Tag: لاک ڈاؤن

  • عوام ٹھاٹھیں نہیں مار سکے-جاوید چوہدری

    عوام ٹھاٹھیں نہیں مار سکے-جاوید چوہدری

    566527-JavedChaudhryNew-1469464911-239-640x480

    حقائق تلخ ہیں لیکن حقائق ‘ حقائق ہیں اور عمران خان کو اب یہ حقائق تسلیم کر لینے چاہئیں۔

    عمران خان نے دعویٰ کیا تھا عوام کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر دو نومبر کو اسلام آباد پہنچے گا لیکن سمندر نے ٹھاٹھیں ماریں اور نہ ہی یہ اسلام آباد پہنچا‘ بلوچستان ملک کا محروم ترین صوبہ ہے‘ یہ صوبہ 70برس سے محرومی چن رہا ہے‘بلوچ پنجابی قیادت‘ پنجابی رویوں اور پنجابی طرز عمل کے خلاف ہیں لیکن اس تمام تر نفرت اور اختلاف کے باوجود پورے بلوچستان سے کوئی قافلہ اسلام آباد نہیں آیا‘ عوام کے ٹھاٹھیں مارتے سمندر میں کوئی بلوچی گروپ شامل نہیں ہوا‘رند قبیلہ بلوچستان‘ سندھ اور جنوبی پنجاب کا سب سے بڑا قبیلہ ہے‘ لاکھوں لوگ اس قبیلے میں شامل ہیں۔

    سردار یار محمد رند اس قبیلے کے سردار ہیں‘ یہ اگر اپنے قبیلے ہی کو لے آتے تو وفاقی دارالحکومت میں تل دھرنے کی جگہ نہ بچتی لیکن یار محمد رند اکیلے دکھائی دیتے رہے‘ یہ اپنے لوگوں کو بھی باہر نہیں نکال سکے‘ اس کا کیا مطلب ہوا؟ اس کا مطلب ہوا بلوچستان عمران خان کے اس پاکستان کا حصہ نہیں تھا جس نے دو نومبر کو باہر نکلنا تھا اور ٹھاٹھیں مارنی تھیں‘ سندھ ملک کا دوسرا بڑا صوبہ ہے‘ سندھ سے پاکستان تحریک انصاف کے ایک ایم این اے اور تین ایم پی اے ہیں‘ عمران خان کراچی میں بہت پاپولر ہیں‘ یہ پچھلے تیس برسوں کی ہسٹری کے پہلے لیڈر ہیں جس نے کراچی میں ایم کیو ایم کے ناقابل تسخیر قلعے پر ضرب لگائی۔

    شاہ محمود قریشی ملتان کی سب سے بڑی گدی کے مالک ہیں‘ ان کے لاکھوں مریدین جنوبی پنجاب‘ سندھ اور بلوچستان کے متعدد اضلاع میں پھیلے ہوئے ہیں لیکن کراچی سے کوئی قافلہ نکلا‘ سندھ سے لوگ آئے اور نہ ہی ملتان سے کسی سمندر نے ٹھاٹھیں ماریں‘ صرف عارف علوی‘ عمران اسماعیل اور علی زیدی بنی گالا میں ٹھاٹھیں مارتے رہے‘ خیبر پختونخوا میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت ہے‘ یہاں سے پی ٹی آئی کے 49 ایم پی ایز‘18 ایم این ایز اور6 سینیٹر ہیں‘ ہم اگر ایم این ایز اور ایم پی ایز کے کل ووٹ جمع کریں تو کے پی کے عوام نے 2013ء کے الیکشن میں عمران خان کو 10 لاکھ 39 ہزار 7 سو 19ووٹ دیے۔

    وزیراعلیٰ پرویز خٹک نے 30 اکتوبر کو نوشہرہ میں اعلان کیا تھا میں 31 اکتوبر کو پورا صوبہ لے کر اسلام آباد جاؤں گا‘ صوبے کی روانگی کا وقت صبح دس بجے طے تھا لیکن صوبہ 31اکتوبر کی شام تک جمع نہ ہو سکا‘ پرویز خٹک شام پانچ بجے صوابی سے نکلے تھے تو پورا صوبہ صرف اڑھائی ہزار لوگوں پر مشتمل تھا۔

    پرویز خٹک  کے حلقے کے آدھے ووٹرز بھی ان کے ساتھ چل پڑتے تو صورت حال مختلف ہوجاتی لیکن وزیراعلیٰ پورا صوبہ تو دور اپنے ووٹروں کو بھی باہر نہ نکال سکے‘ اوپر سے ستم یہ ہوا کہ یہ قافلہ جب پنجاب کی سرحد پر پہنچا تو سامنے پولیس کھڑی تھی اور پورا صوبہ، پنجاب پولیس کی شیلنگ‘ کنٹینرز اور رکاوٹوں کا مقابلہ نہ کر سکا‘ قافلے نے رات برہان انٹرچینج پرگزاری اور اگلی صبح پورا صوبہ واپس چلا گیا‘ پاکستان تحریک انصاف گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں بھی مقبول ہے لیکن یہ دونوں خطے بھی ٹھاٹھیں مارتے سمندر میں شامل نہیں ہوئے۔

    عوام پاکستان تحریک انصاف کے کشمیری رہنما بیرسٹر سلطان محمود کی زیارت تک سے محروم رہے‘ پیچھے رہ گیا پنجاب ‘ یہ پاکستان تحریک انصاف کا گڑھ ہے لیکن آپ بدقسمتی ملاحظہ کیجیے پنجاب سے بھی عوام کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر باہر نہیں آیا‘ اعجاز چوہدری 27 اکتوبر کو جانثاروں کا قافلہ لے کر نکلے‘ اس قافلے میں درجن بھر لوگ شامل تھے اور یہ بھی آہستہ آہستہ پتلی گلیوں میں گم ہوتے چلے گئے۔

    یہ درست ہے پنجاب حکومت نے پاکستان تحریک انصاف کے دھرنے کے خلاف بھرپور طاقت استعمال کی‘ پکڑ دھکڑ بھی ہوئی‘ پولیس فورس بھی استعمال ہوئی اور راستے بھی بند کیے گئے مگر یہ کون سا انقلاب تھا جو پولیس فورس‘ پکڑ دھکڑ اور راستوں کی بندش کا مقابلہ نہیں کر سکا‘ جو سڑکوں کی رکاوٹیں نہیں ہٹا سکا اور آپ آخر میں راولپنڈی اور اسلام آباد آ جائیے۔

