Tag: موت

  • موت کا جھٹکا – نجم درویش

    موت کا جھٹکا – نجم درویش

    سرمگین آنکھیں، صراحی دارگردن،گلابی ہونٹ، گلاب کی پنکھڑیوں جیسے گلابی گال، مخروطی پورے، موتیوں جیسے دانت، سب حسین نین نقشے، موت کے اِک جھٹکے سے سب بےرونق ہو جائیں گے. عہدے، منصب، رشتے ناطے، سب ختم، سا پرایا ہے صاحب! جب لے گا، کوئی پَر نہیں مار سکے گا، اور مَر جائے گا. ڈاکٹروں سمیت سب رشتےدار انگشت بدنداں ہوں گے، افسوس تو کر رہے ہوں گے، زندگی کی تھوڑی سی رمق دینے کے متحمل اور بااِختیار نہیں ہوں گے، امانت کے لوٹانے کا وقت جو آ چکا ہوگا. بہت کچھ ملا تھا بہت کچھ، جس حسین کی جان نکالی گئی ہوگی، اُس کی جان کو کس مقام کی طرف منتقل کیا جا رہا ہے، سب خبر ہوگی، خاب و خسران لوگوں کی صف میں بھیجا جا رہا ہے، یا فائزالمرام لوگوں کی صف میں، سب جانتا ہوگا. دنیوی آنکھیں بند کی جا رہی ہوں گی، اُخروی آنکھیں کھل چکی ہوں گی.

    آہ کہ ماں اور باپ، کنبہ اور قبیلے کا رونا اِسے فائدہ نہیں پہچا سکے گا، چاہے سمندر آنسو بہا ڈالیں، مخالفین کا اِس کی موت پہ قہقہے مار کر فضا میں گونج پیدا کر لینا اِس کو مضرت نہیں پہنچا پائے گا، اِس کے اپنے اعمال کا گٹھڑ کھلے گا، [pullquote]فَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّتٍ خَیْراً یَّرَہُ وَ مَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّتٍ شَرّا ًیَّرَہْ،[/pullquote]

    کا عملی نمونہ اس کے سامنے پیش ہونے والا ہوگا، قبر یا تو اُس کے لیے سَجی سیج کا منظر پیش کرنے کا تیار ہوگی یا اللہ نہ کرے جہنم کے گڑھوں میں سے گڑھا. جسم کے حُسن پہ اس وقت فیصلہ نہیں بلکہ اعمال کے حُسن پر آج فیصلہ کیا جائے گا.

    یاد رکھیے! حَسین اعمال کا موقع دنیا ہے، حَسین اعمال کا بدلہ موت کے وقت سے ملنا شروع ہو جائے گا، اعمال کے حُسن کی فکر جسم کے حسن کی فکر سے بڑھ جائے گی تو یقین کیجیے، موت بھی سوہنڑی، قبر بھی سوہنڑی، اور آنے والی لامحدود زندگی بھی حَسین ہو جائے گی…!

  • میں نے جلد ہی مر جانا ہے – نیر تاباں

    میں نے جلد ہی مر جانا ہے – نیر تاباں

    چند سال پہلے کوئی بیماری شروع ہوئی، مزید ٹیسٹ ہوئے اور ایک دن ڈاکٹر کا فون آیا ”آپ کے لیے ایک بری خبر ہے۔“ مجھے کینسر ہوگیا تھا۔ اتنی سی عمر اور اتنی بڑی بیماری! مجھے رہ رہ کر اپنی بیٹیوں کا خیال آ رہا تھا، اپنے شوہر کا، امی ابو کا، اپنا! پوری کوشش تھی کہ کہیں زبان سے یہ نہ نکل جائے کہ آخر میں ہی کیوں؟ میں ہی کیوں؟! یا اللہ! میری زبان سے کوئی شکوہ نہ نکلنے دینا۔ مجھے اپنی رضا میں راضی رکھنا۔

    کیموتھراپی ہوئی اور تکلیف شدید سے شدید تر ہونے کے بعد آہستہ آہستہ کم ہونے لگی، طبیعت سنبھلنے لگی۔ کچھ ماہ میں میں مکمل طور پر صحتیاب ہوگئی لیکن تین سال کے مختصر عرصے میں ہی دوبارہ اسی ساری تکلیف سے گزرنا پڑا۔ لیکن اس بار میں ذہنی طور پر تیار تھی۔ جب ڈاکٹر نے اس بار مجھے بتایا تو آنسو تو بہے لیکن ساتھ ہی یہ بھی زبان سے نکلا کہ یہی اللہ کی مرضی ہے۔ الحمد لہ علی کل حال!

    مجھے ایسا لگتا ہے کہ یہ بیماری اللہ کا ایک خاص کرم ہے مجھ پر! مرنا تو ہم سبھی نے ہے لیکن کینسر جیسے بیماری مجھے بھولنے نہیں دیتی کہ میں نے جلد ہی مر جانا ہے۔ میں تیار بھی ہوتی ہوں، گھومتی پھرتی بھی ہوں، سبھی دنیاوی کام کرتی ہوں، لیکن دنیا میں اب دل نہیں لگتا۔ مجھے احساس رہتا ہے کہ میں نے مر جانا ہے۔ دنیا میں رہتے ہوئے بھی فوکس موت پر ہی رہتا ہے۔ ہر دم کوشش رہتی ہے کہ کہیں کسی کا دل نہ دکھا دوں، کسی کی غیبت نہ کر بیٹھوں، اسراف کر کے رب کو ناراض نہ کروں، پیسہ جمع کر کے غریب کا حق نہ ماروں۔ یہ بیماری میرے لیے کسی نعمت سے کم نہیں۔”

    تیس بتیس سال کی وہ جواں سال لڑکی، دو بیٹیوں کی ماں مجھے اپنی سرگزشت سنا رہی ہے۔ میرے کان اس کی باتیں سن رہے ہیں اور ذہن سوچنے پر مجبور ہے کہ جو اللہ کے شکر گزار بندے ہیں، وہ ہر حال میں شکر کا کوئی بہانہ ڈھونڈ ہی لیں گے، اور جنھیں شکوے شکایتیں کرنی ہیں، وہ ہزار نعمتوں کے باوجود کوئی نہ کوئی رونا روتے ہی رہیں گے۔

  • برزخی معاملات جسمانی ہوں گے یا روحانی ہیں؟ فیاض الدین

    برزخی معاملات جسمانی ہوں گے یا روحانی ہیں؟ فیاض الدین

    برزخی معاملات میں جناب محمد ہادی صاحب اور جناب جاوید احمد غامدی صاحب کے مؤقف کو میں بالکل درست سمجھتا ہوں کیونکہ دونوں کے نزدیک موت کے بعد جو عذاب اور راحت ہے وہ روحانی ہے، اس کی کیفیت کو ہم سمجھ نہیں سکتے ہیں۔
    جاوید احمد غامدی صاحب کہتے ہیں
    ”اس دنیا سے جب ہم رخصت ہوتے ہیں تو دو چیزیں ہیں، ایک ہمارا جسم ہے اور ایک ہماری شخصیت ہے، وہ فرشتے لے لیتے ہیں، قرآن مجید ہمیں یہ بتاتا ہے کہ ان کی تحویل میں ہماری اصلی شخصیت دے دی جاتی ہے، قبر میں صرف جسم جاتا ہے، کبھی دریا میں چلا جاتا ہے، کبھی راکھ بنا کر اڑ جاتا ہے، یہ جو بات قبر کے متعلق کی جاتی ہے، وہ دراصل عام حالات کی وجہ سے کی جاتی ہے، اصل میں جو کچھ ہوتا ہے وہ ہماری اصلی شخصیت کے ساتھ ہوتا ہے، اس لیے وہ عام طور پر عالم برزخ کے احوال ہیں جسے عام طور پر بیان کیا جاتا ہے، اس کو بھی قرآن نے واضح کر دیا ہے کہ وہ لوگ ہیں جن کا معاملہ نیکی سے متعلق بالکل واضح ہے جیسے اللہ کے پیغمبر ہیں، جیسے شہداء ہیں، بہت سے صالحین ہیں، ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہم ہیں، اورسارے صحابہ کرام ہیں، اللہ ان کے فوت ہوتے ہی نعمتوں کا معاملہ شروع کرتا ہے۔ اس کا ہم شعور نہیں رکھتے کیوں کہ ہم دنیا میں صرف جسم کے ساتھ زندگی سے واقف ہیں، اور جسم کے بغیر زندگی جس کا ہم شعور نہیں رکھتے، اس میں نعمتیں دی جاتی ہیں، اس کے برعکس وہ لوگ جنہوں نے سرکشی اختیار کی جیسے فرعون ہے، جیسے نمرود ہے، ان لوگوں کے بارے میں بھی قرآن نے صراحت کے ساتھ بتا دیا ہے کہ مرنے کے فورا بعد ان کے ساتھ ایک معاملہ ہونا شروع ہوجاتا ہے. غامدی صاحب کا مؤقف یہی ہے کہ سارا معاملہ روح کےساتھ ہے اور یہ ایک روحانی معاملہ ہے جس سے میں مکمل اتفاق کرتا ہوں۔“

    جناب محمد ہادی صاحب کہتے ہیں
    [pullquote] حَتَّىٰ إِذَا جَاءَ أحَدَھمُ الْمَوْتُ قَالَ رَبِّ ارْجِعُونِ [٢٣:٩٩][/pullquote]

    (یہ لوگ اسی طرح غفلت میں رہیں گے) یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کے پاس موت آجائے گی تو کہے گا کہ اے پروردگار! مجھے پھر (دنیا میں) واپس بھیج دے۔﴿٩٩﴾

