وہ مکمل طور پرمیرے رحم وکرم پر تھے۔ میرے ہاتھ اُن کی آنکھوں کو چھوتے تو کبھی اُن کی ٹھوڑی کو، میری انگلیوں کا لمس اُن کی انگلیوں کو سیدھا کرتا توکبھی میں بہت آرام سے اُن کی گردن کو دھیرے دھیرے حرکت دیتی۔ یہ وقت میری سخت دلی کا متقاضی تھا لیکن میرے ہاتھوں کی نرمی مجھے کوئی بھی سختی کرنے سے روکتی تھی۔ یہ وہ وقت تھا جب اُن کی شریک ِحیات اور بیٹی نے بھی اُن کا ساتھ چھوڑ دیا تھا، وہ خالی خالی نظروں سے مجھے دیکھے جاتیں۔ کچھ دیر بعد ایک پڑوسی کے ہمراہ ڈاکٹر آئے۔ ٹارچ سے آنکھ میں روشنی کی جھلک نہ دیکھ کر اور نبض کی خاموشی جان کر اُلٹے قدموں واپس لوٹ گئے۔گھر میں اس وقت اور کوئی بھی نہ تھا۔ میں نے اپنا کام شروع کیا۔ پٹی دستیاب نہ تھی۔ دکھ کے عالم میں اُن کی پرانی شرٹ کی پٹی پھاڑ کر دھجی کی صورت بنا کر پاؤں کے انگوٹھے باندھے اور پھر ایک اور پٹی ٹھوڑی کے نیچے سے گزار کر چہرے کے گرد باندھی۔ گردن کو موڑ کر داہنی جانب کیا۔
یہ کسی انسان کی جان نکلنے کے فوراً بعد کیا جانے والا پہلا کام ہے جو اگر اُسی وقت نہ کیا جائے تو میت کے لیے زندہ انسانوں کی طرف سے پہنچنے والی اس سے بڑی سزا اور کوئی نہیں۔ رونے دھونے اور اپنا سرمایۂ حیات ہمیشہ کے لیے چھن جانے کے صدمے کو پس ِپشت ڈال کر اس کے جسم کو مٹی کے حوالے کرنے سے پہلے، اس سے اپنی محبت کا عملی اور آخری ثبوت صرف یہی ہوتا ہے۔ اگر جان نکلنے کے چند منٹوں کے اندر اندر میّت کی آنکھیں بند نہ کی جائیں، ہاتھ سیدھے نہ کیے جائیں، ٹھوڑی کو اونچا کر کے منہ بند نہ کیا جائے، مصنوعی دانت یا بتیسی نکال کر چند سیکنڈز کے لیے اُس کے دونوں ہونٹوں پر اپنی انگلیاں نہ جمائی جائیں،گردن گھما کر داہنی طرف نہ کی جائے اور پاؤں کے انگوٹھے نہ باندھے جائیں تو انسان کا جسم جو جان نکلنے کے بعد اکڑنا شروع ہو جاتا ہے اور جس حالت میں اعضا ہو اسی طور منجمد ہو کر رہ جاتا ہے۔ بعد میں جتنا چاہے کوشش کر لیں وہ اپنی جگہ سے ایک انچ نہیں ہلتا۔ آنکھیں کھلی رہیں یا منہ کھلا رہے تو کچھ دیر بعد ہی بند کرنا تقریباً ناممکن ہو جاتا ہے۔
اپنی زندگی کے پچھلے چند برسوں میں کئی اجنبی خواتین میت کے ساتھ ساتھ، ماں کی خوشبو لیے ماں اور اپنی حقیقی امی کی آخری سانس کے فوراً بعد میں نے یہی سب کیا تھا۔ لیکن کسی مرد اور وہ بھی جس کے ساتھ میرا کوئی رشتہ نہ تھا، میرے لیے ایک ناقابلِ فراموش لمحہ تھا۔ محرم نامحرم کا خیال آتا تو سوچتی کہ ابھی کچھ دیر پہلے آنے والے محلے دار کیسے پڑھے لکھے دیندار مرد تھے جنہوں نے یہ بھی نہ سوچا کہ گھر میں صرف خواتین ہیں۔ بےشک انہوں نے باہر جا کر دوسرے انتظامات کیے اور محض چند گھنٹوں کے اندر ہی اُن کےجسد ِخاکی کو خاک کے سپرد کرنے کے لیے بھاگ دوڑ بھی کی۔ اللہ اُن کی بےغرض خدمت کا اجر دے لیکن یہ خیال کی بات تھی جو اس وقت ان کے ذہن میں نہیں آیا، وہ خاموشی سے آئے اور دیکھ کر چلے گئے۔