    شیخ رشید اپنی پوری پارٹی سمیت عمران خان کے اتحادی ہیں‘ شیخ صاحب نے این اے 55 سے88627 ووٹ حاصل کیے تھے‘ عمران خان این اے 56 سے قومی اسمبلی کے رکن ہیں‘ انھوں نے 2013ء میں اس حلقے سے 80577 ووٹ حاصل کیے‘ غلام سرور خان ٹیکسلا سے ایم این اے ہیں‘ انھوں نے 110593ووٹ لیے اور اسد عمر اسلام آباد سے 48073 ووٹ لے کر ایم این اے منتخب ہوئے گویا عوام نے عمران خان کو راولپنڈی اسلام آباد سے تین لاکھ 27 ہزار870 ووٹ دیے تھے لیکن پاکستان تحریک انصاف 28 اکتوبر سے 2 نومبر تک بنی گالہ میں بیٹھ کر اپنے ان ووٹرز کا راستہ دیکھتی رہی مگر یہ لوگ بھی باہر نہیں نکلے۔

    شیخ رشید نے 28 اکتوبرکو راولپنڈی میں جلسے کا اعلان کر رکھا تھا‘ یہ اس دن گلیوں میں موٹر سائیکل پر کرتب دکھاتے رہے‘ چینلزکی ڈی ایس این جیز پر سگار پینے کے مظاہرے کرتے رہے لیکن فرزند راولپنڈی خطاب کے لیے راولپنڈی سے تین سو لوگ جمع نہیں کر سکے‘ یہ بھی بنی گالہ اکیلے تشریف لے گئے‘ ان تمام حالات نے مل کرعمران خان کو سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ کے ریمارکس اور اس اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے کے پیچھے چھپنے پر مجبور کر دیا جس کے بارے میں عمران خان نے فرمایا تھا ’’اوئے جسٹس صدیقی دیکھو تمہارے آرڈر کے ساتھ کیا ہو رہا ہے‘‘ یوں عمران خان لاک ڈاؤن سے پیچھے ہٹ گئے اور ان کا دھرنا جلسے میں تبدیل ہو گیا۔

    عمران خان کو یہ حقیقت ماننا ہو گی ان کے دائیں بائیں کھڑے قائدین میں سے کوئی شخص دس لاکھ تو دور دس ہزار لوگ بھی جمع نہیں کر سکا‘ان میں سے کوئی عوام کو ٹھاٹھیں مارنے پر بھی مجبور نہیں کر سکا‘ یہ کال ناکامی تھی اور یہ ناکامی مستقبل میں پارٹی کے لیے خوفناک ثابت ہو گی۔

    آج عمران خان کوچند بڑی حقیقتیں دیوار پر لکھ لینی چاہئیں‘ خان صاحب کو لکھ لینا چاہیے یہ ملک واقعی بدل چکا ہے اور  لوگ خواہ آپ کے مرید ہوں‘ ووٹر ہوں‘ فین ہوں یا جانثار ہوں یہ اب جذباتی ہو کر باہر نہیں نکلتے‘ یہ نعروں اور دعوؤں کو حقیقت نہیں مانتے چنانچہ خان صاحب اگر آیندہ تلاشی یا استعفے کے لیے باہر نکلیں تو یہ عوام کے ٹھاٹھیں مارتے سمندر کے دعوے نہ کریں‘ یہ اپنی کشتیاں جلانے کی غلطی بھی نہ کریں۔

    عمران خان کو یہ بھی لکھ لینا چاہیے یہ مسلسل ٹی وی پر رہ کر عوام میں اپنی قدر کھوچکے ہیں‘ آپ جب دن میں دس دس بار میڈیا ٹاک کریں گے‘ روز انٹرویو دیں گے‘ پریس کانفرنس کریں گے‘ جلسے کریں گے‘ سوچے سمجھے بغیر بولیں گے اور اتحادیوں کو رشتوں کا طعنہ دے کر ناراض کرتے رہیں گے تو آپ کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر چار پانچ ہزار لوگوں سے اوپر نہیں جائے گا چنانچہ خان صاحب کو اپنی میڈیا اسٹرٹیجی کی ناکامی بھی مان لینی چاہیے‘ خان صاحب کو یہ بھی لکھ لینا چاہیے‘ آپ جب تاریخ دے کر تاریخ بدلیں گے‘ آپ جب آسمان کو چھونے کے دعوے کر کے ہواؤں کو چوم کر واپس آ جائیں گے۔

    آپ جب تخت یا تختہ کا اعلان کریں گے اور آپ جب شہادت کے دعوے کریں گے‘ خود بنی گالا کی پہاڑی پر پش اپس نکالتے رہیں گے اور عوام سڑکوں پر ڈنڈے کھاتے رہیں گے تو لوگوں میں آپ کی قدر کم ہو گی اور عمران خان کی قدر میں کمی ہوئی ہے‘ لوگ اب انھیں اتنا سیریس نہیں لے رہے جتنا یہ 2013ء کے الیکشنز اور 2014ء کے دھرنے میں لے رہے تھے‘ عمران خان کو یہ بھی لکھ لینا چاہیے پاکستان تحریک انصاف ٹوٹ پھوٹ کے خوفناک عمل سے گزر رہی ہے۔

    خان صاحب کے ساتھی ان کا ساتھ چھوڑ رہے ہیں‘ ان کے ساتھیوں نے انھیں دو نومبر کے دن تنہا چھوڑ دیا تھا‘ یہ لوگ عوام کو اکٹھا کرنے کے بجائے خود بنی گالا میں بیٹھ گئے اور یوں عمران خان پوری دنیا میں مذاق بن گئے‘ خان صاحب کو اپنی پارٹی پر بھی توجہ دینا ہو گی‘ عمران خان کو یہ بھی لکھ لینا چاہیے لیڈر کا پہلا امتحان اس کی زبان ہوتی ہے‘ یہ اگر اپنے لفظوں کو لیڈ نہیں کر سکتا تو یہ دنیا کے کسی شخص کی قیادت نہیں کر سکتا اور خان صاحب کو اپنے لفظوں‘ اپنی زبان پر قابو نہیں۔