    [pullquote]لَعَلِّي أعْمَلُ صَالِحًا فِيمَا تَرَكْتُ ۚ كَلَّا ۚ إنَّھا كَلِمَۃ ھوَ قَائِلُھا ۖ وَمِن وَرَائِھم بَرْزَخٌ إلَىٰ يَوْمِ يُبْعَثُونَ [٢٣:١٠٠] [/pullquote]

    تاکہ میں اس میں جسے چھوڑ آیا ہوں نیک کام کیا کروں۔ ہرگز نہیں۔ یہ ایک ایسی بات ہے کہ وہ اسے زبان سے کہہ رہا ہوگا (اور اس کے ساتھ عمل نہیں ہوگا) اور اس کے پیچھے برزخ ہے (جہاں وہ) اس دن تک کہ (دوبارہ) اٹھائے جائیں گے، (رہیں گے)

    یہ متوفی کا کلام ہے مرنے کے بعد، کیونکہ وہ کہتا ہے کہ اے میرے رب جِس دارالعمل کو میں چھوڑآیا ہوں، وہاں مجھے دوبارہ لوٹادے تاکہ میں صالح اعمال اختیار کروں، عمل کا میدان دنیا ہے۔ اَب غور کریں جب متوفی (وفات شدہ انسان) موت کے سبب دنیا چھوڑتا ہے تو کہاں جاتا ہے؟ پہلے جواب دیا گیا ہے کہ آخرت کی پہلی منزل میں وہاں یہ نفس معدوم نہیں بلکہ موجود ہے، اپنے رب سے کلام کرتا ہے۔ ہاں دنیا والوں کے لیے مردہ ہے، نہ دنیا والوں کی سُن سکتا ہے، نہ ان کو سنا سکتا ہے کیونکہ دونوں کے درمیان برزخ (حجاب) ہے۔ دنیا والے موت کے ذریعے اُس پارجا سکتا ہے، موت کے بغیر نہیں جا سکتا اور مرے ہوئے لوگ اِس پار (دنیا ) میں نہیں آسکتے کیونکہ اَب ان کا تعلق دنیا سے ختم ہو چکا ہے اور اَب وہ آخرت میں ہیں۔ چونکہ عمل کی مہلت ختم ہو چکی ہے تو اللہ اُس کی اس فریاد کو قبول نہیں کرتا تو فرمایا کہ ’’اور ان کے پیچھے آڑ ہے ان کے دوبارہ اٹھائے جانے کے دِن تک‘‘
    مردے اور زندے آپس میں گڈمڈ نہیں ہو سکتے، زندوں کے لیے دنیا ہے اور مردوں کے لیے آخرت ہے، اور برزخ حدِّ فاصل ہے دنیا و آخرت کا۔
    جناب محمد ہادی صاحب کہتے ہیں کہ
    ”جسم ختم ہو جاتا ہے اور سارا معاملہ روح کے ساتھ ہے یعنی انسان کی اصلی شخصیت کے ساتھ ہے ۔ اور یہ اصلی شخصیت انسان کی “میں” ہے ۔ایک مومن مرتے ہی اللہ کی رحمت میں داخل ہوجاتاہے اور کافر مشرک مرتے ہی اللہ کی لعنت اور عذاب میں گرفتار ہوجاتا ہے ۔ جسم ان کا ختم ہو جاتا ہے لیکن یہ عذاب اور راحت روحانی معاملہ ہوتا ہے جس کی کیفیت کو ہم سمجھ نہیں سکتے ہیں اور جنت دوزخ میں داخلہ جب ہوگا یہ جسم اور روح سمیت ہوگا۔قیامت سے پہلے یہ روح جسم کے ساتھ نہیں مل سکتی۔“
    مزید کہتے ہیں کہ
    ”انسان جسم اور روح کے ملاپ سے بنا ہے اور زندگی اسی کو کہتے ہیں.“
    ”موت کیا ہے؟ دراصل موت جسم اور روح کی علیحدگی کا نام ہے.“

    جناب غامدی صاحب بھی کہتے ہیں کہ
    ”سب سے پہلے انسانی قالب یعنی جسم تیار ہوتا ہے اور پھر اللہ اسی جسم میں اپنا امر (روح) پھونک دیتے ہیں، یہ ایک روحانی انتقال کا عمل ہے جو ہوتا ہے، اور یہی انسان کی اصلی شخصیت ہے، اسی شخصیت کو روح سے تعبیر کیا جاتا ہے۔“
    غامدی صاحب کہتے ہیں کہ
    ”قیامت کے دن جسم اور روح سمیت یعنی انسان کی اپنی شخصیت کے ساتھ جنت اور دوزخ جائیں گے۔“

    غامدی صاحب جیسے کہ اوپر بیان ہوچکا ہے، کہتے ہیں کہ اس روحانی معاملات کو ہم سمجھ نہیں سکتے ہیں، کیونکہ ہم اس دنیا کی زندگی جسم سمیت سے واقف ہیں، مرتے ہی جو معاملات ہیں، جو روحانی کیفیت کے ہیں، جو جسم کے بغیر ہے، اس کو ہم سمجھ نہیں سکتے ہیں۔ جناب محمد ہادی صاحب کہتے ہیں کہ جو لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ مردے شعور نہیں رکھتے تو عذاب و راحت کیسے ملتی ہے، انہیں یہ سمجھ جانا چاہیے کہ شعور ایک دنیا کے اعتبار سے ہے اور ایک روحانی اعتبار سے مرنے کے بعد۔ جو شخصیت اس دنیا سے چلی گئی ہے، وہ دنیا کے معاملات کا شعور نہیں رکھتی ہے، وہاں برزخی معاملات جو کہ روحانی ہیں، اسے سمجھتے بھی ہیں اور عذاب و راحت بھی محسوس کرتے ہیں۔ عذاب بھی ہوتا ہے اور راحت بھی ہوتی ہے۔ اس سے انکار کرنا درست نہیں ہے۔

  • زندگی اور موت ساتھ ساتھ – محمد صابر

    زندگی اور موت ساتھ ساتھ – محمد صابر

    محمد صابر انسان دنیا میں خالی ہاتھ آیا ہے اور یہاں سے جانا بھی خالی ہاتھ ہی ہے ـ زندگی اور موت کا چولی دامن کا ساتھ ہے زندگی دکھ سکھ ، راحت و تنگی اور خوشی و غم کا مجموعہ ہے ـ انسان کی زندگی میں ان سبھی چیزوں کا عمل دخل ہے ،اور کیوں نہ ہو انسان کی فطرت ہی ایسی ہے ـ انسان باقی مخلوقات سے اشرف و ارفع ہونے کی وجہ سے اپنے سوچنے ، چیزوں کو مختلف انداز سے دیکھنے پرکھنے اور مشاہدہ کرنے میں اس دنیا میں حیثیت امتیازی مقام رکھتا ہےـ زندگی ایک بیش بہا قیمتی تحفہ ہے ـ یہ ایک بے مثال اور خوبصورت تحفہ ہے ـ کوئی آج تک صحیح معنوں میں زندگی کو دریافت ہی نہیں کر سکا یہاں تک کی ساری ساری عمریں بھی کھپا دئیے مگر پھر بھی کچھ حاصل نہ ہوا ـ
    نہ تھا کچھ تو خدا تھا ، کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا
    دبویا مجھ کو ہونے نے ، نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا

    اور مزید اس کو اس انداز سے بھی دیکھیں :

    اپنے من میں دوپ کر پا جا سوراغ زندگی
    تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن ، اپنا تو بن

    زندگی اور موت کو ہر ایک نے اپنے اپنے انداز میں پیش کیا ہے ـ کسی نے زندگی کو جبر مسلسل کا نام دیا ہے تو کسی نے خوشی اور مسرت کا نام دیا ہے ـ کوئی زندگی سے روٹ گیا ہے تو کوئی ہے جو زندگی کو آس لگائے اپنی دنیا میں مست و مگن ہے ـ

    زندگی جبر مسلسل کی طرح کاٹی ہے
    جانے کس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں

    بہرحال زندگی جتنی بھی طویل ہو ، مگر ایک نہ ایک دن اس کو فنا ہے ـ موت ایک حقیقت ہے جس کا مزا زندگی کو چکھنا ہے ـ زندگی کا ساتھ ہر کوئی دینا چاہتا ہے مگر زندگی ہے کہ کسی کا ساتھ نہیں دے رہی ـ اصل میں زندگی نام ہی فنا کا ہے ـ اپنی ہستی مٹائیں گے تو آپ مرتبہ ومقام پائیں گے ـ

    مٹا دے اپنی ہستی کو اگر کچھ مرتبہ چاہے
    کہ دانہ خاک میں مل کر گل گلزار ہوتا ہے

    زندگی سے روٹھے ہوئے موت کی آرزو کرتے ہیں جبکہ جن کو زندگی پیاری ہو زندگی کی دعا دیتے ہیں ـ زندگی کے بے شمار رنگ ہیں زندگی کی حقیقت کوئی سمجھے تو گلاب کی مانند ہے جو دیکھنے والوں کو اپنی خوبصورتی کے ساتھ خوشبو کی مہک دیتی ہے ـ ایک احساس ایک دلکشی اور تازگی دیتی ہے ـ
    زندگی کو جب کوئی نہ سمجھے بس ایک رواں دواں سی کیفیت کا نام دے تو زندگی درد بے حساب دیتی ہے ـ مزید زندگی کی بات کریں تو یہ ایک قیمتی تاج کی مانند نایاب چیز ہے جس میں طرح طرح کے ہیرے موتی لعل و جواہر سجائے گئے ہیں جو اسی کے سر سجے گا جو ان شرائط مثال کے طور صبر ، محنت ، ہمدردی اور قربانی کے اصولوں پر کار بند رہے گاـ اور ہاں موت بھی ہر وقت زندگی کے آس پاس منڈلاتا رہتا ہے ـ موت اس کیفیت کا نام ہے جہاں سے واپسی ناممکن ہے جہاں آپ سوائے حسرت و ارمان کے اور کچھ کر بھی نہیں سکتے ہیں ـ

    اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے
    مر کہ بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے

    زندگی ایک فلسفہ ہے جس کی گتھی تبھی سلجتھی ہے جب ایک روح کے آسمان کی جانب پرواز کا وقت آتا ہے ـ وگرنہ آپ جتنا بھی چاہو زندگی کی تہہ تک نہیں پہنچ پاؤ گے اس کا اختتام ہی اس کی شروعات ہے ـ حقیقت میں یہ شروع اس وقت ہوتا ہے جب روح جسم کی جگہ کام کرنا شروع کر دے اور انسانی جسم کا کردار کچھ بھی نہ رہے ـ کیا کوئی ہے جو نہیں چاہتا کہ وہ سو سال یا اس سے زیاد زندگی جیئے مگر معزرت کے ساتھ پھر بھی مرنا ہے پھر بھی موت آنی ہے ہر ایک روح کو موت کا مزا چکھنا ہے ـ

  • موت، دیگیں اور معاشرے کا المیہ – دُرّ صدف ایمان

    موت، دیگیں اور معاشرے کا المیہ – دُرّ صدف ایمان

    یوں تو ہمارا معاشرہ بے حس اور بے شمار المیوں سے بھرپور ہے لیکن آج جس المیہ پر الفاظ قلمبند کی جسارت کررہی ہوں، وہ المیہ لوئر مڈل کلاس اور مڈل کلاس میں ازحد پریشانی کا باعث ہے اور اگر دیکھا جائے تو یہ المیہ سنگین صورتحال اختیار کر رہا ہے.
    اگر کہیں کسی خاندان میں موت واقع ہوتی ہے تو میت کی تدفین ہوتے ہی دیگوں کے ڈھکن کھل جاتے ہیں اور وہی احباب جو کچھ دیر پہلے تسلی دیتے ہوئے نظر آرہے تھے، انہیں اپنے کھانے کی، بوٹیوں کی، گرم گرم بریانی کی، فکر ہو جاتی ہے.
    *اس کے بعد اہل خانہ جو غم سے نڈھال ہوتے ہیں، اب وہ بے چارے مصروف میزبانی ہونے پر مجبور ہو جاتے ہیں

    افسوس اس بات کا ہے کہ تعزیت کرنےوالے خود کیوں نہیں سوچتے کہ آیا وہ تعزیت کے لیے آئے ہیں یا پھر دعوت کھانے؟
    اگر شریعت میں ہے کہ میت کے گھر والوں کو کھانا پہنچایا جائے تو یہ کھانا صرف اور صرف میت کے گھر والوں کے لیے ہوتا ہے یا پھر جو دور دراز کے علاقے سے تعزیت کےلیے آئے ہوئے ہوں، ان کےلیے پوری کمیونٹی برادری کےلیے کھانا بنوانا، کھانا کھلانا سب باتوں سے قطع نظر خود غور کریں کس پر بار ہے؟ اور کس پر بوجھ؟
    *میت کے گھر والے یا اگر بالفرض جس کے گھر میں انتقال ہوا ہوتا ہے، جو اس گھر کا واحد کفیل تھا تو جو تھوڑی بہت بھی جمع پونجی موجود بھی ہوتی ہے، وہ اس برادری کی دعوت ِطعام و سفاکیت کی نظر ہو جاتی ہے، اور اگر موجود نہ ہو جمع پونجی تو وہ بے چارے اس غم میںاور برادری کی دعوتِ شیراز کرنے میں قرض دار بھی ہوجاتے ہیں. اور اس طرح میت کے اہل خانہ ہر طرح سے خالی ہاتھ ہو جاتے ہیں جبکہ شرعی طور پر تعزیت کا حکم اس سے بالکل جداگانہ ہے۔

    میت کے گھر جائیں، اہل خانہ کو تسلی و تشفی دیں، خاندان کےقریبی اقارب میں جو مالی طور پر مستحکم ہو، میت کے گھر والوں کے لیے کھانے کا انتظام کرے، دعائے مغفرت و ایصالِ ثواب کا اہتمام کرے، اور اس کے بعد اپنے گھروں کی راہ لیں نہ کہ جنازہ اٹھنے کے بعد دیگوں کے کھلنے کا انتظار کریں اور پھر دسترخوان پر تشریف فرما ہو کر بھرے پیٹ سے دوبارہ ملنے کے اختتامی و رسماً جملے بولیں اور گھر کی طرف جائیں۔ یہ طریقہ نہ اخلاقی طور پو ٹھیک ہے نہ شرعی طور پر معتبر ہے بلکہ انسان کی انسانیت پر حرف اٹھانے والی بات ہے۔

    غرض صرف یہ ہے کہ اگر معاشرے کے رسم و رواج کے مطابق دیگیں آہی گئیں اور اہلخانہ کا کھانا کھانے پر اصرار بھی ہے تو سب اپنے اپنے طور پر عہد کر لیں کہ وہ دو لقمے سے زیادہ نہ کھائیں گے، ان شاءاللہ رفتہ رفتہ کسی نہ کسی دن یہ فرسودہ اور اخلاقی گرواٹ کا باعث رسم ختم ہو ہی جائےگی۔

    ہمیں اپنے آپ کوبدلنا ہے، جبھی اس بگڑے ہوئے نظام میں تبدیلی آ سکے گی اور ایک مستحکم معاشرہ بھی جلد وجود میں آجائے گا۔ اللہ عزوجل سے دعا ہے کہ ہمیں اپنے اصلاح کی توفیق عطا فرمائے اور غلط رسم و رواج سے نجات عطا فرمائے۔ آمین

  • موت ایک اٹل حقیقت – آصف نواز قاسمی

    موت ایک اٹل حقیقت – آصف نواز قاسمی

    اللہ تعالٰی کا فرمان ہے ۔۔ کل نفس ذائقۃالموت۔۔ہر نفس نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے۔ہر ایک کو موت آنی ہے۔۔۔
    ایک دانا کا قول ہے کہ دانشور کو تین چیزیں کبھی فراموش نہیں کرنی چاہئیں:
    پہلی چیز دنیا کا فانی ہونااور اسکے قرب وجوار کا اُجڑ جانا۔
    دسری چیز موت کو کبھی نہیں بھولنا چاہیے۔
    تیسری چیز وہ آفات جن سے کوئی نہیں بچ سکتا۔
    اور منجملہ ہماری حالت اسکے برعکس ہے کہ ہم نے ان تینوں کو ہی فراموش کر رکھا ہے۔
    اس فانی دنیا کے حصول کے لیے ہم نے آخرت کے تمام تر سرمائے کو فراموش کر رکھاہے۔۔اور یہ ذہن میں ہے کہ شاید ہمیشہ اسی دنیا میں رہنا ہے۔اور موت سے غافل ہیں۔۔تعجب ہے کہ قبرستان میں اپنے پیاروں کو دفناتے ہیں ۔لیکن خود کے بارے میں نہیں سوچتے کہ ہم نے بھی ایک نہ ایک دن ادھر ہی آنا ہے۔
    کل میں بیٹھا یہی سوچ رہا تھا۔۔کہ میں مر جائوں گا۔۔یہ زبان سے تو بعض اوقات کہہ دیتا ہوں ۔۔لیکن کیا واقعی سوچا کبھی کہ میں نے مرنا ہے۔۔۔دل نے کبھی کہا؟؟ ایک دفعہ بھی نہیں۔۔
    کبھی سوچا نہ تھا کہ اپنے پیارے ابو جان کو قبر میں اتارنا پڑے گا۔۔
    جو دنیا سے چلے گئے شاید وہ انہیں بھی یقین نہ ہوگا کہ وہ چلے جائیں گے سب کچھ چھوڑ کر۔
    کسی شاعر کے کہے اشعار یاد آگئے۔
    تجھ کو ڈولی میں کر کے سوار جنگل میں لے جائیں گے
    کر رہی ہے قبر انتظار جنگل میں لے جائیں گے
    سب کچھ رہ جائے گا دھرے کا دھرے۔۔بڑے بڑے چلے گئے۔۔موت نے نہیں چھوڑا۔،۔جسے اپنی دولت پہ ناز تھا۔جسے اپنی قوت کا گھمنڈ تھا۔جسے اپنے لشکروں پر بھروسہ تھا۔جسے اپنے تخت شاہی کا زعم تھا۔جسے اپنی عقل پر یقین۔۔جو ہر میدان کا فاتح تھا۔۔لیکن موت سے پچھاڑ دیا۔۔موت کے پنجے سے کوئی نہ بچ سکا۔
    آج جو عمومی بگاڑ نظر آتا ہے معاشرے میں۔یہ فساد اور بگاڑ یہ خون خرابہ ۔۔یہ لوٹ کھسوٹ۔۔اسکی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ۔۔موت کو فراموش کربیٹھے ہیں۔۔۔آج آخرت کی فکر پیدا ہوجائے۔تو یہ تمام خرابیاں یہ تمام برائیاں ختم ہوجائیں۔۔۔
    اسی لیے تو محسنِ کائنات ۔صلی اللہ علیہ وسلم۔۔نے جو حل تجویز فرمایا ۔۔وہ موت کی یاد ہے۔۔
    فرمایا کہ لذتوں کو ختم کرنے والی چیز موت کو یاد کرو۔۔۔
    اور فرمایا کہ عقلمند انسان وہ ہے جو مرنے سے پہلے مرنے کی تیاری کرلے۔۔واقعی اصل عقلمندی یہی ہے کہ سفرِ آخرت کی تیاری کی جائے۔۔ایسا سفر جس سے واپسی نہیں۔۔ایسا سفر جس میں کوئی شریکِ سفر نہیں۔۔ایسا سفر جس میں مادی اشیاء ۔۔یہ دنیا کی چیزیں ساتھ لے جانے کی اجازت نہیں۔۔
    ایسے سفر کے لیے تیاری نہ کرنا۔۔بلکہ غافل ہوجانا ۔۔ بیوقوفی ہے۔۔
    یہ دنیا سرائے دھر مسافرو بخدا یہ کسی کا مکاں نہیں
    جو مقیم اس میں تھے یہاں کہیں آج ان کا نشاں نہیں
    غرور تھا ، نمود تھی ہٹو بچو کی تھی صدا
    پر آج میں تم سے کیا کہوں کہ لحد کا بھی پتہ نہیں
    وہ لوگ جن کے محلوں میں ہزار رنگ کے فانوس تھے
    جھاڑ ہیں انکی قبر پر نشان کچھ بھی بچا نہیں۔۔۔
    اللہ تعالٰی ہم سب کو مرنے سے پہلے مرنے کی تیاری کی توفیق عطاء فرمائے۔آمین

