Tag: فاٹا

  • سی پیک، وفاق اور صوبوں میں اعتماد کا فقدان –  بادشاہ خان

    سی پیک، وفاق اور صوبوں میں اعتماد کا فقدان – بادشاہ خان

    بادشاہ خان کئی اہم ملکی مسائل ایسے ہیں جن پر وفاقی حکومت کسی کی بات سننے کو تیار نہیں، فاٹا کا مسئلہ ہو یا پھر سی پیک کے مغربی روٹ پر صوبوں کو اعتماد میں لینے کا، مجبورا سی پیک منصوبے میں مغربی روٹ کا اسٹیٹس معلوم کرنے کے لیے اسپیکر خیبرپختونخوا اسمبلی اسد قیصر اور حکمران اتحاد کے پارلیمانی لیڈروں نے پشاور ہائی کورٹ میں رٹ پٹیشن دائر کردی ہے جس کی قاضی محمد انور ایڈووکیٹ پیروی کریں گے. رٹ صوبائی اسمبلی میں منظور کی گئی قرارداد نمبر 882 کے تحت دائر کی گئی، تاہم قرارداد پر دستخط کرنے والی چاروں اپوزیشن جماعتیں جے یو آئی، مسلم لیگ ن، اے این پی اور پیپلزپارٹی پیچھے ہٹ گئی ہیں اور اب رٹ حکمران اتحاد میں شامل جماعتوں تحریک انصاف، جماعت اسلامی اور قومی وطن پارٹی کی جانب سے دائر کی گئی ہے. صوبائی کابینہ کے رکن مشتاق غنی نے کہا ہے کہ صوبے کے حصے میں ایک رابطہ سڑک کے سوا کچھ نہیں دیا گیا، نہ ہی وفاق نے معاہدے کی دستاویزات دی ہیں، اور یہ رٹ قرارداد کی بنیاد پر دائر کی گئی ہے، اب کچھ جماعتیں پیچھے ہٹ رہی ہیں تو ان کی مرضی تاہم قرارداد کی سب نے ہی حمایت کی تھی. صوبائی اکائیوں کے اقتصادی راہداری (سی پیک) پر شدید اعتراضات وشبہات ہیں، اعتراضات کرنے والے کوئی انڈین ایجنٹ نہیں بلکہ پاکستان سے محبت کرنے والا سنجیدہ محب وطن طبقہ ہے. خیبر پختونخوا کے وزیراعلی پرویز خٹک نے کئی بار کہا کہ وفاقی حکومت نے چائنہ پاکستان اقتصادی راہداری سے منسلک تمام منصوبوں کو راہداری کے مشرقی روٹ پر منتقل کر کے کام شروع کردیا ہے، اور خیبر پختونخوا و بلوچستان کو اقتصادی راہداری کے منصوبے سے تقریبا محروم کر دیا گیا ہے، جبکہ منصوبے کا مغربی روٹ بھی ختم کر دیا گیا ہے جس کا ہم سے وفاقی حکومت نے وعدہ کیا تھا. یہ الفاظ ایک صوبے کے وزیر اعلی نے کئی بارکہے، اسی قسم کا بیان بلوچ رہنما سردار اختر جان مینگل کا سامنے آچکا ہے کہ جس میں انھوں نے گوادر پورٹ پر اپنے تحفظات کا واضح الفاط میں ذکر کیا تھا۔

    چند ماہ قبل ایک نجی چینل پر احسن اقبال کا ون ٹو ون انٹرویو سننے کا شرف حاصل ہوا، انٹرویو میں وزیر موصوف نے سی پیک کے بارے میں دلائل کے انبار پیش کیے، ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ چینل حکومتی مؤقف کی ترجمانی کے لیے یہ پروگرام کروا رہا تھا، اور پروگرام میں ایسا تاثر دیا گیا کہ کام تو مغربی روٹ پر ہی جاری ہے. گودار سے سوراب تک چھ سو پچاس کلومیٹر روڈ کو مغربی روٹ قرار دیا گیا جو کہ مغربی روٹ نہیں ہے، جس نے یہ علاقہ نہیں دیکھا اسے کیسے معلوم ہوسکتا ہے کہ کام کہاں ہو رہا ہے؟ وہ یہی سمجھےگا کہ یہ دوسری پارٹیاں اور صوبے شاید بےوقوف ہیں کہ خطے میں گیم چینجر منصوبے کی مخالفت کر رہی ہیں، جب پاکستان کے پس ماندہ علاقوں میں تبدیلی نہیں آرہی تو پھر کیسے یقین کرلیا جائے کہ خطے میں تبدیلی کا منصوبہ ہے. خود اس وقت تک گوادر کے مقامی رہائشی پینے کے صاف پانی سے محروم ہیں۔

    بلوچستان میرا آنا جانا رہتا ہے، کوئٹہ اسی سوراب سے گذر کر جاتا ہوں. سوراب چار راستوں کے سنگم پر واقع ہے. ایک سڑک کراچی کی جانب، دوسرا راستہ خضدار سے رتوڈیرو سندھ، تیسرا راستہ کوئٹہ اور چوتھا راستہ گوادار کو جاتا ہے. اس وقت سوراب سے گودار والے روٹ پر کام جاری ہے اور یہ مغربی روٹ نہیں ہے بلکہ یہ تو وہ راستہ ہے جو گودار سے لازمی یہاں تک بنے گا، اور یہی گودار سے پورے ملک کو لنک کرنے کا مختصر راستہ ہے. یہ مغربی روٹ نہیں،گوادر سے نکلنے والا مین روٹ ہے کیونکہ ساحل سمندر کے ساتھ بنائی گئی دوسری سڑک جو کہ پسنی، اور ماڑہ بوزی ٹاپ، ہنگول ندی سے ہوتے ہوئے کراچی کو لنک کرتی ہے، یہ طویل راستہ ہے، اس لیے پہلے مرحلے میں سوراب تک شارٹ ہائے وے تعمیر کی جا رہی ہے. اس سڑک اور کوری ڈور کو خضدار سے جیک آباد، رتوڈیرو سندھ سے لنک کیے جانے کی منصوبہ بندی ہے، جسے چھپایا جارہا ہے. کوری ڈور کا یہ حصہ بھی ضروری ہے کیونکہ اس سے سندھ کو فائدہ ہوگا مگر مغربی روٹ وہ ہے جو کہ سوراب، کوئٹہ سے ہوتے ہوئے برہان کو لنک کرے گا، اس روت پر خاموشی ہے. کچھ عرصہ قبل حکومت کی جانب سے سیاسی جماعتوں کو یہ بتایا گیا تھا کہ دونوں روٹس پر انفراسٹرکچر یکساں ہوگا، لیکن جب اس سے زیادہ مناسب مغربی روٹ پر توانائی کے پلانٹ ہوں گے نہ کوئی صنعتی پارکس اور انفراسٹرکچر ہوگا تو پھر یہ کیسے یکساں ہوگا؟ توانائی اور دیگر پروجیکٹ کوئی چھوٹے منصوبے نہیں ہیں۔ یہ انڈسٹریل پارکس چھوٹے چھوٹے نہیں بلکہ پورے پورے شہر بنیں گے ۔ تو جب مغربی روٹ پر توانائی نہیں ہوگی، بجلی نہیں ہوگی، موٹر وے نہیں ہو گی تو کیسے یہ علاقے ترقی کریں گے۔

    ایک صوبے کے علاوہ تمام صوبے راہداری پروجیکٹ کے مخالف ہیں، کیوں؟ سوال بڑا اہم ہے اور جواب بہت سادہ کیونکہ انہیں نظر انداز کیا جارہا ہے۔ اقتصادی زونز کے لیے جب پیسے ہی نہیں تو زونز کا اعلان کرکے لالی پاپ کیوں دیا جارہا ہے۔ سی پیک منصوبے کی کامیابی کے لیے یہ بات ضروری ہے کہ سب سے پہلے بلوچستان کے عوام اور حکومت کو اعتماد میں لیا جائے تاکہ ان کے اندر 69 سالوں سے محرومی کا احساس ختم ہو، اور ان کو بھی ترقی کے ثمرات میں پورا حصہ ملے. دلوں کو جیتنے کے لیے پاکستان کے ساتھ ساتھ چین کو بھی آگے آنا ہوگا اور سب سے زیادہ ضروری تو پاک فوج کا کردار ہونا چاہیے کہ جس پر پہلی بار بلوچ قوم اور نوجوان بھروسہ کر رہے ہیں. ان کو امید ہے کہ اب ان کے مسائل حل کروانے میں پاک فوج کردار ادا کرے گی. اکائیوں میں اتفاق سے قومیں تشکیل پاتی ہیں، جب صورت حال نازک ہو تو بڑے ہونے کا دعوی کرنے والوں کو چھوٹوں کو راضی کرنا پڑتا ہے ، پنجاب بڑا بھائی ہے اس لیے بڑی ذمہ داری اور قربانی بھی اسے دینا ہوگی۔ اس سے چھوٹے صوبوں میں وفاق اور پنجاب کی جانب سے خیر سگالی کا پیغام جائے گا اور چاروں صوبوں کے عوام میں محبت اور بھائی چارگی کو فروغ ملے گا، جبکہ سی پیک راہداری سے جنوبی پنجاب، سندھ ، خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے پسماندہ علاقے کو ترقی کے مواقع ملیں گے۔

  • اب یا کبھی نہیں-سلیم صافی

    اب یا کبھی نہیں-سلیم صافی

    saleem safi

    ماہ رواں کی پہلی تاریخ کو جبکہ ہم دھرنا دھرنا کھیل رہے تھے، جنوبی وزیرستان کے سب ڈویژن وانا میں بارودی سرنگ کے ایک دھماکے کے نتیجے میں پاک فوج کے میجر عمران شہید ہوئے۔ تاہم چونکہ ہماری ٹی وی اسکرینوں پر انقلابی ڈرامے کی کوریج زوروں پر تھی ، اس لئے مشرقی بارڈر پر بھارتی افواج کی مسلسل گولہ باری اور اس میں بے گناہ شہریوں کی ہلاکتوں کی خبر کی طرح میجر عمران کی شہادت کی خبر بھی توجہ حاصل نہ کرسکی ۔ اس حملے کی ذمہ داری تحریک طالبان کے شہریار محسود گروپ نے قبول کی ۔ شہریار محسود اور ان کے ساتھی یا تو افغانستان میں بیٹھے ہیں یا پھر کسی اور نامعلوم مقام پر ، اس لئے ان کے خلاف تو کوئی کارروائی نہیں کی جاسکی لیکن پولیٹکل انتظامیہ نے سزا مقامی افراد کو یوں دے دی کہ اگلے روز ان کی سو سے زائد دکانوں کو بارود سے اڑا کر مکمل طور پر مسمار کردیا۔ ایک محسود کے جرم کے ردعمل میں وزیر قبائل کی دکانوں کی یہ مسماری غیراخلاقی اور غیرانسانی فعل تو ہے لیکن غیرقانونی نہیں ۔