بحالت ِمجبوری کسی کی جان بچانے کے لیے بہت کچھ جائز ہو جاتا ہے تو جان جس حالت میں عطا کی گئی اُسے مالک کے حوالے کرنے کے وقت پیچھے رہ جانے والوں کا سب سے پہلا قرض یہی ہے۔ کفن دفن اور غسل بعد میں آتے ہیں اور اُس میں محرم نامحرم کے مسائل ہم سب جانتے ہیں۔ یہ عمل قدرت میں مداخلت یا بےجان جسم کے ساتھ زیادتی ہرگز نہیں کہ ہم تو جسم کو ایسی حالت میں رکھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ بالکل نارمل محسوس ہو۔ باقی اس سے آگے بہت لمبی اختلافی بحث ہے کہ کئی علاقوں میں مرنے والے کو دو بار نہلایا جاتا ہے، پہلی بار عام کپڑے پہنا دیے جاتے ہیں اور کفن پہنانے کے وقت دوبارہ نہلایا جاتا ہے اور بعض جگہوں پر تو عورت کے ہاتھوں پر مہندی بھی لگائی جاتی ہے، چاہے وہ کسی بھی عمر میں وفات پا جائے۔ دُنیاوی نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تو میت کا سن کر آنے والے کیا اپنے کیا پرائے سب اس کا چہرہ دیکھنا چاہتے ہیں، اسی پر بس نہیں بلکہ اس کی بیماری یا موت کے سبب اور یا لواحقین کی کم علمی اور بےپروائی کے سبب چہرے پر جو آثار دکھائی دیں، اُن پر اس کے اعمال کی جزا و سزا کا فیصلہ بھی صادر کر دیتے ہیں۔ کبھی ہمیں مرنے والے کا چہرہ ”پرنور“ اور جوان دِکھتا ہے تو کبھی مسکراتا ہوا، کبھی سیاہی مائل یا سپاٹ محسوس ہو تو اس کے کرب کا تعین کرتے ہیں۔ یہ سب کم علمی کے اندازے بلکہ فیصلے ہوتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جان نکلتے ہی انسانی جسم ٹھنڈا ہونے لگتا ہے تو جسم اکڑنے کے ساتھ اس کے پٹھے بھی کھنچ جاتے ہیں، چہرے کی جلد سخت ہونے سے چہرہ تروتازہ لگنے لگتا ہے تو کبھی دل کے بند ہونے سے یا کسی بیماری کے زیرِاثر خون کے دباؤ کی وجہ سے رنگ سیاہ پڑ جاتا ہے۔
بڑے شہروں میں فلاحی اور رفاہی اداروں کے توسط سے جان نکلنے کے بعد سے تدفین تک کے مرحلوں میں سب سے بنیادی کام میت کو غسل دینا اور کفنانا کوئی بڑا مسئلہ نہیں رہا۔ اپنے جانے والے پیارے کے لیے تدفین سے زیادہ اہم اور ضروری اس کو مسنون طریقے سے غسل دینا اور کفنانا ہے۔ افسوس کا مقام ہے کہ ہم میں سے بہت سے تعلیم و تربیت کے اونچے درجوں پر فائز رہنے والے اپنے عزیز کے ہمیشہ کے لیے آنکھ بند کرتے ہی چاہے صدمے سے بےحال ہو جائیں، آنسو بہا کر اپنے غم کا اظہار کریں لیکن اسےچُھونے سے خوف کھاتے ہیں اور اس کے پہنے کپڑے اتارنے اور نہلانے کے لیے کسی ان جان اور مسجد کے اُسی ملا کی طرف بھاگتے ہیں جس سے ساری زندگی عجیب سے خار رکھتے ہیں۔
عام خواتین بلکہ اعلیٰ تعلیم یافتہ خواتین میں بھی یہ تعلیم یا اس کا احساس نہ ہونے کے برابر ہے اور ”نہلانے والی“ تلاش کے بعد مل جائے تو اسے عجیب سے نظروں سے دیکھا جاتا ہے۔
میت کو اسلامی طریقے سے غسل دینے کے ساتھ ساتھ ہمیں کورے لٹھے سے کفن اور اس کے سارے لوازمات بنانے سے آگاہی اشد ضروری ہے۔ اسلام میں عورت کے لیے کفن کم از کم پانچ کپڑوں اور مرد کے لیے تین کپڑوں میں ہونا ضروری ہے۔ عورت کے لیے دو چادر، سر پر اسکارف، کرتہ، اور سینہ بند جبکہ مرد کے لیے دو چادر، اور ایک کرتہ لازمی ہے۔
مسنون کفن کی تفصیل درج ذیل ہے۔
مرد کے لیے:
۱: بڑی چادر، پونے تین گز لمبی، سوا گز سے ڈیڑھ گز تک چوڑی۔
