Blog

  • روشن خیالی کے شاخسانے-ڈاکٹر صفدر محمود

    روشن خیالی کے شاخسانے-ڈاکٹر صفدر محمود

    Safdar Mahmood

    موضوع قدرے سنجیدہ اور علمی نوعیت کا ہے امید ہے آپ اسے برداشت کرلیں گے کیونکہ مقصد قارئین کی ذہنی تربیت بھی ہے۔ ہمارے ملک میں آج کل روشن خیالی کا بڑا چرچا ہے جو میرے نزدیک مذہبی شدت پسندی بلکہ مذہب کے نام پر دہشت گردی کے خلاف ردعمل ہے۔ ردعمل کے اپنے تقاضے اور اپنی قوت ہوتی ہے جو کبھی کبھی اسے بے لگام بھی کر دیتی ہے۔ اس صورتحال نے ہمارے ہاں روشن خیالی کی تحریک کو ابھارا ہے جو اپنے طور پر خوش آئند پیش رفت ہے بشرطیکہ یہ روشن خیالی مادر پدر آزادی کی علمبردار نہ ہو اور مذہبی و اخلاقی روایات سے فرار کا ملفوف ایجنڈا نہ ہو یہ کشمکش تاریخ کا حصہ ہے اور دنیا کے ہر معاشرے کو کسی نہ کسی منزل پر اس کشمکش سے گزرنا پڑا ہے۔ علامہ اقبال ؒ نے اجتہاد کو اسلام کی روح اور بقا کا راز قرار دیا تاکہ اسلام زندگی کے بدلتے تقاضوں کا ساتھ دے سکے اور اجتہاد کے لئے بنیادی اصول بھی واضح کر دیا۔ وہ اصول ہے کہ اجتہاد قرآن و سنت کی حدود کے اندر جائز ہے اسلامی تعلیمات اور اصولوں سے انحراف کرنے والا اجتہاد قابل قبول نہیں۔

    ہمارے ہاں روشن خیالوں کے نمایاں دو گروہ ہیں اول وہ جو اپنی روشن خیالی کو اسلامی و دینی حدود کا پابند سمجھتے ہیں اور دوم وہ جو روشن خیالی کو ان حدود سے ماورا سمجھتے ہیں۔ مثلاً میں نے ایک ڈاکٹر صاحب کو دوبار ٹی وی پروگراموں میں یہ کہتے سنا کہ ہمیںمذہبی احکامات سے بالا تر ہو کر سوچنا چاہئے اس طرح کی روشن خیالی الحاد کی حدوں کو چھوتی ہے چنانچہ اس سے وہی لوگ رہنمائی حاصل کرتے ہیں جو اسلامی اصولوں سے بالاتر آزادی کے طلب گار ہیں۔ یہ لوگ اسے روشنی کہتے ہیں جبکہ دوسرا مکتبہ فکر اسے تاریکی اور الحاد کہتا ہے کیونکہ جہاں مذہب کی حدود ختم ہوتی ہیں وہاں سے الحاد کی راہیں کھلتی ہیں ان حضرات کے نزدیک ہر قسم کی قانون سازی اور آزادی روشن خیالی کی راہیں کھولتی ہے جن میںجنسی آزادی، ہم جنس پرستی، پینے پلانے وغیرہ کی آزادیاں بھی شامل ہیں۔ کچھ اس کا کھلے الفاظ میں کچھ دبے انداز میں اور کچھ ملفوف انداز میں اس کا اظہار کرتے ہیں اور مغربی ممالک کے ساتھ ساتھ چند ایسے مسلمان ممالک کی مثالیں بھی دیتے ہیں جہاں ان کے بقول مساجد کے ساتھ ساتھ مے خانے، قحبہ خانے اور ناچ خانے بھی موجود ہیں جبکہ دین دار روشن خیالوں کا بہانہ یہ ہے کہ ایسی مثالیں ہمارا رول ماڈل نہیں، ہمارا رول ماڈل اسلامی معاشرہ ہے جس کی بنیادیں اسلامی اصولوں پر استوار کی جاتی ہیں

    دینی حدود سے ماوراء روشن خیالی کے مکتبے سے ایک ماڈ ریٹ روشن خیال طبقے نے جنم لیا ہے جو باقاعدہ یہ تحریک چلا رہا ہے کہ مذہب انسان کا ذاتی معاملہ اور عقیدہ ہے اس کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں یعنی مذہب اور سیاست زندگی کے الگ الگ خانے یا شعبے ہیں اس بیانیہ کی تہہ میں وہی خواہش پوشیدہ ہے کہ ملکی نظام کو انہی اصولوں سے آزاد کروا کر ہر قسم کی آزادی حاصل کی جائے مذہب اور سیاست کو ا لگ الگ سمجھنے والے اسلام کو مکمل ضابطہ حیات نہیں سمجھتے ورنہ تو ایسا بیانئے ہی جاری نہ کریں ان کو اگر سمجھا یاجائے کہ حضور نبی کریم ﷺ کی قائم کردہ ریاست مدینہ اور خلفائے راشدین کے دور میں تو سیاست اسلامی اصولوں کے تابع تھی اور اسلامی ریاستی زندگی کا حصہ تھی تو وہ اجتہاد کا سہارا لیتے ہیں حالانکہ ہر اسلامی ملک میں سیاست مذہبی اصولوں کے تابع ہوتی ہے ان اصولوں سے ماورا نہیں۔ یہ روشن خیال گروہ اپنی فکر یا بیانئے کا جواز دو حوالوں سے دیتا ہے۔

    اول اقلیتوں کے حقوق دوم دہشت گردی، مذہبی انتہا پسندی اور مذہب کے نام پر قتل و غارت۔ مشکل یہ ہے کہ مغرب کے فریب میں مبتلا ان حضرات نے اسلام کا مطالعہ نہیں کیا ورنہ اسلامی نظام حکومت میں اقلیتوں کو برابر کے حقوق دیے گئے ہیں۔ اسلامی معاشرے میں مذہب کسی بھی شہری کی زندگی میں رکاوٹ نہیں بنتا۔ رہی مذہب کے نام پر دہشت گردی، انتہا پسندی یا فرقہ واریت تو اسلام ان کی نفی کرتا ہے اور قرآن مجید تفرقہ پھیلانے والوں کو سختی سے منع کرتا ہے۔ سچ یہ ہے کہ دہشت گردی اور مذہبی منافرت بنیادی طور پر عالمی سیاست کا شاخسانہ ہیں اور ہم اپنے حکمرانوں کی کم بصیرتی اور عالمی قوتوں کی غلامی کی سزا بھگت رہے ہیں۔ ہمارے ملک اور اس خطے میں دہشت گردی اور مذہبی فرقہ واریت کے نام پر قتل و غارت روس کی افغانستان میں آمد کے بعد شروع ہوئی جب گرم پانیوں تک روسی یلغار کے خطرے کو روکنے کے لئے شروع کیا گیا جس میں بعض برادر ممالک کے ساتھ ساتھ امریکہ بھی شامل ہو گیا۔ چنانچہ ضیاء الحق کے دور میں جہادی کلچر کوکھلی چھٹی دے دی گئی اور دنیا بھر کے ممالک سے جہادی گروہوں کو خوش آمدید کہا گیا۔ شیعہ سنی فسادات اوردہشت گردی کے پس پردہ عالمی قوتیں تھیں جنہوں نے اپنے مقاصد کے لئے دولت اور اسلحہ دے کر ہمارے بعض مذہبی گروہوں کو استعمال کیا۔

    چاہئے یہ تھا کہ افغانستان سے روس کی واپسی کے بعد غیر ملکی جہادیوں کو واپس بھجوا دیا جاتا اور ملک میں فرقہ واریت کا خاتمہ کیا جاتا۔ نائن الیون کے بعد پاکستان امریکہ کا اتحادی بن گیا۔ امریکہ نے افغانستان پر حملوں کی بارش کردی۔ ان گروپوں اور نیٹ ورکوں کا امریکہ پر تو بس نہیں چلتا تھا، انہوں نے انتقام لینے کے لئے پاکستان کو نشانہ بنایا اور دہشت گردی کا جال پھیلا دیا، ہندوستان نے اس صورت حال کا فائدہ اٹھایا اس کی سزا ہم اب تک بھگت رہے ہیں۔ مختصر یہ کہ دہشت گردی اور فرقہ واریت کا تعلق مذہب سے جوڑ کر مذہب کو انسان کا ذاتی معاملہ قرار دینا اور قومی و سیاسی زندگی سے الگ کر دینا جائز نہیں۔ کچھ معصوم دانشور قائداعظم کی گیارہ اگست کی تقریر سے یہ مطلب نکالتے ہیں حالانکہ اس تقریر کی روح فقط یہ ہے کہ پاکستان میں اقلیتوں کوبرابر کے حقوق ملیں گے، مذہب کسی بھی شہری کی زندگی میں رکاوٹ نہیں بنے گا۔

