ملکی سیاسی منظرنامے میں پاکستان تحریک انصاف کا ظہور ایک مثبت انداز میں لیا گیا تھا جس نے شہری مِڈل کلاس سے اْن طبقات کو متوجہ کیا جو روائتی سیاسی جماعتوں میں جگہ نہ بناسکے، پی ٹی آئی سربراہ عمران خان کی بطور اسپورٹس مین سیاست میں آمد سے توقع کی جارہی تھی کہ وہ ملک میں جمہوری اقدار کی مضبوطی کیلئے کچھ مثبت کر دکھائیں گے لیکن بدقسمتی سے خان صاحب نے شائستگی اور رواداری پر مبنی سیاست کی بجائے عدمِ برداشت اور متشدد سیاست کو پروان چڑھا کرنہ صرف نوجوان طبقے کو اشتعال انگیزی کی جانب مائل کیا بلکہ شہری مڈل کلاس کے ان طبقوں کو بھی مایوس کیا جو انہیں سیاست میں ہوا کا تازہ جھونکا تصورکرتے تھے ۔
میں پی ٹی آئی کی طرف سے 2نومبر کو اسلام آباد کو لاک ڈاؤن کرنے کی کال کے منفی مضمرات سے قوم کو باخبر کرنا اپنا قومی فریضہ سمجھتا ہوں اور تین نکات پر قوم کی توجہ مرکوز کرانا چاہتا ہوں، اول خان صاحب کی سیاست کا محور بدقسمتی سے جمہوری نہیں بلکہ فاشزم اور انارکی کی سیاست کا فروغ ہے، دوئم دارالحکومت کو بند کرنے کا کوئی نیک مقصد نہیں بلکہ سیاسی مفاد میں ملکی معیشت کو نشانہ بنانا ہے، سوئم پی ٹی آئی سربراہ کی نظر میں جمہوری عمل اور اداروں کی کوئی توقیر نہیں اور وہ پے در پے انتخابی ناکامیوں سے مایوس ہو کر اپنے ذاتی مقاصد کے حصول کیلئے جمہوریت کو داؤ پر لگانے پر تْلے ہوئے ہیں۔بیسویں صدی کے معروف مصنف و نقاد جارج ارول نے اپنے شہرہ آفاق مضمون "فسطائیت کیا ہے ؟"میں فاشزم کی تعریف وضح کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایسا رویہ جو دھونس پہ مبنی ہو ۔ خان صاحب پاکستان میں فسطائی اصولوں کے پیروکاری کی جیتی جاگتی مثال پائے جاتے ہیں جنکا مقصدِ سیاست صدیوں پرانے حکومت پر قبضے کیلئے دارالحکومت پر لشکر کشی کے نظام کا احیاء ہے جس میں سول اداروں کو تباہ کرنا اور عوامی نمائندوں کی تذلیل کرنا شامل ہے، فسطائیت کے پیروکار عمران خان ہر اْس شخص کو اپنا دشمن قرار دے دیتے ہیں جو اْن کے طرزِ سیاست سے اختلافِ رائے رکھتا ہو۔خان صاحب دعویٰ کرتے ہیں کہ لاک ڈاؤن کا مقصد پانامہ پیپرز پر تحقیقات کیلئے دباؤ ڈالنا ہے، میں یہ پوچھتا ہوں کہ وہ اپنے کارکنوں کو کیوں حقیقی صورتحال سے آگاہ کرنے کی جرات نہیں کرتے کہ پانامہ ایشو پر پی ٹی آئی سمیت دیگر اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے مختلف پٹیشنز پر سپریم کورٹ میں سماعت شروع ہو چکی ہے جبکہ وزیراعظم نواز شریف بھی اِس عزم کا اعادہ کرچکے ہیں کہ وہ اور انکی فیملی اعلیٰ عدلیہ کے روبرو حقائق پیش کرکے قانون کی حکمرانی یقینی بنائیں گے، تو پھر لاک ڈاؤن کا کیا جواز ہے؟
مجھے یہ کہنے میں عار نہیں کہ درحقیقت اسلام آباد کو لاک ڈاؤن کرنے کا مقصد عدلیہ کو اپنی مرضی کا فیصلہ سنانے کیلئے غیر جمہوری ہتھکنڈوں سے زیر دباؤ لانا ہے ۔خان صاحب نے اپنی سیاست کا آغاز احتساب کے خوش نما نعرے سے کیا تھاجس کا استعمال سیاسی مخالفین کے خلاف تو بھرپور انداز میں سامنے آیا لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر خان صاحب احتساب پہ حقیقی معنوں میں یقین رکھتے ہوتے تو صوبہ خیبرپختونخواہ میں اپنی حکومت اور اپنی پارٹی میں احتساب کا مثالی نمونہ پیش کر پاتے ۔ اصلاح ہمیشہ اپنے گھر سے شروع کی جاتی ہے لیکن جب خیبرپختونخواہ احتساب کمیشن کا سربراہ کرپشن کی سرکوبی کے لئے اپنی ذمہ داریاں آزادانہ پوری نہ کرنے دیئے جانے کی بناء پر احتجاجاََ استعفیٰ دیتا ہے تو خان صاحب کی طرف سے بالکل مختلف رویے کا مظاہرہ کیا جاتا ہے ،
