پاکستانی ڈرامے سنا ہے، دنیا بھر میں مقبول ہیں… پڑوسی ملک کے ناظرین جو اپنی فلم انڈسٹری پر فخر کرتے ہیں، سنا ہے وہ بھی ہمارے ڈراموں کے عاشق ہیں… ہمارے ڈراموں کی حد سے زیادہ تعریف نے پھر ہمارے ڈرامہ بازوں کو اس نفسیاتی مرض میں گرفتار کر دیا جس میں ہمارے محلے کی شنو بھی گرفتار ہوئی تھی!
شنو ایک اچھی سلجھی ہوئی لڑکی تھی…گرچہ دکھنے میں بس قبول صورت ہی تھی…
مصیبت مگر یہ ہوئی کہ اس کے گال پر ڈمپل پڑا کرتے تھے!
ان ڈمپلوں نے ہی پھر اسے نفسیاتی مریضہ بنا دیا… وہ ایسے کہ خاموش سی شنو ایک بار محلے کی عورتوں کی کسی مجلس میں کسی بات پر کھلکھلا کر ہنس پڑی… اس سے پہلے کہ اس کی ماں اسے ٹوکتی…ایک عورت نے ہنستے ہوئے اس کے رخسار پر پڑنے والے ڈمپلز دیکھے اور بے ساختہ تعریف کر دی… ساری عورتیں متوجہ ہو گئیں، پھر سب ہی نے اس کے ڈمپل کوموضوع بنالیا… شنو شرما کر اپنے آپ میں سمٹ کر رہ گئی۔
عام سی قبول صورت بے چاری شنو کی کبھی ایسی تعریف تو کیا ‘کیسی’ بھی تعریف نہ ہوئی تھی…سو وہ اس تعریف کے سحر سے ہفتوں نہ نکل سکی… بار بار وہ آئینے میں دونوں ہونٹوں کو ہنسی کے انداز میں کھینچ کر دیکھتی اور ننھے ننھے ان کھڈوں کو نمودار ہوتے دیکھ کر پھولی نہ سماتی…
ابھی شنو پچھلی تعریف کے سحر سے نکلنے بھی نہ پائی تھی کہ ایک تقریب میں پھر چند لڑکیوں نے اس کے ڈمپلز کی تعریف کر دی… بس پھر کیا تھا، شنواس دن کے بعد سے نفسیاتی ہو گئی… اب وہ بات بے بات، ہر وقت ہنستی دکھائی دینے لگی…تقریبا ہر وقت ہی اس کے گال گول اور ہونٹ کمان کی طرح کھنچے رہتے، تا کہ ڈمپل نظر آتے رہیں… پھر یہ اس کی عادت ثانیہ ہی بن گئی، جس نے اسے بے حد خوار کیا… حیا دار جوان لڑکی اچانک راہ چلتے بغیر کسی بات کے مسکراتی دکھائی دینے لگے تو آوارہ لڑکوں کو خوش فہمی بھلا کیوں نہ ہو؟… ادھر عورتوں نے بھی خاموش اور سنجیدہ رہنے والی شنو کو جب بغیر کسی وجہ کے ہر وقت عجیب سے انداز میں مسکراتے ہوئے دیکھا تو انہیں اس کی یہ مصنوعی مسکراہٹ بڑی مشکوک لگی…
شنو کی ہنسی کو لے کرپھر بڑے عبرت انگیز سین ہوئے… سمو خالہ کا منا گم ہوا، وہ غم سے پاگل ہو ہوئیں… سب ہی پریشان حواس باختہ تھے مگر شنو کی مسکراہٹ پر ذرا اثر نہ ہوا… وہ اسی مسکراتے چہرے کے ساتھ خالہ سے ہمدردی کر رہی تھی…خالہ کو اس کی ہمدردی کمینگی میں لتھڑی ہوئی محسوس ہوئی اور انہوں نے نفرت سے اس سے چہرہ پھیر لیا…
اور افضل خالو کے انتقال پر تو شنو پر وہ لعنتیں پڑیں کہ بس… ادھر بیوہ گلستان خالہ خاوند کی میت پرغش پہ غش کھا کر گر رہی تھیں… محلے کی عورتیں انہیں دیکھ دیکھ بین کر رہی تھیں… اور شنو روتی ہوئی آنکھوں کے ساتھ کھنچے ہوئے لب لیے مضحکہ خیز صورت بنائے کھڑی تھی!
٭٭٭
شنو کی ہی طرح ہمارا میڈیا بھی نفسیاتی ہو گیا ہے… انہوں نے اپنے ڈراموں کی تعریف سنی تو کوشش یہ کی کہ ہر چیز ڈرامہ بن جائے…خبروں میں بریکنگ نیوز کا ڈرامہ… سیاست معاشیات ہو یا مذہب، ہر موضوع پر ہونے والی بحث ایک مکمل ڈرامہ…حتی کہ کسی کی موت پر بھی ڈرامہ!
موت ایک کی ہو یا سینکڑوں کی… مردہ طبعی موت مرا ہو یا قتل ہوا ہو… یا کسی دھماکے میں میتوں کے چیتھڑے اڑ گئے ہوں… پاکستانی میڈیا کو ہر موقع پر ڈرامہ کرنا بخوبی آتا ہے… جو جتنا الم ناک اداکاری کرے، وہ اتنا ہی مقبول… اینکرز کےکانوں میں لگے ہوئے ننھے اسپیکرز سے ہدایتکار مستقل ہدایتیں دیتا ہے کہ کس خبر پر کیسے ڈرامہ کرنا ہے کہ ناظرین دم بخود رہ جائیں اور چینل بدلنا بھول جائیں!
ابھی حال ہی میں جناب امجد صابری صاحب کے بہیمانہ قتل کی مثال دیکھ لیجیے، ہر چینل پر ڈرامے بازی عروج پر تھی… صابری صاحب تو بے چارے جان سے گئے…ادھرمیڈیا کو ریٹنگ بڑھانے کا نادر موقع ملا…اس دن کی ایک کلپ فیس بک پر دیکھی کہ کیسے ایک ڈرامے بازی میں مشہورخاتون اینکر کو لائیو شو میں فون آتا ہے، ہدایت کار ہدایات دیتا ہے…ایکٹریس نئی نئی ہونے والی ‘بیوہ’ کی لازوال پرفارمنس دیتے ہوئے بار بار کہتی ہے:
“نہیں نہیں ایسا نہیں سکتا… ایسا ہو ہی نہیں سکتا…”
اور انہی جملوں کی تکرار کرتے وہ کچھ اس طرح گردوپیش سے بیگانہ ہو کر بھاگتے ہوئے سیٹ سے جاتی ہے کہ ناظرین کی آنکھیں بے اختیار چھلک پڑتی ہیں…
ایک 30 اقساط پر مبنی ڈرامہ ہر سال رمضان میں بھی ہر چینل دکھاتا ہے…حیرت کی بات یہ ہے کہ ہر چینل پر ایک ہی ڈرامہ دکھایا جاتا ہے، کردار بھی ایک ہی ہوتا ہے… حتی کہ چہرہ بھی ایک ہی ہوتا ہے… اور وہ چہرہ ہے’عامر لیاقت’ کا… جی ہاں عامر لیاقت اب ایک شخص کا نام نہیں، ایک ٹرینڈ کا نام ہے… وہ رمضان نشریات میں پھکڑپن کا بے تاج بادشاہ ہے جس کی نہایت اونچی بولی لگتی ہے، جو نتھ اتار دے، وہ قابو پا لے…
باقی رہے دوسرے تیسرے درجے کے چینلز… تو وہ بھی اپنی اپنی استطاعت کے مطابق اپنے اپنے عامر لیاقت کو ڈھونڈ ہی لیتے ہیں…آخر شوبز میں بڈھی ہوتی اداکارائیں اور خجل ہوتے اداکار کہاں کھپیں گے؟ سو وہ کھوٹے سکے کام میں لائے جاتے ہیں اور بے چارے کچھ نہ کچھ چل بھی جاتے ہیں…
شنو اور میڈیا کا ایک ہی قصہ ہے… بس فرق یہ ہے کہ معصوم شنو تو بےچاری ایک غلطی کی بنا پر بدنام ہو کر مذاق بن جاتی ہے… میڈیا کی منی جان بوجھ کر بدنام ہونا چاہتی ہے… ڈارلنگ ‘ریٹنگ’ کے لیے…یعنی
منی بدنام ہوئی… ریٹنگ تیرے لیے!