    آخر یہ دانشور قائداعظم کی سینکڑوں تقاریر سے اس تقریر کو الگ کر کے کیوں پڑھتے ہیں؟ خود قائداعظم نے فروری 1948ء میں امریکی قوم کے لئے براڈ کاسٹ میں پاکستان کو پرائمر اسلامی ریاست قرار دے کر بحث کے دروازے بند کردیئے تھے۔ پاکستان و ہند کے مسلمانوں میں علامہ اقبال سے بڑا مفکر پیدا نہیںہوا۔انہیں مفسر قرآن کا مقام حاصل ہے۔ ذرا دیکھئے وہ مذہب کو سیاست سے الگ کرنے کے حوالے سے اپنے مشہور عالم خطبہ الٰہ آباد 1930ء میں کیا کہتے ہیں ’’مذہب اسلام کی رو سے خدا اور کائنات، کلیسا اور ریاست اور روح اور مادہ ایک ہی کل کے اجزاء ہیں…. کیا واقعی ہی مذہب ایک نجی معاملہ ہے؟ آپ چاہتے ہیں ایک اخلاقی اور سیاسی نصب العین کی حیثیت سے اسلام کا وہی حشر ہو جو مغرب میں مسحیت کا ہوا ہے؟ کیا یہ ممکن ہے کہ ہم اسلام کو بطور ایک اخلاقی تخیل کے توبر قرار رکھیں لیکن اس کے نظام سیاست کی بجائے ان قومی نظامات کو اختیار کرلیں جن میں مذہب کی مداخلت کا کوئی امکان باقی نہیں رہتا…. اسلام کا مذہبی نصب العین اس کے معاشرتی نظام سے الگ نہیں۔ میں نہیں سمجھتا کوئی مسلمان ایک لمحے کے لئے بھی ایسے نظام سیاست پر غور کرنے کے لئے آمادہ ہوگا جو اسلام کے اصولوں کی نفی کرے‘‘۔ (اقبال کا خطبہ الٰہ آباد)
    جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی

  • نماز میں دھیان نہ لگنا سب کا مسئلہ، حل کیا ہے؟ نیر تاباں

    نماز میں دھیان نہ لگنا سب کا مسئلہ، حل کیا ہے؟ نیر تاباں

    نماز میں دھیان نہ لگنا ہم میں سے اکثریت کا مسئلہ ہے۔ نماز دین کا اہم ترین رکن ہے، باقی تمام ارکان سے زیادہ دہرایا جانے والا رکن، اور مؤمن اور کافر کے مابین فرق کرنے والی چیز بھی ہے لیکن ایسا کیا کیا جائے کہ نماز کا خشوع و خضوع بن سکے اور برقرار رہ سکے۔ اس میں مختلف آزمودہ نسخے آپ کے ساتھ شیئر کروں گی۔ انہی پر ایک ایک کر کے عمل کرنا ہے۔

    1- سب سے پہلی بات تو یہ کہ عربی ہماری اپنی زبان نہیں۔ اگر ہم اللہ سے ہم کلام ہیں لیکن کیا بات کہہ رہے ہیں، یہی معلوم نہ ہو تو بڑی قباحت ہے۔ سب سے پہلی اور سب سے ضروری چیز یہ ہے کہ نماز کا لفظی ترجمہ پڑھیں تا کہ جب آپ عربی الفاظ ادا کریں تو آپ کے ذہن میں ان کے معنی ہوں۔ اس سے ان شاء اللہ نماز میں دھیان بنانے میں بہت مدد ملے گی۔

    2- ہم لوگ روز ایک کھانا نہیں کھا سکتے، ایک ہی کپڑے ہر وقت زیب تن نہیں کر سکتے، اپنے پسندیدہ ڈرامے کا پسندیدہ سین بھی کچھ دفعہ دیکھنے کے بعد اکتا جاتے ہیں لیکن بچپن کی یاد کی ہوئی نماز، وہی سورتیں وہی دعائیں پڑھ پڑھ کر ہم آج تک بیزار نہیں ہوئے۔ تو نماز میں دھیان برقرار رکھنے کے لیے نت نئی چھوٹی چھوٹی سورتیں اور مسنون دعائیں یاد کرنا شروع کریں۔ سورۃ الفاتحہ سے پہلے بھی، بعد میں بھی، رکوع و سجود میں بھی آپ بدل بدل کر مسنون طریقے پر دعائیں نماز میں شامل کر سکتے ہیں۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ بچپن سے جو رٹا لگایا، آج تک اس میں کوئی نئی سورت اور دعا شامل نہیں کی۔ اب حالت یہ ہے کہ رٹا اتنا پکا ہو گیا ہے کہ شاید نیم بےہوشی میں بھی نہ بھولیں 🙂 جب آپ الفاتحہ کے بعد قل ھو اللہ احد کا رٹا رٹایا سبق شروع کرنے کے بجائے انا اعطینک الکوثر بولیں گے، اگلی نماز میں الھکم التکاثر، اس سے اگلی میں والعصر پڑھیں گے اور اسی طرح رکوع میں سبحان ربی العظیم کا رٹا بولنے کے بجائے رکوع کی کوئی اور مسنون دعا پڑھیں گے تو دھیان نماز میں ہی رہے کہ اچھا اب اس بار کون سی دعا پڑھنی ہے۔

    3- اس حوالے سے ایک صحیح حدیث بہت اہم ہے جس کا مفہوم کچھ یوں ہے کہ آپ تصور کریں کہ آپ اللہ کو دیکھ رہے ہیں اور اگر یہ نہیں کر سکتے تو اتنا تو ضرور ہی تصور کر لیں کہ اللہ آپ کو دیکھ رہا ہے۔ یقین کریں کہ یہ احساس آتے ہی تنے ہوئے تمام اعصاب ڈھیلے ہو جاتے ہیں، تیز تیز پڑھنے کے بجائے بندہ ٹھہر ٹھہر کر پڑھتا ہے، بھاگم بھاگ سجدے کرنے کے بجائے آرام سے سجود کو انجوائے کرتا ہے کیونکہ یہ احساس ہوتا ہے کہ اللہ تعالی مجھے دیکھ رہے ہیں اور میں بھی ان کو عین حاضر ناظر جان کر سجدہ کر رہا ہوں۔ پھر نہ تو بار بار گلہ کھنکھارتے ہیں، نہ بار بار ناک کھجاتے ہیں۔ صرف میرا رب اور میں! سبحان اللہ!

    عمل کی بات کے اسباق چھوٹے رکھنے کی نیت تھی، لیکن یہ ٹاپک ایسا ہے کہ اس کو تھوڑا تفصیل سے بتانا پڑا۔ تو آج سے عمل میں نماز کے حوالے سے جو چیزیں ایک ایک کر کے شامل کرنی ہیں، وہ ہیں:
    1۔ نماز کا ترجمہ دھیان سے پڑھنا ہے۔
    2- چھوٹی چھوٹی سورتیں اور رکوع و سجود کی مختلف مسنون دعائیں یاد کرنی اور پھر بدل بدل کر پڑھنی ہیں۔
    3- تصور میں لانا ہے کہ میں اللہ تعالی کے عین سامنے یہ نماز ادا کر رہی/رہا ہوں اور اللہ تعالی مجھے اس وقت نماز ادا کرتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔

  • “بوڑھے والدین اور اسلامی تعلیمات ” نعیم الدین جمالی

    “بوڑھے والدین اور اسلامی تعلیمات ” نعیم الدین جمالی

    نعیم الدین معاشرے پر اس وقت مغرب کی یلغار ہے ،غیروں کے بڑہتے ہوئے رجحانات،ان کی عادات و اطوار کو اختیار کرنے کی وجہ سے ہم نت نئے مسائل کا شکار ہیں ،اسلامی ،اخلاقی ،تھذیبی ،تمدنی ،اور معاشرتی اقدار اس وقت زوروں سے زوال پذیر اور گراوٹ کی انتہاؤن کو چھو رہے ہیں ،منجملہ ان مسائل میں بوڑھے والدین کے ساتھ بڑھتی ہوئی بے رخی،ناقدری ،توہیں ،تحقیر وتذلیل ہے .جب وہ بڑھاپے کی عمر کو پہچتے ہیں ،عمر رسید اور ضعیف ہوتے ہیں ،اولاد انہیں اپنے اوپر بوجھ اور مصیبت سمجھنے لگتی ہے ،بات بات پر ان کو ڈانٹا ،جھڑکنا ،ذلیل ورسوا کرنا روز کا معمول بن جاتا ہے ،ان کے ساتھ مل بیٹھنا ،باتیں کرنا انہیں وقت دینا تو دور کی بات ہے ،ان کو دو ٹائم کی روکھی سوکھی روٹی دینے کو راضی نہیں ہوتے ،ان کو بیماری لاحق ہو جائے علاج و معالجے پر رقم خرچ کرنا فضول سمجھتے ہیں ،
    افسوس !وہ والدین جنھوں نے پوری زندگی ہماری لئے سھولیات ،چین وسکون ،راحت ومسرت مھیا کرنے کی نذر کردی ،آج تمام اولاد اس سے بیزار ہے،جس نے بیک وقت پانچ پانچ بچوں کو پالا پوسا ،اچھی سے اچھی خوراک ،لذیذ طعام ،بھترین لباس، ناز ونخرے برداشت کیے، اور انکی خواہشات پوری کی ،آج وہ سب مل کر بھی ایک والد کو نہیں پال سکتے ،انکی خواہشات کو فضول گردانتے ہیں ،انہیں عید پر ایک اچھا سوٹ نہیں دلا سکتے ،بیماری میں سسک سسک کر موت کو گلے لگا لیتے ہیں ،انکا علاج تک نہیں کرا پاتے ،
    وہ والدین جنہوں نے رہن سھن کے لیے اچھا مکان ،ٹھنڈے کمرے، گھریلوضروریات کی تمام چیزیں میسر کی، آج والد نے بڑھاپے کی دھلیز پر کیا قدم رکھا،بیٹوں نے گھر کا بٹوارہ کر دیا ، والدین کو بوجھ سمجھ کر اولاد بے رخی اختیار کرنا شروع کر دیتی ہے ،بعض دفعہ بے مروت اولاد بوڑھے باپ کو گھر بدر کردیتے ہیں ،اس پر بس نہیں اولڈ ھاؤسسز میں چھوڑ کر ہمیشہ کے لیے عاق کر دیتےہیں ،روڈ رستوں پر ،گلی محلے میں یہ جنت کے ٹکٹ رلتے، لاچار وبے بس دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے ،
    ہم دوسروں کی چال چل کر اپنے اسلامی اقدار کو پس پشت ڈال رہے رہیں ،اخلاقی فریضہ کو یکسر بھلا چکے ہیں ،ان کے احسان کا بدلہ بدی سے دینے کی راہ پر گامزن ہیں ،تھذیبی اور تمدنی روایات سے نابلد ہو چکے ہیں ،
    کیا ہماری اسلامی تعلیمات یہ ہیں ؟
    معاشرتی اقدار کہاں دفن ہو گئے ہیں ؟
    یقین جانئے !اسلامی معاشرتی اقدار کی بنیاد ہی اخلاق پر ہے ،پرانے وقتوں لوگ اپنے والدین کی عزت وتکریم کے ساتھ گلی محلہ کے بڑوں کو عزت کی نگاہ سے دیکھتے تھے ،مجلس میں انکے اعزاز کے لیے با ادب کھڑے ہو جاتے ،انکے سامنے بولنا تک گوارہ نہیں کرتے تھے ،آج ہم کس تنزلی کا شکار ہوگئے ہیں ،بیٹا بالغ کیا ہوا باپ کو جاہل ،اجڈ گنوار کے لقب سے نوازنا فرض سمجھتا ہے ،معمولی باتوں پر گالم گلوچ ،طعن وتشنیع سے گریز نہیں کرتا ،
    آج ہم دوسروں کی چال چل کر “کوا چلا ہنس کی چال ….. ” کی عملی تعبیر بن چکے ہیں ،
    اللہ تبارک وتعالی نے قرآن مجید میں والدین کے ساتھ حسن سلوک ،عجز و انکساری اور محبت وشفقت کے واضح اور روشن احکامات نازل فرمائے ہیں ،ان کو “اف “تک کہنے کی اجازت نہیں دی ،امام قرطبی رح والدین کے ساتھ حسن سلوک والی آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں :” اللہ رب العزت نے اپنی عبادت کے ساتھ والدین کے ساتھ ادب واحترام اور اچھا سلوک کرنے کو واجب قرار دیا ہے ،
    صحیح بخاری میں روایت ہے کہ حضور اکرم سے ایک شخص نے سوال کیا :”اللہ تبارک وتعالی کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب عمل کونسا ہے ؟” آپ علیہ السلام نے فرمایا :”نماز اپنے وقت میں “اس نے پھر دریافت کیا اس کے بعد کونسا عمل ؟آپ نے فرمایا :”والدین کے ساتھ اچھا سلوک ”
    آپ علیہ السلام نے ایک دوسری روایت میں والدین کو جنت کا درمیانی دروازہ قرار دیا ہے آپ نے فرمایا :جس کی مرضی چاہے اس کی حفاظت کرے یا ضائع کردے ”
    ترمذی شریف میں روایت ہے آپ علیہ السلام نے فرمایا :”اللہ کی رضا والد کی رضا میں،اللہ کی ناراضی والد کی ناراضی میں ہے ”
    ایک صحابی نے آپ علیہ السلام سے دریافت فرمایا “والدین کا اولاد پر کیا حق ہے ؟”آپ نے فرمایا “وہ تیری جنت اور دوزخ ہیں ،ان کی اطاعت و فرمانبرداری میں جنت ان کی بے ادبی اور ناراضی میں تیری دوزخ ہے ”
    “والدین پر شفقت ومحبت سے ایک نگاہ ڈالو تو حج مقبول کا ثواب ملتا ہے “،آپ علیہ السلام کی یہ بات سن کر لوگوں نے سوال کیا یا رسول اللہ ! “اگر دن میں سو مرتبہ نظر ڈالے ؟ ” آپ نے فرمایا :”ہاں سو مرتبہ بھی (ہر مرتبہ اسی طرح ثواب ملتا رہے گا )
    دنیا میں والدین کی خدمت کرنے والوں کو جہاں یہ عمدہ اعزازات ملتے ہیں وہاں والدین کی نافرمانی کرنے والے کے لیے سخت سے سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :”اللہ تمام گناہوں میں سے جس گناہ کی سزاچاہیں دنیا میں دیں یا اس کو آخرت تک موخر کردیں ،لیکن والدین کی نافرمانی،حق تلفی ،بے ادبی کرنے والے شخص کو اس کی سزا آخرت سے پہلے دنیا میں ہے دی جاتی ہے”
    والدین چاہے مسلم ہوں یا کافر خدمت و اطاعت انکا حق ہے ، یہ کسی زمانے یا عمر میں مقید نہیں ،ہر حال ،ہر عمر میں والدین کے ساتھ اچھائی حسن سلوک واجب ہے ،والدین جب بوڑھے ہو جاتے ہیں ،انکی زندگی اولاد کے رحم وکرم پر ہوتی ہے ،اولاد کی ایک چھوٹی سی بات ،معمولی بے رخی والدین کے لیے ضرب کاری بن جاتی ہے ،بڑھاپے کے طبعی عوارض ،عقل وفھم کی کمی وجہ سے انکی طبیعت میں چڑچڑا پن آجا تا ہے ،بچوں کو چاہیے درگز کریں ،انکی صحت اور کھانے پینے کا خیال رکہیں،ان کی ہر ممکن خواہش پوری کریں ، اپنی مصروف زندگی ،میڈیا انٹر نیٹ ،تعلیم ،امتحانات اور کاروبار سے تھوڑا وقت والدین کے لیے مختص کریں ،انکی ،خدمت کریں ، ان سے دعائیں لیں ،یہی سب کچھ کامیابی اور کامرانی کا سبب بنے گا ،والدین کو بھی چاہیے کہ اپنے بچوں کی اصلاح اور تربیت کریں جہاں آپ انکو مہنگے سے مہنگے اسکولوں میں تعلیم دلواتے ہیں وہاں انہیں اسلامی تعلیمات و اقدار سے روشناس کرائیں ،اپنے بڑوں کی خدمت کرکے انہیں عملی سبق سکھائیں ،خدارا !اپنی جنت کی قدر کریں .

