Tag: خیبرپختونخوا

  • سی پیک، وفاق اور صوبوں میں اعتماد کا فقدان –  بادشاہ خان

    سی پیک، وفاق اور صوبوں میں اعتماد کا فقدان – بادشاہ خان

    بادشاہ خان کئی اہم ملکی مسائل ایسے ہیں جن پر وفاقی حکومت کسی کی بات سننے کو تیار نہیں، فاٹا کا مسئلہ ہو یا پھر سی پیک کے مغربی روٹ پر صوبوں کو اعتماد میں لینے کا، مجبورا سی پیک منصوبے میں مغربی روٹ کا اسٹیٹس معلوم کرنے کے لیے اسپیکر خیبرپختونخوا اسمبلی اسد قیصر اور حکمران اتحاد کے پارلیمانی لیڈروں نے پشاور ہائی کورٹ میں رٹ پٹیشن دائر کردی ہے جس کی قاضی محمد انور ایڈووکیٹ پیروی کریں گے. رٹ صوبائی اسمبلی میں منظور کی گئی قرارداد نمبر 882 کے تحت دائر کی گئی، تاہم قرارداد پر دستخط کرنے والی چاروں اپوزیشن جماعتیں جے یو آئی، مسلم لیگ ن، اے این پی اور پیپلزپارٹی پیچھے ہٹ گئی ہیں اور اب رٹ حکمران اتحاد میں شامل جماعتوں تحریک انصاف، جماعت اسلامی اور قومی وطن پارٹی کی جانب سے دائر کی گئی ہے. صوبائی کابینہ کے رکن مشتاق غنی نے کہا ہے کہ صوبے کے حصے میں ایک رابطہ سڑک کے سوا کچھ نہیں دیا گیا، نہ ہی وفاق نے معاہدے کی دستاویزات دی ہیں، اور یہ رٹ قرارداد کی بنیاد پر دائر کی گئی ہے، اب کچھ جماعتیں پیچھے ہٹ رہی ہیں تو ان کی مرضی تاہم قرارداد کی سب نے ہی حمایت کی تھی. صوبائی اکائیوں کے اقتصادی راہداری (سی پیک) پر شدید اعتراضات وشبہات ہیں، اعتراضات کرنے والے کوئی انڈین ایجنٹ نہیں بلکہ پاکستان سے محبت کرنے والا سنجیدہ محب وطن طبقہ ہے. خیبر پختونخوا کے وزیراعلی پرویز خٹک نے کئی بار کہا کہ وفاقی حکومت نے چائنہ پاکستان اقتصادی راہداری سے منسلک تمام منصوبوں کو راہداری کے مشرقی روٹ پر منتقل کر کے کام شروع کردیا ہے، اور خیبر پختونخوا و بلوچستان کو اقتصادی راہداری کے منصوبے سے تقریبا محروم کر دیا گیا ہے، جبکہ منصوبے کا مغربی روٹ بھی ختم کر دیا گیا ہے جس کا ہم سے وفاقی حکومت نے وعدہ کیا تھا. یہ الفاظ ایک صوبے کے وزیر اعلی نے کئی بارکہے، اسی قسم کا بیان بلوچ رہنما سردار اختر جان مینگل کا سامنے آچکا ہے کہ جس میں انھوں نے گوادر پورٹ پر اپنے تحفظات کا واضح الفاط میں ذکر کیا تھا۔

    چند ماہ قبل ایک نجی چینل پر احسن اقبال کا ون ٹو ون انٹرویو سننے کا شرف حاصل ہوا، انٹرویو میں وزیر موصوف نے سی پیک کے بارے میں دلائل کے انبار پیش کیے، ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ چینل حکومتی مؤقف کی ترجمانی کے لیے یہ پروگرام کروا رہا تھا، اور پروگرام میں ایسا تاثر دیا گیا کہ کام تو مغربی روٹ پر ہی جاری ہے. گودار سے سوراب تک چھ سو پچاس کلومیٹر روڈ کو مغربی روٹ قرار دیا گیا جو کہ مغربی روٹ نہیں ہے، جس نے یہ علاقہ نہیں دیکھا اسے کیسے معلوم ہوسکتا ہے کہ کام کہاں ہو رہا ہے؟ وہ یہی سمجھےگا کہ یہ دوسری پارٹیاں اور صوبے شاید بےوقوف ہیں کہ خطے میں گیم چینجر منصوبے کی مخالفت کر رہی ہیں، جب پاکستان کے پس ماندہ علاقوں میں تبدیلی نہیں آرہی تو پھر کیسے یقین کرلیا جائے کہ خطے میں تبدیلی کا منصوبہ ہے. خود اس وقت تک گوادر کے مقامی رہائشی پینے کے صاف پانی سے محروم ہیں۔

    بلوچستان میرا آنا جانا رہتا ہے، کوئٹہ اسی سوراب سے گذر کر جاتا ہوں. سوراب چار راستوں کے سنگم پر واقع ہے. ایک سڑک کراچی کی جانب، دوسرا راستہ خضدار سے رتوڈیرو سندھ، تیسرا راستہ کوئٹہ اور چوتھا راستہ گوادار کو جاتا ہے. اس وقت سوراب سے گودار والے روٹ پر کام جاری ہے اور یہ مغربی روٹ نہیں ہے بلکہ یہ تو وہ راستہ ہے جو گودار سے لازمی یہاں تک بنے گا، اور یہی گودار سے پورے ملک کو لنک کرنے کا مختصر راستہ ہے. یہ مغربی روٹ نہیں،گوادر سے نکلنے والا مین روٹ ہے کیونکہ ساحل سمندر کے ساتھ بنائی گئی دوسری سڑک جو کہ پسنی، اور ماڑہ بوزی ٹاپ، ہنگول ندی سے ہوتے ہوئے کراچی کو لنک کرتی ہے، یہ طویل راستہ ہے، اس لیے پہلے مرحلے میں سوراب تک شارٹ ہائے وے تعمیر کی جا رہی ہے. اس سڑک اور کوری ڈور کو خضدار سے جیک آباد، رتوڈیرو سندھ سے لنک کیے جانے کی منصوبہ بندی ہے، جسے چھپایا جارہا ہے. کوری ڈور کا یہ حصہ بھی ضروری ہے کیونکہ اس سے سندھ کو فائدہ ہوگا مگر مغربی روٹ وہ ہے جو کہ سوراب، کوئٹہ سے ہوتے ہوئے برہان کو لنک کرے گا، اس روت پر خاموشی ہے. کچھ عرصہ قبل حکومت کی جانب سے سیاسی جماعتوں کو یہ بتایا گیا تھا کہ دونوں روٹس پر انفراسٹرکچر یکساں ہوگا، لیکن جب اس سے زیادہ مناسب مغربی روٹ پر توانائی کے پلانٹ ہوں گے نہ کوئی صنعتی پارکس اور انفراسٹرکچر ہوگا تو پھر یہ کیسے یکساں ہوگا؟ توانائی اور دیگر پروجیکٹ کوئی چھوٹے منصوبے نہیں ہیں۔ یہ انڈسٹریل پارکس چھوٹے چھوٹے نہیں بلکہ پورے پورے شہر بنیں گے ۔ تو جب مغربی روٹ پر توانائی نہیں ہوگی، بجلی نہیں ہوگی، موٹر وے نہیں ہو گی تو کیسے یہ علاقے ترقی کریں گے۔

    ایک صوبے کے علاوہ تمام صوبے راہداری پروجیکٹ کے مخالف ہیں، کیوں؟ سوال بڑا اہم ہے اور جواب بہت سادہ کیونکہ انہیں نظر انداز کیا جارہا ہے۔ اقتصادی زونز کے لیے جب پیسے ہی نہیں تو زونز کا اعلان کرکے لالی پاپ کیوں دیا جارہا ہے۔ سی پیک منصوبے کی کامیابی کے لیے یہ بات ضروری ہے کہ سب سے پہلے بلوچستان کے عوام اور حکومت کو اعتماد میں لیا جائے تاکہ ان کے اندر 69 سالوں سے محرومی کا احساس ختم ہو، اور ان کو بھی ترقی کے ثمرات میں پورا حصہ ملے. دلوں کو جیتنے کے لیے پاکستان کے ساتھ ساتھ چین کو بھی آگے آنا ہوگا اور سب سے زیادہ ضروری تو پاک فوج کا کردار ہونا چاہیے کہ جس پر پہلی بار بلوچ قوم اور نوجوان بھروسہ کر رہے ہیں. ان کو امید ہے کہ اب ان کے مسائل حل کروانے میں پاک فوج کردار ادا کرے گی. اکائیوں میں اتفاق سے قومیں تشکیل پاتی ہیں، جب صورت حال نازک ہو تو بڑے ہونے کا دعوی کرنے والوں کو چھوٹوں کو راضی کرنا پڑتا ہے ، پنجاب بڑا بھائی ہے اس لیے بڑی ذمہ داری اور قربانی بھی اسے دینا ہوگی۔ اس سے چھوٹے صوبوں میں وفاق اور پنجاب کی جانب سے خیر سگالی کا پیغام جائے گا اور چاروں صوبوں کے عوام میں محبت اور بھائی چارگی کو فروغ ملے گا، جبکہ سی پیک راہداری سے جنوبی پنجاب، سندھ ، خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے پسماندہ علاقے کو ترقی کے مواقع ملیں گے۔

  • صوبائیت کی لعنت اور ہمارے اہل علم – ڈاکٹر محمد مشتاق احمد

    صوبائیت کی لعنت اور ہمارے اہل علم – ڈاکٹر محمد مشتاق احمد

    محمد مشتاق پچھلے چند دنوں سے سوشل میڈیا پر صوبائیت کے خلاف بہت زبردست مہم چل رہی ہے۔ مجھے بڑی خوشی ہوتی اگر اس مہم میں حصہ ڈالنے والے اہل علم خود صوبائیت میں مبتلا نہ ہوتے ۔ بہت سے لوگ بہت کچھ کہہ رہے ہیں اور اس بہت کچھ کا خلاصہ ایک جملے میں یہ بنتا ہے کہ صوبائیت بہت بڑی لعنت ہے ، بشرطیکہ اس کا اظہار اہلِ پنجاب کے بجائے کسی اور صوبے کے لوگوں کی جانب سے ہو!

