Tag: تہذیب

  • ثقافت اور مذہبیت – منیر احمد خلیلی

    ثقافت اور مذہبیت – منیر احمد خلیلی

    منیر خلیلی ثقافت کیا ہے؟ ثقافت کسی خطۂ ِ زمین اور کسی شہر اور بستی کے رہنے والے لوگوں کے عادات و اطوار ، مدتوں کے تجربات سے ماخوذ تصورات ، انہی تجربات ہی سے مقبول و مروج ہونے والی سماجی روایات ، وہاں کے رسوم و رواج سب ثقافت کی تعریف میں آتے ہیں۔ اس ثقافت کا رنگ بعض اوقات مذہب پر بھی غالب آ جاتا ہے اور تمام ثقافتی رسوم و روایات کوe baptizکر کے اور ’کلمہ پڑھا ‘ کرمذہبی تقدس فراہم کر دیا جاتا ہے۔ہمارے شہرہوں یا دیہات، ہر جگہ شادی بیاہ اور موت مرگ کی بہت سی ایسی رسمیں رائج ہیں جو خواہ کیسی ہی اوٹ پٹانگ اور بے معنی ہوں اور ان کا مذہب سے دور پار کا بھی کوئی تعلق نہ ہو لیکن ان کو ادا کرتے وقت ’درود‘ (دعا) کا اہتمام کرنا ضروری سمجھا جاتا ہے۔ گائوں اور محلے کے مولوی صاحب کو ان کے ادا کرنے کا کچھ نہ کچھ نقد یا اجناس کی صورت میںصلہ ضرور ملتا ہے اس لیے وہ نہ صرف یہ کہ ان پر کوئی اعتراض نہیں کرتے بلکہ ان رسموں کو ’کلمہ پڑھانے ‘ اور بڑے سوز اور خضوع و خشوع کے ساتھ ’درود ‘ پڑھنے میں جاہل لوگوں سے بڑھ کر کردار ادا کرتے ہیں۔مہندی اور مائیوں اور اس طرح کی دسیوں تقریبات میں واہیات، حیا سوز اور اخلاق باختہ حرکات اور خلافِ شریعت رسوم سے پہلے مولوی صاحب سے ’درود‘ دلوایا جاتا ہے۔

    ہم نے تو یہ بھی دیکھا کہ ایک صاحبِ جائداد آدمی نے اپنے بیٹے کے ختنے کی’ تقریب ‘ اس دھوم دھام سے منائی تھی کہ ساری جائداد اس میں پھونک ڈالی تھی اور شاہانہ انداز میں ’مختون ‘ ہونے والا وہ صاحبزادہ جب بڑا ہواتو بیچارے کے پاس گزر بسر کے لیے بھی زمین اور روپیہ پیسہ نہیں بچا تھا۔ کوڑیوں کا محتاج بن کر اسے وہ گائوں ہی چھوڑنا پڑا تھا۔وہاں سے ساٹھ ستر کلو میٹر دور ایک دوسرے گائوں میں اپنے کچھ عزیزوں کے ہاں جا کر رہنے پر مجبور ہوا اور وہیں بیمار ہو کر مر گیا۔