    غیرقانونی اس لئے نہیں کہ قبائلی علاقوں میں ایف سی آر کے تحت اجتماعی ذمہ داری (Collective Responsibility) کا جو قانون نافذ ہے ، اس کی رو سے کسی علاقے میں ہونے والے جرم کی سزا پورے علاقے کو دی جاسکتی ہے اور کسی ایک فرد کے جرم کی سز ا پورے قبیلے کو دی جاسکتی ہے ۔اب واقعہ چونکہ وزیروں کے علاقے میں پیش آیا تھا ، اس لئے سو دکانوں پر مشتمل مارکیٹ وزیروں کی مسمار کردی گئی لیکن یہ ضروری نہیں کہ سب دکاندار وزیر ہوں ۔ تاہم چونکہ قانون میں یہ گنجائش موجود ہے ، اس لئے پولیٹکل انتظامیہ نے سب کی دکانیں مسمار کردیں۔ ظلم کی انتہا دیکھئے کہ اس ظلم کے خلاف متاثرہ لوگ نہ تو جلوس نکال سکتے ہیں ، نہ کسی عدالت میں جاسکتے ہیں اور نہ ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ سو موٹو ایکشن لے سکتی ہے ۔ اور تو اور وہاں کا ایم این اے یا سینیٹر بھی زبان نہیں کھول سکتا کیونکہ ناراض ہونے کی صورت میں پولیٹکل ایجنٹ ان کے اور ان کے قبیلے کے گھروں کو بھی مسمار کرسکتا ہے ۔ ایم این اے صاحب کو بھی خاندان سمیت جیل میں ڈال سکتا ہے اور پھر ایم این اے صاحب بھی کسی عدالت سے رجوع نہیں کرسکتے ۔ اسی طرح کوئی مقامی رپورٹر بھی ایسے واقعات کے خلاف قلم یا زبان کو حرکت نہیں دے سکتا کیونکہ اجتماعی ذمہ داری کے قانون کے تحت پولیٹکل انتظامیہ اس رپورٹر ، اس کے خاندان اور اس کے قبیلے کے خلاف بھی مذکورہ تمام کارروائیاں کرسکتی ہے۔

    وہ سیاسی رہنما جو ذاتی اور سیاسی مفادات کی خاطر ،قبائلی روایات اور الگ شناخت کی آڑ لے کر ،فاٹا کے پختونخوا میں ادغام کی راہ میں رکاوٹیں ڈال رہے ہیں ،وہ آج کہاں ہیں؟ کیا اس الگ شناخت اور نام نہاد روایات کو آگ نہیں لگانی چاہئے جو اس طرح کے مظالم کے راستے میں رکاوٹ نہیں ڈال سکتے ؟۔ لاہور اور اسلام آباد تو کیا ، پشاور، مردان یا مینگورہ میں بھی اس طرح کے کسی ظلم کا انتظامیہ تصور نہیں کرسکتی ہے ؟۔کیونکہ یہاں اپوزیشن کے سیاستدان ، میڈیا اور عدلیہ قیامت اٹھادیں گے لیکن قبائلی علاقوں میں اس طرح کے مظالم روز کا معمول ہیں ۔ جنوبی وزیرستان کے اسی وانا سب ڈویژن سے تعلق رکھنے والے ایاز وزیر بطور سفیر ریٹائرڈ ہونے کے بعد اب ٹی وی چینلز اور مختلف قومی اور بین الاقوامی فورمز پر پورے پاکستان کے مسائل پر تجزیہ کررہے ہوتے ہیں ۔ اسی وانا سے تعلق رکھنے والے سعید وزیر ایک متحرک اور اہل ترین پولیس افسر کی حیثیت سے اس وقت ڈی آئی جی ہزارہ ڈویژن کے طور پر خدمات سرانجام دے کر وہاں پر خیبر پختونخوا میں رائج قانون کے نفاذ کو یقینی بنارہے ہیں ۔ اسی وانا سے تعلق رکھنے والے اجمل وزیر ،گجرات کے چوہدریوں کی مسلم لیگ (ق) کے مرکزی سینئر نائب صدر ہیں اور کبھی لاہور کے ماڈل ٹائون کے ہلاک شدگان کے قصاص کے مطالبے کے لئے طاہرالقادری کے ساتھ کنٹینر پر کھڑے نظر آتے ہیں تو کبھی عمران خان صاحب کو پٹی پڑھانے والوں کی صف میں شامل ہوتے ہیں ۔ اسی علاقے سے تعلق رکھنے والے ہونہار نوجوان احمد نور وزیری نے گورنمنٹ کالج لاہور میں دوسری پوزیشن حاصل کرنے کے بعد سی ایس ایس کا امتحان پاس کیا اور حالیہ دنوں میں سیکشن آفیسر کی حیثیت میں سول بیورو کریسی کا حصہ بن گئے ۔

    یہ نمونے کے چند نام ہیں ۔ ورنہ اسی طرح کے سینکڑوں وزیر قبائل کے افراد سیاست، عدلیہ ، سول اور ملٹری بیوروکریسی کا حصہ ہیں ۔لیکن ہمارے چند سیاسی مہربان قبائلی روایات اور الگ شناخت کا ڈھنڈورا پیٹ کر انہیں باقی ملک سے الگ تھلک رکھ کر ،اس ظالمانہ نظام کے شکنجے میں جھکڑے رکھنا چاہتے ہیں ۔ باقی پاکستان تو کیا قدیم قبائلی روایات کے حامل بلوچستان جیسے شورش زدہ اور پسماندہ صوبے میں بھی ان مظالم کا تصور نہیں کیا جاسکتا جن کا فاٹا کے عوام کو سامنا ہے ۔ وہاں جاوید مینگل ریاست سے لڑرہے ہیں لیکن الحمدللہ سردار اختر جان مینگل قومی دھارے اور قومی سیاست کا اہم کردار ہیں ۔ حربیار مری ریاست کے خلاف بغاوت اور غداری کے مرتکب ہورہے ہیں لیکن ان کے بھائی چنگیز مری مسلم لیگ(ن) کے لیڈر ہیں ۔ براہمداغ بگٹی نہ صرف ریاست پاکستان کے خلاف لڑرہے ہیں بلکہ ہندوستان سے مدد اور شہریت بھی طلب کررہے ہیں لیکن ان کے جرم میں بگٹی قبیلے کے کسی اور فرد کو سزا نہیں دی جاسکتی ۔ دوسری طرف ’’آزاد‘‘ قبائل ہیں کہ جن کے کسی ایک فرد کے جرم میں پورے قبیلے اور پورے علاقے کو سزاملتی ہے ۔ اب تو فوج بھی رکاوٹ نہیں ڈال رہی تو پھر سوال یہ ہے کہ میاں نوازشریف کی حکومت قبائلی علاقوں کو پختونخوا میں ضم کرنے سے کیوں گریزاں ہے؟۔ کیا وہ اس وقت کا انتظار کررہے ہیں کہ لاکھوں قبائلی نوجوان اسلام آباد میں دھرنا دینے پر مجبور ہوجائیں اور یاد رکھنا چاہئے کہ ان قبائلیوں کے دھرنے تحریک انصاف کے دھرنوں کی طرح برگر مارکہ نمائشی دھرنے نہیں ہوں گے ۔ یا پھر اس وقت کا انتظار ہے کہ قبائلی علاقوں سے نئے اور پڑھے لکھے نوجوان ایک نئی قسم کی طالبان تحریک شروع کر دیں؟ سرتاج عزیزصاحب کی کمیٹی کسی اور نے نہیں بلکہ خود وزیراعظم صاحب نے تشکیل دی تھی ۔ ہم جیسے لوگ اس کی ساخت پر معترض تھے لیکن حکومت کا دعویٰ تھا کہ وہ نمائندہ کمیٹی ہے ۔ اس کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں فاٹا کے پختونخوا کے ساتھ ادغام کی سفارش کی ہے اور یہ بھی واضح کیا ہے کہ قبائلی عوام کی اکثریت یہی چاہتی ہے ۔ یہ وضاحت اور دلائل بھی اس رپورٹ میں موجود ہیں کہ الگ صوبہ ممکن نہیں لیکن اب اس رپورٹ کو سردخانے میں ڈال دیا گیا ہے ۔ وفاق کی کمیٹی ادغام کی حامی ہے ۔ صوبائی حکومت اور پی ٹی آئی ادغام کے ساتھ ہیں ۔ پیپلز پارٹی ، اے این پی اور جماعت اسلامی جیسی تنظیمیں اس کے حق میں ہیں تو پھر کیا وجہ ہے کہ عمل درآمد نہیں کیا جارہا ۔

    مجھے تو اس کے سوا کوئی وجہ نظر نہیں آتی کہ یہ علاقے حکومتی ترجیحات میں شامل نہیں اور اسحاق ڈار صاحب چند ارب روپے وہاں خرچ کرنے کو تیار نہیں ۔جہاں تک حضرت مولانا فضل الرحمان اور محترم محمود خان اچکزئی صاحب کے اعتراضات کا تعلق ہے تو ان کا کوئی اخلاقی جواز اس لئے نہیں کہ وہ دونوں وفاقی حکومت کا حصہ ہیں اور سرتاج عزیزکی فاٹا ریفارمز کمیٹی وفاقی حکومت نے ہی تشکیل دی تھی۔ فاٹا سے سب سے زیادہ نشستیں مسلم لیگ (ن) نے حاصل کی ہیں جبکہ اچکزئی صاحب کی پارٹی وہاں سے ایک بھی نشست حاصل نہیں کرسکی ہے ۔ خود فاٹا کے منتخب نمائندوں نے قومی اسمبلی میں جو قرارداد جمع کی ہے اس میں ادغام کا آپشن سرفہرست ہے ۔وزیراعظم کو یاد رکھنا چاہئے کہ اگر انہوں نے اگلے انتخابات سے قبل اپنی بنائی ہوئی کمیٹی کی رپورٹ پر عمل درآمد کو یقینی بنا کر فاٹا کو پختونخوا میں ضم کردیا تو آئندہ نسلیں انہیں اپنا محسن سمجھیں گی اور اگر وہ ناکام رہے تو انہی آئندہ نسلوں کے ہاتھ انکے اور ان کی آئندہ نسلوں کے گریبانوں میں ہونگے۔

  • نوازشریف۔ محسن یا ملزم-سلیم صافی

    نوازشریف۔ محسن یا ملزم-سلیم صافی

    saleem safi

    سوویت یونین کے خلاف جنگ کے لئے امریکہ اور حکومت پاکستان کی طرف سے پاکستان کو فرنٹ لائن اسٹیٹ اور پھر فاٹا کو بیس کیمپ بنانے کا نقصان یوں تو پورے پاکستان کو ہوا لیکن سب سے زیادہ تباہی کا سامنا فاٹا کو کرنا پڑا ، جس کا پورا سماجی حلیہ بگڑ گیا۔ پھر نائن الیون کے بعد کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے فرنٹ لائن اسٹیٹ بن جانے اور پھر ڈبل گیم کا نقصان بھی پورے پاکستان کو ہوا اور ہورہا ہے لیکن فاٹا اور پختونخوا کے نقصانات اور تباہیوں کا کوئی شمار نہیں۔ فاٹا کے لوگ پہلے عسکریت پسندوں کے ہاتھوں ذلیل ہوئے، مارے گئے اور بے گھر کئے گئے اور پھر ملٹری آپریشنوں کے ذریعے ان کو ان سب کا سامنا کرنا پڑا۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں تعاون کے ذریعے پاکستان کے خزانے میں پچھلے دس سالوں میں پچاس ار ب ڈالر سے زیادہ رقم پاکستان آئی لیکن ایک ارب ڈالر بھی قبائلیوں پر خرچ نہیں ہوئے۔ جو تھوڑی بہت رقم وہاں گئی بھی ، وہ گورنروں ، پولیٹکل ایجنٹوں اور منتخب ایم این ایز اور سینیٹرز کی جیبوں میں چلی گئی۔ ظلم کی انتہا دیکھ لیجئے کہ پچھلے تین سالوں کے دوران قبائلی علاقوں کے انسانوں پرفی کس اتنی رقم بھی خرچ نہیں ہوئی جتنی کہ باقی پاکستان کے انسانوں پر فی کس خرچ ہوتی رہی ۔