Blog
-
شنو کے ڈمپل اور میڈیا کے ڈرامے! محمد فیصل شہزاد
-
عورت کا سماجی کردار: صحیح نکتہ نظر تک کیسے پہنچا جائے؟ مجذوب مسافر
ایک بحث آج کل خاصی زور پکڑے ہوئے ہے… وہ ہے “عورت کے سماجی کردار” کی بحث… اس بحث میں کئی پہلو زیر بحث آتے ہیں مثلا عورت کا کسی معاشرے میں کیا مقام (Social Status) ہو؟ اسے کون کون سے دائروں میں کیا کیا حقوق (Rights) اور اختیارات (Authorities) حاصل ہوں؟ اور اس کی کون کون سی ذمہ داریاں یا فرائض (Duties) ہوں؟اس سارے معاملے کو بہتر طور پر سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم یہ جان لیں کہ اس بحث کے فریق (Factions) کون کون سے ہیں اور ان کا نکتہ نظر (Perspectives) کیا ہے؟
١- وہ لوگ جو مغرب کی غالب تہذیب سے کسی بھی وجہ سے متاثر و مرعوب ہیں اور اپنے معاشرے کی تشکیل بھی مغربی اصول و اقدار کے مطابق کرنا پسند کرتے ہیں… ان کے نزدیک کسی معاشرے کی ترقی و کامیابی کے لئے ضروری ہے کہ عورت کے سماجی مقام کا تعیین مغرب کے پیمانوں (Standards of Western Civilization) کے مطابق ہی کیا جائے؛
٢- وہ لوگ جو واقعی اپنے معاشرے میں عورت کے لئے کسی باعزت اور محفوظ مقام کو کردار کے خواہش مند ہیں… یہ لوگ پورے اخلاص کے ساتھ سمجھتے ہیں کہ جو بھی اصول یا پیمانے اپناے جائیں… بس کسی طرح عورت کی سماجی حالت کو سدھارا جائے تاکہ معاشرے کی مجموعی حالت میں بہتری لائی جا سکے؛
٣- وہ لوگ جو سمجھتے ہیں کہ عورت کو کوئی مسائل سرے سے درپیش ہی نہیں اور یہ کہ عورت ہمارے معاشرے کی سماجی ثقافتی و سماجی روایات کے حساب سے پہلے ہی تمام حقوق حاصل کئے ہوئے ہے؛
٤- وہ طبقہ جو صرف اور صرف کسی مخصوص ایجنڈے کے تحت ایسی آوازیں اٹھاتا اور “کہیں نہ کہیں” سے فوائد سمیٹتا رہتا ہے… ان کے لئے کوئی اخلاقی یا اصولی کی کوئی اہمیت نہیں بلکہ صرف اور صرف ان فوائد کی ہے جو انہیں مختلف صورتوں میں حاصل ہوتے رہتے ہیں؛
٥- مذہبی طبقہ جو تسلیم تو کرتا ہے کہ عورت کو اس کا جائز سماجی مقام اور کردار ضرور ملنا چاہیے لیکن چاہتا ہے کہ یہ سب کچھ کی بہرحال شریعت کے اصولوں کے مطابق اور اس کی طے کردہ حدود کے اندر ہونا چاہئے؛
مندرجہ بالا فریقوں کی تقسیم صرف سمجھنے کی خاطر رکھی گئی ہے ورنہ ان میں سے ایک قسم کے فریق میں کسی دوسری یا تیسری قسم کے فریقوں کا پایا جانا عین ممکن ہے یعنی یہ ممکن ہے کہ نمبر ١ فریق میں کچھ لوگ مخلص ہوں لیکن ان میں کچھ فریق نمبر ٢،٣،٤،٥ کے افراد موجود ہوں علی هذا القیاس… ہر فریق اپنے اپنے دلائل لے کر میدان میں اترا ہوا ہے… اور بظاھر کسی بھی فریق کے لئے’ کسی دوسرے فریق کے دلائل قابل التفات نہیں…
“عورت کے سماجی مقام و کردار” کی بحث کے حوالے سے کچھ عجیب و غریب قسم کے رویۓ سامنے آے ہیں جنہوں نے اس بحث کو پیچیدہ بنا کر کسی درست نکتہ نظر تک پہنچنے کا دروازہ بند نہیں بھی کیا تو کم از کم انتہائی کٹھن ضرور بنا دیا ہے… اس سلسلے میں ایک عجیب و غریب رویہ یہ ہے کہ اس بحث میں شریک ہر طبقہ “خواتین کے سماجی مقام و کردار” کو کسی بڑے سماجی منظر نامے’ جس کا مرد بھی لازمی حصہ ہے’ کو نظر انداز کرتا محسوس ہوتا ہے اور اس طبقے کا سارا زور اس نعرے پر صرف ہوتا دکھائی دیتا ہے جس “خواتین کے حقوق” کے طور پر مشہور ہے…. ایک اور حیرت کی بات یہ ہے کہ کوئی بھی فریق خود عورت یا مرد سے پوچھنے کی زحمت گوارہ نہیں کرتے کہ وہ اپنی اپنی زندگی کو کیسے گزارنا پسند کرتے ہیں؟ اس ہمہ جہتی سیاسی’ سماجی’ مذہبی دنگل میں ایک عام پڑھے لکھے مسلمان کو سمجھ نہیں آتی کہ کس کا نکتۂ نظر صحیح ہے اور کس کا غلط؟ میں خود بھی اسی کیفیت کا شکار رہا ہوں اور سچی بات ہے کہ سن سن کر تھک سا گیا ہوں… لہٰذا سوچا کیوں نہ خود ہی اس معاملے پر سوچ بچار کی جائے؟
لہذا میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ مرد ہو یا عورت…
ان کے متعلق کسی بھی بحث کی خاطر’ کسی بہتر نکتۂ نظر تک پہنچنے کی خاطر ضروری ہے کہ ان دونوں جنسوں کے سماجی مقام (Social Status)’ اختیارات (Authorities)’ حقوق (Rights) اور فرائض و کردار (Duties & Role) کو محض الگ الگ دیکھنے کی بجاہے ایک بڑے تناظر (Overall Scenario) یعنی مرد و عورت کی حیاتیات (Biology)’ نفسیات (Psychology) اور انفرادی و سماجی کردار (Individual & Social Role) اور پھر ان کے اثرات (Outcomes) کی صورت میں دیکھا جائے… انسانی عقل پر قائم مختلف تہذیبوں اور فلسفوں کی روشنی میں بھی اور پھر وحی الہی (Revelation) کی روشنی میں بھی دیکھا ان سب امور کا تجزیہ کیا جائے اور اس سارے تناظر میں عورت کے سماجی مقام’ کردار’ اختیارات’ حقوق و ذمہ داریوں کے بارے میں کسی نکتہ نظر تک پہنچا جائے… الله کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ با الآخر اس سارے معاملے کو سمجھنے کا ایک خاکہ (Framework) ذہن میں آ گیا… یہ خاکہ اسی بڑے تناظر میں عورت کے سماجی مقام و کردار کو سمجھنے کی ایک کوشش ہے… مجوزہ خاکہ درج ذیل ہے:
١- ان کی “تخلیق” کو ممکن حد تک مد نظر رکھا جائے یعنی:
الف) دونوں کی بائیولوجی یعنی ان کے جسم کی ساخت و صلاحیت کا فہم اور ان دونوں کی ساخت و صلاحیت میں فرق کا شعور یعنی:
i) کیا دونوں کے جسم شکل یا ہئیت میں ایک جیسے ہوتے ہیں یا مختلف؟
ii) کیا دونوں کی جسمانی صلاحیت و طاقت ایک جیسی ہوتی ہے یا مختلف؟؟
iii) کیا وہ کسی کام کو ایک ہی طرح’ ایک ہی کارکردگی کے ساتھ سرانجام دے سکتے ہیں یا نہیں؟؟؟ب) ان کی سائیکالوجی یعنی ان کے جذبات و احساسات کا فہم اور ان پر اثر انداز ہونے والے اندرونی و بیرونی عوامل کا شعور… یعنی دیکھا جائے کہ:
i) کیا دونوں کی نفسیات (جذبات و احساسات) ایک جیسی ہوتی ہیں یا مختلف؟
ii) کیا دونوں کی نفسیات (جذبات و احساسات) کے محرکات ایک جیسے ہوتے ہیں یا مختلف؟؟
iii) مرد اور عورت اگر کیا دونوں کی نفسیات (جذبات و احساسات) کا اظہار ایک ہی طرح سے ہوتا ہے یا مختلف طرح سے؟؟؟٢- ان کے مختلف حیثیتوں میں معاشرتی مقام و کردار کا شعور اور اس مقام و کردار کے ان کی اپنی ذات’ خاندان اور معاشرے پر اثرات کا علم
الف) مرد اور عورت ایک جیسے کام کر سکتے ہیں یا نہیں؟
ب) اگر دونوں ایک جیسے کام کرنے لگیں تو اس کے کون کون سے ممکنہ فوائد کا حصول ممکن ہو سکے گا؟؟
ج) اگر دونوں ایک جیسے کام کرنے لگیں تو کون سے نقصانات کا سامنا کرنا پڑے گا؟؟؟٣- جن معاشروں میں مرد و عورت کو ایک جیسا کردار ادا کرنے کا موقع ملا تو وہاں کیا نتائج نکلے یعنی:
الف) کیا عورت کی زندگی زیادہ راہ راست پر ہے؟
ب) کیا عورت اپنی زندگی میں زیادہ آزاد اور خود مختار ہے؟؟
ج) کیا عورت کی زندگی زیادہ باعزت’ پرسکون اور محفوظ ہے؟؟؟٤- وحی الہی کے زریعے انسانوں کی اس سلسلے میں کیا رہنمائی کی گئی ہے؟ اس سلسلے میں دیکھنا چاہئیے کہ:
الف) وحی الہی کے مطابق مرد اور عورت کا مقام کیا ہے؟
ب) وحی الہی کے مطابق مرد اور عورت کے حقوق و فرائض کیا ہیں؟؟
ج) وحی الہی کے مطابق کون کون سے قوانین مرد اور عورت کی اجتماعی زندگی کا احاطہ کرتے ہیں؟؟؟
د) کیا وحی الہی کے تحت انکے مقرر کردہ حقوق و فرائض ان کی جسمانی ساخت و صلاحیت کے مطابق نہیں؟؟؟؟
ز) کیا وحی الہی کے تحت ان کے حقوق و فرائض کا تعیین ان دونوں کو با العموم اور عورت کو باالخصوص ایک محفوظ و مطمین زندگی دی ضمانت دیتا ہے یا نہیں؟؟؟؟؟امید ہے کہ ہر سعید روح جو راہ حق و اعتدال کی خواہشمند ہو’ اس کے لئے یہ تناظر (Framework) صحیح نکتہ نظر تک پہنچنے کے لئے مفید ثابت ہو گا…
دوستوں سے درخواست ہے کہ اس تناظر کو مزید بہتر بنانے کے لئے اپنی تجاویز دیں- جزاک الله الخیر…
-
تازی میڈم اور تیزب سے جھلسے چہرے. عابی مکھنوی
اخبار پڑھتے ہوئے اچانک خیال آیا کہ ذرا کھاتے تو چیک کر لُوں ۔ مہینے کی آٹھویں آ لگی ہے اور ریکوری کچھوے کی چال چل رہی ہے ۔
میں جنوبی پنجاب کے ایک قصبے میں بال بچوں والا درمیانے درجے کا میٹرک پاس دوکاندار ہوں ۔ اخلاص کریانہ اسٹور نام ہے میری دوکان کا !