    پرویز خٹک کی تقریر میں صوبائیت تھی ۔ اس سے ہمیں انکار نہیں ۔ ان پر تبرا کریں ۔ ضرور کریں ۔ تاہم پرویز خٹک کی تقریر سے مختلف اقتباسات لے کر صوبائیت کی لعنت پر بہت سنجیدہ ، پر مغز اور علمی تبصرہ کرتے ہوئے ہمارے دوست یہ بات بالکل ہی نظرانداز کردیتے ہیں کہ جب 2 نومبر سے دو دن قبل صوبۂ پنجاب کے تمام راستے صوبۂ خیبر پختونخوا سے آنے والے تمام لوگوں کے لیے عین صوبۂ پنجاب کی سرحد پر مکمل طور پر بند کردیے گئے تو کیا یہ صوبائیت نہیں تھی؟ یہ بات جس کے سامنے بھی رکھی ،عجیب طرح کے عذر سامنے آئے ۔ وفاق کو بچانا تھا۔ ایک صوبے کا وزیر اعلی حملہ آور ہورہا تھا۔ دہشت گردی کا خطرہ تھا ۔ اور پتہ نہیں کیا کچھ۔

    پوچھا کہ کیا اس خطرے سے نمٹنے کا حل اس کے سوا اور کوئی نہیں تھا کہ ایک صوبے کے تمام راستے دوسرے صوبے کے تمام لوگوں پر مکمل طور پر بند کردیں اور وہ بھی دو دن قبل؟ کیا دار الحکومت کو بچانے کے لیے دار الحکومت کے نزدیک ہی کچھ بندوبست نہیں کیا جاسکتا تھا ؟ عین صوبے کی سرحد پر راستے بند کردینے سے کیا پیغام دیا جارہا تھا؟ کیا یہ کہ اسلام آباد تک جانے والے سارے راستے پنجاب سے ہوکر گزرتے ہیں؟ کیا یہ بہتر نہ ہوتا کہ موٹروے بے شک بند کردی جاتی اور جی ٹی روڈ پر رکاوٹیں ڈال دی جاتیں لیکن پی ٹی آئی والوں اور عام لوگوں میں فرق کا کوئی بندوبست کرلیا جاتا ؟ کسی کو جانے دیا جاتا ، کسی کو روک لیا جاتا ۔ اسلام آباد کے قریب زیادہ سختی کی جاتی۔ اہم سوال یہ ہے کہ عین صوبے کی سرحد کو کیوں بند کیا گیا؟ اگر وفاق کا وزیر اعظم اور صوبے کا وزیر اعلی ایک ہی گھر سے نہ ہوتے تو پھر بھی کیا یہی آپشن اختیار کیا جاتا؟ کتنی دفعہ اس سے قبل اسلام آباد پر چڑھائی کی گئی؟ کتنی پارٹیوں نے کی؟ خود اہل پنجاب نے کی؟ لیکن کیا ایسا کبھی پہلے ہوا تھا؟
    اب آئیے ایک اور پہلو کی طرف ۔

    ہمارے ایک پسندیدہ دانشور نے اپنے بلاگ میں تاریخ کی “پنجابی تشریح ” کرچکنے کے بعد انگریزوں اور “شمال سے آنے والے لٹیروں” کو ایک صف میں کھڑا کیا اور یہاں تک کہہ دیا کہ ڈیورنڈ لائن اس لیے کھینچی گئی کہ ان لٹیروں میں بعض کو افغانستان کی حکومت کنٹرول کرے اور بعض کو انگریز ! یہ زاویۂ نظر لیکن تعصب اور صوبائیت پر مبنی نہیں ہے ۔ یہ بھی فرمایا کہ سوئی گیس برآمد ہونے سے کئی صدیاں پہلے بھی پنجاب خوش حال تھا ۔ پنجاب کی صدیوں قبل خوش حالی کا تو خیر کسی نے انکار نہیں کیا لیکن سوال یہ ہے کہ کیا لمحۂ موجود میں بلوچستان کی سرزمین پر موجود غریب بلوچی کو آپ اس دلیل سے مطمئن کرسکتے ہیں؟ کیا اسے یہ پوچھنے کا حق نہیں ہے کہ آپ صدیوں سے خوش حال سہی ، لیکن سوئی کی گیس سیکڑوں میل دور جاکر رائیونڈ کے محلات میں آپ کے ڈرائنگ روم گرم کرے مگر چند میلوں کے فاصلے پر میرے گھر میں چولہا بھی نہ جلاسکے تو کیا یہ ظلم نہیں ہے؟ اگر میں مان بھی لوں کہ میرے اجداد لٹیرے تھے جنھوں نے آپ کے خوش حال اجداد کو لوٹا تھا، تو کیا اب اس کے کفارے کے طور پر میں آپ کی جانب سے سی پیک میں میرے حق پر ڈاکا ڈالنے کو معاف کردوں؟

    پھر جب آپ اپنی خوش حالی کا تذکرہ اس انداز میں کرتے ہیں تو محروم لوگوں کو یہ کیوں نہ یاد آئے کہ اس طرح تو آپ وہی بات کہہ رہے ہیں جو بش نے امریکیوں سے کی تھی کہ ہماری خوش حالی اور ترقی کی وجہ سے مسلمان ہم سے نفرت کرتے ہیں! حضور، آپ سے کوئی نفرت نہیں کرتا ۔ بس اپنی چارپائی کے نیچے ذرا ڈانگ پھیر لیجیے۔ اس سے زیادہ آپ سے کچھ نہیں چاہیے ۔

    ان دانشور صاحب نے یہ بھی فرمایا کہ عمران خان پنجاب میں رہ کر بھی پختون عصبیت کو پکاررہا ہے حالانکہ نواز شریف کشمیری ہوکر بھی پنجاب سے ووٹ لیتے ہیں۔ عمران خان جانیں اور ان کی عصبیت۔ یہ سوال بھی ہم نہیں اٹھائیں گے کہ اٹک اور میانوالی کب اور کیسے پنجاب کا حصہ بنے؟ نہ ہی یہ پوچھیں گے کہ کشمیر اور پنجاب کا سکھوں کی حکومت میں کیا انتظامی تعلق اور قانونی رشتہ رہا؟ ہاں یہ سوال ضرور پوچھنا چاہتے ہیں کہ کشمیری ہونے کے باوجود “جاگ پنجابی جاگ” کا نعرہ کس نے بلند کیا تھا؟
    جب بات اس نعرے تک آہی گئی ہے تو یہاں مجھے ایک نہایت ہی محترم اور عالی مقام مفتی صاحب کی تاویل بھی پیش کرنے دیں ۔ انھوں نے اس نعرے کو کس طرح شریفوں کے کھاتے سے اٹھا کر بے چہرہ اسٹیبلشمنٹ کے نام کردیا ، ملاحظہ کیجیے اور داد دیجیے ۔ فرماتے ہیں :

    “میری یادداشت کے مطابق یہ نعرہ بذات خود ن لیگ نے نہیں لگایا تھا نہ ہی ن لیگ کا وجود تھا نواز شریف آئی جے آئی کا حصہ تھے مسلم لیگ کے ایک گروپ کی حیثیت سے جس کا نام یاد نہیں آ رہا ۔ آئی جے آئی کے سربراہ مصطفی جتوئی تھے نواز شریف سمیت یہ سب اسٹیبلشمنٹ کے چہیتے تھے۔ در حقیقت سندھ کارڈ کے مقابل پنجاب کارڈ انہی قوتوں کی ضرورت تھی جو بے نظیر کو ہر حال میں ہرانا چاہتی تھیں مہاجر کا نعرہ بھی انہوں نے لگوایا اب پی ٹی آئی بھی انہی کی نمائندہ ہے۔ یہ بھی ذہن میں رہے کہ یہ نعرہ گم نام لوگوں کی طرف سے چلایا ضرور گیا تھا جیسے شکریہ شکریہ کے بینر لگتے ہیں لیکن چل نہیں سکا تھا جیسے پرویز خٹک کا نہیں چلا ۔ کوئی صاحب میری معلومات کی تصحیح کر دیں تو ممنون ہوں گا۔”

    میں نے اس پر عرض کیا تھا کہ اتنی خوش گمانیوں کے ساتھ تصحیح کا رسک نہ لیں۔ ہمارے ایک اور دوست نے لیکن مفتی صاحب کی تائید کرتے ہوئے انھیں لقمہ دیا کہ قومی اسمبلی کے الیکشن ہوچکے تھے اور صوبائی اسمبلین کے الیکشن تین دن بعد ہونے تھے۔ اچانک جیسے ڈوبتے کو تنکے کا سہارا مل جاتا ہے۔ حضرت نے اس پر عمارت تعمیر کرتے ہوئے فرمایا:

    میری یادداشت کے مطابق ان تین دنوں میں ایک اشتہار بھی چھپا تھا لیکن اس میں جاگ پنجابی جاگ نہیں تھا وہ اشتہار نہ بھی ہوتا تب بھی قومی اسمبلی کے نتائج کا اثر پڑنا ہی تھا۔ اسی لئے محترمہ نے اسی وقت سے قومی و صوبائی الیکشن ایک دن کرانے کا مطالبہ شروع کر دیا تھا۔ 2002 کے الیکشن میں شام کو جب سرحد میں ایم ایم اے کی لیڈ نظر آئی تو بعضوں کو یہ کہتے سنا “پتا ہوندا تے اسیں وی مولویاں نو ووٹ دے دندے۔”

    ان کمنٹس میں ایک جید عالم دین کی خوش گمانیاں اور تاویلات دیکھیں اور پھر دیکھیے کہ کیا یہی خوش گمانیاں اور تاویلات وہ وہاں بھی دکھاتے ہیں جب کسی اور صوبے کی جانب سے صوبائیت کا نعرہ اٹھے؟ میرا جو گلہ ہے وہ بس اسی حد تک ہے۔ اس سے زیادہ نہیں۔

  • آزادی رائے کو بھونکنے دیں؟ آصف محمود

    آزادی رائے کو بھونکنے دیں؟ آصف محمود

    آصف محمود محمود خان اچکزئی پھر بولے، پھر سلیم احمد مرحوم کی یاد آئی. 80 کی دہائی میں انہوں نے لکھا تھا:
    ”آزادی رائے کو بھونکنے دو.“
    زندہ ہوتے تو حاضر ہوتا اور پوچھتا: کب تک اور کتنا.
    قومی اسمبلی میں خان صاحب نے فرمایا کہ فاٹا کی حیثیت کو مت چھیڑیں ورنہ یہ بین الاقوامی ایشو بن جائے گا.
    فاٹا کی حالت ہمارے سامنے ہے. ایف سی آر کے نام پر لاقانونیت. مروجہ آئینی سکیم میں وہاں سپریم کورٹ کو حق نہیں کہ کسی کی داد رسی کر سکے. پولیٹیکل ایجنٹ یہاں کا ان داتا ہے. اور بہت سے مسائل ہیں. چنانچہ اسے قومی دھارے میں لانے اور بنیادی حقوق دینے کی خاطر فاٹا ریفارمز کمیٹی بنائی گئی. ایک طویل مشاورت کا عمل ہوا جو جاری ہے. بہت سی تجاویز زیر غور ہیں کہ فاٹا کو الگ صوبہ بنایا جائے یا کے پی کا حصہ بنایا جائے. عمران خا ن کی تجویز ہے کہ ایک مرحلے پر اسے کے پی کا حصہ بنا دیا جائے. یہ معاملات آگے کو بڑھ رہے تھے کہ اچانک اچکزئی صاحب اپنی آزادی رائے سمیت بیچ میں کود پڑے.
    سوال یہ ہے کہ کیا ان کا تعلق فاٹا سے ہے؟
    کیا وہ فاٹا سے منتخب رکن اسمبلی ہیں؟
    کیا وہ فاٹا کے نمائندے یا ترجمان ہیں؟
    فاٹا کے بارے میں فاٹا کے منتخب نمائندوں کی مرضی سے اور فاٹا ریفارمز کمیٹی کے طویل مشاورتی عمل کے بعد اگر منتخب پارلیمان کوئی فیصلہ کرتی ہے تو اس پر اتنا سیخ پا ہونے کی کیا ضرورت ہے؟ ٹھیک ہے آپ مشورہ دیں، رائے دیں لیکن کس استحقاق کی بنیاد پر آپ کی بات کو حرف آخر سمجھ لیا جائے؟ فاٹا پاکستان کا علاقہ ہے، آپ کی جاگیر کا پائیں باغ نہیں.
    نیز یہ کہ یہ معاملہ بین الاقوامی ایشو کیسے بن جائے گا؟ اچکزئی کے کس ممدوح ملک کو اس سے تکلیف ہوگی کہ یہ مسئلہ بین الاقوامی مسئلہ بن جائے گا؟ افغانستان کو یا بھارت کو؟ کس کی شہ پر یہ دھمکی دی جا رہی ہے؟
    اچکزئی کس کی زبان بول رہے ہیں؟ کس کی شہ پر ان کا دہن مبارک آگ اگل رہا ہے؟ پاکستان کا ایک داخلی مسئلہ بین الاقوامی مسئلہ کیسے بن جائے گا؟
    سلیم احمد نے ٹھیک کہا ہوگا مگر کب تک اور کتنا؟