    زبانی کلامی دعویٰ نہیں بلکہ سرتاج عزیز صاحب کی سربراہی میں قائم فاٹا ریفارمز کمیشن کی سفارشاتی رپورٹ میں واضح لکھا گیا ہے ۔ اس رپورٹ کے مطابق 15۔2014 کے بجٹ میں جہاں باقی پاکستان کے شہریوں کے لئے فی کس 18995روپے مختص کئے گئے ، وہاں فاٹا کے عوام کے لئے فی کس 7855 روپے فی کس مختص کئے گئے ۔ اسی طرح 14۔2013ء کےبجٹ میں باقی پاکستان کے شہریوں کے لئے فی کس 15606 روپے مختص کئے گئے تو فاٹا کے شہریوں کے لئے فی کس 7492روپے مختص کئے گئے ۔ یہی صورت حال ان سے پچھلے سالوں کی بھی رہی اور مکرر عرض ہے کہ باقی پاکستان میں اگر سو میں بیس روپے کرپشن کی نذر ہوتے ہیں تو فاٹا میں یہ شرح سو میں اسی کی ہے ۔ فاٹا کے ساتھ یہ ظلم ہورہے ہیں لیکن کوئی اس کے خلاف آواز اٹھارہا ہے اور نہ باقی پاکستان یا دنیا اس طرف متوجہ ہورہی ہے ۔ اس کی سب سے بڑی وجہ فاٹا کی مخصوص آئینی حیثیت اور قومی دھارے سے اس کا باہر ہونا ہے اور اس ظلم کے خاتمے کا نقطہ آغاز یہی ہوگا کہ اسے قومی دھارے میں لاکر وہاں پر بھی اسی طرح کا نظام لاگو کیا جائے جس طرح کہ باقی پاکستان میں ہے لیکن افسوس کہ موجودہ حکومت نے اس میں مجرمانہ تساہل سے کام لیا۔ ہوناتو یہ چاہئے تھا کہ حکومت سنبھالتے ہی پہلی فرصت میں اس عمل کا آغاز کردیا جاتا لیکن چونکہ میاں محمد نوازشریف صاحب اصلاً وزیراعظم اسلامی جمہوریہ وسطی پنجاب ہیں ، اس لئے گورنر کی تقرری سے لے کر آئی ڈی پیز کی بحالی تک اور ترقیاتی عمل سے لے کر فاٹا کو قومی دھارے میں لانے تک، کسی معاملے میں بھی انہوں نے کوئی دلچسپی نہیں لی ۔

    سانحہ آرمی پبلک اسکول پشاور کے بعد قومی قیادت نے فوجی قیادت کے دبائو پر جو نیشنل ایکشن پلان بنایا اس میں فاٹا اصلاحات کی شق بھی شامل تھی لیکن پھر بھی وزیراعظم کی عدم دلچسپی کا یہ عالم رہا کہ اپنے وزراء پر مشتمل کمیٹی کے نوٹیفکیشن میں دس ماہ لگائے اور پھر جب دہشت گردی کے ایک اور سانحہ کی وجہ سے فوج کی طرف سے پھردبائو آیا تو انہوں نے نومبر 2015ء میں سرتاج عزیز صاحب کی سربراہی میں سیاسی اور انتظامی اصلاحات کے لئے پانچ رکنی کمیٹی تشکیل دے دی ۔ واضح رہے کہ نیشنل ایکشن پلان کا اعلان 25دسمبر 2014کو ہوا تھا لیکن وزیراعظم نے کمیٹی کا نوٹیفکیشن دس ماہ بعد یعنی8نومبر2015ء کو جاری کیا۔ فاٹا اور پختونخوا کی نمائندگی نہ ہونے کی وجہ سے ہم جیسے طالبعلموں کو اس پر اعتراض رہا لیکن اس کمیٹی نے اپنی رپورٹ مارچ 2016 میں تیار کرلی اور حقیقت یہ ہے کہ مجموعی طور پر اچھی اور قابل عمل رپورٹ ہے تاہم پھر اس رپورٹ کو سامنے نہیں لایا جارہا تھا اور اس کے لئے ہمیں ایک اور بڑے سانحے کا انتظار کرنا پڑا ۔ سانحہ کوئٹہ کے بعد یہ رپورٹ پارلیمنٹ میں بحث کے لئے پیش کی گئی جس پر ان دنوں بحث ہورہی ہے لیکن المیہ یہ ہے کہ اب وہاں پر کوئی اور نہیں بلکہ وزیراعظم صاحب کے دو سیاسی پراکسیز یعنی محمود خان اچکزئی صاحب اور مولانا فضل الرحمان صاحب اس کے خلاف میدان میں آگئے ہیں اور وہ اس کمیٹی کی اہم ترین سفارش یعنی فاٹا کے خیبر پختونخوا میں ادغام کی مخالفت کررہے ہیں ۔ گویا اپنی حکومت کی ، اپنے ہی وزیراعظم کی بنائی گئی کمیٹی کی ، تیار کردہ سفارشات کی مخالفت کرکے وہ اس رپورٹ کو متنازع بنارہے ہیں جس کا نتیجہ یہ نکلے گا اس تنازع کی آڑ لے کرحکومت کا عرصہ پورا ہوجائے گا اور فاٹا کے لوگ اسی طرح ذلیل ہوتے رہیں گے جب کہ یہ علاقے باقی پاکستان کے لئے وبال جان بنے رہیں گے ۔

    میں پہلے بھی ’’جرگہ‘‘ میں کئی مرتبہ تفصیل سے لکھ چکا ہوں اور ہر فورم پر اس کا دفاع کرنے کو تیار ہوں کہ فاٹا کے ادغام کو روکنے کے لئے روایات، خصوصی اسٹیٹس اور دیگر اسی طرح کی چیزوں کی آڑ لے کر جو دلائل پیش کئے جارہے ہیں ، وہ بہانہ سازی کے سوا کچھ نہیں۔ سرتاج عزیز کمیٹی نے فاٹا کے منتخب نمائندوں اور عوام سے میاں نوازشریف کے مقر ر کردہ گورنر کی موجودگی میں مشاورت کی ہے اور وہ کمیٹی اس نتیجے تک پہنچی ہے کہ اکثریت صوبے کے ساتھ ادغام چاہتی ہے ۔ خود فاٹا کے پارلیمنٹرین نے 2015ء میں جو بل ایوان میں داخل کرایا ہے ، اس میں ادغام کا آپشن سرفہرست ہے ۔ میں خود اس مہمند قبیلے سے تعلق رکھتا ہوں جو پاکستان اور افغانستان میں منقسم ہے اور جس کو ایزمنٹ رائٹس(Easement rights) حاصل ہیں ۔ اب جب وہاں کے لوگوں کے منتخب نمائندے یا پھر ہم جیسے عوام کی اکثریت ادغام کے حق میں ہے تو پھر کسی اور کو کیا اعتراض ہے ۔ ملک کی تین بڑی جماعتیں یعنی مسلم لیگ(ن)، پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف بھی حامی ہیں اور جہاں تک ریفرنڈم کا تعلق ہے تو کیا ریفرنڈم کروا کر فاٹا کے لوگوں کی رائے پوچھی گئی تھی جب وہاں پر طالبان اور مجاہدین کے ٹھکانے بنائے گئے اور کیاکسی ملٹری آپریشن سے پہلے قبائلی عوام کی رائے لی گئی تھی۔ جو سیاسی لیڈر آج مذموم مقاصد کے لئے فاٹا کے پختونخوا میں ادغام کی مخالفت کررہے ہیں وہ اس وقت کہاں تھے؟ ۔ انہوںنے قبائلی عوام کو ساتھ لے کر اور قبائلی روایات کو بروئے کار لا کر طالبانائزیشن یا ملٹری آپریشنوں کا راستہ کیوں نہیں روکا ؟۔ یا چلیں آج ہمت کرکے ، قبائلی عوام کو بجٹ میں سے تو ان کا جائز حصہ دلوادیں ۔

    طالبان ملاکنڈ ڈویژن میں بھی آئے اور ملٹری آپریشن وہاں پر بھی ہوا لیکن چونکہ ملاکنڈ ڈویژن قومی دھارے اور صوبے کا حصہ تھا، اس لئے دو سال کے اندر اندر وہاں معاملہ ختم ہوگیا ، طالبان نکالے گئے اور لوگ اپنے گھروں کو واپس چلے گئے ۔ وجہ یہ تھی کہ پارلیمنٹ میں ملاکنڈ کی بات ہورہی تھی، میڈیا شور مچارہا تھا اور کچھ نہ کچھ عدالت بھی حرکت کررہی تھی لیکن چونکہ فاٹا میں یہ تینوں چیزیں نہیں ہیں ، اس لئے پندرہ سال گزرنے کے بعد بھی وہاں زندگی معمول پر نہ آسکی ۔فاٹا کی نئی نسل چاہتی ہے کہ وہ باقی پاکستانیوں کی طرح پاکستانی بنیں ۔ انہیں عزت نفس چاہئے، تعلیم چاہئے ، روزگار چاہئے اور سیاسی و آئینی حقوق چاہئیں جو موجودہ اسٹرکچر میں کبھی ان کو نہیں مل سکتے اور اس کا واحد راستہ پختونخوا اور باقی ملک کے ساتھ ادغام ہے ۔ اس لئے فضول بحث میں وقت ضائع کرنے کی بجائے ہر سیاسی و سماجی لیڈر کا فرض بنتا ہے کہ وہ حکومت پر دبائو ڈالے کہ وہ ان سفارشات پر جلداز جلد عمل درآمد کروائے ۔ اس میں جو کمی بیشی ہے ، وہ دور کی جائے ۔ عمل درآمد والی کمیٹی میں خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ کو بھی شامل کیا جائے تاکہ ادغام کے عمل میں ضروری کوآرڈنیشن ہوسکے۔ موجودہ گورنرکے پی کے دور میں کرپشن بہت بڑھ گئی ہے اور بیماری و بڑھاپے کی وجہ سے ان کی نگرانی میں فاٹا کے ادغام کا مشکل کام کبھی نہیں ہوسکتا ۔

    اس کے لئے دبائو ڈالنا چاہئے کہ وزیراعظم میرٹ پر اہل گورنر کا تقرر کریں۔ عبوری دور کے لئے کمیٹی نے ڈویزیبل پول میں تین فی صد حصہ مقرر کرنے کی سفارش کی ہے جو میرے نزدیک کم ہے لیکن اطلاعات کے مطابق اسحاق ڈار صاحب صرف ایک فی صد دینے پر آمادہ ہیں ۔ مولانا صاحب اور اچکزئی صاحب روڑے اٹکانے کی بجائے اپنے وزیراعظم نوازشریف پر دبائو ڈالیں کہ وہ عبوری دور کے لئے ڈویزیبل پول میں فاٹا کا حصہ کم ازکم پانچ فی صد رکھیں۔ اسی طرح آئندہ انتخابات میں فاٹا میں صوبائی اسمبلی کے بھی انتخابات کرائے جائیں تاکہ کے پی اسمبلی میں فاٹا کو نمائندگی مل جائے ۔ فاٹا کے نمائندے صوبائی اسمبلی میں موجود رہیں گے تو صوبے کے ساتھ اس کے ادغام کے عمل میں معاونت بھی کریں گے اور اپنے حقوق کو بھی یقینی بناسکتے ہیں ۔ میاں نوازشریف کی حکومت میں یہ کام ہوا تو فاٹا کی آئندہ نسلوں کے محسن تصور ہوں گے لیکن اگر یہ موقع بھی ضائع کردیا تو ان نسلوں کے سب سے بڑے مجرم تصور ہوں گے۔ مرضی ان کی ہے کہ وہ اپنے لئے محسن کے ٹائٹل کا انتخاب کرتے ہیں یا مجرم کے ٹائٹل کا ۔میاں صاحب یاد رکھیں کہ فاٹا کے لوگ اسوقت دربدر ضرور ہیں لیکن احسان بھولتے ہیں اور نہ اپنے مجرموں کو معاف کرتے ہیں ۔