جسٹس (ر)وجہیہ الدین انٹراپارٹی الیکشن میں بے ضابطگیوں اور کرپٹ عناصر کی دھاندلیوں کے خلاف آواز بلند کرتے ہیں تو عمران خان جسٹس وجہیہ کو توہین آمیز طریقے سے پارٹی سے نکال باہر کرتے ہیں ۔ کے پی میں پی ٹی آئی کے اپنے ایم پی ایز اور ایم این ایز وزیر اعلی کی سنگین کرپشن کی شکایت کرتے ہیں تو ان کی شکایات کی تحقیق کی بجائے ان کی سرزنش کی جاتی ہے ۔ وہی کرپٹ عناصر جن سے نام نہاد تحریکِ انصاف کو پاک ہونا چاہیے تھا ، عمران خان کے دائیں بائیں جلوہ افروز نظر آتے ہیں ۔ یہ سب کیا ہے؟ خان صاحب ؟ قوم جاننا چاہتی ہے کہ جب آپ نے قومی وطن پارٹی کے منسٹرز کو کرپشن کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے حکومت سے فارغ کیاِ تو بِنا کسی صفائی کہ انہیں حکومت خیبرپختونخواہ نے واپس کابینہ میں شامل کرلیا۔ کیا انہوں نے پہلے غلط کیا تھا یا بعد میں ؟ خان صاحب کا ایک نکاتی ایجنڈا حکومت پر قابض ہونا ہے جسکی وجہ سے وہ دوغلی پالیسی رکھنے پر مجبور ہیں، ایک طرف سیاسی مقاصد کے حصول کیلئے جب چاہیں اپنے سیاسی حریفوں پر کرپشن کا ہتھیار استعمال کرتے ہیں اور دوسری طرف اپنی سیاسی ضرورت کے لئے جب چاہیں جسے چاہیں ڈرائی کلین کر دیں۔ صوبہ خیبرپختونخواہ میں پی ٹی آئی کی خراب کارکردگی نے بھی خان صاحب کی فریسٹریشن میں اضافہ کیا ہے، صوبائی حکومت نے سالانہ ترقیاتی پروگرام برائے17 ۔2016 کیلئے 161بلین روپے مختص کیے ہیں جو رواں برس کیلئے مختص کی گئی رقم سے 8فیصد کم ہیں،
گزشتہ تین برسوں سے صوبائی حکومت کے پاس کوئی قابلِ ذکر ترقیاتی منصوبہ پیش کرنے کے لئے نہیں ہے۔معاشی ترقی کیلئے سیاسی استحکام اور پالیسیوں کا تسلسل ناگزیر ہے، اِس تناظر میں دیکھا جائے تو خان صاحب کی لاک ڈاؤن کی سیاست کا مقصد خدانخواستہ پاکستان کو معاشی طور پر سبوتا ژکرنا ہے، خان صاحب بخوبی جانتے ہیں کہ وزیراعظم نواز شریف کی آئینی مدت پوری ہونے تک پاکستان ترقی و خوشحالی کے کتنے زینے عبور کرچکا ہوگا اور انہیں 2018 کا انتخاب ہاتھوں سے نکلتا ہوا نظر آ رہا ہے ،توانائی بحران پر قابو پانے کیلئے 2018 تک 11ہزار میگاواٹ بجلی نیشنل گِرڈ میں شامل ہوچکی ہو گی جبکہ 1947 سے لیکر2013 تک ملک میں صرف 16ہزارمیگاواٹ کی بجلی پیدا کی گئی۔گزشتہ تین برسوں میں ملکی سیکیورٹی کے محاذ پر بھی بے شمار کامیابیاں کا حصول ممکن ہوا،2013 میں پاکستان کو دنیا کا خطرناک ترین ملک قرار دیا جارہا تھا آج دنیا پاکستان کو ابھرتی ہوئی معیشت قرار دے رہی ہے، پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے نے قومی ترقی کیلئے نئی راہیں کھول دی ہیں، آج اکنامک گروتھ ریٹ گزشتہ 8برسوں میں بلند ترین جبکہ شرح افراطِ زر کم ترین سطع پرہے، پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر میں تین گنا اضافہ ہو چکا ہے ،
