و تعالیٰ نے آگ سے پیدا کیا اور اُن کو ہماری زمیں میں آباد کیا، دوسری طرف فرشتوں کو اللہ تعالیٰ نے نور سے پیدا کیا اور آسمانوں کی وسعتیں جن کا گھرانہ تھیں، پھر اللہ نے آدم ؑ کی تخلیق اپنے مبارک ہاتھوں سے کی، اور اُسے دنیا کے تمام علوم سکھا کر دنیا میں اشرف المخلوقات قرار دیا، یعنی دنیا میں آدم علیہ السلام کی آمد سے پہلے کی جتنی مخلوقات تھیں، جنات، چرند پرند، تمام اقسام کے جانور وغیرہ، ان سب میں اللہ تعالیٰ نے انسان کو یہ شرف قبولیت بخشی کہ تمام اللہ کی تخلیقات میں سے صرف انسان ہی کو اشرف المخلوقات قرار دیا گیا، اسے دماغ دے کر دنیا میں سب سے اعلیٰ و ارفع بنا دیا گیا، سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں دے دیں جن کو استعمال کرتے کرتے انسان نے آخر کار دوسری تمام مخلوقات کو زیر کرلیا، فتح کر لیا، اپنے زیرنگیں کرلیا، اس سے دنیا میں انسان کی ترقی کا ایک نیا باب شروع ہوا، انسان پہلے پہل تو اللہ کی اطاعت، ایک اللہ کی عبادت اور انسانیت سے محبت و خلوص پر قائم رہا لیکن پھر شیطان نے جو کہ انسان کا ہمیشہ ہی سے سب سے بڑا دشمن تھا، کے بہکاوے میں آکر سب سے پہلے تو ایک اللہ کی ذات کا انکاری ہوا، اور پھر آہستہ اہستہ اپنے اصل راستہ سے دور بہت دور نکلتا چلا گیا، جس کی پاداش میں اللہ نے انسانوں پر سیلاب کی صورت عذاب نازل کیا اور حضرت نوح ؑ اور اُن کے ساتھیوں کے علاوہ پوری دنیا کو نیست و نابود کر دیا.

    پھر دنیا کے دوسرے دور کا آغاز ہوتا ہے، نوح ؑ کی اولاد حام، سام اور یافث دنیا میں پھیل گئے اور ایک نئی دنیا کی ابتدا کی، ایک ایسی دنیا کی ابتدا جس میں شیطان کے لیے کوئی جگہ نہیں تھی، جس میں انسانیت سے محبت اور اطاعت الہٰی کو اولین فوقیت دی گئی، انسان نے صدیوں تک اس دنیا پر اللہ کی ہدایت اور اللہ کے فرمان کے مطابق راج کیا، لیکن شیطان جو ہمیشہ ہی سے انسانیت کا دشمن رہا ہے، انسان کی ٹوہ میں لگا رہا، بار بار انسان کے احساسات کے ذریعے اُن پر حملہ آور ہوتا رہا، اُنہیں بھٹکاتا رہا اور دوسری طرف اللہ ذوالجلال ہمیشہ اُن بھٹکے ہوئے لوگوں کو راہ راست پر لانے کے لیے، اُن کو ہدایت کی راہ کی طرف پلٹانے کے لیے اپنے انبیاء ہر دور میں دنیا کے ہر خطے میں دنیا کے تمام انسانوں کے بیچ بھیجتا رہا، جو بھٹکے ہوئے لوگوں کو اللہ کی ہدایت کی راہ دکھلاتے تھے، اُن میں سے کچھ تو اللہ کی ہدایت کی جانب لوٹ آتے تھے، اور باقی شیطانیت کو اپنا سب کچھ مان کر اللہ کے غیظ وغضب کا شکار ہوکر اپنے لیے تباہی و بربادی لکھتے رہے.

    پھر آج سے چودہ سو سال پہلے جب دنیا میں کُفر اور شرک کا دور دورہ تھا، جب جہالت میں ڈوبے ہوئے لوگوں نے اپنی شیطانی جبلت کو خود پر حاوی کرتے ہوئے جانوروں اور حیوانوں کو چھوڑ اپنے ہی جیسے اشرف المخلوقات کو اپنے زیر نگیں کرنا شروع کردیا تھا، اپنا غلام بنانا شروع کردیا تھا، انسانیت پر ظلم کرنا شروع کردیا تھا، ایسے ہی وقت کسی ایک مظلوم کی آنکھ سے نکلے بےبسی کے ایک آنسو نے دنیا پلٹ دی اور اللہ نے دنیا میں رحمت اللعالمین کو دنیا کے لیے رحمت بنا کر بھیجا، وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا، مرادیں غریبوں کی بر لانے والا، وہ اپنے پرائے کا غم کھانے والا اس دنیا کے اندر پیدا ہوتا ہے، جس کے دنیا میں آتے ہی دنیا سے جہالت کا خاتمہ شروع ہو جاتا ہے، جس نے دنیا میں آتے ہی دنیا کو امن وآشتی کا، بھائی چارے کا، محبت و اخوت کا، خلوص اور پیار کا درس دیا، جس نے دنیا کو حقوق العباد کا درس دیا، ایک اللہ کی عبادت کا درس دیا، جس کی تعلیمات انسانیت کی محبت سے شروع ہو کر اللہ کی وحدانیت پر جا کر ختم ہوتی تھیں.

    آپ ﷺ نے دنیا میں محبت کے وہ پھول کھلائے کہ جن کی خوشبو تا قیامت اس پوری دنیا کو معطر کرتی رہےگی، اور دنیا کو اسلام کے نام پر ایک ایسا آفاقی دین عطا کیا کہ جس سے دنیا اور آخرت میں انسانیت کی فلاح اور نجات وابستہ ہو لیکن شیطان جس کا کام ہی انسانیت کو بھٹکا کر جہنم کی سیاہ وادیوں میں دھکیلنا ہے، کیسے خاموش بیٹھ سکتا تھا؟ اُس نے فورا دنیا کے اندر پھیلتی اس عظیم روشنی کے خلاف جنگ چھیڑ دی، جو آج اکیسویں صدی میں بھی پورے زور وشور سے جاری ہے، ایک طرف روشنی کے نمائندگان ہیں اور دوسری طرف شیطانی افواج، ایک طرف اسلام کے پیروکار ہیں تو دوسری طرف دجال کے ہرکارے. چودہ سو سالوں سے دنیا کے اندر جاری یہ جنگ آج اپنے پورے جوبن پر ہے، فرق ہے تو صرف اتنا کہ کل روشنی کے نمائندگان ایمانی قوت سے لبریز تھے، جن کے ایمان کی طاقت سے پوری دنیا لرزہ براندام تھی، جن کی ہیبت سے فارس اور روم کی سُپر طاقتوں کے ستون زمیں بوس ہو گئے تھے، لیکن آج وقت کی گردش نے ہمیں آسماں سے لا کر زمین پہ پٹخ دیا ہے، ہمارے ایمان ہمارے دلوں سے نکل کر ہمارے دماغوں میں سما گئے ہیں، دل اور دماغ کی بڑی عجیب سی کشمکش ہے، دل عشق کی آندھی میں جل جانا، آتش نمرود میں بے خطر کود جانے کا نام ہے جبکہ دماغ سوچتا ہے، دماغ کہتا ہے کہ آگ جلا دے گی، اس لیے ہچکچاتا ہے، کیوں کہا شاعر نے کہ !
    بے خطر آتش نمرود میں کود پڑا عشق
    عقل ہے محو تماشائے لب وبام ابھی

    میں بیان نہیں کرسکتا جب شام کی ایک خاتون کی آنکھ سے بے بسی سے ٹپکتے آنسوؤں کو دیکھا، وہ بے بس تھی، مجبور تھی، اُس کے پیارے دجالی فوجوں کی بمباری سے شہید کردیے گئے تھے، ایک چھوٹا سا بچہ اُس کا دامن پکڑے کھڑا تھا، وہ بھوک سے چلا رہاتھا، تڑپ رہا تھا، اُس کی پیشانی سے خون کی ایک دھار بہتے ہوئے اُس کے سُرخ و سفید چہرے کو خونی رنگ میں رنگ رہی تھی، اُس کے جسم پر لگے زخموں پر اُس کی بھوک و پیاس غالب آچکی تھی لیکن وہ بے بس عورت کیا کرتی؟ کہاں سے لاتی وہ من و سلوی جو اُس کے پیارے کا، اُس کے لاڈلے کا پیٹ بھرتی، کچھ نہ کرسکنے کے بعد جب اُس کی آنکھ سے بے بسی کا وہ آنسو ٹپکا، تو وہ،
    اک آنسو کہہ گیا سب حال دل کا
    میں سمجھا تھا یہ ظالم بے زباں ہے

    اس سے آگے لکھنے کی مجھ میں تاب نہیں ہے.