  • آزادی رائے کو بھونکنے دیں؟ آصف محمود

    آزادی رائے کو بھونکنے دیں؟ آصف محمود

    آصف محمود محمود خان اچکزئی پھر بولے، پھر سلیم احمد مرحوم کی یاد آئی. 80 کی دہائی میں انہوں نے لکھا تھا:
    ”آزادی رائے کو بھونکنے دو.“
    زندہ ہوتے تو حاضر ہوتا اور پوچھتا: کب تک اور کتنا.
    قومی اسمبلی میں خان صاحب نے فرمایا کہ فاٹا کی حیثیت کو مت چھیڑیں ورنہ یہ بین الاقوامی ایشو بن جائے گا.
    فاٹا کی حالت ہمارے سامنے ہے. ایف سی آر کے نام پر لاقانونیت. مروجہ آئینی سکیم میں وہاں سپریم کورٹ کو حق نہیں کہ کسی کی داد رسی کر سکے. پولیٹیکل ایجنٹ یہاں کا ان داتا ہے. اور بہت سے مسائل ہیں. چنانچہ اسے قومی دھارے میں لانے اور بنیادی حقوق دینے کی خاطر فاٹا ریفارمز کمیٹی بنائی گئی. ایک طویل مشاورت کا عمل ہوا جو جاری ہے. بہت سی تجاویز زیر غور ہیں کہ فاٹا کو الگ صوبہ بنایا جائے یا کے پی کا حصہ بنایا جائے. عمران خا ن کی تجویز ہے کہ ایک مرحلے پر اسے کے پی کا حصہ بنا دیا جائے. یہ معاملات آگے کو بڑھ رہے تھے کہ اچانک اچکزئی صاحب اپنی آزادی رائے سمیت بیچ میں کود پڑے.
    سوال یہ ہے کہ کیا ان کا تعلق فاٹا سے ہے؟
    کیا وہ فاٹا سے منتخب رکن اسمبلی ہیں؟
    کیا وہ فاٹا کے نمائندے یا ترجمان ہیں؟
    فاٹا کے بارے میں فاٹا کے منتخب نمائندوں کی مرضی سے اور فاٹا ریفارمز کمیٹی کے طویل مشاورتی عمل کے بعد اگر منتخب پارلیمان کوئی فیصلہ کرتی ہے تو اس پر اتنا سیخ پا ہونے کی کیا ضرورت ہے؟ ٹھیک ہے آپ مشورہ دیں، رائے دیں لیکن کس استحقاق کی بنیاد پر آپ کی بات کو حرف آخر سمجھ لیا جائے؟ فاٹا پاکستان کا علاقہ ہے، آپ کی جاگیر کا پائیں باغ نہیں.
    نیز یہ کہ یہ معاملہ بین الاقوامی ایشو کیسے بن جائے گا؟ اچکزئی کے کس ممدوح ملک کو اس سے تکلیف ہوگی کہ یہ مسئلہ بین الاقوامی مسئلہ بن جائے گا؟ افغانستان کو یا بھارت کو؟ کس کی شہ پر یہ دھمکی دی جا رہی ہے؟
    اچکزئی کس کی زبان بول رہے ہیں؟ کس کی شہ پر ان کا دہن مبارک آگ اگل رہا ہے؟ پاکستان کا ایک داخلی مسئلہ بین الاقوامی مسئلہ کیسے بن جائے گا؟
    سلیم احمد نے ٹھیک کہا ہوگا مگر کب تک اور کتنا؟

  • کچھوے کا دوسرا نام فاٹا ہے-وسعت اللہ خان

    کچھوے کا دوسرا نام فاٹا ہے-وسعت اللہ خان

    wusat

    کوئی بھی کام کرنے کا ایک ہی طریقہ ہوتا ہے کہ وہ کر دیا جائے۔ مثلاً سینتالیس سے ستر تک گلگت بلتستان کو فرنٹیر کرائمز ریگولیشنز کے تحت چلایا جاتا رہا۔ پھر بھٹو صاحب نے انیس سو چوہتر میں اس علاقے کی ایک کاغذی کونسل بنا دی جس کا مجازی خدا وفاقی وزیرِ امورِ کشمیر تھا۔ جب زرداری حکومت نے دو ہزار نو میں گلگت بلتستان سیلف گورننس آرڈر نافذ کیا تو نہ تو علاقے کے دو ملین لوگوں کی رائے جاننے کے لیے ریفرنڈم کروایا گیا نہ اس مسودے کو عوامی بحث کے لیے پیش کیا بس نافذ کر دیا گیا اور لوگوں نے چار و ناچار قبول بھی کر لیا۔

    لیکن کسی بھی کام کو کرنے کا اگر صرف ایک طریقہ ہے تو نہ کرنے کے ہزار طریقے ہیں۔ جیسے وفاق کے زیرِ انتظام قبائیلی علاقہ جات (فاٹا) میں سیاسی و اقتصادی اصلاحات۔

    پاکستان میں جو بھی جب بھی سیاحت کو پروموٹ کرنے کا بروشر چھاپتا ہے تو  کے ٹو سے نانگا پربت تک  ہر چوٹی، ہنزہ سے دیوسائی تک تمام وادیوں میدانوں، اور نذیر صابر و اشرف امان سے ثمینہ بیگ تک تمام کوہ پیماؤں اور بالتورو و بیافو سمیت تمام بلتی و گلگتی گلیشیرز کو ’’پاکستان کے جنت نظیر قابلِ دید‘‘ مقامات کے طور پر شو کیس کیا جاتا ہے۔ مگر جب ان جنت نظیر قابلِ دید مقامات کی اختیار و اقتدار میں مساوی شراکت کا سوال اٹھایا جاتا ہے تو فوری جواز و جواب یہ ہوتا ہے کہ آپ تو متنازعہ علاقہ ہیں آپ تو پاکستان کا باقاعدہ حصہ ہی نہیں وغیرہ وغیرہ۔

    اسی طرح  وفاق کے زیرِ انتظام سات قبائلی ایجنسیوں (باجوڑ، مہمند، خیبر، اورکزئی، کرم، جنوبی و شمالی وزیرستان) اور پشاور، کوہاٹ، بنوں، لکی مروت، ٹانک و ڈیرہ اسماعیل خان سے متصل چھ فرنٹیر ریجنز کے پچاس لاکھ قبائلیوں کو  ویسے تو پاکستان کا بازوئے شمشیر زن کہا جاتا ہے۔ انیس سو سینتالیس کی جنگِ کشمیر سے اب تک ان کی عسکری و قومی قربانیاں کو سراہنے میں زمین و آسمان ایک کر دیے جاتے ہیں۔ دہشتگردی کے خلاف گزشتہ سولہ برس سے جاری جنگ اور اس سے بھی پہلے اڑتیس برس سے جاری ڈیورنڈ لائن کے آر پار کی بدامنی سے نمٹنے، ڈرون حملے سہنے اور بے گھری کا بوجھ اٹھانے جیسی قربانیوں کو ہمیشہ یاد رکھنے کے وعدوں کی مسلسل تحسینی بارش بھی نہیں رکتی۔

    لیکن یہی قبائل جب مطالبہ کرتے ہیں کہ اگر ہم اتنے ہی اچھے اور پیارے ہیں تو پھر انگریز دور کے ایک سو پندرہ سال سے نافذ فرنٹیر کرائمز ریگولیشنز سے ہمیں نجات کیوں نہیں دلاتے۔ آئینِ پاکستان کے تحت ہمیں بھی بنیادی انسانی حقوق اور انصاف کی اعلیٰ ترین عدالتوں تک رسائی کیوں نہیں۔ ایسے مطالبات کے جواب میں کہا جاتا ہے کہ حضور آپ کی تو ایک مخصوص شناخت و تشخص ہے۔آپ تو آزاد منش ہیں اور ہم چاہتے ہیں کہ آپ کی خود مختاری آپ کے رواجوں کے ساتھ برقرار رہے۔ مگر یہ کوئی نہیں بتاتا کہ ایف سی آر جیسا قانون کس قبائلی رواج کا نام ہے؟ پولیٹیکل ایجنٹ محض شبہے کی بنیاد پر کسی بھی قبائلی کو تین برس کے لیے کیوں نظربند، قید یا علاقہ بدر کر سکتا ہے اور پھر اس سزا میں مزید توسیع کے صوابدیدی اختیارات کیوں رکھتا ہے۔ پولیٹیکل ایجنٹ استغاثہ بھی ہے  جج بھی اور کورٹ آف اپیل بھی۔

    فاٹا کو پہلی بار ون مین ون ووٹ کا حق انیس سو چھیانوے میں ملا۔ اس سے قبل محض پینتیس ہزار ملکوں اور عمائدین کو ہی قومی اسمبلی کے لیے بارہ نمایندے چننے کا حق تھا اور پھر منتخب نمایندے آٹھ سینیٹر چنتے تھے اور یہ سارا جمہوری کام بولی لگا کے ہوتا تھا۔

    فاٹا میں اصلاحات کی کہانی دو ہزار آٹھ سے سننے میں آ رہی ہے۔ جب سابق چیف جسٹس اجمل میاں کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی گئی اور اس کمیٹی کی سفارشات کی روشنی میں دو ہزار گیارہ میں ایف سی آر میں یہ ترمیم کی گئی کہ فاٹا ٹریبونل کے اختیارات ہائی کورٹ کے مساوی کر دیے گئے۔ اجتماعی سزا کی شق جس کے تحت ایک شخص کے جرم کا ذمے دار پورے قبیلے کو ٹھہرایا جاتا تھا اس میں تبدیلی کر کے اجتماعی ذمے داری کے عمل سے بچوں، بوڑھوں اور قبیلے کو نکال دیا گیا اور ’’جو کرے وہ بھرے‘‘ کا یونیورسل اصول لاگو کیا گیا۔

    اس کے بعد راوی اصلاحات کے معاملے میں گھمبیر خاموشی لکھتا ہے۔ راستے میں قبائلی ایجنسیوں میں طالبان کے خلاف بھر پور فوجی ایکشن، آپریشنِ ضربِ عضب اور شمالی و جنوبی وزیرستان کی آبادی کی بے گھری و بے سرو سامانی تو پڑاؤ کرتی نظر آتی ہیں مگر اصلاحات کا خیمہ دور کسی چوٹی پر گڑا ٹپائی دیتا ہے۔

    موجودہ نواز شریف حکومت نے فاٹا اصلاحات کے کچھوے کو اب سے سال بھر پہلے فوج کے دباؤ پر چھ رکنی سرتاج عزیز کمیٹی کے سپرد کر دیا۔ اس کمیٹی نے اس ہفتے جو سفارشات وزیرِ اعظم کو پیش کی ہیں ان میں کہا گیا ہے کہ موجودہ ایف سی آر کی جگہ ٹرائبل ایریا رواج ایکٹ نافذ کیا جائے جو مقامی رواج اور جرگہ سسٹم پر مشتمل ہو اور اس میں جج پولیٹیکل ایجنٹ نہ ہو بلکہ ایک الگ سے جوڈیشل افسر بطور جج کام کرے۔ ایک سفارش یہ بھی ہے کہ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کا دائرۂ کار فاٹا تک بڑھایا جائے۔ لیکن انفرادی جھگڑے نمٹانے کے لیے جرگہ و رواج سسٹم بھی برقرار رکھا جائے…

    یہ تجاویز بالکل ایسی ہیں کہ کوئی کہے کہ تمہارے پاؤں میں جو زنجیر پڑی ہے اس زنجیر کے ساتھ تم جہاں چاہے جانے کے لیے آزاد ہو۔ باقی سفارشات فاٹا میں مالی اصلاحات و بجٹ سے متعلق ہیں اور ایک سفارش یہ بھی ہے کہ فاٹا میں اگلے برس تک بلدیاتی انتخابات کروا دیے جائیں۔

    مگر سب سے اہم فیصلہ ہونا باقی ہے۔ یعنی فاٹا کو اصلاحات کے بعد بھی جوں کا توں برقرار رکھا جائے، ایک علیحدہ صوبہ بنا دیا جائے، خیبر پختون خوا میں ضم کر دیا جائے یا پھر گلگت بلتستان کی طرز پر ایک کونسل اور اسمبلی بنا دی جائے۔