  • کیا عمران خان اپنا مقدمہ ہار چکے ہیں؟ محمد عامر خاکوانی

    کیا عمران خان اپنا مقدمہ ہار چکے ہیں؟ محمد عامر خاکوانی

    عامر خاکوانی سیاسی پس منظر میں یہ سوال بہت اہم ہے۔ ہمارے بعض محترم تجزیہ کار اس پر قلم اٹھا چکے ہیں، ان میں سے بعض یہ حتمی فیصلہ سنا رہے ہیں کہ عمران خان اپنا مقدمہ ہار گیا ہے۔ اس خاکسار کی رائے میں یہ رائے درست نہیں۔ یہ رائے اگرتعصب اوربد نیتی پر مبنی نہیں اور میرا حسن گمان ہے کہ ایسا نہیں، تو پھر عمران خان کے مقدمہ ہار دینے والی بات کو عاجلانہ اور سادہ لوحی پر محمول ضرور کرنا چاہیے۔

    اس کی ایک سادہ سی وجہ ہے کہ عمران خان کا موازنہ اپنے سیاسی حریفوں سے کرنا ہوگا، سب کے لیے ایک جیسے پیمانے بنانے پڑیں گے۔ یہ نہیں کہ ایک کو ہاتھی گیٹ سے گزارا جائے اور دوسرے کے لیے اتنی چھوٹی کھڑکی کہ وہ رینگ کر بھی نہ گزر پائے۔ یہ ممکن نہیں کہ آپ سیاسی تجزیہ تو زمینی حقائق، عملیت پسندانہ سوچ کو سامنے رکھ کر کریں، میدان سیاست میں موجود بڑے پہلوانوں کو رعایت بلکہ بےپناہ رعایتیں دیں، ان کے بلنڈرز سے آنکھیں بند کر لیں اور عمران خان کو آئیڈیل ازم کی کسوٹی پر پرکھیں۔ رومانوی سیاست کے وہ تمام پیمانے جن کا اطلاق پاکستان بلکہ جنوبی ایشیائی سیاست میں بھی ممکن نہیں، وہ تمام عمران خان پر آزما ڈالیں۔ اسے انصاف نہیں کہتے، عدل اور توازن پر مبنی رائے یوں نہیں دی جاتی۔

    عمران خان کا مقدمہ آخر ہے کیا ؟ تین بنیادی نکات ہیں۔ پہلا یہ کہ پاکستانی سیاست سٹیٹس کو کے گرد گھوم رہی ہے، مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی جیسی بڑی سیاسی جماعتیں سٹیٹس کو کی علمبردار ہیں، نظام کو وہ بدلنا نہیں چاہتیں، تھانے ، کچہری، پٹوار کے اسی ظالمانہ نظام کو قائم رکھنا چاہتی ہیں، تعلیم، صحت کے شعبوں میں اصلاحات لانا ان کا مقصد نہیں ، طاقتور طبقات سے وہ ٹیکس وصول نہیں کرنا چاہتے، غریبو ں کی زندگی بدلنا ان کی ترجیحات میں شامل نہیں۔ دوسرا نکتہ یہ ہے کہ سیاستدان کرپشن کی دلدل میں دھنسے ہوئے ہیں، شریف خاندان، زرداری خاندان اور ان جیسے دیگر بڑے سیاستدانوں نے ملک سے لوٹی دولت بیرون ملک لے جا کر وہاں سرمایہ کاری کر رکھی ہے، اسے واپس لانا چاہیے اور اگر میں یعنی عمران خان خود بھی کرپٹ ہے یا اس کے ساتھ کرپٹ ہیں تو ان کا بھی بے رحمانہ احتساب کیا جائے۔ تحریک انصاف کے سربراہ کے مقدمہ کا تیسرا نکتہ یہی ہے کہ گورننس بہتر کی جائے، سٹرکوں اور ظاہری چمک دمک دمک والے میگا پراجیکٹس کے بجائے حقیقی اصلاحات لائی جائیں، پولیس اور انتظامیہ کو سیاسی دبائو سے آزاد رکھا جائے، بلدیاتی ادارے مضبوط کئے جائیںتاکہ گراس روٹ لیول تک جمہوریت کے اثرات مرتب ہوں۔

    اب اس مقدمہ میں سے کون سی بات ہے جو ثابت شدہ نہیں۔ ایک بھی نکتہ ایسا نہیں جس پر کسی تجزیہ کار کو اعتراض ہوگا، سب باتیں آئینے کی طرح واضح اور شفاف ہیں۔ کیا مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی سٹیٹس کو کی علمبردار نہیں ہیں؟ کسی مزید دلیل کی ضرورت ہی نہیں۔ پچھلے آٹھ برسوں سے دونوں پارٹیاں حکمران ہیں۔ پنجاب میں مسلم لیگ ن، سندھ میں پیپلزپارٹی۔ ان دونوں صوبوں کو لے لیں، کسی ایک شعبے میں بھی اصلاحات کسی نے کیں۔ کیا پنجاب یا سندھ پولیس سیاسی اثرورسوخ سے پاک ہے؟ کیا یہ سچ نہیں کہ مخصوص مقاصد کے لیے اپنی مرضی کے ڈی پی او اور ڈی سی اوز لگائے جاتے ہیں؟ کیا یہ غلط ہے کہ لاہور میں تھانوں کے ایس ایچ اوز کے تقرر بھی مخصوص لوگ کرتے ہیں۔ پچھلے آٹھ برسوں کے دوران تعلیم اور صحت میں کیا ریفارمز لائی گئیں؟ ٹیکس ریکوری بڑھانے کے لیے کیا کیا گیا؟ تین برسوں میں ٹیکس اصلاحات کے نام پر کچھ نہیں ہوا، ہر ایک جانتا ہے کہ کبھی ایسا نہیں ہوگا۔ سیاستدانوں کی کرپشن کے بارے میں سینہ گزٹ کو چھوڑیں، آڈیٹر جنرل کی رپورٹوں اور نیب کے سکینڈلز ہی کو سامنے رکھ لیں تو حیران ہوجاتا ہے۔برادرم رئوف کلاسرا کے پچھلے تین چار برسوں کے کالموں میں اتنے بڑے سکینڈل اور کرپشن دھماکے سامنے آئے ہیں،کسی کو تردید کرنے کی بھی جرأت نہیں ہوئی۔ ایسے کالم ہی اکٹھے کر دیے جائیں تو کرپشن پر اچھی خاصی ضخیم کتاب بن جائے گی۔

    پاناما لیکس ہی کو دیکھ لیں۔ جس ہوشیاری اور ہنرمندی سے حکمران جماعت نے اپنی فرینڈلی اپوزیشن جماعت پیپلزپارٹی کے ساتھ مل کر جو ڈرامہ رچایا، وہ سب کے سامنے ہے۔ پاناما سکینڈل آنے کے اگلے روز ہی وزیراعظم ٹی وی پر آئے اور قوم سے خطاب میں اس کی شفاف تحقیقات کا وعدہ کیا۔ کہاں گیا وہ وعدہ ؟سب جانتے ہیں کہ کیسی چالاکی سے پارلیمانی کمیٹی بنا کر ٹی اوآرز کے سلسلے کو اتنا طویل کیا گیا کہ لوگ یہ بات سن سن کر تنگ آ جائیں اور معاملہ معلق ہوجائے۔ عمران خان کے تیس ستمبر والے جلسے، مارچ وغیرہ پر تنقید کی جاسکتی ہے، مگر سچ تو یہ ہے کہ حکومت نے سڑکوں پر آ کر احتجاج کرنے کے سوا اور کیا راستہ چھوڑا ہے۔ کتنے مہینے گزر گئے، ٹی او آرز کی کمیٹی کے کتنے اجلاس ہوگئے، مگر اتفاق رائے نہیں ہوا اور صحافتی حلقے یہ بات پہلے سے جانتے تھے، بلکہ سیاسی فہم رکھنے والے ہر شخص کو علم تھا کہ ایسا ہی ہوگا۔ ن لیگ کے ارکان اسمبلی سرگوشیوں میں، معنی خیز مسکراہٹ کے ساتھ نجی محافل میں کہتے تھے کہ جب اتفاق رائے ہوجائے، تب ہمیں بتائیے گا۔ وہی ہوا جس کی توقع تھی۔ آج اگر کوئی صاحب دانش یہ مشورہ دے کہ عمران خان اپنے مقدمہ کو عدالتوں میں لے جائیں تو ان کی سادگی اور بھولپن پر رحم آتا ہے۔ بھائی کیا پاکستان میں کرپشن کی تحقیقات کرنے والے ادارے اس قدر آزاد ہیں کہ حکومتوں کے خلاف عدالتوں کو ثبوت فراہم کریں گے؟ پھر پاناما لیکس کی تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمیشن بنانا ہے، اس کے لیے مگر قانون تو پاس کرو، تب ہی اس کمیشن کو اختیار ملے گا۔ اتنی سامنے کی بات آخر ناقدین کیسے نظرانداز کر سکتے ہیں؟کیاآرڈی ننس عمران خان نے جاری کرنا ہے؟ وہ تو کہتا ہے کہ اس پر خود الزام ثابت ہو جائیں، اس کے قریبی ساتھیوں پر ثابت ہوں تو انہیں بھی سزا دو۔ اس سے بڑھ کر کیا بات کی جا سکتی ہے؟