  • ہیلری کلنٹن کی شکست یا صنفی امتیاز – مزمل فیروزی

    ہیلری کلنٹن کی شکست یا صنفی امتیاز – مزمل فیروزی

    مزمل احمد فیروزی ہیلری کی شکست امریکہ میں بسنے والے لوگوں کی سوچ کی عکاس ہے لہذا گمان کیا جا سکتا ہے کہ یہاں کی عوام سوچ کے لحاظ سے کسی طور آزاد نہیں. ایک خاتون کو بطور حکمران قبول کرنا ان کے ہاں بھی منظور نہیں، شاید یہ لوگ اب بھی خاتون کی ماتحتی کے قائل نہیں۔ ایک شخص جس کے بیانات خواتین کے لیے انتہاپسندانہ تھے، اسے امریکی عوام نے منتخب کرلیا اور ایک خاتون امیدوار کو مسترد کردیا۔ اس تاریخی الیکشن کے فیصلے کے بعد کئی سوالات نے جنم لیا جس میں سے ایک سنجیدہ سوال یہ ہے کہ ایک خاتون امریکہ کی صدر کیوں نہیں بن سکتی؟

    مغرب ہمیشہ الزام عائد کرتا رہا ہے کہ پاکستان میں خواتین کااستحصال کیا جاتا ہے اور انہیں یہاں آزادانہ نقل و حرکت میں بھی مشکلات کا سامنا ہے، جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ پاکستان میں ساٹھ کی دہائی میں ایک خاتون صدارتی امیدوار کے طور پر سامنے آئی تھی اور پھر 80 کی دہائی میں بے نظیر بھٹو وطن عزیز کی پہلی خاتون وزیراعظم بنیں جبکہ امریکی عوام نے خاتون امیدوار کو مسترد کر دیا۔ امریکہ میں جہاں خواتین کے مساوی حقوق کے بلند و بانگ دعوے کیے جاتے ہیں، وہاں 1920ٰء تک خواتین کو ووٹ ڈالنے کا حق تک حاصل نہیں تھا، 1920ء کے بعد سے اب تک کوئی خاتون صدر کے الیکشن تک نہیں پہنچ سکی تھی، اب جبکہ ایک صدی بعد ایک خاتون اس مقام تک پہنچی تو امریکی عوام نے اسے مسترد کر کے یہ بات ثابت کردی کہ کہ امریکیوں کے ہاں بھی عورت حکمرانی کے قابل نہیں۔ امریکہ میں صنف نازک تا حال مسائل کا شکار ہے اور آج بھی خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھا جاتا ہے۔ نام نہاد آزادی اور حقوق نسواں کا علمبردار امریکہ نسل پرستی اور صنفی امتیاز میں کسی طور پیچھے نہیں ہے۔ یہ فرق اور ظلم وستم کسی رنگ، نسل معاشرے یا نظریے تک محدود نہیں بلکہ ترقی یافتہ اور تہذیب یافتہ ممالک جو ساری دنیا کو انسانیت، تہذیب اور برابری کا درس دیتے ہیں، ان کے ہاں خواتین پر ظلم و ستم کی شرح باقی دنیا کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے۔

    امریکہ میں عورتوں کی حالت زار کے متعلق نیویارک ٹائمز کی ایک رپورٹ کے مطابق ہر پانچ میں سے ایک لڑکی جنسی زیادتی کا شکار ہوتی ہے، ان میں سے ایک تہائی خواتین کو زیادتی کے دوران تشدد کا نشانہ بھی بنایا جاتاہے، اس رپورٹ کے مطابق ہر سال 13لاکھ امریکی خواتین جنسی زیادتی کا شکار ہوتی ہیں، ان میں سے 12فیصد لڑکیوں کو اس وقت زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا ہے جب ان کی عمر 10سال سے بھی کم ہوتی ہے. ایک سروے کے مطابق گزشتہ سال کالج جانے والی ہر چار میں سے ایک لڑکی پر جنسی حملہ کیا گیا جبکہ 27 فیصد کالج خواتین کو ہراساں کیا گیا، اور ایک سروے کے مطابق ہر 16میں سے 15 زیادتی کے نشانے بنانے والے مجرم آزادانہ گھوم رہے ہیں۔گزشتہ 15 سالوں میں امریکہ کی 13 ہزار سے زائد خواتین کو ان کے موجودہ یا سابقہ (شوہر کہنا غلط ہوگا کیونکہ یہ لوگ تو بغیر شادی کے ساتھ رہتے ہیں) پارٹنر کے ہاتھوں قتل ہونا پڑا، اسی ترقی یافتہ دیس میں ہی تقریبا 5 کروڑ خواتین ہر سال اپنے پارٹنر کی جانب سے تشدد کا نشانہ بنائی جاتی ہیں جبکہ ہر 3 میں سے ایک امریکی عورت کو اس کا شوہر تشدد کا نشانہ بناتا ہے جبکہ ہر روز خواتین کے حقوق پامال کیے جاتے ہیں اور ان کے ساتھ امتیازی سلوک برتا جاتا ہے۔ ابھی حال ہی میں سچی کہانی پر مبنی ایک فلم The General’s Daughter دیکھنے کا اتفاق ہوا، اس فلم میں جس طرح ایک امریکی فوجی خاتون کے حقوق پامال ہوتے دکھائےگئے اور کس طرح اس کے باپ نے عہدے کی خاطر اپنے آپ کو خاموش رکھا، اس کا اندازہ آپ کو فلم دیکھنے کے بعد ہی ہوگا۔ عورتوں اور مردوں کے مساوی حقوق کا راگ الاپنے والے امریکہ میں اس وقت کام کرنے والی خواتین کا معاوضہ مردوں سے کم ہے، یہاں تک کہ دنیا کی سب سے بڑی فلم انڈسٹری ہالی وڈ میں کام کرنے والی اداکاراؤں کا معاوضہ بھی مرد اداکاروں سے بہت کم ہے۔

    آج خاتون امریکی امیدوار کی شکست پر مہم میں شامل خواتین ہی آنسو بہاتی نظر آتی ہیں جبکہ مرد حضرات جشن مناتے نظر آ رہے ہیں، دوسری جانب امریکی کانگریس میں بھی خواتین کی نمائندگی مردوں کی نسبت کم ہے۔ امریکن خواتین بہت پر امید تھیں کہ اس بار ان کی نمائندگی تسلیم کی جائے گی مگر افسوس کہ امریکن ایوان صدر میں ان کے اندر کے احساسات اور جذبات نتائج آنے کے بعد ان کے آنسوؤں میں یکسر دُھل گئے ہیں۔ اگرچہ امریکی سیاست میں امریکی خواتین ہمیشہ سے متحرک رہی ہیں مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ امریکی خواتین کو کلیدی عہدوں سے آج تک دانستہ دور رکھا گیا ہے، جس کی زندہ مثال حالیہ الیکشن میں بین الاقوامی شہرت کی حامل ایک متحرک خاتون کی شکست ہے۔

  • ٹرمپ کی صدارت میں ایک نئی رکاوٹ – عمران عمر جانباز

    ٹرمپ کی صدارت میں ایک نئی رکاوٹ – عمران عمر جانباز

    20160828_122458 جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ ہیلری کلنٹن نے پاپولر ووٹ ٹرمپ سے زیادہ حاصل کیے ہیں لیکن چونکہ امریکہ میں صدر کا انتخاب پاپولر ووٹ کی بجائے الیکٹورل کالج پر بیس کرتا ہے اور ٹرمپ کے زیادہ نمائندے الیکٹورل کالج کے لیے منتخب ہوئے ہیں، اس لیے اس کے صدر بننے کے چانس زیادہ ہیں. میں نے جان بوجھ کر چانس کا لفظ استعمال کیا ہے. یوں سمجھیے کہ امریکہ میں عوام ڈائریکٹ صدر اور نائب صدر کو منتخب نہیں کرتے بلکہ ایک باڈی کو منتخب کرتے ہیں جسے الیکٹورل کالج کہتے ہیں. امریکہ کے عوام ہر اسٹیٹ سے اپنے اپنے نمائندہ اس باڈی کے لیے چنتے ہیں جو صدارتی امیدوار کو ووٹ ڈالتے ہیں. الیکٹورل کالج کے ٹوٹل 538 ممبرز ہوتے ہیں جن میں 435 سٹیٹس سے منتخب ہوکر آتے ہیں جبکہ کولمبیا اسٹیٹ کے تین اضافی ممبر ہوتے ہیں. اس کے علاوہ سینٹ کے 100 ممبرز بھی اس کا حصہ ہوتے ہیں.

    اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ہیلری نے (%47.7) اور ٹرمپ نے (%47.4) پاپولر ووٹ حاصل کیے ہیں یعنی ہیلری نے ٹوٹل ووٹ زیادہ حاصل کیے ہیں لیکن اصل فیصلہ الیکٹورل کالج کے نمائندوں نے کرنا ہے جہاں ٹرمپ کے حمایتی 290 اور ہیلری کے 228 جیتے ہیں. اگرچہ 290 نمائندے ٹرمپ کی کمپین اور حمایت کے نتیجے میں جیتے ہیں لیکن کیا ان کے لیے ٹرمپ کی حمایت میں صدارت کا ووٹ ڈالنا لازم ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ لازم نہیں ہے. یہ نمائندے اگر چاہیں تو اپنے ضمیر کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے ہیلری کو بھی ووٹ ڈال سکتے ہیں.

    19 دسمبر کو الیکٹورل کالج کے نمائندوں نے صدارتی امیدواوں کو ووٹ ڈالنا ہے. یہ امیدوار اگر اسی نمونے پر چلیں جس پر ان کی سٹیٹ کے لوگوں نے ووٹ ڈالا ہے تو ٹرمپ جیت جائےگا لیکن اس وقت امریکہ میں کچھ لوگ یہ تحریک چلا رہے ہیں کہ یہ نمائندے ٹرمپ سے بغاوت کر کے ہیلری کو ووٹ ڈالیں. یہ تحریک کامیاب ہوگی یا نہیں، اس کا حتمی نتیجہ تو 19 دسمبر کو سامنے آئے گا لیکن بہرحال امریکہ کے انٹلیکچولز اور سڑکوں پر احتجاج کرتے مظاہرین کے لیے امید کا ایک ٹمٹماتا ہوا چراغ ضرور ہے.

    امریکی انٹلیکچولز ٹرمپ کی صدارت سے اتنا خوف زدہ کیوں ہیں؟ اور عوام سڑکوں پر پرتشدد احتجاج کیوں کر رہے ہیں؟ اس کی وجہ صاف واضح ہے کہ وہ جانتے ہیں کہ ٹرمپ نے امریکی معاشرے کو انتہائی حد تک تقسیم کر دیا ہے اور اس کی پالیسیز تیزی سے زوال پذیر سپر پاور کی طاقت کو مزید کمزور کرنے کا باعث بنیں گی.

    (عمران عمر جانباز ایک شاعر اور قلم کار ہیں جن کی زندگی کا کا بڑا حصہ پاکستان اور آسٹریلیا میں مختلف خیراتی اور اسلامی اداروں کی تعمیر و تشکیل میں گزرا ہے. اپنے حالیہ قیام پاکستان کے دوران بھی یتیم بچوں کی نگہداشت کے ایک ادارے سے رضاکارانہ طور پر منسلک ہیں.)

