Blog

  • انصاف کی دو سنہری داستانیں اور ہمارا نظامِ انصاف – غلام نبی مدنی

    انصاف کی دو سنہری داستانیں اور ہمارا نظامِ انصاف – غلام نبی مدنی

    غلام نبی مدنی کہانی پانچ سال پہلے شروع ہوئی، جب پولیس نے شراب سمگلنگ کے الزام میں ایک امریکی اور یونانی شہری سمیت سعودی شہری کو حراست میں لیا۔ ان پر الزام تھا کہ انہوں نے بحری راستے سے ایک کنٹینر کے ذریعے 3350 شراب کی بوتلیں سعودی عرب سمگل کرنے کی کوشش کی۔ محکمہ پولیس نے کیس عدالت میں دائر کیا اور یوں عدالت نے تینوں مجرموں کو جیل بھیج دیا۔ سعودی اخبار ”عکاظ“ کے مطابق سعودی شہری نے ہمت نہیں ہاری۔ چنانچہ اس نے پولیس کے خلاف سٹینڈ لیا اور عدالت میں اپنی بریت کے لیے کیس دائر کردیا۔ عدالت نے کیس کی از سر نو تفتیش کا حکم دیا۔ کیس کی جانچ پڑتال کرنے والی عدالتی کمیٹی نے پولیس کی طرف سے بیان کیے گئے شواہد کو غلط اور جھوٹا قرار دے دیا، یوں لگ بھگ ایک سال بعد سعودی شہری ناحق جیل میں قید رہنے کے بعد رہا ہوگیا۔ سعودی شہری نے ناحق سزا دیے جانے پر پولیس کے خلاف دوبارہ کیس دائر کیا، جس میں مطالبہ کیا کہ چوں کہ پولیس کے الزام کی وجہ سے اس کی شہرت داغدار ہوئی، اس کا کاروباری نقصان ہوا، خاندان کی بدنامی ہوئی، لہذا پولیس اس کا معاوضہ ادا کرے۔عدالت نے سعودی شہری کے اس مطالبے پر ماہرین کی ایک کمیٹی بنادی کہ وہ ناحق سزا کے عوض سعودی شہری کے ہونے والے نقصانات کا تخمینہ لگائے۔ چنانچہ کمیٹی نے ایک سال جیل میں رہنے کے عوض یومیہ 1500 ریال خسارے کا تخمینہ لگایا، جو تقریبا 547500 سعودی ریال بنا۔ سعودی شہری کے مطابق جیل سے رہا ہونے کے بعد شہرت داغدار ہونے کے باعث تین سال تک وہ بےروزگار رہا، چنانچہ کمیٹی نے بیروزگار رہنے کی وجہ سے یومیہ 400 ریال خسارے کا تخمینہ لگایا جو تقریبا 438000 سعودی ریال بنا۔ یوں کل ملا کر 985500 سعودی ریال معاوضہ بنا۔ عدالت نے محکمہ پولیس کو یہ رقم سعودی شہری کو ادا کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ وہ آئندہ ناحق مجرموں کے بارے احتیاط کرے۔

    یہ ایک سچی کہانی ہے جس میں سعودی عدالت نے حال ہی میں پولیس کی کوتاہی کی وجہ سے ناحق ملزم کو قید کرنے کی وجہ سے محکمہ پولیس کو 9 لاکھ پچاسی ہزار پانچ سو سعودی ریال، یعنی دو کروڑ 69 لاکھ چار ہزا ر ایک سو بیالیس روپے پاکستانی ادا کرنے کا حکم دیا گیا۔

    اسے سے ملتی جلتی ایک کہانی امریکی شہری روڈیل سینڈرز کی ہے، جسے قتل کے جرم میں 20 سال قید رکھا گیا، بعدازاں 22 جولائی 2014ء کو عدالت نے روڈیل کیس کا جائزہ لے کر گواہوں کی جھوٹی گواہی کا اعتراف کیا اور روڈیل کو بری کردیا۔ 28 ستمبر 2016ء کو اسی عدالت نے جھوٹےگواہوں کے تعاون سے ملزم روڈیل کو بیس سال ناحق قید رکھنے کے جرم میں پولیس کے خلاف ایک تاریخی فیصلہ سنایا، جس میں محکمہ پولیس کو روڈیل سینڈرز کو 20 سال ناحق قید رکھنے کے عوض 15 ملین ڈالر یعنی ڈیڑھ ارب پاکستانی روپوں کا جرمانہ کیا۔

    انصاف کی ان دوکہانیوں کے بعد ہمارے عدالتی اور پولیس سسٹم پر نظر دوڑائیے، جہاں مظہر حسین ایسے ملزم کو ناحق 17سال جیل میں قید رکھاجاتاہے اور اس کے مرنے کے دو سال بعد اس کی برات کا فیصلہ سنایاجاتاہے۔ یہ ہمارا محکمہ پولیس ہی ہے جو لوگوں کو جھوٹے کیسوں میں جیل بھیج دیتا ہے، جو کسی بھی شریف آدمی کوسزا دلوانے اور مجرم کو بچانے کے لیے جھوٹی ایف آئی آر اور جھوٹے گواہ تک تیار کروا لیتا ہے۔ ماورائے عدالت قتل اور جعلی پولیس مقابلوں میں لوگوں کو مارنا بھی محکمہ پولیس کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے، اس کا اظہار پولیس کے افسروں نے گارڈین اخبار کی رپورٹ میں بھی کیا۔ لیکن افسوس قانون نافذ کرنے والے اداروں کی لاقانونیت پر کوئی قانون حرکت میں آتا ہے، نہ کوئی عدالت سوموٹو ایکشن لیتی ہے۔ حالیہ چند دنوں میں کراچی میں کئی لوگوں کو جعلی پولیس مقابلوں میں مار دیا گیا، جن میں ایک عالم دین مولانا یوسف قدوسی بھی ہیں جن کو 8 اپریل 2016 کو اغوا کیا گیا، بعد ازاں جعلی پولیس مقابلے میں شہیدکردیا گیا۔ کراچی کی مذہبی اور دیگر سیاسی جماعتوں کے ساتھ ہیومن رائٹس کمیشن کے ادارے بھی پاکستان میں اس طرح کے ماروائے عدالت قتل اور جعلی پولیس مقابلوں پر احتجاج کرتی رہی ہیں۔ چنانچہ بین الاقومی خبررسال ادارے روئٹرزکی 2015ء کی رپورٹ اور ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے مطابق صرف کراچی میں ایک پولیس افسر راؤ انور نے 60 کے قریب لوگوں کو ماورائے عدالت قتل کیا۔ چنانچہ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے راؤ انور کے خلاف عدالت میں پیٹشن بھی دائر کی۔ 26 ستمبر 2016 کےگارڈین اخبار کی رپورٹ کے مطابق 2015ء میں پاکستان میں 2108 افراد کو ماورائے عدالت قتل کیا گیا۔اسی طرح ایشین ہیومن رائٹس کمیشن کی رپورٹ کے مطابق 2015 میں صوبہ سندھ اور بلوچستان میں 143 لوگوں کو ماورائے عدالت قتل کیا گیا۔حیرت اس بات پر ہے کہ ان پولیس مقابلوں میں کوئی پولیس اہلکار زخمی ہوتا ہے ،نہ ہلاک ہوتاہے۔ ہمارے عدالتی سسٹم کی بےحسی اور کمزوری دیکھیے کہ یہ 2001ء سے لاپتہ افراد کو اب تک بازیاب نہیں کرواسکا،جن میں سے کچھ کو امریکہ کے حوالے کیا گیا اور کچھ کو خفیہ ایجنسیوں کی تحویل میں دے دیا گیا تھا۔ عدالتی سسٹم کی کمزوری کی اس سے بڑی اور کیا دلیل ہوگی کہ 2013ء میں فوج اورخفیہ ایجنسیوں کی طرف سے 35 لاپتہ کیے جانے والے افراد کے خلاف بھرپور عدالتی مہم جوئی کے باوجود ہمارا عدالتی سسٹم ان کو رہا نہ کروا سکا۔