    عمران خان کا اخلاقی مقدمہ اس کے سیاسی مقدمہ سے جڑا ہوا ہے۔ جن تین نکات کے گرد اس کا مقدمہ گھومتا ہے، انہی کو عمران خان اور اس کی سیاست پر منطبق کرنا چاہیے۔ عمران خان پر کرپشن ثابت ہونا تو دور کی بات ہے، الزام تک نہیں لگ پایا۔ اس کے بدترین مخالف بھی یہ نہیں کہہ سکے کہ عمران خان نے فلاں معاملے میں کمیشن کھایا یا وہ گھپلوں میں ملوث ہے، پیسے لے کر ٹکٹیں جاری کرتا ہے۔ اکتوبر تیرہ کے انتخابات سے پہلے ن لیگ کے تیز دھار رہنما ایک بات تواتر سے دہراتے تھے کہ عمران خان کرپٹ اس لیے نہیں کہ اسے اقتدار نہیں ملا، جب ملے گا تب دیکھیں گے۔ تین سال ہوچکے، خیبر پی کے پر اس کی جماعت حکمران ہے، کئی سو ارب کا سالانہ بجٹ ہوتا ہے، ایک معاملے میں بھی عمران خان پر الزام نہیں لگ سکا۔ کوئی یہ نہیں کہہ سکا کہ اس نے پیسے لے کر ٹرانسفر، پوسٹنگ کی ہیں یا وزارتیں دی ہیں۔ واضح رہے کہ پنجاب اور سندھ میں ایسے درجنوں بلکہ بیسیوں الزام اور ہوش ربا واقعات موجود ہیں۔

    خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کی حکومت کی کارکردگی مثالی نہیں، بہت کچھ ہوسکتا تھاجو نہیں ہوا، یہ مگر ہر ایک کو ماننا چاہیے کہ کچھ نہ کچھ اصلاحات انہوں نے کی ہیں۔ صوبے کی تاریخ میں پہلی بار پولیس سیاسی اثرورسوخ سے پاک ہوئی، طاقتور ترین آئی جی لگایا گیا جو ٹرانسفر، پوسٹنگ کے لیے وزیراعلیٰ کے اجازت بھی نہیں لیتا۔ پنجاب میں اس کا خواب بھی نہیں دیکھا جا سکتا۔ سیاسی اثرورسوخ سے بےنیاز چیف سیکرٹری لگایا گیا، دیگراعلیٰ انتظامی عہدوں میں بھی ایسا کیا گیا۔ تعلیم کے شعبے میں بہت بہتری آئی۔ منہ زور ڈاکٹر مافیا کو ڈسپلن میں لانے کی سعی ہو رہی۔ سٹیٹس کو کے علمبردار وزیراعلیٰ کے ہونے کے باوجود یہ اصلاحات لائی گئیں، حالانکہ بیشتر حکومتی ارکان اسمبلی اور وزرا ناتجربہ کار ہیں، اصلاحات پر عملدرآمد کے لیے جو تجربہ چاہیے، وہ ان کے پاس نہیں، مگر کمٹمنٹ نظر تو آئی ہے۔ بلدیات کی وزارت جماعت اسلامی کے پاس ہے، اس کی کارکردگی قابل رشک رہی۔اس کے برعکس پنجاب میں کئی ماہ ہوگئے، مگر بلدیاتی ادارے ابھی تک نہیں بن سکے۔ پنجاب کے ہر ضلع میں ن لیگ کے اپنے لوگ ہی مئیر، ناظم بنیں گے، مگر برائے نام اختیار دینے کا جی نہیں چاہ رہا۔ کے پی کے میں نصف سے زیادہ اضلاع میں اپوزیشن کے مئیر، ضلعی ناظم بنے ہیں۔ پھر بھی وہاں بلدیاتی ادارے فعال ہیں بلکہ صوبائی تاریخ میں پہلی بار ترقیاتی فنڈز کا معقول حصہ بلدیاتی اداروں کے ذریعے خرچ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ عمران خان کا یہ مقدمہ تو ثابت ہوگیا ہے کہ چاہے سٹیٹس کو کے علمبردار ، روایتی سیاستدان اس کے ساتھ ہیں، مگر وہ ان سے بلیک میل نہیں ہوا، پولیس اور انتظامیہ کے ٹرانسفر، پوسٹنگ کو سیاسی دبائو سے باہر رکھا اور تعلیم، صحت، بلدیات اور کئی دوسرے شعبوں میں اصلاحات کی کوشش تو کر رہا ہے، مکمل کامیابی نہ سہی، کچھ نہ کچھ تو ہوگا۔ ادھر پنجاب اور سندھ میں تو کسی نے اصلاحات کی طرف پہلا قدم ہی نہیں بڑھایا۔

    بات ابھی ختم نہیں ہوئی، اس کے بعض پہلوئوں پر ان شاء اللہ آئندہ گفتگو کریں گے۔

  • خیبرپختونخوا حکومت کے دو انقلابی اقدامات – راشد حمزہ

    خیبرپختونخوا حکومت کے دو انقلابی اقدامات – راشد حمزہ

    خیبرپختونخوا کے دو ڈویژن ملاکنڈ اور ہزارہ مکمل طور پر پہاڑی علاقوں پر مشتمل ہیں. ہرے بھرے درختوں سے اٹی ہوئی پہاڑیاں، سرسبز وادیاں، بےقرار دریا، شفاف پانیوں کی ندی نالیاں، نقرئی چشمے اور پہاڑی جھرنے ان علاقوں کا قدرتی حسن دوبالا کرتے ہیں. ان علاقوں میں قدرتی حسن کے قدردانوں، اسیران گلزاروں، مرغزاروں اور سبزہ زاروں کی تسکین کا ان کے ذوق و شوق کی تکمیل اور طبعیت کے لطف اور روح کی شادمانی کے سامان کا بھرپور قدرتی انتظام و انصرام موجود ہے. یہاں کے مکینوں کی ان جنگلات سے کچھ ضرورتیں بھی جڑی ہیں تو کچھ لوگ ضرورتوں کی آڑ میں ان جنگلات سے ناجائز فائدہ بھی اٹھاتے رہے ہیں. ان ناپسندیدہ لوگوں کو مجموعی طور پر ٹمبرمافیا کے نام سے جانا جاتا ہے. مسلسل بڑھتی ہوئی آبادی بھی براہ راست قدرتی حسن کے خزانوں میں کمی کا سبب بن رہی ہے.

    آبادی کا بڑا حصہ ایندھن کی ضرورت جنگل کی لکڑی سے پورا کرتا ہے، بطور ایندھن جو درخت عام استعمال کیا جاتا ہے وہ چیڑ کا ہوتا ہے، اس کی عمر بہت زیادہ ہوتی ہے. تقریبا سو سال سے زیادہ، یہ درخت تقریبا بیس افراد کے گھرانے کے چھ ماہ ایندھن کی ضرورت پورا کرتا ہے، یعنی اگر کوئی چیڑ کا ایک درخت کاٹ لے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس نے اپنی چھ ماہ کی ضرورت پورا کرنے کے لیے زمین اور قدرت کی ایک سو بیس سالہ محنت کو استعمال کیا اور اس جگہ جہاں یہ درخت اگا تھا کو آنے والے ایک سو بیس سال کے لیے اس قسم درخت سے محروم کردیا. ان علاقوں کا حسن ہی ان درختوں کی وجہ سے قائم ہے.

    عوامی نیشنل پارٹی کی حکومت میں جتنا نقصان ان علاقوں جنگلات کو پہنچایا اس کی مثال نہیں ملتی، ان نقصانات کا پیسوں میں تخمینہ لگانا ممکن تو نہیں البتہ اگر ہم سالوں میں تخمینہ لگائیں تو انے والے ایک سو بیس سال تک یہ علاقے ان نقصانات کا ازالہ کرتے رہیں گے. گزشتہ حکومت نے نہ صرف ٹمبر مافیا کو کھلی چوٹ دے رکھی تھی بلکہ خود حکومت میں ٹمبر مافیا سرگرم تھا. عوامی نیشنل پارٹی کے رکن قومی اسمبلی استقبال خان کو افغانستان غیرقانونی لکڑی سمگل کرتے ہوئے پکڑا بھی گیا تھا.

    تحریک انصاف کی حکومت نے ان علاقوں کے قدرتی حسن کو برقرار رکھنے اور سیر و سیاحت کے شعبے کو فروغ دے کر صوبے کی آمدنی بڑھانے کے لیے سب سے زیادہ بہتر اور موثر اقدامات اٹھائے ہیں، جس میں پہلا قدم ٹمبر مافیا کا تقریبا خاتمہ ہے. صوبے میں لکڑی کے غیر قانونی کاروبار سے وابستہ اکثر لوگ اب حکومت کی سخت پالیسیوں کی وجہ سے یا تو بھاری جرمانے ادا کرکے توبہ تائب ہوگئے ہیں یا دوسرے کاروبار کی طرف منتقل ہوچکے ہیں. دوسرا قدم بلین ٹری سونامی پراجیکٹ کا ہے جسے جتنا زیادہ سراہا جائے اتنا کم رہے گا. گزشتہ دور میں جنگلات کو جتنی بے دردی کے ساتھ تباہ کیا گیا تھا اس تباہی کا ازالہ کرنے کےلیے ایسے ہی ایک بڑے انقلابی پراجیکٹ کی ضرورت تھی. اگر ہم قدرتی انداز میں جنگلات کی کمی پورا کرنے کا راستہ اختیار کرتے تو کئی دہائیوں تک انتظار کرنا پڑتا. بلین ٹری سونامی پراجیکٹ عمران خان کی ذاتی دلچسپی پر شروع کیا گیا ہے اور الحمدللہ کامیابی سے اپنی تکمیل کی طرف گامزن ہے. پاکستان کی تاریخ میں اب تک چونسٹھ کروڑ درخت لگائے گئے ہیں جبکہ اب پختونخوا حکومت نے اپنی پانچ سالہ مدت میں ایک ارب تیس کروڑ درخت لگانے کا پراجیکٹ شروع کر چکی ہے یعنی ستر سال کے دوران پورے پاکستان میں جتنے درخت لگائے گئے تھے ان سے دوگنا زیادہ اور وقت صرف چار سال. مجھے بذات خود خیبرپختونخوا حکومت اور عمران خان کے ہر منصوبے اور پراجیکٹ سے بلین ٹری سونامی پراجیکٹ زیادہ عزیز اور منفعت بخش لگ رہا ہے.