    شادی بظاہر ایک دنیاوی معاملہ ہے لیکن جیسا کہ حدیث میں ہے کہ یہ انبیاء کی سنت ہے اور ایک لڑکی اور لڑکے کے درمیان رفاقتِ حیات کے بندھن کے جائز اور حلال ہونے کے لیے اسلام نے اس کے لیے چندشرائط مقرر کی ہیں۔ایجاب و قبول نکاح کی بنیادی شرط ہے۔ایجاب و قبول کے معاً بعد مرد کی طرف سے بطورِ فرض مہربصورتِ نقد، زیور یا کسی اور مقبول و معروف صورت میں طے ہونا اور مرد کے اپنی نو منکوحہ کے ساتھ ازدواجی تعلق قائم ہونے سے پہلے اس کی ادائیگی مذہب کی رو سے لازم ہے۔پھر نکاح کوخفیہ نہیں بلکہ علانیہ معاملہ قرار دیا گیا ہے ۔لڑکی اور لڑکے کی طرف سے کم از کم دودو گواہ موجود ہونے ضروری ہیں ۔آخری چیز ولیمہ ہے جس کا اہتمام خود نبی ﷺ نے بھی کیا اور اپنے صحابہ ؓ کو بھی تاکید کی ۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ ثقافت ہر جگہ ان تمام مذہبی تقاضوں پر حاوی ہو جاتی ہے ۔بے شمار فضول رسمیں وجود میں آ گئی ہیں جنہوں نے ازدواجی رشتے کے قیام کو لڑکی اورلڑکے والے خاندانوں کے لیے وبال بنا دیا ہے۔آتش بازی ، ڈھول ڈھمکے اور بینڈ باجے اور فضول اور بے ہودہ رسموں میں بے تحاشا اخراجات نے شادی کی دینی روح کو مار کر رکھ دیا ہے۔رشتہ داروں کی مالی حیثیت ہو یا نہ ہو اور وہ دل سے دینا چاہتے ہوں یا نہ چاہتے ہوں مگر ایسے ایسے ’دان ‘ ایجاد کر لیے گئے ہیںجن کا دینا برادری میں ناک رکھنے کے لیے ضروری ہوتا ہے۔کوئی صدقہ زکوٰۃ دے یا نہ دے مگر یہ ’دان‘ سماجی رسموں کاایسا لازمہ بن گئے ہیں جن سے گریز و فرار ممکن نہیں ہوتا ۔

    بات صرف شادی بیاہ تک محدود نہیں ہے۔ موت مرگ کے موقعوں کے لیے بھی اس طرح کے ’دان‘ نکال لیے گئے ہیں۔مرنے والے کے لیے شریعت جو کچھ ضروری قرار دیتی ہے وہ حسبِ استطاعت کفن ، جنازہ کی نماز اور دفن تک محدود ہے۔مرنے والے کے لواحقین غم و اندوہ میں ڈوبے ہوئے ہوتے ہیں۔انہیں کھانے پکانے کا ہوش نہیں ہوتا اس لیے اقارب اور پڑوسیوں کا اخلاقی فرض قرار دیا گیا ہے کہ وہ کم از کم دو تین روز تک ان کو کھانا فراہم کریں۔ لیکن ثقافتی رسموں نے الٹا مرنے والے کے غم زدہ لواحقین پر یہ بوجھ ڈال دیا ہے کہ وہ تدفین کے بعد ساری برادری کے کھانے کا اہتمام کریں ۔ اقارب اورلواحقین کے غم کے زخم بھلے مہینوں میں بھی نہ بھریں لیکن اسلامی تعلیم یہی ہے سوگ اور تعزیت تین دن ہی منائیں۔مگر ثقافتی روایت کے مطابق مرحوم یا مرحومہ کے اٹھ جانے کے بعد چالیس روز تک مختلف ناموں سے ایسی تقریبیں جاری رہتی ہیں جن کا خُدا کی شریعت میں کوئی ثبوت ہے اور نہ اجازت۔ ’فاتحہ‘ کے لیے آنے والوں کا سلسلہ توکئی کئی مہینوں تک چلتا رہتا ہے۔اسلام کے مزاج میں یہ لچک ہے کہ یہ جہاں پہنچا وہاں کی مقامی تہذیب و ثقافت کو اس نے یکسر ملیا میٹ نہیں کر دیا۔جو چیزیں روحِ شریعت کے منافی نہیں ہوتیں اور سماجی رشتوں کے استحکام میں مدد دیتی ہیں، اسلام ان کو جذب کر کے اپنی تہذیب کا حصہ بنا لیتاہے ۔ لیکن اُمت میں جب جَہل و ضلالت کا غلبہ ہو ا اور دینی شعور دھندلا گیاتو عیدَین ، ولادتِ نبیﷺ اور محرّم کے حوالے سے مقامی ثقافت کی بہت سی سراسر غیر اسلامی روایات پر ’اِسلامی‘ کا لیبل لگا دیا گیا۔