  • انسانی جان نکلنے کے فوراً بعد کیا جانے والا پہلا کام – نورین تبسم

    انسانی جان نکلنے کے فوراً بعد کیا جانے والا پہلا کام – نورین تبسم

    وہ مکمل طور پرمیرے رحم وکرم پر تھے۔ میرے ہاتھ اُن کی آنکھوں کو چھوتے تو کبھی اُن کی ٹھوڑی کو، میری انگلیوں کا لمس اُن کی انگلیوں کو سیدھا کرتا توکبھی میں بہت آرام سے اُن کی گردن کو دھیرے دھیرے حرکت دیتی۔ یہ وقت میری سخت دلی کا متقاضی تھا لیکن میرے ہاتھوں کی نرمی مجھے کوئی بھی سختی کرنے سے روکتی تھی۔ یہ وہ وقت تھا جب اُن کی شریک ِحیات اور بیٹی نے بھی اُن کا ساتھ چھوڑ دیا تھا، وہ خالی خالی نظروں سے مجھے دیکھے جاتیں۔ کچھ دیر بعد ایک پڑوسی کے ہمراہ ڈاکٹر آئے۔ ٹارچ سے آنکھ میں روشنی کی جھلک نہ دیکھ کر اور نبض کی خاموشی جان کر اُلٹے قدموں واپس لوٹ گئے۔گھر میں اس وقت اور کوئی بھی نہ تھا۔ میں نے اپنا کام شروع کیا۔ پٹی دستیاب نہ تھی۔ دکھ کے عالم میں اُن کی پرانی شرٹ کی پٹی پھاڑ کر دھجی کی صورت بنا کر پاؤں کے انگوٹھے باندھے اور پھر ایک اور پٹی ٹھوڑی کے نیچے سے گزار کر چہرے کے گرد باندھی۔ گردن کو موڑ کر داہنی جانب کیا۔

    یہ کسی انسان کی جان نکلنے کے فوراً بعد کیا جانے والا پہلا کام ہے جو اگر اُسی وقت نہ کیا جائے تو میت کے لیے زندہ انسانوں کی طرف سے پہنچنے والی اس سے بڑی سزا اور کوئی نہیں۔ رونے دھونے اور اپنا سرمایۂ حیات ہمیشہ کے لیے چھن جانے کے صدمے کو پس ِپشت ڈال کر اس کے جسم کو مٹی کے حوالے کرنے سے پہلے، اس سے اپنی محبت کا عملی اور آخری ثبوت صرف یہی ہوتا ہے۔ اگر جان نکلنے کے چند منٹوں کے اندر اندر میّت کی آنکھیں بند نہ کی جائیں، ہاتھ سیدھے نہ کیے جائیں، ٹھوڑی کو اونچا کر کے منہ بند نہ کیا جائے، مصنوعی دانت یا بتیسی نکال کر چند سیکنڈز کے لیے اُس کے دونوں ہونٹوں پر اپنی انگلیاں نہ جمائی جائیں،گردن گھما کر داہنی طرف نہ کی جائے اور پاؤں کے انگوٹھے نہ باندھے جائیں تو انسان کا جسم جو جان نکلنے کے بعد اکڑنا شروع ہو جاتا ہے اور جس حالت میں اعضا ہو اسی طور منجمد ہو کر رہ جاتا ہے۔ بعد میں جتنا چاہے کوشش کر لیں وہ اپنی جگہ سے ایک انچ نہیں ہلتا۔ آنکھیں کھلی رہیں یا منہ کھلا رہے تو کچھ دیر بعد ہی بند کرنا تقریباً ناممکن ہو جاتا ہے۔

    اپنی زندگی کے پچھلے چند برسوں میں کئی اجنبی خواتین میت کے ساتھ ساتھ، ماں کی خوشبو لیے ماں اور اپنی حقیقی امی کی آخری سانس کے فوراً بعد میں نے یہی سب کیا تھا۔ لیکن کسی مرد اور وہ بھی جس کے ساتھ میرا کوئی رشتہ نہ تھا، میرے لیے ایک ناقابلِ فراموش لمحہ تھا۔ محرم نامحرم کا خیال آتا تو سوچتی کہ ابھی کچھ دیر پہلے آنے والے محلے دار کیسے پڑھے لکھے دیندار مرد تھے جنہوں نے یہ بھی نہ سوچا کہ گھر میں صرف خواتین ہیں۔ بےشک انہوں نے باہر جا کر دوسرے انتظامات کیے اور محض چند گھنٹوں کے اندر ہی اُن کےجسد ِخاکی کو خاک کے سپرد کرنے کے لیے بھاگ دوڑ بھی کی۔ اللہ اُن کی بےغرض خدمت کا اجر دے لیکن یہ خیال کی بات تھی جو اس وقت ان کے ذہن میں نہیں آیا، وہ خاموشی سے آئے اور دیکھ کر چلے گئے۔

    بحالت ِمجبوری کسی کی جان بچانے کے لیے بہت کچھ جائز ہو جاتا ہے تو جان جس حالت میں عطا کی گئی اُسے مالک کے حوالے کرنے کے وقت پیچھے رہ جانے والوں کا سب سے پہلا قرض یہی ہے۔ کفن دفن اور غسل بعد میں آتے ہیں اور اُس میں محرم نامحرم کے مسائل ہم سب جانتے ہیں۔ یہ عمل قدرت میں مداخلت یا بےجان جسم کے ساتھ زیادتی ہرگز نہیں کہ ہم تو جسم کو ایسی حالت میں رکھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ بالکل نارمل محسوس ہو۔ باقی اس سے آگے بہت لمبی اختلافی بحث ہے کہ کئی علاقوں میں مرنے والے کو دو بار نہلایا جاتا ہے، پہلی بار عام کپڑے پہنا دیے جاتے ہیں اور کفن پہنانے کے وقت دوبارہ نہلایا جاتا ہے اور بعض جگہوں پر تو عورت کے ہاتھوں پر مہندی بھی لگائی جاتی ہے، چاہے وہ کسی بھی عمر میں وفات پا جائے۔ دُنیاوی نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تو میت کا سن کر آنے والے کیا اپنے کیا پرائے سب اس کا چہرہ دیکھنا چاہتے ہیں، اسی پر بس نہیں بلکہ اس کی بیماری یا موت کے سبب اور یا لواحقین کی کم علمی اور بےپروائی کے سبب چہرے پر جو آثار دکھائی دیں، اُن پر اس کے اعمال کی جزا و سزا کا فیصلہ بھی صادر کر دیتے ہیں۔ کبھی ہمیں مرنے والے کا چہرہ ”پرنور“ اور جوان دِکھتا ہے تو کبھی مسکراتا ہوا، کبھی سیاہی مائل یا سپاٹ محسوس ہو تو اس کے کرب کا تعین کرتے ہیں۔ یہ سب کم علمی کے اندازے بلکہ فیصلے ہوتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جان نکلتے ہی انسانی جسم ٹھنڈا ہونے لگتا ہے تو جسم اکڑنے کے ساتھ اس کے پٹھے بھی کھنچ جاتے ہیں، چہرے کی جلد سخت ہونے سے چہرہ تروتازہ لگنے لگتا ہے تو کبھی دل کے بند ہونے سے یا کسی بیماری کے زیرِاثر خون کے دباؤ کی وجہ سے رنگ سیاہ پڑ جاتا ہے۔

    بڑے شہروں میں فلاحی اور رفاہی اداروں کے توسط سے جان نکلنے کے بعد سے تدفین تک کے مرحلوں میں سب سے بنیادی کام میت کو غسل دینا اور کفنانا کوئی بڑا مسئلہ نہیں رہا۔ اپنے جانے والے پیارے کے لیے تدفین سے زیادہ اہم اور ضروری اس کو مسنون طریقے سے غسل دینا اور کفنانا ہے۔ افسوس کا مقام ہے کہ ہم میں سے بہت سے تعلیم و تربیت کے اونچے درجوں پر فائز رہنے والے اپنے عزیز کے ہمیشہ کے لیے آنکھ بند کرتے ہی چاہے صدمے سے بےحال ہو جائیں، آنسو بہا کر اپنے غم کا اظہار کریں لیکن اسےچُھونے سے خوف کھاتے ہیں اور اس کے پہنے کپڑے اتارنے اور نہلانے کے لیے کسی ان جان اور مسجد کے اُسی ملا کی طرف بھاگتے ہیں جس سے ساری زندگی عجیب سے خار رکھتے ہیں۔

    عام خواتین بلکہ اعلیٰ تعلیم یافتہ خواتین میں بھی یہ تعلیم یا اس کا احساس نہ ہونے کے برابر ہے اور ”نہلانے والی“ تلاش کے بعد مل جائے تو اسے عجیب سے نظروں سے دیکھا جاتا ہے۔

