ہوم << کیا کابل میں پنجابی بستے ہیں؟ فیض اللہ خان

کیا کابل میں پنجابی بستے ہیں؟ فیض اللہ خان

10525943_1543930889188656_8708287563584166301_nمسئلہ یہ ہے کہ ڈیورنڈ لائن کے دونوں طرف اچکزئی صاحب جیسے لوگ صرف اٹک و بولان تک کے علاقے کو افغانستان کا حصہ سمجھتے ہیں۔ حالانکہ افغان سلاطین ہند تک حکمراں رہے ہیں۔ کیا ہی اچھا ہو کہ مودی سے کہا جائے کہ بھیا ذرا دلی ہمیں پکڑانا۔
ظاھر ہے کہ یہ لوگ نہیں بولیں گے ، کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اس قسم کے غیر سنجیدہ مطالبات کی حقیقت کیا ہے۔ ویسے آپس کی بات ہے کہ سکندر یونانی نے بھی یہاں اقتدار قائم کیا تھا لیکن یونان کے نام پہ پوشیدہ امراض کے دواخانے تو خوب کھلے پر کسی حکیم نے ان علاقوں کو سکندراعظم کے دیس کی علمداری میں دینے کا مطالبہ نہیں کیا
تاریخی طور پہ یہ بات بالکل درست ہے کہ افغانوں یا پشتونوں کا علاقہ اٹک تک رہا لیکن وہ ماضی تھا۔ اس بات میں بھی کوئی دو رائے نہیں کہ ہر پشتون کی بطور قوم شناخت افغان ہی ہے لیکن جس طرح عراقی یا کویتی عرب قومی ریاستوں کے نتیجے میں پیدا ہوئے، بعینہ دونوں ممالک میں بسنے والے پختون اب افغانی و پاکستانی پشتونوں کی صورت اختیار کر گئے ہیں۔ گزرے برسوں میں بہت کچھ بدل چکا ہے اور تبدیلی کے اس فطری عمل کو پاکستانی پشتونوں کی اکثریت وفاق و اسٹیبلشمنٹ سے بہت سے معاملات میں اختلافات کے رکھتے ہوئے بھی خوش دلی سے تسلیم کرچکی ہے۔
باوجود اس کے کہ مسلسل آپریشنز ہوئے، دربدری مقدر بنی لیکن آپ کل اس معاملے پہ ریفرنڈم کرالیں تو پشتونوں کا فیصلہ پاکستان کے ساتھ ہی رہنے کا ہوگا، اس حوالے سے ماضی میں قوم پرستوں کی جانب سے دکھائے گئے تمام خواب سراب نکلے۔
ایک چھوٹی سی مثال خیبر و بلوچستان کے پشتون قوم پرستوں کی انتخابی کامیابی ہے۔ جب انھیں حکومتیں ملیں تو انھوں نے اقربا پروری و کرپشن کے ریکارڈز توڑ ڈالے، اور یہ بھی بتا دیا کہ قوم پرستی سے انھیں کتنا شغف ہے۔ اچکزئی صاحب جن کی میں بہت عزت کرتا ہوں ، نے اپنے پورے خاندان کو اعلی ترین عہدے دلا کر بتا دیا کہ کہ وہ کتنے اصول پسند ہیں اور پشتون قوم کو حقوق دلانے یا ڈیورنڈ لائن مٹانے کےلیے کس قدر پرعزم ہیں۔
کام شام کرنا نہیں ہے جو ان کے اختیار میں ہے ، ہاں اسٹیبلشمنٹ کو گالیاں دے کر اپنے کارکنوں کو مطمئن ضرور رکھنا ہے۔
ویسے پشتونوں کی اکثریت اب ان کے چکروں سے نکل چکی ہے اور قومی دھارے میں اپنا کردار ادا کرنے جارہی ہے، البتہ قبائلیوں کے ساتھ ابھی تک غیر انسانی و غیر قانونی رویوں کی وجہ سے اندر ہی اندر اشتعال پیدا ہو رہا ہے جس کا بروقت تدارک بہت زیادہ ضروری ہے۔ اسی طرح مکمل کوائف رکھنے کے باوجود طویل عرصے سے شناختی کارڈ کے حصول میں بہت سی مشکلات ہیں جنھیں رفع کرنا سرکار و متعلقہ اداروں کا کام ہے کیونکہ قوم پرست اس جیسے دیگر معاملات پر سیاست کرکے اپنی دکانیں چمکا سکتے ہیں۔
آخری بات یہ کہ افغانستان اگر پشتونوں کا اتنا ہی بڑا گھر ہے تو یہ قوم پرست عناصر اسلام آباد، کراچی، لندن، دبئی، نیویارک اور کوالالمپور وغیرہ میں ہی کاروبار و رہائش کا انتظام کیوں کرتے ہیں ؟
ننگرہار، لغمان، پکتیا، لوگر، فراہ، قندھار و کابل پہ نظر کرم کیوں نہیں، کیا وہاں پنجابی بستے ہیں ؟ ؟ ؟

Comments

Click here to post a comment