ادھار کا کھاتہ سنبھالتے ہی میری پہلی نظر صُغراں بی بی کے نام پر پڑی ۔ غصے ، ہمدردی اور پسندیدگی کی لہریں ایک ساتھ آ ٹپکیں ۔
غصہ اس لیے کہ دو مہینوں سے صغراں سے ریکوری زیرو چل رہی تھی ۔ ہمدردی اس لیے کہ صغراں دو بچوں کے ہمراہ محض پانچ ماہ قبل ہی بیوہ ہوئی تھی ۔ اور پسندیدگی اس لیے کہ وہ نوجوان ہونے کے ساتھ ساتھ بہت خوبصورت بھی تھی ۔
ہممممم بُلواتا ہوں آج ہی نوابزادی کو !!
ایسے پانچ سات گاہک اور پال لیے تو ہو گیا پھر کاروبار !!!
یہ دماغ کی آواز تھی !!
دوسرے ہی لمحے دِل دیوانہ دماغ سے اُلجھ پڑا !!
چھوڑ یار !! بیوہ ہے بیچاری !! ااور خوبصورت بھی !! دماغ نے دِل کے ادھورے جُملے کو لقمہ دیا !!
بُلاوا تو دو ہفتوں سے بھیجے جا رہا تھا لیکن آ کے نہیں دے رہی تھی کمبخت !!
آج دوپہر ہی چلتا ہوں اُس کے گھر ۔ سامان لینے تو لوگ سر کے بَل بھاگے چلے آتے ہیں اور ادائیگی کے وقت اشتہاری ہو جاتے ہیں !! اوپر سے نخرے ایسے کہ شاپر بھی زمین پر رکھو تو اُٹھاتی ہے ہاتھ سے نہیں لیتی !! میں نے کھاتے میں لِکھے مبلغ اٹھارہ سو کے ٹوٹل کو گھورتے ہوئے سوچا۔
ٹھک ٹھک ٹھک !!! کون ؟؟؟؟
اخلاص کریانے سے ہوں صغراں !!
وہ !! وہ !! جج !! جی میں خود آ جاؤں گی کل دوکان پر !!
بی بی حساب برابر کر !! میں روز روز دوکان بند کر کے تیرے گھر کے چکر نہیں لگا سکتا !!
بھائی میں کل صبح آ جاؤں گی ۔ میرا بچہ بیمار تھا اُس کے ساتھ ہسپتالوں کے چکر لگا رہی تھی ۔
ٹھیک ہے !! آجانا یاد سے !! ادھر گلی میں کھڑے ہو کر شور مچانا مجھے بھی اچھا نہیں لگے گا !!
جی بھائی !!
بھائی !! ہننہہ ( دِل جیسے مُٹھی میں آ گیا ہو )
کاروبار میں خیروبرکت کے لیے قرآن پاک سے دو رکوع پڑھ کر اخبار تھاما تو شہ سُرخی نے بتایا کہ پانامہ اسکینڈل کے حوالے سے چار سو پاکستانیوں کے مزید نام فہرست میں شامل ہو چکے ہیں ۔ خبر کی تفصیل میں جانے ہی کو تھا کہ ایک آواز نے چونکا دیا !!
السلام علیکم بھائی !!
کوئی خاتون نقاب میں کاؤنٹر پر کھڑی تھی !!
جی !!فرمائیے !!
یہ آپ کے اٹھارہ سو روپے ہیں !!
صُغراں !! تُم نے نقاب کب سے اوڑھنا شروع کر دیا ؟؟
میں نے اُن دو خوبصورت آنکھوں کو گھورتے ہوئے پُوچھا
اُن انکھوں میں موجود نمی نے اُنہیں مزید خوبصورت بنا دیا تھا !!
بب بھائی !! یہ آپ کے اٹھارہ سو روپے !!
اُس نے مٹھی میں جکڑی چھوٹے بڑے نوٹوں کی ایک گیند کاؤنٹر پر رکھتے ہی واپس دوڑ لگا دی !
نوٹ گِنے تو پُورے اٹھارہ سو نکلے !!
ماجرا کیا ہے ؟؟؟ دِل نے سوال کیا
ابے پیسے آ گئے شکر ادا کر !! دماغ نے دِل کو ٹہوکا دیا !!
شادو سے پُوچھتا ہوں آج !! دِل نہ مانا
شادو صُغراں کی دوست ہے اور میرے پڑوسی کے گھر کپڑے برتن دھونے کا کام کرتی ہے !!
ہماری ایک دوست تھی جی مختاراں !! آپ جانتے ہیں اچھی طرح !! وہی جس کے چہرے پر اُس کے جنگلی خاوند نے تیزاب پھیک دیا تھا ۔ادھر ادھر دیکھتے ہوئے شادو کی داستان گوئی جاری تھی ! !!
تو ایک چٹی گوری اور موٹی تازی میڈم آئی تھی جی !! بڑے بڑے کیمرے لے کر تین چار لوگوں کے ساتھ !! پُورا ہفتہ وہ مختاراں کی فوٹو کھینچ کھینچ کر فیلم بناتے رہے !
میڈم نے مختاراں کو بتایا تھاکہ وہ فیلم میں بھی آئے گی اور اُس کے جلے ہوئے چہرے کا علاج بھی ہو جائے گا اور پھر اُسے بہت سے پیسے بھی ملیں گے !!
اس ساری کہانی سے صُغراں کا کیا تعلق ہے ؟؟ اور وہ نقاب کیوں اوڑھنے لگی ہے !! میرے دِل نے سوال میں اضافہ کرتے ہوئے شادو سے پُوچھا !!
وہ جی مختاراں صُغراں کی بھی دوست ہے نا !!
صُغراں کو بھی مختاراں کے علاج فیلم اور پیسوں کا پتا تھا !!
تو اُس نے بھی اپنے چہرے پر تیزاب گِرا لیا تھا !!
وہ گوری چٹی موٹی تازی میڈم تو فیلم بنانے کے بعد واپس نہیں آئی !! صُغراں اور مختاراں دونوں اب بڑے ہسپتال کے باہر اپنے تیزاب سے جلے ہوئے چہرے دِکھا کر بھیک مانگتی ہیں !! شادو نے جلدی سے کہانی کو لپیٹا !!
میرے اندر کا بھیڑیا دُم دبائے کسی نامعلوم سمت دوڑ پڑا !! -
وہ ایک سجدہ کیسا بھاری ہے؟ جویریہ سعید
رات کے سوا گیارہ بجے، پہاڑی کی ڈھلان سے نیچے اترتے میری نظریں نہ تو دور شہر کی جھلملاتی روشنیوں پر ہیں اور نہ ہی آسمان پر چمکتے حسین ستاروں پر. راستے کے ساتھ موجود گھروں کے پائیں پاغوں میں لگے پھولوں کی بھینی بھینی خوشبو روح کو سرشار کر دیتی ہے. مگر میں مسکراتے لبوں کے ساتھ گاڑیوں کی اس لمبی قطار کو دیکھ رہی ہوں جو ڈھلان کے اختتام پر مسجد کے صدر دروازے میں داخل ہورہی ہے. اردگرد شاندار مکانات اور سینئرز کے اپارٹمنٹس سمیت سارا شہر گھنٹوں پہلے تاریکی کی چادر اوڑھے سو چکا ہے. ہر طرف خاموشی ہے . صبح سب کو غم دوراں کے درماں کے لئےجو نکلنا ہے اسی لئے رات اوڑھ کر جلدی سو گئے ہیں.
مگر یہ کچھ عجیب لوگ ہیں جو ہر رات جب کہ باقی سب اپنی نیند کا ایک حصہ بھی پورا کر لیتے ہیں ، خوب تیار ہو کر، جلدی جلدی ایک عجیب حزبے سے سرشار اپنے گھروں سے نکلتے ہیں. حضرات تیز تیز قدموں سے چلے جارہے ہیں، خواتین اپنے لبادے سنھبالے رواں دوان ہیں، آگے آگے بچے بھی اچھلتے کودتے چلے جا رہے ہیں. مسجد میں داخل ہو جایے، تو آپ کو گمان ہوتا ہے کہ کسی پر مسرت تقریب کا اہتمام ہے. مسکراہٹیں، تسلیمات ، اداب، خیرخیریت کا تبادلہ ہورہا ہے.. حجاب اور عبایا بھی ہیں، سکرٹس اور پینٹس بھی، عرب بھی ہیں اور عجم بھی، گورے بھی اور کالے بھی. کچھ نوافل پڑھ رہے ہیں، کچھ تلاوت کر رہے ہیں اور کچھ خوش گپیوں میں مصروف ہیں. ادھر موذن اذان دیتا ہے اور ادھر سب کچھ چھوڑ چھاڑ ،جلدی سے سیدھی صفیں بناے ، ہاتھ باندھے اور سر کو جھکاۓ کھڑے ہو جاتے ہیں. کیسا دلربا نظارہ ہے. اعتکاف کے لئے بھائیوں کے حجرے لگے ہیں. اور رات گئے جب مسجد سے باہر تاریکی اور خاموشی میں نکلیے تو ایسا لگتا ہے کہ کسی اور دنیا میں آگئے ہیں.
رمضان ہمیشہ سے ہی ہم سب کے لئےایک بہت پر رونق موقع رہا ہے. جس سے ہماری بہت پیاری یادیں وابستہ ہیں. سحری میں اٹھنے کا شوق، روزہ رکھنے کے لئے اصرار ، افطاری کے لذیذ لوازمات کے لئے بے تابیاں اور پھر عید کی تیاری.