    مغل بادشاہ جہانگیر کی ملکہ نور جہاں کے آباء و اجداد کا تعلق ایران سے تھا۔قدرت نے اسے ظاہری حسن کے علاوہ ذہانت، معاملہ فہمی اور انتظامی صلاحیتوں سے بھی خوب نوازا تھا۔ ان سب سے بڑھ کر وہ اپنے مسلک کے معاملے میں ایک مشنری جذبہ رکھنے والی خاتون تھی۔ جب مغل شہنشاہ کے حرم میں داخل ہوئی تو اسی مشنری جذبے کو بروئے کار لا کر اس نے اپنے مسلک کی تبلیغ کے لیے ایرن سے علماء اور ذاکرین بلانے شروع کیے ۔یہ سلسلہ نور جہاں کی موت کے بعد بھی جاری رہا۔مغلیہ سلطنت مذہب کے لحاظ سے مسلمان اور اپنے مزاج کے اعتبار سے ’سیکولر‘ تھی۔ اورنگزیب کا عہد نکال دیا جائے تواکبر، جہانگیراور شاہجہان بلکہ آخری مغل تاجدار بہادر شاہ ظفر کے عہد تک مذہبیت ’ ثقافت ‘میں دبی رہی۔جب تاج دارانِ اودھ نے شیعہ مسلک اختیار کیا توان میں بھی نور جہاں والا مشنری جذبہ عود کر آیا۔ ایران اور اودھ کے علمی حلقوں میں interaction میں تیزی آ گئی۔عُلماء اور ذاکر مذہبیت سے زیادہ مسلکی رسموں کے اسیر تھے۔ گزشتہ صدی میں ڈاکٹر علی شریعتی نے اپنی تحقیق سے یہ حقیقت دریافت کی تھی کہ شیعہ مسلک نے جو کچھ رائج کر رکھاہے وہ نہ حُب و عقیدتِ اہلِ بیت ہے اور نہ غمِ مظلومینِ کربلا ہے۔سب رسمیں صفوی بادشاہوں کی اختراعات ہیں۔ وہ اختراعات جب اودھ میں پہنچیں توان پر لکھنئو کی مقامی ثقافت کے رسوم و رواج کا رنگ بھی چڑھ گیا۔

    نقادانِ فن اس امر پر متفق ہیں کہ اردوشاعری میںمرثیہ کی صنف نے جو ترقی لکھنئو میں کی بر صغیر کا کوئی اور علاقہ اس کامقابلہ نہیں کر سکتا۔ انیس اور دبیر اور ان کے شاگردوںنے اس صنف کو گویا معراج پر پہنچا دیا تھا۔ انیس اور دبیر کے یا کسی بھی دوسرے لکھنوی شاعر کے مرثیے پڑھیں ان میں اتنی زیادہ ’مقامیت ‘ ہے کہ یوں لگتا ہے سانحۂ ِ کربلا عراق میں نہیں بلکہ اودھ ہی کے کسی میدان میں ہوا تھا۔ مرثیہ نگاروں نے شہدائے کربلا کی زبانوں سے جو کچھ کہلوایا یا ان سے منسوب کیااس کی زبان اور طرزِ اظہار و بیان پر لکھنو کی ’مقامیت‘ کا مکمل رنگ چڑھا ہوانظر آتا ہے۔یہ مرثیے ہمیں لکھنوی تہذیب و ثقافت میں گندھے ہوئے نظر آتے ہیں۔

    مقامی سطح پر وضع کیے گئے ان طور طریقوں نے شہدائے کربلا کے غم کے اظہار میں ’مقامیت ‘ کوٹ کوٹ کر بھر دی ۔ماتم کا وہی انداز سامنے آیا جو لکھنو اور کسی حد تک شمالی ہند میں ہندو اور مسلمان سب میں تھا۔ کربلا میں ابتلا و آزمائش اور غم و اندوہ سے گزرنے والی اہلِ بیت کی عالی قدر مظلوم بیبیوں کے اظہارات کو بھی ’مقامیت‘ کے اسی رنگ میں رنگ دیا گیا۔ مجھے سوشل میڈیا پر ایک شیعہ عالم کی اس بات پر کوئی تعجب نہیں ہوا کہ عاشورا کے ماتم کی روایات کا مذہب کے مقابلے میںمقامی ثقافتوں سے تعلق زیادہ ہے۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ماتم کے طور طریقوں میں جو نئے انداز سامنے آ رہے ہیں ان سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ جس تیزی کے ساتھ اور جس قدر ثقافتی رسوم میں تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیںاور انسانی مزاجوں میں فرقہ وارانہ تعصبات بڑھ رہے ہیں ان کا عکس ماتم کے طریقوں میں بھی جھلکتا دکھائی دیتا ہے۔یہی نہیں بلکہ حالیہ عرصے میں شرقِ اوسط کے اندر مسلکی آویزشوں میں جو شدت پیداہوئی ہے اس کی جھلک بھی شہدائے کربلا کے ماتم میں در آتی جا رہی ہے۔

