ہوم << سیکورٹی اداروں کو قربانیوں کا کریڈٹ دیں - محمد نورالہدیٰ

سیکورٹی اداروں کو قربانیوں کا کریڈٹ دیں - محمد نورالہدیٰ

Logo آرمی چیف نے بالکل درست کہا کہ غیرمناسب بیانات اور تجزیے قومی کاز کو نقصان پہنچارہے ہیں۔ اس کا ثبوت اچکزئی صاحب کا وہ بیان ہے جو انہوں نے سانحہ کوئٹہ کے بعد قومی اسمبلی میں دیا۔ اچکزئی نے سیکورٹی ایجنسیوں، حساس اداروں اور افواج پاکستان کی قربانیوں کا ایک لحاظ سے مذاق اڑایا اور ان کے لواحقین کے جذبات کو ٹھیس پہنچائی۔ ملک بھر میں کومبنگ آپریشن کا آغاز اور نیشنل ایکشن پلان پر تیزی سے عملدرآمد کا عہد دہرانا اچکزئی اینڈ کمپنی کے مذکورہ بیانات کا جواب ہے۔
بدقسمتی سے ہم اس دور میں جی رہے ہیں کہ نہ تو مرنے والے کو معلوم ہے کہ وہ کیوں قتل ہورہا ہے اور نہ ہی مارنے والا جانتا ہے کہ وہ یہ ’’ذمہ داری‘‘ کیوں ادا کر رہا ہے. اس تناظر میں وفاقی و صوبائی حکومتوں اور سکیورٹی اداروں کی کاوشوں کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا جو اپنے تئیں وہ امن و امان کے لیے کر رہے ہیں، تاہم کئی کام ابھی باقی ہیں جن کا اظہار آرمی چیف اور وزیراعظم کی طرف سے اعلیٰ سطحی اجلاسوں میں کیا گیا ہے۔ صوبائی حکومتیں دہشت گردی سے نمٹنے کےلیے محدود وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے سیکورٹی ایجنسیوں کے ساتھ مل کر اپنی سطح پر بہتر کام کر رہی ہیں لیکن افسوس کہ سیکورٹی اداروں بالخصوص پولیس کو تنقید کا نشانہ تو بنایا جاتا ہے مگر ان کی قربانیوں کا اعتراف نہیں کیا جاتا۔ پولیس اہلکار اپنی جانوں پر کھیل کر امن و سلامتی کے لیے دہشت گردوں اور انتہاپسندوں سے لڑ رہے ہیں، اپنی زندگیاں دائو پر لگا رہے ہیں لیکن کریڈٹ دینے کے بجائے ایسے ہر واقعہ کو ان کی ناکامی اور نااہلی گردانا جاتا ہے۔ اس کے باوجود یہ لوگ اپنی ذمہ داریاں ادا کرتے جارہے ہیں، اور مقام پاکر سرخرو ہورہے ہیں۔
نیشنل ایکشن پلان نامی اینٹی وائرس کو استعمال کرتے ہوئے فاٹا، خیبرپختونخوا، بلوچستان، کراچی، اندرون سندھ اور پنجاب میں پاک فوج، خفیہ اداروں اور سویلین اداروں نے جان ہتھیلی پر رکھ کر بےشمار کامیابیاں سمیٹی ہیں، البتہ موقع ملنے پر دہشت گرد اپنا آپ ظاہر کرتے ہیں تو اسے ہم کسی کی ناکامی نہیں کہہ سکتے۔ درحقیقت یہ دہشت گردوں کی باقیات ہیں جو آپریشن ضرب عضب کے نتیجے میں بھاگتے بھاگتے وار کررہی ہیں. نیشنل ایکشن پلان نافذ العمل ہونے کے بعد پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں مجموعی طور پر 86 فیصد کمی واقع ہوئی ہے جبکہ صوبہ جاتی سطح پر پنجاب میں ایسی کارروائیاں تقریباً 30 فیصد کم ہوئی ہیں تاہم صوبہ سندھ ، خیبرپختونخواہ اور بلوچستان میں یہ شرح مزید بہتری کی متقاضی ہے ۔