    عمران خان کو یہ بھی لکھ لینا چاہیے سڑکیں مسئلے پیدا کرتی ہیں‘یہ مسائل حل نہیں کیا کرتیں اور آپ آج تک کوئی مسئلہ سڑک پر حل نہیں کر سکے آپ کو بالآخر اداروں کو تسلیم کرنا پڑا‘ آپ آج کے بعد اداروں کو عزت دینا شروع کر دیں‘ ادارے بھی آپ کو عزت دیں گے اور آخری بات عمران خان یہ بھی لکھ لیں 70 سال کی سیاسی خواری نے عوام کو عقل مند بنا دیا ہے‘ یہ اب ٹھاٹھیں نہیں مارتے‘ یہ صرف ٹھٹھہ مارتے ہیں چنانچہ آپ اب مذاق بننا اور مذاق بنانا بند کر دیں‘ ملک کو آگے جانے دیں اور عوام کو سانس لینے دیں‘ آپ میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری کو مزید مضبوط نہ کریں۔

  • لیجیے خان صاحب! روڈ میپ تیار ہے – ڈاکٹر عاصم اللہ بخش

    لیجیے خان صاحب! روڈ میپ تیار ہے – ڈاکٹر عاصم اللہ بخش

    ڈاکٹر عاصم اللہ بخش یوم تشکر کا جلسہ/جشن ختم ہوتے ہی اسلام آباد کے جزوی لاک ڈاؤن پر عمل پیرا ہو جائیے اور بنی گالہ میں واقع اپنی رہائش گاہ کو لاک ڈاؤن کر کے پشاور پہنچ جائیے. پھر سوا سال سے پہلے واپس نہیں آنا. سپریم کورٹ کا کام اپنی وکلا ٹیم کے حوالے رہنے دیں اور خود پشاور سے ان سے رابطے میں رہیں. اب یہاں آپ کا کوئی کام نہیں.

    پشاور میں مستقل ڈیرہ لگا کر حکومت کی کارکردگی بڑھانے کے لیے جو کر سکتے ہیں کر ڈالیے. یہ مشورہ آپ کو پہلے بہت بار دیا جا چکا ہے تاہم اس بار مشورہ وہی ہے لیکن اس کا ہدف مختلف ہے. اب کی بار معاملہ یہ نہیں کہ خیبرپختونخوا میں پرفارم کریں تاکہ مرکز میں بھی حکومت بنا سکیں. اب چیلنج بدل چکا. اب صوبائی حکومت کو اس لیے فعال اور معجزاتی بنائیں کہ اگلے انتخابات میں اس کے بھی لالے پڑنے والے ہیں.

    جن پر دو دفعہ چڑھائی کی، اور دیگر وہ جن کے سروں پر لفظی گولہ باری کے ایٹم بم پھوڑے، وہ لازماً بھرپور جوابی کاروائی کریں گے، متحد ہو کر. انہیں سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرنا پڑی، اتحاد بنانا پڑے، کسی گنگو تیلی کو وزیر اعلی بنانا پڑا. انہوں نے آپ کو نہیں آنے دینا.

    اس لیے ابھی سے فوکس کریں، پلان کریں اور عمل کریں. صوبہ کے ایک ایک حلقہ کو دیکھیں، امیدوار فائنل کریں، پارٹی کیڈرز کو فعال اور متحد کریں، ترقیاتی کاموں کی بروقت تکمیل یقینی بنائیں.

    گیم بدل چکی، انداز بھی بدلنا ہوگا. اب آپ نے دفاع کرنا ہے اور لشکر کشی دوسری پارٹی کرے گی.
    آپ اور آپ کے ووٹرز کے سامنے بہت بڑا چیلنج ہے.
    ہوشیار باش …. !

  • بیرونِ دریا کچھ نہیں-ہارون الرشید

    بیرونِ دریا کچھ نہیں-ہارون الرشید

    haroon-rasheed
    حافظِ شیراز نے کہا تھا: بارہا گفتہ ام و بارِ دگر می گویم۔ بھلائی ہم آہنگی میں ہوتی ہے‘ فساد اور انتشار میں نہیں۔ ؎
    فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں
    موج ہے دریا میں اور بیرونِ دریا کچھ نہیں

    عمران خان کی طرف سے محاصرے کی بجائے جلسے کے اعلان سے پہلے‘ ایک دانا آدمی کا خیال یہ تھا کہ میاں محمد نواز شریف اور عمران خان سے خلقِ خدا بیزار ہو جائے گی۔ کچھ دن میں سیاسی منظر یکسر بدل جائے گا۔ اچھا ہوا کہ دونوں نے سپریم کورٹ میں سر تسلیم خم کر دیا۔ علامہ طاہرالقادری کو صدمہ ضرور پہنچا۔ موقع سے فائدہ اٹھانے کا ارادہ رکھتے تھے۔ آخری تجزیے میں ان کا جھگڑا ذاتی ہے۔ مقاصد بھی ذاتی ہیں۔ کبھی وہ اس خاندان کے ممنونِ احسان تھے۔ آج اس کی مکمل پامالی کے آرزومند ہیں۔ شریف خاندان سے اختلاف بجا۔ اس کا مطلب یہ کیسے ہوا کہ اگر وہ ایک اچھا فیصلہ کریں تو اس میں بھی کیڑے ڈالے جائیں۔ جی نہیں‘ فرمان یہ ہے: الصلّح خیر‘ بھلائی صلح صفائی میں ہوتی ہے۔

    ایجی ٹیشن‘ دس بارہ دن اگر مزید جاری رہتا تو ہر چیز ہاتھ سے نکل جاتی۔ پاکستان کو نہیں‘ اس کا فائدہ دشمن کو پہنچتا۔ امریکہ ہمارے اندر داخل ہو گیا ہے‘ اور بھارت بھی۔ بلا خوف و خطر ان کے کارندے سرگرم عمل ہیں۔ خدانخواستہ اسی آزادی سے اگر وہ بروئے کار رہے تو صورتِ حال خطرناک ہو سکتی ہے۔ عرب محاورے کے مطابق‘ جب زمین کا پیٹ‘ اس کی پیٹھ سے بہتر ہو جاتا ہے۔ اس لافانی شاعر میاں محمد بخش کی اصطلاح میں زندگی کیکر کے درختوں پر لٹکی دھجیوں جیسی ہو جاتی ہے۔