    فاٹا کی بیورو کریسی اور روایتی معززین چاہتے ہیں کہ موجودہ نظام جوں کا توں رکھا جائے البتہ تھوڑی بہت مرمت و لیپا پوتی اور ڈیکوریشن کر دی جائے۔ پشتون قوم پرست جماعتیں کہتی ہیں کہ فاٹا کے قبائلی عملاً سیاسی، سماجی، املاکی و معاشی طور پر خیبر پختون خوا سے جڑے ہوئے ہیں۔ فاٹا سیکریٹیریت تک پشاور میں ہے۔ امن و امان کے حالات کے سبب زیادہ تر پولیٹیکل ایجنٹ بھی سیٹلڈ ایریاز میں دفتر لگاتے ہیں۔ لہذا اگر فاٹا کو صوبے کا حصہ بنا دیا جائے تو کیا مضائقہ ہے۔

    ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ سرتاج عزیز کمیٹی کی سفارشات تمام سٹیک ہولڈرز سے مشاورت کے بعد ٹھوس دو ٹوک شکل میں سامنے آتیں، پارلیمنٹ ان پر بحث کرتی اور پھر جو بھی ایکٹ تیار ہوتا اسے نافذ کر دیا جاتا۔ مگر نہیں۔ اب یہ سفارشات عام بحث کے لیے عوام کے سامنے رکھی جائیں گی۔ ان  پر بحث پارلیمنٹ میں ہو گی مگر قانون کی منظوری قبائلی جرگہ دے گا۔ یہ بالکل ایسا ہے کہ منگنی شمائلہ سے ہو گی مگر شادی شہناز سے…

    اگر واقعی فاٹا کو پاکستان کے دیگر حصوں کی طرح مساوی آئینی حیثیت و حقوق دینے کی نیت ہوتی تو فاٹا کے عوام کو ایک ریفرنڈم کے ذریعے اپنی آئینی حیثیت کے انتخاب کا حق دینا سب سے آسان راستہ ہوتا۔ اگر وہ عام انتخابات میں بالغ رائے دہی کی بنیاد پر اپنے نمایندے منتخب کر سکتے ہیں تو اپنی قسمت کا فیصلہ کیوں نہیں کر سکتے؟ یا پھر پارلیمنٹ اتفاقِ رائے سے ایک مسودہ منظور کر لیتی جو اکیسویں صدی کے انسانی و آئینی تقاضوں سے ہم آہنگ ہوتا۔ لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اصلاحات کے عمل کو نیلے ٹرک کے پیچھے سے ہٹا کر پیلے ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا دیا گیا ہے۔

    قانون سازوں کی بلا سے کہ اس وقت فاٹا کی آدھی آبادی دربدر ہے۔ یہاں کے آدمی کی فی کس آمدنی باقی پاکستان سے آدھی، صحت کی سہولتیں آدھی اور خواندگی کا تناسب باقی پاکستان کے مقابلے میں ایک چوتھائی ہے۔

    فاٹا میں حقیقی اصلاحات مستقبلِ قریب میں ہوتی نظر نہیں آتیں۔ کیونکہ فاٹا کی پسماندگی اور جغرافیہ اربوں روپے کی صنعت ہے۔ بھلا کون سا پولیٹیکل ایجنٹ، عسکری، قبائلی ملک، سیاستداں، ٹرانسپورٹر اور مافیائی چاہے گا کہ یہ صنعت اتنی آسانی سے ٹھپ ہو جائے اور اس کے پیٹ پر لات پڑ جائے۔

  • پاکستان کو اب کیا کرنا ہے؟ ڈاکٹر عاصم اللہ بخش

    پاکستان کو اب کیا کرنا ہے؟ ڈاکٹر عاصم اللہ بخش

    عاصم اللہ بخش دہشت گردی کے خلاف جنگ کے ابتدائی دنوں کی بات ہے، معروف امریکی تھنک ٹینک ’’اسٹریٹیجک فورکاسٹنگ‘‘ نے ایک مقالہ جاری کیا جس میں اس جنگ کا سیاق و سباق معین کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔

    اس مقالہ میں دو باتیں بہت دلچسپ تھیں:
    1۔ ان کی رائے میں یہ جنگ فتح و شکست کے عمومی تصور سے ماورا تھی۔ اس کی وجہ اس کے اہداف تھے۔ مسلم دنیا میں بڑھتی عسکریت پسندی جو اب مغرب کے لیے خطرات کا باعث بننے کے لیے پر تولنے لگی تھی، اس کا اولین ہدف تھی۔ پلان یہ تھا کہ اس عسکریت پسندی کو انہی ملکوں کی سرحدوں کے اندر مقید کر دیا جائے اور انہی ممالک کی افواج کے ذمہ یہ کام ہو کہ وہ ان گروہوں کے ساتھ برسر پیکار رہیں۔ یعنی گھر کی لاٹھی کو گھر ہی کے ’’سانپ‘‘ کے پیچھے لگا دیا جائے۔
    2۔ دوسرا یہ کہ اس جنگ کے لیے نکتہ آغاز تو ہے لیکن اسے ختم کب ہونا ہے اس بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔

    آج ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس جنگ میں امریکہ کی کامیابی اور شکست کا تعین کرتے ہوئے ’’سٹراٹ فار‘‘ کا یہ تجزیہ ہمیشہ سامنے رہنا چاہیے۔ 11 ستمبر 2001ء کے بعد امریکہ میں تو کوئی ایسا حملہ نہ ہوا جسے باقاعدہ دہشت گردی کہا جا سکے لیکن مسلمان ممالک میں کشتوں کے پشتے لگ گئے۔ اور یہ سلسلہ آج 15 برس گزر جانے کے باوجود تھما نہیں۔

    اتفاق دیکھیے۔ نومبر 2008ء میں بھارت کے شہر ممبئی میں دہشت گردی کا ایک واقعہ ہوتا ہے جسے بھارت کی جانب سے اس کا 9/11 قرار دے دیا جاتا ہے۔ اس واقعہ کے ذمہ دار کے طور پاکستان کا نام لیا جاتا ہے۔ ہندوستان میں اس کے بعد امن ہو جاتا ہے، کیونکہ پاکستان اور ہندوستان کے مابین پراکسی وار کا پلڑا اب بھارت کے حق میں ہو چکا ہے۔ دنیا اس کو مظلومیت کا سرٹیفیکیٹ جاری کر چکی ہے اور اب بھارت میں پٹاخہ بھی پھوٹے تو الزام فوراً پاکستان پر لگاتا ہے اور باقی دنیا تو جیسے ایسے ہر الزام کو ماننے کو تیار بیٹھی ہے اور پاکستان اپنی صفائیاں پیش کرتا رہتا ہے۔ دوسری جانب بھارت پر کسی قسم کی کوئی پابندی نہیں، وہ پاکستان کو جیسے چاہے زچ کرے، اس کو کوئی پوچھنے والا نہیں۔ پاکستان کی شکایتیں اور ڈوزئیر، سب بے کار، کسی کے کان پر جوں نہیں رینگتی۔

    بھارت میں صرف بالی وڈ ہی ہالی وڈ کی فلموں کی چربہ سازی نہیں کرتا، بھارت کا سکیورٹی آپریٹس بھی پینٹاگون اور سی آئی اے سے خیالات مستعار لیتا ہے، بلکہ کئی بار تو یوں گمان ہوتا ہے کہ خود امریکہ ہی بھارت کو یہ اسکرپٹ سپلائی کرتا ہے اور اس پر عملدرآمد کی ڈائریکشن بھی وہیں سے آتی ہے۔

    بھارت کو یہ احساس ہے کہ ایٹمی برابری کی وجہ سے وہ پاکستان کو براہ راست فوجی جارحیت کا ڈراوا نہیں دے سکتا۔ اس نے کولڈ اسٹارٹ کی بات کی جس کا محور یہ تھا کہ روایتی فوجی مہم جوئی سے اس سرعت سے اپنے مقاصد حاصل کرلیے جائیں کہ پاکستان کو جوہری قوت کے ڈراوے یا استعمال کا موقع ہی نہ مل سکے۔ لیکن اس ڈاکٹرائن کو نیوٹرلائز کر لیا گیا۔ اب وہ ایک دوسرا حربہ اپنانے جا رہا ہے جس کی اسٹریٹیجک وجوہات ہیں۔ اول الذکر میں پاک چین اقتصادی راہداری ہے جس کی وجہ سے پاکستان اور چین کا باہمی تعلق زیادہ قریبی اور باقاعدہ ہو جائےگا اور جس کی کامیاب تکمیل کے نتیجہ میں پاکستان کے ساتھ کسی گڑبڑ کا مطلب چین کے ساتھ گڑبڑ ہوگا۔ اس مہم میں بھارت کا پاکستان کے چند ’’دوستوں‘‘ کی پشت پناہی حاصل ہونے کے امکانات کو بھی رد نہیں کیا جاسکتا۔ ان میں سے چند پاکستان کو دست نگر رکھنا چاہتے ہیں، کچھ چین کو محدود رکھنا چاہتے ہیں بعض کی نظر التفات دونوں پر ہی ہے۔ دوسرا نکتہ یہ ہے کہ ضرب عضب کے نتیجے میں پاکستان استحکام اور امن کی طرف لوٹ رہا ہے جو کہ معاشی طاقت کا راستہ ہے۔ یہ بھی خطہ میں طاقت کے توازن کو ایک خاص نہج پر رکھنے والوں کے لیے باعث عدم اطمینان ہے۔ تیسرا، اور فوری مسئلہ ہندوستان کے لیے جموں و کشمیر کے تیزی سے بگڑتے حالات ہیں جن کا الزام وہ پاکستان پر لگانے میں ناکام رہے ہیں۔ ان حالات کی وجہ سے دنیا کا میڈیا،گو ہلکے پھلکے سے انداز میں ہی سہی، چند سوال پوچھنے لگا ہے اور کشمیر میں جاری انسانی المیہ کو اپنے صفحات پر جگہ دے رہا ہے۔ یہ بات بھارت کے لیے سخت پریشانی کی ہے۔

    اس صورتحال سے نکلنے اور پاکستان کو اپنے گھر کے اندر مقید کر دینے کے لیے بھارت نے یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ وہ پاکستان کو اس کی Soft Belly پر ہٹ کرے گا۔ اس کے لیے اس نے پاکستان سے باہر اور پاکستان کے اندر اپنے اثاثوں کو پاکستان کے خلاف متحرک کر دیا ہے۔ وہ بنگلہ دیش ہو، حامد کرزئی یا دیگر افغان حکام ہوں، پاکستان سے متعلق دہشت گروپ ہوں، براہمدغ یا حربیار ہوں یا پھر ایسے ہی اور دوسرے لوگ۔ یہاں تک کہ طارق فتح جیسا بدنام زمانہ شخص بھی ان دنوں ان کی میڈیا کی زینت بنا ہوا ہے۔ دشمن اپنے مقصد کے لیےالطاف بھائی کی حالیہ تقاریر کا فائدہ بھی اٹھا سکتا ہے۔ اس نئے پینترے کا بنیادی میدان تخریب کاری کے ساتھ ساتھ میڈیا کا میدان ہی ہوگا جہاں پاکستان کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے حوالے سے کٹہرے میں لانے کی کوشش کی جائے گی۔

    یہ بھارت کی وار آن ٹیرر ہے پاکستان کے خلاف اور اس کے وہی اہداف ہیں جو اوپر امریکہ کی وار آن ٹیرر کے ضمن میں بیان ہوئے۔

    دشمن کا یہ استحقاق ہے کہ جو کر سکتا ہے اپنے اہداف کے لیے کرے۔ ورنہ وہ فرائض دشمنی ادا نہیں کر رہا۔ سوال یہ ہے کہ پاکستان کو کیا کرنا ہے؟ پاکستان کو بس وہی نہیں کرنا جو اس کا دشمن اس سے کروانا چاہتا ہے۔