۲: چھوٹی چادر، اڑھائی گز لمبی، سوا گز سے ڈیڑھ گز تک چوڑی۔
۳: کفنی یا کرتا، اڑھائی گز لمبا، ایک گز چوڑا۔
عورت کے کفن میں دو کپڑے مزید ہوتے ہیں۔
۱: سینہ بند، دو گز لمبا، سوا گز چوڑا۔
۲: اوڑھنی ڈیڑھ گز لمبی، قریباً ایک گز چوڑی۔
کفن بنانے اور غسل کا طریقہ جاننے کے ساتھ ساتھ ایک بہت اہم مرحلہ ”کفن بچھانے“ کا بھی ہے، جس کا طریق کار جاننا اشد ضروری ہے۔ یہ مرحلہ غسل سے پہلے سرانجام دینا پڑتا ہے۔ سب سے پہلے کفن کی چارپائی کےاطراف میں لگی کنڈی کا رُخ دیکھ کر چارپائی رکھی جائے تاکہ غسل کے بعد لکڑی کے پھٹے سے میت کو آسانی سے اور فوراً منتقل کیا جا سکے۔ اب اس چارپائی پر کفن بچھانے سے پہلے گھر میں استعمال کی عام دُھلی ہوئی چادر کی پٹی بنا کر چارپائی کے درمیان میں اس طور رکھا جائے کہ اِس کی مدد سے میت کو لحد میں اتارنے میں آسانی ہو۔ بعد میں اس پٹی نما چادر کو نکال لیا جاتا ہے۔ چادر کی اس پٹی کے ساتھ اور دونوں اطراف کفن کے لیے لائے گئے لٹھے میں سے تین دھجیاں آر پار لٹکائی جاتی ہیں جو میت لٹانے کے بعد کفن کی چادریں باندھنے کے کام آتی ہیں۔ اب دوسرا مرحلہ چادریں بچھانے کا ہے، چادریں ایک ساتھ ملا کر اس طرح رکھی جائیں کہ سرہانے اور پیر کی طرف کفن کو باندھنے کے لیے اچھا خاصا کپڑا مل جائے۔ اور ساتھ ہی دونوں طرف باندھنے کے لیے کپڑے کی دھجیاں یا ڈوریاں بھی رکھ دی جائیں۔ اب ان چادروں پر سرہانے اور سر ڈالنے کا دھیان رکھتے ہوئے کرتہ بچھایا جائے، کرتے کا اوپر والا حصہ اُٹھا کر پیچھے کر دیا جائے، اب خاتون میت ہے تو سینہ بند اس کی جگہ پر یوں بچھایا جائے کہ میت کے گرد لپیٹا جاسکے اور کرتے میں گلے کی جگہ پر اسکارف یا اوڑھنی رکھ دی جائے تا کہ بعد میں سر ڈھانپ سکیں۔ میت کو غسل دینے کے بعد سب سے مشکل مرحلہ نہلانے کی جگہ سے جنازے کی چارپائی میں منتقل کرنا ہے جس میں میت کے وزن کی وجہ سے محرم رشتہ دار کی مدد کی ضرورت بھی پڑ سکتی ہے۔ اس مرحلے میں میت کو عام چادر سے مکمل طور پر ڈھانپ کر اٹھایا جاتا ہے۔
اس پوسٹ کے لکھنے کا واحد مقصد پڑھنے والوں کو میت کے اس اکرام سے آگاہ کرنا تھا جس کی میت کو جان نکلنے کے فوراً بعد ضرورت ہوتی ہے ورنہ جانے والا تو ہر ضرورت ہر جذبے سے بےنیاز ہو چکا ہوتا ہے۔ ہم میں سے بہت سے لوگ اس بارے میں نہیں جانتے۔ پڑھے لکھے ڈگری یافتہ ہوں یا جہاں دیدہ عمر رسیدہ، اکثر اوقات سب ہی اپنے پیارے کی جان نکلنے کے بعد اُس کے قریب جانے سے ہچکچاتے ہیں۔ پڑھے لکھوں نے شاید یہ سبق پڑھا نہیں ہوتا اور بڑے اپنے آپ پر یہ وقت آنے کا سوچ کر ڈرتے ہیں۔ ایسے مواقع پر اپنے پرائے کے خیال کو جھٹکتے ہوئے، کسی نیکی کی نیت، اس کے صلے کی توقع کے بغیر اور اپنوں کی خدمت کے جذبے سے ہٹ کر صرف یہ سوچ کر آگے بڑھا جائے کہ ایسا وقت ہم پر بھی آئے گا جب ہم بےیار و مددگار کسی کے منتظر ہوں گے۔ اللہ جس عمل اور خیال کی توفیق دے، اس کو پھیلانا صرف خالص نیت سے بہت ضروری ہے اور ایک علم کے طور پر دوسروں کو اس میں شریک کرنا فرض اولین ہے۔
تبصرہ لکھیے