  • فاٹا پر مغربی ریڈیو چینلز کی یلغار اور گریٹر پختونستان منصوبہ – بادشاہ خان

    فاٹا پر مغربی ریڈیو چینلز کی یلغار اور گریٹر پختونستان منصوبہ – بادشاہ خان

    بادشاہ خان فاٹا میں ریاستی رٹ کی بحالی تقریبا مکمل ہونے کو ہے، مگر اس دوران غیر ملکی ریڈیو چینلز اور بیرونی امداد پر چلنے والی این جی اوز کو یہاں پروپیگنڈہ کرنے میں آزادی حاصل رہی، یہ غیر سرکاری تنظیمیں بیرونی ایجنڈے کے فروغ کے لیے سرگرم رہیں، کسی کو کینیڈا سے ڈیل کیا جاتا رہا تو کوئی جرمنی سے، یورپی اداروں نے اس دوران جاسوسی بھی کی جس کی ایک رپورٹ خود برطانوی نشریاتی ادارے نے چند روز قبل جاری کی ہے. محرومی کا شکار قبائلی جوان براہ راست ٹارگٹ تھے اور ہیں، مصنوعی چکاچوند اور چمک کے ذریعے ان کی برین واشنگ کی جاتی رہی ہے اور اب بھی جاری ہے. فاٹا کے اکثر علاقے الیکٹرونک میڈیا کی سہولت سے محروم ہیں، آج بھی اخبارات اور ریڈیو معلومات اور خبروں کا بنیادی ذریعہ ہیں. ان علاقوں میں ریڈیو کی اہمیت آج بھی ہے، اسی وجہ سے مغربی میڈیا اور بیرونی ممالک کے ریڈیو چینلز نے فاٹا میں اس پر فوکس کیا ہوا ہے. انتہائی فعال ان چینلز کی نشریات پورے دن جاری رہتی ہیں۔ ان پروگرامات میں اکثر کا ٹارگٹ آڈینس قبائلی نوجوان ہیں، غیر محسوس طریقے سے بےحیائی اور فحاشی کو فروغ دیا جارہا ہے. جیسے ہی فجر کی نماز کا وقت ختم ہوتا ہے، یہ ریڈیو جاگ اٹھتے ہیں اور گانے بجانے اور گفتگو کے نام پر قبائلی معاشرے میں رائج جوائنٹ فیملی سٹسم پر ضرب لگانے میں مصروف ہوجاتے ہیں۔

    سال میں دو تین بار اپنے آبائی علاقے کرم ایجنسی جانا ہوتا ہے ، اس بار بھی جانا ہوا. یہاں بیرونی دنیا سے رابطے کا ذریعہ یہی غیر ملکی ریڈیو چینلز ہیں، ہمیں بھی ریڈیو کے چینلز کے ذریعے خبریں سننا پڑیں. ایک ہفتے کے دوران یہ محسوس کیا کہ ایک منظم سازش کے تحت قبائل میں پروپیگنڈے اور ایجنڈے کو فروغ دیا جا رہا ہے. ہر چینل کی کوشش ہے کہ نوجوانوں کو بیکار اور لغویات کی جانب لایا جائے اور مزید احساس کمتری میں مبتلا کیا جائے، محرومیوں کو ہوا دی جائے. کیا پیمرا اس سنگین سازش سے بےخبر ہے؟ ان کی نشریات پر کوئی چیک اینڈ بیلنس کیوں نہیں ہے؟ پاکستانی ریڈیو چینلز بھی ان سے متاثر ہیں اور قبائلی نوجوانوں میں آگاہی وشعور کے بجائے بیرونی چینلز کی پیروی کرتے ہوئے ٖفضول پروگرامات نشر کرنے میں مصروف ہیں. ریڈیو فاٹا میں اہم تبدیلی لاسکتا ہے اور اس کے ذریعے تعلیم اور رواداری کو عام کیا جاسکتا ہے. کئی نوجوان ہر وقت ریڈیو لیے نظر آئے، پوچھنے پر بتایا کہ اب عادت بن گئی ہے. ایک اور عجیب بات سامنے آئی، جمعہ کے دن ایک بجے سے دو بجے تک خصوصی فرمائشی پروگرامات ان چینلز سے نشر کیے جاتے ہیں، نوجوانوں کے پسندیدہ گانے نشر کیے جاتے ہیں، نوجوان اپنا نام ریڈیو پر سننے کے لیے انتظار کرتے ہیں، اس طرح ہزاروں نوجوانوں کی جمعہ کی نماز رہ جاتی ہے.

    اس ایک اور اہم بات یہ ہے کہ چند برس پہلے قبائلی علاقوں میں سولر توانائی سے چلنے والے لاکھوں ریڈیو سیٹ تقسیم کیے گئے، وہ بھی بالکل مفت، تاکہ شمسی توانائی والے یہ سیٹ آسانی سے ان کے ایجنڈے کے فروغ میں معاون ثابت ہوں. اس کے بعد آگاہی و امداد کے نام پر غیر سرکاری تنظیمیں سرگرم کی گئیں جن کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے. ان کی آڑ میں کئی غیر ملکی ادارے پختونستان کی تحریک کو فعال کرنے کے لیے سرگرم ہیں، نوجوان خصوصی نشانے پر ہیں، ورکشاپس، سیمینارز، بڑی تنخواہیں، اعلی سرکاری عہدیداروں سے ملاقاتیں. آزادی رائے کے نام پر انھیں گمراہ کیا جارہا ہے، نا پختہ ذہن کے نوجوان بیرونی ایجنڈے کو سمجھنے سے قاصر ہیں. انڈیا سمیت کئی ممالک اس سازش میں ملوث ہیں. اس وقت افغانستان کے صوبہ جلال آباد میں گریٹر پشتونستان منصوبے پر نہایت ہی سرگرمی کے ساتھ کام ہورہا ہے. فاٹا و خیبر پختونخوا سے تقریباً 2500 پڑھے لکھے بیروزگار پختون نوجوان جلال آباد میں مقیم ہیں، جبکہ کئی پڑے لکھے نوجوان کابل میں میڈیا سے منسلک ہوچکے ہیں اور ان کے اندر پاکستان کے خلاف اتنا زہر بھرا جارہا ہے جس کا تصور نہیں کیا جا سکتا. اس منصوبے کے مرکزی کرداروں میں ایک بڑی لسانی جماعت کے چند رہنما اور کچھ دوسرے رہنما اور این جی اوز کے کارندے شامل ہیں. خاموشی سے اس سازش پر زور و شور سے کام ہو رہا ہے، را فنڈز مہیا کر رہی ہے جبکہ افرادی قوت افغان انٹیلیجنس این ڈی ایس فراہم کرتی ہے۔

    سوال یہ ہے کہ ریاستی ادارے اس سنگین سازش کو کیوں محسوس نہیں کر رہے؟ مغربی ریڈیو چینلز کے ذریعے کیا جانے والا پروپیگنڈہ ملکی سالمیت کے لیے انتہائی خطرناک ہے. را اور این ڈی ایس کی سازشوں کے سدباب کے لیے چیک اینڈ بیلنس مزید ضروری ہوگیا ہے. یہ قبائلی نوجوان ملک کی ترقی کے لیے قیمتی سرمایہ بن سکتے ہیں، ان کو بیرونی عناصر کے ہاتھوں استعمال ہونے سے بچانے کا فرض ریاست کا ہے. قبائل کو ان کی دہلیز پر سہولیات فراہم کی جائیں، ریاستی توجہ کی فوری ضرورت ہے. قبائل آج بھی پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگاتے ہیں، دوسری طرف برہمداغ بگٹی کا تازہ ویڈیو بیان آپ کے سامنے ہے جس میں اس نے مودی کے بیان کو بلوچ عوام کے لیے اچھا قرار دیا ہے. کہیں ایسا نہ ہو کہ فاٹا میں بھی دشمن کی سازش کامیاب ہو، دشمن ہمارے لیے گڑھے کھود رہا ہے، بچنا ہم نے خود ہے، وقت کم ہے اور دشمن چاروں طرف پھیل چکا ہے، فوری طور پر غور کرنے اور لائحہ بنانے کی ضرورت ہے۔

  • سیکورٹی اداروں کو قربانیوں کا کریڈٹ دیں – محمد نورالہدیٰ

    سیکورٹی اداروں کو قربانیوں کا کریڈٹ دیں – محمد نورالہدیٰ

    Logo آرمی چیف نے بالکل درست کہا کہ غیرمناسب بیانات اور تجزیے قومی کاز کو نقصان پہنچارہے ہیں۔ اس کا ثبوت اچکزئی صاحب کا وہ بیان ہے جو انہوں نے سانحہ کوئٹہ کے بعد قومی اسمبلی میں دیا۔ اچکزئی نے سیکورٹی ایجنسیوں، حساس اداروں اور افواج پاکستان کی قربانیوں کا ایک لحاظ سے مذاق اڑایا اور ان کے لواحقین کے جذبات کو ٹھیس پہنچائی۔ ملک بھر میں کومبنگ آپریشن کا آغاز اور نیشنل ایکشن پلان پر تیزی سے عملدرآمد کا عہد دہرانا اچکزئی اینڈ کمپنی کے مذکورہ بیانات کا جواب ہے۔

    بدقسمتی سے ہم اس دور میں جی رہے ہیں کہ نہ تو مرنے والے کو معلوم ہے کہ وہ کیوں قتل ہورہا ہے اور نہ ہی مارنے والا جانتا ہے کہ وہ یہ ’’ذمہ داری‘‘ کیوں ادا کر رہا ہے. اس تناظر میں وفاقی و صوبائی حکومتوں اور سکیورٹی اداروں کی کاوشوں کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا جو اپنے تئیں وہ امن و امان کے لیے کر رہے ہیں، تاہم کئی کام ابھی باقی ہیں جن کا اظہار آرمی چیف اور وزیراعظم کی طرف سے اعلیٰ سطحی اجلاسوں میں کیا گیا ہے۔ صوبائی حکومتیں دہشت گردی سے نمٹنے کےلیے محدود وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے سیکورٹی ایجنسیوں کے ساتھ مل کر اپنی سطح پر بہتر کام کر رہی ہیں لیکن افسوس کہ سیکورٹی اداروں بالخصوص پولیس کو تنقید کا نشانہ تو بنایا جاتا ہے مگر ان کی قربانیوں کا اعتراف نہیں کیا جاتا۔ پولیس اہلکار اپنی جانوں پر کھیل کر امن و سلامتی کے لیے دہشت گردوں اور انتہاپسندوں سے لڑ رہے ہیں، اپنی زندگیاں دائو پر لگا رہے ہیں لیکن کریڈٹ دینے کے بجائے ایسے ہر واقعہ کو ان کی ناکامی اور نااہلی گردانا جاتا ہے۔ اس کے باوجود یہ لوگ اپنی ذمہ داریاں ادا کرتے جارہے ہیں، اور مقام پاکر سرخرو ہورہے ہیں۔

    نیشنل ایکشن پلان نامی اینٹی وائرس کو استعمال کرتے ہوئے فاٹا، خیبرپختونخوا، بلوچستان، کراچی، اندرون سندھ اور پنجاب میں پاک فوج، خفیہ اداروں اور سویلین اداروں نے جان ہتھیلی پر رکھ کر بےشمار کامیابیاں سمیٹی ہیں، البتہ موقع ملنے پر دہشت گرد اپنا آپ ظاہر کرتے ہیں تو اسے ہم کسی کی ناکامی نہیں کہہ سکتے۔ درحقیقت یہ دہشت گردوں کی باقیات ہیں جو آپریشن ضرب عضب کے نتیجے میں بھاگتے بھاگتے وار کررہی ہیں. نیشنل ایکشن پلان نافذ العمل ہونے کے بعد پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں مجموعی طور پر 86 فیصد کمی واقع ہوئی ہے جبکہ صوبہ جاتی سطح پر پنجاب میں ایسی کارروائیاں تقریباً 30 فیصد کم ہوئی ہیں تاہم صوبہ سندھ ، خیبرپختونخواہ اور بلوچستان میں یہ شرح مزید بہتری کی متقاضی ہے ۔