    راستہ ابھی نکلا نہیں۔ ابھی فقط امکان نے جنم لیا ہے۔ ابھی یہ طے ہونا ہے کہ پاناما لیکس کی تحقیقات کس طرح ہو گی۔ کمیشن اگر وجود پاتا ہے تو اس کا دائرہ کار اور اس کے اختیارات کیا ہوں گے۔ پیپلز پارٹی سمیت‘ اپوزیشن تحقیقات کے لیے ٹی او آرز‘ حدود اور قرینہ طے کر چکی۔ ظاہر ہے کہ عمران خان اور ان کے ساتھی‘ ان ٹی او آرز پہ اصرار کریں گے۔ حالات سازگار ہیں کہ وہ ڈٹ جائیں۔ ہوش مندی شاید اس میں ہو گی کہ لچک پیدا کی جائے اور ایک آدھ ترمیم گوارا کر لی جائے‘ جس سے منصفانہ تحقیقات کا مقصد حاصل ہو جائے۔ نون لیگ بھی محسوس کرے کہ کوئی چیز اس پر مسلط نہیں کی گئی۔ کسی ایک فریق کی نہیں‘ عدل کی بالادستی ہونی چاہیے۔ ابدیت سفر کو ہے‘ مسافر کو نہیں۔ سب چلے جاتے ہیں اور ملک باقی رہتا ہے۔ سیاست دان فیصلہ نہ کر سکیں تو عدالت کرے۔ قوم اس کی شکر گزار ہو گی۔
    زیادہ بڑی تصویر دیکھنے کی ضرورت ہے۔ ملحوظ‘ مستقبل کو رکھنا چاہیے۔ نواز شریف کل نہیں ہوں گے‘ عمران خان اور آصف علی زرداری بھی نہیں ہوں گے۔ ہم میں سے کوئی بھی نہ ہو گا۔ ملک کو باقی رہنا ہے۔ عدل اور اعتدال کے ساتھ ہی وہ شادمان اور نمو پذیر ہو سکتا ہے۔
    اللہ کے آخری رسولﷺ نے بدترین لوگوں کو معاف کر دیا تھا۔ اللہ اور رسولﷺ سے جنہوں نے دشمنی کی تھی۔ فتح مکّہ کے دن‘ کہہ دیا گیا کہ ان سے کوئی باز پرس نہ ہو گی۔ عام معافی کا نتیجہ تھا کہ چاروں طرف چراغ جل اُٹھے۔

    جب آ پہنچی اللہ کی مدد اور فتح کامل
    اور تو نے‘ فوج در فوج لوگوں کو‘ اللہ کے دین میں داخل ہوتے دیکھ لیا۔
    پس اپنے رب کی حمد و تسبیح کر اور استغفار کر
    بے شک وہ توبہ قبول کرنے والا ہے۔

    کسی کا مقصد اگر نواز شریف کو دفن کرنا ہے۔ کسی کا مقصد اگر عمران خان کو تباہ کرنا ہے تو فساد وہ جاری رکھے۔ حق کی آواز امن اور بھلائی کی آواز ہے۔ اللہ کا شکر ہمیں ادا کرنا چاہیے۔ ساری صلاحیت اس پر لگا دینی چاہیے کہ ملک دلدل سے باہر نکل سکے۔ ایسے حالات میں میڈیا کی ذمہ داری دوسروں سے زیادہ ہوتی ہے۔

    زندگی کا کھلا میدان جب جنگل جیسا ہو جاتا ہے تو سچائی کے ساتھ ساتھ صبر کی ضرورت بھی ہوتی ہے۔ تحمل اگر نہ ہو‘ تنگ نظری کا اگر تہیہ کر لیا جائے تو آدم زاد وحشی جانور سے بھی بدتر ہو جاتا ہے۔ مولانا روم نے کہا تھا: آدمی کی شخصیت فقط اس کا اندازِ فکر ہی ہوتی ہے‘ باقی تو گوشت اور ہڈیاں ہیں۔ تحریکِ انصاف کی جمعیت بکھر رہی تھی۔ عمران خان کنفیوژن کا شکار تھے۔ گھر سے وہ باہر نہ نکل سکے۔ دس لاکھ تو کیا‘ ایک لاکھ آدمی بھی اسلام آباد نہ پہنچ سکتے۔ شریف خاندان گھبراہٹ کا شکار تھا۔ محترمہ مریم نواز کچھ دن سے لاہور میں ہیں۔ جاتی عمرہ کے پڑوسیوں کا کہنا ہے‘ اتوار کو چار بار اسلام آباد سے آنے والا ہیلی کاپٹر وہاں اترا اور واپس گیا۔ قیاس یہ تھا کہ ایوان وزیر اعظم سے اہم فائلیں لاہور منتقل کی جا رہی ہیں۔

    وزیر اعلیٰ پنجاب جناب شہباز شریف کی پولیس پختون خوا میں داخل ہو گئی۔ دوسرے صوبے کے وزیر اعلیٰ پر انہوں نے اذیت پہنچانے والی آنسو گیس برسائی۔ اندر سے میاں صاحب خوف زدہ تھے۔ ایسے میں اکثر وہ غلط فیصلہ کرتے ہیں۔ پرویز خٹک کو لبھانے کے لیے انہوں نے فون کیا۔ بھول گئے کہ ان کا دل زخمی ہے۔ بھول گئے کہ ان کے وہ فیض یافتہ نہیں۔ وہ محمود اچکزئی‘ مولانا فضل الرحمن‘ فاروق ستار یا اسفند یار نہیں۔ فراموش کر دیا کہ ایسے میں پختون مزاج کا خاصہ کیا ہوتا ہے۔