    ہمارے نظام انصاف اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی بے حسی اورناانصافی کی یہ چند ایک مثالیں ہیں۔ورنہ اگر مجموعی طورپر پاکستانی معاشرے سے نظامِ انصاف اور محکمہ پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والےاداروں کے بارے رائے لی جائے تو شاید ہی کوئی شخص ان کی حمایت پر تیار ہو۔یہی وجہ ہے ہمارے ہاں محکمہ پولیس کوعام طور پر تضحیک کا نشانہ بنایاجاتاہے، عدالتوں اور وکلاء سےاعتماد کا رشتہ ٹوٹتاجارہا ہے۔جھوٹے گواہوں کی بہتات، محکمہ پولیس اور وکلاء کی رشوت اور خیانت کے ڈر سے مظلوم لوگ ظلم کے خلاف عدالت جانے سے ڈرنے لگے ہیں۔جھوٹے گواہ اس قدر عام ہوگئے ہیں کہ سپریم کورٹ کے جج صاحبان بھی یہ کہنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ جھوٹے گواہوں کو خدا کے عذاب سے ڈرناچاہیے،جھوٹی گواہی گناہ کبیرہ ہے۔ بھلااس طرح کی وعظ و نصیحت سے جھوٹے گواہ باز آسکتے ہیں؟ حیرت اس بات پر ہے کہ تعزیرات پاکستان کی دفعہ 193 کے مطابق جھوٹی گواہی دینے والے کو سات سال قیدسے لے کر عمر قید تک کی سزادی جاسکتی ہے۔ لیکن 40 سال سے وکالت کے شعبے سے وابستہ ایک وکیل کا کہنا تھا کہ میں نے 40 سال سے کبھی کسی جھوٹے گواہ کو سزا ہوتی نہیں دیکھی۔ جب انصاف کا یہ حال ہوگا تو ملک میں بدامنی، کرپشن، لوٹ مار ایسے مسائل حل ہوں گے، نہ دہشت گردی، ٹارگٹ کلنگ ایسے واقعات رکیں گے۔ اگر ہم ملک کو واقعی پرامن ملک بنانا چاہتے ہیں تو ہمیں سعودی اور امریکی عدالتوں کی طرح اپنی عدالتوں کا آزاد اور مضبوط کرنا ہوگا، جو نہ صرف بغیر کسی دباؤ کے آزاد تحقیقات کرسکیں، بلکہ پولیس، فوج، وزیراعظم اور صدر سمیت کسی بھی شخص کو باآسانی عدالت طلب کرکے ان کے خلاف کیس سن سکیں۔ اس کے ساتھ ہمیں جھوٹے گواہوں کی لعنت سے چھٹکارا پانے کے لیے عمر قید سزا کو عملی طور پر جاری کرنے کے ساتھ کم ازکم دو دو کروڑ تک مالی سزا بھی دینی ہوگی تب جاکر ہمارا نظام ِانصاف آزاد اور مضبوط ہوگا اور مظلوموں کو انصاف ملنے لگےگا۔

  • علامہ اقبال کی اوپن یونیورسٹی سے چھٹی – آصف محمود

    علامہ اقبال کی اوپن یونیورسٹی سے چھٹی – آصف محمود

    آصف محمود علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے ایک پرچے میں پوچھےگئے بےہودہ سوال کی طرف دوستوں نے توجہ دلائی تو میں نے اسے بےبنیاد پروپیگنڈہ سمجھ کر نظر انداز کر دیا. میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ ایک تعلیمی ادارے میں اس قدر بےہودگی اور اخلاق باختگی کا مظاہرہ کیا جا سکتا ہے. ابھی میری رسول بخش بہرام صاحب سے بات ہوئی جو اوپن یونیورسٹی کے ریجنل ڈائریکٹر ہیں. میں نے ان سے اس پرچے کی بابت سوال کیا اور انہوں نے جو جواب دیا اس نے میرے چودہ طبق روشن کر دیے.
    فرمانے لگے: جی آصف صاحب! ہم نے پوچھا ہے کہ بہن کی فزیک بتائیں، اس میں حرج کیا ہے؟
    میں نے آج اپنے ٹاک شو میں بھی ان صاحب کو فون پر لیا اور انہوں نے کمال ڈھٹائی کے ساتھ اسی موقف کا اظہار کیا.

    پروگرام کا لنک

    https://youtu.be/QxYFbeTxqZs

    یہ معاملہ اتنا سادہ نہیں ہے. بے ہودگی کے یہ مظاہر اتفاقات زمانہ کے باب میں درج نہیں کیے جا سکتے. اقبال کے نام سے منسوب ایک تعلیمی ادارے سے اس چاند ماری کا آغاز بھی محض اتفاق نہیں ہے. یوم اقبال کی چھٹی کے خاتمے کے بعد اب یہ اقبال کی چھٹی کا اعلان ہے. دل مان کر نہیں دیتا کہ یہ واردات کسی شخص کی انفرادی واردات ہوگی. جس دیدہ دلیری سے ریجنل ڈائریکٹر اس حرکت کا دفاع کر رہے تھے، اس سے میری یہ رائے مزید مضبوط ہوئی ہے کہ یہ انفرادی فعل نہیں ہے. یہ نصاب اور درس گاہوں کو سیکولر کرنے کی کوششوں کی اولین دستک ہے.

    15036365_1216647801707184_6204532957496783179_n

    اس معاملے کو ایک دوسرے رخ سے بھی دیکھا جانا چاہیے. کچھ این جی اوز جو ہماری اقدار کے درپے ہیں، وہ باقاعدہ لوگوں کو ایسی حرکتوں کا معاوضہ دیتی ہیں. اس معاوضے کی تپش صحافت میں بھی محسوس ہوتی ہے اور اب تعلیمی اداروں میں دکھائی دے رہی ہے. جو کچھ ہو رہا ہے بلاوجہ نہیں ہو رہا نہ ہی اسے محض اتفاق کہا جا سکتا ہے.

  • قومی شاعر کےنام پر ایسا بھیانک مذاق؟ ڈاکٹر رابعہ خرم درانی

    قومی شاعر کےنام پر ایسا بھیانک مذاق؟ ڈاکٹر رابعہ خرم درانی

    15036365_1216647801707184_6204532957496783179_n سوال نمبر 5.
    اپنی بڑی بہن کے بارے میں مضمون لکھیں خاص طور پر یہ چیزیں ضرور بتائیں
    1. بہن کی عمر کتنی ہے؟ Age
    2. جسمانی سائز کیا ہے؟ Physique
    3. قد کتنا ہے؟ Height
    4. دیکھنے میں کیسی ہے؟ Looks
    5. رویہ کیسا ہے؟ Attitude

    علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے اسٹوڈنٹس کے لیے عمر کی کوئی معیاد نہیں. دسویں جماعت کا شاگرد پچاس سال کا بھی ہو سکتا ہے، 25 یا 15 کا بھی. شاید ان کی ذہنی بلوغت کا امتحان مقصود تھا جو ایسا شاندار سوالنامہ ترتیب دیا گیا اور رہنما نکات ہمراہ کیے گئے کہ کوئی معاشرتی حدود و قیود کا مارا مناسب جواب دینا چاہے تو اس کی راہ مسدود کی جا سکے.

    بس ایک اہم نکتہ بھول گئے کہ جس کی کوئی بڑی بہن نہیں، کیا وہ اپنی چھوٹی بہن کا سراپا بیان کر دے، اور جس کی کوئی بہن ہی نہیں، وہ کیا کرے؟ لازمی سوال کے جواب میں بھابی، ماں، کزن، محلےدار یا دوست کی بہن کا سراپا بیان کر سکتا ہے؟ اور کیا وہ سوال لکھنے والے پیپر سیٹر کی بہن کو اپنی منہ بولی ”بڑی بہن“ مان کر اس کا سراپا تفصیلا بیان کر سکتا ہے.

    ہر سوال کے دو جواب ممکن ہوتے ہیں، درست یا غلط. اسی طرح ہر رویے کے دو رخ ہوتے ہیں، اچھا رخ یا برا رخ. مجھے اپنی ناسمجھی کا اعتراف ہے اور علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی میں تعلیم حاصل نہ کر سکنے کو اس کی وجہ گردانتی ہوں کہ میں اس سوال نمبر 5 کے اچھے رخ کو سمجھنے سے قاصر ہوں. اس کے صحیح اور غلط ہر دو جواب کو غلط ہی مانتی ہوں.

    مسئلہ سوال کی حرمت کا ہے اور میں اس سوال کو اس کے جواب سمیت ”حلال“ نہیں سمجھتی.

    ہو سکتا ہے یہ پرچہ بائیولوجی کا ہو جس میں خاتون کے سراپے کا بیان کیا جانا ضروری ہو، یا یہ سوال آرٹس کی ڈرائنگ کلاس کا ہو جس میں مستقبل کے مصور یا مجسمہ ساز کی آبزرویشن اور تخیل کی رسائی کا جائزہ لینا مقصود ہو. ہو سکتا ہے کہ یہ سوال محض اپنے شاگردوں کو ”ضبط اشتعال“ کی تربیت دینے کے لیے لکھا گیا ہو.

    اور یہ بھی ممکن ہے کہ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے ممتحن اپنی یونیورسٹی کو روشن خیال ظاہر کرنا چاہتے ہوں. اس پوائنٹ پر میں آپ سے متفق ہوں. آپ نے ”روشن خیالی“ (جسے ہمارے معاشرے میں غیرت کے متضاد کے لیے مستعمل دو لفظی ترکیب سے یاد کیا جاتا ہے) کی دوڑ میں اہل مغرب کو کوسوں پیچھے چھوڑ دیا. ایسا سوال تو گوری اقوام بھی اپنے پرچوں میں شامل نہیں کر سکتیں.

    اگر یہ کوئی نجی سروے ہوتا تو ہم اس متعلقہ ادارے کو مسلم معاشرے کی بنیاد کے خلاف کام کرنے والی استعماری قوتوں کا نمائندہ مانتے، لیکن ہماری قومی یونیورسٹی کے سرکاری طور پر منظور شدہ پرچے میں ایسے سوال کا پوچھے جانے اور اس پر ڈائریکٹر علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کا اس سوال کو عام روٹین کی بات قرار دینے کی کوشش کرنے کو کس خانے میں فٹ کیا جائے؟

    سب سے بڑا نکتہ یہ ہے کہ کسی کو استاد کی سیٹ دینے سے پہلے اس کا نفسیاتی معائنہ ضرور کیا جائے کہ یہ استاد شاگردوں کو ”کیا“ پڑھانے کے لیے ادارے میں آیا ہے.