اپنوں سے اور اپنے وطن سے دور انسان ڈرتا ہے کہ اجنبیوں کے دیس میں یہ ماہ کیسا گزرے گا. مگر الله کے بندوں نے صحراؤں سے لے کر برفستانوں تک، پہاڑوں سے لے کر میدانی علاقوں تک اپنے رب کی محبت میں کیسی بستیاں بسائی ہیں. یہاں بھی وہی چہل پہل ہے، وہی رونق ہے. بچے خوش ہیں کہ یہ کیسی تقریب ، یہ کیسا تہوار آیا ہے کہ سارے مہینے اس کی رونقیں چلتی رہتی ہیں. آج فلاں انٹی کے گھر سے افطاری انی ہے، آج ہم نے سب کے گھر بھیجنی ہے، کل مسجد میں معتکفین کے لئے کھانا بھجوانا ہے، مساجد اور تنظیموں کی جانب سے انفاق فی سبیل الله کی صدائیں سن کر بڑے ہی نہیں، بچے بھی اپنے منی بینک ٹٹولتے ہیں. سب نے اپنے لمبے سفید لبادے اور شلوار قمیصیں، اور نت نےحجاب بہت اہتمام سےنکالے ہیں کہ ہر روز مسجد جانا ہوتا ہے. غیر مسلموں میں دعوت کے کیپمس لگے ہیں، شامی مہاجرین ، نرسنگ ہومز اور خواتین کے دارالامان کے لئے تحائف جمع ہو رہے ہیں. غرضیکہ دیکھیے کس طرح عقیدے اور عمل کی بنیادوں پر ایک بے حد خوبصورت ثقافت تیار ہوتی ہے.
رمضان راہبوں کا روکھا پیکھا، خشک تہوار نہیں کہ سارا دن بھوکا پیاسا رہنے ، بے وقت اٹھنے سونے اور عبادت کی مشقت کا خیال اسے کوئی بوجھل شے بنا دے. یہ تو ایک ایسی روحانی مسرت لے کر اتا ہے جو ملنے والے ہر شخص کے چہرے اور گفتگو سے عیاں ہے.
یہ اور بات کہ اگر کوئی شے “عادت” بن جاۓ تو انسان اس کے انوکھے پن کی مسرت کو کھو بیٹھتا ہے.
رب کریم نے نیکیوں کا ایک ایسا موسم بہار ہمیں عنایت کیا جو ہمارے لئے قرب الہی ، تزکیۂ نفس، صلہ رحمی، خدمت، محبت اور خوشیوں کا پورا پیکج لے کر اتا ہے. بڑے محروم ہیں ہم کہ اگر اس کی روح سے خالی ہو کر اسے ایک بوجھل عادت یا روزمرہ کے طور پر لیں.
کل ہی خواتین کے ایک حلقے کے ساتھ قران کریم مکمل کیا ہے. سب ہی اعلی تعلیم یافتہ خواتین تھیں، جن کے ذہنوں میں الجھنیں بھی تھیں، شکوے بھی، اور دبی چھپی سی محبتیں بھی. مگر ہم نے مل کر قرآن کریم کو سمجھ کر پڑھا. وہ ساری باتیں جو فضول بحثوں کی گرد میں بدنما معلوم ہوتی ہیں، مکمل متن کے ساتھ اور سیاق و سبق کی روشنی میں پڑھیں تودل میں اترتی چلی جاتی ہیں.
اسی لئے انکار خدا کے اس شور میں کچھ لوگوں کو رات کے اس پہر جوق در جوق ساری بقراطیوں اوربحثوں سے لاتعلق ، خدا کے گھر کی طرف رواں دواں دیکھتی ہوں تو لبوں پر ایک مسکراہٹ پھیل جاتی ہے.
کیسا اچھا ہو کہ یہ سارے لوگ محبت، رحمت اور خدمت کے اس حقیقی پیغام کو سمجھ کر شعوری طور پر اسی ذوق و شوق سے اپنی زندگیوں کا مقصد بنا لیں. خدا کے احسان فراموشوں کی ساری دوڑ دھوپ کے بالمقابل عالم جذب میں کیا گیا وہ ایک سجدہ کیسا بھاری ہے، یہ دیکھنا ہو تو دوران نماز صف در صف جھکنے والوں کو دیکھ لیجیے -
اسلام اور سیکولرزم – ابو سعد ایمان
دنیا جس اسلام کو محمد عربی ﷺ کے پاکیزہ حوالے سے جانتی ہے ،اسے ریاست میں ایک مقتدر اور سپریم مقام حاصل تھا ، ہے اور رہے گا۔ ماننے والوں کے لیے عزت اور امن کی صورت میں اور ناماننے والوں کے لیے خوف اور خطرہ کی صورت میں۔
سیکولرزم(مذہبی آزادی) اسلامی ریاست کا لازمی حصہ ہے لیکن اس کی حیثیت ایک ماتحت، ایک پیادے اور ایک سپاہی کی سی ہے، جس کا کام ہر گھڑی اور ہر لمحے ریاست کے نظریاتی بادشاہ اور مقتدر اعلیٰ اسلام کے آگے جھکنا اور اس کی اطاعت کا دم بھرنا ہے۔اس کے برعکس مذہب کا جو مسخ شدہ تصور مغربی تہذیب کے متاثرین ہم سے منوانا چاہتے ہیں اس کے مطابق سیکولرزم کو ریاست میں سپریم طاقت حاصل ہے اور مذہب اس کا ایک ماتحت اور غلام ہے۔
محمد عربیﷺ کے اسلام کو فرد کی ذاتی زندگی کی طرح اس کی سب سے بڑی اجتماعی زندگی (ریاست) میں بھی مکمل اختیار، طاقت اور کنٹرول حاصل ہے، جبکہ مغرب کے غلاموں کا تصور مذہب صرف فرد کی ذاتی زندگی تک محدود ہے اور ریاست میں اسے مداخلت کا کوئی حق نہیں۔
لڑائی کب شروع ہوتی ہے؟
آپ کو سیکولرزم بہت پسند ہے ناں۔ آپ جاگتے، سوتے، ہنستے روتے، اٹھتے بیٹھتے غرض ہر ہر لمحہ میں سیکولرزم کا خواب دیکھتے رہتے ہیں ناں؟ تو جایئے جا کر مغرب اور مشرق کے غیر مسلم ممالک میں مسلط سیکولرزم کے بت کی پوجا شروع کردیجیے، اس کی حمد ،ثناء اور تسبیح پڑھنا شروع کردیجیے۔ محمدﷺ کے ماننے والوں کی آپ سے کوئی لڑائی نہیں۔آپ کو آپ کا دین مبارک ہمیں ہمارا دین۔
لڑائی اس وقت شروع ہوجاتی ہے جب آپ کاآقا مغرب سیکولرزم کی چھتری تلے ہر مذہب کے پیروکاروں کو احترام دینے کے لیے تیار ہے لیکن کائنات کے واحد سچے دین اسلام کو احترام دینے کے لیے تیار نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام کے رسولﷺ، اسلام کی کتاب (قرآن) اور اسلام کے احکامات کا سیکولر دنیا کا میڈیا برسرعام مذاق اڑاتا ہے اور توہین کرتا ہے ، اور اسلام کے بھی صرف ان پیروکاروں کو اذیت اور جاہلی عصبیت کا شکار بناتا ہے جو اسلام کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کی کوشش کرتے ہیں اور مغرب کی سیکولرتہذیب کے علمبردار مسلمان کی داڑھی، اس کے پردہ اور اس کے لباس پر پابندیاں لگانا شروع کردیتی ہے۔
جی جناب !لڑائی اس وقت شرو ع ہوتی ہے جب آپ اپنے اس بت کی محبت میں اسلام کو بھی دھکے دینے لگ جاتے ہیں اور مطالبہ کرنے لگ جاتے ہیں کہ جناب جس طرح دنیا کے باقی مذاہب نے سیکولرزم کی بالادستی کو تسلیم کرلیا ہے اور ریاست میں عمل دخل سے دستبردار ہوگئے ہیں اسلام بھی سیکولرزم کی بالادستی کے آگے سربسجود ہوتے ہوئے ریاست کی تعمیر و تشکیل کے خواب دکھانا چھوڑ دے۔ نہیں منے بھائی نہیں یہ دھاندلہ نہیں چلے گا۔ ۔ ۔دنیا میں جب تک قرآن محفوظ ہے، دنیا میں جب تک محمد ﷺ کا نام باقی ہے، دنیا میں جب تک اسلام کے ماننے والے موجود ہیں، مسلم اکثریتی ممالک میں ریاست کی اسلامی تشکیل اور ریاست و حکومت پر اسلام کی بادشاہی قائم کرنے کی کوشش ہوتی رہے گی ۔
چاہے کوئی پسند کرے یا ناپسند یہ سلسلہ اس وقت تک چلتا رہے گا جب تک یا تو اسلام کو بھی فرد کی نجی زندگی کی طرح اس کی ریاستی زندگی پر بھی مکمل کنٹرول اور اقتدار حاصل ہوجائے گا یا پھر دنیا سے مسلمان ختم ہوجائیں گے۔آپ اس کو فکری سطح پر روکنے کی کوشش کریں گے غلامان محمد ﷺسے آپ کی فکری سطح پر لڑائی شروع ہوجائے گی ، آپ اور آپ کے آقا (مغربی طاقتیں) عملی میدان میں اسلام کا راستہ روکنے کی کوشش کریں گے تو زندگی کے عملی میدان میں غلامان محمد ﷺ سے آپ کے آقاؤں کی لڑائی شروع ہوجائے گی ۔ آپ کے آقا (مغربی طاقتیں) کہتے ہیں کہ مسلمان دہشت گرد ہیں۔ جی ! آپ ہی کے بنائے ہوئے اصول کی صورت میں مسلمان ضرور دہشت گرد ہوتے اگر مسلمان مغرب میں جاکر ریاستی اور فوجی مشینری کی طاقت کے ذریعے سیکولرزم کو روکنے کی کوشش کرتے اور وہاں زبردستی اسلامی قانون نافذ کرنے کی کوشش کرتے۔