    ماضی میں پاکستان کے داخلی معاملات میں بہت سے پالیسی خلا موجود رہے ہیں۔ اس کے نتیجہ میں ملک کے بعض حصوں یا جغرافیائی و نسلی اکائیوں کو یہ تاثر ملا کہ شاید ان کا مفاد کسی کی ترجیح نہیں۔ ایسی ہی جگہوں پر احساس محرومی کو پر تشدد کاروائیوں کا رنگ دے دیے جانے کا امکان زیادہ رہتا ہے۔ دشمن کی خواہش یہ ہوتی ہے کہ آپ صرف انتظامی یا سیکورٹی مشینری کے سہارے اس کا تدارک کریں کیونکہ اس میں انسانی جانوں کے ضیاع کا احتمال رہتا ہے۔ اس طرح سے ہوا ہر جان کا نقصان ایک نیا ’’شہید‘‘ پیدا کرتا ہے اور پھر چل سو چل۔ دراڑیں بھرنے کے بجائے بڑھنے کا عمل جاری ہو جاتا ہے۔

    دانشمندی کا تقاضا یہ ہے کہ ہنگامی طور پر فیصلے کیے جائیں تاکہ دشمن کا یہ وار خالی جائے لیکن یہ محض ہنگامی نوعیت کے اقدامات پر منتج نہ ہوں۔ اس معرکہ میں کامیابی کا راستہ دورس پلاننگ اور اصلاحات کے پیکج سے ہو کر گزرتا ہے۔

    فاٹا ہو، بلوچستان، کراچی یا پھر گلگت بلتستان، عدم اطمینان کی ایسی تمام وجوہات کو فوری طور دیکھنا ہوگا جنہیں کوئی اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کر سکتا ہو۔ اگر سیاسی قیادت بالغ نظری سے کام لیتے ہوئے یہ اقدامات کرے تو ہمارے لیے یکجہتی، ترقی اور خوشحالی کا راستہ اور بھی ہموار ہو جائے گا۔

    یاد رہے دشمن اکیلا نہیں، نیز وہ مکمل پلاننگ کے ساتھ میدان میں اترا ہے۔ یہ اس کا نفسیاتی کولڈ اسٹارٹ ہے اور ہمیں اس کا توڑ کرنا ہے۔ تاہم اب کہ یہ کام فوج کا نہیں۔ یہ سیاسی قیادت کے وژن اور تحرک کا امتحان ہے۔

  • فاٹا اصلاحات سے آگے بڑھنے ہوگا – شہزاد سلیم عباسی

    فاٹا اصلاحات سے آگے بڑھنے ہوگا – شہزاد سلیم عباسی

    شہزاد سلیم عباسی ا وفاق کے زیرانتظام فاٹاکے 13 قبائلی علاقہ جات ہیں جن کی آبادی لگ بھگ ایک کروڑ ہے، ان میں سے 20 لاکھ دربدر ہیں۔ قبائلی علاقہ جات میں ایف آر پشاور، ایف آر کوہاٹ، ایف آر ڈی آئی خان، ایف آر بنوں، ایف آر لکی، ایف آر ٹانک، باجوڑ ایجنسی، کرم ایجنسی، مہمند ایجنسی، خیبر ایجنسی، اورکزئی ایجنسی، شمالی وزیرستان اور جنوبی وزیرستان شامل ہیں. عام طور پر باقی پاکستان کے لوگ اسے ’’علاقہ غیر‘‘ کے نام سے جانتے اور پہچانتے ہیں۔ اپنے وطن کے کسی حصے کو اگرچہ علاقہ غیر کہنا اوردیار غیر سمجھنا کم سے کم الفاظ میں کوتاہی ہے۔ فاٹا کے معززین اس بات پر افسوس کا اظہار کرتے رہتے ہیں کہ ہمیں پاکستانی بھائی سمجھے جانے کے بجائے’’علاقہ غیر‘‘ کے لوگ تصور کیا جاتا ہے، دوسرے الفاظ میں ہمیں اس ملک کا شہری نہیں سمجھا جاتا۔ اسی تصور کا اثر ہے کہ بچپن میں جب ہمارے گاؤں میں قبائلی بھائی بڑی پگڑی، ویسکوٹ، پشاوری چپل اور ایک عدد چھوٹی موٹی چیزوں سے بھر ا ٹرنک لے کر پھیری لگاتے اور آوازیں لگاتے تھے، کنگھی لے لو، شیشہ لے لو وغیرہ تو محلے والے ہمیں ان کے قریب جانے سے روکتے اور بسا اوقات یہ بھی کہتے کہ یہ لوگ علاقہ غیر کے ہیں، پکڑ کر لے جائیں گے۔

    قبائلی علاقوں میں اصلاحات لانے کے لیے ایف سی آر میں ترامیم، فاٹا میں سیاسی سرگرمیوں کی اجازت اور اسے الگ صوبہ بنانے یا خیبرپختونخوا میں ضم کیے جانے کی باتیں ہو رہی ہیں. آزادی کو 70 سال ہونے والے ہیں مگر فاٹا کے عوام اب بھی انگریزوں کے کالے قانون فرنٹیئر کرائمز ریگولیشن تلے پس رہے ہیں اور اس سے نجات کی جدوجہد کر رہے ہیں۔ایف سی آر قانون کی ایک متنازع شق کو ’’اجتماعی ذمہ داری‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، اس میں کوئی خاص تبدیلی نہیں لائی گئی۔ پہلے اس شق کے تحت پولیٹکل ایجنٹ کو یہ اختیار حاصل تھا کہ وہ پورے قبیلے کو کسی بھی جرم میں گرفتار کر کے طویل عرصے تک پابند سلاسل رکھ سکتا تھا تاہم ایف سی آر 2011 بل کے ترمیمی بل کے بعد ایجنٹ سے یہ اختیار واپس لے لیا گیا اور اب پورے قبیلے کو نہیں بلکہ مرحلہ وار سزاؤں کا سلسلہ روا رکھا گیا ہے جوکہ اب بھی قبائلی عوام سے انتہائی زیادتی ہے۔ قبائلی امور پر نظر رکھنے والے سنیئر تجزیہ نگار ڈاکٹر خادم حسین کا کہنا ہے کہ فاٹا کو ایک سازش کے تحت سیاسی اور معاشی طور پر ایک بلیک ہو ل بنا دیا گیا ہے اور دہشت گردی اور شدت پسندی کو خوامخوا فاٹا سے نتھی کیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ فاٹا کے عوام کو اس وقت سب سے زیادہ ضرورت ترقیاتی سکیموں کی ہے، وفاقی حکومت کو چاہیے کہ فاٹا کے عوام کے لیے پانی بجلی پانی اور پکی سڑکوں کا جال بچھائے۔

    فاٹا اصلاحات کے حوالے سے ہونے والے اجلاس اب تک بد قسمتی سے نشستن گفتن برخاستن سے آگے نہیں بڑھ سکے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ قبائلیوں کے لیے2011ء فاٹا اصلاحات میں جو ترامیم کی گئیں، ان میں مزید بہتری کے ساتھ انھیں عملی طور پر نافذ کیا جائے. چند تجاویز پر عمل کر کے قبائلی بھائیوں کے لیے کچھ آسانی کا سامان پیدا کیا جا سکتا ہے۔
    1. اعتماد سازی کی فضا قائم کرتے ہوئے قبائلیوں کو بھی اصلاحات کمیٹی میں جگہ دی جائے جس میں قبائلی ممبران قومی اسمبلی، سینیٹر، قبائلی عمائدین، سول سوسائٹی اور دانشور وغیرہ شامل ہوں۔
    2. فاٹا کو پاکستان کا حصہ سمجھتے ہوئے قومی دھارے میں لایا جائے۔ جلد از جلد قانونی و انتظامی حیثیت دے کر خیبر پختونخوا میں شامل کیا جائے، یا گلگت بلتستان کی طرح ایگزیکٹو کونسل کا درجہ دیا جائے۔
    3. مثبت سرگرمیاں وقت کی اہم ضرورت ہیں، نوجوانوں میں مثبت اور صحت مندانہ سرگرمیوں کے فروغ، امن امان کے قیام اور احساس کمتری سے نکالنے لیے یوتھ فیسٹول، امن گالا، ایگزبیشن گالا، تعلیم گالا اور اس طرح کے مختلف ایونٹس منعقد کرائے جائیں۔
    4. کھیلوں کے مقابلے کرائے جائیں۔
    5. فاٹا کے عوام کو بنیادی حقوق تعلیم، صحت، انصاف اور روزگار مہیا کرنے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر کام کیا جائے۔
    (6) ایک بڑے ترقیاتی پیکیج کا اعلان کیا جائے۔
    (7) وزیراعظم اپنے صوابدید ی اختیارات استعمال کرتے ہوئے فاٹا میں ایک بڑا ہسپتال، ایک یونیورسٹی، ایک آرٹ کونسل اور ایک سپورٹس کمپلکس قائم کرنے کا اعلان کریں۔

  • فاٹا پر مغربی ریڈیو چینلز کی یلغار اور گریٹر پختونستان منصوبہ – بادشاہ خان

    فاٹا پر مغربی ریڈیو چینلز کی یلغار اور گریٹر پختونستان منصوبہ – بادشاہ خان

    بادشاہ خان فاٹا میں ریاستی رٹ کی بحالی تقریبا مکمل ہونے کو ہے، مگر اس دوران غیر ملکی ریڈیو چینلز اور بیرونی امداد پر چلنے والی این جی اوز کو یہاں پروپیگنڈہ کرنے میں آزادی حاصل رہی، یہ غیر سرکاری تنظیمیں بیرونی ایجنڈے کے فروغ کے لیے سرگرم رہیں، کسی کو کینیڈا سے ڈیل کیا جاتا رہا تو کوئی جرمنی سے، یورپی اداروں نے اس دوران جاسوسی بھی کی جس کی ایک رپورٹ خود برطانوی نشریاتی ادارے نے چند روز قبل جاری کی ہے. محرومی کا شکار قبائلی جوان براہ راست ٹارگٹ تھے اور ہیں، مصنوعی چکاچوند اور چمک کے ذریعے ان کی برین واشنگ کی جاتی رہی ہے اور اب بھی جاری ہے. فاٹا کے اکثر علاقے الیکٹرونک میڈیا کی سہولت سے محروم ہیں، آج بھی اخبارات اور ریڈیو معلومات اور خبروں کا بنیادی ذریعہ ہیں. ان علاقوں میں ریڈیو کی اہمیت آج بھی ہے، اسی وجہ سے مغربی میڈیا اور بیرونی ممالک کے ریڈیو چینلز نے فاٹا میں اس پر فوکس کیا ہوا ہے. انتہائی فعال ان چینلز کی نشریات پورے دن جاری رہتی ہیں۔ ان پروگرامات میں اکثر کا ٹارگٹ آڈینس قبائلی نوجوان ہیں، غیر محسوس طریقے سے بےحیائی اور فحاشی کو فروغ دیا جارہا ہے. جیسے ہی فجر کی نماز کا وقت ختم ہوتا ہے، یہ ریڈیو جاگ اٹھتے ہیں اور گانے بجانے اور گفتگو کے نام پر قبائلی معاشرے میں رائج جوائنٹ فیملی سٹسم پر ضرب لگانے میں مصروف ہوجاتے ہیں۔

    سال میں دو تین بار اپنے آبائی علاقے کرم ایجنسی جانا ہوتا ہے ، اس بار بھی جانا ہوا. یہاں بیرونی دنیا سے رابطے کا ذریعہ یہی غیر ملکی ریڈیو چینلز ہیں، ہمیں بھی ریڈیو کے چینلز کے ذریعے خبریں سننا پڑیں. ایک ہفتے کے دوران یہ محسوس کیا کہ ایک منظم سازش کے تحت قبائل میں پروپیگنڈے اور ایجنڈے کو فروغ دیا جا رہا ہے. ہر چینل کی کوشش ہے کہ نوجوانوں کو بیکار اور لغویات کی جانب لایا جائے اور مزید احساس کمتری میں مبتلا کیا جائے، محرومیوں کو ہوا دی جائے. کیا پیمرا اس سنگین سازش سے بےخبر ہے؟ ان کی نشریات پر کوئی چیک اینڈ بیلنس کیوں نہیں ہے؟ پاکستانی ریڈیو چینلز بھی ان سے متاثر ہیں اور قبائلی نوجوانوں میں آگاہی وشعور کے بجائے بیرونی چینلز کی پیروی کرتے ہوئے ٖفضول پروگرامات نشر کرنے میں مصروف ہیں. ریڈیو فاٹا میں اہم تبدیلی لاسکتا ہے اور اس کے ذریعے تعلیم اور رواداری کو عام کیا جاسکتا ہے. کئی نوجوان ہر وقت ریڈیو لیے نظر آئے، پوچھنے پر بتایا کہ اب عادت بن گئی ہے. ایک اور عجیب بات سامنے آئی، جمعہ کے دن ایک بجے سے دو بجے تک خصوصی فرمائشی پروگرامات ان چینلز سے نشر کیے جاتے ہیں، نوجوانوں کے پسندیدہ گانے نشر کیے جاتے ہیں، نوجوان اپنا نام ریڈیو پر سننے کے لیے انتظار کرتے ہیں، اس طرح ہزاروں نوجوانوں کی جمعہ کی نماز رہ جاتی ہے.