    .. nip the evil in the bud. ..
    حکومت پاکستان اور ہائر ایجوکیشن کمیشن HEC اس معاملے کا نوٹس لے اور تمام تعلیمی اداروں میں پڑھائے جانے والے تعلیمی یا تخریبی مواد کا ازسرِنو جائزہ لے.

    ڈائریکٹر علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کا اعتراف
    https://youtu.be/QxYFbeTxqZs

  • محبت اس کو کہتے ہیں – حنا تحسین طالب

    محبت اس کو کہتے ہیں – حنا تحسین طالب

    نفع نقصان سے ہٹ کر
    سرور و آہ سے آگے
    شمع کے گرد چکرانا
    دہکتی آگ میں جلنا
    محبت اس کو کہتے ہیں

    نشاط انگیز لمحوں میں
    گلوں کی سیج سے اٹھ کر
    خدا کے روبرو ہونا
    جبیں اپنی جھکا دینا
    محبت اس کو کہتے ہیں

    کسی محروم ساعت میں
    ہر اک تاریک لمحے میں
    ترقی میں تنزل میں
    خدا سے خوش گماں رہنا
    محبت اس کو کہتے ہیں

    بھری محفل میں تنہائی
    کبھی تنہائی میں محفل
    ہر اک رنگین منظر میں
    کسی کو سوچتے رہنا
    محبت اس کو کہتے ہیں

    خود ہی زنجیر پا ہو کر
    قدم زندان میں رکھنا
    کھلے روزن سے بے پرواہ
    اسیری مانگتے رہنا
    محبت اس کو کہتے ہیں
    محبت اس کو کہتے ہیں

  • تربیت، پچاس لفظی کہانی – صداقت حسین ساجد

    تربیت، پچاس لفظی کہانی – صداقت حسین ساجد

    اس کا پرچا تھا.
    امتحانی پرچا دیکھ کر وہ دھک سے رہ گیا.
    بات ہی کچھ ایسی تھی.
    تعلیم اخلاقیات سکھاتی ہے.
    لیکن یہاں معاملہ الٹ تھا.
    بہن پر مضمون لکھنا تھا.
    کیسی ہے؟
    جسمانی سائز؟
    قد؟
    رویہ؟
    دکھتی کیسی ہے؟
    وہ سوچنے لگا.
    اب پلے بوائے اور کال گرل کی تربیت ملے گی.

  • عمران خان کے نام ایک نظریاتی ووٹر کا کھلا خط – فیضان رضا سید

    عمران خان کے نام ایک نظریاتی ووٹر کا کھلا خط – فیضان رضا سید

    محترم جناب عمران خان صاحب!
    امید ہے مزاج بخیر ہوں گے۔

    ناچیز کا یہ محبت نامہ ان گم گشتہ یادوں کا نوحہ ہے جنہوں نے آپ کو اوج ثریا تک پہنچایا تھا۔ ہمیں یاد ہے آپ جب کرکٹ کے میدان میں کھیل کے لیے اترتے تھے تو آپ کے کھیل سے زیادہ ہمیں آپ کا جذبہ، خود اعتمادی اور فتح کا یقین متاثر کرتے تھے۔ ہم کرکٹ ہار بھی رہے ہوتے تھے تو بھی آپ کی کپتانی دیکھ کر خوش ہوتے تھے کہ آپ ہمت نہیں چھوڑ رہے اور آخر دم تک لڑ رہے ہیں۔ پھر جب آپ شوکت خانم ہسپتال کی تعمیر کے لیے فنڈز اکھٹا کرنے عوام کے درمیان آئے تو آپ نے دیکھا کہ یہ عوام اپنے ہیرو کو بھولی نہیں تھی، اور کیسے اپنا سب آپ پر لٹانے کے لیے تیار ہوگئی تھی۔ اسی عوامی یاترا سے آپ کو قوم کی زبوں حالی اور لاوارث پن کا ادراک بھی ہوا۔ آپ اس قوم کو ایک کینسر ہسپتال کا تحفہ دے چکے تھے لیکن قوم کا جذبہ حب الوطنی اور ایثار دیکھ کر بس اسی پر اکتفا نہ کرسکے اور عوامی بھلائی کے لیے سیاست میں آنے کا اعلان کردیا۔ آپ کی شخصیت کا قد اس قدر بلند تھا کہ جس بھی سیاسی پارٹی میں جاتے، ایک اہم عہدے اور وزارت کے ساتھ آپ کو خوش آمدید کہا جاتا، لیکن چونکہ آپ اس کرپٹ سیاسی نظام کے مخالف تھے، اس لیے بجائے اس آلودہ سیاست کا حصہ بننے کے آپ نے اپنی سیاسی پارٹی بنا ڈالی۔ بد قسمتی سے دو پارٹیوں کا اس ملک پر اس قدر مضبوط سیاسی قبضہ تھا کہ ایک عام شریف آدمی اس سیاست میں جگہ نہیں بنا سکتا تھا۔ کتنے ہی مخلص اور محب وطن سیاست میں آئے اور عوامی رد عمل و شعور دیکھ کر خاموشی سے بوریا بستر سمیٹ کرگمنام ہوگئے۔

    خان صاحب! آپ کی جس چیز نے متاثر کیا وہ مستقل مزاجی اور ہار نہ ماننا ہے، آپ تھک نہیں رہے تھے اور مسلسل لڑ رہے تھے۔ پھر آپ پر کرپشن کا الزام نہیں تھا، آپ کی حب الوطنی پر سوالیہ نشان نہیں تھا، آپ مفاد پرست نہیں قوم پرست تھے، چنانچہ ملک کے تمام وفادار قوم پرست بشمول دائیں بازو کے لوگ آپ کے گرد جمع ہونا شروع ہوئے۔ الیکشن 2013ء سے پہلے آپ نے جس شہر میں جلسہ کیا، عوام کا ایک جم غفیر وہاں اکٹھا ہوا۔ غریب اور متوسط لوگ آپ کی آواز پر لبیک کہہ رہے تھے کیونکہ وہ غربت، بیروزگاری، فاقہ کشی، خانہ بدوشی، لوڈشیڈنگ، دہشت گردی، سفارش و رشوت کلچر، بیماریوں اور لاوارثی سے عاجز آچکے تھے۔ وہ آپ میں وہ رہنما دیکھ رہے تھے جو ان کے دکھوں کا مداوا کرے گا، جو ان کی مجبوریوں اور مفلوک الحالی پر نظر ڈالے گا۔ جبکہ ملک کا پڑھا لکھا اور خوش حال طبقہ آپ کے پیچھے اس لیے کھڑا تھا کہ وہ ملکی معیشت اور وسائل کا صحیح استعمال چاہتے تھے، وہ ملک کو ترقی یافتہ قوموں کی صف میں کھڑا دیکھنا چاہتے تھے، ان کی خواہش تھی کہ ہمارا ملک بیرونی قرضوں سے آزاد ہوکر معاشی طور پر مضبوط اور خود کفیل ہوجائے ، اس کے لیے کرپشن سے آزاد لیڈرشپ ضروری تھی جو آپ کی شکل میں دکھائی دیتی تھی۔

    پھر الیکشن 2013 کے نتائج آتے ہیں۔ عوام نے آپ کو ووٹ ڈالا تھا، جیت ن لیگ گئی اور آپ اپوزیشن سیٹوں کے حق دار ٹھہرے۔ سب جانتے تھے کہ دھاندلی ہوئی ہے، اور آپ کا حق تھا کہ آپ اس دھاندلی کے خلاف آواز اٹھاتے، چنانچہ آپ نے تمام قانونی طریقوں سے مایوس ہونے کے بعد دھرنے کا اعلان کیا، اور عوام بھی آپ کی آواز پر لبیک کہتی ہوئی حاضر ہوگئی کیونکہ بہرحال ان کے لیڈر کو انصاف چاہیے تھا۔ آپ نے جس جلسے میں بلایا، عوام پہنچی، آپ نے لاک ڈاؤن کال کی عوام ڈنڈے سوٹے کھاتی، حتیٰ کہ جان کے نذرانے پیش کرتی آپ کو انصاف کی فراہمی کے لیے سینہ سپر ہوئی۔ 2014ء اور اب 2016ء کے دھرنے اور دھرنے کے اعلان میں جب عوامی طاقت سے آپ نواز شریف پر دباؤ ڈالنے میں کامیاب ہوگئے تو وزیراعظم کے استعفیٰ کے سوا آپ ہر عوامی مطالبہ پورا کرواسکتے تھے۔ آپ بغیر چھت دربدر پھرنے والے خانہ بدوشوں کے لیے مکان کا مطالبہ کرسکتے تھے۔ آپ ملک کے فاقہ زدہ عوام کے لیے خوراک اور روزگار کا مطالبہ منوا سکتے تھے۔ حکومت وقت کو سکولز اور کالجز سے باہر اڑھائی کروڑ بچوں کی تعلیم اور تعلیمی اخراجات کا بار اٹھانے پر مجبور کرسکتے تھے۔ اسپتالوں اور صحت و صفائی سے متعلقہ دوسرے اداروں میں اصلاحات کےذریعے صحت اور صفائی کی صورت حال کو یقینی بنا سکتے تھے۔ اور کچھ نہیں تو، آپ ادارے مضبوط کرواسکتے تھے۔ انتخابی اصلاحات کروا کر اگلے انتخابات میں دھاندلی کا راستہ بند کرسکتے تھے۔ اوورسیز پاکستانیوں کے لیے حق رائے دہندگی حاصل کرسکتے تھے۔ لیکن آپ وزیر اعظم کے استعفے اور احتساب پر مشتمل دو نکاتی مطالبے پر کاربند رہے اور ہیں جس کا سب سے پہلا فائدہ آپ کی ذات کو ہے۔ یہ منتقم المزاج اور مفاد پرست طبیعت آپ کی اس سے پہلے کبھی نہ تھی۔