    میت کو اسلامی طریقے سے غسل دینے کے ساتھ ساتھ ہمیں کورے لٹھے سے کفن اور اس کے سارے لوازمات بنانے سے آگاہی اشد ضروری ہے۔ اسلام میں عورت کے لیے کفن کم از کم پانچ کپڑوں اور مرد کے لیے تین کپڑوں میں ہونا ضروری ہے۔ عورت کے لیے دو چادر، سر پر اسکارف، کرتہ، اور سینہ بند جبکہ مرد کے لیے دو چادر، اور ایک کرتہ لازمی ہے۔
    مسنون کفن کی تفصیل درج ذیل ہے۔
    مرد کے لیے:
    ۱: بڑی چادر، پونے تین گز لمبی، سوا گز سے ڈیڑھ گز تک چوڑی۔
    ۲: چھوٹی چادر، اڑھائی گز لمبی، سوا گز سے ڈیڑھ گز تک چوڑی۔
    ۳: کفنی یا کرتا، اڑھائی گز لمبا، ایک گز چوڑا۔
    عورت کے کفن میں دو کپڑے مزید ہوتے ہیں۔
    ۱: سینہ بند، دو گز لمبا، سوا گز چوڑا۔
    ۲: اوڑھنی ڈیڑھ گز لمبی، قریباً ایک گز چوڑی۔

    کفن بنانے اور غسل کا طریقہ جاننے کے ساتھ ساتھ ایک بہت اہم مرحلہ ”کفن بچھانے“ کا بھی ہے، جس کا طریق کار جاننا اشد ضروری ہے۔ یہ مرحلہ غسل سے پہلے سرانجام دینا پڑتا ہے۔ سب سے پہلے کفن کی چارپائی کےاطراف میں لگی کنڈی کا رُخ دیکھ کر چارپائی رکھی جائے تاکہ غسل کے بعد لکڑی کے پھٹے سے میت کو آسانی سے اور فوراً منتقل کیا جا سکے۔ اب اس چارپائی پر کفن بچھانے سے پہلے گھر میں استعمال کی عام دُھلی ہوئی چادر کی پٹی بنا کر چارپائی کے درمیان میں اس طور رکھا جائے کہ اِس کی مدد سے میت کو لحد میں اتارنے میں آسانی ہو۔ بعد میں اس پٹی نما چادر کو نکال لیا جاتا ہے۔ چادر کی اس پٹی کے ساتھ اور دونوں اطراف کفن کے لیے لائے گئے لٹھے میں سے تین دھجیاں آر پار لٹکائی جاتی ہیں جو میت لٹانے کے بعد کفن کی چادریں باندھنے کے کام آتی ہیں۔ اب دوسرا مرحلہ چادریں بچھانے کا ہے، چادریں ایک ساتھ ملا کر اس طرح رکھی جائیں کہ سرہانے اور پیر کی طرف کفن کو باندھنے کے لیے اچھا خاصا کپڑا مل جائے۔ اور ساتھ ہی دونوں طرف باندھنے کے لیے کپڑے کی دھجیاں یا ڈوریاں بھی رکھ دی جائیں۔ اب ان چادروں پر سرہانے اور سر ڈالنے کا دھیان رکھتے ہوئے کرتہ بچھایا جائے، کرتے کا اوپر والا حصہ اُٹھا کر پیچھے کر دیا جائے، اب خاتون میت ہے تو سینہ بند اس کی جگہ پر یوں بچھایا جائے کہ میت کے گرد لپیٹا جاسکے اور کرتے میں گلے کی جگہ پر اسکارف یا اوڑھنی رکھ دی جائے تا کہ بعد میں سر ڈھانپ سکیں۔ میت کو غسل دینے کے بعد سب سے مشکل مرحلہ نہلانے کی جگہ سے جنازے کی چارپائی میں منتقل کرنا ہے جس میں میت کے وزن کی وجہ سے محرم رشتہ دار کی مدد کی ضرورت بھی پڑ سکتی ہے۔ اس مرحلے میں میت کو عام چادر سے مکمل طور پر ڈھانپ کر اٹھایا جاتا ہے۔

    اس پوسٹ کے لکھنے کا واحد مقصد پڑھنے والوں کو میت کے اس اکرام سے آگاہ کرنا تھا جس کی میت کو جان نکلنے کے فوراً بعد ضرورت ہوتی ہے ورنہ جانے والا تو ہر ضرورت ہر جذبے سے بےنیاز ہو چکا ہوتا ہے۔ ہم میں سے بہت سے لوگ اس بارے میں نہیں جانتے۔ پڑھے لکھے ڈگری یافتہ ہوں یا جہاں دیدہ عمر رسیدہ، اکثر اوقات سب ہی اپنے پیارے کی جان نکلنے کے بعد اُس کے قریب جانے سے ہچکچاتے ہیں۔ پڑھے لکھوں نے شاید یہ سبق پڑھا نہیں ہوتا اور بڑے اپنے آپ پر یہ وقت آنے کا سوچ کر ڈرتے ہیں۔ ایسے مواقع پر اپنے پرائے کے خیال کو جھٹکتے ہوئے، کسی نیکی کی نیت، اس کے صلے کی توقع کے بغیر اور اپنوں کی خدمت کے جذبے سے ہٹ کر صرف یہ سوچ کر آگے بڑھا جائے کہ ایسا وقت ہم پر بھی آئے گا جب ہم بےیار و مددگار کسی کے منتظر ہوں گے۔ اللہ جس عمل اور خیال کی توفیق دے، اس کو پھیلانا صرف خالص نیت سے بہت ضروری ہے اور ایک علم کے طور پر دوسروں کو اس میں شریک کرنا فرض اولین ہے۔

  • گھر میں فوتگی ہوجائے تو؟ طالبۃ الفردوس

    گھر میں فوتگی ہوجائے تو؟ طالبۃ الفردوس

    موت.
    ہم اس دنیا میں آئے ہیں تو سب ہی کہیں نہ کہیں فنا ہوجانے سے بھاگنے کے باوجود موت کے لیے تیار ہیں.
    موت کیا ہے؟
    کیا کبھی ہنستے مسکراتے ہوئے موت کے بارے میں سوچا ہے؟
    کسی فوتگی کے مردہ جسم کی جگہ اس چارپائی پہ خود کو محسوس کیا؟
    کبھی رات کو سونے سے پہلے تصور کیا کہ یہ ہماری آخری نیند بھی ہوسکتی ہے؟
    یہ جو مر جانے کا غم ہے ناں اسے پالنا پڑتا ہے. اللہ ہنسنے کھلینے اور زندگی جینے سے منع نہیں کرتا، ہاں وہ حد سے بڑھے ہوؤں کو پسند نہیں کرتا.
    روزانہ لاکھوں کی تعداد دنیا میں آتی ہے، اتنی ہی چلی جاتی ہے، یہ آنے جانے کے سلسلے کے ہی ہم مسافر ہیں.
    کہیں کسی مقام پر تو رک کر سوچیں.
    چلیں کبھی نہیں تو ابھی اس پوسٹ کو پڑھتے ہوئے میں آپ کو ایک منٹ دیتی ہوں، اپنی آنکھیں بند کریں، ایک گہرا سانس لیں اور موت کے سناٹے کو اپنے اندر اتاریں.
    باقی پوسٹ اس کے بعد پڑھیں.
    ……………………………………….
    یہ جو جھرجھری آتی ہے ناں! یقین جانیے موت اس سے بھی زیادہ قریب ہے آپ کے، اتنی ہی جلد جتنا آنکھیں بند کر لینا ہے.
    پهر کیا ہے اے بےخبر انسان؟ اللہ تعالیٰ بار بار پوچھتا ہے کون سی چیز تمہیں غافل کرتی ہے؟
    اللہ اللہ!
    یہ ہنسنے کا مقام ہے کہ یہ چند ٹکوں کا موبائل؟
    یہ شودا غافل کرتا ہے؟
    اس ذات سے غافل جو تمہاری زندگی اور موت پر قدرت رکھتا ہے؟
    کیا ہم نے کتنے ہی لوگوں کو ہنستے کھیلتے اپنی آنکھوں سے اس دنیا سے جاتے نہیں دیکھا؟
    کیا موت عمر کی تفریق سے آتی ہے؟
    صرف جوانوں کو؟
    بیماروں کو؟
    بوڑھوں کو؟
    بچوں کو؟
    بیمار مرتا ہے تو کہتے ہیں کہ فلاں بیماری کھا گئی،
    ہائے کینسر! آخری سٹیج پر پتہ چلا.
    بوڑھا مرتا ہے تو کہتے ہیں عمر ہی تھی بیچارے کی.
    جوان مرتا ہے تو کہتے ہیں ہائے ایسے بائک چلاتا نہ حادثہ ہوتا، یوں نہ کرتا یوں نہ کرتا، یوں بچ جاتا یوں بچ جاتا.
    مگر مجھے یہ بتائیں.
    آج تک ہونی کو کوئی ٹال سکا؟
    ایک منٹ اوپر نہ ایک منٹ نیچے، عین اپنے پورے وقت پر.
    ……………………………………….
    موت.
    رابطے ختم ، کنکشن ختم ، مسکراہٹیں ختم، ماں کی گود کی گرماہٹ غائب، باپ کا دست شفقت سرد، بھائیوں کے سہارے مکمل، بہنوں کی آہ و بکا بےسود

    موت.
    آج تو رات اندھیرے سے ڈر جاتے ہیں. برے خواب سے ڈر جاتے ہیں تو فوراً مددگار بلا لیتے ہیں، اماں مجھے ڈر لگ رہا ہے. ابو اس موذی کو بھگاؤ.
    بھیا وہ مجھے ستاتا ہے وغیرہ وغیرہ. …. اور کل ..