لیکن یہاں تو معاملہ الٹ ہے۔ دولت مغرب کے پاس، طاقت مغرب کے پاس، ٹیکنالوجی مغرب کے پاس، بے مہابا جنگی سازوسامان و افواج مغرب کے پاس اور مغرب تھر تھر کاپنتا ہے کہ دنیا کے کسی بھی مسلم ملک میں کہیں اسلام کا عدل و انصاف اور امن پر مبنی نظام نافذ نہ ہوجائے، جس کے نتیجے میں مغرب کے کھوکھلے، دجالی، فریبی اور انسانیت کے دکھوں کا استحصال کرنے والے مغربی ازموں اور نظاموں پر انسانیت کا اعتبار ختم نہ ہوجائے ۔یہ ڈر، یہ خوف اور اندیشہ ان نام نہاد مغربی سیکولرطاقتوں کو مسلم ممالک میں مداخلت پر ابھارتا ہے اور وہ ان مسلم ممالک میں اسلام کا، امن کا اور عدل کا راستہ روک کر کھڑا ہوجاتا ہے۔ اس کے لیے مغرب پیسہ بھی پانی کی طرح بہاتا ہے ، اپنی طاقت سے بھی ڈراتا ہے اور مسلم ممالک میں انارکی اور انتشار کو بھی ہوا دیتا ہے ۔تو جناب اصل اور بڑا دہشت گرد کون ہوا؟ دہشت گردی کا منبع اور سرچشمہ کون ہے؟دنیا کے خزانوں پر قابض اور سائنس و ٹیکنالوجی کے ٹھیکیدار آپ کے مغربی آقا یا کہ بھوکے، ننگے، وسائل سے تہی دامن، ٹیکنالوجی اور اداروں سے محروم بدحال اور فاقہ کش مسلمان۔
اپنی خواہش کو معبود بنانے والے:
جو لوگ یہ چاہتے ہیں کہ جس طرح غیر مسلم اکثریتی ممالک نے اپنے اپنے ممالک سے اپنے پسندیدہ مسخ شدہ اور تحریف شدہ مذاہب کو ریاست و حکومت کے ایوانوں سے نکال باہر کیا اسی طرح مسلم اکثریتی ممالک میں بھی “ریاست وحکومت”کے ایوانوں سے اسلام کو نکال باہر کیا جائے، یہ لوگ سوائے اپنی خواہش کو معبود بنانے اور اٹکل پچودلائل دینے کے اور کچھ بھی نہیں کرتے۔
ان لوگوں کے بس میں یہ تو نہیں ہے کہ قرآن سے وہ تمام احکام اور آیات کھرچ کھرچ کر مٹا دیں جن میں ریاست وحکومت سے متعلق مسلمانوں کو ہدایات دی گئی ہیں اور نہ ہی ان کے بس میں یہ ہے کہ یہ اس حقیقت کو مسلمانوں سے چھپا سکیں کہ اسلام کے مقدس ترین رسولﷺ اور آپ کے قریب ترین ساتھیوں نے نہ صرف ریاست اور حکومت کے ایوانوں پر اسلام کے احکام کو نافذ کرکے دکھایا بلکہ اپنے وقت کی عالمی طاقتوں کو بھی الٹ پلٹ کر رکھ دیا۔
تو پھر یہ کیا کرتے ہیں؟ یہ کرتے یہ ہیں کہ اپنی عقل، اپنی دانش، اپنے خیال، اپنے قلم اور اپنے کلام کے طاقت ورگھوڑوں کو دنیا کی ادنیٰ قیمت کے بدلے میں بیچ دیتے ہیں۔ کبھی ان کی منطق کے گھوڑوں کو کافروں کی دنیاوی طاقت و ٹیکنالوجی مسحور کرکے رکھ دیتی ہے، کبھی ان کے خیال کے گھوڑے مغرب کی ظاہری چمک دمک کے پیچھے رسیاں تڑوا کر بھاگنے لگتے ہیں، کبھی ان کی دانش کےگھوڑے مغرب کی بے خدا(سیکولر) تہذیب کے پیچھے اس لیے سرپٹ دوڑنا شروع کردیتے ہیں کہ اس میں مسلمانوں کو نجی زندگی میں بھی برابر کی عزت و آزادی دینے کا اعلان کیا جاتا ہے، یہ الگ بات ہے کہ ان کی دانش کے بے لگام گھوڑے مسلمانوں کی نجی زندگی میں بھی اسلام سے وابستگی (مثلاً نماز، تقویٰ، زہد، غنا، صبر، توکل، حجاب، داڑھی) کا موقع بے موقع مذاق اڑانے سے نہیں چوکتے۔
مسخ شدہ مذاہب اور اسلام:
جس کا مذہب ذاتی خواہشات ،مسخ شدہ اور تحریف شدہ تاریخی حوالوں کا نام ہے وہ جائے اور جاکر اعلان کرتا پھرے کہ ہمارا مذہب جس طرح غیر اللہ کی پوجا کی تلقین کرتا ہے اسی طرح دنیا کے تازہ “خدا” سیکولرزم کی پرستش سے بھی نہیں روکتا بلکہ اس کی بندگی کا حکم دیتا ہے۔ اور جس کا مذہب (دین) محمدﷺ اور قرآن کے عطا کیے ہوئے اسلام کا نام ہے ، وہ جس طرح ذاتی زندگی میں ایک اللہ کی بندگی اور پرستش پر اصرار کرتا ہے عین اسی طرح مسلمانوں کی ریاستی زندگی کو بھی اللہ کی بندگی اور پرستش کا حکم دیتا ہے۔
مسخ شدہ اور تحریف شدہ مذاہب اپنی ریاست کی بادشاہی کسی بھی فلسفہ اور ازم کو دے سکتے ہیں اور انہوں نے عملی طور پر ایسا کیا۔ مگر سچا ، صاف اور پاکیزہ دین اسلام دو ٹوک اعلان کرتا ہے کہ فرد کی نجی زندگی ہو یا ریاستی زندگی بادشاہی کا حق صرف اور صرف اللہ اور اس کے قانون (اسلام )کو حاصل ہے۔ -
سیاسی اسلام کی ناکامی؟ رضی الاسلام ندوی
تین سال ہوگئے، لیکن ابھی کل کی بات معلوم ہوتی ہےبارہ مولہ (کشمیر) سے واپسی کے لئے نماز فجر کے بعد میں اپنا سامان سمیٹ رہا تھا، کہ وہ نوجوان، جن کے ساتھ میں نے ایک ہفتہ گزارا تھا، مجھے رخصت کرنے کے لیے آگیےان کے چہرے اترے ہوئے تھے، ان پر حزن و ملال کے آثار نمایاں تھے اور وہ سخت کرب میں مبتلا دکھائی دے رہے تھے_
بارہ مولہ کا سفر ادارہ فلاح دارین کی دعوت پر ہوا تھامیں عمومی پروگراموں سے بھاگتا ہوں، لیکن برادر سہیل بشیر کار کا اصرار غالب آیاوہاں میرے متعدد پروگرام ہوئے:کیی مسجدوں میں درس قرآن، سوال جواب کی نشستیں، لیکچر، خواتین اور طالبات کے درمیان مطالعہ قرآن، نظم زکوۃ کے موضوع پر ایک سمینار اور خواتین کے ایک بڑے عمومی پروگرام میں شرکت وغیرہایک دن گلمرگ کی خوب صورت وادی میں اور ایک دن سری نگر میں سیر و تفریح کا پروگرام رہامیں نے ان نوجوانوں کو بہت صالح، پرجوش، اسلام پر چلنے والا اور اسلام کے لیے مر مٹنے والا پایا_
نوجوانوں کے حزن و ملال اور کرب و اضطراب کا سبب یہ تھا کہ گزشتہ رات میں مصر میں فوجی انقلاب کے نتیجے میں جنرل سیسی نے اقتدار پر قبضہ کر لیا تھا اور صدر مرسی کو برطرف کرکے پس دیوار زنداں کر دیا تھا_
ایک نوجوان نے سوال کیا: مولانا! یہ بحث زور پکڑ رہی ہے کہ سیاسی اسلام ناکام ہو گیا ہےآپ کیا کہتے ہیں؟
میں نے کہا :موجودہ صورت حال سیاسی اسلام کی کام یابی کی دلیل ہےصدر مرسی نے ایک سال کام یابی کے ساتھ حکومت چلائی ہے، عوام کی فلاح و بہبود کے بہت سے کام کیے ہیں، بین الاقوامی سطح پر اسلام کی سربلندی کے متعدد اقدامات کیے ہیں اسلام دشمنوں نے سیاسی اسلام کو کام یاب ہوتا دیکھ کر اس کے خلاف سازش کی ہےسیاسی اسلام کو اس وقت ناکام کہا جا سکتا تھا جب صدر مرسی یا ان کے کسی وزیر پر کرپشن کا الزام ہوتا، انھوں نے ملک کی دولت لوٹ کر تجوریاں بھری ہوتیں، عوام پر ظلم ڈھائے ہوتےیہ تو مغربی جمہوریت کی ناکامی کی دلیل ہےاس کے علم برداروں نے الجزائر میں اعلان کیا کہ ووٹ کی طاقت سے جو کام یاب ہوگا اسے اقتدار سونپ دیں گے، مگر جب اسلام پسندوں کو پہلے ہی مرحلے میں اکثریت مل گئی تو اقتدار پر فوج نے قبضہ کرلیا اور اسلام پسندوں کی پکڑ دھکڑ شروع ہو گئیاسی طرح اس کے علم برداروں نے مصر میں اعلان کیا کہ بیلٹ پیپر سے جو پارٹی اکثریت حاصل کرے گی اسے اقتدار سونپ دیں گے، مگر اسلام پسندوں کو اکثریت ملی تو ان سے ہضم نہ ہو سکا، انھیں پریشان کرتے رہے، یہاں تک کہ بے دخل کرکے دم لیا