    سکیورٹی اداروں کی کاوشوں کی نفی کرنے کی کوششیں بالخصوص کراچی میں دکھائی دیتی ہیں جہاں ہر چند ماہ بعد رینجرز کے قیام اور اختیارات میں توسیع کا معاملہ سر اٹھاتا ہے اور اسے ایک مذاق بنا دیا گیا ہے، حالانکہ رینجرز کے اقدامات کراچی کے شہریوں کے لیے باعث نجات ثابت ہوئے ہیں۔ گزشتہ عرصے میں بیشتر کالعدم تنظیموں کا تعلق پنجاب سے جوڑا جاتا رہا ہے، اس بلیم گیم کے خاتمے کے لیے پنجاب حکومت نے سیکورٹی ایجنسیوں کو فری ہینڈ دیا۔ پنجاب میں کائونٹر ٹیرارزم ڈیپارٹمنٹ اور سیکیورٹی ایجنسیوں نے مل کر دہشت گردوں کے نیٹ ورک کے خاتمے اور کالعدم تنظیموں کو شکنجے میں کسنے کے لیے اہم کردار ادا کیا ہے، گذشتہ چند ماہ میں 162 اہم اور مطلوب دہشت گردوں کو واصل جہنم کیا گیا ہے. دسمبر 2014ء سے اگست 2016ء تک فوج، رینجرز اور پولیس نے 20 ہزار 379 مشترکہ آپریشنز کیے جن میں 109 انتہائی خطرناک دہشت گرد گرفتار ہوئے اور ساڑھے سات لاکھ افراد سے تحقیقات کی گئیں۔ اس کے نتیجے میں وہاں انسانیت سوز کارروائیوں میں کمی آئی۔ خیبرپختونخوا نے مدارس کی رجسٹریشن و ٹیگنگ، طلبہ کو امن و امان کا داعی بنانے اور اذہان کی مثبت نشونما کےلیے نصاب میں تبدیلی و مانیٹرنگ، مسلکی اختلافات کے خاتمے کےلیے لائوڈ سپیکر ایکٹ سمیت بیشتر اقدامات کیے. نیشنل ایکشن پلان کی بدولت ملک بھر میں پھیلی جعلی این جی اوز بے نقاب ہوئیں اور انہیں فنڈنگ کرنے والوں کا پیچھا کرتے ہوئے کئی سہولت کاروں کا ناطقہ بند کیا گیا۔ سندھ میں 2013ء کے بعد سے اب تک مجموعی طور پر 7950 آپریشن ہوچکے ہیں. دہشتگردی 80 فیصد، ٹارگٹ کلنگ 75 فیصد، بھتہ خوری 85 فیصد اور اغوا کی وارداتیں 83 فیصد کم ہوئی ہیں اور ایم کیو ایم کے خلاف 1313، پیپلز امن کمیٹی کے خلاف 1035 آپریشن ہوئے جس کی وجہ سے گذشتہ ایک سال میں 1236 دہشت گرد، 848 ٹارگٹ کلرز، 403 بھتہ خور اور 143 اغوا کار گرفتار ہوئے ہیں. افسوس کہ ان کے اقدامات کی تائید و حوصلہ افزائی کے بجائے تنقید کی جاتی ہے۔ بلوچستان کا 90 فیصد حصہ ایف سی اور لیویز کی ذمہ داری میں آتا ہے لیکن بقیہ 10 فیصد علاقہ سول انتظامیہ کے زیراثر ہے۔ بلوچستان میں درجنوں کالعدم تنظیموں اور فرقہ ورانہ گروہوں کے مضبوط نیٹ ورک ہیں، لسانی دہشت گرد بھی ہیں اور خود ایک دوسرے کے بھی دشمن ہیں. اگر بلوچستان حکومت نے انہیں سنجیدہ لیا ہوتا اور انہیں کنٹرول کرنے کے موثر اقدامات کیے ہوتے تو شاید صوبہ وکلاء کی کریم سے محروم نہ ہوتا۔

    ایک مخصوص مائنڈ سیٹ ملک میں اس سوچ کو پھیلا رہا ہے کہ پاکستان میں ہونے والے بیشتر اقدامات میں زیادہ تر کردار فوج کا ہے اور حکومت کہیں دکھائی نہیں دیتی جبکہ اصل حقیقت یہ ہے کہ ایسا کہنے والے لوگ مخصوص خواہشات کی تکمیل چاہتے ہیں۔ یہ باتیں ملک میں انارکی پھیلانے اور انتشار کا سبب بنتی ہیں۔ فوج جو کچھ بھی کر رہی ہے، حکومت اس سے لاعلم نہیں ہے۔ سول ملٹری تعلقات لازم و ملزوم ہیں اور جنرل راحیل شریف نے بیشتر مواقع حاصل ہونے کے باوجود اگر ڈکٹیٹرشپ پر جمہوریت کو ترجیح دی تو ظاہر ہے کہ وہ جانتے ہیں کہ ایسی کشمکش سے براہ راست عوام اور ملک کا نقصان ہوگا، لہذا تمام اداروں کو مضبوط، مستحکم اور ترقی یافتہ و خوشحال پاکستان بنانے کا مقصد پورا کرنے کےلیے حکومت کا ساتھ دینا ہے۔ ملک میں پائی جانے والی بے چینی اور انتشار کا خاتمہ تب ہی ہوگا جب ملک کے تمام ادارے مل کر عوام کی خدمت کریں اور درپیش چیلنجز سے نمٹنے کے لیے ایک دوسرے کا ساتھ دیں گے۔ قومی اداروں کو زنجیر کی کڑیوں کی طرح مضبوط ہونا چاہیے، باہمی اختلافات اور رسہ کشی سے ادارے کمزور ہوتے ہیں تو عوام کے اعتماد کو بھی ٹھیس پہنچتی ہے۔ اداروں کے باہمی تعاون سے ہی قومیں ترقی کی راہ پر گامزن ہوتی ہیں، جبکہ ان پر اعتماد کی کمی سے انتشار اور افراتفری کا شکار ہوجاتی ہیں، لہذا آرمی اور حکومت کو الگ الگ پیج پر تصور کرنے کے بجائے یہ جان لینا چاہیے کہ یہ ایک ہی پلیٹ فار م ہے۔ محض کسی فرد کی ذاتی انا کی تسکین کے لیے اس پلیٹ فارم کو من پسند انداز میں ڈھالنا درست نہیں ہے۔

    ضرورت اس امر کی ہے کہ نیشنل ایکشن پلان کے تمام نکات کو مدنظر رکھا جائے کیونکہ ہم ابھی تک نہ تو افغان مہاجرین کی واپسی اور رجسٹریشن کا عمل مکمل کر پائے ہیں اور نہ ہی کرمنل جسٹس سسٹم اور مدارس کی اصلاحات کا کام پورا ہوسکا ہے. نیکٹا کو متحرک کرنے، علیحدگی پسندوں کو قومی دھارے میں لانے، طلبہ میں شدت پسندانہ جذبات کے خاتمے کے لیے تعلیمی اداروں میں اساتذہ کی نفسیاتی تربیت، ہمسایہ ممالک کے بارڈر کے پاس بسنے والی کالعدم تنظیموں کے سہولت کاروں کو گرفت میں لانے، بارڈر مینجمنٹ کو مضبوط کرنے جیسے ہنگامی اقدامات کی فوری ضرورت ہے. صوبوں کی پولیس کو بھی اس قابل بنایا جائے کہ وہ دہشت گردوں اور سہولت کاروں سے نبٹنے کے لیے فوج یا رینجرز کے سہارے کی محتاج نہ ہوں بلکہ خود بھی ان کے خلاف آپریشن کرسکیں. اگرچہ صوبوں میں آئی بی، کائونٹر ٹیرارزم فورسز، ڈولفن، ایپکس کمیٹیاں، خصوصی و فوجی عدالتیں اور دیگر متعلقہ ادارے اپنا کام کر رہے ہیں، لیکن ان کے اقدامات میں بہتری اور وسعت کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ انسداد دہشت گردی کی الگ وزارت بنائی جائے جو خودمختار اور تیز تر فیصلہ سازی کر سکے۔ اس کی ذمہ داریوں میں صرف قانون بنانا اور اسے نافذ کرنا شامل نہ ہو بلکہ اس کی مانیٹرنگ کے ساتھ سماجی سطح پر بھی ایسا ماحول بنانا بھی ہو جس سے مستفید ہوکر لوگ اپنے اردگرد موجود دشمنوں کو پہچان سکیں اور ان کی خفیہ اطلاعات متعلقہ اداروں تک پہنچانے میں معاونت کرسکیں۔

  • بلوچستان، میرا بھی تو ہے – آصف محمود

    بلوچستان، میرا بھی تو ہے – آصف محمود

    آصف محمود مودی ایسے ہی نہیں بولا۔ اس کے لہجے میں ہلاکت خیزیاں موجود ہیں۔ ہمیں ان کا ادراک کرنا ہو گا۔ ہمارا سب سے بڑا صوبہ اس حال میں ہے برف کا باٹ جیسے کوئی دھوپ میں رکھ دے۔

    کاش بات صرف انہی لوگوں کی ہوتی جو بندوق اٹھا کر پہاڑوں پر چلے گئے۔ لیکن ایسا نہیں ہے۔ دکھوں اور محرومیوں کا احساس اب کے بہت گہرا ہے۔ سارا صوبہ ہی نامعتبر موسموں پر شکوہ کناں ہے۔ پہاڑوں پر کتنے لوگ ہوں گے؟ چند سو؟ یا چند ہزار؟ فرض کریں یہ لوگ پہاڑوں سے اتر آتے ہیں یا ہم تصور کر لیتے ہیں کہ یہ پہاڑوں پر کبھی گئے ہی نہیں تھے۔ سوال یہ ہے کہ کیا اس صورت میں بلوچستان میں راوی چین لکھنا شروع کر دے گا، اور وہاں دودھ کی نہریں بہنا شروع ہو جائیں گی؟ اس سوال کا جواب ظاہر ہے کہ نفی میں ہے۔ بلوچستان کا مسئلہ محض پہاڑوں پر گئے لوگ نہیں، اس مسئلے کی جڑیں سماج میں ہیں۔ یہ الگ بات کہ ہمارے نصیب میں ایسے لاتوں کے بھوت لکھ دیے گئے ہیں، جنہیں مہذب مکالمے سے شغف ہی نہیں ہے۔ جب تک کوئی سڑک پرنہ آئے یا بندوق نہ اٹھائے ان کی موٹی کھال پر اثر ہی نہیں ہوتا۔

    ہمیں اپنی نفسیاتی گرہوں کو کھولنا ہوگا۔ کیا وجہ ہے کہ کل شیخ مجیب کو اسلام آباد کی سڑکوں سے پٹ سن کی بو آتی تھی اورآج ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ پوچھتے ہیں کہ تم نے مری تک تو گیس پہنچا دی مگر 80 فیصد بلوچستان آج بھی اس سے محروم ہے؟ آج بھی آپ بلوچستان چلے جائیں، آپ کو یقین نہیں آئے گا کہ آپ اس عہد جدید کی کسی بستی میں کھڑے ہیں۔ وسائل کی تقسیم کا یہ حال ہے کہ گذشتہ دور میں مجھے سابق گورنر جنرل عبدالقادر بتا رہے تھے کہ ان کا حلقہ تین ہزار کلومیٹر رقبے پر پھیلا ہوا ہے جس کا ترقیاتی فنڈ انہیں مبلغ ایک کروڑ ملا ہے۔ یاد رہے کہ یہ ایک حلقہ پورے خیبر پختونخواہ سے بڑا ہے۔ حالت یہ ہے کہ راولپنڈی کے نالہ لئی کا بجٹ بلوچستان کے کل بجٹ سے زیادہ تھا۔ایک دو اضلاع کو چھوڑ کر باقی کا حال یہ ہے کہ کوئی گائناکالوجسٹ نہیں ملتی۔ ذرائع آمدورفت کی سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ پورے بلوچستان میں اتنی یونیورسٹیاں نہیں جتنی صرف راولپنڈی کی مری روڈ پر ہیں۔ ہم نے عملا بلوچستان کو کب کا خود سے کاٹ کر پھینکا ہوا تھا۔ فرق صرف اتنا پڑا ہے کہ اب یہ سوتیلا پن بلوچوں کی رگوں میں زہر کی طرح اتر چکا ہے۔