  • ٹرمپ اور مودی کی جیت، مسلمان اب کیا کریں؟ توقیر احمد سیاف

    ٹرمپ اور مودی کی جیت، مسلمان اب کیا کریں؟ توقیر احمد سیاف

    توقیر احمد امریکی عوام نے متعصب ڈونلڈ ٹرمپ کو بطور صدر منتخب کر کے پورے عالم کو یہ واضح پیغام دیا ہے کہ ہماری اکثریت متعصب، انتہا پسند اور مسلمانوں کے خلاف اندر باہر سے بغض، عناد اور دشمنی سے بھری پڑی ہے
    ٹرمپ کی فتح سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ امریکی عوام کی اکثریت کس طرح کے فکری اور عملی رحجانات کی حامل ہے اور کس طرح کے صدر کو چاہتی ہے.
    ٹرمپ نے جب اپنی انتخابی عوامی مہم کا آغاز کیا تو مسلمانوں کے خلاف زہر اگلا اور یہاں تک کہہ دیا کہ مسلمانوں کو امریکہ سے نکال دیا جائے گا. جس پر اسے مسلمانوں کی طرف سےگہری تنقید کا سامنا کرنا پڑا.
    بظاہر یہی لگ رہا تھا کہ ٹرمپ ہار جائے گا لیکن شاید ٹرمپ یہ جان چکا تھا کہ امریکی عوام کی اکثریت ٹرمپ ہی ہے اور ایسا ہی ہوا .
    اور یہ پہلی بار نہیں ہوا بلکہ بھارت کے متعصب وزیراعظم نریند مودی نے بھی انتخابات میں کامیابی مسلمانوں کے خلاف زہر اگل کر حاصل کی تھی. یہ وہی مودی تھا جس نے اپنی سرپرستی میں ایک ہزار گجراتی مسلمانوں کو شہید کروایا تھا. اس کے باوجود اسلام دشمنی کی بنیاد پر متعصب ہندوؤں نے اسے ووٹ دے کر وزیر اعظم بنایا. جس سے صاف ظاہر ہوا تھا کہ انڈیا کی اکثریت اس شخص کو پسند کرتی ہے جو مسلمانوں کے خلاف منصوبہ لے کر آئے. اور یہی بات امریکی قوم نے ٹرمپ کا انتخاب کر کے ثابت کی ہے.
    ان سب حقائق کے واضح ہونے کے بعد اب ان لوگوں کی زبانیں بند ہو جانی چاہییں جو صرف مسلمانوں پر انتہا پسندی اور بنیاد پرستی کا الزام لگاتے رہتے ہیں.
    اور دوسری اہم بات جو مسلم حکمرانوں، رہنماؤں اور عوام کو سوچنے اور کرنے کی ہے کہ ہم اس وقت کہاں کھڑے ہیں.
    آپس میں ہی دست وگریبان، ایک دوسرے کے خلاف ہی محاذ آرائی اور پروپیگنڈا!
    یاد رکھیں کہ سب سے اہم کام جو کرنے کے ہیں ان میں سے سر فہرست
    1. حقیقی اتحاد پیدا کرنا ہے.
    ہر ایک اسلامی ملک کو دوسرے اسلامی ملک کی پریشانی اور آزمائش کو اپنی آزمائش اور پریشانی سمجھنا ہوگا.
    2. اقوام متحدہ کے ادارے سلامتی کونسل میں دو مسلم ممالک کی مستقل نمائندگی کی بھرپور کوشش کرنی چاہیے، جن کے پاس ویٹو کی پاور ہو. اور یہ مسلمان ممالک کا بنیادی حق ہے جسے عقل و نقل دونوں تسلیم کرتے ہیں. 65 سے زائد اسلامی ممالک، دنیا میں آبادی کے لحاظ سے دوسرے نمبر پر، بہترین افواج، مضبوط معیشت لیکن افسوس ایک بھی اسلامی ملک ایسا نہیں جو سلامتی کونسل کا مستقل رکن ہو. اس بات کا مطالبہ مسلم حکمرانوں کو پرزور طریقہ سے کرنا چاہیے .
    3. مستقبل کے بارے میں مضبوط اور دیرپا پلاننگ. ایسا نہ ہو کہ ایک حکومت کے بعد دوسری حکومت کی ترجیحات تبدیل ہوں، جیسا کہ ماضی قریب میں ہوتا رہا ہے.
    4. نیٹو کی طرز پر مشترکہ فوجی اتحاد جو رنگ و نسل، عرب و عجم کے فرق سے پاک ہو .
    5 . آپس میں مضبوط تجارتی معاہدات.
    6. سائنس اور ٹیکنالوجی کی تعلیم کو اپنے اپنے ملک میں اولین ترجیحات میں شامل کریں، اس بات کو سمجھیں کہ آج کا دور ٹیکنالوجی کا دور ہے. اور وہی قومیں ہمیں آگے ترقی کرتی نظر آرہی ہیں جنھوں نے اس حقیقت کو سمجھا اور اس پر کام کیا. آج ان کی معیشت بھی مضبوط ہے اور دنیا پر حکومت بھی درحقیقت وہی کر رہے ہیں.
    7. نوجوانوں کی تعلیم و تربیت پر زور دیں. نوجوان کسی بھی معاشرہ میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں. تعمیر و ترقی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں. مسلم حکمرانوں کو اپنے ملک کے نوجوانوں کو فکری، دینی، ذہنی اور تعلیمی طور پر مضبوط کرنا ہوگا .
    8. باصلاحیت لوگوں سے کام لیں. یورپ کی ترقی میں ہمارے مسلمان باصلاحیت ڈاکٹرز، اور سائنسدانوں کا اہم کردار ہے. ہمیں ان سے فائدہ اٹھانا چاہیے. ان کو اپنے اپنے ملک میں لائیں، ان کی عزت و حوصلہ افزائی کریں، ان کو مراعات دیں اور ان سے فائدہ اٹھائیں. ان تمام کاموں کے لیے ہمیں عوام میں شعور پیدا کرنے کی بھی ضرورت ہے. حالات کی سنگینی کو واضح کرنا بہت ضروری ہے، کیونکہ جب کوئی کام مل کر کیا جائے، وہ احسن انداز سے پایہ تکمیل تک پہنچتا ہے. ملت کے ہر فرد کو اپنے اندر اخلاص پیدا کرنا ہوگا اور اپنے فرائض منصبی کو جانتے ہوئے ملت کی بہتری کے لیے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا.
    بقول شاعر،
    افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
    ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارا
    اور اس کے ساتھ ساتھ ہمیں کفر کے پروپیگنڈہ کو سمجھ کر مقابلہ کرنا چاہیے. آئے روز آنے والے فتنوں کو سمجھنا چاہیے، ایسا نہ ہو کہ جو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگائے، ہم بھاگنا شروع کر دیں اور اغیار کے ہاتھوں کھلونا بنتے رہیں. یاد رکھیں کہ اب صفیں تقسیم بھی ہو رہی ہیں اور بالکل واضح بھی. اگر ہم نے اپنی صفوں کو درست نہ کیا اور اتحاد قائم نہ کیا تو آنے والا وقت ہمارے لیے بہت کٹھن آزمائشوں والا ہوگا.
    بقول شاعر .
    تمھاری داستان تک نہ ہو گی داستانوں میں.