  • بوئیں ببول کاٹیں پھول کیسے�� : طاہرہ عالم

    بوئیں ببول کاٹیں پھول کیسے�� : طاہرہ عالم

    طاہرہ عالم
    ویسے تو بہت سے لکھنے والوں نے اس پر بہت کچھ لکھا اور چینلز نے بہت کچھ دیکھا یا بھی ہے لیکن پھر بھی نہ جانے کیوں اگر میں کچھ لکھوں تو میں سمجھونگی دل سے برا جانا یا پھر میں نے بھی ایک معاشرتی برائی کے خلاف جہا د کی ۔ میرا قلم شائید آج بہت سے رشتوں کو بے نقاب کردے یا پھر ان کی آنکھیں کھولنے میں معاون ثابت ہو جو اپنے ارد گرد میں موجودبہت سے رشتوں سے غا فل ہیں یا پھر اندھا اعتماد کرتے ہیں انسان خطا کا پتلا ہے !یہ وہ جملہ ہے جو ہم اکثر وبشتر سنتے ہیں ۔ انسان کی رگ رگ میں شیطانیت موجود ہوتی ہے ۔ لیکن شیطان ہاوی صرف اس وقت ہی ہوتا ہے جب کوئی تیسرانہیں ہوتا ، مشرق سے مغرب تک پھیلی ہوئی یہ برائی ایسی ہے جو بہت کم ہی منظر عام پر آتی ہے۔اسکی وجہ صرف اور صرف اپنی اور اپنے خاندان کے نام کا بھرم قائم رکھنا ہے کہ لوگ سنیگں تو کیا کہنگے ہمار ی عزت کا تو جنازہ نکل جائے گاا! بہت ہی افسوس کا مقام ہوتا ہے جب اپنے ہی کسی پیارے نے اپنے ہی کسی پیارے کو اپنی جنسی تشدد کا نشانہ بنایا ہو تا ہے یہ وہ لمحہ ہے جب انسان بے بس ہوتا اتنا بے بس کے بہت کچھ کرنے کی طاقت رکھنے کے باوجود کچھ بھی کرنے کی استطاعت نہیں رکھتا باپ، بھائی ، چاچا ، دادا، ماموں ، بہنوئی یہ وہ رشتے ہیں جنھیں ہم بہت تقدس کے نظر سے دیکھتے ہیں شیطانیت کا حملہ بھی زیادہ تر ان ہی رشتوںکی جانب سے ہوتا ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ شیطان کا اس میں بڑا عمل دخل ہے دوسری بڑی وجہ کیا ہوسکتی ہے ؟
    حد سے ذیادہ اندھا اعتماد یا پھر والدین کی بے جا مصروفیات ؟
    یا پھر اسلاف کے سرمائے کو طاق میں رکھ دینا ؟
    بہنوئی کے علاوہ باقی رشتے تو ہمارے محرم ہوتے ہیں پھرمحرم سے ایسی غیرشرعی غیر اخلاقی غلطی کیسے سرذد ہوجاتی ہے ؟
    انسانیت پر شیطانیت کیسے حاوی ہوجاتی ہے یہاں اگر ان تمام کا ذمہ دار میں تنہائی کو ٹہرادوں تو شائید غلط نہ ہوگا ،تنہائی خود کو جاننے کیلئے بہت ضروری ہوتا ہے یہ وہ لمحہ ہوتا ہے جب آپ خود سے اپنے رب سے یا پھر برائی سے بہت قریب ہوجاتے ہیں اگر آپ خود سے رب سے قریب نہیں ہیں تو اس تنہائی کو فوری طور پر ختم کردیںاس سے پہلے کے آپ انسانیت کھودیں !دنیا میں تقریبا 9.7 % بچیاں7.9% بچے جنسی تشدد کا نشانہ بنتے ہیں۔جن میں سے 30 فیصد اپنے ہی پیا رے رشتوں کے ہاتھو ںہی بر باد ہوتے ہیں ۔60%وہ ہوتے ہیں جن سے سرسری تعلق ہو تا ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ ایسے لوگ معاشرے کا ناسور ہیں جو اس معاشرے کو کینسر زدہ بنارہے ہیں ۔ہم میں بہت سی بری بیماری جیسی برائی کا جنم تب ہی ممکن ہوتا ہے کب ہم اپنے دین سے دور ہوتے ہیں ، دنیا کا کوئی بھی مذہب ہمیں اسطرح کی برائی کی اجازت نہیں دیتا ہے اس کے باوجودہر مذہب کے لوگوں میں یہ برائی موجود ہے کیا ہمیں تربیت کا انداز بدلنا ہوگا؟ کیوں کہ ہمارے یہاںہم بچوں سے کھلے لفظوں میں بات نہیں کرپاتے ہم انہیں آنے والے برے حالات یا لمحات کے بارے میں وقت سے پہلے آگا ہی نہیں دے پاتے ہم اپنے بچوں سے حقا ئق کو چھپا رہے ہوتے ہیںاس کے برعکس دور جدید میں بچے کسی چیز سے انجان نہیں ہیں لیکن پھربھی بچے تو بچے ہیںانھیں ایک صحیح سمت کی ضرورت زندگی کے ہر موڑ پر رہتی ہے ۔
    والدین کو چائیے وہ اپنے بچوں کو وقت کی نزاکت کو مدنظر رکھتے ہوئے مختلف امور پر آگاہی دیتے رہیں ضرورت سے زیادہ تنہائی انسان کو مجرم اور ملزم بنانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں دوسری طرف نشانہ بننے والے وہ بچے ہوتے ہیں جو گھروںسے دور ہوتے ہیں child labourممنوع ہونے کے باوجود آپ مختلف جگہوں پر ’’چھوٹو‘‘کو کام کرتے ہوئے پائنگے کوئی پوچھنے والا نہیں ہے ان بچوں کی راتیں آسیب ذدہ سائے تلے گذرتی ہیں خوف ہراس کے دلدل سے گذرتے ہوئے تاریک ماضی کو پیچھے دھکیلتے ہیں اور مستقبل کی جانب گامزن ہوتے ہیں ایسے بچے جب بڑ ے ہو جاتے ہیں تو ان میں کچھ ماضی کی تکلیف دہ باتوں کو یاد کرتے ہوئے ان چھوٹو پر ترس کھاتے ہیں اور کچھ ایسے ہوتے ہیں جو اپنا بدلا مستقبل کے چھوٹو سے لیتے ہوئے اپنے دل کو تسکین دے رہے ہوتے ہیں،یہ ایک سائیکل ہے جس کا چکرشاید ختم نہ ہو آبائو اجداد نے جو بویا ہے وہ تو بحرحال کاٹنا ہی پڑے گا اور اسے کاٹنے میں ہاتھ پائوں بلکہ پورا وجود لہو لہان ہو سکتا ہے بلکہ ہو رہا ہے اگر اس کا سدباب کیا جائے توہمیں اس کے لیے کیا کرنا ہوگا ؟
    ہمیں اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت میں ایسے مکالمہ شامل کرنے ہونگے جوا نھیں ظلم اور برائی کے خلاف بولنا سکھائیں ان کے دلوں کے وہ ڈروہ خوف نکالنا ہوگا جو انھیں اپنی زبان بندرکھنے پر مجبور کرتے ہیں اپنے بچوں سے نرم ولطیف لہجہ میں بات چیت کرنا ہوگی تاکہ وہ اپنے مسائل والدین کی ہی مدد سے حل کر سکیں ۔ہمارے یہاں بچوں کی باتوں کو اہمیت نہیںدی جاتی اکثر و بیشتر انکی باتیں سنی ہی نہیں جاتی ۔بہت سے موقع پر انھیں تلقین کی جاتی ہے کہ وہ خاموش ہوکر بیٹھیںانھیں بہت کم اجازت ہوتی ہے اپنے خیالا ت کا اظہار کریں جس کی وجہ سے وہ خاموش ہوتے چلے جاتے ہیں اس طرح کہ بچے پھر نشانہ بنتے ہیں ،۔ہمارے ماضی نے ہمارے مستقبل کے لیئے ببو ل بویا ہے نا جانے ہم کب تک اس ببل کو کاٹتے رہینگے خداراببول بونا بند کردیں تاکہ آنے والے وقتوں میں ہم اس کے نتائج مثبت طور پرطور پر حاصل کر سگیں ۔معصومیت کو کسی بھی آنچ کا خطرہ نہ ہو!

  • ٹرمپ نے وہ کہا جو اوبامہ اور بش نے ہمارے ساتھ کیا-انصار عباسی

    ٹرمپ نے وہ کہا جو اوبامہ اور بش نے ہمارے ساتھ کیا-انصار عباسی

    Ansar-Abbasi-1

    تجزیے، سروے، پیشن گوئیاں اور اندازے سب ہار گئے اور ڈونلڈ ٹرمپ جیت گئے۔ امریکیوں نے ایک ایسے شخص کو اپنا صدر منتخب کر لیا جس کے بارے میں امریکا میں کہا جاتا تھا کہ وہ ایک متعصب، منفی، بدکردار اور بدزبان شخص ہے جو مسلمانوں سے نفرت کرتا ہے اور اگر ایسا شخص امریکی صدر بن گیا تو امریکا میں اقلیتوں کے لیے خطرہ ہو گا اور وہاں شدت پسندی زور پکڑے گی۔ پی پی پی کی رہنما شیری رحمان سمیت ہمارے کچھ لوگوں کی رائے میں امریکا ٹرمپ کی جیت کے بعد مایوسی کی حالت میں ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ امریکا کی اکثریت نے ایک ٹرمپ کو اُس کی تمام تر خرابیوں کے ساتھ اپنا صدر منتخب کیا اور وہ اس انتخاب پر جشن بھی منا رہے ہیں۔ ہاں ہمارے ہاں بہت سو لوگ صدمہ میں ضرور ہیں۔ اُن کے لیے ہیلری کلنٹن تو جیسے پاکستان کی کوئی اپنی امیدوار تھیں اور ٹرمپ کوئی دشمن۔ چند ہفتوں پہلے میں نےسوشل میڈیا میں امریکی صدارتی امیدواروں کے حوالے سے لکھا تھا کہ ٹرمپ مسلمانوں کے خلاف اُس سے زیادہ کیا کچھ کر سکتا ہے جو خصوصاً 9/11 کے علاوہ بش اور ابامہ نے کیا۔ لاکھوں مسلمانوں کا قتل و غارت بش اور ابامہ کے ادوار میں ہوا۔

    ٹرمپ اس سے زیادہ بُرا کیا کرے گا۔ ٹرمپ سے پہلے امریکا نے افغانستان، عراق، لیبیا، شام وغیرہ میں تباہی و بربادی پھیلا دی جس میں ہمارے ـ’’اپنی‘‘ ہیلری کلنٹن کا بھی ان جرائم میں اہم حصہ رہا۔ پاکستان کو امریکا نے ہمیشہ دھوکہ دیا، استعمال کیا۔ 9/11 کے بعد ہمارے ملک کو دہشتگردی کا نشانہ بنوایا، یہاں ڈرون حملے کیے اور سینکڑوں افراد بشمول عورتوں اور بچوں کو مارا، ایبٹ آباد حملہ کیا، سلالہ میں ہمارے کئی فوجیوں کو شہید کیا، پاکستان میں سی آئی اے اور ایف بی آئی کے نیٹ ورک کو مضبوط کیا اور یہاں افراتفری پھیلانے کا سامان پیدا کیا۔ اب ٹرمپ اس سے زیادہ پاکستان کو کیا نقصان پہنچائے گا۔ تحریک انصاف کی رہنما ڈاکٹر شیری مزاری نے کیا خوب کہا کہ ہیلری وہ شیطان ہے جسے ہم جانتے ہیں جبکہ ٹرمپ وہ شیطان ہے جسے ہم نہیں جانتے۔ خاص بات یہ کہ دونوں (ہیلری اور ٹرمپ)پاکستان ہو یا مسلمان اُن کے خیر خواہ نہیں۔ ٹرمپ اور دوسروں میں جو فرق ہے وہ صرف اتنا کہ ٹرمپ کی مسلمانوں سے نفرت اُس کی زبان پر ہے جبکہ دوسروں نے اپنے اندر چھپا کر رکھی ہے۔ اس لیحاظ سے تو ٹرمپ دوسروں سے بہتر ہے کیوں کہ جو اُس کے دل میں ہے وہ اس کی زبان پر بھی ہے۔ٹرمپ اپنی زبان سے مسلمانوں کے خلاف تعصب کا اظہار کرتا ہے اور کہتا ہے کہ وہ مسلمانوں کوامریکا میں داخل نہیں ہونے دے گا، وہ کہتا ہے کہ پاکستان کے نیوکلئیر پروگرام پر سخت نظر رکھے گا تا کہ وہ شدت پسندوں کے ہاتھوں میں نہ جائے اور یہ بھی کہ وہ ہندوٗں اور بھارت کا دوست ہے۔ تو کیا یہ سب کچھ ابامہ اور بش نے اپنے اقدامات سے ثابت نہیں کیا۔