  • بیکن ہاؤس کی ’’تہذیب دوستی‘‘ – جمیل اصغر جامی

    بیکن ہاؤس کی ’’تہذیب دوستی‘‘ – جمیل اصغر جامی

    جمیل اصغر جامی بیکن ہاؤس سکول سسٹم نے پنجابی میں گفتگو پر پابندی عائد کر دی ہے۔ دلیل یہ ہے کہ پنجابی Foul Speech کے زمرے میں آتی ہے۔ Foul Speech جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ ایک غیر شائستہ اور غیر مہذب رویہ ہے، اور ظاہر ہے کہ بیکن ہاؤس جیسا سسٹم اس غیر شائستگی اور تہذیب دشمنی کو کیسے برادشت کر سکتا ہے؟ اس لیے اس سسٹم کے کرتا دھرتا لوگوں نے فیصلہ کیا ہے کہ پنجابی پر سرے سے پابندی ہی لگا دینی چاہیے۔

    یہ رویہ تاہم کچھ ناقابل فہم ہے۔ واضح رہے کہ اگر یہ پابندی کسی لسانی نکتہ نظر سے لگائی جاتی تو میں کبھی اس کی مخالفت نہ کرتا۔ مثلاً اگر دلیل یہ ہوتی کہ کیونکہ ہم بچوں کو انگریزی زبان میں مہارت پیدا کرنے کے لیے ایک سازگار لسانی ماحول فراہم کرنا چاہتے ہیں، لیکن ایسا نہیں ہے کیونکہ ایسی صورت میں صرف پنجابی نہیں بلکہ انگریزی کےعلاوہ ہر زبان پر پابندی لگتی۔ جو دلیل دی جاری ہے وہ لسانی نہیں بلکہ اقداری اور تہذیبی ہے۔ دوسری طرف یہ وہی بیکن ہاؤس سسٹم ہے جس کی انتظامیہ نے طالبات کو اپنی یونیورسٹی کی دیوار مہربانی پر خواتین کے خون آلود پیڈز آویزاں کرنے کی اجازت دی۔ بیکن ہاؤس کی تہذیب دوستی کی مثالیں اس سے بھی کئی بڑھ کر ہیں جن کا یہاظ ذکر نہیں کیا جاسکتا، اور یہ سب کچھ ’’انتظامی اجازت‘‘ سے ہوتا ہے۔ اسی سسٹم کی تہذیب دوستی کی ایک جھلک یہ بھی دیکھ لیں:

  • حضرت نے فرمایا (1) – سید ثمر احمد

    حضرت نے فرمایا (1) – سید ثمر احمد

    نابغہ عصر محترم احمد جاوید کی پرمغز اور روح پرور نشستوں کے تذکرے کا سلسلہ
    …………………