  • سیٹھ کی بیٹی اور ڈرائیور کی محبت (2) – ریحان اصغر سید

    سیٹھ کی بیٹی اور ڈرائیور کی محبت (2) – ریحان اصغر سید

    ریحان اصغر سید میرے سیل فون کی گھنٹی کچھ دیر بجتی رہی۔ پھر بند ہو گئی۔ مجھ پر تشدد روک دیا گیا تھا۔ سر نیچے جھکا ہونے کی وجہ سے یہ دیکھنے سے قاصر تھا کہ مجھے کہاں لے جایا جا رہا ہے۔ لیکن یہ اطمینان ہو گیا تھا کہ ان لوگوں کا فی الحال مجھے فوری طور پر قتل کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے ورنہ اتنی دور لے جانے کی کیا ضرورت تھی۔ وہاں آس پاس ہر طرف ویرانہ تھا۔ سیل فون کی گھنٹی دوبارہ بجی۔ ڈرائیور نے فون والے کو ایک فصیح گالی سے نوازا، پھر کچھ کھٹ پھٹ کی آواز سنائی دی۔ اس کے بعد دوبارہ کال نہیں آئی۔ شاید بیٹری کھول کے سم پھینک دی گئی تھی۔ کچھ دیر بعد کار ایک جگہ جا کے رکی۔ کھینچ کر مجھے نیچے اتارا گیا۔ میں لڑکھڑا کے گرتے گرتے بچا، ٹانگیں اور پیر سن ہو چکے تھے اور کمر نے سیدھا ہونے سے انکار کر دیا تھا۔ ایک اہلکار نے میرے سر کو اپنے ہاتھ سے اس طرح دبائے رکھا کہ میری ٹھوڑی میرے سینے میں دھنس رہی تھی، اس لیے میں تھانے کا نام دیکھنے سا قاصر رہا، گھیسٹتے ہوئے مجھے ایک برآمدے سے گزار کر ایک سیلن زدہ سے کمرے میں لے جایا گیا جہاں ایک زرد رنگ کا بلب بیمار سی روشنی پھیلا رہا تھا۔ ٹیبل کے پیچھے ایک بھاری بھر کم ایس ائی ٹیبل پر ٹانگیں رکھے سگریٹ پینے میں مگن تھا۔ ایک نوعمر سا لڑکا اس کے پیچھے کھڑا اس کے کندھے دبا رہا تھا۔ ایس آئی نے اطمینان سے سگریٹ ختم کی، اپنی ٹانگیں میز سے نیچے اتاریں اور پیچھے کھڑے لڑکے کو ہاتھ کے اشارے سے وہاں سے جانے کا کہا۔ کچھ دیر تک میرا آنکھوں سے ایکسرے کرنے کے بعد اس نے ساتھ کھڑے اہلکار سے آنکھوں ہی آنکھوں میں کچھ پوچھا تو اس نے جیب سےمیرا بٹوا اور دوسرا سامان نکال کے اس کے سامنے رکھ دیا۔ ایس آئی نے نیا سگریٹ سلگایا اور باریک بینی سے میرے شناحتی کارڈ اور ڈرائیونگ لائسنس کا معائنہ شروع کیا۔
    اس کی کچھ خاطر تواضع کی ہے؟ ایس ائی نے میری طرف دیکھے بغیر کانسٹیبل سے پوچھا۔
    ہاں جی! کار میں کچھ چائے پانی پلایا ہے، ابھی ڈرائنگ روم میں لے جا کے کچھ ٹہل سیوا کرتے ہیں، اس۔۔۔۔کی۔
    کیوں بے! تجھے شرم نہیں آئی جس تھالی میں کھاتے ہو اسی میں گند ڈالتے ہوئے؟ بڑا ہی حرامی نسل کا انسان ہے یار تو، تو۔ تجھے تو آری سے کاٹ دینا چاہیے۔ کب سے چلا رہا ہے یہ عشق معشوقی کا چکر؟
    ایس آئی نے ٹانگیں دوبارہ ٹیبل پر چڑھاتے ہوئے کہا۔
    سر! ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ سیٹھ صاحب کے مجھ پر جتنے احسان ہیں، میں مر کے بھی وہ نہیں اتار سکتا۔ حارث صاحب کو غلط فہمی ہوئی ہے۔ اگر وہ چاہتے ہیں کہ میں اس گھر سے دور رہوں تو میں یہ نوکری بلکہ یہ شہر چھوڑنے کو تیار ہوں۔ میں فوراً گھر چلا جاؤں گا، پھر کبھی واپس نہیں لوٹوں گا۔
    سر میں بہت غریب آدمی ہوں۔ آپ مجھ پر رحم کریں میں ساری عمر آپ کو دعائیں دوں گا۔ نہ چاہتے ہوئے بھی میری آواز گلوگیر ہوگئی اور میں نے ہاتھ جوڑ دیے۔
    ابھی تو آیا ہے تو، ابھی سے جانے کی بات تو نہ کر یار ۔۔ لگتا ہے تجھے بیگم صاحبہ کی یاد آ رہی ہے۔ ایسی بات ہے نا؟؟
    ایسی کوئی بات نہیں ہے سرکار! مجھے مکے مدینے کی قسم، مجھے سوہنے رب دی قسم میں جھوٹ بولوں تو کافر ہو کے مروں۔ میں بے اختیار پھوٹ پھوٹ کے رو پڑا۔
    اس کو لے جاؤ اور ننگا کر کے الٹا لٹکا کے مارو اور تب تک مارو جب تک یہ ساری بات نہیں بتاتا اور اس سے پہلے جو یہ کرتوت کرتا رہا ہے، وہ بھی اس سے پوچھو۔ اور ظہیرے کو میرے پاس بھیج دو۔
    مجھے گھیسٹ کے ایک عقوبت خانے میں لے جایا گیا۔ یہاں بھی زرد رنگ کا بلب جل رہا تھا۔ کمرا سیلن اور عجیب سی بو سے بھرا ہوا تھا۔ دیواروں اور فرش پر جابجا خون کے داغ نظر آرہے تھے۔ میں مسلسل اپنی بےگناہی کی دہائی دے رہا تھا لیکن ان پولیس والوں پر میری کسی التجا کا کوئی اثر نہیں ہو رہا تھا۔
    میں آخری دفعہ پوچھ رہا ہوں کہ الف سے لے کر یے تک ساری کہانی مجھے سنا دے، ورنہ میں تجھے کوئی نئی کہانی بنانے کے قابل بھی نہیں چھوڑوں گا۔ شادی کے قابل بھی نہیں رہے گا تو۔ بڑی بڑی مونچھوں والے کانسٹیبل نے اپنے ریچھ جیسے ہاتھ سے میرے دونوں گالوں کو پچکا کے پوچھا۔ میں درد کی شدت سے تڑپ رہا تھا لیکن اس کی جناتی گرفت سے نکلنا میرے لیے ناممکن تھا۔
    یہ اس طرح نہیں مانے گا۔ اس کے کپڑے اتار کے لٹکاؤ اسے۔ تھوڑی دیر بعد میں لباس فطری میں چھت کے ساتھ لگے کنڈے کے ساتھ بندھی رسی کے سہارے الٹا لٹک رہا تھا۔ کچھ گھنٹے پہلے میں نے اس چیز کا تصور بھی نہیں کیا تھا۔ ایک وحشی سا اہلکار پوری طاقت سے مجھے تار اور چمڑے کے چھتر سے مار رہا تھا۔ کھال ادھڑ رہی تھی لیکن اب میری چیخوں میں درد سے زیادہ غصہ اور بغاوت تھی۔ میں نے ارادہ کر لیا تھا کہ مجھے موقع ملا تو میں انھیں زندہ نہیں چھوڑوں گا۔
    اچانک تشدد روک دیا گیا۔ میں نے آنکھیں کھول کے دیکھیں، کریہہ چہرے والا کانسٹیبل میرے کندھے اور بازو کا بغور معائنہ کر رہا تھا۔ اس نے میرے جسم کو روشنی کی طرف گھما کے گولیوں کے زخموں کے نشان غور سے دیکھے.
    یہ گولیوں کے نشان ہیں؟ وہ چونکا ہوا لگ رہا تھا۔
    ہاں یہ گولیوں کے نشان ہیں۔ میں نے نقاہت سے کہا۔
    کچھ دیر بعد میں دوبارہ کپڑوں میں ملبوس ایس آئی کے سامنے کھڑا تھا۔
    میرے سامنے کوئی ہینگی پھینگی نہ مارنا۔ بیشتر کہانی کا مجھے پہلے ہی پتہ ہے۔ سیدھے اور آسان لفظوں میں مجھے بتاؤ۔ اس دن مغل پورہ کی نہر اور بھٹہ چوک پر کیا ہوا تھا؟
    ایس آئی نے دو سگریٹ سلگا کے ایک مجھے پیش کیا اور ایک اپنے ہونٹوں میں دبا لیا۔ میں نے جلدی جلدی دو تین کش لگا کے اپنے اعصاب کو پرسکون اور خیالات کو مجتمع کیا، اور بولنا شروع کر دیا۔
    یہ اکتوبر کی ایک شام تھی۔ ہم آٹھ پنجاب رینجرز کے جوان کیپٹن لودھی کی قیادت میں شالیمار کے قریب مغل پورہ کی نہر پر کھڑے اکا دکا اور مشکوک گاڑیوں کو چیک کر رہے تھے۔ اچانک ایک سفید رنگ کی کار بڑی تیزی سے زگ زیگ انداز میں دوڑتی ہوئی سڑک پر نمودار ہوئی۔ کار میں کم سے کم چار لوگ تھے بعد میں پتہ چلا پانچ تھے۔ ہمارے روکنے پر بھی وہ نہیں رکے۔ جی تھری کے ٹریگر پر میری انگلی مچل کے رہ گئی لیکن لودھی نے سڑک پر رش کی وجہ سے فائرنگ کی اجازت نہیں دی۔ اب ہماری ٹیوٹا ہائی لکس طوفانی رفتار سے سفید کار کے پیچھے دوڑ رہی تھی۔ کار کا رخ شہر سے باہر کی طرف تھا۔ ائیرپورٹ چوک کے قریب ہم نے ان پر پہلا فائر کیا۔ اگلے ایک کلومیڑ میں ہم ان کی کار ناکارہ کر چکے تھے۔ جوابی فائرنگ کرتے ہوئے وہ ایک کھلے میدان میں موجود کھڈوں اور مٹی کے چھوٹے ٹیلوں کے پیچھے اوٹ لینے میں کامیاب ہو گئے تھے جبکہ ہم ان کے مقابلے میں کھلے میں تھے۔ دوسرا ایڈونٹیج انھیں اے کے فورٹی سیون کا تھا۔ ان کو پاس ایمونیشن کی کوئی کمی بھی نہیں تھی، ہم ایک فائر کرتے تو وہ جواباً پوری میگزین ہم پر خالی کر دیتے۔ حالات مخدوش لگ رہے تھے، میرے پاس صرف بارہ میگزین کا ایمونیشن تھا، ہر میگزین میں بیس گولیاں تھیں۔ قانون کے مطابق مجھے چار میگزین کا ایمونیشن ہر قیمت پر بچا کے رکھنا تھا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ دہشت گرد اندھیرے اور ایمونیشن کی برتری کا فائدہ اُٹھا کے بھاگنے میں کامیاب رہیں گے۔ خوشی قسمتی سے ہم ائیر پورٹ کے ریڈار کی رینج میں آ گئے تھے، ہماری گاڑی کے وائرلیس سے ریڈار آپریٹر ہماری راہنمائی کر رہا تھا۔ ہم دو جوان غیر محسوس انداز میں آگے بڑھ رہے تھے۔ ہم ابھی اس گڑھے سے دو سو گز دور ہی ہوں گے کہ وہ ہماری موجودگی سے آگاہ ہو گئے۔ ایک طویل برسٹ فائر ہوا۔ میں نے بروقت خود کو زمین پر گرا لیا۔ لیکن مرزا علی کو کئی گولیاں لگ چکی تھیں، اب خاموشی یا واپسی کا مطلب بےبسی کی موت تھا، میں فائر کرتا ہوا گڑھے کی طرف دوڑا۔ دوبارہ فائرنگ کے لیے سر بلند کرتے ہوئے دو دہشت گرد میرا نشانہ بنے اور وہ الٹ کے گڑھے میں گرے۔ جوابی فائرنگ سے پہلے میں ان کے گڑھے کے نزدیک ایک گڑھے میں خود کو گرانے میں کامیاب رہا۔ لیکن کچھ تاخیر ہو چکی تھی، کئی انگارے میرے کندھوں اور بازوؤں میں گھس چکے تھے۔ چند لمحوں میں ہی میری گن اور ہاتھ خون سے تر بتر ہو گئے لیکن اب صورتحال میں ڈرامائی تبدیلی آ چکی تھی۔ دو ساتھیوں کی موت کے بعد دہشت گردوں کے حوصلے پست ہو چکے تھے۔ دوسری طرف ہم ان کے بالکل سر پر پہنچ گئے تھے، اس لیے جب انھیں ہتھیار پھینکے کا حکم دیا گیا تو تھوڑی سی گالی گلوچ اور مذاکرات کے بعد وہ آمادہ ہو گئے۔ جیسے ہی وہ ہتھیار پھینک کے گڑھے سے نکلے، اپنی تربیت کے مطابق ہم نے مزید دو کو ٹانگوں پر گولیاں مار کے پنکچر کیا اور انھیں گرفتار کر لیا۔ مجھے اور علی کو فوراً ہاسپٹل پہنچایا گیا، لیکن ہماری بدقسمتی ابھی ختم نہیں ہوئی تھی۔ گرفتار ہونے والے دہشت گرد ایک وفاقی وزیر کے ذاتی سیکورٹی گارڈ تھے جو کہیں کارروائی ڈال کے آ رہے تھے اور مرنے والوں میں اس کا کوئی بھتیجا یا بھانجا بھی شامل تھا۔ کیپٹن لودھی سمیت ہمیں فوراً معطل کر دیا گیا۔ وفاقی وزیر ہمیں اور خاص طور پر مجھے اور علی کو پھانسی کے پھندے پر دیکھنا چاہتا تھا۔ وہ ہم پر جعلی مقابلہ اور اقدام قتل کی ایف آئی آر کٹوانے کے لیے بڑا پر عزم تھا لیکن کیپٹن لودھی کی کاٹھی بھی تگڑی تھی، اسی دوران ڈرامائی طور پر جمہوری حکومت کا خاتمہ کر دیا گیا۔ لیکن کیپٹن لودھی کے سوا ہم سب دوبارہ کبھی بحال نہیں ہو سکے۔ چھ مہینے بعد ہمیں مستقل جبری رخصتی کا پروانہ مل گیا۔
    میرا قصہ مکمل کرنے تک ایس آئی جس کا نام بعد میں باسط ابڑو پتہ چلا، کے تاثرات اور رویہ بدل چکا تھا۔ اس نے مجھے کرسی پر بٹھایا، سگریٹ کی پوری ڈبی اور ماچس عنایت کی اور چائے بھی پلائی۔ حارث اس کے کسی جگری کا دوست تھا، جو پیکٹ مجھے دے کر کے بھیجا گیا تھا، اس میں باسط کے لیے نذرانہ موجود تھا۔ ایس آئی ابڑو نے مجھے اپنی مشکل بتاتے ہوئے کہا کہ تمھیں سیٹھ صاحب اور ان کے خاندان کی سیاسی اور سماجی حیثیت اور طاقت کا اندازہ نہیں ہے۔ تم ابھی تک زندہ ہو تو اسے حارث کی رحم دلی ہی سمجھو۔ تمھارے لیے یہی بہتر ہے کہ اپنی منحوس شکل لے کے کہیں دور دفع ہو جاؤ اور دوبارہ کبھی چھوٹی بیگم صاحبہ سے رابطہ نہ کرنا۔
    حارث نے مجھے تمھارے ہاتھ پیر توڑ کر معذور کرنے کا کہا تھا۔ تم ابھی دو چار دن ادھر ہی رہو گے، میں دیکھتا ہوں کہ میں تمھارے لیے کیا کر سکتا ہوں لیکن زیادہ بہتری کی امید نہ رکھنا۔
    تھوڑی دیر بعد مجھے حوالات میں بند کر دیا گیا۔ یہاں دوسرے کئی ملزم بھی چادریں اوڑھے لیٹے ہوئے تھے، میں بھی ایک دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کے ٹانگیں سیدھی کر کے بیٹھ گیا۔ پچھلے چوبیس گھنٹے بہت ہنگامہ خیز رہے تھے، میں کئی دفعہ پٹا، جسم کا جوڑ جوڑ درد کر رہا تھا، لیکن آنکھیں بند ہوتے ہی ایک ملیح چہرہ میرے تصور میں ابھر آیا۔ دل سے بے اختیار ایک ہوک سی اٹھی۔ کیا میں زندگی میں دوبارہ چھوٹی بیگم صاحبہ کو دیکھ پاؤں گا؟ میں نے دکھ سے سوچا۔
    اچھا ہے، میں ان سے اتنا دور چلا جاؤں کہ میرے منحوس وجود کی تہمت بھی ان کے پاکیزہ وجود تک نہ پہنچ سکے۔ خیالوں کی وادیوں میں بھٹکتے ہوئے کچھ دیر کے لیے میری آنکھ لگتی، پھر درد کی ٹیسیں اور مستقبل کے خدشات مجھے جگا دیتے۔ شاید رات کا آخری پہر چل رہا تھا کہ تھانے کے باہرایک گاڑی کے ٹائر سخت بریک سے چرچرائے۔ پھر زور سے دروازہ بند ہونے کی آواز آئی۔ رات کی خاموشی کی وجہ سے آوازیں صاف سنائی دے رہیں تھیں۔ خوابیدہ تھانے کے ماحول میں اچانک ہی ہلچل سے مچ گئی تھی۔ ایک آواز سنتے ہی میرے سر پر گویا حیرت کا پہاڑ ٹوٹ پڑا تھا۔
    اگر الیاس یہاں پر نہیں ہیں تو باہر کھڑی میری گاڑی یہاں تمھارا باپ لایا ہے؟ یو ایڈیٹ۔ تمھیں پتہ ہے تم کس سے بات کر رہے ہو؟ میں تمھارا خون پی جاؤں گی۔
    شیرنی کی طرح دھاڑتی یہ آواز چھوٹی بیگم صاحبہ کے علاوہ اور کس کی ہو سکتی تھی۔
    اس آواز نے میرے نیم مردہ جسم میں نئی جان ڈال دی تھی۔ میں لپک کے حوالات کی سلاخوں کے پاس پہنچا اور باہر دیکھنے کی کوشش کی۔ برآمدے کے بلب کی ہلکی سی روشنی اس راہدری میں پڑ رہی تھی جہاں سب انسپکڑ کا کمرہ تھا لیکن حوالات اس زوایے پر تھی کہ مجھے وہ کمرہ نظر نہیں آ رہا تھا۔ چھوٹی بیگم صاحبہ کی آمد نے جہاں میرے اندر نیا ولولہ اور ہمت پیدا کر دی تھی وہاں میں کسی المیے اور انہونی کے خدشات سے لرز رہا تھا۔ سب انسپکٹر کی آنکھ میں سور کا بال تھا، چھوٹی بیگم صاحبہ کو رات کے اس پہر تھانے میں نہیں آنا چاہیے تھا۔ کمرے سے مسلسل تیز تیز بولنے کی آوازیں آ رہی تھیں۔ اچانک ایک ایسی بھاری بھر کم اور گونج دار آواز سنائی دی جسے سن کے میرے سارے خدشات دھل گئے۔
    ”اوے حرامخور، چھووٹی بیگم صاحب کے سامنے اپنی آواز نیچھی رکوو۔ ورنہ خدایا پاکا کی قسم ام پورا میگزین تیرے تھوبڑے پر خالی کر دے گا۔پھر تیرا ماں بھی تیرا شناحت نہیں کر پائے گا۔“
    یہ ولی خان تھا، سیٹھ صاحب کا ذاتی محافظ۔ اس کا باپ بھتہ خوروں کی طرف سے کیے گئے قاتلانہ حملے میں سیٹھ صاحب کو بچاتے ہوئے جاں بحق ہو گیا تھا۔ ولی خان کا بچپن اور لڑکپن سیٹھ صاحب کے بنگلے میں ہی گزرا تھا۔ یہ وفادار قبائلی سیٹھ صاحب کی خاطر جان دینے اور جان لینے کا حوصلہ رکھتا تھا۔
    لگ رہا تھا کہ سب انسپکڑ کے کمرے میں صورتحال کشیدہ ہو چکی ہے، کچھ عجب نہیں ولی خان نے پولیس والوں کو گن پوائنٹ پر لے رکھا ہو۔
    تھوڑی دیر بعد حوالات کی طرف آتے قدموں کی چاپ سنائی دی۔ میری ساری حسیات آنکھوں میں سمٹ آئیں تھیں۔ میں نے انتہائی دراز قد چھوٹی بیگم صاحبہ کو باسط ابڑو کے ساتھ حوالات کی طرف آتے دیکھا۔ پیچھے پیچھے ولی خان تھا۔ کلاشنکوف بیلٹ کے ساتھ اس کے سینے پر جھول رہی تھی اور وہ کسی جنگلی جانور کی طرح چوکنا نظر آ رہا تھا۔ بیگم صاحبہ نے نیلی جینز کے اوپر گہرے سبز رنگ کی ڈھیلی سی جرسی سی پہن رکھی تھی جس کی آستینیں فولڈ کی گئی تھیں، پیروں میں جاگر پہنے اور بالوں کا جوڑا بنائے ہوئے وہ ہمیشہ سے زیادہ خوبصورت لگ رہی تھیں۔ باسط ابڑو کا چہرہ ستا ہوا تھا۔ وہ کافی دبنگ بندہ تھا لیکن اس وقت وہ کچھ پریشان نظر آتا تھا۔ بیگم صاحبہ حوالات کے پیچھے سے مجھے بغور دیکھتی رہیں۔ ان کی آنکھیں سرخ اور چہرے کی رنگت سفید لٹھے کی طرح ہو رہی تھی۔
    تالہ کھولو!
    چھوٹی بیگم صاحبہ نے باسط ابڑو کو حکم دیا!
    باسط ابڑو کے چہرے پر روایتی ہٹ دھرمی نمودار ہو گئی۔
    بی بی جی! آپ بچوں جسی باتیں کرتی ہیں۔ دوبارہ عرض کر رہا ہوں کہ جس آدمی کو آپ چھوڑنے کا کہہ رہی ہیں، اسے آج رات میرے لوگوں نے نیشنل ہائی وے پر منشیات سمگل کرتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑا ہے۔ آپ کی ذاتی کار بھی اس مکروہ دھندے میں استعمال ہو رہی تھی، لیکن میں نے ایف آئی آر صرف آپ کے ڈرائیور کے خلاف کاٹی ہے۔ صبح ہونے والی ہے، صبح ہم اسے عدالت میں پیش کر کے اس کا جسمانی ریمانڈ لے لیں گے۔ اگر آپ کا بالکل گزارہ نہیں ہو رہا اس کے بغیر تو صبح اپنے وکیل کے ساتھ عدالت تشریف لے آئیے گا، اور ضمانت کی درخوست دائر کر دیجیے گا۔ اللہ اللہ خیر سلا۔