    نام نہاد دہشتگردی کے خلاف جنگ کے لیے امریکا نے پاکستان کو استعمال کیا، پاکستان کے اندر دہشتگردی کی لعنت کو دھکیلا۔ پاکستان کے احسانوں کا بدلا یہ دیا کہ پہلے افغانستان میں بھارت کے اثر و رسوخ کو بڑھایا اور اب مکمل طور پر اپنا جھکائو بھارت کے حق میں اور پاکستان کے خلاف کر دیا۔ پاکستان کے نیوکلئیر پروگرام کو شک کی نظر سے ہی امریکا دیکھتا رہا جبکہ بھارت کے ساتھ نہ صرف نیوکلئیر انرجی تعاون کا معاہدہ کیا بلکہ اُسے نیوکلئیر سپلئیرز گروپ میں شامل کرنے کے لیے اپنی مہم چلا رہا ہے۔ جو کچھ ابامہ اور ہیلری نے بھارت کے لیے گزشتہ آٹھ سالوں میں کیا اُس کو ٹرمپ نے زبان دی۔ ہاں اس الیکشن میں جیت سے امریکیوں کا چہرہ ضرور بے نقاب ہو گیا جس پر ٹرمپ کا ہمیں شکر گزار ہونا چاہیے۔ امریکیوں کے بارے میں اب بہت سوں کی یہ غلط فہمی دور ہو جانی چاہیے کہ وہ بہت شاندار اور کھلے دل کے لوگ ہیں۔ امریکی ووٹرز نے اس تاثر کو بھی غلط ثابت کر دیا کہ امریکی انتظامیہ کے مسلمان اور اسلام مخالف تعصب اور پالیسیوں کا امریکی عوام سے کوئی تعلق نہیں ہوتا بلکہ امریکی لوگ تو بڑے غیر متعصب ہوتے ہیں۔ ٹرمپ الیکشن جیتنے کے بعد کیا کریں گے اس پر بحث بعد میں ہو گی لیکن اس حقیقت کو کوئی جھٹلا نہیں سکتا کہ اُن کی جیت نے امریکی ووٹرز کے اندر کے بغض خصوصاً مسلمانوں اور اسلام کے خلاف نفرت کو سب پر ظاہر کر دیا۔

    میری ذاتی رائے میں جو امریکا میں ہوا وہ اچھا ہوا۔ ٹرمپ کی جیت امریکا کو اُسی طرح کمزور کرسکتی ہے جس طرح Brexit کے نتیجے میں برطانیہ اور یورپ کو خطرات کا سامنا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ کمزور امریکا اور منقسم یورپ مسلمانوں پر پہلے جیسا ظلم ڈھانے کے قابل نہیں ہوں گے اس لیے امریکی الیکشن نتائج اور Brexit سے ہمیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ اس ماحول میں مسلمانوں کو بھی ماضی سے سبق سیکھنا چاہیے، اپنی غلطیوں اور کمزوریوں کوتاہیوں کو دور کرنا چاہیے۔ بجائے اس کے کہ ہم امریکا و یورپ کی غلامی میں ہی اپنا مستقبل محفوظ رکھنے کے دھوکہ میں پڑے رہیں ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلمان ممالک آپس میں تعاون اور رابطوں کو بڑھائیںتاکہ غیروں کی سازشوں کا مل کر مقابلہ کیا جاسکے۔

  • ڈاکٹرز ہڑتال کیوں کرتے ہیں؟ ڈاکٹر رابعہ خرم درانی

    ڈاکٹرز ہڑتال کیوں کرتے ہیں؟ ڈاکٹر رابعہ خرم درانی

    میو اسپتال بچہ وارڈ میڈیکل ایمرجنسی میں میری نائٹ ڈیوٹی تھی .. ہیوی ٹرن اوور تھا. کھوے سے کھوا چل رہا تھا .. ایک ہاؤس آفیسر، ایک میڈیکل آفیسر اور ایک سینئر رجسٹرار دو نرسز کے ساتھ میڈیکل ایمرجنسی سنبھال رہی تھیں. اتفاق سے سارا سٹاف خواتین پر مشتمل تھا. صرف ایمرجنسی کے گیٹ پر کھڑا چوکیدار مرد تھا.

    رات کے دو اڑھائی بجے ایک تین سالہ بچی کو جھٹکوں اور تیز بخار کے ساتھ اسپتال لایا گیا. خوبصورت اور فربہی مائل صحت مند بچی بےہوشی، بخار اور جھٹکوں میں مبتلا تھی. پریشان حال روتی دھوتی ماں، پریشان اور غصیلا باپ اور چار پانچ درباری قسم کے رشتے دار بچی کے ساتھ تھے. ویل آف سیاسی قسم کی فیملی لگ رہی تھی جو رات کے اس پہر کوئی پرائیویٹ ڈاکٹر نہ ملنے کے باعث میو اسپتال کا رخ کرنے پر مجبور ہوئی تھی. درباری رشتے داروں کو چوکیدار نےگیٹ پر روکا لیکن وہ ایم ایس سے تعلق کا حوالہ دے کر اندر گھس آئے .. ایمرجنسی کا چھوٹا سا کمرہ مریضوں سے بھرا ہوتا ہے، اس میں بچوں کے ساتھ ایک فرد کو کھڑا ہونے کی اجازت ہوتی ہے، جبکہ اس بچی کے ساتھ چھ سات لوگ اندر آ گئے تھے. بچی کو فوری طور پر ڈیوٹی ہاؤس آفیسر اور نرس نے اٹینڈ کیا جبکہ ایم او بھی ساتھ موجود تھی. اگر آپ لوگوں کو دیکھنے کا اتفاق ہوا ہو تو بچے کو کینولا لگانا ایک مشکل کام ہوتا ہے خصوصا ایک فربہ بچے کو جو جھٹکے بھی لے رہا ہو، اگر اس کے اٹینڈنٹس ڈاکٹر کو سوئی چبھونے کی اجازت بھی نہ دے رہے ہوں تو کینولا لگانا مزید مشکل ہو جاتا ہے. بچی کے ہاتھ کی طرف سوئی بعد میں بڑھتی تھی، پریشان حال ماں بچی کا بازو اپنی طرف پہلے کھینچ لیتی تھی. جھٹکے شدید ہوتے جا رہے تھے. غصیلے اور عدم تعاون پر آمادہ اٹینڈنٹس .. رات گئے کا وقت .. چوکیدار نے سینئر رجسٹرار صاحبہ کو بھی کال کر لیا. خدا خدا کر کے بچی کو کینولا پاس کرنے میں کامیابی ہوئی .. دوا دی گئی اور بچی کے جھٹکے رکے تو سب نے سکون کا سانس لیا ..

    اسی وقت میرے کندھے پر ایک غیر دوستانہ دستک ہوئی .. میں ڈیوٹی ہاؤس آفیسر تھی جو کینولا لگانے کی سب سے زیادہ ماہر مانی جاتی تھی، اس روز بھی کینولا میں نے ہی لگایا تھا، اور بچی کے جھٹکے کنٹرول ہوتے دیکھ کر بےحد خوش تھی .. خیر اس دستک کے جواب میں پلٹ کر دیکھا تو ایک درباری اٹینڈنٹ جسے بچی کے باپ کے سامنے کارروائی دکھانے کا کوئی موقع نصیب نہیں ہوا تھا، اس نے اپنی کمر سے لگا ہولسٹر اور گن دکھاتے ہوئے سلطان راہی کے انداز میں مجھے ایک ڈائیلاگ سے نوازا ..
    ”اگر آج تم ہماری بچی کا علاج نہ کرتی تو صبح تمہیں نوکری سے فارغ کروا دیتا . ایم ایس میرا رشتے دار ہے.“
    اتنی عمدہ تعریف اور حوصلہ افزائی پر مجھ سمیت تمام ڈاکٹرز کا دماغ گھوم گیا لیکن کچھ بولنے سے پہلے ہی چوکیدار نے اسے پکڑا، اور بزور باہر لے گیا. اس کے بعد ہماری ایس آر نے بچی کے والدین اور تمام وارڈ کے سامنے ایک جوشیلی جذباتی تقریر کی جس کا لب لباب یہ تھا کہ ہم ایک رات اور ایک دن میں سینکڑوں بچوں کی جان بچاتے ہیں. ایسے برے رویے کے حقدار ہم نہیں. اگلی صبح مارننگ میٹنگ میں رات کے واقعہ پر بحث ہوئی اور وارڈ سکیورٹی بڑھا دی گئی. اس واقعہ سے ڈاکٹرز خوفزدہ بھی تھے اور کام کرنے کا جذبہ بھی خوف و طیش کے ملے جلے جذبات کی آڑ میں چھپ سا گیا تھا .. لیکن پروفیسر صاحب اور سینئیرز کی حوصلہ افزائی کے بعد کام بلاتعطل جاری رہا..

    یہ واقعہ آج کل جاری ڈاکٹرز کی ہڑتال کے تناظر میں یاد آ گیا .. جہاں جذباتی اٹینڈنٹس اپنے غصے اور طاقت کا غلط استعمال کر کے ڈاکٹرز کا تعاون کھو دیتے ہیں. ڈاکٹر آپ کا دوست اور ساتھی ہے، آپ کی صحت اس کا مقصد ہے لیکن وہ ایک انسان ہے، آپ کا بےدام غلام نہیں. باہمی عزت و احترام پر دو طرف سے ملحوظ خاطر رکھا جانا چاہیے.

    ڈاکٹرز کو اپنی بات سنانے کے لیے ہڑتال کرنا پڑی .. ایمرجنسی میں کام جاری تھا لیکن ریپورٹڈلی ایک ڈی ایم ایس صاحب پستول لہرا کر ایمرجنسی کے ڈاکٹرز کو دھمکاتے رہے. ینگ ڈاکٹر سے زیادہ انرجی اور کام کا جذبہ کسی میں نہیں ہوتا لیکن خوف و دہشت کے سائے میں گن پوائنٹ پر کیا کسی سے کوئی کام لے سکتا ہے؟ اگر دو ہفتے سے اسپتال کا آؤٹ ڈور اور ان ڈور بند ہے تو یہ انتظامیہ کی بد ترین نااہلی کا مظہر ہے.

    ینگ ڈاکٹرز کو بھی ہمدردی سے کام لیتے ہوئے غیر مشروط طور پر ایمرجنسی ڈیوٹیز کو سنبھال لینا چاہیے .. بےشک بطور احتجاج کالی پٹیاں باندھے رکھیں اور انتظامیہ کو بھی ڈاکٹرز کی خاطرخواہ دل جوئی اور حفاظت کا بندوبست کرنا چاہیے.