    عام انتخابات میں یہ ناچیز آپ کو ووٹ ڈالنے ملتان سے ساہیوال گیا تھا۔ اور اس مشقت کے پیش نظر کوئی ذاتی مفاد نہ تھا، میں کوئی پی ٹی آئی ورکر ہوں نہ ہی آپ کا جاں نثار تھا، اور میرا کوئی ماما یا تایا پی ٹی آئی کی ٹکٹ پر الیکشن بھی نہیں لڑ رہا تھا۔ میں ایک نظریاتی ووٹر ہوں اور میں ایک نظریے پر ووٹ دے رہا تھا۔ آپ الیکشن نہیں جیت سکے اس کا افسوس ہمیں بھی ہے، لیکن آپ ہمارے دیے ہوئے مینڈیٹ سے اپوزیشن میں تو بیٹھے ناں؟ میں آپ سے بطور ایک نظریاتی ووٹر سوال کرتا ہوں کہ آپ نے حزب اختلاف کی کرسیوں پر بیٹھ کر اس عوام کے لیے کیا کیا ہے؟ چلیں کرنا تو حکومت وقت نے تھا، آپ صرف یہی بتادیں کہ آپ نے حکومت پر کچھ کرنے کے لیے کتنا دباؤ ڈالا ہے؟ کوئی ایک عوامی ایشو بتا دیں جس پر آپ نے حکومت کو دھرنے کی دھمکی دی ہو؟ اگر ایسا ہوتا کہ آپ عوامی ایشوز پر آواز بلند کرتے، حکومت وقت کان نہ دھرتی، یا جیسے لاٹھی چارج اور گولیاں برسانے والا اس کا مزاج ہے، وہی اپناتی تو یقین مانیں آپ کو انقلاب کے لیے بنی گالہ سے باہر بھی نہ آنا پڑتا، اور یہ عوام ہی ان حکمرانوں کے گریبانوں تک پہنچ جاتی۔ آپ ان کو یہ احساس تو دلاتے کہ انہیں بھوکا، پیاسا، مفلوک الحال، پسماندہ، ننگے پاؤں، میلے کپڑوں میں رکھنے والے یہ حکمران ہیں جو پچھلے 40 سال سے اس پاک سرزمین کو جونک کی طرح چمٹے ہوئے ہیں اور اس کے خون کا آخری قطرہ تک چوس لینا چاہتے ہیں۔ لیکن آپ کی اپوزیشن کا مرکز و محور نواز شریف کی ذات بن کر رہ گئی ہے، اور ہم نظریاتی ووٹرز یہ سوچنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ یہ لڑائی ہماری نہیں آپ کی ذاتی ہے۔ اگر آپ یہ سمجھ رہے ہیں کہ اس مائنس ون سے آپ اس قوم کی قسمت بدل دیں گے تو معذرت کے ساتھ یہ آپ کی خام خیالی ہے۔ ماضی میں یہ مائنس ون نہیں، پوری پوری جماعتیں مائنس ہوچکی ہیں، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ہی یہ دوبارہ باریاں لے رہی ہیں۔ کیا اس سے پہلے ایسے مقام نہیں آئے جب لگتا تھا کہ نواز شریف اور آصف زرداری کی سیاست دفن ہوچکی ہے؟ کیا پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ نواز پر وہ وقت نہیں آیا جب ان جماعتوں کی ٹکٹس لینے کے لیے بھی کوئی تیار نہیں ہوتا تھا؟ دونوں ہی جماعتیں کتنی ہی بار ٹکڑے ٹکڑے ہوئی ہیں، آپ تو صرف استعفیٰ کی بات کر رہے ہیں جبکہ نواز شریف و آصف زرداری جیل یاترا تک بھی کر چکے ہیں، لیکن اس کے بعد کیا ہوا؟ یہ آج پھر اس قوم پر مسلط ہیں۔گویا مائنس ون یا کسی بھی پارٹی کو مائنس کرنے سے کوئی بات نہیں بنے گی۔آپ کو سسٹم تبدیلی کے لیے کمر بستہ ہونا ہوگا۔ آپ کو ہر جہت میں محنت کرنا ہوگی۔ آپ صرف بیٹنگ میں بہتری لا کر میچ نہیں جیت سکتے، بلکہ فیلڈنگ اور باؤلنگ میں بھی بہتری لانی ہوگی۔

    یہ کھلا خط آپ کے لیے ایک خاموش پیغام ہے۔ ابھی آپ کے پاس بطور اپوزیشن دو سال ہیں۔ کچھ کر کے دکھا دیں۔ الیکشن اصلاحات کروالیں۔ عوامی ایشوز پر حکومت کو کام کرنے پر مجبور کردیں۔ ورنہ جان لیں! جو آپ کو اٹھا کر عزت کی اس گدی پر بٹھا سکتے ہیں، وہ اتارنے میں بھی دیر نہیں کریں گے۔ اگر آپ یہ سمجھ رہے ہیں کہ جیسے باقی سیاسی جماعتوں کے کارکن ووٹ دے کر بھول جاتے ہیں اور اپنے رہنماؤں کا محاسبہ نہیں کرتے، آپ کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوگا تو اس خوش فہمی سے باہر نکل آئیں۔ یاد رکھیں! اگر آپ اس بات پر فخر کرتے ہیں کہ آپ کے ووٹرز باشعور اور پڑھے لکھے لوگ ہیں تو اس بات کی فکر بھی کریں کہ انہیں مطمئن کرنے کے لیے آپ کو زیادہ سے بھی کچھ زیادہ کرنا ہوگا، ورنہ خالی نعروں سے انہیں بےوقوف بنانا آسان نہیں ہے۔ آپ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ آپ نے اس قوم کی یوتھ کو سیاسی طور پر متحرک کردیا ہے، اور آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ جب کسی بھی قوم کی نوجوان نسل جاگ جائے تو وہ انقلاب کے لیے کسی رہنما کی محتاج نہیں رہتی. ہاں یہ ضرور ہے کہ کسی اچھے رہنما کی موجودگی میں یہ انقلاب بغیر انارکی کے وقوع پذیر ہوجاتا ہے اور ہم بھی یہی چاہتے ہیں کہ آپ جیسے بےداغ سیاست دان کی رہنمائی میں ہم اس قوم کی قسمت بدل ڈالیں۔
    امید ہے آنے والے دو سالوں میں آپ کی کارکردگی ہمیں پھر آپ کو ووٹ دینے پر مجبور کردے گی۔