    لُک آفیسر۔ تمھیں اندازہ بھی نہیں ہے کہ تم نے خود کو کس مصبیت میں پھنسا لیا ہے۔ تم نے لاک اپ میں ایک ایسے شخص کو بند کر رکھا ہے جس نے کوئی جرم نہیں کیا۔ ہم جانتے ہیں تمھارے پاس اس کی گرفتاری کا کوئی ریکارڈ ہے نہ ہی ابھی اس پر کوئی ایف آئی آر کٹی ہے۔ یہ سیدھا سادہ اغوا اور حبس بےجا کا کیس ہے۔ اس کے بعد تم لوگ الیاس پر بدترین تشدد کے بھی مرتکب ہو چکے ہو۔ ہم تم لوگوں کو عدالت میں گھیسٹ لیں گے۔ پھر تم ناک سے لکیریں بھی نکالو گے تو معاف نہیں کریں گے۔
    چھوٹی بیگم صاحبہ کے لہجے میں ان کا روایتی تحکم اور شان بےنیازی تھی۔
    سب انسپکڑ باسط ابڑو کے چہرے پر ایک طنزیہ مسکراہٹ نمودار ہوئی۔ بی بی جی میں آپ کے والد محترم کو بہت اچھی طرح جانتا ہوں۔ بڑے معقول اور شریف النفس انسان ہیں۔ سچ پوچھیے تو ان کے کردار کی حیا ہی مجھے مارے جا رہی ہے ورنہ آپ جس طرح ایک پاگل گن مین کے ذریعے مجھے دھمکانے کی کوشش کر رہی ہیں اور کارسرکار میں مداخلت کر رہی ہیں، اگر کوئی اور ایسا کرتا تو میں اسے بھی اس حوالات میں بند کر کے ایک ایف آئی آر اس پر بھی کاٹ دیتا۔ آپ ایک نجیب خاندان سے تعلق رکھتی ہیں، ایک دو ٹکے کے سمگلر ڈرائیور کے پیچھے خود کو اتنا نہ گرائیے۔ آپ کو اس سے بہت بہتر مرد مل جائیں گے۔
    چھوٹی بیگم صاحب کے چہرے پر غصے کے شعلے لپکے۔ ولی خان کے صبر کا پیمانہ بھی لبریز ہو چکا تھا، اس نے رائفل کو کاک کر کے برسٹ موڈ پر کیا، اور اسے باسط ابڑو کے چہرے پر تان لیا۔ اگر بیگم صاحبہ ایک لمحہ کی بھی تاخیر کرتیں تو باسط کی کہانی وہیں ختم ہو جاتی۔ بیگم صاحبہ نے ہاتھ سے ولی کی رائفل کی نال کو پیچھے ہٹایا اور اسے ڈانٹ کے پیچھے دھکا دیا۔ صورتحال ایک دم سے دوبارہ سخت کشیدہ ہوگئی تھی۔ پولیس والوں نے بھی بیگم صاحبہ اور ولی کی طرف بندوقیں تان لیں تھیں۔ ولی غصے سے بل کھا رہا تھا اور پشتو میں باسط کو گالیاں اور قتل کرنے کا عزم دہرا رہا تھا۔ چھوٹی بیگم صاحبہ نے اسے بمشکل شانت کیا۔
    تم ایسے نہیں مانو گے۔ ہم تمھارا دوسرا بندوبست کرتے ہیں۔ چھوٹی بیگم صاحبہ نے اپنی جینز کی سائیڈ پاکٹ سے اپنا سیل فون نکالتے ہوئے کہا۔
    سرکار! ہم تو صرف اپنی ڈیوٹی انجام دے رہے ہیں۔ آپ پڑھے لکھے لوگ ہیں، آپ کو تو خوش ہونا چاہیے کہ ہم قانون کے مطابق اپنا کام کر رہے ہیں، پر آپ سیٹھ لوگ قانون کو موم کی ناک اور قانون کے رکھوالوں کو دلا سمجھتے ہیں۔ آپ کے گن مین نے دو دفعہ ایک تھانے میں ڈیوٹی پر موجود وردی میں ملبوس پولیس آفیسر پر گن تانی ہے، یہ بذات خود ایک نہایت سنگین جرم ہے لیکن میں بات کو بڑھانا نہیں چاہتا، آپ سے یہی گزارش ہے کہ گھر لوٹ جائیے، صبح وکیل کے ساتھ عدالت آ جائیے گا۔
    سب انسپکڑ باسط ابڑو اب پوری طرح سنبھل چکا تھا، اور چھوٹی بیگم صاحبہ کو وقتی طور پر وہاں سے ٹالنے کی فکر میں تھا۔
    چھوٹی بیگم صاحبہ نے اس کی بات کا کوئی جواب نہیں دیا اور فون پر بات کرتی رہیں۔ ان کے کال بند کرنے کے کچھ سیکنڈ بعد ہی باسط کے سیل فون کی گھنٹی بجنے لگی۔ باسط نے سیل نکال کے نمبر دیکھا اور بے اختیار بیگم صاحب پر نظر ڈال کے فون کال ریسو کر لی۔
    جی سر!
    جی وہ ادھر ہی ہیں۔
    سر وہ۔۔۔
    جی سر۔۔
    ایف آئی آر تو ابھی نہیں کاٹی سر۔
    جی لیکن۔۔۔
    معافی چاہتا ہوں جناب۔
    باسط ابڑو بات کرتے ہوئے ہم سے دور چلا گیا اور کچھ دیر بعد وہ ماتھے سے پسینہ پونچھتا ہوا لوٹا۔ وہ سخت پریشان لگ رہا تھا۔
    لگ رہا تھا کہ باسط نے اوور کانفیڈنس میں ایک سنگین غلطی کر دی تھی۔ اس نے مجھے اٹھوا تو لیا تھا لیکن کسی قسم کی قانونی کارروائی نہیں کی تھی، اور میری کار کو بھی منظر سے ہٹانا بھول گیا تھا۔ شاید اسے یقین دہانی کروائی گئی تھی کہ فدوی بالکل بے یار و مددگار اور لاوارث ہے، وہ بےفکر ہو کر اس کی ہڈیاں پسلیاں توڑتا رہے لیکن اللہ کی تقدیر ہمیشہ ظالموں کی تدبیر پر غالب آ جاتی ہے۔ چھوٹی بیگم صاحبہ نے اپنے انکل ایس ایس پی صاحب کو کال کی تھی، اور باسط ابڑو سے وعدہ کیا تھا کہ وہ اسے نہ صرف معطل کروا کے دم لیں گی بلکہ اسے بھی ایسے ہی تشدد کا نشانہ بنایا جائے گا۔ مجھے باہر نکال کے باسط ابڑو اب میرے اور چھوٹی بیگم صاحبہ کے پیروں میں لوٹ رہا تھا، اور معافیاں مانگ رہا تھا۔ اس کی ساری اکڑ اور کروفر ہوا ہو چکا تھا۔ بیگم صاحبہ نے اس شرط پر اسے معاف کرنے کا وعدہ کیا کہ وہ سیٹھ صاحب کے سامنے حارث کے خلاف گواہی دے گا۔ تھوڑی سی سوچ بچار کے بعد وہ آمادہ ہو گیا۔ سب انسپکڑ کے کمرے سے نکل کر ہم احاطے میں پہنچے تو فجر کی اذانیں شروع ہو چکی تھیں۔ مجھے ابھی پتہ چلا تھا کہ میں حیدر آباد شہر میں ہوں۔ چھوٹی بیگم صاحبہ نے ولی خان کو لینڈ کروزر لے کر کے بنگلے پر پہنچنے کی ہدایت کی اور مجھے لے کر اپنی ہونڈا میں آ بیٹھیں۔ ولی خان کے چہرے پر تذبذب کے ِآثار تھے، وہ ہماری کار کے قریب کھڑا ہونٹ کاٹتا ہوا مجھے دیکھتا رہا۔
    کیا بات ہے ولی؟ کیوں کھڑے ہو؟ ہم نے کہا نہ گھر جاؤ!
    بیگم صاحب، ام آپ کو لےکر آیا ہے، اب اکیلا کیسا چلا جاوے؟ سیٹھ صاحب کو کیا جواب دے گا؟
    ولی خان نے ڈرتے ڈرتے کہا۔
    آپ فکر نہ کرو ولی۔۔ ہم بابا کے جاگنے سے پہلے واپس آ جائیں گے، ہمیں کچھ کام ہے وہ کر کے آئیں گے۔ اور یاد رکھنا یہاں جو کچھ ہوا، وہ بابا کو بتانا ہے، جب ہم آپ کو بابا کے سامنے بلائیں گے۔ اس حارث کو چھوڑنا نہیں ہم نے۔
    آج اس نے الیاس کو اٹھوایا ہے، کل کو آپ کو اٹھوا دے گا۔ ہی بیکیم ٹوٹلی میڈ، ۔
    اوکے؟
    جی میڈم۔
    ولی خان گاڑی لے کر چلا تو گیا لیکن وہ مطمئن نہیں لگ رہا تھا۔ جب ہم نیشنل ہائے وے پر آئے تو صبح کی روشنی پھیل چکی تھی۔ گاڑی بیگم صاحبہ ڈرائیو کر رہی تھیں، میں ان کے ساتھ سیٹ پر بیٹھا تھا۔
    اعصاب کو مطیع اور مفلوج کر دینے والی ایک بھینی بھینی خوشبو نے مسلسل مجھے اپنی لیپٹ میں لے رکھا تھا۔ المناک رات کا اتنا روشن سویرا ہوگا، یہ تو میں نے سوچا بھی نہیں تھا۔ چھوٹی بیگم صاحبہ کے چہرے کو حزن اور اداسی نے اپنی لیپٹ میں لے رکھا تھا۔ انھوں نے کئی دفعہ مجھ سے معذرت کی اور مجھے بتایا کہ اس واقعہ نے ان کے دل اور اعصاب پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔ انھیں لگ رہا تھا کہ میری زندگی شدید خطرات میں گھر گئی ہے۔ حارث کے والد سیٹھ صاحب کے کئی کاموں میں بزنس پارٹنر بھی تھے۔ آثار یہی تھے کہ ایک معمولی ملازم کے لیے اس رشتے داری کو قربان نہیں کیا جائے گا۔ بلکہ ہو سکتا ہے کہ ملازم کی جان کی قربانی ہی دے دی جائے۔ وہ مسلسل کسی گہری سوچ میں ڈوبی ہوئی تھیں۔ ایسا لگتا تھا کہ وہ کسی حتمی فیصلے کے ساحل پر لنگر انداز ہونا چاہتی ہیں لیکن نامعلوم اندیشوں کے بھنور انھیں ڈبو رہے ہیں۔
    ناشتہ ہم نے سڑک کے کنارے آباد ایک وی آئی پی ریسٹورنٹ میں کیا۔ اب کراچی صرف پچاس کلومیٹر دور رہ گیا تھا۔ ناشتہ ختم کر کے چھوٹی بیگم صاحبہ نے کافی کا مگ اٹھاتے ہوئے مجھے گہری نظروں سے دیکھا، ایک گہری سانس لی، اور پھر بڑبڑائیں ۔۔ او کے لٹس فنش اٹ!
    پھر تھوڑا سا کھنکار کے، سرخ ہوتے چہرے کے ساتھ نظریں جھکا کے بولیں،
    الیاس کیا آپ ہمیں اپنے نکاح میں قبول کر لیں گے؟
    میرے سر پر تو گویا کسی نے بم پھوڑ دیا تھا۔ میں حیرت سے اچھل پڑا۔