    اس ایک اور اہم بات یہ ہے کہ چند برس پہلے قبائلی علاقوں میں سولر توانائی سے چلنے والے لاکھوں ریڈیو سیٹ تقسیم کیے گئے، وہ بھی بالکل مفت، تاکہ شمسی توانائی والے یہ سیٹ آسانی سے ان کے ایجنڈے کے فروغ میں معاون ثابت ہوں. اس کے بعد آگاہی و امداد کے نام پر غیر سرکاری تنظیمیں سرگرم کی گئیں جن کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے. ان کی آڑ میں کئی غیر ملکی ادارے پختونستان کی تحریک کو فعال کرنے کے لیے سرگرم ہیں، نوجوان خصوصی نشانے پر ہیں، ورکشاپس، سیمینارز، بڑی تنخواہیں، اعلی سرکاری عہدیداروں سے ملاقاتیں. آزادی رائے کے نام پر انھیں گمراہ کیا جارہا ہے، نا پختہ ذہن کے نوجوان بیرونی ایجنڈے کو سمجھنے سے قاصر ہیں. انڈیا سمیت کئی ممالک اس سازش میں ملوث ہیں. اس وقت افغانستان کے صوبہ جلال آباد میں گریٹر پشتونستان منصوبے پر نہایت ہی سرگرمی کے ساتھ کام ہورہا ہے. فاٹا و خیبر پختونخوا سے تقریباً 2500 پڑھے لکھے بیروزگار پختون نوجوان جلال آباد میں مقیم ہیں، جبکہ کئی پڑے لکھے نوجوان کابل میں میڈیا سے منسلک ہوچکے ہیں اور ان کے اندر پاکستان کے خلاف اتنا زہر بھرا جارہا ہے جس کا تصور نہیں کیا جا سکتا. اس منصوبے کے مرکزی کرداروں میں ایک بڑی لسانی جماعت کے چند رہنما اور کچھ دوسرے رہنما اور این جی اوز کے کارندے شامل ہیں. خاموشی سے اس سازش پر زور و شور سے کام ہو رہا ہے، را فنڈز مہیا کر رہی ہے جبکہ افرادی قوت افغان انٹیلیجنس این ڈی ایس فراہم کرتی ہے۔

    سوال یہ ہے کہ ریاستی ادارے اس سنگین سازش کو کیوں محسوس نہیں کر رہے؟ مغربی ریڈیو چینلز کے ذریعے کیا جانے والا پروپیگنڈہ ملکی سالمیت کے لیے انتہائی خطرناک ہے. را اور این ڈی ایس کی سازشوں کے سدباب کے لیے چیک اینڈ بیلنس مزید ضروری ہوگیا ہے. یہ قبائلی نوجوان ملک کی ترقی کے لیے قیمتی سرمایہ بن سکتے ہیں، ان کو بیرونی عناصر کے ہاتھوں استعمال ہونے سے بچانے کا فرض ریاست کا ہے. قبائل کو ان کی دہلیز پر سہولیات فراہم کی جائیں، ریاستی توجہ کی فوری ضرورت ہے. قبائل آج بھی پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگاتے ہیں، دوسری طرف برہمداغ بگٹی کا تازہ ویڈیو بیان آپ کے سامنے ہے جس میں اس نے مودی کے بیان کو بلوچ عوام کے لیے اچھا قرار دیا ہے. کہیں ایسا نہ ہو کہ فاٹا میں بھی دشمن کی سازش کامیاب ہو، دشمن ہمارے لیے گڑھے کھود رہا ہے، بچنا ہم نے خود ہے، وقت کم ہے اور دشمن چاروں طرف پھیل چکا ہے، فوری طور پر غور کرنے اور لائحہ بنانے کی ضرورت ہے۔

  • سیکورٹی اداروں کو قربانیوں کا کریڈٹ دیں – محمد نورالہدیٰ

    سیکورٹی اداروں کو قربانیوں کا کریڈٹ دیں – محمد نورالہدیٰ

    Logo آرمی چیف نے بالکل درست کہا کہ غیرمناسب بیانات اور تجزیے قومی کاز کو نقصان پہنچارہے ہیں۔ اس کا ثبوت اچکزئی صاحب کا وہ بیان ہے جو انہوں نے سانحہ کوئٹہ کے بعد قومی اسمبلی میں دیا۔ اچکزئی نے سیکورٹی ایجنسیوں، حساس اداروں اور افواج پاکستان کی قربانیوں کا ایک لحاظ سے مذاق اڑایا اور ان کے لواحقین کے جذبات کو ٹھیس پہنچائی۔ ملک بھر میں کومبنگ آپریشن کا آغاز اور نیشنل ایکشن پلان پر تیزی سے عملدرآمد کا عہد دہرانا اچکزئی اینڈ کمپنی کے مذکورہ بیانات کا جواب ہے۔

    بدقسمتی سے ہم اس دور میں جی رہے ہیں کہ نہ تو مرنے والے کو معلوم ہے کہ وہ کیوں قتل ہورہا ہے اور نہ ہی مارنے والا جانتا ہے کہ وہ یہ ’’ذمہ داری‘‘ کیوں ادا کر رہا ہے. اس تناظر میں وفاقی و صوبائی حکومتوں اور سکیورٹی اداروں کی کاوشوں کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا جو اپنے تئیں وہ امن و امان کے لیے کر رہے ہیں، تاہم کئی کام ابھی باقی ہیں جن کا اظہار آرمی چیف اور وزیراعظم کی طرف سے اعلیٰ سطحی اجلاسوں میں کیا گیا ہے۔ صوبائی حکومتیں دہشت گردی سے نمٹنے کےلیے محدود وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے سیکورٹی ایجنسیوں کے ساتھ مل کر اپنی سطح پر بہتر کام کر رہی ہیں لیکن افسوس کہ سیکورٹی اداروں بالخصوص پولیس کو تنقید کا نشانہ تو بنایا جاتا ہے مگر ان کی قربانیوں کا اعتراف نہیں کیا جاتا۔ پولیس اہلکار اپنی جانوں پر کھیل کر امن و سلامتی کے لیے دہشت گردوں اور انتہاپسندوں سے لڑ رہے ہیں، اپنی زندگیاں دائو پر لگا رہے ہیں لیکن کریڈٹ دینے کے بجائے ایسے ہر واقعہ کو ان کی ناکامی اور نااہلی گردانا جاتا ہے۔ اس کے باوجود یہ لوگ اپنی ذمہ داریاں ادا کرتے جارہے ہیں، اور مقام پاکر سرخرو ہورہے ہیں۔

    نیشنل ایکشن پلان نامی اینٹی وائرس کو استعمال کرتے ہوئے فاٹا، خیبرپختونخوا، بلوچستان، کراچی، اندرون سندھ اور پنجاب میں پاک فوج، خفیہ اداروں اور سویلین اداروں نے جان ہتھیلی پر رکھ کر بےشمار کامیابیاں سمیٹی ہیں، البتہ موقع ملنے پر دہشت گرد اپنا آپ ظاہر کرتے ہیں تو اسے ہم کسی کی ناکامی نہیں کہہ سکتے۔ درحقیقت یہ دہشت گردوں کی باقیات ہیں جو آپریشن ضرب عضب کے نتیجے میں بھاگتے بھاگتے وار کررہی ہیں. نیشنل ایکشن پلان نافذ العمل ہونے کے بعد پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں مجموعی طور پر 86 فیصد کمی واقع ہوئی ہے جبکہ صوبہ جاتی سطح پر پنجاب میں ایسی کارروائیاں تقریباً 30 فیصد کم ہوئی ہیں تاہم صوبہ سندھ ، خیبرپختونخواہ اور بلوچستان میں یہ شرح مزید بہتری کی متقاضی ہے ۔

    سکیورٹی اداروں کی کاوشوں کی نفی کرنے کی کوششیں بالخصوص کراچی میں دکھائی دیتی ہیں جہاں ہر چند ماہ بعد رینجرز کے قیام اور اختیارات میں توسیع کا معاملہ سر اٹھاتا ہے اور اسے ایک مذاق بنا دیا گیا ہے، حالانکہ رینجرز کے اقدامات کراچی کے شہریوں کے لیے باعث نجات ثابت ہوئے ہیں۔ گزشتہ عرصے میں بیشتر کالعدم تنظیموں کا تعلق پنجاب سے جوڑا جاتا رہا ہے، اس بلیم گیم کے خاتمے کے لیے پنجاب حکومت نے سیکورٹی ایجنسیوں کو فری ہینڈ دیا۔ پنجاب میں کائونٹر ٹیرارزم ڈیپارٹمنٹ اور سیکیورٹی ایجنسیوں نے مل کر دہشت گردوں کے نیٹ ورک کے خاتمے اور کالعدم تنظیموں کو شکنجے میں کسنے کے لیے اہم کردار ادا کیا ہے، گذشتہ چند ماہ میں 162 اہم اور مطلوب دہشت گردوں کو واصل جہنم کیا گیا ہے. دسمبر 2014ء سے اگست 2016ء تک فوج، رینجرز اور پولیس نے 20 ہزار 379 مشترکہ آپریشنز کیے جن میں 109 انتہائی خطرناک دہشت گرد گرفتار ہوئے اور ساڑھے سات لاکھ افراد سے تحقیقات کی گئیں۔ اس کے نتیجے میں وہاں انسانیت سوز کارروائیوں میں کمی آئی۔ خیبرپختونخوا نے مدارس کی رجسٹریشن و ٹیگنگ، طلبہ کو امن و امان کا داعی بنانے اور اذہان کی مثبت نشونما کےلیے نصاب میں تبدیلی و مانیٹرنگ، مسلکی اختلافات کے خاتمے کےلیے لائوڈ سپیکر ایکٹ سمیت بیشتر اقدامات کیے. نیشنل ایکشن پلان کی بدولت ملک بھر میں پھیلی جعلی این جی اوز بے نقاب ہوئیں اور انہیں فنڈنگ کرنے والوں کا پیچھا کرتے ہوئے کئی سہولت کاروں کا ناطقہ بند کیا گیا۔ سندھ میں 2013ء کے بعد سے اب تک مجموعی طور پر 7950 آپریشن ہوچکے ہیں. دہشتگردی 80 فیصد، ٹارگٹ کلنگ 75 فیصد، بھتہ خوری 85 فیصد اور اغوا کی وارداتیں 83 فیصد کم ہوئی ہیں اور ایم کیو ایم کے خلاف 1313، پیپلز امن کمیٹی کے خلاف 1035 آپریشن ہوئے جس کی وجہ سے گذشتہ ایک سال میں 1236 دہشت گرد، 848 ٹارگٹ کلرز، 403 بھتہ خور اور 143 اغوا کار گرفتار ہوئے ہیں. افسوس کہ ان کے اقدامات کی تائید و حوصلہ افزائی کے بجائے تنقید کی جاتی ہے۔ بلوچستان کا 90 فیصد حصہ ایف سی اور لیویز کی ذمہ داری میں آتا ہے لیکن بقیہ 10 فیصد علاقہ سول انتظامیہ کے زیراثر ہے۔ بلوچستان میں درجنوں کالعدم تنظیموں اور فرقہ ورانہ گروہوں کے مضبوط نیٹ ورک ہیں، لسانی دہشت گرد بھی ہیں اور خود ایک دوسرے کے بھی دشمن ہیں. اگر بلوچستان حکومت نے انہیں سنجیدہ لیا ہوتا اور انہیں کنٹرول کرنے کے موثر اقدامات کیے ہوتے تو شاید صوبہ وکلاء کی کریم سے محروم نہ ہوتا۔