  • نوٹوں سے ایک مکالمہ – محمد انس فلاحی سنبھلی

    نوٹوں سے ایک مکالمہ – محمد انس فلاحی سنبھلی

    معلوم نہیں، انہیں میرا پتا کس نے دیا، وہ میرے گھر چلے آئے، اور زور زور سے دروازہ پیٹنے لگے. مجھے لگا کہ کوئی سخت پریشانی میں ہے، اس لیے سارے کام چھوڑ کر دروازے کی طرف لپکا.
    دروازہ کھولا تو دیکھ کر حیران رہ گیا کہ دو مرجھائے ہوئے چہرے میرے منتظر ہیں. بغیر کسی توقف کے میں نے انہیں اندر چلنے کے لیے کہا. اندر آتے ہی دونوں صوفے پر چڑھ بیٹھے، مانو میلوں پیدل چل کر آئے ہوں.
    چائے ناشتے سے فراغت کے بعد میں نے ان سے آنے کا سبب اور مکمل تعارف جاننے کی خواہش ظاہر کی.
    ان کے نام سن کر میں حیران رہ گیا، بڑے کا نام ہزار ے اور چھوٹے کا نام پانچسواں تھا. جائے پیدائش ریزو بنک اور عارضی پتہ عوامی تجوریاں بتایا. مختصر تعارف کے بعد میں نے آنے کا سبب بیان کرنے کے لیے کہا.
    میرا یہ کہنا تھا کہ وہ زار و قطار رونے لگے. بڑا بھائی ہزارے مسلسل روئے ہی چلا جا رہا تھا. میں نے تسلّی دینے کی ناکام کوشش کی. جبکہ چھوٹا اب رو دھو کے فارغ ہوچکا تھا. مجھے یہ بعد میں معلوم ہوا کہ چھوٹا اتنی جلدی چپ کیسے ہوا؟ میں سمجھا شاید وہ تحمل مزاج ہے یا کوئی اور ہی مسئلہ ہے!
    اس لیے میں نے اس سے ہی کہا کہ بھائی! کچھ تو بولیے، آخر مسئلہ کیا ہے اور یہ آپ کے بڑے بھائی ہزارے اتنا رو کیوں رہے ہیں؟
    چھوٹا بیان کرنے لگا:
    ”فراز بھائی! دراصل حکومت نے ہمیں ڈی ویلیو قرار دے دیا ہے. ہمیں عوام کی، ساہوکار کی اور بنیوں کی تجویورں سے بے دخل کرنے کا اعلان کردیا ہے.“
    میرے کان کے پردے سے جیسے ہی یہ الفاظ ٹکرائے، میں بے ساختہ چیخ اٹھا، اور گھبراہٹ میں ایک ہی سانس میں کئی ایک سوال کر ڈالے.
    یہ اعلان کب اور کیسے ہوا؟ اور تم کب تک یہاں رہوگے؟
    بڑے بھائی ہزارے نے اپنے رونے کا کوٹا پورا کر لیا تھا.
    اس لیے اس دفعہ وہ بولا، اور پھر بولتا ہی چلا گیا، اس کی آواز اور لہجہ میرے اوپر گراں گزرا. اس پر میں نے اسے ٹوکنا مناسب سمجھا.
    میرا ٹوکنا تھا کہ وہ پھر رونے لگا اور روتے ہوئے کہنے لگا:
    ’’قصہ درد سناتے ہیں کہ مجبور ہیں ہم‘‘
    بھائی فراز! آپ کو پتا ہے، اس وقت ہماری کیا کیفیت ہے؟ اور آپ ہو کہ ہمیں ٹوک رہے ہو اور روک رہے ہو؟
    میں نے کہا کہ میرا مقصد آپ کی دل آزاری نہیں تھا.
    اصل بات یہ ہے کہ گھر میں اور بھی لوگ ہیں، ایسے اچھا نہیں لگتا.
    دیکھو بھائی فراز! ابھی جو ہماری کیفیت اور حالت ہے، کچھ دنوں میں تمھاری بھی یہی ہونے والی ہے.
    میں نے کہا، بھائی ہزارے! بد دعا تو نہ دیں.
    خیر اس نے اپنی بات آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ منگل کے روز ہی مودی جی نے ہماری ملکیت اور حیثیت ختم کرنے کا اعلان کیا ہے، اور 30 دسمبر ڈیڈ لائن مقرر کی ہے.
    اور کیا کہا ہے حکومت نے آپ کے بارے میں؟
    چھوٹے نے بولنے کی کوشش کی تو ہزارے نے اسے کہنی مار کر چپ رہنے کو کہا.
    ہزارے نے پھر بولنا شروع کیا.
    میری جگہ اب دو ہزارے کو مشینوں کے ذریعے پیدا کیا گیا ہے، وہی اب میری جگہ لے گا.
    اور اس چھوٹے’’پانچسواں‘‘ کا دوسرا جڑواں بھائی بنایا گیا ہے. اس لیے یہ بہت زیادہ غمگین بھی نہیں ہے. تمہیں بھی اس کی حالت دیکھ کر اندازہ ہوگیا ہوگا.
    میں نے کہا اچھا یہ بتائیں کہ آپ کی نسل کے اربوں لوگ انیل امبانی کے یہاں رہتے تھے، ان کا کیا بنا؟
    بھائی! انہیں تو پہلے ہی نکال دیا تھا. اب ان کی جگہ جیو کی سِم کے ذریعے نمبر ایک والے لائےجائیں گے.
    میں نے اس بات پر زوردار قہقہ لگایا. میرا قہقہ لگانا ہزارے کو برا لگا.
    اس نے فوراً ہی مجھ پر سوال داغ دیا، تم ہنسے کیوں؟
    میں نے کہا: بھائی ہزارے! ہنسی مجھے تمھاری نمبر ایک والی بات پر آگئی تھی کہ کیا وہ نمبر دو کے تھے.
    ہزارے نے کہا: اس میں ہنسنے والی کیا بات ہے، یہ حقیقت ہے.
    ہزارے سے میں نے ایک سوال اور کرنا چاہا کہ بھائی یہ بتائیں کہ اب آپ کی تدفین کب اور کہاں ہوگی؟
    میرا یہ سوال کرنا ہی تھا کہ ہزارے نے پھر رونا شروع کر دیا. ذرا سنبھلا تو پھر بولنا شروع ہوگیا.
    بھائی فراز! کیا بتائیں ابھی تو مہینہ ڈیڑھ مہینہ ہماری درگت بنتی رہے گی. کبھی جھولوں میں تو کبھی جیبوں اور کبھی اٹیچیوں میں لے لے کر لوگ بنکوں میں گھومتے پھریں گے.
    بنک والے بھی ہمیں گن گن نیم مردہ تو کرکے ہی چھوڑیں گے!
    اچھا! بھائی ہزارے آپ کی تدفین کا کچھ بندوبست کیا گیا ہے.
    ہاں! ابھی تک تو یہی کہہ رہے ہیں کہ بنک میں دفن کریں گے.
    بھائی فراز! میرا تو یہ سوچ سوچ کر دل بیٹھ جاتا ہے کہ اگر لوگوں نے مجھے وہاں وقت پر نہ پہنچایا اور رونے دھونے میں لگے رہے تو بعد میں خود بھی روئیں گے. اور ہمارا جو حال ہوگا، وہ تو تم نے فیس بک پر دیکھ ہی لیا ہوگا.
    گفتگو لمبی ہو چکی تھی، ہزارے بھی بول بول کر تھک چکا تھا، اس کا چھوٹا بھائی پانچسواں بھی بوریت محسوس کررہا تھا. اور مجھے بھی اپنے ادھورے کاموں کی فکر ستائے جا رہی تھی. ہزارے نے رخصت چاہی تو میں انہیں دروازے تک چھوڑنے گیا. چلتے چلتے ہزارے کی زبان پر یہی الفاظ جاری تھے.
    ’’قصہ درد سناتے ہیں کہ مجبور ہیں ہم‘‘

  • یورپ کی سب سے بڑی مسجد کا یادگار سفر – شازیہ طاہر

    یورپ کی سب سے بڑی مسجد کا یادگار سفر – شازیہ طاہر

    سفرنامہ کا مفہوم یہ ہے کہ دورانِ سفر مسافر جس طے شدہ منزل پر پہنچتا ہے اور وہاں اس کے جو بھی مشاہدات، تاثرات اور کیفیات ہوتی ہیں یا جو حالات اس کو پیش آتے ہیں، انھیں صفحۂ قرطاس پر منتقل کرنے کے لیے حالاتِ سفر کو جمع کرتا ہے اور پھر دوسروں کو اپنے مشاہدات سے باخبر کرنے کے لیے ان کو صفحہ قرطاس پر منتقل کر دیتا ہے۔ دنیا کا سب سے پہلا دریافت شدہ باقاعدہ سفرنامہ یونانی سیاح میگس تھینز کا تحریر کردہ ’’INDICA‘‘ (سفرنامہ ہند) ہے، جو ہندوستان کے سفر کے حالات پر مشتمل ہے۔ اس یونانی سیاح نے 300 قبل مسیح میں ہندوستان کا سفر کیا تھا۔ آئیے آج ہم بھی آپ کو اپنے ایک یادگار سفر سے آگاہی دیتے ہیں۔

    اطالوی آئین مذہبی آزادی کے حوالے سے بہت واضح ہے، اور یہاں تمام مذاہب کے ماننے والوں کو اپنی اپنی عبادات کرنے کی پوری آزادی حاصل ہے لیکن ابھی تک اٹلی میں بھی کچھ دوسرے یورپی ممالک کی طرح مساجد کی تعمیر، میناروں اور گنبد بنانے پر پابندی ہے۔ یہاں پر تقریبا ہر اس شہر یا علاقہ جہاں مسلمان آباد ہیں، اسلامک کلچرل سنٹرز موجود ہیں لیکن باقاعدہ تعمیر شدہ واحد مسجد صرف دارالحکومت روم میں ہی ہے۔ روم کو اطالوی زبان میں روما Roma کہا جاتا ہے۔ یہ بہت پرانا اور تاریخی شہر ہے۔ روم اپنی تاریخی حیثیت کے باعث یونیسکو کے عالمی ورثے کا امین ہے۔ شاندار تاریخی محلات، صدیوں پرانے کلیساؤں، رومی معاشرت کی یادگاروں، عبرت انگیز کھنڈرات، جگہ جگہ نصب مجسموں اور تازگی بخشتے ہوئے فواروں کی بہتات لیے ہوئے روم دنیا بھر سے سیاحوں کو اپنی طرف کھینچتا ہے۔