    سانحہ مشرقی پاکستان سے دو ماہ قبل کچھ صحافیوں کو ڈھاکہ لے جایا گیا۔ واپسی پر ایک نے لکھا’’محبت کا زمزم بہہ رہا ہے‘‘۔ نومبر میں یہ سٹوری شائع ہوئی اور دسمبر میں ملک ٹوٹ گیا۔ آج بھی کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ بلوچستان میں محبت کا زمزم بہہ رہا ہے اور مسئلہ تو بس ان چند لوگوں کا ہے جو بندوق اٹھا کر پہاڑوں پر چلے گئے ہیں۔ ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ کا کہنا تھا کہ آج وقت ہے، معاملہ سنبھالا جا سکتا ہے۔ معاملات تعلیمی اداروں میں نئی نسل کے ہاتھ میں جا رہے ہیں۔ یہ مکمل طور پر نئی نسل کے ہاتھ میں چلے گئے تو ہم بھی بےبس ہو جائیں گے۔ اس سے مجھے حسین شہید سہروردی یاد آگئے۔ ایک روز وہ آرام کر رہے تھے اور شیخ مجیب ان کے پاؤں داب رہے تھے۔ دابتے دابتے کہنے لگے ’’سہروردی صاحب! کیوں نہ ہم مشرقی پاکستان کو الگ ملک بنا لیں‘‘۔ یہ سننا تھا کہ سہروردی صاحب غضبناک ہو گئے اور شیخ مجیب کو اتنی زور سے لات ماری کہ شیخ صاحب نیچے جا گرے۔ بعد میں سہروردی صاحب ہر ایک سے یہی کہتے رہے کہ آج وقت ہے کچھ کر لو ورنہ معاملات نوجوانوں کے ہاتھ میں چلے جائیں گے اور ہم بے بس ہو جائیں گے۔ سہروردی صاحب کی بات مگر کسی نے نہ سنی۔گولی ہی ہر مسئلے کا حل ٹھہری اور جالب چیختا رہ گیا:
    ’’محبت گولیوں سے بو رہے ہو
    وطن کا چہرہ خوں سے دھو رہے ہو
    گماں تم کو کہ رستہ کٹ رہا ہے
    یقیں مجھ کو کہ منزل کھو رہے ہو‘‘

    آج قومی اسمبلی میں بلوچستان کی صرف17 نشستیں ہیں۔ اور ایک نشست این اے 271 (خاران، واشوک، پنجگور) کے ایم این اے کا علاقہ پورے خیبر پختونخوا سے زیادہ ہے۔ اور ترقیاتی بجٹ صرف ایک کروڑ۔ اب ان 17 نشستوں میں سے بمشکل پانچ یا چھ نشستیں اوپن ہیں۔ باقی کچھ ہیوی ہیٹس کی پاکٹ سیٹس ہیں۔ جب پورے صوبے سے قومی اسمبلی کی نشستیں ہی اتنی کم ہوں تو نواز شریف یا آصف زردای کو کیا پڑی ہے وہ کوئٹہ، ژوب اور لورا لائی کے دھکے کھاتے پھریں۔ چنانچہ آج ہمارے سیاست دانوں کے پاس وقت ہی نہیں کہ وہ بلوچستان کے جھنجھٹ میں پڑیں۔ سیاست دان حساب سود و زیاں میں بڑا کائیاں ہوتا ہے۔ اگر یہ نشستیں پچاس ساٹھ ہوتیں تو کیا عجب کہ نواز شریف صاحب اپنے اجلاس مری کے بجائے زیارت میں بلاتے اور محترم پرویز رشید ہمیں بتا رہے ہوتے کہ فیصلہ قائداعظم کی محبت میں کیا گیا ہے کیوں کہ انہوں نے آخری ایام یہاں گزارے تھے۔جب مرکزی قیادت وہاں کا رخ کرتی تو وہاں کا احساس محرومی بھی کم ہوتا اور وہ قومی دھارے میں بھی آ جاتے۔ قومی قیادت اب ایک ڈیڑھ درجن نشستوں والے صوبے میں تو جانے سے رہی۔ صوبہ بھی ایسا جہاں ایک ایک حلقہ ایک ایک صوبے کے برابر ہو۔
    تو کیوں نہ یہ نشستیں بڑھا دی جائیں؟ بلوچستان آخر پرایا نہیں، اپنا ہے۔ آپ کا بھی ہے، میرا بھی ہے۔

  • فاٹا کا صوبہ بننا کیوں ضروری ہے؟ بادشاہ خان

    فاٹا کا صوبہ بننا کیوں ضروری ہے؟ بادشاہ خان

    بادشاہ خان وفاق کے زیرانتظام فاٹا اس وقت کسی صوبے میں شامل نہیں اور ترقی کے سفر میں باقی ملک سے ساٹھ سال پیچھے ہے. وفاق نے فاٹا کے قبائلی علاقوں میں دوہرا نظام قانون نافذ رکھا اور انھیں آزاد حیثیت کے ساتھ ساتھ انگریز کے کالے قانون ایف سی آر کے ذریعے قابو کرنے کی کوشش کی. قبائل میں موجود وفاقی اداروں کے افسران مال بٹورنے میں مصروف رہے جس کی وجہ سے ترقی اور تعلیم کا سفر آگے نہ بڑھ سکا. صحت کے نام پر مختص اربوں روپوں کے بجٹ کو کاغذوں میں خرچ کیا گیا. فاٹا سیکرٹریٹ حکام بالا کو سب اچھا ہے کی رپورٹ پہنچاتے ہیں ،گورنر اور فاٹا سیکرٹری سال میں ایک آدھ بار ہی کسی قبائلی علاقے کے دورے پر جاتے ہیں، پشاور میں بیٹھ کر نظام چلانے کی کوشش کی جاتی ہے. آپریشن ضرب عضب کامیابی سے آخری مرحلے میں ہے تو ایک بار پھر یہ سوالات سامنے آرہے ہیں کہ اب کون حکومتی نظام کو سبنھالے گا؟ ادارے توموجود ہیں مگر عوام کی شمولیت کس طرح ہوگی؟ قبائل کے مسائل کے حل اور ترقی کا کیا بنے گا؟ وہ جو اپنے ہی ملک میں آئی ڈی پیز کہلائے، جنھوں نے پاکستان کے پرامن مستقبل کے لیے اپنا گھربار چھوڑا، فوج کے ساتھ تعاون کیا، لاکھوں کی تعداد میں بےگھر ہوئے، وہ سوال کر رہے ہیں کہ ماضی تو جیسا تھا گزر گیا، حال سب کے سامنے ہے، مگر کیا مستقبل بھی اسی طرح خراب ہوگا؟ اپنے ہی ملک میں بنیادی سہولیات سے محروم رہیں گے؟ اسلام آباد میں بیٹھنے والے کیا اتنے بے حس ہیں کہ ان کو اندازہ نہیں کہ ایف سی آر غلامی کی نشانی ہے؟ کیا ان کو معلوم نہیں کہ پشاور کے پاس فاٹا کے مسائل کا کوئی حل نہیں؟ جو لوگ خیبر پختونخوا کے ساتھ فاٹا کے الحاق کا ڈھول پیٹ رہے ہیں، ان سے کوئی پوچھے کہ پشاور کے حکمرانوں نے قیام پاکستان سے لے کر آج تک کتنا بجٹ فاٹا کے عوام کے لیے مختص کیا ہے؟

    فاٹا میں قائم وفاقی انفراسٹرکچر پر تحقیق کی تو پتہ چلا کہ صحت سے لے کر تعلیم تک، ہر ڈیپارٹمنٹ موجود ہے مگر فعال نہیں ہے. فاٹا ڈیویلپمنٹ اتھارٹی، فاٹا ڈیزاسٹرمینجمنٹ اتھارٹی، فاریسٹ، ایری گیشن، فشریز، لائیو اسٹاک اینڈ ڈیری دیویلپمنٹ، ایگری کلچر، سوشل ویلفیئر، روڈز، اسپورٹس ڈیپارٹمنٹ، مائنرل اینڈ ٹیکنکل ایجوکیشن، فنانس ڈیپارٹمنٹ، لا اینڈ آرڈرسے لے کر ایڈمنسٹریشن اینڈ انفراسٹرکچر تک تمام ادارے اور ان کے ملازمین موجود ہیں جبکہ فوج الگ سے خدمات سرانجام دے رہی ہے، پولیس کی جگہ خاصہ دار اور لیوی کے نام سے فورس ہر قبائلی ایجنسی میں موجود ہے، ایم این اے اور سینٹیرز بھی وفاق میں موجود ہیں، اگر کمی ہے تو صرف صوبائی اسمبلی اور لوکل گورنمنٹ کی جس کا قیام کوئی مشکل نہیں. اس کے باوجود چند لوگ اس پورے نظام کو لپیٹ کر فاٹا کو خیبر پختونخوا میں ضم کرنے کے لیے لابنگ کررہے ہیں، جبکہ فاٹا کو الگ صوبہ بنانے کے لیے آئین میں سب سے زیادہ گنجائش موجود ہے تو پھر قبائل کی آواز کو کیوں نظرانداز کیا جا رہا ہے؟ قبائل آج بھی خود مختاری اور الگ نظام اور الگ پہچان کے ساتھ الگ صوبے کی شکل میں زیادہ اطمینان محسوس کریں گے. گلگت بلتستان صوبہ بن سکتا ہے تو فاٹا کیوں نہیں؟ قبائلی عمائدین نے جرگے کیے، فاٹا کے 6 قبائلی علاقوں اور 7 ایجنسیوں کے عمائدین کے جرگے میں متفقہ طور پر فاٹا اصلاحات بل کو مسترد کرتے ہوئے فاٹا کو گلگت بلتستان کی طرح علیحدہ صوبے کا درجہ دینے کا مطالبہ کیا گیا۔ جرگے میں کہا گیا کہ چند پارلیمینٹیرین قبائلی عوام کی نمائندگی نہیں کرتے۔ خیبر پختونخوا پہلے ہی متاثرہ صوبہ ہے، اگر فاٹا کو بھی اس میں ضم کردیا گیا تو مسائل میں مزید اضافہ ہو جائے گا۔