سکیورٹی اداروں کی کاوشوں کی نفی کرنے کی کوششیں بالخصوص کراچی میں دکھائی دیتی ہیں جہاں ہر چند ماہ بعد رینجرز کے قیام اور اختیارات میں توسیع کا معاملہ سر اٹھاتا ہے اور اسے ایک مذاق بنا دیا گیا ہے، حالانکہ رینجرز کے اقدامات کراچی کے شہریوں کے لیے باعث نجات ثابت ہوئے ہیں۔ گزشتہ عرصے میں بیشتر کالعدم تنظیموں کا تعلق پنجاب سے جوڑا جاتا رہا ہے، اس بلیم گیم کے خاتمے کے لیے پنجاب حکومت نے سیکورٹی ایجنسیوں کو فری ہینڈ دیا۔ پنجاب میں کائونٹر ٹیرارزم ڈیپارٹمنٹ اور سیکیورٹی ایجنسیوں نے مل کر دہشت گردوں کے نیٹ ورک کے خاتمے اور کالعدم تنظیموں کو شکنجے میں کسنے کے لیے اہم کردار ادا کیا ہے، گذشتہ چند ماہ میں 162 اہم اور مطلوب دہشت گردوں کو واصل جہنم کیا گیا ہے. دسمبر 2014ء سے اگست 2016ء تک فوج، رینجرز اور پولیس نے 20 ہزار 379 مشترکہ آپریشنز کیے جن میں 109 انتہائی خطرناک دہشت گرد گرفتار ہوئے اور ساڑھے سات لاکھ افراد سے تحقیقات کی گئیں۔ اس کے نتیجے میں وہاں انسانیت سوز کارروائیوں میں کمی آئی۔ خیبرپختونخوا نے مدارس کی رجسٹریشن و ٹیگنگ، طلبہ کو امن و امان کا داعی بنانے اور اذہان کی مثبت نشونما کےلیے نصاب میں تبدیلی و مانیٹرنگ، مسلکی اختلافات کے خاتمے کےلیے لائوڈ سپیکر ایکٹ سمیت بیشتر اقدامات کیے. نیشنل ایکشن پلان کی بدولت ملک بھر میں پھیلی جعلی این جی اوز بے نقاب ہوئیں اور انہیں فنڈنگ کرنے والوں کا پیچھا کرتے ہوئے کئی سہولت کاروں کا ناطقہ بند کیا گیا۔ سندھ میں 2013ء کے بعد سے اب تک مجموعی طور پر 7950 آپریشن ہوچکے ہیں. دہشتگردی 80 فیصد، ٹارگٹ کلنگ 75 فیصد، بھتہ خوری 85 فیصد اور اغوا کی وارداتیں 83 فیصد کم ہوئی ہیں اور ایم کیو ایم کے خلاف 1313، پیپلز امن کمیٹی کے خلاف 1035 آپریشن ہوئے جس کی وجہ سے گذشتہ ایک سال میں 1236 دہشت گرد، 848 ٹارگٹ کلرز، 403 بھتہ خور اور 143 اغوا کار گرفتار ہوئے ہیں. افسوس کہ ان کے اقدامات کی تائید و حوصلہ افزائی کے بجائے تنقید کی جاتی ہے۔ بلوچستان کا 90 فیصد حصہ ایف سی اور لیویز کی ذمہ داری میں آتا ہے لیکن بقیہ 10 فیصد علاقہ سول انتظامیہ کے زیراثر ہے۔ بلوچستان میں درجنوں کالعدم تنظیموں اور فرقہ ورانہ گروہوں کے مضبوط نیٹ ورک ہیں، لسانی دہشت گرد بھی ہیں اور خود ایک دوسرے کے بھی دشمن ہیں. اگر بلوچستان حکومت نے انہیں سنجیدہ لیا ہوتا اور انہیں کنٹرول کرنے کے موثر اقدامات کیے ہوتے تو شاید صوبہ وکلاء کی کریم سے محروم نہ ہوتا۔