    موت..
    ہم سب کو ہی جانا ہے. ہم سب کو ہی تیاری کرنی ہے اس موت کی جو لذتوں کو توڑ دیتی ہے.
    اس حقیقت کا خود کو پیغام نہیں دیں گے تو غافل ہو جائیں گے. دلوں پر زنگ لگ جائےگا. آنکھیں روئیں گی نہیں تو بنجر ہو جائیں گی.
    ……………………………………….
    ہاں ہم سب نے مر جانا ہے. میں نے، آپ نے، ہمارے اہل و عیال نے، سب نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے. پھر یہ کیا رویہ ہوا کہ جیتے جی جن کا ہم دم بھرتے ہیں، جب ان کی روح قبض کر لی جاتی ہے تو ہم ان کو دوسروں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتے ہیں. کیا ہم چاہتے ہیں کہ ہمیں برہنہ حالت میں کوئی غیر دیکھے؟ اور ایسی حالت میں کہ ہم جنبش تک نہ کر سکتے ہوں؟
    ہماری یہی خواہش ہوگی کہ ایسی بےبسی کی حالت میں ہمارا کوئی اپنا ہمارے پاس ہو، جو ہر طرح سے ہمارے پردے کا بھی خیال رکھے اور ہمیں اگلی منزل کے لیے اچھے سے تیار بھی کردے.
    تو ایسی کمائی کر جاؤ کہ کل آپ کو اللہ کے سپرد کرنے والے عمدہ طریقے سے رخصت کریں. یہی دین کی اصل ہے. یہ اطاعت کا مقام ہے. یہی تسلیم و رضا کا حسن ہے. اتنے تھڑ دلے نہ بنیں کہ اپنے اکیلے رہ جانے کے غم میں مہمان کو عمدگی سے رخصت بھی نہ کریں.
    ……………………………………….
    تو اپنے پیاروں کو پورے اعزاز کے ساتھ باپردہ غسل دے کے اپنے رب کی طرف روانہ کرنے کے لیے ازحد ضروری امر ہے. اس کا سیکھنا اور سکھانا باعث اجر و ثواب ہے. غسل میت واجب ہے (بخاری 1849)، یہ رشتہ داری کا تقاضا ہے .
    اللہ تعالیٰ ہمیں ایسے موقع پر صبر کرنے والوں میں شامل کرے. بلند حوصلہ بخشے تاکہ ہم اپنے پیاروں کی آخری رسومات پوری قوت برداشت صبر اور حوصلہ کے ساتھ ادا کر سکیں. اور نبی کریم فرماتے ہیں صبر تو کسی مصبیت کے آغاز میں ہی ہوتا ہے بعد میں تو صبر آ ہی جاتا ہے. یعنی آہ و بکا، گریہ، ماتم، چیخ و پکار کے بعد کہنا کہ ہم نے صبر کیا. نہیں بلکہ مصیبت کے آغاز میں بلند حوصلگی سے خود کو اور دوسروں افراد کو سنبھالنا مؤمنانہ شان ہے. آنکھیں غم سے بہتی ہیں دل نڈھال ہے مگر زبان سے وہی کہنا ہے جس کا حکم زندگی اور موت کے مالک کا ہے.
    ……………………………………….
    غسل میت:
    #ضروری اشیاء:
    برتن، پانی، تختہ، صابن، بیری کے پتے، کافور، مٹی کے ڈھیلے، قینچی، دستانے، روئی، سوتی صاف کپڑا یا تولیہ وغیرہ
    #جگہ کا انتخاب:
    یہ ایک اہم پوائنٹ ہے جس کی طرف بعض اوقات توجہ نہیں دی جاتی. جگہ کے انتخاب میں پہلی بات میت کی آسانی کو مدنظر رکھنا ہے یعنی ایسی جگہ کو اہمیت دیں جہاں سہولت سے میت کو تختہ اور تختہ سے واپس چارپائی پر منتقل کیا جا سکے. خاص طور پر خواتین جو عموماً وزن اٹھانے کی عادی نہیں ہوتیں، وہ میت کو اٹھانے میں بےاحتیاطی کر جاتی ہیں. یاد رکھیے میت کے ساتھ ہر معاملے میں نرمی و نفاست کا معاملہ رکھیں اور اپنے اور میت کے پردے کا خاص خیال رکھیں.
    #غسل سے پہلے کی احتیاطیں:
    * میت کو سہولت و نرمی سے تختہ پر منتقل کیجیے .
    * شور و غل اور بلاوجہ کی اٹا پٹخ سے پرہیز کیجیے.
    * تمام اطراف سے پردے کا ازسرِنو جائزہ لیں.
    * اگر کہیں اضافی چادروں سے پردہ کیا گیا ہے، دیواریں نہیں ہیں تو ان کی مضبوطی جانچ لیجیے.
    * پانی ایک سٹاک کی شکل میں کسی الگ برتن میں لازمی رکھیں.
    * غیر ضروری افراد کو ہٹا دیں.
    طریقہ غسل:
    اجر و ثواب اور اللہ کی رضا کی نیت کرلیں.
    * دستانے پہن لیں.
    * میت کو چادر اوڑھا دیں
    * گریبان سے گھیر کی طرف بغیر کپڑے یا قینچی کے شور کے لباس کا دیجیے.
    * ناک، کان اور اگر آنکھیں کھلی ہیں یا کوئی بیماری ہے روئی رکھ دیں.
    * میت کے پیٹ پر ناف سے نیچے کی طرف ذرا سا دبا کر نرمی سے ہاتھ پھیریں.
    * ہوسکے تو ہلکا سا بٹھا دیں.
    * نرمی اور سہولت کو مدنظر رکھتے ہوئے احتیاط سے واپس لیٹا دیں
    * میت کو استنجا کروائیں اور پردے کا خیال رکھتے ہوئے جسم کو اچھی طرح صاف کریں. مٹی کے ڈھیلوں یا پانی کا استعمال کریں اور نجاست سے پاک کر دیں .
    * دستانے بدل لیجیے
    * وضو کروائیں:
    وضو کرواتے ہوئے اس بات کو مدنظر رکھیں کہ ہوسکے تو کلی کروائیں، وگرنہ کاٹن کی مدد سے جہاں تک ممکن ہو، منہ کا اندرونی حصہ، اسی طرح ناک کان وغیرہ صاف اور گیلی روئی سے صاف کیجیے. سختی مت کیجیے.
    وضو کے بعد:
    نیم گرم پانی میں بیری کے پتے ڈال لیں اور اپنے ہاتھوں کی پشت پر پانی بہا کر اندازہ کیجیے کہ پانی زیادہ گرم تو نہیں. اس کے بعد ہلکا سا کروٹ دے کر پہلے دائیں طرف پانی ڈالیں، پھر بائیں جانب، تین تین بار، کان کے اوپر ہتھیلی رکھی جا سکتی ہے تاکہ پانی اندر نہ جائے. سر کو شیمو یا صابن سے دھوئیں، پورے جسم پر صابن لگائیں.
    بلاوجہ کی تیزی یا چستی کا مظاہرہ مت کریں، سہولت اور نرمی سے صابن لگا کر پانی سے دھو ڈالیں.
    میت کو تین بار، پانچ بار سے زائد دفعہ بھی غسل دیا جاسکتا ہے.
    آخری بار پانی میں کافور ملا لیں. بعض کافور کو غسل کے بعد جسم پر ملنے کے حق میں ہیں. دونوں میں کوئی مضائقہ نہیں.
    میت کا جسم پردے کو مدنظر رکھتے ہوئے خشک کیجیے. دروان غسل کسی عیب کا پتہ چلے تو کہیں بیان نہ کریں. نرمی سہولت اور آسانی سے کفنائیے.
    بعد از غسل:
    اللہ کی رضا کے لیے غسل دینے کے بعد غسل دینے والا غسل کرے. یہ مستحب ہے.

    واللہ اعلم بالصواب – جزاک اللہ

  • عذاب آخرت، قیامت سے پہلے اور مرنے کے بعد – فیاض الدین

    عذاب آخرت، قیامت سے پہلے اور مرنے کے بعد – فیاض الدین

    فیاض الدین بعض لوگ قرآن کی سادہ اور آسان باتوں کی عجیب وغریب تاویلات کرتے ہیں. وہ تاویلات نہ نبی کریم ﷺسے اور نہ صحابہ کرام سے ثابت ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر اگر اللہ نے آدم علیہ السلام کو کہا کہ فلاں درخت کے قریب مت جانا۔ یہاں بات ختم ہو جاتی ہے لیکن بعض لوگ یہ سوال کرتے ہیں یہ کون سا درخت تھا؟ اس کا رنگ کیسا تھا؟ چھوٹا تھا کہ بڑاتھا؟ یہ فضول سوالات ہیں ہم اس کے مکلف ہی نہیں ہیں، ہم سے اس کے متعلق پوچھ نہیں ہوگی۔ اللہ تعالی نے شہیدوں کو زندہ کہا ہے، ہمیں یہ بتایا ہے کہ یہ رزق بھی پاتے ہیں، اب سوال یہ ہے کہ کیسے پاتے ہیں؟ کیسے زندہ ہیں؟ اس کے متعلق اللہ پاک کہتے ہیں کہ تم اس کی حقیقت کو سمجھ نہیں سکتے ہو، تم اس کو جان نہیں سکتے ہو۔ جب اللہ تعالی بتائے کہ تم اس کا شعور نہیں رکھتے اور اس کے باوجود ہم جاننے کی جستجو کرتے ہیں اور اہل علم سے اس طرح کے عجیب و غریب سوالات کرتے ہیں تو ان جیسے لوگوں کے لیے اللہ کا پیغام یہی ہے کہ
    [pullquote]وَلَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِہ عِلْمٌ [١٧:٣٦][/pullquote]

    اور (اے بندے) جس چیز کا تمہیں علم نہ ہو اس کے پیچھے مت پڑو.