    ایک بات تکرار کے ساتھ‘ ناچیز کہتا رہا۔ عدالت کا فیصلہ سبھی کو تسلیم کرنا چاہیے۔ عمران خان کو دارالحکومت کے محاصرے کا منصوبہ ختم کر دینا چاہیے۔ حکومت کو کنٹینر ہٹانے چاہئیں اور گرفتاریوں کا سلسلہ موقوف کرنا چاہیے۔ وقت بدل گیا ہے۔ حالات کے تقاضے اب مختلف ہیں۔ ایک دوسرے کو گوارا کرنا ہو گا۔ تشکیل پاتے جمہوری نظام میں ہر ایک کے حقوق ہیں‘ مگر ذمہ داریاں بھی۔ اوّل اوّل آزادی میں غیر ذمہ داری ہوتی ہے مگر تا بہ کے؟ آخرکار سبھی کو ڈسپلن قبول کرنا پڑتا ہے۔ ؎
    صنوبر باغ میں آزاد بھی ہے پا بہ گل بھی ہے
    انہی پابندیوں میں حاصل آزادی کو تو کر لے
    سیدنا علی کرم اللہ وجہہ سے پوچھا گیا کہ تقدیر کیا ہے۔ سوال کرنے والے سے انہوں نے کہا کہ ایک ٹانگ اوپر اٹھا لو۔ ارشاد کیا‘ اب دوسری بھی۔ ”امیرالمومنین یہ تو ناممکن ہے‘‘ اس نے کہا۔ فرمایا: یہی تقدیر ہے۔

    بعض اخبارات زہر پھیلا رہے ہیں۔ اخبار نویسوں کی قابل ذکر تعداد‘ قومی مفاد کو فراموش کر چکی۔ بعض اخبار یکسر بے لگام ہیں۔ سرل المیڈا اور اس کے اخبار کا ماتم ابھی جاری تھا۔ اب ایک دوسرے انگریزی اخبار کے مضمون کا چرچا ہے۔ ایک محترمہ نے پاک فوج کی قیادت کو دہشت گردوں کا سرپرست قرار دیا ہے۔ یہ مضمون کیسے چھپ گیا؟ کچھ لوگ شریف خاندان کی تباہی کے لیے ہر جائز و ناجائز حربے کے قائل ہیں۔ اس طرح کچھ دوسرے پاک فوج کو کمزور‘ رسوا اور بے بس کرنا چاہتے ہیں۔ یہ این جی اوز والے ہیں‘ بھارت اور امریکہ کے دورے کرنے والے۔ وہ بین الاقوامی شہری ہیں۔ پاکستان ان کا وطن اور محبت نہیں۔ بہت سے ملکوں میں سے‘ وہ اسے ایک ملک سمجھتے ہیں۔ ان کی کوئی جذباتی وابستگی اس سے نہیں۔ یہ ان کا گھر نہیں۔ پاک فوج کے بارے میں وہ سی آئی اے اور افغانستان کی کسی بھی افواہ‘ کسی بھی یک طرفہ تجزیے کو قبول کر سکتے ہیں۔ امریکہ اور یورپ سالانہ 100 ارب روپے ان تنظیموں پر صرف کرتے ہیں۔ ان کی لکھی ہوئی تحریریں بھارت‘ اسرائیل اور امریکہ کے کام آتی ہیں۔

    فوج اور سول کی کشیدگی‘ اس خرابی کی جڑ ہے۔ فوج کو باقی رہنا ہے اور سیاستدانوں کو بھی۔ مفاہمت کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ بقا اور زندگی کا یہی ایک راستہ ہے‘ بدقسمتی یہ ہے کہ ہم سب ہیجان کا شکار ہیں۔ ہم سب خود شکنی پر تُلے ہیں۔ ملک باقی رہے گا۔ اقبالؒ اور قائد اعظمؒ ایسی سعید روحوں نے اس کی بنا استوار کی۔ تین چوتھائی ووٹروں نے ان کی تائید کی۔ خسارے میں وہ لوگ جائیں گے‘ اس سے جو بے وفائی کا ارتکاب کریں گے۔

    کیا وہ دیکھتے نہیں کہ 1971ء میں‘ پاکستان توڑنے والوں کا انجام کیا ہوا؟ کیا ہوا ان کا انجام؟
    حافظِ شیراز نے کہا تھا: بارہا گفتہ ام و بارِ دگر می گویم۔ بھلائی ہم آہنگی میں ہوتی ہے‘ فساد اور انتشار میں نہیں۔ ؎
    فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں
    موج ہے دریا میں اور بیرونِ دریا کچھ نہیں

  • لاک ڈاؤن کی سیاست کی حقیقت-(خصوصی تحریر)پروفیسر احسن اقبال

    لاک ڈاؤن کی سیاست کی حقیقت-(خصوصی تحریر)پروفیسر احسن اقبال

    na-117

    ملکی سیاسی منظرنامے میں پاکستان تحریک انصاف کا ظہور ایک مثبت انداز میں لیا گیا تھا جس نے شہری مِڈل کلاس سے اْن طبقات کو متوجہ کیا جو روائتی سیاسی جماعتوں میں جگہ نہ بناسکے، پی ٹی آئی سربراہ عمران خان کی بطور اسپورٹس مین سیاست میں آمد سے توقع کی جارہی تھی کہ وہ ملک میں جمہوری اقدار کی مضبوطی کیلئے کچھ مثبت کر دکھائیں گے لیکن بدقسمتی سے خان صاحب نے شائستگی اور رواداری پر مبنی سیاست کی بجائے عدمِ برداشت اور متشدد سیاست کو پروان چڑھا کرنہ صرف نوجوان طبقے کو اشتعال انگیزی کی جانب مائل کیا بلکہ شہری مڈل کلاس کے ان طبقوں کو بھی مایوس کیا جو انہیں سیاست میں ہوا کا تازہ جھونکا تصورکرتے تھے ۔