  • کاروکاری کیسے ختم ہو؟ سید عبدالوہاب شیرازی

    کاروکاری کیسے ختم ہو؟ سید عبدالوہاب شیرازی

    عبدالوباب ہر سال دنیا کے 50 سے زائد ممالک میں ہزاروں عورتوں کو عزیز و اقارب کی جانب سے خاندان کی عزت و آبرو کے تحفظ کے نام پر قتل کیا جاتا ہے۔ قاتلوں کا خیال ہوتا ہے کہ ان کی شناخت خاندان کے نام و شہرت سے جڑی ہے چنانچہ جب بھی خاندان کو بدنامی کا اندیشہ ہوتا ہے، رشتے دار قاتل بن جاتے ہیں۔ وہ قتل ہی کو صورت حال کا واحد حل تصور کرتے ہیں۔ یہ رسم پاکستان، بھارت سمیت عرب ممالک میں بھی پائی جاتی ہے۔ اسی طرح یورپ اور امریکا میں بھی ہر سال ہزاروں عورتوں کو قتل کردیا جاتا ہے۔ صرف امریکا میں ہرسال تین ہزار عورتیں گرل فرینڈ، بوائے فرینڈ کے چکر میں قتل ہوجاتی ہیں۔ پاکستان کے چاروں صوبوں یہ رسم پائی جاتی ہے۔ یہاں کے قبائل کے خیال میں اس طرح کا قتل نہ صرف جائز بلکہ اچھا عمل سمجھا جاتا ہے۔

    سیاہ کاری ،کاروکاری یا غیرت کے نام پر قتل کرنے کا دستور بہت قدیم ہے۔ مذکورہ نام ایک دوسرے کے مترادف ہیں جو مختلف علاقوں میں بولی جانےوالی زبانوں کے مطابق بنائے گئے ہیں۔ بلوچستان میں اسے ”سیاہ کاری“ کہا جاتاہے جس کا معنی بدکاری ،گنہگار ہے۔ سندھ میں اسے ”کاروکاری“ کہا جاتا ہے. کارو کا مطلب سیاہ مرد اور کاری کا مطلب سیاہ عورت ہے۔ پنجاب میں” کالا کالی“ اور خیبرپختون خواہ میں ”طور طورہ“ کے نام سے مشہور ہے۔ کالے رنگ کے مفہوم کی حامل یہ اصطلاحات زناکاری اوراس کے مرتکب ٹھہرائے گئے افراد کے لیے استعمال ہوتی ہیں۔ سیاہ اس شخص کو کہتے ہیں جس پر نکا ح کے بغیر جنسی تعلق رکھنے کا الزام لگایا گیا ہو۔ یا اپنے نکاح والے شوہر کے علاوہ کسی اور سے جنسی تعلق رکھنے والی عورت کو سیاہ یا سیاہ کار کہتے ہیں۔ اور ایسے مجرم کو قتل کرنے کے عمل” کو قتلِ غیرت “ اور انگریزی میں ”Honour Killings“ کہتے ہیں۔ کاروکاری اور قتل غیرت میں معمولی سا فرق بھی ہے۔ وہ یہ کہ کاروکاری میں قبیلے یا خاندان کے بڑے جمع ہو کر ایک جرگے کی صورت میں قتل کا فیصلہ سناتے ہیں اور پھر قتل کیا جاتا ہے جبکہ قتل غیرت میں خاندان کا کوئی فرد از خود غیرت میں آکر بغیر کسی جرگے کے قتل کردیتا ہے۔

    یہاں یہ نکتہ بتانا بھی نہایت ضروری ہے کہ غیرت کے نام پر جب بھی کوئی قتل ہوتا ہے تو الیکٹرانک میڈیا اور اس کے صحافی قتل کے فریق قبائلیوں، ودیڑوں، اور اس رسم کو اپنی ہزاروں سال پرانی تہذیب کہنے والوں کو اپنے پروگرام میں مدعو نہیں کرتے بلکہ اس موقع کو غنیمت سمجھتے ہوئے اسلام کو بدنام کرنے کے لیے فورا کسی ایسے مولوی کو بلا لیا جاتا ہے، جس بیچارے کو شاید کاروکاری کا معنی بھی نہ آتا ہو۔ سوچنے کی بات ہے کہ قتل بلوچستان کے کسی دور دراز علاقے میں قبائلی جرگے کے حکم پر ہوا اور میڈیا کے کرائم رپورٹر تفتیش راولپنڈی کے کسی محلے کے امام مسجد سے کر رہے ہوتے ہیں۔ بات تو تب بنے کہ یہ رپورٹ اور اینکر ذرا بلوچستان کے اس قبیلے میں جا کر ان سے پوچھیں کہ قتل کیوں کیا؟ تمہارے پاس قتل کا کیا جواز ہے؟ پھر پتا چلے کہ اینکر میں کتنا دم خم ہے۔ ساری بھڑاس بیچارے مولوی پر نکال لی جاتی ہے جو ٹی وی پر آنے کے شوق میں پروگرام میں پہنچ جاتا ہے۔

    اس رسم کا غلط استعمال بھی بہت عام ہے۔ لوگ اپنے کسی دشمن کو تنہا پا کر مار دیتے ہیں اور پھر اپنے ہی خاندان کی کسی عورت کو جو بڑھیا یا بچی بھی ہو سکتی ہے، کو مار کر دشمن کی لاش کے نزدیک ڈال دیتے ہیں اور بیان دیتے ہیں کہ انھیں غلط کام کرتے دیکھا گیا تھا اس لیے غیرت میں آ کر ان دونوں کو مار دیا گیا۔ عورتوں کے قتل کے جتنے واقعات ہوتے ہیں، ضروری نہیں کہ ہر قتل، قتلِ غیرت ہی ہو، کبھی خاندانی دشمنی، تقسیم میراث وغیرہ جیسی دیگر وجوہات بھی ہوتی ہیں، لیکن ہمارے ملک میں موجود مغرب کی پروردہ ”این جی اوز“ ہر قتل کو قتل غیرت قرار دینے پر اصرار کرتی ہیں، اور پھر اس سانحہ کو خوب بیچا جاتا اور اس کی آڑ میں مغرب سے فنڈ وصول کیے جاتا ہے۔ پھر ہمارے معاشرے میں جتنے قتل ہوتے ہیں ان کا اگر موازنہ کیا جائے تو مردوں کے قتل کے مقابلے میں عورتوں کا قتل نصف سے بھی کم ہے۔ مرد بھی آئے روز غیرت کے نام پر قتل ہوتے رہتے ہیں لیکن ان کے قتل کو قتل غیرت میں شمار نہیں کیا جاتا، چونکہ مردوں کے قتل پر فنڈ نہیں ملتے اس لیے اسے کوئی اور رُخ دے دیا جاتا ہے۔ مثلا مردوں کی اچھی خاصی تعداد اس لیے قتل ہوتی ہے کہ انھوں نے کسی عورت یا لڑکی کو چھیڑا تھا اور پھر عورت کے رشتہ دار نے غیرت میں آکر اسے قتل کردیا۔ ایسے قتل آئے روز ہوتے رہتے ہیں، خصوصا قبائلی علاقوں میں تو 80 فیصد مرد ہی غیرت کے نام پر قتل ہوتے ہیں لیکن این جی اوز انھیں قتل غیرت نہیں شمار کرتیں۔ ایسے کتنے ہی واقعات رپورٹ ہوچکے ہیں کہ قتل ہونے والا مرد کسی خاندانی یا ذاتی دشمنی میں قتل کیا گیا لیکن اصل بات پر پردہ ڈالنے کے لیے قاتل نے اسی لمحے اپنی بیوہ بہن جو بھائی کے گھر میں رہتی تھی کو قتل کرکے اس کی لاش مقتول مرد کی لاش کے ساتھ پھینک دی۔

    غیرت کے نام پر قتل کے حوالے سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا بہت جامع فرمان احادیث میں موجود ہے: جیسا کہ اسلامی تعلیمات کی رو سے کسی پر زنا کا الزام اس وقت ثابت ہوتا ہے جب تک چار ایسے گواہ جنہوں نے اپنی آنکھوں سے زنا ہوتے دیکھا ہو، گواہی نہ دے دیں، چنانچہ اس اسلامی حکم کے تناظر میں حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے سوال کیا یارسول اللہ اگر ہم اپنی بیوی سے کسی کو زنا کرتے دیکھیں تو کیا ایسے موقع پر ہم گواہ ڈھونڈنے نکل کھڑے ہوں؟ تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم تعجب کرتے ہو سعد کی غیرت پر، مگر میں اس سے زیادہ غیرت مند ہوں اور اللہ تعالیٰ مجھ سے زیادہ غیرت مند ہے۔ یعنی جس اللہ نے یہ قانون بنایا ہے وہ زیادہ غیرت مند ہے لہٰذا اب گواہی کے بغیر کسی پر زنا کو ثابت کردینا اپنے آپ کو اللہ سے زیادہ غیرت مند بنانے کے مترادف ہے۔ غیرت کا مطلب یہ نہیں کہ انسان جذبات آکر انسانی جان ضائع کردے۔

    غیرت کے نام پر قتل کے خاتمے کے لیے چند ضروری اقدامات کرلیے جائیں تو یہ قبیح رسم ختم ہوسکتی ہے۔
    (۱) اولاد کے ولی اپنی اولاد پر ہمیشہ نظر رکھیں کیونکہ قتل تو ایک لمحے میں اچانک ہوجاتا ہے لیکن قتل کا سبب یعنی زنا تو اچانک نہیں ہوتا، اس کے پیچھے طویل دوستیاں آشنائیاں، بے حجابی، مخلوط ماحول ، یہ ساری چیزیں ہوتی ہیں، جب ان چیزوں کا سدباب نہیں کیا جاتا تو پھر نتیجہ قتل کی صورت میں نکلتا ہے۔
    (۲) پاکستان کے قوانین میں بھی کئی سقم پائے جاتے ہیں جو اس قبیح رسم کے ختم ہونے میں رکاوٹ ہیں، مثلا ایسا قتل، قتلِ عمد نہیں سمجھا جاتا بلکہ قتلِ خطا شمار کیا جاتا ہے۔ ایسے قتل کا مقدمہ خاندان ہی کے کسی فرد کی مدعیت میں درج کیا جاتا ہے اور پھر وہی مدعی (مثلا باپ) مقتول (مثلا بیٹی) کا وارث ہونے کے ناطے قاتل (مثلا بیٹے) کو معاف کر دیتا ہے۔ اگر ایسا مقدمہ سرکار کی مدعیت میں درج کیا جائے تو معافی کا سلسلہ ختم ہوسکتا ہے جو اس رسم کے خاتمے کا ذریعہ بنے گا۔
    (۳)کاروکاری کے خلاف شعور اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے قبائلی معاشرے میں آج 2016ء میں بھی عورت کو اپنی ملکیت اور جائیداد سمجھا جاتا ہے چنانچہ اس کے خلاف شعور کا اجاگر کیا جائے۔
    (۴) یہ شعور بھی اجاگر کرنے کی ضرورت ہے کہ قانون کو نافذ کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے، کوئی شخص خود قانون کو نافذ نہیں کرسکتا۔ اس سلسلے میں مذکورہ بالا حدیث ہماری رہنمائی کرتی ہے۔