رواں برس کے موسمِ گرما میں پاکستانی شہریوں کی طرف سے ڈومیسٹک ٹورازم کا تاریخی مظاہرہ کیا گیا جو عوام کے بہتر حالات اور ملکی معیشت پر اعتماد کی عکاسی کرتا ہے۔ انہیں حقائق سے خوفزدہ ہوکرمسلم لیگ (ن) کے ناقدین موجودہ سیاسی نظام کو بادشاہت قرار دیتے ہیں، ایسی تنقید یا تو حقیقی صورتحال سے لاعلمی کی بناء پر یا بدیانتی پر مبنی ہوتی ہے کیونکہ بادشاہت میں تنقید کرنے کی اجازت نہیں ہوتی لیکن موجودہ دورِ حکومت میں سیاسی حریف اور آزاد میڈیا 24گھنٹے حکومتِ وقت کو نشانہِ تنقید بناتا ہے اورجمہوریت پسند حکومت بھی تنقید برائے اصلاح کی حوصلہ افزائی کرتی ہے۔عوام نے حالیہ ضمنی انتخابات، لوکل باڈیز الیکشن، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کی قانون ساز اسمبلیوں کے انتخابات سمیت دیگر مواقعوں پر وزیراعظم نواز شریف کی پالیسیوں پر اظہارِ اعتماد کرتے ہوئے خان صاحب کی منفی سیاست کو مسترد کیا ہے۔جمہوری کلچر کا تو تقاضہ ہے کہ اب خان صاحب 2018 کے انتخابات کا انتظار اور تیاری کریں ۔ اگر انہوں نے زرداری دور کو 5 برس برداشت کیا تو آج ملک اس کے مقابلے میں کہیں زیادہ مستحکم اور بہتر ہے ۔
لیکن خان صاحب کا مسئلہ جمہوری عمل نہیں یا ملک کی ترقی نہیں بلکہ ذاتی سیاست ہے ۔ مشہور پولیٹیکل سوشیالوجسٹ لیری ڈائمنڈ کے مطابق ڈیموکریسی ایک مسلسل ارتقائی عمل ہے جس میں کسی بھی قوم کیلئے بہتر سے بہتر جمہوری ملک بننے کی گنجائش موجود ہوتی ہیں اور ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں بھی جمہوریت تیزی سے پنپ رہی ہے۔ لیری ڈائمنڈ نے جمہوری حکومت کے طرزِ عمل بیان کیے تھے جن میں شہریوں کے پبلک دفاتر میں شمولیت کا حق، سیاسی اپوزیشن کی موجودگی اور شہری آزادی کی حفاظت سرفہرست تھے۔ سال 2008 ء سے پاکستان نے ان تین معاملات میں خاطرخواہ کامیابی حاصل کی ہے اور مسلم لیگ (ن)حکومت بھی ملک میں جمہوری اقدار کو مزیدمضبوط کرنے کیلئے پرْعزم ہے،ہم ماضی کی مستردشدہ فسطائی طاقتوں جنہوں نے دو سال قبل بھی پارلیمنٹ اور پی ٹی وی پر حملہ کیا تھا، کے حالیہ مذموم مقاصد کو ناکام بنانا اپناقومی فریضہ سمجھتے ہیں،ہم عوام کے سونپے گئے مینڈیٹ کو امانت کا درجہ دیکر قوم کی ترقی و خوشحالی پر مبنی اپنے ایجنڈے کو کامیابی سے آگے بڑھانا چاہتے ہیں،
ہم سمجھتے ہیں کہ 2 نومبر کے دن باشعورعوام مسترد شدہ عناصر کے عزائم کوہمیشہ کیلئے خاک میں ملا دیں گے ۔میں یہ واضح کرتا چلوں کہ ہم پرامن احتجاج کو جمہوری معاشرے کا حصہ سمجھتے ہیں لیکن خان صاحب کا اسلام آباد کو لاک ڈاؤن کرنا خلافِ جمہوریت اورخلافِ آئین اقدام ہے، لشکر کشی کرکے ریاست کے معاملات کو معطل کرکے شہریوں کی آزادانہ نقل و حرکت پر پابندی لگانے کی مثال دورِ جدیدکے کسی بھی جمہوری ملک میں نہیں ملتی۔میں امید کرتا ہوں کہ پی ٹی آئی اپنی احتجاجی حکمتِ عملی پر نظرثانی کرتے ہوئے کسی غیر آئینی اقدام کا حصہ نہیں بنے گی،میں پی ٹی آئی کے ممبرانِ پارلیمنٹ کو انتخابی اصلاحات ایجنڈے پر بھی حکومت کے ساتھ تعاون کرنے کی دعوت دیتا ہوں جو خان صاحب بھول چکے ہیں۔مسلم لیگ (ن)حکومت تمام اپوزیشن جماعتوں کے اشتراک سے انتخابی عمل میں اصلاحات لانے کیلئے سنجیدہ ہے تاکہ آئیندہ انتخابات میں کِسی کو بھی بے ضابطگیوں کی شکایت نہ کرنا پڑے اور ہم سب سیاسی وابستگیوں سے بالاتر ہوکر مشترکہ طور پرپاکستان کو ترقی و خوشحالی سے ہمکنار کرانے میں کامیاب ہوسکیں۔
تبصرہ لکھیے