    میں پی ٹی آئی کی طرف سے 2نومبر کو اسلام آباد کو لاک ڈاؤن کرنے کی کال کے منفی مضمرات سے قوم کو باخبر کرنا اپنا قومی فریضہ سمجھتا ہوں اور تین نکات پر قوم کی توجہ مرکوز کرانا چاہتا ہوں، اول خان صاحب کی سیاست کا محور بدقسمتی سے جمہوری نہیں بلکہ فاشزم اور انارکی کی سیاست کا فروغ ہے، دوئم دارالحکومت کو بند کرنے کا کوئی نیک مقصد نہیں بلکہ سیاسی مفاد میں ملکی معیشت کو نشانہ بنانا ہے، سوئم پی ٹی آئی سربراہ کی نظر میں جمہوری عمل اور اداروں کی کوئی توقیر نہیں اور وہ پے در پے انتخابی ناکامیوں سے مایوس ہو کر اپنے ذاتی مقاصد کے حصول کیلئے جمہوریت کو داؤ پر لگانے پر تْلے ہوئے ہیں۔بیسویں صدی کے معروف مصنف و نقاد جارج ارول نے اپنے شہرہ آفاق مضمون “فسطائیت کیا ہے ؟”میں فاشزم کی تعریف وضح کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایسا رویہ جو دھونس پہ مبنی ہو ۔ خان صاحب پاکستان میں فسطائی اصولوں کے پیروکاری کی جیتی جاگتی مثال پائے جاتے ہیں جنکا مقصدِ سیاست صدیوں پرانے حکومت پر قبضے کیلئے دارالحکومت پر لشکر کشی کے نظام کا احیاء ہے جس میں سول اداروں کو تباہ کرنا اور عوامی نمائندوں کی تذلیل کرنا شامل ہے، فسطائیت کے پیروکار عمران خان ہر اْس شخص کو اپنا دشمن قرار دے دیتے ہیں جو اْن کے طرزِ سیاست سے اختلافِ رائے رکھتا ہو۔خان صاحب دعویٰ کرتے ہیں کہ لاک ڈاؤن کا مقصد پانامہ پیپرز پر تحقیقات کیلئے دباؤ ڈالنا ہے، میں یہ پوچھتا ہوں کہ وہ اپنے کارکنوں کو کیوں حقیقی صورتحال سے آگاہ کرنے کی جرات نہیں کرتے کہ پانامہ ایشو پر پی ٹی آئی سمیت دیگر اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے مختلف پٹیشنز پر سپریم کورٹ میں سماعت شروع ہو چکی ہے جبکہ وزیراعظم نواز شریف بھی اِس عزم کا اعادہ کرچکے ہیں کہ وہ اور انکی فیملی اعلیٰ عدلیہ کے روبرو حقائق پیش کرکے قانون کی حکمرانی یقینی بنائیں گے، تو پھر لاک ڈاؤن کا کیا جواز ہے؟

    مجھے یہ کہنے میں عار نہیں کہ درحقیقت اسلام آباد کو لاک ڈاؤن کرنے کا مقصد عدلیہ کو اپنی مرضی کا فیصلہ سنانے کیلئے غیر جمہوری ہتھکنڈوں سے زیر دباؤ لانا ہے ۔خان صاحب نے اپنی سیاست کا آغاز احتساب کے خوش نما نعرے سے کیا تھاجس کا استعمال سیاسی مخالفین کے خلاف تو بھرپور انداز میں سامنے آیا لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر خان صاحب احتساب پہ حقیقی معنوں میں یقین رکھتے ہوتے تو صوبہ خیبرپختونخواہ میں اپنی حکومت اور اپنی پارٹی میں احتساب کا مثالی نمونہ پیش کر پاتے ۔ اصلاح ہمیشہ اپنے گھر سے شروع کی جاتی ہے لیکن جب خیبرپختونخواہ احتساب کمیشن کا سربراہ کرپشن کی سرکوبی کے لئے اپنی ذمہ داریاں آزادانہ پوری نہ کرنے دیئے جانے کی بناء پر احتجاجاََ استعفیٰ دیتا ہے تو خان صاحب کی طرف سے بالکل مختلف رویے کا مظاہرہ کیا جاتا ہے ،

    جسٹس (ر)وجہیہ الدین انٹراپارٹی الیکشن میں بے ضابطگیوں اور کرپٹ عناصر کی دھاندلیوں کے خلاف آواز بلند کرتے ہیں تو عمران خان جسٹس وجہیہ کو توہین آمیز طریقے سے پارٹی سے نکال باہر کرتے ہیں ۔ کے پی میں پی ٹی آئی کے اپنے ایم پی ایز اور ایم این ایز وزیر اعلی کی سنگین کرپشن کی شکایت کرتے ہیں تو ان کی شکایات کی تحقیق کی بجائے ان کی سرزنش کی جاتی ہے ۔ وہی کرپٹ عناصر جن سے نام نہاد تحریکِ انصاف کو پاک ہونا چاہیے تھا ، عمران خان کے دائیں بائیں جلوہ افروز نظر آتے ہیں ۔ یہ سب کیا ہے؟ خان صاحب ؟ قوم جاننا چاہتی ہے کہ جب آپ نے قومی وطن پارٹی کے منسٹرز کو کرپشن کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے حکومت سے فارغ کیاِ تو بِنا کسی صفائی کہ انہیں حکومت خیبرپختونخواہ نے واپس کابینہ میں شامل کرلیا۔ کیا انہوں نے پہلے غلط کیا تھا یا بعد میں ؟ خان صاحب کا ایک نکاتی ایجنڈا حکومت پر قابض ہونا ہے جسکی وجہ سے وہ دوغلی پالیسی رکھنے پر مجبور ہیں، ایک طرف سیاسی مقاصد کے حصول کیلئے جب چاہیں اپنے سیاسی حریفوں پر کرپشن کا ہتھیار استعمال کرتے ہیں اور دوسری طرف اپنی سیاسی ضرورت کے لئے جب چاہیں جسے چاہیں ڈرائی کلین کر دیں۔ صوبہ خیبرپختونخواہ میں پی ٹی آئی کی خراب کارکردگی نے بھی خان صاحب کی فریسٹریشن میں اضافہ کیا ہے، صوبائی حکومت نے سالانہ ترقیاتی پروگرام برائے17 ۔2016 کیلئے 161بلین روپے مختص کیے ہیں جو رواں برس کیلئے مختص کی گئی رقم سے 8فیصد کم ہیں،