    ایک مخصوص مائنڈ سیٹ ملک میں اس سوچ کو پھیلا رہا ہے کہ پاکستان میں ہونے والے بیشتر اقدامات میں زیادہ تر کردار فوج کا ہے اور حکومت کہیں دکھائی نہیں دیتی جبکہ اصل حقیقت یہ ہے کہ ایسا کہنے والے لوگ مخصوص خواہشات کی تکمیل چاہتے ہیں۔ یہ باتیں ملک میں انارکی پھیلانے اور انتشار کا سبب بنتی ہیں۔ فوج جو کچھ بھی کر رہی ہے، حکومت اس سے لاعلم نہیں ہے۔ سول ملٹری تعلقات لازم و ملزوم ہیں اور جنرل راحیل شریف نے بیشتر مواقع حاصل ہونے کے باوجود اگر ڈکٹیٹرشپ پر جمہوریت کو ترجیح دی تو ظاہر ہے کہ وہ جانتے ہیں کہ ایسی کشمکش سے براہ راست عوام اور ملک کا نقصان ہوگا، لہذا تمام اداروں کو مضبوط، مستحکم اور ترقی یافتہ و خوشحال پاکستان بنانے کا مقصد پورا کرنے کےلیے حکومت کا ساتھ دینا ہے۔ ملک میں پائی جانے والی بے چینی اور انتشار کا خاتمہ تب ہی ہوگا جب ملک کے تمام ادارے مل کر عوام کی خدمت کریں اور درپیش چیلنجز سے نمٹنے کے لیے ایک دوسرے کا ساتھ دیں گے۔ قومی اداروں کو زنجیر کی کڑیوں کی طرح مضبوط ہونا چاہیے، باہمی اختلافات اور رسہ کشی سے ادارے کمزور ہوتے ہیں تو عوام کے اعتماد کو بھی ٹھیس پہنچتی ہے۔ اداروں کے باہمی تعاون سے ہی قومیں ترقی کی راہ پر گامزن ہوتی ہیں، جبکہ ان پر اعتماد کی کمی سے انتشار اور افراتفری کا شکار ہوجاتی ہیں، لہذا آرمی اور حکومت کو الگ الگ پیج پر تصور کرنے کے بجائے یہ جان لینا چاہیے کہ یہ ایک ہی پلیٹ فار م ہے۔ محض کسی فرد کی ذاتی انا کی تسکین کے لیے اس پلیٹ فارم کو من پسند انداز میں ڈھالنا درست نہیں ہے۔

    ضرورت اس امر کی ہے کہ نیشنل ایکشن پلان کے تمام نکات کو مدنظر رکھا جائے کیونکہ ہم ابھی تک نہ تو افغان مہاجرین کی واپسی اور رجسٹریشن کا عمل مکمل کر پائے ہیں اور نہ ہی کرمنل جسٹس سسٹم اور مدارس کی اصلاحات کا کام پورا ہوسکا ہے. نیکٹا کو متحرک کرنے، علیحدگی پسندوں کو قومی دھارے میں لانے، طلبہ میں شدت پسندانہ جذبات کے خاتمے کے لیے تعلیمی اداروں میں اساتذہ کی نفسیاتی تربیت، ہمسایہ ممالک کے بارڈر کے پاس بسنے والی کالعدم تنظیموں کے سہولت کاروں کو گرفت میں لانے، بارڈر مینجمنٹ کو مضبوط کرنے جیسے ہنگامی اقدامات کی فوری ضرورت ہے. صوبوں کی پولیس کو بھی اس قابل بنایا جائے کہ وہ دہشت گردوں اور سہولت کاروں سے نبٹنے کے لیے فوج یا رینجرز کے سہارے کی محتاج نہ ہوں بلکہ خود بھی ان کے خلاف آپریشن کرسکیں. اگرچہ صوبوں میں آئی بی، کائونٹر ٹیرارزم فورسز، ڈولفن، ایپکس کمیٹیاں، خصوصی و فوجی عدالتیں اور دیگر متعلقہ ادارے اپنا کام کر رہے ہیں، لیکن ان کے اقدامات میں بہتری اور وسعت کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ انسداد دہشت گردی کی الگ وزارت بنائی جائے جو خودمختار اور تیز تر فیصلہ سازی کر سکے۔ اس کی ذمہ داریوں میں صرف قانون بنانا اور اسے نافذ کرنا شامل نہ ہو بلکہ اس کی مانیٹرنگ کے ساتھ سماجی سطح پر بھی ایسا ماحول بنانا بھی ہو جس سے مستفید ہوکر لوگ اپنے اردگرد موجود دشمنوں کو پہچان سکیں اور ان کی خفیہ اطلاعات متعلقہ اداروں تک پہنچانے میں معاونت کرسکیں۔

  • فاٹا کا صوبہ بننا کیوں ضروری ہے؟ بادشاہ خان

    فاٹا کا صوبہ بننا کیوں ضروری ہے؟ بادشاہ خان

    بادشاہ خان وفاق کے زیرانتظام فاٹا اس وقت کسی صوبے میں شامل نہیں اور ترقی کے سفر میں باقی ملک سے ساٹھ سال پیچھے ہے. وفاق نے فاٹا کے قبائلی علاقوں میں دوہرا نظام قانون نافذ رکھا اور انھیں آزاد حیثیت کے ساتھ ساتھ انگریز کے کالے قانون ایف سی آر کے ذریعے قابو کرنے کی کوشش کی. قبائل میں موجود وفاقی اداروں کے افسران مال بٹورنے میں مصروف رہے جس کی وجہ سے ترقی اور تعلیم کا سفر آگے نہ بڑھ سکا. صحت کے نام پر مختص اربوں روپوں کے بجٹ کو کاغذوں میں خرچ کیا گیا. فاٹا سیکرٹریٹ حکام بالا کو سب اچھا ہے کی رپورٹ پہنچاتے ہیں ،گورنر اور فاٹا سیکرٹری سال میں ایک آدھ بار ہی کسی قبائلی علاقے کے دورے پر جاتے ہیں، پشاور میں بیٹھ کر نظام چلانے کی کوشش کی جاتی ہے. آپریشن ضرب عضب کامیابی سے آخری مرحلے میں ہے تو ایک بار پھر یہ سوالات سامنے آرہے ہیں کہ اب کون حکومتی نظام کو سبنھالے گا؟ ادارے توموجود ہیں مگر عوام کی شمولیت کس طرح ہوگی؟ قبائل کے مسائل کے حل اور ترقی کا کیا بنے گا؟ وہ جو اپنے ہی ملک میں آئی ڈی پیز کہلائے، جنھوں نے پاکستان کے پرامن مستقبل کے لیے اپنا گھربار چھوڑا، فوج کے ساتھ تعاون کیا، لاکھوں کی تعداد میں بےگھر ہوئے، وہ سوال کر رہے ہیں کہ ماضی تو جیسا تھا گزر گیا، حال سب کے سامنے ہے، مگر کیا مستقبل بھی اسی طرح خراب ہوگا؟ اپنے ہی ملک میں بنیادی سہولیات سے محروم رہیں گے؟ اسلام آباد میں بیٹھنے والے کیا اتنے بے حس ہیں کہ ان کو اندازہ نہیں کہ ایف سی آر غلامی کی نشانی ہے؟ کیا ان کو معلوم نہیں کہ پشاور کے پاس فاٹا کے مسائل کا کوئی حل نہیں؟ جو لوگ خیبر پختونخوا کے ساتھ فاٹا کے الحاق کا ڈھول پیٹ رہے ہیں، ان سے کوئی پوچھے کہ پشاور کے حکمرانوں نے قیام پاکستان سے لے کر آج تک کتنا بجٹ فاٹا کے عوام کے لیے مختص کیا ہے؟

    فاٹا میں قائم وفاقی انفراسٹرکچر پر تحقیق کی تو پتہ چلا کہ صحت سے لے کر تعلیم تک، ہر ڈیپارٹمنٹ موجود ہے مگر فعال نہیں ہے. فاٹا ڈیویلپمنٹ اتھارٹی، فاٹا ڈیزاسٹرمینجمنٹ اتھارٹی، فاریسٹ، ایری گیشن، فشریز، لائیو اسٹاک اینڈ ڈیری دیویلپمنٹ، ایگری کلچر، سوشل ویلفیئر، روڈز، اسپورٹس ڈیپارٹمنٹ، مائنرل اینڈ ٹیکنکل ایجوکیشن، فنانس ڈیپارٹمنٹ، لا اینڈ آرڈرسے لے کر ایڈمنسٹریشن اینڈ انفراسٹرکچر تک تمام ادارے اور ان کے ملازمین موجود ہیں جبکہ فوج الگ سے خدمات سرانجام دے رہی ہے، پولیس کی جگہ خاصہ دار اور لیوی کے نام سے فورس ہر قبائلی ایجنسی میں موجود ہے، ایم این اے اور سینٹیرز بھی وفاق میں موجود ہیں، اگر کمی ہے تو صرف صوبائی اسمبلی اور لوکل گورنمنٹ کی جس کا قیام کوئی مشکل نہیں. اس کے باوجود چند لوگ اس پورے نظام کو لپیٹ کر فاٹا کو خیبر پختونخوا میں ضم کرنے کے لیے لابنگ کررہے ہیں، جبکہ فاٹا کو الگ صوبہ بنانے کے لیے آئین میں سب سے زیادہ گنجائش موجود ہے تو پھر قبائل کی آواز کو کیوں نظرانداز کیا جا رہا ہے؟ قبائل آج بھی خود مختاری اور الگ نظام اور الگ پہچان کے ساتھ الگ صوبے کی شکل میں زیادہ اطمینان محسوس کریں گے. گلگت بلتستان صوبہ بن سکتا ہے تو فاٹا کیوں نہیں؟ قبائلی عمائدین نے جرگے کیے، فاٹا کے 6 قبائلی علاقوں اور 7 ایجنسیوں کے عمائدین کے جرگے میں متفقہ طور پر فاٹا اصلاحات بل کو مسترد کرتے ہوئے فاٹا کو گلگت بلتستان کی طرح علیحدہ صوبے کا درجہ دینے کا مطالبہ کیا گیا۔ جرگے میں کہا گیا کہ چند پارلیمینٹیرین قبائلی عوام کی نمائندگی نہیں کرتے۔ خیبر پختونخوا پہلے ہی متاثرہ صوبہ ہے، اگر فاٹا کو بھی اس میں ضم کردیا گیا تو مسائل میں مزید اضافہ ہو جائے گا۔