ایک نوجوان نے دریافت کیا :اس کا مطلب یہ ہے کہ اب پر امن جدوجہد سے اسلامی انقلاب نہیں آ سکتا؟
میں نے جواب دیا:میں طاقت کے استعمال کو حرام نہیں سمجھتا ، لیکن میرا خیال ہے کہ موجودہ دور میں پرامن جد و جہد ہی محفوظ ترین طریقہ ہے_ مولانا مودودی نے فرمایا ہے کہ جس نظام کو طاقت کے ذریعے قائم کرنے کی کوشش کی جائے گی اسے طاقت کے ذریعے ہی آسانی سے ہٹایا بھی جاسکتا ہے_
میں ان نوجوانوں سے رخصت ہوا تو میرے ذہن میں بار بار وہ واقعہ گردش کر رہا تھا کہ مکی دور میں مشرکین مکہ کی جانب سے اذیتیں بہت بڑھ گئیں تو حضرت خباب بن ارت رضی اللہ عنہ خدمت نبوی میں حاضر ہوئے اور عرض کیا :”اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم! اب تو ظلم کی حد ہوگئی ہےآپ ہمارے لیے دعا نہیں فرمائیں گے؟ ” اس وقت آپ کعبہ کی دیوار کے سائے میں ٹیک لگائے ہوئے تھے یہ سنتے ہی اٹھ کر بیٹھ گئےآپ کا چہرہ مبارک تمتما اٹھاآپ نے فرمایا :”تم سے پہلے جو اہل ایمان گزرے ہیں ان پر اس سے زیادہ سختیاں کی گئی ہیںان میں سے کسی کو گڈھا کھود کر بٹھایا جاتا اور اس کے سر پر آرہ چلاکر اس کے دو ٹکڑے کر دیے جاتے اور کسی کے جوڑوں پر لوہے کے کنگھے گھسے جاتے تھے، تاکہ وہ ایمان سے باز آجائے، پھر بھی وہ اپنے دین سے نہ پھرتے تھےیقین جانو کہ اللہ اس کام پورا کرکے رہے گا، یہاں تک کہ ایک وقت آئے گا جب ایک شخص صنعاء سے حضر موت تک بے کھٹک سفر کرے گا اور اللہ کے سوا اس کو کسی کا خوف نہ ہو گا، مگر تم لوگ جلد بازی کرتے ہو“(بخاری، ابوداؤد، نسائی، احمد)
آج صدر مرسی کی معزولی کی تیسری برسی کے موقع پر میری نظروں میں بارہ مولہ کے اُن نوجوانوں کی صورتیں گھوم گئیںمیں نے ان نوجوانوں کی آنکھوں میں وہ چمک دیکھی ہے کہ مجھے یقین ہے کہ اگر ایسے نوجوان دنیا کے دوسرے خطوں میں بھی پیدا ہو جائیں تو اسلام کے روشن مستقبل کی ضمانت دی جا سکتی ہے_ -
بھری دنیا میں مجھ جیسے ہی کی تلاش کیوں آخر؟ اسری غوری
” اسلامی سیکولرزم ” کا بیانیہ ۔۔ یہ اصطلاح پڑھتے ہی دماغ میں کسی محبت کے مارے کا اک قول جگمگا اٹھا کہ ” اس نے جاتے ہوئے پلٹ کر کہا تجھ جیسے لاکھوں ملیں گے، ہم نے کہا کہ آخر بھری دنیا میں مجھ جیسے ہی کی تلاش کیوں؟ ”
آج کل ہمارے ہاں اسلام کی نہیں بلکہ کسی اسلام جیسے کی تلاش زورو شور سے جاری و ساری دکھائی دیتی ہے۔ اس تلاش میں ہمارے بعض محترم دانشور حضرات مغرب کی ہر اترن کو ” اسلامی ” کا لاحقہ لگا کر مشرف بہ اسلام کرلینے پر بضد ہیں اور اس کی تبلیغ پر دہاڑی دار مزدور کی طرح ویسے ہی جتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں جیسے ایک زمانے میں بعض لوگ سوشلزم کو اسلامی لباس پہنانے پر مصر تھے۔ وقت نے مگر یہ ثابت کردیا کہ انھوں نے سوشلزم کو جو ” اسلامی ” لباس پہنانے کی کوشش کی تھی وہ کامیاب نہیں ہوسکی تھی۔
گاہے حیرت ہوتی ہے کہ جب اسلام پسند نہیں تو پھر ” اسلام جیسا ہی کوئی ” کی کیوں تلاش ہے۔ صاف کھل کر اس سے اظہار برات کیوں نہیں کہ رب تعالیٰ نے تو صاف الفاظ میں آپشن دیا ہوا ہے ” لااکرہ فی الدین ”
ہمارے خیال میں ضرورت خارجی نہ ہوتی تو اظہار برات کیا، کوئی چولا پہننے یا سابقہ لاحقہ لگانے کی ضرورت ہی نہ ہوتی۔ داخلی سے زیادہ یہ خارجی محرکات ہیں جن کی بنا پر نئے بیانیے اور نئی اصطلاحات کی ضرورت پیش آ رہی ہے۔ مغرب میں چونکہ مذہب چرچ اور کلیسا تک محدود ہے، اس لیے یہاں بھی ایسے معاشرے کی تشکیل کی کوشش کی جا رہی ہے جہاں مذہب کو فرد کا ذاتی فعل قرار دے کر اسے ہر مذبی پابندی سے آزاد کردیا جائے اور اس کا سکون اطمینان بس اسی میں ہو کہ مسائل حیات کے جھمیلوں سے دور رہ کر تسبیح پر “اللہ ہو” اور سبحان اللہ کی گردان کی جائے اور سمجھا جائے بس حق مذہب ادا کردیا گیا ۔ یعنی یہ اختیار بھی مغرب کی طرح انسان کو سونپ دیا جائے کہ خدا کا زندگی میں بس اتنا ہی دخل ہو جتنا وہ دینا چاہے اور جب دل کرے اور چاہے تو وہ بھی نہ ہو اور اسے زندگی سے مکمل طور نکال باہر کرے۔ ( نعوذ باللہ )
” احیائے اسلام ” کا خیال تو ان کے نزدیک قابل نفرین ہے کہ سیکولر طرز فکر سے اس کی کوئی نسبت نہیں مگر ” اسلامی سیکولرزم” شاید کوئی ایسی چیز ہے جو قابل قبول ہو سکتی ہے۔ شاید اسلام کی ایسی سیاسی و غیر سیاسی تقسیم مقصود ہے جو ان دائروں سے تجاوز نہ کرے جو سیکولرزم نے کھینچ رکھے ہیں۔ مذہب کو بخوشی یہ اجازت دینے کو تو تیار ہیں کہ وہ تہذیب مغرب کے ساتھ تنائو کو کم کرنے کے لیے بطور نسخہ آسودگی (فردی اسلام اور صوفی ازم ) استعمال ہو لیکن اسے یہ ہرگز برداشت نہیں کہ وہ حقیقی زندگی کے سماجی اور سیاسی حل کے لیے ایک نظام کے طور پر کام کرے۔ یعنی اسلام کو اس کی قوت متحرکہ سے محروم کردیا جائے۔ اور یہ وہ خواہش تھی جس نے مغرب کو مجبور کیا کہ وہ شرعی اسلام سے صوفیانہ اسلام کی ترکیب پیدا کرے۔
اصلا یہ اسلامی نظام کی راہ روکنے کی اسی مغربی واردات کا حصہ ہے جس میں “صوفیانہ اسلام ” سے لے کر ” اسلامی سوشلزم ” تک شامل ہیں اور اب اک اور نقب ” اسلامی سیکولرزم ” کے نام پر لگانے کی کوشش ہو رہی ہے۔
تاہم اصل سوال یہ ہے کہ کیا اسلام کو ٹکڑوں میں بانٹ کر لاگو کرنا جائز ہے جبکہ خود اسلام بہ حیثیت ” الدین ” وجود کلی پر مصر ہے ؟ اور خود قرآن ایسا کرنے والوں کے لیے سخت سزا کی وعید کرتا ہے جو اس کی بعض باتوں کو مانیں اور بعض کو ماننے سے انکار کردیں ۔ یہود و نصاریٰ کے اس طرز عمل پر گرفت کرتے ہوئے قرآن ایسے لوگوں کو کافر ، فاسق ، اور ظالم قرار دیتا ہے ۔اسلام کا یہ زور تحکم اور اس امر کی پوری تاریخ اتنی واضح ہے کہ مغرب کے پڑھے لکھے دیانت دار اصحاب دانش بھی اسے تسلیم کرتے ہیں ۔
مثلا پروفیسر این لیمبٹن (Ann Lambton) اپنی قابل قدر تصنیف (
Author of State and Government in Medieval Islam)
میں لکھتی ہیں :
” شریعہ ، مغرب میں سمجھے جانے والوں معنوں میں کوئی قانون کی کتاب نہیں ۔ شریعہ دراصل مسلمانوں کے فرائض کا بیان ہے۔ نظری طور پر یہ انسانی زندگی کے سب ہی معاملات بشمول تجارت و حرفت کا احاطہ کرتی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ سیاسی نظام کی بنیاد مہیا کرتی ہے ”
ریاست کی ماہیت بیان کرتے ہوئے وہ لکھتی ہیں :
“( اس نظام میں ) ریاست موجود ہے ۔ کسی اور جمعیت ( اور ادارے ) کی موجودگی جو اس کے برابر یا اسے برتر ہونے کی مدعی ہو، اس ریاست کو کسی طرح محدود نہیں کرتی ”