    بعض لوگ مرنے کے بعد اور قیامت سے پہلے عذاب اور راحت کے بالکل منکر ہوتے ہیں۔ مزید یہ کہتے ہیں کہ عذاب اور راحت کا معاملہ صرف قیامت کے روز ہی ہونا ہے۔ اس حوالے سے یہ لوگ بھی ایسے ہی بے حقیقت سوالات کرتے ہیں جن کی کوئی حقیقت نہیں ہوتی، ہم ان باتوں کا شعور نہیں رکھتے ہیں۔ مثال کے طور پر انسان کو مرنے کے بعد اگر عذاب یا راحت ملنی ہے تو یہ سوال کریں گے کہ یہ عذاب کس کو ہوتا ہے، روح کو ہوتا ہے یا خود انسان کو؟ یہ عذاب ہوتا کہاں ہے، قبر میں یا کہیں اور؟ یہ بھی اسی طرح کے سوالات ہیں جس کی مثال اوپر دی گئی۔

    بات یہ ہے کہ ہم زندہ اس عذاب یا راحت کی کیفیت کو کیسے جان سکتے ہیں، ہم جب اس جگہ جائیں گے تو معلوم ہوگا، وہاں جانے سے پہلے ہم اس مقام کا ادراک نہیں کر سکتے ہیں۔ یہ ایک انتہائی سادہ سی بات ہے لیکن یہ لوگ قیامت سے پہلے اور مرنے کے بعد عذاب و راحت کے منکر ہوتے ہیں۔ یہ سمجھتے ہیں کہ قیامت سے پہلے کچھ بھی نہیں ہوتا ہے، جو ہونا ہے قیامت کو ہونا ہے اس عقیدے کا جائزہ قرآن کی روشنی میں لیتے ہیں۔
    اللہ پاک فرماتے ہیں
    [pullquote]كَيْفَ يَھدِي اللہ قَوْمًا كَفَرُوا بَعْدَ إيمَانِھمْ وَشَھدُوا أَنَّ الرَّسُولَ حَقٌّ وَجَاءَھمُ الْبَيِّنَاتُ ۚ وَاللہ لَا يَھدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ [٣:٨٦][/pullquote]

    خدا ایسے لوگوں کو کیونکر ہدایت دے جو ایمان لانے کے بعد کافر ہوگئے اور (پہلے) اس بات کی گواہی دے چکے کہ یہ پیغمبر برحق ہے اور ان کے پاس دلائل بھی آگئے اور خدا بے انصافوں کو ہدایت نہیں دیتا

    [pullquote]أولَٰئِكَ جَزَاؤُھمْ أَنَّ عَلَيْھمْ لَعْنَۃ اللہ وَالْمَلَائِكَۃ وَالنَّاسِ أجْمَعِينَ [٣:٨٧][/pullquote]

    ان لوگوں کی سزا یہ ہے کہ ان پر خدا کی اور فرشتوں کی اور انسانوں کی سب کی لعنت ہو

    [pullquote]خَالِدِينَ فِيھا لَا يُخَفَّفُ عَنْھمُ الْعَذَابُ وَلَا ھمْ يُنظَرُونَ [٣:٨٨][/pullquote]
    ہمیشہ اس لعنت میں (گرفتار) رہیں گے ان سے نہ تو عذاب ہلکا کیا جائے گا اور نہ انہیں مہلت دے جائے گی

    جو لوگ ایمان لانے کے بعدکافر ہوگئے، اللہ ایسے لوگوں کوہدایت نہیں کرےگا اور ان لوگوں کا بدلہ یہ ہے کہ ان پر لعنت ہے۔ کن کن کی لعنت ہے؟

    ان پر اللہ کی لعنت ہے، ان پر ملائکہ کی لعنت ہے، اور سارے لوگوں کی لعنت ہے۔

    لعنت کے معنی ہیں اللہ کی رحمت سے دور ہوجانا اور اللہ کے غضب میں مبتلا ہوجانا۔ آگے اللہ بات کو مزید واضح کرتے ہیں کہ اس لعنت میں ہمیشہ رہیں گےاور اس عذاب و غضب اور لعنت میں کوئی کمی نہیں ہوگی۔ اللہ پاک کہتے ہیں اور نہ ان کو مہلت دی جائے گی۔ یاد رہے قیامت کا ذکر نہیں ہو رہا ہے، عام بات ہو رہی ہے۔ دنیا اور آخرت میں ان لوگوں پر اللہ، ملائکہ اور لوگوں کی لعنت ہے۔ ہاں ایک چیز ہوسکتی ہے، اس لعنت و عذاب سے یہ بچ سکتے ہیں۔ اللہ پاک فرماتے ہیں
    [pullquote]إلَّا الَّذِينَ تَابُوا مِن بَعْدِ ذَٰلِكَ [/pullquote]

    اگر یہ توبہ کریں اپنی اصلاح کریں تو اس لعنت سے بچ سکتے ہیں۔ یہ لعنت ہمیشہ رہے گی۔ اب مرنے کے بعد قیامت تک یہ لعنت رہے گی، اس میں کوئی کمی نہیں ہوگی اور اس طرح ہوتے ہوتے قیامت آجائے گی اور پھر مالک فرماتے ہیں
    [pullquote]سَنُعَذِّبُھم مَّرَّتَيْنِ ثُمَّ يُرَدُّونَ إلَىٰ عَذَابٍ عَظِيمٍ [/pullquote]

    ہم ان کوعذاب عظیم سے پہلے دو مرتبہ عذاب دیں گے اور پھر ان کو عذاب عظیم کی طرف لوٹا دیا جائےگا۔ سورہ توبہ

    یہ بات عیاں ہوئی کہ قیامت سے پہلے بھی ایسے لوگ آرام سے نہیں ہوں گے اللہ کی لعنت ہی میں ہوں گے۔
    ایک مومن اور کافر مشرک کا حال ایک جیسے نہیں ہوسکتا۔ مرتے ہی کافر مشرک اللہ کے غضب اور لعنت میں گرفتار ہوتا ہے اور مومن اللہ کی رحمت میں آجاتا ہے۔ قیامت سے پہلے اور مرنے کے بعد اگر کچھ بھی نہیں ہے تو مؤمن اور کافر و مشرک کی موت دونوں کی ایک جیسی ہوگی جو کہ اللہ کی کتاب لاریب کے 180 ڈگری خلاف ہے۔ اللہ کہتے ہیں کہ
    [pullquote]أمْ حَسِبَ الَّذِينَ اجْتَرَحُوا السَّيِّئَاتِ أَن نَّجْعَلَھمْ كَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ سَوَاءً مَّحْيَاھمْ وَمَمَاتُھمْ ۚ سَاءَ مَا يَحْكُمُونَ [٤٥:٢١][/pullquote]

    جو لوگ برے کام کرتے ہیں، کیا وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ ہم ان کو ان لوگوں جیسا کردیں گے جو ایمان لائے اور عمل نیک کرتے رہے اور ان کی زندگی اور موت یکساں ہوگی۔ یہ جو دعوے کرتے ہیں برے ہیں۔

    اہل علم کے نزدیک جو قرآن کا جو ہم ترجمہ کرتے ہیں اس ترجمے سے ہم قرآن کے قریب تو آجاتے ہیں مگر وہ پورا حق ادا نہیں ہوتا جس سے لوگ دھوکہ کھا جاتے ہیں. اس آیت میں لفظ ”محیا“ آیا ہے یہ انسان کی وہ حالت ہے جب یہ زندہ ہے اور ”ممات“ وہ حالت ہے جب یہ مر جاتا ہے موت اس پر آجاتی ہے، اللہ پاک فرماتے ہیں موت اور زندگی مؤمن اور کافر کی برابر نہیں ہے، نہ دنیا میں نہ موت کے بعد اور نہ قیامت میں اور نہ قیامت کے بعد۔ ”محیا“ اور ”ممات“ میں یہ سب چیزیں آگئیں۔ نزاع کا وقت، موت کے بعد، قیامت میں اور اس طرح قیامت کے بعد دونوں کے حال میں فرق ہوگا۔ آگے اللہ کیا خوبصورت فتوی دیتے ہیں کہ جو سمجھتے ہیں کہ یہ موت اور زندگی دونوں کی یکساں ہے، ان کی یہ بات ان کا یہ عقیدہ بہت برا ہے۔ یہ فیصلہ اللہ کو پسند نہیں ہے، یہ بہت برا فیصلہ ہے۔ دونوں کی حالت قیامت سے پہلے کبھی بھی یکساں نہیں ہو سکتی ہے، اس لیے اللہ فرماتے ہیں۔
    إنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا وَمَاتُوا وَھمْ كُفَّارٌ أولَٰئِكَ عَلَيْھمْ لَعْنَۃ اللہ وَالْمَلَائِكَۃ وَالنَّاسِ أجْمَعِينَ [٢:١٦١]

    جو لوگ کافر ہوئے اور کافر ہی مرے ایسوں پر خدا کی اور فرشتوں اور لوگوں کی سب کی لعنت

    خَالِدِينَ فِيھا ۖ لَا يُخَفَّفُ عَنْھمُ الْعَذَابُ وَلَا ھمْ يُنظَرُونَ [٢:١٦٢]
    وہ ہمیشہ اسی (لعنت) میں (گرفتار) رہیں گے۔ ان سے نہ تو عذاب ہی ہلکا کیا جائے گا اور نہ انہیں (کچھ) مہلت ملے گی.