    سید ثمر احمد اس عاجز کی خوش قسمتی کہ بچپن سے ہی عظیم لوگوں کی شفقت کا سلسلہ بڑے ابا (ناناجان) حکیم سید انصار الحق اور پھر ان کے چھوٹے بھائی نانا ابو حکیم ریاض حسین سے جاری ہوکر بغیر کسی وقفے کے جاری رہا۔ مجھے زندگی میں ’بڑے انسان‘ دیکھنے کا موقع ملا۔ حضرت احمد جاوید وہ بزرگ ہیں جن کی شخصیت کا سب سے زیادہ خوشگوار اثر میرے دل و جان نے قبول کیا۔ باوجود چند گنی چنی ادب کے ساتھ مختلف آرا کے وہ میری زندگی کی سب سے بڑی شخصیت ہیں۔ میری خوش قسمتی کہ ان کے قدموں میں بارہا بیٹھنے کی سعادت نصیب ہوئی۔ قدرت یہ کام بھی لیتی گئی کہ آپ کے مبارک الفاظ نقل کرتا گیا، جو پیشِ خدمت ہیں۔ ان میں دنیا و آخرت، مادہ و روح، تنہائی و اجتماعیت ہر حوالے سے رہنمائی بھی موجود ہے اور تسکین کا سامان بھی۔ کہیں کوئی کجی نادانستگی سے رقم ہوجائے تو سب قصور میرا تصور ہوگا۔ چوں کہ ہر لائن ایک سمندر ہے لہذٰا ہر دفعہ ایک نشست کے تذکرے کی کوشش کی جائے گی۔ جو تبدیل ہونا چاہے تو وہ تبدیلی کے بےپناہ امکانات یہاں بکھرے پائے گا۔ ایک مؤمن کو کیسا ہونا چاہیے، ہمارے اسلاف کیسے ہوتے ہوں گے؟ احمد جاوید کو دیکھ کر معلوم کیا جاسکتا ہے۔ آج کی دنیا پہ قرض ہے کہ وہ اس عبقری سے فائدہ اٹھائے:

    نشست ، جون 18، 2010ء

    ٭ مجاہدہ اس کوشش کو کہتے ہیں کہ اگر کہیں ناکامی ہوجائے تو وہ بھی کامیابی گنی جائے۔
    ٭ مجاہدہ اصل میں عبادات کے اندر اور فروع میں اطاعت کے اندر ہوتا ہے۔
    ٭ حکم بغیر محبت کے سزا کے سوا کچھ نہیں اور عبادت اللہ سے محبت کا ذوق پیدا کرتی ہے۔
    ٭ نماز اچھی نہ ہو تو خطابت بچا نہیں سکتی۔
    ٭ بڑا آدمی وہ ہے کہ یا تو اس کا ذہن بڑا تصور باندھے یا پھر بڑے تاثرات کو قبول کرے۔
    ٭ قوموں کی نفسیاتی اقدار دو ہیں، شرم آجائے یا جوش آجائے۔
    ٭ تہذیبیں خطابت اور نوحہ گری سے نہیں بنتیں۔
    ٭ ہمارا معاشرہ ہماری تنہائی کی تفصیل ہے۔ تنہائی ہمارے بننے بگڑنے کا اصل کارخانہ ہے۔
    ٭ (اچھی) تنہائی آخرت کی شہریت بحال رکھتی ہے۔

  • مہاجر کون ہیں-جاوید چوہدری

    مہاجر کون ہیں-جاوید چوہدری

    566527-JavedChaudhryNew-1469464911-239-640x480

    ابوالحسن نغمی ہندوستان کے شہر سیتا پور میں پیدا ہوئے‘ سیتا پور لکھنؤ ڈویژن کا خوبصورت شہر ہے‘ نغمی صاحب کے جد امجد سید سلطان شاہ اکبر اعظم کے دور میں بہار میں آباد ہوئے‘ جہانگیر کے زمانے میں انتقال فرمایا اور پٹنہ کے قریب مدفون ہوئے۔ نغمی صاحب 19 سال کی عمر میں مہاجر ہو کر لاہور آ گئے‘ یہ ریڈیو پاکستان میں ہونہار کے نام سے بچوں کا پروگرام کرتے تھے اور روزنامہ امروز میں حالات حاضرہ پر قطعہ لکھتے تھے‘ ملک کا بچہ بچہ بھائی جان نغمی کا دیوانہ تھا جب کہ جوان اور بوڑھے ان کے قطعات کے متوالے ہوتے تھے لیکن پھر یہ 1972ء میں ایک بار پھر مہاجر ہو گئے‘ یہ اپنے چھ بچوں سمیت امریکا شفٹ ہو گئے‘ وائس آف امریکا میں ملازمت کی اور باقی زندگی واشنگٹن میں گزار دی ۔