ایک مخصوص مائنڈ سیٹ ملک میں اس سوچ کو پھیلا رہا ہے کہ پاکستان میں ہونے والے بیشتر اقدامات میں زیادہ تر کردار فوج کا ہے اور حکومت کہیں دکھائی نہیں دیتی جبکہ اصل حقیقت یہ ہے کہ ایسا کہنے والے لوگ مخصوص خواہشات کی تکمیل چاہتے ہیں۔ یہ باتیں ملک میں انارکی پھیلانے اور انتشار کا سبب بنتی ہیں۔ فوج جو کچھ بھی کر رہی ہے، حکومت اس سے لاعلم نہیں ہے۔ سول ملٹری تعلقات لازم و ملزوم ہیں اور جنرل راحیل شریف نے بیشتر مواقع حاصل ہونے کے باوجود اگر ڈکٹیٹرشپ پر جمہوریت کو ترجیح دی تو ظاہر ہے کہ وہ جانتے ہیں کہ ایسی کشمکش سے براہ راست عوام اور ملک کا نقصان ہوگا، لہذا تمام اداروں کو مضبوط، مستحکم اور ترقی یافتہ و خوشحال پاکستان بنانے کا مقصد پورا کرنے کےلیے حکومت کا ساتھ دینا ہے۔ ملک میں پائی جانے والی بے چینی اور انتشار کا خاتمہ تب ہی ہوگا جب ملک کے تمام ادارے مل کر عوام کی خدمت کریں اور درپیش چیلنجز سے نمٹنے کے لیے ایک دوسرے کا ساتھ دیں گے۔ قومی اداروں کو زنجیر کی کڑیوں کی طرح مضبوط ہونا چاہیے، باہمی اختلافات اور رسہ کشی سے ادارے کمزور ہوتے ہیں تو عوام کے اعتماد کو بھی ٹھیس پہنچتی ہے۔ اداروں کے باہمی تعاون سے ہی قومیں ترقی کی راہ پر گامزن ہوتی ہیں، جبکہ ان پر اعتماد کی کمی سے انتشار اور افراتفری کا شکار ہوجاتی ہیں، لہذا آرمی اور حکومت کو الگ الگ پیج پر تصور کرنے کے بجائے یہ جان لینا چاہیے کہ یہ ایک ہی پلیٹ فار م ہے۔ محض کسی فرد کی ذاتی انا کی تسکین کے لیے اس پلیٹ فارم کو من پسند انداز میں ڈھالنا درست نہیں ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ نیشنل ایکشن پلان کے تمام نکات کو مدنظر رکھا جائے کیونکہ ہم ابھی تک نہ تو افغان مہاجرین کی واپسی اور رجسٹریشن کا عمل مکمل کر پائے ہیں اور نہ ہی کرمنل جسٹس سسٹم اور مدارس کی اصلاحات کا کام پورا ہوسکا ہے. نیکٹا کو متحرک کرنے، علیحدگی پسندوں کو قومی دھارے میں لانے، طلبہ میں شدت پسندانہ جذبات کے خاتمے کے لیے تعلیمی اداروں میں اساتذہ کی نفسیاتی تربیت، ہمسایہ ممالک کے بارڈر کے پاس بسنے والی کالعدم تنظیموں کے سہولت کاروں کو گرفت میں لانے، بارڈر مینجمنٹ کو مضبوط کرنے جیسے ہنگامی اقدامات کی فوری ضرورت ہے. صوبوں کی پولیس کو بھی اس قابل بنایا جائے کہ وہ دہشت گردوں اور سہولت کاروں سے نبٹنے کے لیے فوج یا رینجرز کے سہارے کی محتاج نہ ہوں بلکہ خود بھی ان کے خلاف آپریشن کرسکیں. اگرچہ صوبوں میں آئی بی، کائونٹر ٹیرارزم فورسز، ڈولفن، ایپکس کمیٹیاں، خصوصی و فوجی عدالتیں اور دیگر متعلقہ ادارے اپنا کام کر رہے ہیں، لیکن ان کے اقدامات میں بہتری اور وسعت کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ انسداد دہشت گردی کی الگ وزارت بنائی جائے جو خودمختار اور تیز تر فیصلہ سازی کر سکے۔ اس کی ذمہ داریوں میں صرف قانون بنانا اور اسے نافذ کرنا شامل نہ ہو بلکہ اس کی مانیٹرنگ کے ساتھ سماجی سطح پر بھی ایسا ماحول بنانا بھی ہو جس سے مستفید ہوکر لوگ اپنے اردگرد موجود دشمنوں کو پہچان سکیں اور ان کی خفیہ اطلاعات متعلقہ اداروں تک پہنچانے میں معاونت کرسکیں۔

Comments

Click here to post a comment