    (یہ سچی داستان ابھی جاری ہے)

    کہانی کی پہلی قسط یہاں ملاحظہ کریں

    کہانی کی تیسری قسط یہاں ملاحظہ کریں

    کہانی کی چوتھی اور آخری قسط یہاں ملاحظہ کریں

  • جو چپ رہے گی زبان خنجر لہو پکارے گا آستیں کا: علی عالم زادہ

    جو چپ رہے گی زبان خنجر لہو پکارے گا آستیں کا: علی عالم زادہ

    کس کی آستین ، اور کونسا خنجر..ایک گرنیڈ پھینکو نہ رہے گی آستین اورنہ ہی لہو بچے گا، رہیں‌گےتوبس چیتھڑے اس زندہ قوم کے.

    باقی رہا خنجرتواس کی قوت گویائی تو ان دھماکوں کی گونج میں‌کب کی سلب ہو چکی، بےچارہ اس دور کے انساں کی جلادی پرمہربلب سہما ہوا خود سے لگی توقعات پر بے وجہ ہی شرمندہ کسی کونے کھدرے میں‌منہ چھپائے بیٹھا ہے.

    آرمی پبلک سکول پشاور جسے ہم نے سانحہ اے پی ایس کا نام دے رکھا ہے کی گونج سے ابھی کانوں کے پردوں کی لرزش تھمی نہیں‌تھی کہ کوئٹہ میں قوم کی خدمت کا عزم کرنے والے ماؤں کے لال، جنہوں نے ابھی صرف عزم ہی کیا تھا ،جنہوں نے ابھی اس یزیدی دنیا کے “پریکٹیکل تھپیڑوں” سے آشنائی اورانتہا پسندی کے بھڑکے ہوئے آتش کدے کی تپش کو محسوس ہی نہیں‌کیا تھا بڑے بڑے خواب آنکھوں میں‌سجائے دہشتگردی کے عفریت کا شکار ہو گئے.

    لیکن ایسا ہوا کیوں؟ کس کے گناہ کا کفارہ ادا کیا ان پرعزم جوشیلے جوانوں نے. یہ تو اپنی جان دینے ہی نکلے تھے اپنے گھروں سے ان شہیدوں کی مائیں‌بھی یہ جانتی ہوں‌گی کہ ان کے بیٹوں نے جس مقدس پیشے کا انتخاب کیا ہے اس میں ایک نہ ایک دن ایسی خبر بیواؤں کی مانگ اور ماؤں کی نیندیں اجاڑنے آ ہی جاتی ہے تاہم کیا انہوں نے سوچا بھی ہو گا یہ زیرتربیت سپاہی جو ابھی جوبن پر پہنچے ہی نہیں جنہیں‌ابھی خود اپنی حفاظت کے طریقہ کار سے مکمل واقفیت نہیں انہیں‌ یوں بے موت قربان کر دیا جائے گا.

    کون ہے اس دہشتگردی کا ذمہ دار، کس کی اتنی ہمت ہےکہ پاکستان کی دنیا کی بہترین افواج کے جاری آپریشن میں‌بھی ہمارے بچوں، بوڑھوں اورجوانوں کو مارنے چلے آتے ہیں، جتنی بھی احتیاطی تدابیر کر لی جائیں جتنے بھی ناکے، چیکنگ پوائینٹز، مورچے یا آپریشن کر لیں لیکن ابھی ایک زخم بھی ٹھیک سے بھرا نہیں‌ ہوتا کہ اسے پھر سے تازہ کر دیا جاتا ہے.

    ابلتے لہو کے دھاروں نے پوری قوم کو اضطراب میں مبتلا کر دیا ہے. اور اضطراب کیوں نہ ہو؟ جن کے بچے مرتے ہیں ان میں‌تو بس اضطراب ہی زندہ رہ جاتا ہےایک جھوٹی آس ایک امید پر سسکتے زندگی گزارتے ہیں‌کہ شاید کبھی ہمارے بچوں کے خون ناحق کا انصاف ہو سکے شاید کبھی تو اس درد کا مداوا ہو سکے اور کچھ تو ایسے بھی ہوتے ہیں جو صدمے کی شدت سے سود و زیاں کے احساس سے بھی مبرا ہو جاتے ہیں مرنے والوں کے ساتھ گھر والے بھی مرجاتے ہیں بس ضروریات زندہ رہ جاتی ہیں زندہ لاشیں ایک دوجے کو دیکھتے ایک دوسرے کے لئے جینے کی کوشش میں سسک سسک کر اپنے زندہ لاشے گھسیٹتے رہتے ہیں.

    سانحہ کوئٹہ بے شک ایک المیہ ہے لیکن اس سے بھی بڑا ایک المیہ ہے کہ اس سانحے میں جام شہادت نوش کرنے والوں کو تو ایمبولینسیں‌بھی میسرنہ آ سکیں ان شیر جوانوں کے شہید لاشوں کو مسافر بسوں کی چھتوں پر رکھ کر بھجوایا گیا

    protocol
    جبکہ دوسری جانب اس سلطنت پاکستان کے بادشاہوں کو جب کوئی خطرہ ہوتا ہے، جو کہ انہیں‌ہمیشہ ہی ہوتا ہےتو ان کے ہمراہ پروٹوکول کے قافلے چلتے ہیں.سرکاری گاڑیوں کی ایک لمبی قطار جو عوام کے خون پسینے کی کمائی سے حاصل کی جاتی ہیں اسی “باشعور” عوام کے راستے روک کر فراٹے بھرتے گزر جاتی ہیں. کیونکہ یہ “بڑے لوگ” ہیں “اہم لوگ” ان کے سر پہ ملک چلتا ہے انہیں کچھ ہو جائے تو شاید ہمارا وطن “یتیم” ہو جائے گا تو پھر ان کا کیا جو اپنی جانوں کو مشقتوں کی بھٹی میں تپا کر فولاد بناتے ہیں اس وطن عزیر کی حفاظت کےلیئے ،ان جوانوں نے اپنے “ڈنڈ” نہیں دکھانے ہوتے اور اگر دکھائیں بھی تو اس طاقت کا مظاہرہ وطن کے دشمنوں کے لئے ہوتا ہے بادشوں کی بادشاہی کے مظاہرے کی طرح نہیں‌جودشمن سے “دیدہ دل فرش راہ کیئے” ملتے ہیں اور دشمن چاہے ملک پر حملہ بھی کر دے لیکن ایک مذمتی بیان جاری کرنے سے پہلے بھی لاکھوں روپے مشورے دینے کی مد میں‌لینے والوں کے تحفظات دور کرنے کے چکر میں‌پڑے رہتے ہیں‌اور”باشعور”عوام نگاہیں جمائے بیٹھی رہتی ہے کہ ابھی بادشاہ سلامت کوئی ایسا فرمان جاری کریں گے کہ جلتے کلیجوں میں‌ٹھنڈک اتر جائے گی .

    لیکن یہ جمی ہوئی نگاہیں اسی امید پر جمے جمے پتھرا جاتی ہیں‌ اور بازی کوئی اور مار جاتا ہے. یہ جو سلطنت اسلامی جمہوریہ پاکستان کا ہلالی پرچم ہے یہ تو ہم نے لہرانے کے لیئے بنایا تھا. پاک سر زمین شاد باد کا ترانہ پڑھتے اس معززپرچم کو فخر بھرا سیلیوٹ کرنے کیلئے لیکن یہ کیا…کہ ہمارا سبز ہلالی پرچم شہیدوں کی لاشوں پر لپیٹ لپیٹ کر اتنا خوں رنگ کر دیا گیا ہے اس کا سفید حصہ ہی نہیں بلکہ سبز بھی ان بچوں کے خون کی لالی میں‌ڈوب گیا ہے .

    خون کی یہ لالی ہم سے لہو لہو لہجے میں‌پوچھتی ہے کہ اس پاک وطن پر چھاتے ہوئے سرخ اندھیروں کے بادل کب چھٹیں گے اس پرچم کا لہو اگلتا رنگ کب دھل کر ہلالی ہوگا؟

    اس پرچم کے لئے جان دینے والوں‌کو “پروٹوکول” کب ملے گا ؟
    یہ “بادشاہ” کب مسافر بسوں میں سفر کریں گے ..

    آخر کب ہم جاگیں‌گے..کب تک “سانوں کی ” کی بین بجاتے رہیں گے ؟ “سانوں کی” جی کوئٹہ میں‌ہواجوبھی ہوا، پرہم تو محفوظ ہیں‌..پشاور میں‌ہوا تو “سانوں کی” ہم تو محفوظ ہیں‌،ہمارے بچے محفوظ ہیں ..

    آخرمیں‌ دوخبریں آپ کے ساتھ شیئر کرتا چلوں‌، دیکھتے ہیں ان خبروں میں‌چھپی شہیدوں کی چیخیں‌آپکے کانوں تک پہنچتی ہیں‌یا پھر وہی”سانوں‌کی” کی گردان کرتے دامن بچا جاتے ہیں.