    مجھے ابوالحسن نغمی صاحب کی کتابیں پڑھنے کا اتفاق ہوا‘ یہ کمال خوبصورت نثر لکھتے ہیں‘ میں ان کے خوشبو دار لفظوں اور دلفریب فقروں کے سحر میں گرفتار ہوں‘ ابوالحسن نغمی اور ان کی اہلیہ یاسمین نغمی نے لکھنؤ کی تہذیب میں پرورش پائی تھی اور لکھنؤ کی تہذیب کیا تھی؟ یہ سمجھنے کے لیے اتنا جاننا کافی ہے‘ ہندوستان کے نواب اپنے بچوں کو شائستگی‘ تہذیب‘ ادب اور فنون لطیفہ سکھانے کے لیے طوائفوں کے پاس بھجوا دیتے تھے‘ گویا لکھنؤ کی طوائفیں بھی تہذیب اور ادب کی یونیورسٹیاں ہوتی تھیں‘ آپ شرفاء کی شرافت اور شائستگی کا اندازہ خود لگا لیجیے‘ نغمی صاحب نے لکھنوی گھرانوں کی شرم و حیاء اور شرافت کے بے شمار قصے بیان کیے ہیں لیکن ایک واقعے نے مجھے حیران کر دیا‘ نغمی صاحب کا فرمانا تھا‘ لکھنؤ سے چھیالیس میل کے فاصلے پر خیر آباد کا قصبہ تھا‘ خیر آباد کے محلے قضیارہ میں کرمانی سید رہتے تھے۔

    ریاض خیرآبادی اسی محلے کے باسی تھے‘ ان کی بھتیجی وکالت فاطمہ مدن دادی کہلاتی تھیں‘ ریاض خیر آبادی کی صاحبزادی شمع خیر آبادی ایک دن مدن دادی کے پاس بیٹھی تھیں‘ ان کا شیر خوار بیٹا ان کی گود میں کھیل رہا تھا‘ بچے نے توتلی زبان سے کوئی ایسی بات کہہ دی جس سے ماں کو بچے پر پیار آ گیا‘ اس نے بچے کا منہ چوم لیا‘ مدن دادی تڑپ کر بولیں’’ ہا! بدتمیز تو کیسی بے شرم ہے تو نے میرے سامنے اپنے بچے کا منہ چوم لیا‘‘ شمع خیر آبادی شرم سے پانی پانی ہو گئیں‘ بچے کو گود سے اتارا اور دونوں ہاتھوں سے اپنا منہ چھپا لیا‘ لکھنؤ میں شرم و حیاء کے یہ پیمانے تھے‘ لوگ اپنے بیٹے کا منہ چومنا بھی بے حیائی سمجھتے تھے‘ لکھنؤ میں بچے اپنے جوان والد کو ابا نہیں کہتے تھے‘ بھائی جان‘ بھائی صاحب یا بھیا کہتے تھے‘ جوان ماں کو اماں یا امی کہنے کا رواج بھی نہیں تھا‘ ماں جب تک بوڑھی نہیں ہو جاتی تھی وہ باجی‘ آپا یا آپی کہلاتی تھی‘ دولہا شادی کے بعد کئی سال تک اس کمرے‘ دلان حتیٰ کہ اس چھت کے نیچے سے بھی نہیں گزرتا تھا ۔

    جس پر اس کی دلہن بزرگوں کے درمیان گھونگھٹ نکال کر سر جھکا کر بیٹھی ہوتی تھی‘ نغمی صاحب نے اپنی ازدواجی زندگی کے ابتدائی دنوں کے تین حیران کن واقعات تحریر کیے‘ ان کا فرمانا تھا‘ ان کی خواب گاہ چھت پر تھی اور یہ ممکن نہیں تھا ان کی دلہن ساس‘ سسر‘ دیور‘ نندوں اور ملازموں کی موجودگی میں آنگن سے گزرکر بالائی منزل پر آ جائے ‘ بیگم گھر کے تمام لوگوں کے سونے کا انتظار کرتی تھی‘ سسرال کے لوگ جب سو جاتے تھے تو بیگم پہلے پیروں کے زیور اتارتی تھی اور پھر دبے پاؤں چوروں کی طرح آہستہ آہستہ سیڑھیاں چڑھ کر اوپر آ جاتی تھی‘ نغمی صاحب نے لکھا‘ میں لاہور میں ملازمت کرتا تھا‘ اللہ تعالیٰ نے مجھے بیٹی کی نعمت سے نوازا‘ میں چھٹی پر گھر گیا تو بچی چلنا سیکھ چکی تھی۔