    ایک عام آدمی سے میرا سوال ہے کہ یہ نوجوان ڈاکٹر آپ کا بیٹا بیٹی یا چھوٹا بھائی بہن ہوتا اور اس کو مریض کے رشتے دار جان کی دھمکی دیتے یا پستول سے دھمکاتے تو آپ اپنی بہن کو اگلے روز مسیحائی کے لیے بھیجتے یا اسے تب تک کام پر جانے دیتے جب تک اس کی حفاظت کا یقینی بندوبست نہ کر دیا جاتا..

    میری تمام ینگ ڈاکٹرز سے درخواست ہے کہ وہ اپنےاعلی تعلیم و تربیت یافتہ ہونے کا ثبوت دیں اور مریض کے سوشل اسٹیٹس سے قطع نظر عزت و ہمدردی کا سلوک روا رکھیں ..
    اسی طرح عوام سے درخواست ہے کہ وہ بھی ڈاکٹر کو مشکل مصیبت اور تکلیف میں کام آنے والا مخلص اور ہمدرد دوست مانیں اور اس کو عزت دیں..

  • ڈاکو مسیحا – حنیف سمانا

    ڈاکو مسیحا – حنیف سمانا

    اٹھارہ بیس سال درس گاہوں میں جھک مارنا ………. اپنے والدین کے لاکھوں روپے جھونک دینا … مسلمان کے گھر پیدا ہونا … گھروں میں قرآن شریف کی موجودگی … محلے میں بیسیوں مسجدوں اور مدرسوں کا ہونا …. صبح شام مؤذنوں کی چیخ و پکار سننا …… آس پاس اتنی ساری دینی جماعتوں کا ہونا .
    اور اس سب سے نکلتا کیا ہے؟
    ایک ایسا ڈاکٹر ………….
    کہ جو اپنے دنیاوی فائدے کے لیے ہڑتال کرے اور ایک معصوم بچی کو سسک سسک کے مرتا دیکھے .
    لعنت ہے ایسی پڑھائی لکھائی پر ………. ایسی درس گاہوں پر …. ایسے ماحول پر ……
    کہ جو ایک اچھا انسان تخلیق نہ کر سکے ….
    کہ جس میں احساس ہو ……. انسانیت ہو ……. مروت ہو …. شرم ہو …….. حیا ہو ……. جو کسی کو تکلیف میں دیکھے تو اپنی ضرورتیں بھول جائے .
    ارے دولت ہی کمانی تھی تو اس مقدس پیشے میں کیوں آئے تھے؟
    بن جاتے چور، ڈاکو ، اسمگلر، سیاستدان …….. کوئی ٹٹ پونجیے دکاندار ………. حلیم کی یا بریانی کی دیگ لگالیتے……… مل جاتے پیسے .
    اب اس پیشے میں آئے ہو تو قربانی دو … اپنے مسیحا ہونے کا ثبوت دو .
    یہ کیا کہ اپنے مفاد کے لیے آئے دن ہڑتالیں ……… احتجاج .
    اگر اپنے مسائل اوپر تک پہچانے کے لیے ہڑتال ضروری بھی ہو…. تو پھر بھی ہر ہسپتال کی ایمرجنسی میں کام نہیں رکنا چاہیے .
    یہ بحیثیت ڈاکٹر ………… مسلمان …………… اور انسان آپ پر فرض ہے کہ آپ تکلیف میں لوگوں کی مدد کرو .
    کچھ شرم کرو کس کے ماننے والے ہو ……… جو بلی کے بچے کو تکلیف میں نہیں دیکھ سکتے تھے .
    تم انسان کے بچے کو مرتا چھوڑ آئے .

  • امریکہ میں صدارتی الیکشن کے بعد ہنگامے کیوں ہوئے؟ ابومحمد مصعب

    امریکہ میں صدارتی الیکشن کے بعد ہنگامے کیوں ہوئے؟ ابومحمد مصعب

    ابومصعب اگر آپ یہاں واشنگٹن پوسٹ کے دیے گئے لنک پر کلک کریں گے تو بالکل حیران نہیں ہوں گے کیوں کہ ویڈیو میں جو کچھ نظر آ رہا ہے، وہ ہم اور آپ بارہا اپنے ملک کے بڑے شہروں کراچی، لاہور وغیرہ میں دیکھ چکے ہیں۔ دوکانوں کے شیشے لاٹھیوں سے توڑے جا رہے ہیں، سڑک کے درمیان چیزوں کو رکھ کر نذرآتش کیا جا رہا ہے، ایک شخص کو آپ درخت کو آگ لگاتے ہوئے بھی دیکھ سکتے ہیں۔ مظاہرین کا بس ایک ہی نعرہ ہے:
    Not my President
    یعنی ٹرمپ ہمارا صدر نہیں ہے۔

    امریکی صدارتی الیکشن کے نتائج سے لوگ اتنے اپ سیٹ ہیں کہ کئی لوگوں کو اپنے ٹی وی سیٹ توڑتے، لیپ ٹاپس کے اوپر ڈنڈے برساتے اور دھاڑیں مار مار کر روتے دکھایا گیا ہے۔ اس تمام تر صورتحال کو صدر ٹرمپ بھی بڑی حیرت سے دیکھ رہے ہیں اور جیت کی خوشی میں ان کی کھلی باچھیں ابھی اپنی جگہ پر بھی نہ آئی تھیں کہ ہنگاموں کے پھوٹنے پر حیران و پریشان ہیں۔ لوگ امریکہ کی مختلف ریاستوں میں ٹرمپ کے خلاف نہ صرف مظاہرے کر رہے ہیں بلکہ غم و غصہ میں بھرے لوگ ہنگامے بھی کر رہے ہیں۔ ٹرمپ پراپرٹی کا کاروبار کرتے ہیں اور کئی ریاستوں میں ان کی فلک بوس عمارتیں ہیں۔ لوگوں نے ان عمارتوں کے باہر جمع ہو کر بھی اپنی نفرت اور غصہ کا اظہار کیا ہے۔ اسی لیے نو منتخب صدر ٹرمپ نے تازہ ٹوئٹ کیا ہے کہ اس قدر واضح جیت کے باوجود جو کچھ ہو رہا ہے، وہ نہایت افسوسناک ہے، وہ میڈیا کے مقرر کردہ لوگوں کی ایما پر ہو رہا ہے۔ مسٹر ٹرمپ کے الفاظ:
    Just had a very open and successful presidential election. Now professional protesters, incited by the media, are protesting. Very unfair!

    یہ سب کیوں ہوا؟ جمہوری ملک میں جمہوری مزاج رکھنے والے عوام کو آخر ٹرمپ کی جیت کیوں ہضم نہیں ہوئی؟ جو بات سمجھ میں آتی ہے وہ یہ کہ امریکہ میں چاہے صدر جو بھی آئے، بادشاہ گروں کی طرف سے اس کے پیچھے ایک لمبی منصوبہ بندی ہوتی ہے۔ لابنگ کرنے والی فرموں کو اپنا اپنا گھوڑا جتوانے کے لیے ہائر کیا جاتا ہے، مہمات لانچ کی جاتی ہیں اور میڈیا کے ذریعہ ملک کے اندر ایک عمومی فضا بنا دی جاتی ہے کہ فلاں تو آیا ہی آیا۔ یہی وجہ ہے کہ تمام تر میڈیا ٹاکس، صحافیوں کے تجزیے اور سروے، مس کلنٹن کی جیت کی خوشخبری سنا رہے تھے، مگر الیکشن کے رزلٹ نے عوام کو حیران و پریشان کر دیا، اور وہ سڑکوں پر نکل آئے۔ کیا یہ بات حیران کن نہیں کہ آج سے بارہ تیرہ سال قبل کسی فلم میں یا ویڈیو گیم میں مسٹر ٹرمپ کو امریکی صدارتی دوڑ میں شامل دکھایا گیا ہے۔ کیا یہ سب کچھ اویں ای تھا؟

    آخر میں یہ بات کہ امریکی عوام کی اکثریت نے مس کلنٹن پر ڈونلڈ ٹرمپ کو کیوں ترجیح دی؟ اس کا جواب ہے کہ امریکی عوام کے ساتھ جارج بش کے بعد اوبامہ کی صورت میں ہاتھ ہو چکا ہے۔ لوگ جارج بش کی امریکی فارن پالیسی سے خوش نہیں تھے جبکہ وہ قوتیں جو اسی پالیسی کو جاری رکھنا چاہتی تھیں، جانتی تھیں کہ اگر کوئی ایسا شخص امریکہ کا صدر بن گیا جس پر ان کا ہاتھ نہ ہو تو کھیل کا پانسہ پلٹ بھی سکتا ہے۔ لہٰذا انہوں نے عوام کو ایک تبدیلی دکھانے کے لیے اوبامہ کو میدان میں اتارا۔ کوئی سوچ سکتا ہے کہ وہ ملک جس میں کالوں کے ساتھ ہر سطح پر تھوڑا بہت امتیاز برتا جاتا ہے، وہاں کیا کوئی گورا میسر نہیں تھا جو مسٹر اوبامہ کو آگے لایا گیا۔ جواب اس کا یہ ہے کہ یہ ’’تبدیلی‘‘ کے لفظ کو مزید اجاگر کرنے کے لیے یہ محض ایک چال تھی۔ گوری چمڑی کے بجائے جب لوگ کالی چمڑی کو دیکھیں گے تو پچاس فیصد تو نفسیاتی طور پر ویسے ہی ’’تبدیلی‘‘ آنے کا ذہن بنا لیں گے۔ مگر ثابت ہوا کہ یہ سب دھوکے کے سوا کچھ نہ تھا۔ اور عوام نے دیکھ لیا کہ امریکی فارن پالیسی سے لے کر گوانتانامو بے تک، اوبامہ نے جتنے وعدے کیے تھے، وہ سب سراب ثابت ہوئے، اور پالیسیاں جوں کی توں چلتی رہیں۔