    mosque-of-rome-italy-3 اگرچہ اٹلی میں رہتے ہوئے تقریبا دس سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے اور دو مرتبہ روم جانے کا اتفاق بھی ہوا لیکن ابھی تک اٹلی کی مشہور اور واحد تعمیر شدہ مسجد دیکھنے کی خواہش پوری نہیں ہو سکی تھی۔ بالآخر 27 ستمبر 2016 کو یہ خواہش بھی پوری ہو ہی گئی۔ ستمبر کے آخر میں اٹلی کا موسم نہایت خوشگوار ہوتا ہے۔ سو اب کے دورہ روم میں یہ طے پایا کہ روم مسجد کی سیر ضرور کر کے آئیں گے۔ روم کا تاریخی شہر ہمارے شہر بریشیا سے تقریباً 600 کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے، گاڑی پر 6 سے 7 گھنٹے کا طویل اور تھکا دینےوالا سفر ہے، چنانچہ طے یہ پایا کہ کیوں نہ اس مرتبہ یہ سفر ٹرین پر کیا جائے۔ اٹلی میں ٹرین کاسفر انتہائی پرسکون اور آرام دہ ہوتا ہے، اور ان دنوں ویسے بھی ایک نئی ٹرین سروس ITALO TRAIN کا بڑا چرچا سن رکھا تھا، سو اسی ٹرین کی آن لائن بکنگ کروائی گئی۔ مقررہ تاریخ کو اپنے مجازی خدا کے ہمراہ اللہ کا نام لے کر سفر کا آغاز کیا۔ گاڑی بریشیا ریلوے سٹیشن پر پارک کی اور سٹیشن پہنچ کر اپنی مخصوص ٹرین کا نمبر تلاش کیا۔ ٹرین اپنے مقررہ وقت سے چند منٹ پہلے سٹیشن پر پہنچی۔ ٹرین میں بیٹھتے ہی ایک خوشگوار حیرت ہوئی کہ ٹرین کی سیٹس بالکل ہوائی جہاز کی طرز پر نہایت کھلی اور آرام دہ تھیں۔ ٹرین نے پورے وقت پر سفر کا باقاعدہ آغاز کیا۔ تقریباً 25 منٹ کے بعد جب ٹرین اپنے پہلے سٹیشن VERONA شہر جا کر رکی تو حیرت کا ایک اور جھٹکا لگا کہ دوسری ٹرینیں تو پورے ایک گھنٹے بعد اس سٹیشن پر آ کر رکتی تھیں۔اس کے بعد ٹرین صرف دو سٹیشنوں بلونیا اور فلورینس پر کچھ دیر رکی اور پھر اپنی منزل یعنی روم تیرمینی سٹیشن کی طرف رواں دواں ہو گئی۔ 1 تیرمینی سٹیشن سے روم مسجد کا فاصلہ تقریباً ایک گھنٹے کا ہے۔ وہاں سے میٹرو پر مسجد کے قریب ترین سٹیشن پر اترے۔ میٹرو سٹیشن پر ایک اوور برج پار کرتے ہی دور سے مسجد کا پرشکوہ، بلند اور خوبصورت گنبد اور مینار نمایاں نظر آرہا تھا۔ گنبد کا قطر 20میٹر ہے۔ مینار پر نظر پڑتے ہی سر بےاختیار فخر سے بلند ہوگیا کہ عیسائی دنیا کے اس مرکز، جو پوری دنیا میں عیسائیت کا قبلہ ہے، یہ مسجد پوری شان و شوکت، آن بان اور رعب و دبدبہ سے کھڑی تھی، یوں محسوس ہوا جیسے ہم آٹھ سو سال پہلے یورپ میں مسلمانوں کے سنہرے دور اور عظمتِ رفتہ میں آگئے ہیں۔

    5 اپنے خیالات کی رو میں بہتے بہتے مسجد کے مرکزی گیٹ سے ٖاندر داخل ہوئے تو مسجد کی خوبصورتی اور سحر میں کھو سے گئے۔ یہ مسجد اطالوی فنِ تعمیر کا ایک بہترین نمونہ ہے۔ مسجدکے مرکزی دروازے سے اندر داخل ہوتے ہی خوبصورت اور انتہائی نفاست سے تراشےلمبے لمبےسرو کے پودے اور بیرونی دیواروں کے ساتھ ساتھ دور تک صاف ستھرا باغ نما لان دیکھ کر بہت خوشگوار حیرت ہوئی۔ یوں گمان ہو رہا تھا جیسے ہم مغلیہ دور کے کسی پائیں باغ میں آنکلے ہوں۔

    3 روم کی جامع مسجد کو انگلش میں Great Mosque Rome یا Islamic Cultural Centre Rome اور اٹالین زبان میں Grande Moschea Roma کہتے ہیں۔ غیر اسلامی ممالک میں یہ بھارت اور روس کو چھوڑ کر اٹلی اور یورپ کی سب سے بڑی مسجد ہے، جو کہ 30,000 مربع میٹر (320000 مربع فٹ) کے رقبے پر محیط ہے اور 12000 لوگ بیک وقت اس میں نماز ادا کر سکتے ہیں۔ مسجد روم کے علاقے Monti Parioli کے دامن میں شہر سے شمال کی طرف Acqua Acetosa کے علاقے میں واقع ہے۔ شہر کی واحد مسجد ہونے کے ساتھ ساتھ یہ اسلامک کلچرل سنٹر بھی ہے۔ مذہبی سرگرمیوں کے لیے ایک مرکز ہونے کے علاوہ یہ دنیا کے مختلف ممالک کے دین کی وجہ سے منسلک مسلمانوں کو ثقافتی اور سماجی خدمات فراہم کرتی ہے۔ یہاں پر شادی کی تقریبات بھی منعقد ہوتی ہیں۔ تعلیم وتربیت کا بھی ایک شعبہ ہے، جس میں ایک کتاب خانہ، بچوں کی تعلیم و تربیت کے لیے تدریس کا ہال، کانفرنس ہال، نمائش گاہ کی جگہ اور امام مسجد اور مہمانوں کے لیے رہائشی فلیٹ بھی ہیں۔ مسجد کے چاروں طرف سرسبز علاقہ ہے۔ مسجد کی تعمیر میں جدید طرزِ تعمیر سے کام لیا گیا ہے۔ اس کا بیرونی حصہ بھی نہایت خوبصورت اور دلکش ہے۔

    مسجد کی عمارت دو حصوں پر مشتمل ہے۔ اس کا پہلا حصہ، جو سطح زمین سے 8 میٹر بلند ہے اور 60 میٹر چوڑا مستطیل شکل کا ہے جو قبلہ کی طرف واقع ہے، اور اس کے مرکزی ہال کے اوپر ایک گنبد ہے جس کا قطر 20 میٹر ہے۔ جس کے اطراف میں 16 چھوٹے چھوٹے گنبد ہیں، جن سے اس مسجد کی رونق بڑھ گئی ہے۔ اس کا دوسرا حصہ H کی شکل میں ہے، جس نے مسجد کی تمام فضا کو اپنے اندر سمیٹا ہوا ہے۔2 مسجد کا مینار اس کے جنوب مغربی حصہ پر واقع ہے۔ مسجد کی تعمیر سعودی عرب کے شاہی خاندان کے سربراہ شاہ فیصل کی مرہونِ منت ہے جنہوں نے اس کارِ خیر کو سر انجام دینے کا بیڑا اٹھایا اور تمام اخراجات برداشت کیے۔ مسجد کا ڈیزائن اور ہدایات اطالوی ماہرتعمیرات Paolo Portoghesi Vittorio Gigliotti اور Sami موساوی نے دیں۔ مسجدکی منصوبہ بندی پر تقریبا دس سال لگے۔ روم سٹی کونسل نے 1974ء میں زمین کا عطیہ دیا لیکن سنگِ بنیاد دس سال بعد اطالوی جمہوریہ کے اس وقت کے صدر SANDRO Pertini کی موجودگی میں 1984ء میں رکھا گیا، اور 21 جون 1995ء کو مسجد کا با قاعدہ افتتاح افغانستان کے جلاوطن شہزادے محمد حسن اور ان کی بیوی شہزادی رضیہ بیگم اور اس وقت کے اطالوی صدر نے کیا۔ مسجد کے اندرونی ہال اور راہداریوں میں بنے بےشمار ہتھیلی نما ستون اللہ اور اس کے اطاعت گذار بندے کے درمیان مضبوط تعلق کی نمائندگی کرتے ہیں۔

    the-mosque-of-rome چلیے اب مسجد کی سیر کی طرف دوبارہ آتے ہیں۔ اسی دوران نمازِ عصر کا وقت شروع ہو چکا تھا۔ وضو خانہ کی طرف ایک صاحب نے رہنمائی کی۔ بعد میں پتہ چلا کہ وہ مسجد کے موذّن ہیں۔ وضو خانہ بیرونی گیٹ کی داہنی طرف سیڑھیاں چڑھ کر تقریبا بیس فٹ کی بلندی پر اور مسجد کے مرکزی گنبد والے ہال کے نیچے تھا اور کافی کشادہ تھا۔ وضو کر کے واپس نیچے اترے اور بائیں طرف نماز والے کمرے کی طرف جا ہی رہے تھے کہ زن سے ایک گاڑی ہمارے پاس آ کر پارک ہوئی اور اس میں سے مخصوص عربی لباس میں ایک صاحب نکلے اور بآوازِ بلند مسکراتے ہوئے السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ کہا۔ ہمارے شوہرِنامدار نے بھی انھی کے انداز میں سلام کا جواب دیا۔ ماشاءاللہ وہ مسجد کے امام صاحب محمد حسن عبدالغفار تھے جن کا تعلق مصر سے ہے۔ مسجد کے انچارج عبداللہ رضوان ہیں۔ امام صاحب کی معیت میں اندر داخل ہی ہوئے تھے کہ مذکورہ بالا مؤذن صاحب سپیکر پر اذان دینے کی تیاری میں تھے اور پھر انتہائی خوبصورت انداز میں اذان کی آواز مسجد کے چاروں اطراف گونجنے لگی۔ سبحان اللہ! دل سکون اور خوشی سے باغ باغ ہو گیا کہ آج پورے دس سال بعد اٹلی کی سرزمین پر یوں اذان کی آواز سپیکر پر سنائی دے رہی تھی۔ شاعرِمشرق علامہ اقبال کا شعر یاد آگیا
    ؏ دیں اذانیں کبھی یورپ کے کلیساؤں میں
    کبھی افریقہ کے تپتے ہوئے صحراؤں میں