    پہلی خبر یہ ہے کہ بلوچستان کے وزیراعلی کی توجہ گزشتہ مہینے ہی کوئٹہ کے ٹریننگ سینٹرکی گارے سے بنی بناء‌حفاظتی اقدامات کے پانچ فٹ کی دیواروں کی جانب مبذول کروائی گئی تھی ،جس پر انہوں نے جو ایکشن لیا وہ قوم کے سامنے ہے اور دوسری خبر یہ بھی ہے کہ اسحق ڈارنے “جاتی عمرہ” کے حفاظتی اقدامات کیلئے 75 کڑوڑ روپے کی مانگ کی ہے.

    یہ “سانوں کی ” اب اور نہیں‌چلے گی، بے حسی کے اس دلدل سے نکلیئے کہ اس سے پہلے کوئی آپ کے “زندہ لاشے” سے ناک پر رومال رکھے اپنا پاک دامن بچاتے “سانوں کی ” کہتا ہوا گزر جائے

  • مفادپرستی اور استحصال کی سیاست – محمد شاکر

    مفادپرستی اور استحصال کی سیاست – محمد شاکر

    محمد شاکر یہ تلخ ضرور ہے مگر ہے حقیقت کہ انسان طبعا بڑا خود غرض اور مطلب پرست واقع ہوا ہے. ایسے خوش خصلت لوگ انسانی تاریخ کے ہر دور میں اقلیت میں ہی رہے ہیں کہ جن کے لینے اور دینے کے پیمانے ایک ہوں.

    اپنے مطلب کی بات ہو تو لوگ بڑے متشرع اور اصول پرست بنتے ہیں لیکن جوں ہی کوئی قانون و اصول کی زد اپنی مفادات پر پڑتی ہے تو قدرے شریف لوگ کھسیانی بلی بن جاتے ہیں، ڈھیٹ مزاج حیلہ سازی میں لگ جاتے ہیں کہ دراصل بات یہ تھی … اصل مسئلہ یوں تھا …. وغیرہ وغیرہ اور بے شرم طبیعتیں ایسے اصولوں کو جوتوں کی نوک پر رکھتی ہیں. صاف صاف انکار میں کوئی عار محسوس نہیں کریں گے. ایسے لوگوں سے پہلی مرتبہ واسطہ پڑ رہا ہو تو یقین جانیے! کچھ دیر کے لیے آپ کو اپنی آنکھوں اور کانوں پر یقین نہیں آئے گا، جی آپ یہ سب کچھ کھلی آنکھوں مشاہدے کے بعد کر سکتے ہیں.

    مزہ تو تب ہے جب ہماری خواہشات پر چھری چلے اور ذاتی مفادات پر کاری ضرب لگے اور ہم اصولوں سے چمٹے رہیں اور کہیں کہ جی اصولوں کی سودا بازی نہیں کر سکتا.
    ذاتی مفادات کے حصول کے لیے پاگل پن کی حد تک جنونی کیفیت کے حامل افراد کی بھی کمی نہیں جو کمزور طبقات کے مال و جان کی قیمت پر اپنی ادنی خواہشات کو قربان کرنے کو تیار نہیں ہوتے. ان کو اس بات کی ذرہ برابر پروا نہیں ہوتی کہ وہ اپنی اس حقیر سی خواہش کو پورا کرنے کے لیے کتنوں کا استحصال کر رہے ہیں.

    حد تو یہ ہے شریعت کے احکام بھی ہمیں وہی نظر آتے ہیں جو ذاتی مفادات کے عین مطابق ہوں. یہاں بھی معاملہ خواہشات کے بر عکس ہو تو آئیں بائیں کرنے سے نہیں کتراتے ہیں. شریعت کی تعلیم تو یہ ہے آدمی جو اپنے لیے پسند کرتا ہے اپنے بھائی کے لیے بھی اسی کا خواہاں رہے. ہر حال میں اللہ لگی کہنے اور ہر وقت اصولوں پر چلنے کی اخلاقی جرات ہمارے معاشرے میں گنے چنے لوگ ہی رکھتے ہیں.

    ہم معاشرتی زندگی کا ٹھنڈے دماغ سے جائزہ لیں گے تو ہمیں اس کی مثالیں جابجا ملیں گی. مفاد پرستی اور خود غرضی سے ہمارے معاشرے کی بنیادیں کھوکھلی ہورہی ہیں. دوسروں خاص طور پر ماتحتوں کے استحصال کے ساتھ ہم خود اپنے پاؤں پر کلہاڑی چلانے کے مرتکب ہو رہے ہیں .ہمارے گھروں، اسکولوں، مدرسوں اور دیگر اداروں میں بپا فساد کا سبب یہی مفادپرستی اور استحصال کی سیاست ہے.
    بہرحال کامیابی کے لیے حقوق لینے کے ساتھ حقوق دینا بھی سیکھنا ہوگا. مطلب پرستی اور خود غرضی ختم کر کے اپنے لیے قناعت اور دوسروں کے لیے ایثار کا جذبہ اپنانا ہوگا.

  • آتنک ہی آتنک – خالد ایم خان

    آتنک ہی آتنک – خالد ایم خان

    بیس کروڑ پاکستانیوں کے ساتھ ساتھ دنیا کی دیگر اقوام بھی اب یہ سمجھنے پر مجبور ہو چکے ہیں یا انڈین میڈیا کے ذریعے مجبور کردئے گئے ہیں کہ انتہائی ذہنی خلفشار اور انتہائی اعلی درجہ کے تعصب کا شکار ہندوستانی میڈیا کو دنیا میں صرف ہر پاکستانی ہی کیوں آتنک وادی نظر آتا ہے ، آخر پاکستانیوں کے اندر وہ کیا خاص بات ہے جس نے ہندوستانی میڈیا اور اُن کے جانبدار حکومتی اہلکاروں کو خوف میں مبتلا کر رکھا ہے ،جن کو شائد خواب میں بھی پاکستانیوں کا آتنک ہی آتنک نظر آتا ہے.

    مجھے تو لگتا ہے کہ ہندوستانی حکومتی اہلکاروں کے ساتھ ساتھ پورے کے پورے ہندوستانی میڈیا کو پاکستانی آتنک فوبیا کا سنگین مرض لاحق ہو چکا ہے ،جس کا علاج اب شائد ممکن نہیں رہا ،یہ ایک لا علاج مرض کا شکار ہوچکے ہیں ان کا بس دنیا میں سرف ایک ہی علاج باقی رہ گیا ہے کہ ان تمام تعصبی اور فلمی ڈرامہ بازی کے شکار افراد کو تین تین مہینہ تک گدھوں کے ساتھ باندھ کر رکھا جائے ، کیوں کہ یہ جب بھی اپنے چینلوں پر رونما ہوتے ہیں بلکل گدھے ھی کی طرح کا روپ دھار لیتے ہیں.

    اب تو ہندوستانی گدھے بھی یہ سوچنے پر مجبور ہو چکے ہیں کہ ذہنیت ہم سب کی ایک ہی جیسی پھر ہم تعصب کا شکار کیوں، شور تو ہم بھی اُنہی کی طرح کرتے ہیں پھر ہم پر ظُلم کیوں ، وہ تو کھائیں مرغ مسلم اپنے لئے ایک گھاس پلیٹ، اب یہ تو ہندوستانی گدھوں کی سوچ ہے جس پر ہمارا کوئی عمل دخل نہیں ہم تو بس مشورہ مفت دے رہے ہیں، اب عمل کریں کہ نہ کریں ہمیں کیا دونوں قسم کے گدھے آپ ہی لوگوں کے ہیں ،آپ ہی کے سماج کا حصہ ہیں ہم تو بس ہنس رہے ہیں اور بس ہنس رہے ہیں کیوں کہ آپ کے ان گدھوں نے بلکہ انتہائی بے وقوف قسم کے اعلی ترین گدھوں نے جس مشاقی اور مہارت کا ثبوت دیتے ہوئے ایک معصوم کبوتر کو آئی ایس آئی کا جاسوس پاکستانی آتنک وادی بنا کر پیش کیا وہ صرف آپ ہی لوگوں کا خاصہ ہو سکتا ہے، آپ لوگوں سے کچھ بعید نہیں آپ لوگ کچھ بھی کرسکتے ہو، دنیا اب جان چکی ہے کہ ڈرامہ بازی میں آپ لوگوں کا کوئی ثانی نہیں آپ اپنے میڈیا کے سامنے ایک چیتا کھڑا کردیں اور اُن سے کہیں کہ آپ نے اسے کُتا بنا کر دنیا کے سامنے پیش کرنا ہے اور ہندوستان کی پوری جنتا دیکھ رہی ہوتی ہے کہ یہ چیتا ہے لیکن آپ کے گدھے اینکر بڑے وثوق سے دنیا کو یہ باور کرانے کے لئے جُت جائیں گے کہ دیکھیں یہ کُتا ہے آپ یقین کریں کہ یہ کُتا ہے، یہ صرف اور صرف ایک کُتا ہے، کیوں کہ یہ کُتے کا بچہ ہے ،اس کا باپ ایک کُتا تھا اور یہ کُتا ہے ، پھر اُس چیتے کو کُتا ثابت کرنے کے لیے ایسی ایسی فلمی اسٹوریاں گھڑی جاتی ہیں کہ اب تو لوگوں کو بھی اپنی نظروں پر شک ساہونے لگ جاتا ہے کہ یار کہیں واقعی یہ ایک کُتا تو نہیں ، اور دوسری طرف اس بے چارے چیتے کو بھی اب اپنی جنس پر کچھ شک سا ہونے لگ جاتا ہے کہ کہیں واقعی اصل میں میں کُتا تو نہیں،یہی حال پچھلے کچھ عرصہ سے دنیا کی دیگر اقوام کا بھی ہے جو آئے دن ہندوستانی میڈیا کے ذریعے پاکستان کے بارے میں سُن رہے ہیں، جو بڑے باوثوق انداز میں دنیا کو پاکستان کے ہرشریف اور امن پسند شہری کو آتنک وادی بنانے پہ تُلا ہوا ہے اور آئے دن اپنے تمام چینلوں پر گدھوں کی طرح شور مچانے میں مصروف ہیں کہ یہ آتنک وادی ہیں ، جی ہاں پاکستان کا ہر شہری آتنک واد کا حصہ ہے اور دنیا میں آتنک واد کو بڑھاوہ دینے میں پاکستان کا ہاتھ ہے