    اب کی بار اسی شکاری نے ایک بار پھر ’’تبدیلی‘‘ کا تاثر دینے کے لیے جنس کا انتخاب کیا اور کسی مرد کے بجائے عورت کو آگے کیا، تاکہ لوگ ’’تبدیلی‘‘ کو نفسیاتی طور پر محسوس کریں۔ مگر اس بار عوام نے جان لیا کہ انہیں ایک بار پھر ماموں بنایا جا رہا ہے، اور مس کلنٹن کٹھ پتلی سے بڑھ کر کچھ نہیں، جو اسی فارن پالیسی کو جاری رکھیں گی جو پچھلے سولہ سالوں سے چل رہی ہے، لہٰذا انہوں نے اپنے تئیں ایک مختلف پروگرام رکھنے والے شخص کو اپنا صدر منتخب کر لیا۔

    سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا نومنتخب صدر اپنے وہ وعدے پورے کر سکیں گے جو انہوں نے امریکی عوام سے الیکشن مہم کے دوران کیے تھے؟ ماہرین کا خیال ہے کہ ایسا کرنا ان کے لیے ناممکن نہیں تو آسان بھی نہ ہوگا۔ کیوں کہ اس سلسلہ میں ان کو کئی قانونی پیچیدگیوں اور ’’بادشاہ گروں‘‘ کی جانب سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ نتیجہ یہ کہ کسی بڑی تبدیلی کی امید نہیں رکھی جا سکتی۔ اور پھر ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ کے اصل ’’بادشاہ گروں‘‘ کی قوت کو بھی خوب جانتے ہیں۔ کیا انہیں چار امریکی صدور کا علم نہ ہوگا جن کو ان کی حکومت ہی میں قتل کر دیا گیا تھا۔ وہ ہیں: ابراہام لنکن، جیمس اے گارفیلڈ، ولیم مکین لی اور صدر جان ایف کینیڈی۔ یوں اب تک امریکہ کے 44 صدور میں سے چار کو مار کر جان چھڑائی گئی ہے۔
    ٹرمپ کے خلاف احتجاج کی ویڈیو

    https://www.youtube.com/watch?v=mEF-ruKn_fs

    خبریں
    https://www.washingtonpost.com/news/post-politics/wp/2016/11/10/not-my-president-thousand-protest-trump-in-rallies-across-the-u-s/

    http://www.dailymail.co.uk/news/article-3922098/The-backlash-begins-Disgruntled-anti-Trump-protesters-refuse-accept-election-result-gather-New-York-cities-country.html

  • فیس بک کی دنیا، صنف نازک اور ہم – نوید مرزا

    فیس بک کی دنیا، صنف نازک اور ہم – نوید مرزا

    میں کافی ٹائم سے فیس بک استعمال کر رہا ہوں، شاید نومبر 2007ء سے فیس بک کی دنیا میں آمد کے بعد میرا اولین شوق شاعری رہا.. شاعر اور شاعری کی پوسٹنگ تلاش کرنا .. اچھی اچھی پوسٹنگ کرنا .. شروع میں اتنا لائک اور کمنٹس کا بھی شوق نہ تھا، کوئی لائک کرتا ہے تو کرے، نہیں تو خصماں نوں کھائے..

    مگر بتدریج ایک وقت گذرنے کے بعد جب جب بڑے بڑے لکھاریوں سے واسطہ پڑا، جیسے رعایت اللہ فاروقی، قاری حنیف ڈار، أمجد لیل اور انعام رانا تو دیکھا دیکھی ہم بھی لائکس کی دوڑ میں شامل ہو گئے. اندھا دھند فرینڈ ریکویسٹ ایکسپٹ کی اور سینڈ بھی کی. اب تو یہ بھی نہیں پتہ چلتا کہ کون کیا ہے اور کہاں سے ہے؟ البتہ فیس بک پر خواتین کو بہت ایڈوانٹیج حاصل ہے اور نام نہاد ”خواتین“ کو تو بے حد …

    ایک دن آئی ڈی بنائیں گے ہمارے بھائی فی میل نام سے اور ہفتہ دس دن میں پانچ ہزار فرینڈ پورے کر کے فالورز بنانے شروع… میں اپنے ایسے کئی دوستوں کو جانتا ہوں جنھوں نے فی میل آئی ڈی بنا کر فرینڈ ایڈ کرنے کے بعد نام تبدیل کر لیا ہے.. ویسے فی میل کوئی بھی، کچھ بھی پوسٹ کرے، اس کے سٹیٹس اپ ڈیٹ پر لائک اور کمنٹ ایسے گرتے ہیں جیسے برسات کے موسم میں بلب آن کرنے پہ پتنگے …. اور وہ بھی فیک آئی ڈیز پر … مجھ جیسے سب لنڈے کے دانشور ایسی فیک آئی ڈیز پر ایک منٹ میں لائک کمنٹ کرتے ہیں مگر مجال ہے کہ اگر کسی دوست نے کوئی تحقیقی پوسٹ کی ہو تو اسے لائک یا اس پر کمنٹ کرنے کے جرم میں ذرا بھی حصہ ڈالیں..

    مرد حضرات یہی سمجھتے ہیں کہ کوئی بھی لڑکی جو فیس بک پہ آتی ہے، وہ یہاں رشتہ ڈھونڈنے یا کسی لڑکے سے دوستی کرنے کے لیے ہی آتی ہے اور اکثر ایسا بھی ہوتا ہے کہ اگر ایک کرن کی آئی ڈی کے پیچھے شمریز ہے تو دوسری طرف حنا کے پیچھے بھی ناصر ہوتا ہے اور تب دونوں فریقین کی حالت دیکھنے والی ہوتی ہے، جب پول کھلتا ہے تو دونوں پھر سیڈ گانے سنتے اداس اداس پھرتے ہیں اور یہی کہتے پائے جاتے ہیں کہ اعتبار کا زمانہ نہیں رہا … بندہ کسی پہ اعتبار نہیں کرسکتا..

    fake-ids انھی بہن نما بھائیوں کی وجہ سے فیس بک پہ جہاں کافی زیادہ اچھے اور سلجھے ہوئے گھروں کی اعلی تعلیم یافتہ لڑکیاں ہیں، ان پر بھی اعتبار نہیں کیا جاتا کیونکہ بچپن میں میرے وہ بھائی جو بہنوں کے فراک پہن کر گھوما کرتے تھے، انہوں نے ٹھرک پن کی انتہا کرتے ہوئے عجیب عجیب اور واہیات پوسٹنگ کے ساتھ ساتھ 20 روپے والی صبا کی طرح ایزی لوڈ مانگنے کا کام فیس بک پر بھی شروع کیا ہوا ہے.

    ہمارے یہی بھائی ہیں جہنوں نے فیس بک پر فی میل آئی ڈیز کو مشکوک بنا کے رکھ دیا ہے، شاید ان بیچاروں کو اصلی زندگی میں کسی خاتون نے کبھی کفٹ نہ کرائی ہوگی یا کہیں نہ کہیں ان کے والدین سے ان کی تربیت میں کچھ کمی رہ گئی ہوگی .. یا شاید جینڈر پرابلم ہو ان کے ساتھ …. مجھے معلوم نہیں مگر …. یہ لائکس اور کمنٹ کی جو دوڑ لگی ہوئی ہے فیس بک پر … فیک آئی ڈیز بنانے کی ایک وجہ یہ بھی ہے..

    کچھ دوست ہیں جہنوں نے فیک آئی ڈیز اپنی وال پر کمنٹس کے لیے بنائی ہوئی ہیں. بےشک آپ لوگ فیک آئی ڈیز استعمال کرو مگر ان فیک آئی ڈیز سے عجیب و غریب اور واہیات کمنٹس کرکے عورت کی عزت کا جنازہ تو نہ نکالو.

    دوسری بات یہ کہ ہمارے یہاں کسی کو بھی ابھی ٹھیک سے اس طاقتور میڈیا کو استعمال کرنے کا طریقہ نہیں آیا. ہم سب چاہتے ہیں کہ سب ہمارے خیالات اور نظریات سے متفق ہو جائیں مگر بادی النظر میں یہ ممکن نہیں … ہمیں تھوڑے سے تحمل اور بردباری کی ضرورت ہے.
    بڑے چھوٹے کی تمیز اور حفظ مراتب کا خیال رکھنا چاہیے … کسی بھی پوسٹ پہ آپ کو اختلاف کا حق ہے مگر شائستہ انداز میں، ویسے بھی اختلاف دلیل کے ساتھ ہو تو اچھا لگتا ہے..
    شاید کبھی ہم بھی فیس بک پر نفرتوں کا پرچار کرنے کے بجائے محبت کے فصل کی آبیاری کرنا سیکھ جائیں … یہاں ہر کوئی نفرت کے بیج بونے میں مصروف ہے.
    کوئی تو محبت کا سبق سکھانے والا ہونا چاہیے .. کوئی تو ہو جو لسانی حصوں میں بٹے ہوئے لوگوں کو محبت کی لڑی میں پرو دے.
    کوئی ایسا بھی ہو جو شیعت دیوبندیت بریلویت میں بٹے لوگوں کو مسلمان بنا دے…

  • کشمیر، ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے – خورشیدہ رحمانی

    کشمیر، ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے – خورشیدہ رحمانی

    قدرت نے کشمیر کو جنت نظیر بنایا ہے. یہی وجہ ہے کہ کشمیرکا تروتازہ، صحت بخش موسم و آب و ہوا، صاف و شفاف چشمہ ہائے پُر بہار سب کو بے حد عزیز ہیں۔ اللہ نے اس خطۂ زمین کودریاؤں، وادیوں، خوبصورت مرغزاروں اور قدرتی وسائل سے مالا مال کر رکھا ہے۔ مسلمان اس کو جنت نظیر اور باغ سلیمان کہتے ہیں جبکہ ہنود اس کو زمین کا سر اور آنکھیں کہتے ہیں۔ دور دور سے سیاح اس کے خوبصورت مرغزاروں چشموں اور دریاؤں کو شوق سے دیکھنے آتے ہیں۔ کشمیر کے علاقوں میں جموں، لداخ، اسکرود، پرگنات اور چلاس وغیرہ شامل ہیں جہاں ہندو، پنڈت ، ڈوگری اہل سنت والجماعت اور اہل تشییع آباد ہیں۔