    اگرچہ الحمدللہ یہ ایک کلیسا نہیں مسجد تھی، لیکن یہ مسجد کلیساؤں کے گڑھ اور پوری دنیا میں عیسائیت کے مرکز روم میں واقع تھی، جہاں اس وقت اذان کی آواز مسجد کے اردگرد کلیساؤں میں بھی جا رہی ہوگی۔
    ؏ مری نگاہ کمالِ ہنر کو کیا دیکھے
    کہ حق سے یہ حرمِ مغربی ہے بیگانہ (علامہ اقبال)

    6 مسجد کا مرکزی ہال چونکہ صرف نمازِجمعہ، عیدین اور خاص تقریبات کے لیے ہی کھولا جاتا ہے۔ اس لیے پنج وقتہ نمازوں کے لیے ایک اورچھوٹا ہال اور ساتھ ملحقہ کمرے مخصوص کیے گئے ہیں۔ مسجد کی اندرونی دیواریں نیلے اور سفید سنگِ مرمر کی انتہائی خوبصورت ٹائلز اور فرش نہایت دبیز ایرانی قالینوں سے سجا ہوا ہے۔ مسجد کی اندرونی سجاوٹ، برقی قمقموں اور فانوسوں کا مرکزی خیال قرآن کریم کی آیت (اللہ نُورالسمواتِ و الارض ) God is lightسے لیا گیا ہے۔ نماز کے لیے اندرونی چھوٹے ہال میں داخل ہوئے تو دل بہت دکھی ہوا کہ اتنی بڑی مسجد میں امام صاحب اور مؤذن صاحب کے علاوہ صرف چار اور نمازی تھے۔ ہم نے خواتین کی نماز کے متعلق دریافت فرمایا تو امام صاحب نے کہا کہ یہاں عام نمازوں میں خواتین کم ہی آتی ہیں اور اگر ہوں تو وہ بھی اسی ہال میں ہی نماز ادا کرتی ہیں۔ خیر تھوڑی جھجک کے ساتھ اندرر داخل ہوئے تو شکر ادا کیا کہ دائیں طرف ہال کے ایک کونے میں سر سے لے کر پاؤں تک سفید گاؤن میں ملبوس تین اور خواتین بھی بیٹھی نظر آئیں۔ ابھی جماعت میں تھوڑا وقت تھا۔ خوشی سے آگے بڑھے، سلام کے تبادلے کے بعد جھٹ سے اٹالین زبان کا رعب جھاڑنا شروع کیا. یہ سوچ کر کہ مقامی عرب کمیونٹی سے تعلق رکھتی ہوں گی، لیکن یہ کیا؟ انھوں نے اشارے سے بتایا کہ ان کے پلّے کچھ نہیں پڑا۔ انگلش میں بات شروع کی تو وہ بھی خوشی سے کھل پڑیں کہ اس انجانے دیس میں کوئی تو بات کرنے والا ملا۔ اب پتہ چلا کہ وہ ٹورسٹ تھیں اور جکارتہ انڈونیشیا سے تین دن کے سیاحتی دورے پر اٹلی دیکھنے آئی ہوئی تھیں۔ تینوں ماں بیٹیاں تھیں، بیٹیوں کے نام زینب اور ریما جبکہ والدہ کا نام مریم تھا۔ بڑی بہن ریما جس کی عمر 22 سال تھی، جکارتہ یونیورسٹی سے ماس کمیونیکیشن میں ماسٹرز کر رہی تھی اور انگلش کی سمجھ بوجھ رکھتی تھی جبکہ چھوٹی 17 سال کی تھی اور کالج میں پڑھ رہی تھی۔ والدہ صرف اشاروں کی زبان سمجھ رہی تھیں اور سر ہلا ہلا کر ایسے خوش ہو رہی تھیں جیسے سب کچھ سمجھ میں آرہا ہو۔4 خیر ماؤں سے بات کرنے کے لیے کسی خاص زبان کی ضرورت نہیں ہوتی۔ وہ اٹلی میں صرف تاریخی شہر روم اور یہاں کی واحد جامع مسجد اور دنیا بھر میں مشہور پانی پر تعمیر شدہ رومانوی شہر وینس دیکھنے کے لیے آئی تھیں. جب انھیں بتایا کہ ہم پاکستان سے تعلق رکھتے ہیں تو ریما بہت خوش ہوئی اور کہنے لگی کہ وہاں جکارتہ یونیورسٹی میں میرے ساتھ ایک پاکستانی لڑکی بھی پڑھ رہی ہے۔ اسی اثنا میں اقامت شروع ہوگئی اور ہم سب بھی نماز کے لیے اٹھ کھڑی ہوئیں۔ نماز کے بعد امام صاحب نے ان سیاح خواتین کی سہولت کے لیے انگریزی زبان میں مختصر درس دیا۔ امام صاحب کا تعلق مصر سے ہے اور انگلش اور عربی زبانوں پر بھی عبور رکھتے ہیں. امام صاحب نے اللہ کی نعمتوں اور رحمتوں کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ صرف دنیاوی مال و متاع ، عہدے یا شہرت کی فراوانی نعمت نہیں بلکہ حقیقی نعمت دین اسلام اور ہدایت کے رستے پر چلنا ہے اور آپ لوگوں پر اللہ کی خاص رحمت ہے کہ اس نے اربوں لوگوں میں سے آپ کو اپنے پسندیدہ دین کے لیے منتخب کیا اور آپ کو حجاب اور پردے کی توفیق دی۔ ابھی درس جاری تھا کہ گھڑی پر نظر پڑی اور بادل نخواستہ ہمیں امام صاحب سے اجازت لینی پڑی۔

    چونکہ ہماری واپسی کی ٹرین کا وقت ہو چکا تھا لہذا افسردہ اور اداس دل کے ساتھ مسجد سے باہر نکلے اس دعا اور ارادے کے ساتھ کہ ان شاء اللہ دوبارہ اس مسجد میں ضرور آئیں گے اور خاص طور پر جمعہ یا عیدین کے موقع پر تاکہ مسجد کے مرکزی ہال کو بھی اندر سے دیکھنے کا موقع مل سکے۔

    جب کبھی بھی آپ کو روم آنے کا اتفاق ہو تو اس مسجد کی سیر ضرو ر کیجیے گا۔ مسجد نہایت پر امن اور سکون کی جگہ ہوتی ہےاور تمام اہل ایمان کو مساجد میں جا کر ہمیشہ سکون ہی ملتا ہے کہ بےشک دلوں کا سکون اللہ کی یاد میں ہی ہے، اور جب اس کا ذکر اس کے اپنے گھر میں ہو تو اس سکینت میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے۔

    آپ کو روم کی تاریخی اور شاندار مسجد کی سیر تو کروا دی۔ (ان شاء اللہ بہت جلد روم کی ایک اور تاریخی عمارت کلوزیم Colosseum، جو دنیا کے سات عجائب میں سے ہے، کی سیر بھی آپ کو کروائی جائے گی اور اس کلوزیم کے تاریخی پس منظر میں نام نہاد مہذب، لبرل اور روشن خیال گوروں کے انتہائی ظالمانہ اور تاریک پہلوؤں سے آگاہی بھی دی جائے گی۔ ان شاء اللہ

  • کارٹون سیریز کی حیرت انگیز پیشن گوئیاں جو پوری ہوئیں – ام یحی

    کارٹون سیریز کی حیرت انگیز پیشن گوئیاں جو پوری ہوئیں – ام یحی

    اگر آپ جاننا چاہتے ہیں کہ دنیا میں کیا ہونے والا ہے تو دیکھتے رہیے کارٹون سیریز Simpsons، کیونکہ اس کی کئی حیرت انگیز پیشن گوئیاں سچ ثابت ہو چکی ہیں. آئیے چند ایک پر نظر ڈالتے ہیں.

    1 1. ٹوئن ٹاور 9/11 سے تین سال پہلے1997 میں سمپسن کی ایک قسط Homer against NewYork city ستبمر کے مہینہ میں آن ائیر کی گئی، اس میں ایک کتاب پہ 9$ اور پیچھے ٹوئن ٹاور 11 کی طرح کھڑے دکھائے گئے.

    3 2. ایبولا وائرس دنیا میں 2014ء میں خوف کی علامت بنا جبکہ سمپسن کارٹون میں 1997ء کی ایک قسط میں ایک بچہ ایبولا وائرس کا شکار دکھایا گیا اور ایک کتاب کا ٹائٹل Curious George and Ebola virus دکھایا گیا.

    2 3. انتہائی حیرت انگیز طور پر 2000ء میں ڈونلڈ ٹرمپ کو امریکہ کا صدر دکھایا گیا اور جو سین کارٹون میں دکھایا گیا، 2016ء میں وہی سین اسی طرح اصل ٹرمپ کی الیکشن کمپین میں ہوا.

    4. سائنسی ایجادات کی بھی پیشن گوئیاں کی گئیں جو پوری ہوئیں، جیسے 1995ء میں وڈیو کال دکھائی گئی. 1994ء میں ایپل کا ڈیجیٹل فون دکھایا گیا جو 2007ء میں منظر عام پر آیا. 1995ء میں اسمارٹ واچ دکھائی گئی جو 2013ء میں سام سنگ نے متعارف کروائی. اسی طرح 1998ء میں FarmVille گیم دکھائی گئی جو آج دنیا بھر میں مقبول ہے.