    میرے مالک نے کیا عظیم الشان بات کہی ہے کہ جو لوگ کافر ہیں اور وہ مر جاتے ہیں تو مرتے ہی اللہ کی لعنت میں گرفتار ہوجاتے ہیں اور یہ لعنت کم نہیں ہوگی۔ یہاں قیامت کی بحث نہیں چل رہی ہے، انہیں بتایا جارہا ہے کہ اگر اس کفر کی حالت میں موت آئی تو مرتے ہی اللہ کی گرفت ہے۔ قرآن کی ان آیتوں سے ثابت ہے کہ مرنے کے بعد اور قیامت سے پہلے عذاب و راحت ہوتی ہے، اس سے انکار کرنا درست نہیں ہے۔

  • عذاب و راحت کے منکرین کے اعتراضات کا جواب – فیاض الدین

    عذاب و راحت کے منکرین کے اعتراضات کا جواب – فیاض الدین

    %d9%81%db%8c%d8%a7%d8%b6-%d8%a7%d9%84%d8%af%db%8c%d9%86 کچھ لوگوں (مسلمانوں سے ہی نکلا ہوا ایک گروہ) کا کہنا ہے کہ قیامت سے پہلے اور موت کے بعد جو دورانیہ ہے، اس میں عذاب ہوتا ہے نہ راحت ہوتی ہے۔ عذاب و راحت قیامت کے دن ہوگا۔ قیامت سے پہلے کچھ نہیں ہوگا۔ یہ عام لوگوں کے ذہنوں میں اشکالات پیدا کرتے ہیں اور ایسے اعتراضات کرتے ہیں جن سے عام آدمی پریشان ہو جاتا ہے اور بعض اوقات ایسا بھی ہوجاتا ہے کہ ان کے اعتراضات کی وجہ سے الحاد کی طرف جانے کا راستہ کھل جاتا ہے۔

    اعتراض: موت کے بعد عذاب و راحت کو تسلیم کرنے سے تیسری زندگی ثابت ہوتی ہے اور یہ قرآن کے خلاف ہے، قرآن میں اللہ نے دو موت اور دو زندگیوں کا ذکر کیا ہے۔
    جواب: یقینا اللہ پاک نے قرآن میں دو موت اور دو زندگیوں کا ذکر فرمایا ہے، تیسری موت اور زندگی نہیں، سوائے خرق عادت واقعات کے، موت کے بعد راحت و عذاب حالتِ موت ہی میں ہوتا ہے اور اس پر اللہ قادر ہے۔ سورہ بنی اسرائیل آیت 75 دیکھیے، مرنے کے بعد آلِ فرعون کو صبح و شام آگ پر پیش کیا جاتا ہے۔ تو جس طرح حالت موت میں اللہ آل فرعون کو عذاب دینے پر قادر ہے، اسی طرح وہ اللہ تمام کافروں، مشرکوں کو حالت موت میں عذاب دینے پر قادر ہے۔

    اعتراض: قرآن میں اللہ نے قیامت کا ذکر کیا ہے کہ اس دن حساب ہوگا، نامہ اعمال ملیں گے، جنت یا جہنم میں داخلہ ہوگا تو اس سے پہلے کیسا عذاب؟
    جواب: قران میں اللہ نے قیامت کے عذاب کے ذکر کے ساتھ دنیا کے عذاب اور بعدالموت القیامتہ کے عذاب کا ذکر فرمایا ہے جبکہ آپ نے قیامت کے عذاب کے ساتھ دنیا کے عذاب کو تسلیم کر لیا ہے۔ اگر قیامت کے عذاب کے علاوہ دنیا کا عذاب تسلیم کر لیا جائے جبکہ ابھی حساب کتاب نہیں ہوا، نامہ اعمال نہیں ملے تو پھر بعدالموت کے عذاب کا انکار کیوں؟ جبکہ یہ عذاب بھی قرآن سے ثابت ہے۔

    اعتراض: جب انسان مر جائے اس میں حِس باقی نہیں رہتی تو یہ عذاب کو کیسے محسوس کرے گا؟
    جواب: جب آپ نے شہداء کی راحت اور آل فرعون کے عذاب کو تسلیم کرلیا ہے جبکہ ان پر موت آگئی ہے کیونکہ موت سے مستثنی صرف ایک اللہ کی ذات ہے۔ شہداء کے ان جسموں میں اور آلِ فرعون کے ان دنیاوی جسموں میں بھی حِس باقی نہیں رہی تو پھر شہداء راحت کو محسوس کرتے ہیں، اسی طرح دیگر سب لوگ حالت موت میں راحت و عذاب محسوس کرتے ہیں، یہاں اللہ پاک کی قدرت کا انکار کیوں؟

    اعتراض: قیامت کے دن کفار کہیں گے ”ہائے افسوس ہمیں ہماری خواب گاہوں سے کس نے اٹھایا“ سورہ یاسین۔ اگر حالتِ موت میں عذاب ہوتا تو کافر اس طرح کیوں کہتے ہیں؟
    جواب : [pullquote]قَالُوا يَا وَيْلَنَا مَن بَعَثَنَا مِن مَّرْقَدِنَا[/pullquote]
    ”یہ بولیں گے ہائے افسوس ہمیں ہماری خواب گاہوں سے کس نے اٹھایا“، یہاں ”مرقد“ کا لفظ ”مرقود“سے ہے جس کے معنی نیند کے ہیں۔ سورہ کہف میں اصحاف کہف کے بارے ہے”وھم ورقود“، اس آیت میں خوب وضاحت ہے کہ کفار بھی اس بات کا اقرار کریں گے کہ ہمیں نیند سے کس نے جگایا ہے۔ حالت نیند میں اللہ انسانی نفس قبض کرلیتا ہے، اس کے باوجود وہ حالت نیند میں اچھے برے خواب دیکھتا رہتا ہے۔،تو پھر حالت موت میں عذاب و راحت کے پیش ہونے کا انکار کیوں؟ رہی یہ بات کہ وہ افسوس کریں گے تو یہ قیامت کے دن شدت عذاب کی وجہ سے ہوگا، ان افسوس کرنے والے کفار میں آلِ فرعون بھی ہوں گے جبکہ آلِ فرعون کے عذاب کو تو آپ نے تسلیم کرلیا ہے۔

    اعتراض: ایک شخص نوح علیہ السلام کے زمانہ میں کفر کی حالت میں مر گیا اور عذاب میں گرفتار ہوگیا جبکہ دوسرا شخص قرب قیامت مرا، وہ تھوڑی سی دیر میں عذاب میں رہا تو کیا یہ نا انصافی نہ ہوگی؟
    جواب: یہ ناانصافی نہیں بلکہ یہ اللہ پاک کا قانون عدل ہے۔ ہر انسان کو وہ دنیا میں چند سال کی مہلت دیتا ہے، اگر وہ اس آزمائش میں کامیاب ہوجائے تو اس کے لیے ہمیشہ راحت ہے، اور اگر وہ اس آزمائش میں ناکام ہو جائے تو ہمیشہ کا عذاب ہے۔ اب کسی کی آزمائش اس نے نوحؑ کے دور میں کی تو وہ کسی کی آزمائش قرب قیامت کرےگا۔ کیا یہ نہ انصافی نہیں کہ ایک شخص نوحؑ کے دور میں ایمان لایا اور قیامت تک وہ جنت سے محروم رہا جبکہ دوسرا قرب قیامت ایمان لایا اور پھر فوراََ اسے جنت مل گئی، کیا یہ نا انصافی نہیں کہ شہداء کو تو ان کے اعمال کے اجر کا صلہ مل رہا ہے لیکن باقی تمام مؤمنین قیامت تک اپنے اعمال کے اجر سے محروم ہیں۔ کیا یہ ناانصافی نہیں کہ آل فرعون کو تو صبح شام آگ پر پیش کیا جاتا ہے جب کہ تمام کفر مشرک عذاب سے بچے ہوئے ہیں۔ درست بات یہ ہے کہ اللہ پاک اس بات پر قادر ہے کہ ایک منٹ کو ہزارو ں سال محسوس کرائے اور ہزاروں سالوں کو ایک منٹ محسوس کرائے۔ قرآن میں اس کی بہت سی مثالیں ہیں۔

    اعتراض: سورہ البقرہ میں ایک شخص کا واقعہ ہے کہ اللہ پاک نے اسے سوسال تک حالت موت میں رکھا، جب اسے زندہ کیا اور پوچھا کتنا عرصہ تم حالت موت میں تھے تو اس نے کہا کہ ایک دن یا دن کا کچھ حصہ، اگر حالت موت میں کچھ ہوتا تو وہ سو سال کو ایک دن یا دن کاکچھ حصہ نہ کہتے۔
    جواب: سورہ کہف میں اللہ پاک نے اصحاب کہف کا واقعہ بیان فرمایا ہے۔ تین سو نو سال اللہ نے انہیں سلائے رکھا۔ تین سو نوسال سوتے رہے، جب انہیں اٹھایا گیا اور پوچھا گیا کتنے عرصہ تم یہاں رہے توکہنے لگے ایک دن یا دن کا کچھ حصہ۔ جبکہ اصحاب کہف حالت موت میں نہیں حالت نیند میں تھے تو معلوم ہوا کہ نہ صرف حالت موت میں بلکہ حالت نیند میں بھی گزرے ہوئے وقت کا علم نہیں ہوتا۔ جبکہ حالت نیند میں انسان زندہ ہوتا ہے اور اچھے اور برے خواب بھی دیکھتا ہے۔ سورہ البقرہ اور سورہ الکہف کے ان واقعات میں علم غیب کی نفی ہے۔

    خلاصہ بحث یہ ہے کہ جب انسان مر جاتا ہے تو مرتے وقت ہی اس کی آخرت شروع ہوجاتی ہے اور جو نیک اور مومن ہوتا ہے اسے راحت و انعام کی خوش خبری دے دی جاتی ہے۔ اور جو کافر، مشرک اور گناہگار ہوتا ہے اسے بوقتِ موت ہی عذاب کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ البتہ مرنے کے فوراََ بعد اور قیامت سے پہلے یہ راحت و عذاب کیسا ہے؟ اس کی نوعیت کیا ہے؟ یہ غیب کا معاملہ ہے؟ ہم اس کا ادراک نہیں کر سکتے۔