اسی حوالے سے ہیملٹن گب ( Hamilton Gibb) جب عہد جدید میں اسلامی ورثہ کی بات کرتا ہے تو اس کا بیان بھی بڑا اہم ہے ۔
” (مسلم) کمیونٹی اس اندھیاری دنیا میں خدائے برتر کی شہادت دینے کے لیے موجود ہے اور یہ حکومت کا فرض منصبی ہے کہ قانون کی تنفیذ کا کام انجام دے ”
کیا اس کا مطلب یہ نہیں بنتا کہ اسلام کی اساسی روح سے مغربی مفکرین اور صاحب دانش تو آگاہ ہیں مگر ہمارے بعض دانشور اس سے پہلوتہی کر رہے ہیں۔
یہاں ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ اسلام جیسی جامع اور مکمل چیز پاس ہونے کے باوجود اس میں پیوند کاری کرنے والے کیسے پیدا ہوجاتے ہیں ؟ یہاں پھر منبر و محراب سے لے کر مدرسہ و علمیت کے بانجھ پن کا بھی بھانڈا پھوٹتا دکھائی دیتا ہے کہ وہ اسلام کو جدید رنگ میں پیش کرنے میں ناکام رہے؟ جہاں تک عام آدمی کی بات ہے تو دراصل اسی کو مطمئن کرنے کے لیے یہ سب پاپڑ بیلے جارہے ہیں کہ اس کے اضطراب کو ختم کر دیا جائے جو بار بار اسے رب کی طرف پلٹنے پر مجبور کر دیتا ہے
یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ ” اسلام نہیں اسلام جیسا ہے ” کے جتنے بھی جدید سے جدید برانڈ مارکیٹ میں آئیں گے، ان کی کل زندگی بارش میں پیدا ہونے ان پتنگوں کی مانند ہوگی۔ پتنگے چند لمحوں کے لیے ایسے طوفان کی طرح اٹھتے دکھائی دیتے ہیں کہ انسان کی عقل دنگ رہ جاتی ہے اور سمجھ نہیں آتا اس افتاد سے کیسے جان چھڑائی جائے مگر ایسے میں کچھ عقل مند لوگ اپنے گھر کے دروازے کھڑکیاں بند کرلیتے ہیں اور جن روشنیوں پر وہ پروانے چمٹ چمٹ جانے کے لیے بیقرار ہوتے ہیں، وہی گل ہو کر ان کی موت کا پروانہ بن جاتی ہیں۔
ذرا پیچھے نگاہ دوڑا کر دیکھیے تو آپ کو ایک نہیں بلکہ بہت ایسے بیانیے ایک کے بعد ایک کر کے اپنے موجدین کے ہمراہ ایسی قبروں میں مدفون نظر آئیں گے جن پر کوئی پھول اور چادر تو درکنا کوئی کتبہ کا تختی بھی نہیں ملے گی اور ان کے مقابلے میں اسلام آج بھی تمام تر حشر سامانیوں کے ساتھ یہ کہتا دکھائی دے گا کہ
“بھری دنیا میں مجھ جیسے ہی کی تلاش کیوں آخر ؟؟ “ -
اسلامی سیکولرازم کا نعرہ – فضل ہادی حسن
’’اسلامی سیکولرازم‘‘ کی بات کرنے والے کیا ’’اسلامی سوشلزم‘‘ کا انجام بھول گئے؟ یا پھر سرخ انقلاب کے متلاشیوں کی طرح ’’سیکولرازم‘‘ کی آغوش میں پناہ لیتے ہوئے انھوں نے اپنا بیانیہ تبدیل کر دیا ہے؟ یا اسے وقت کے ساتھ ساتھ بدلتے بیانیے میں اپنے آپ کو ایڈجسٹ کرنے اور جگہ بنانے کی کوشش سمجھا جائے؟ چند مہینے پہلے ’’اسلامی سیکولرازم‘‘ کے بجائے ’’مذہبی نما سیکولرز‘‘ کی اصطلاح استعمال کی تھی۔ لیکن تب یہ فکر لاحق ہوئی تھی کہ کہیں علمی ’’خیانت‘‘ یا ’بیانیہ‘ موسم میں افراط وتفریط کا شکار نہ ہوجاؤں۔
خورشید ندیم صاحب سے تعلق دوست سے بڑھ کر ایک استاد و شاگرد کا بھی ہے۔ کئی دفعہ ان سے مختلف موضوعات پر گفتگو ہوتی رہی ہے، اور نقد و اعتراض کے ذریعہ کچھ موضوعات کو سمجھنے اور ان سے سیکھنے کی کوشش بھی ہے۔لیکن گزشتہ کل جب انھوں نے اپنے کالم میں میں پاکستانی سیاست اور سیکولرازم کو ’’مقبول بیانیہ‘‘ قراردیتے ہوئے ’’اسلامی سیکولرازم‘‘ کی اصطلاح استعمال کی تو حیرانی نہیں ہوئی بلکہ جس خدشہ کا اظہار کیا جارہا تھا ، وہ درست ثابت ہوا۔ رائے اور خیالات میں تبدیلی کا یہ عنصر جو ’’المورد‘‘ کے احباب کے ہاں دیکھنے کو ملتا ہے شاید کہ کہیں دوسری جگہ اس کی کوئی مثال ملتی ہو۔ چاہے وہ 1973 کے آئین کے بعد مملکت کے ’’مسلمان‘‘ ہونے سے مذہبی سیاست نہ کرنے کا مشورہ دے کر بعد میں ریاست کو ’’بلامذہب‘‘ قرار دے دینا ہو یا جہاد کے اعلان و توہین رسالت و حدود کی سزائوں کو ’ریاست‘ کی اتھارٹی اور پابندی کے زمرے میں لا کر (اور اسی طرح ہونا بھی چاہیے) لیکن مسئلہ قادیانیت سمیت بعض دیگر امور کو ریاست و پارلیمنٹ کے دائرے سے نکال کر علماء و سکالرز کا معاملہ قرار دینا ہو۔ علی ہذا القیاس۔ خاکسار کو خورشید ندیم صاحب کی کئی دینی و مذہبی رہنمائوں سے ملاقاتوں کا اہتمام کرنے کا موقع ملا، اور انھیں ایسے پروگرامات میں باصرار بلوایا جہاں دوسرے شرکاء کو اعتراض ہوتا تھا، کوشش یہی تھی کہ ان کی رائے کو سننے اور خیالات سے آگاہی کا موقع فراہم کیا جائے تاکہ قربت کا کوئی راستہ نکل سکے۔ اس کوشش میں بسا اوقات احساس ہوتا تھا کہ کہیں احباب اور بزرگ میرے بارے میں کوئی خاص رائے قائم نہ کریں)
خورشید ندیم صاحب سے جب بھی گفت وشنید ہوئی یا ملاقاتوں اور پروگرامات میں سننے کا موقع ملا تو پاکستانی سیاست پر بات کرنے سے انہوں نے ’’تقریبا‘‘ احتراز ہی کیا، مذہبی جماعتوں کے مرکزی قائدین سے ملاقاتوں کے موقع پر ان کی گفتگو کا آغاز کچھ ایسا ہی ہوتا تھا کہ ’’میں سیاست کا نہیں بلکہ مذہب و سماجیات کا طالبعلم ہوں، اس لیے سیاست سے ہٹ کر تربیت و دعوت پر ہی بات کرسکتا ہوں‘‘ مگر مذکورہ کالم میں انھوں نے بلاول زرداری اور پاکستانی سیاست پر ’’ماہرانہ‘‘ گفتگو کی۔ (ویسے یہ بھی خوش آئند ہے کہ اسلامی سیکولرزم یا بلاول زرداری کی وجہ سے وہ سیاست کی طرف آئے اور کھل کر بات کی۔
خورشید ندیم صاحب سے پہلے ’اسلامی سیکولرازم‘ کا نعرہ جن معروف و غیر معروف چہروں کی طرف سے لگایا گیا ہے، ان سب نے اپنی نسبت بالواسطہ یا بلاواسطہ ’’المورد‘‘ یعنی جاوید احمد غامدی صاحب کی طرف کی ہے۔ اگر خورشید ندیم صاحب دبے لفظوں سے سیکولر بیانیہ کو اسلام کا لبادہ اوڑھا کر اسے ’اسلامی سیکولرازم‘‘ کا نام دے رہے ہیں اور کچھ اذہان کو ترغیب دینے کی بھی کوشش کررہے ہیں ، تو میری دانست کے مطابق یہ ان کی ذاتی رائے کم اور فکری سوچ و رائے ذیادہ ہے۔ اس وقت اہل مذہب کا وہ طبقہ جو سیکولرازم بیانیہ کا حامی اور بڑا وکیل نظر آتا ہے، ان میں خود جاوید غامدی صاحب اور ان کی فکر سے وابستہ افراد سب سے نمایاں ہیں۔ اس وجہ سے موصوف نے اپنے مضمون میں اسلامی بیانیہ (جسے انھوں نے سیاسی اسلام کا بیانیہ کہا ہے) کو ’’ناکارہ و نامکمل‘‘ قرار دینے کوشش کی نیز اسے ’دہشت گرد‘‘ تنظیموں کے ہاتھوں یرغمال بھی کہا۔
ایک طرف اسے ناکارہ سمجھتے ہیں اور مذہب کا بیانیہ علمی طور پر پیش کرنے والا انھیں پاکستان بھر میں کوئی فرد نظرنہیں آرہا تو دوسری طرف سیاست میں بیانیہ کو صرف ’دیوبند‘ تک محدود کر دیا جسے ابھی ان کا حتمی یا دوٹوک موقف قرار نہیں دیا جا سکتا بلکہ ’یہاں‘ بھی تضاد نظر آرہا ہے۔خلاصہ:
1 : خورشید ندیم صاحب سیکولرازم کے علمبرداروں کو ایک نیا نام و اصطلاح پیش کرنے اور اسے اسلامی رنگ دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔
2 : موصوف مذہبی جماعتوں کو مفلوج و اپاہج سمجتھے ہوئے مذہب کا بیانیہ پیش کرنے کے لیے نا اہل سمجھتے ہیں۔
3 : وہ لوگ جو دینی و مذہبی پس منظر رکھنے کے ساتھ ساتھ مذہب وسیاست کے بارے میں تحفظات کا شکار ہیں انھیں ایک نئی راہ دکھاتے ہوئے ’’اسلامی سیکولرازم‘‘ کے سایہ میں پناہ لینے پر آمادہ کرتے ہیں۔
4 : ایک لحاظ سے اپنی سوچ اور فکر کے سرخیل کو مذہب کا بیانیہ پیش کرنے کے لیے اہل اور موزوں سمجھتے ہوئے ان کےلیے ’’اعتماد سازی ‘‘ اور ” ذھن سازی ” کر رہے ہیں۔ واللہ اعلم
-
کیا کابل میں پنجابی بستے ہیں؟ فیض اللہ خان
مسئلہ یہ ہے کہ ڈیورنڈ لائن کے دونوں طرف اچکزئی صاحب جیسے لوگ صرف اٹک و بولان تک کے علاقے کو افغانستان کا حصہ سمجھتے ہیں۔ حالانکہ افغان سلاطین ہند تک حکمراں رہے ہیں۔ کیا ہی اچھا ہو کہ مودی سے کہا جائے کہ بھیا ذرا دلی ہمیں پکڑانا۔
ظاھر ہے کہ یہ لوگ نہیں بولیں گے ، کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اس قسم کے غیر سنجیدہ مطالبات کی حقیقت کیا ہے۔ ویسے آپس کی بات ہے کہ سکندر یونانی نے بھی یہاں اقتدار قائم کیا تھا لیکن یونان کے نام پہ پوشیدہ امراض کے دواخانے تو خوب کھلے پر کسی حکیم نے ان علاقوں کو سکندراعظم کے دیس کی علمداری میں دینے کا مطالبہ نہیں کیا
تاریخی طور پہ یہ بات بالکل درست ہے کہ افغانوں یا پشتونوں کا علاقہ اٹک تک رہا لیکن وہ ماضی تھا۔ اس بات میں بھی کوئی دو رائے نہیں کہ ہر پشتون کی بطور قوم شناخت افغان ہی ہے لیکن جس طرح عراقی یا کویتی عرب قومی ریاستوں کے نتیجے میں پیدا ہوئے، بعینہ دونوں ممالک میں بسنے والے پختون اب افغانی و پاکستانی پشتونوں کی صورت اختیار کر گئے ہیں۔ گزرے برسوں میں بہت کچھ بدل چکا ہے اور تبدیلی کے اس فطری عمل کو پاکستانی پشتونوں کی اکثریت وفاق و اسٹیبلشمنٹ سے بہت سے معاملات میں اختلافات کے رکھتے ہوئے بھی خوش دلی سے تسلیم کرچکی ہے۔
باوجود اس کے کہ مسلسل آپریشنز ہوئے، دربدری مقدر بنی لیکن آپ کل اس معاملے پہ ریفرنڈم کرالیں تو پشتونوں کا فیصلہ پاکستان کے ساتھ ہی رہنے کا ہوگا، اس حوالے سے ماضی میں قوم پرستوں کی جانب سے دکھائے گئے تمام خواب سراب نکلے۔
ایک چھوٹی سی مثال خیبر و بلوچستان کے پشتون قوم پرستوں کی انتخابی کامیابی ہے۔ جب انھیں حکومتیں ملیں تو انھوں نے اقربا پروری و کرپشن کے ریکارڈز توڑ ڈالے، اور یہ بھی بتا دیا کہ قوم پرستی سے انھیں کتنا شغف ہے۔ اچکزئی صاحب جن کی میں بہت عزت کرتا ہوں ، نے اپنے پورے خاندان کو اعلی ترین عہدے دلا کر بتا دیا کہ کہ وہ کتنے اصول پسند ہیں اور پشتون قوم کو حقوق دلانے یا ڈیورنڈ لائن مٹانے کےلیے کس قدر پرعزم ہیں۔
کام شام کرنا نہیں ہے جو ان کے اختیار میں ہے ، ہاں اسٹیبلشمنٹ کو گالیاں دے کر اپنے کارکنوں کو مطمئن ضرور رکھنا ہے۔
ویسے پشتونوں کی اکثریت اب ان کے چکروں سے نکل چکی ہے اور قومی دھارے میں اپنا کردار ادا کرنے جارہی ہے، البتہ قبائلیوں کے ساتھ ابھی تک غیر انسانی و غیر قانونی رویوں کی وجہ سے اندر ہی اندر اشتعال پیدا ہو رہا ہے جس کا بروقت تدارک بہت زیادہ ضروری ہے۔ اسی طرح مکمل کوائف رکھنے کے باوجود طویل عرصے سے شناختی کارڈ کے حصول میں بہت سی مشکلات ہیں جنھیں رفع کرنا سرکار و متعلقہ اداروں کا کام ہے کیونکہ قوم پرست اس جیسے دیگر معاملات پر سیاست کرکے اپنی دکانیں چمکا سکتے ہیں۔
آخری بات یہ کہ افغانستان اگر پشتونوں کا اتنا ہی بڑا گھر ہے تو یہ قوم پرست عناصر اسلام آباد، کراچی، لندن، دبئی، نیویارک اور کوالالمپور وغیرہ میں ہی کاروبار و رہائش کا انتظام کیوں کرتے ہیں ؟
ننگرہار، لغمان، پکتیا، لوگر، فراہ، قندھار و کابل پہ نظر کرم کیوں نہیں، کیا وہاں پنجابی بستے ہیں ؟ ؟ ؟ -
بنگال کی خبر لیجیے – فیض اللہ خان
پاکستان سے بنگالیوں کے الگ ہونے کی اصل وجہ ان کے قوم پرستانہ خیالات تھے جسے نظریاتی رنگ دینے میں ہماری سول و ملٹری قیادت کے فہم و فراست سے عاری اقدامات نے خوب جلا بخشی۔ خطہ بنگال ہم سے الگ ہوا اور خالص قوم پرست جذبات پہ برصغیر کی اس عظیم قوم کی تربیت شروع کی گئی جس کی اسلام سے وابستگی بڑی غیر متزلزل رہی.
قیام پاکستان کے بعد مشرقی حصے میں ہندو اساتذہ تعلیمی اداروں میں مئوثر حیثیت کے حامل تھے۔ فنون لطیفہ کی مختلف شاخوں میں ملحد و قوم پرستوں کا غلبہ تھا ، اور یہ تمام مل کر سیکیولر و قوم پرست بیانیے کی ترویج و اشاعت میں بھرپور کردار ادا کر رہے تھے، ایسے میں مغربی پاکستان کی متکبر انتظامیہ بنگالیوں کو نفرت کی نگاہ سے دیکھ کر انھیں مزید مشتعل کرنے کا سبب بنتی رہی۔
بنگال کے جدید بیانیے میں اسلام کو خاص اہمیت حاصل نہیں تھی ، یہ ضرور تھا کہ تبلیغی جماعت وہاں خاصی منظم تھی لیکن سیاسی اسلام کی بات کریں تو جماعت اسلامی کو پارلیمانی سیاست میں بہت بڑی کامیابی نہ مل سکی البتہ حالیہ عرصے میں حسینہ واجد کی خوں آشامی جماعت اسلامی بنگال کی صف اول و دوم قیادت کو نگل چکی مگر انتقام کی آگ ابھی بھی سرد نہیں ہوئی ۔
بنگالی جہاد افغانستان میں مختصر جتھے کی صورت میں شریک ہوئے۔ بعد میں بنگلہ بھائی کے نام سے مشہور ایک عالم نے وہاں جماعت المجاہدین یا جمعیت المجاہدین تشکیل دی جسے سرکار نے تشدد کرکے ختم کردیا۔ اتنے برس تک سکون رہنے کے بعد بنگال کی موجوں میں پھر سے اضطراب ہے، قوم پرستی کے جوھڑ سے اسلامی انتہا پسندی نکلی ہے۔ القاعدہ نے کچھ عرصہ قبل ملحد و سیکیولر بلاگرز کو مارنے کی کارروائیاں شروع کیں، جلد ہی دولت اسلامیہ بھی اس کھیل میں ہاتھ بٹانے وہاں پہنچ گئی
بنگلہ دیش نے کبھی کسی سرکاری جہاد میں حصہ لیا نہ ہی اس کا ریاستی بیانیہ ہماری طرح جہادی رہا ، بلکہ معاشرے کو ہدایات دینے والے بھی زیادہ تر سیکولر، ملحد و قوم پرست عناصر رہے ۔۔۔ لیکن ان سب کے باوجود بنگال کی سرزمین سے جہادیوں کا ابھرنا نئے خطرے کی علامت ھے
جمہوری نظام پہ یقین رکھنے والی دینی سیاسی جماعتوں کو جہاں جہاں قوت سے دبانے کی کوشش کی گئی وہاں نتائج سب کے لیے نقصان دہ رہے۔ ہمیشہ ایسے نوجوان موجود رہتے ہیں جو ان پالیسیوں کے ردعمل میں بندوقیں سنبھال لیتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان حملوں میں ملوث نوجوان جماعت اسلامی یا دوسری مذہبی جماعتوں سے تعلق نہیں رکھتے اور نہ کبھی انھوں نے ایسی کارروائیوں کو پھانسیوں کا انتقام قرار دیا بلکہ یہ تو معاملہ ہی اور ہے ۔۔۔
حسینہ واجد کے پاس موقع تھا کہ دینی لوگوں سے معاملات بہتر بناتی لیکن اسے بدلے لینے سے فرصت کہاں ؟ ڈھاکہ میں آغاز ہوچکا، اب بھگتیے حسینہ جی اس نئے خونی کھیل کو.