    4 5. کچھ اسکینڈلز دکھائے گئے جو وقوع پزیر ہوئے، جیسے 1997ء میں دکھایا گیا کہ فوڈ اسٹورز میں گھوڑے کا گوشت استعمال کیا جا رہا ہے. 2013ء میں بڑی بڑی فوڈ چینز کے نام سامنے آئے جو گھوڑے کا گوشت استعمال کر رہی تھیں، برگر کنگ، برڈز آئی، ٹیکو بیل وغیرہ
    5 گریس چوری کی کہانی 1998ء میں دکھائی جو اسی طرح کی گئی.
    2008ء میں الیکٹرونک ووٹنگ کے ایک سین میں دکھایا گیا کہ اوباما کو ووٹ کاسٹ کر نے پر مشین اوبامہ کے بجائے مخالف امیدوار کے ووٹ کا سگنل دے رہی ہے. 2012ء کے الیکشن میں ووٹنگ رگ کا اسکینڈل سامنے آیا، جب اوباما کو ووٹ کاسٹ کرنے پر مشین مخالف امیدوارکا ووٹ شو کر رہی تھی.

    6. سمپسن نے 1999ء میں مسخ شدہ ٹماٹروں کی فصل دکھائی جو قریب میں نیوکلیئر پلانٹ کی موجودگی کی وجہ سےمسخ ہوئی. 2015ء میں پہلی دفعہ ایسا جاپان میں ہوا.

    کچھ لوگوں کا خیال ہے یہ اتفاقات ہو سکتے ہیں، مگر یہ کیسے ممکن ہے کہ اتنے سارے اتفاقات ایک ہی کارٹون سیریز میں وہ بھی ایک مختصر وقت میں دکھائے جائیں.

    دنیا کس کی مٹھی میں ہے یہ بات اب ڈھکی چھپی نہیں. کہتے ہیں کہ دنیا پر اپنا تسلط قائم رکھنے کے لیے فری میسن طویل مدت پلاننگ کرتی ہے اور کسی واقعہ کی تاریخ اور وقت تک کو سو سال پہلے طے کر لیا جاتا ہے. اسی دور کو دور فتن کہا گیا ہے جبکہ دین پہ چلنا آگ پہ چلنے جیسا ہوگا اور عملی مسلمانوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہو جائے گی، کیوں کہ دجال کافتنہ شدید تر ہوگا. چاول کے دانے کے برابر چپ کی آپ کے جسم میں پیوند کاری بھی اس سلسلے کی ایک کڑی ہے. اور جلد ہی دنیا سے تمام کرنسی کا بھی خاتمہ کر دیا جائے گا، اور کریڈٹ کارڈز پر بھروسہ کرنا ہوگا، جو کب کہاں بلاک کر دیے جائیں اور کس جرم میں؟ یہ پوچھنے کی کوشش مت کیجیے گا. دجال سے ٹکرانے کا جگر فقط ان لوگوں کو نصیب ہوگا جنھوں نے قرآن اور سنت کو مضبوطی سے تھاما ہو گا .

  • تارکینِ وطن اور ٹرمپ – راؤ‌ کامران علی

    تارکینِ وطن اور ٹرمپ – راؤ‌ کامران علی

    راؤ کے علی ڈونلڈ ٹرمپ نے معذوروں کی نقل اُتاری، خواتین کی بےحُرمتی کی، کالوں کا تمسخر بنایا، ہسپانیوں اور میکسیکن کو ”ریپسٹ“ اور چور کہا اور ان کے لیے دیوار بنانے کا اعادہ کیا، مسلمانوں کو دہشت گرد اور فساد کی جڑ قرار دیا، لیکن گوروں کی تعریف کی اور انھیں سُہانے خواب دکھائے، جس کے باعث گوروں نے اُسے صدر چُن لیا۔ اس صورتحال میں دیکھا جائے تو گورے، انتہائی خود غرض، مطلب پرست، جاہل اور عورت کی حُکمرانی کو حقیر ماننے والے لوگ ہیں۔

    چلیں اب ایک منٹ کے لیے فرض کرتے ہیں کہ
    یہی ٹرمپ معذروں کی نقل اُتارتا ہے، خواتین کی بےحُرمتی کرتا ہی، کالوں کا تمسخر بناتا ہے، ہسپانیوں اور میکسیکن کو ریپسٹ اور چور کہتا ہے اور ان کے لیے دیوار بنانے کا اعادہ کرتا ہے، لیکن اس بار وہ مسلمانوں اور گوروں، دونوں کی تعریف کرتا ہے اور انھیں سُہانے خواب دکھاتا ہے، تو کیا مسلمان اُسے صدر چُنیں گے؟ جی یقیناً چُنیں گے۔ تو کیا اب مسلمان بھی گوروں کی طرح انتہائی خود غرض، مطلب پرست، جاہل اور عورت کی حُکمرانی کو حقیر ماننے والے لوگ کہلائیں گے؟ ظاہری سی بات ہے کہ اس کا جواب ہے”نہیں“۔ یہ اپنے اپنے مفادات کی جنگ ہے جو کہ دُنیا کے ہر مُلک اور خطے میں لڑی جاتی ہے۔ گوروں نے اپنا مفاد دیکھا اور ”رنگ داروں“ نے اپنا۔

    یاد رہے کہ راقم بھی دیگر مسلمانوں کی طرح ہیلری کلنٹن کی حمایت میں آگے آگے تھا اور وجہ وہی ہے جو اوپر بتائی گئی ہے کہ ٹرمپ نے ہمیں مُنہ نہیں لگایا۔ بظاہر لگتا تھا کہ ٹرمپ بےوقوف اور مشتعل مزاج انسان ہے لیکن اس نے بڑی چالاکی سے %0.9 مسلمانوں، %13 کالوں اور %16 ہسپانیوں کو امریکہ کی ترقی اور برائے نام عظمت کی زوال پذیری کا باعث قرار دے کر %70 سے زائد سفید فام ووٹرز اپنے ہاتھ میں لے لیے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ %58 گوروں نے اسے ووٹ تو دیے ہی مگر%30 ایشین اور %30 ہسپانوی ووٹ بھی لے اُڑا (اصل ”پٹواری“ تو ہسپانوی ہوئے، اتنی بے عزتی کے بعد بھی تیس فیصد لوگ ٹرمپ کے ساتھ)۔ یاد رہے کہ ہندوستانی بھی ٹرمپ کے حق میں تھے۔

    ہم امریکہ میں تارکینِ وطن ہیں اور رہیں گے، جب تک ہم اپنے بچوں کی گوروں سے شادیاں کرکے ایک نئی کارٹون نما نسل پیدا نہ کرلیں، اور یہ کارٹون نما نسل بھی کوئی ایک دو نسلوں کے بعد ”اصلی امریکی“ کہلائے گی، بالکل اسی طرح جس طرح ہمارے ہاں کئی ”اصلی شاہ“ بنتے ہیں اور چونکہ ہمارے سامنے بنتے ہیں، اس لیے ہم ان کے ”اصلی“ ہونے کی گواہی دے سکتے ہیں۔ کارٹون نما نسل کیسی ہوتی ہے:؟ اس کا نمونہ ٹی وی پر ”انکل الطاف“ یا ”چاچا عمران“ کہتے ہوئے دیکھ سکتے ہیں۔

    تارکینِ وطن کو زمینی حقائق کے مطابق زندگی گزارنی ہوتی ہے۔ تارکینِ وطن کا بھٹو زندہ رہتا ہے نہ ہی لوہار ہمیشہ کے لیےگلے کا ہار بن سکتا ہے۔ تارکینِ وطن نہ تو ٹرمپ کے گھر کے سامنے دھرنا دے سکتے ہیں اور نہ ہی ان کا لیڈر ایسا مجمع اکھٹا کرکے ”بچہ پیدا کرنے کے طریقے“ بیان کرسکتا ہےجس میں خود بچے بھی سُن رہے ہوں۔ حکومت کی پالیسیوں پر ہر حال میں عمل کرنا پڑتا ہے تاہم آزادی اظہار کے طور پر اپنی آواز مُناسب طریقے سے بُلند کی جا سکتی ہے۔

    مسلمانوں خصوصاً پاکستانیوں نے اس الیکشن جس اتحاد اور نظم و ضبط کا مظاہرہ کیا، ان کی اثر اندازی اور ان کے علاقوں میں ہیلری کے ووٹوں کو دیکھ کر اندازہ لگانا مُشکل نہیں کہ اگلے الیکشن میں کم از کم دس سیٹوں پر پاکستانی ایوانِ زیریں (House of Representative) کا الیکشن لڑ سکتے ہیں۔

    اب وقت ہے کہ آنے والی ری پبلکن حکومت کی جیت کا کھُلے دل سے خیر مقدم کرکے اس کے ساتھ بہترین تعلقات بنائے جائیں اور بہتر تعلقات کے لیے بہترین پلیٹ فارم استعمال کیے جائیں۔ زندہ قومیں زندہ فیصلوں سے زندہ رہتی ہیں۔ بیدار مغزی ، سمجھداری اور مُلک و قوم کی بہتری جذباتی وابستگیوں سے بڑھ کر ہے۔ خدا ہمیں مناسب وقت پر مناسب فیصلے کرنے کی توفیق عطا فرمائے! آمین

    (راؤ کامران علی امریکہ میں مقیم ہیں)