    گزشتہ تین برسوں سے صوبائی حکومت کے پاس کوئی قابلِ ذکر ترقیاتی منصوبہ پیش کرنے کے لئے نہیں ہے۔معاشی ترقی کیلئے سیاسی استحکام اور پالیسیوں کا تسلسل ناگزیر ہے، اِس تناظر میں دیکھا جائے تو خان صاحب کی لاک ڈاؤن کی سیاست کا مقصد خدانخواستہ پاکستان کو معاشی طور پر سبوتا ژکرنا ہے، خان صاحب بخوبی جانتے ہیں کہ وزیراعظم نواز شریف کی آئینی مدت پوری ہونے تک پاکستان ترقی و خوشحالی کے کتنے زینے عبور کرچکا ہوگا اور انہیں 2018 کا انتخاب ہاتھوں سے نکلتا ہوا نظر آ رہا ہے ،توانائی بحران پر قابو پانے کیلئے 2018 تک 11ہزار میگاواٹ بجلی نیشنل گِرڈ میں شامل ہوچکی ہو گی جبکہ 1947 سے لیکر2013 تک ملک میں صرف 16ہزارمیگاواٹ کی بجلی پیدا کی گئی۔گزشتہ تین برسوں میں ملکی سیکیورٹی کے محاذ پر بھی بے شمار کامیابیاں کا حصول ممکن ہوا،2013 میں پاکستان کو دنیا کا خطرناک ترین ملک قرار دیا جارہا تھا آج دنیا پاکستان کو ابھرتی ہوئی معیشت قرار دے رہی ہے، پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے نے قومی ترقی کیلئے نئی راہیں کھول دی ہیں، آج اکنامک گروتھ ریٹ گزشتہ 8برسوں میں بلند ترین جبکہ شرح افراطِ زر کم ترین سطع پرہے، پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر میں تین گنا اضافہ ہو چکا ہے ،

    رواں برس کے موسمِ گرما میں پاکستانی شہریوں کی طرف سے ڈومیسٹک ٹورازم کا تاریخی مظاہرہ کیا گیا جو عوام کے بہتر حالات اور ملکی معیشت پر اعتماد کی عکاسی کرتا ہے۔ انہیں حقائق سے خوفزدہ ہوکرمسلم لیگ (ن) کے ناقدین موجودہ سیاسی نظام کو بادشاہت قرار دیتے ہیں، ایسی تنقید یا تو حقیقی صورتحال سے لاعلمی کی بناء پر یا بدیانتی پر مبنی ہوتی ہے کیونکہ بادشاہت میں تنقید کرنے کی اجازت نہیں ہوتی لیکن موجودہ دورِ حکومت میں سیاسی حریف اور آزاد میڈیا 24گھنٹے حکومتِ وقت کو نشانہِ تنقید بناتا ہے اورجمہوریت پسند حکومت بھی تنقید برائے اصلاح کی حوصلہ افزائی کرتی ہے۔عوام نے حالیہ ضمنی انتخابات، لوکل باڈیز الیکشن، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کی قانون ساز اسمبلیوں کے انتخابات سمیت دیگر مواقعوں پر وزیراعظم نواز شریف کی پالیسیوں پر اظہارِ اعتماد کرتے ہوئے خان صاحب کی منفی سیاست کو مسترد کیا ہے۔جمہوری کلچر کا تو تقاضہ ہے کہ اب خان صاحب 2018 کے انتخابات کا انتظار اور تیاری کریں ۔ اگر انہوں نے زرداری دور کو 5 برس برداشت کیا تو آج ملک اس کے مقابلے میں کہیں زیادہ مستحکم اور بہتر ہے ۔

    لیکن خان صاحب کا مسئلہ جمہوری عمل نہیں یا ملک کی ترقی نہیں بلکہ ذاتی سیاست ہے ۔ مشہور پولیٹیکل سوشیالوجسٹ لیری ڈائمنڈ کے مطابق ڈیموکریسی ایک مسلسل ارتقائی عمل ہے جس میں کسی بھی قوم کیلئے بہتر سے بہتر جمہوری ملک بننے کی گنجائش موجود ہوتی ہیں اور ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں بھی جمہوریت تیزی سے پنپ رہی ہے۔ لیری ڈائمنڈ نے جمہوری حکومت کے طرزِ عمل بیان کیے تھے جن میں شہریوں کے پبلک دفاتر میں شمولیت کا حق، سیاسی اپوزیشن کی موجودگی اور شہری آزادی کی حفاظت سرفہرست تھے۔ سال 2008 ء سے پاکستان نے ان تین معاملات میں خاطرخواہ کامیابی حاصل کی ہے اور مسلم لیگ (ن)حکومت بھی ملک میں جمہوری اقدار کو مزیدمضبوط کرنے کیلئے پرْعزم ہے،ہم ماضی کی مستردشدہ فسطائی طاقتوں جنہوں نے دو سال قبل بھی پارلیمنٹ اور پی ٹی وی پر حملہ کیا تھا، کے حالیہ مذموم مقاصد کو ناکام بنانا اپناقومی فریضہ سمجھتے ہیں،ہم عوام کے سونپے گئے مینڈیٹ کو امانت کا درجہ دیکر قوم کی ترقی و خوشحالی پر مبنی اپنے ایجنڈے کو کامیابی سے آگے بڑھانا چاہتے ہیں،

    ہم سمجھتے ہیں کہ 2 نومبر کے دن باشعورعوام مسترد شدہ عناصر کے عزائم کوہمیشہ کیلئے خاک میں ملا دیں گے ۔میں یہ واضح کرتا چلوں کہ ہم پرامن احتجاج کو جمہوری معاشرے کا حصہ سمجھتے ہیں لیکن خان صاحب کا اسلام آباد کو لاک ڈاؤن کرنا خلافِ جمہوریت اورخلافِ آئین اقدام ہے، لشکر کشی کرکے ریاست کے معاملات کو معطل کرکے شہریوں کی آزادانہ نقل و حرکت پر پابندی لگانے کی مثال دورِ جدیدکے کسی بھی جمہوری ملک میں نہیں ملتی۔میں امید کرتا ہوں کہ پی ٹی آئی اپنی احتجاجی حکمتِ عملی پر نظرثانی کرتے ہوئے کسی غیر آئینی اقدام کا حصہ نہیں بنے گی،میں پی ٹی آئی کے ممبرانِ پارلیمنٹ کو انتخابی اصلاحات ایجنڈے پر بھی حکومت کے ساتھ تعاون کرنے کی دعوت دیتا ہوں جو خان صاحب بھول چکے ہیں۔مسلم لیگ (ن)حکومت تمام اپوزیشن جماعتوں کے اشتراک سے انتخابی عمل میں اصلاحات لانے کیلئے سنجیدہ ہے تاکہ آئیندہ انتخابات میں کِسی کو بھی بے ضابطگیوں کی شکایت نہ کرنا پڑے اور ہم سب سیاسی وابستگیوں سے بالاتر ہوکر مشترکہ طور پرپاکستان کو ترقی و خوشحالی سے ہمکنار کرانے میں کامیاب ہوسکیں۔