    کشمیر کی تاریخ پاکستان کی تاریخ سے بھی پرانی ہے۔ یہ 1337ء سے لے کر 1818ء تک یعنی پونے پانچ سے زائد صدیوں تک مختلف ادوار میں مسلمانوں کے قبضے میں رہا ہے۔ اس دوران ہندؤوں اور چک خاندان کی وجہ سے کشمیر ریاست کو دو دفعہ اسلامی اقتدارسے بھی ہاتھ دھونا پڑا۔ راجہ رینچن ( صدر الدین )، سلطان شمس الدین شاہ میر ، سلطان جمشید ، سلطان علاؤ الدین، سلطان شہاب الدین ، سلطان قطب الدین ،سلطان سکندر اور سلطان علی شاہ وغیرہ اس دور کے مشہور حکمران رہے ہیں۔

    مغلیہ دور حکومت میں کشمیر نے بہت سی بہاریں دیکھیں۔ اورنگزیب عالمگیر کی وفات کے بعد جب مغلیہ حکومت زوال پذیر ہوئی تو کشمیر میں بھی اس کا بہت برا اثر پڑا۔ کشمیری باشندوں میں فرقہ واریت اور خانہ جنگی شروع ہوگئی جس پر ایک خود مختار حکومت قائم ہوگئی۔ اسلامی تشخص برقرار رکھنے کے لیے کشمیریوں کی دعوت پراحمد شاہ ابدالیؒ یہاں آئے اور صورتحال پرقابو پاکر کشمیر فتح کرلیا۔ 1818ء کے بعد اسلامی اقتدار ختم ہوگیا اور کشمیر سکھوں کے ہاتھ چلاگیا۔ اس دوران وہ کشمیریوں پر طرح طرح کے ظلم ڈھاتے رہے۔ 26 سال بعد ایک جنگ میں انگریزوں سے شکست کے بعد انہوں نےریاست ان کے حوالے کردی جو انگریزوں نے ایک سازش کے تحت نیلام کرکے ڈوگروں کو بیچ دیا- حکومت اسلامیہ کے خاتمہ کے 27 سال بعد سے 1947 تک کشمیر ڈوگروں کے قبضے میں رہا۔

    کشمیر پاکستان بننے کے بعد سے اب تک پاک بھارت تنازعے کا شکار ہے۔ اس دوران پاک بھارت کے درمیان کئی خونریز جنگیں ہو چکی ہیں۔ تا حال ہر ایک کشمیر کو اپنا خطۂ ارض ہونے دعوی کرتا ہے ۔

    بھارت کا یہ وطیرہ رہا ہے کہ وہ کسی نہ کسی بے بنیاد واقعے کو کشمیر اور پاکستان سے جوڑ دیتا ہے تاکہ پاکستان کے خلاف ایک سرد جنگ جیت سکے۔ وہ کبھی 1995 ء میں کشمیر کے پہاڑوں سے مغربی سیاحوں کی گمشدگی کو کشمیر کے ساتھ منسوب کرکے اس کو بدنام کرتا ہے، کبھی غلط اطلاعات دے کر دو تنظیموں کو آپس میں کشت وخون کرواتا ہے توکبھی اڑی حملے کو بنیاد بنا کر معاہدوں کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ عینی شاہدین اگر ان رازوں کو فاش کرے تو عسکریت پسندی اور شدت پسندی کا لیبل لگا کر انہیں گولیوں سے بھون دیتا ہے۔ بھارتی درندے لوگوں کو اس وقت تک اذیت دیتے رہتے ہیں جب تک ان حملوں اور واقعوں میں ان کے ملوث ہونے کو تسلیم نہ کروالیتے حالانکہ ان کا حقیقی واقعے سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ جب ان حملوں اور سازشوں سے پردہ ہٹتا ہے تو بھارت سمیت سب کو سانپ سونگھ جاتا ہے۔

    1999ء میں انڈین ائیر لائن کے طیارے آئی سی 841 کے ہائی جیک ہونے والے معاملے میں پاکستان کو بدنام کرنے کے لیے ‘را’ کے ایک افسر نے واجپائی کو مشورہ دیا تھا کہ وہ مسافر بردار طیارے کو اڑا دے۔ جب یہ قوم اپنے ہم وطنوں سے وفا نہیں کرسکتی، مسافر ہونے کی صورت میں ان کے اور وطن میں موجود ان کے عزیز و اقارب کا خیال نہیں رکھ سکتی تو پاکستان اور کشمیر کے لیے نرم گوشہ رکھنے کی توقع کیسے کی جا سکتی ہے؟ یہ تو بھارتی سفاکیت کے کچھ چہرے سامنے نظر آئے ہیں ورنہ اس ریاست میں نہ جانے کتنے واقعات ہیں جو منظر عام پر آنے سے ان کی درندگی مانع ہے۔ بھارت کو پاکستان کی آزادی 69 سال پہلے بھی نہیں بھائی تھی نہ اب اور کبھی وہ اس کو پاکستان کا حق سمجھیں گے۔ وہ کشمیر سمیت پاکستان کو اپنا جائز حق سمجھتے ہیں جس کی وجہ سے اہم معاہدوں کو توڑنے میں وہ باک نہیں کرتے۔

    کنٹرول لائن اور سرحدی محاذات پہ بات بے بات جنگی ہنگامے کھڑا کرنا ان کے لیے کوئی نئی بات نہیں۔ جنگ و پیکار کے ہنگامے برپا کرنے شوقین جارحیت پسند بھارتی فوج کی اشتعال انگیزی پر جب پاکستانی فوج کی طرف سے منہ توڑ جواب ملتا ہے تو بھارتی میڈیا اس پر پردہ ڈالنے کے لیے ہرزہ سرائی کرتی ہے جس سے بآسانی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ وہ بلاجواز پے در پے حملے کرے تو ان کو کچھ نہ کہا جائے پاکستانی فوج سوئی رہے۔

    پاکستان چھ دہائیاں مکمل کرنے کے بعد ساتواں عشرہ پورا کرنے والا ہے لیکن کشمیر کا مسئلہ جوں کا توں ہے۔ کشمیر کے مسئلے کے منصفانہ حل کے لیے عوام و خواص امریکی سامراج ، یو این او اور اقوام متحدہ کی فائلوں پر نظر جمائے بیٹھے ہیں کہ قراردادیں منظور ہونے والی ہیں، اب مسئلہ کا حل ہوا چاہتا ہے، فائل اور ڈاکومنٹس دستخط ہوکر بند ہونے والے ہیں ۔

    مگر یہ پوری دنیا کو ایک معمولی سا وار ایریا سمجھتے ہیں جہاں وہ اپنے غیر ملکی آقاؤں کی مدد سےاستعماریت کے جھنڈے گاڑنا چاہتے ہیں ـ وہ نہ پاکستان کا ہے نہ بھارت کا۔ عالمی یہودی استعمار کی گھناؤنی سازشوں کے تحت بھارت اب تک انگریزوں کا مہرہ بنا ہوا ہے۔ وہ افغانستان جیسے دوسرے خطوں میں قبضہ جما کر چین ، بھارت ، افغانستان،ایران وغیرہ پر اپنا تسلط قائم کرنا چاہتا ہے۔

    تاریخ کے پس منظرمیں جھانک کر دیکھا جائے تو کشمیری مسلمانوں نے اس وقت بھی مسلمان حکمرانوں کا خیر مقدم کیا تھا، کوئی بھی اس خطے کو قبضہ کرنے کے ارادے سے آیا تو انہوں نے ہمیشہ اس کی مخالفت کی۔ کشمیر کی آزادی کے لیے اپنے جوان، بزرگ، خواتین، بچے اور نوجوان قربان کیے۔ آج بھی وہ مسلمانوں کو اپنا خیر خواہ سمجھتے ہیں۔ کشمیری عوام نظریاتی اور جغرافیائی مماثلت کی بنا پر پاکستان کے ساتھ مدغم ہونا چاہتی ہے۔ اب کشمیری عوام میں پاکستان اور عالمی یہودی استعمار سے مایوسی کے بعد خود مختار ریاست کا نظریہ جنم لے رہا ہے۔

    پاک بھارت کبھی کبھی مفاہمت اور دوستی کی طرف ہاتھ بڑھانے کی بات کرتے ہیں ایسے میں ہمارے حکمرانوں کو چاہیے کہ وہ اس بات کو نہ بھولیں کہ ہے چھری ان کے بغل میں اور منہ میں رام رام کے مصداق بھارت جس کو پاکستان پہلے دن سے ایک آنکھ نہیں بھایا وہ اس مفاہمت اور دوستی میں ہندو مسلم منافرت ور پاک بھارت مخاصمت کو نظر انداز کردیں گے۔ دوستی مفاہمت مذاکرات اور باہم گفتگو اچھی چیز ہیں، اس پر عمل در آمد ہونا چاہیے اور پاکستانی حکمرانوں کو اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پہلی فرصت میں کشمیر کا مسئلہ حل کروانا چاہیے مگر بھارت چونکہ ہزاروں معاہدوں کے باجود اپنی پرانی روش پر اتر آتا ہے تو منافرت و مخاصمت کے تاریخی اسباب کے تناظر میں مسئلہ کشمیر کا حل بظاہر ممکن نہیں چار و ناچار اس کا حل یہی نکلتا ہے کہ اقوام متحدہ ، یو این او اور اس کے ذیلی اداروں کے ذریعے بھارت پر دباؤ ڈالنے کے لیے عالمی سطح پر آواز اٹھائی جائے۔بھارت کشمیری مسلمانوں پر ظلم و ستم سے باز رہے.. ورنہ ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے..!!