  • اسلام آباد لاک ڈاؤن، حقیقی امکانات کیا ہیں؟ شاہد قبال خان

    اسلام آباد لاک ڈاؤن، حقیقی امکانات کیا ہیں؟ شاہد قبال خان

    عمران خان نے اسلام آباد کو لاک ڈاؤن کرنے کے اعلان سے حکومت پر ایک سیاسی بم گرا دیا ہے مگر نشانہ خطا ہونے پر یہ بم تحریک انصاف پر بھی گر سکتا ہے۔ حکومت کا یہ خیال ہے کہ وہ تحریک انصاف کا لاک ڈاؤن ناکام بنا دےگی۔ اس سلسلے میں وہ تحریک انصاف پنجاب اور اسلام آباد کے متحرک کارکنوں کی لسٹیں بھی بنا چکے ہیں اور عین موقع پر انہیں گرفتار کر کے لاک ڈاون میں شرکت سے روک دیا جاے گا۔ مگر میرے خیال میں اس سے لاک ڈاون پر زیادہ فرق نہیں پڑے گا کیونکہ یہ جلسہ نہیں ہے جس کے لیے لاکھوں لوگوں کی ضرورت پڑے۔ یہ ایک ہڑتال ہے۔ اگر اسلام آباد کی دس بڑی سڑکوں پر ایک ایک ہزار لوگ بھی دھرنا دے کر بیٹھ جاتے ہیں تو شہر میں آمدورفت بند ہو جاے گی جس سے تمام ادارے اور بازار خودبخود بند ہو جایں گے۔ اس کا مطلب ہے کہ زیادہ سے زیادہ ۲۰ ہزار لوگ اسلام آباد کو بند کرنے کے لیے کافی ہوں گے۔ تحریک انصاف تمام پابندیوں کے باوجود خیبر پختونخواہ اور راولپنڈی اسلام آباد سے ۵۰،۶۰ ہزار لوگ آسانی سے نکال لے گی۔حکومت لاک ڈاون کو ناکام کرنے کے لیے خوف کا حربہ بھی استعمال کر سکتی ہے۔ مگر میرے خیال میں یہ بھی زیادہ کامیاب نہیں ہو گا کیونکہ لاک ڈاون میں تحریک انصاف کے عام ووٹر نے شرکت نہیں کرنی جو خوفزدہ ہو جاے بلکہ پارٹی کے ایکٹیوسٹ شریک ہوں گے جو ان دھمکیوں سے نہیں ڈریں گے۔ میرے خیال میں تحریک انصاف اسلام آباد کو بند کرنے میں آسانی سے کامیاب ہو جاے گی مگر اس کے بعد کیا ہو گا؟

    یہ لاک ڈاؤن پچھلے دھرنے کی طرح بہت دن نہیں چلے گا۔اس بار فیصلہ زیادہ سے زیادہ ایک ہفتے میں ہو جاے گا کیونکہ ڈی چوک دھرنا ایک علامتی احتجاج تھا جس سے معمولات زندگی پر زیادہ فرق نہیں پڑا تھا مگر لاک ڈاون سے زندگی مکمل طور پر رک جاے گی ۔ ممکنہ انجام کیا ہو سکتا ہے؟

    پہلا آپشن حکومت یہ استعمال کر سکتی ہے کہ دھرنے میں موجود لوگوں کو اٹھا کر جیل میں ڈال دیا جاے۔ میرے خیال میں یہ آپشن قابل عمل نہیں ہے کیونکہ اسلام آباد پولیس نے پچھلے دھرنے میں بھی ایسا کچھ بھی کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ پنجاب پولیس سانحہ ماڈل ٹاون کے بعد پہلے ہی دفاعی پوزیشن لئے ہوے ہے۔ ویسے بھی تحریک انصاف کے کارکن ا س بار دفاعی مزاحمت کی تیاری کر کے آیں گے جس کی وجہ سے ایسی کسی بھی کارروای سے بہت بڑا خون خرابہ ہو سکتا ہے جو حکومت برداشت نہیں کر سکتی۔
    دوسرا آپشن یہ ہو سکتا ہے کہ حکومت پچھلی دفعہ کے پی ٹی وی واقعہ جیسا کوی ڈرامہ رچا کر تحریک انصاف کو دفاعی پوزیشن پر لا کھڑا کرے جس سے تحریک انصاف لاک ڈاون ختم کرنے پر مجبور ہو جاے۔ یہ قابل عمل تو ضرور ہے مگر یہ ایک بہت خوفناک کھیل ہے۔ ایسے کسی بھی ڈرامے کی زرہ سی بھی ناکامی حکومت کے لیے زہر قاتل ہو سکتی ہے۔ اس ک علاوہ اگر تحریک انصاف ایسے کسی واقعہ کو اوون کرنے کی بجاے اس کی زمہ داری حکومت پر ڈال کر مزید جارحانہ رویہ اختیار کر لے تو یہ بھی حکومت کے لیے مزید خطرناک ہو سکتا ہے۔

    تیسرا اور آخر آپشن مصالحت ہے۔ حکومت یا تو تحریک انصاف کے بتاے ہوے ٹی۔او۔آرز کے مطابق کمیشن بنا دے یا پھر ماینس نوازشریف پر عمل کر لے۔ مگر حکومت کے لیے وہ دونوں آپشن بھی آسان نہیں ہیں۔ میری زاتی راے یہ ہے کہ شہباز شریف اور کابینہ کے زیادہ تر لوگ نواز شریف کے استعفے کی دبے لفظوں میں سپورٹ کریں گے تاکہ حکومت بچ جاے مگر نواز شریف کی طرف سے اس کو قبول کیے جانے کے امکانات کم ہیں۔ اس صورتحال میں ہو سکتا ہے کہ نواز شریف پوری اسمبلی کو ماینس کر کے عام انتخابات کا اعلان کر دے۔