    میں بزرگوں کے درمیان بیٹھا تھا‘ میرا بھانجا نیئر بیٹی کو اٹھا کر میرے قریب لایا اور مجھے سرگوشی میں بتایا ’’یہ آپ کی بیٹی تاج ہے‘‘ بچی کو اٹھانا اور پیار کرنا تو دور کی بات تھی مجھے اتنی ہمت نہیں ہوئی میں بزرگوں کی موجودگی میں اپنی بیٹی کی طرف دیکھ بھی سکوں‘ میں نے جب کمرے میں جا کر اپنی بیٹی کو کلیجے سے لگایا تو وہ حیران ہو کر اپنی ماں سے پوچھنے لگی ’’یہ آدمی کون ہے‘‘ نغمی صاحب کا کہنا تھا‘ میں چھ بچوں کا باپ بن گیا لیکن شرم و حیاء کی وجہ سے بچے مجھے ابا نہیں کہتے تھے یہاں تک کہ میرے چھوٹے بھائی اچھے میاں نے ایک دن اعلان کر دیا‘ ہمارے خاندان کے تمام بچے آج سے بھائی جان کو باباجان کہیں گے اور یوں شادی کے دس بارہ سال بعد یہ مسئلہ حل ہوا جب کہ بچے ماں کو اپی کہتے تھے‘ یہ آپی کی بگڑی ہوئی شکل تھی‘ میرے بچے اور میرے بچوں کے بچے آج بھی انھیں اپی کہتے ہیں۔

    یہ ہیں وہ لوگ جو ہندوستان سے ہجرت کر کے پاکستان آئے اور مہاجر کہلائے‘ ہمیں ماننا ہو گا یہ لوگ تعلیم‘ شائستگی‘ تہذیب اور تمدن میں ہم سے بہت آگے تھے‘ یہ کھیرا بھی اتنی شائستگی سے کھاتے تھے کہ کھیرا خود کو کھیرا صاحب سمجھنے لگتا تھا‘یہ کتے کو کتاکہنا زبان کی توہین سمجھتے تھے‘ یہ اونچی آواز میں بات کرنے والوں کو گنوار کہتے تھے‘آپ کے لیے شاید یہ انکشاف ہو اردو میں گھٹیا کا مطلب سور کا بچہ ہوتا ہے‘ یہ لوگ اتنے شائستہ تھے کہ یہ سور کے بچے کو بھی سور کا بچہ نہیں کہتے تھے گھٹیا کہتے تھے۔ ڈاکٹر اجمل میرے دوست ہیں‘ یہ جوانی میں اسلام آباد کے اسسٹنٹ کمشنر تھے‘ یہ ایک بار جناب افتخار عارف کے ساتھ کسی صاحب زبان کے گھر کھانے کے لیے گئے‘ میزبانوں نے کھانے کا پرتکلف اہتمام کر رکھا تھا‘ خاتون خانہ نے کھانے کے دوران مہمانوں سے تکلفاً پوچھ لیا ’’آپ کو مزید کوئی چیز درکارتو نہیں‘‘ ڈاکٹر صاحب سادہ سے پنجابی ہیں‘ یہ پٹاخ سے بولے ’’آپ کے پاس اچار ہو گا‘‘ یہ سن کر میزبانوں کے رنگ سرخ ہو گئے۔

    خاتون نے کچن سے اچار تو لا دیا لیکن وہ کھانے کے دوران ڈسٹرب رہی‘ ڈاکٹر اجمل نے واپسی پر افتخار عارف صاحب سے پوچھا ’’یہ لوگ اچار مانگنے پراتنا برا کیوں منا گئے تھے‘‘ افتخار عارف صاحب نے فرمایا ’’بیٹا ہمارے علاقے میں جب مہمان اچار مانگ لے تو اس کا مطلب ہوتا ہے اسے کھانا پسند نہیں آیا‘‘ میں جب بہاولپور میں پڑھتا تھا تو مجھے میرے دوست رانا شہزاد ایک بار کسی صاحب کے گھر لے گئے‘ یہ صاحب صوبہ بہار کے مہاجر تھے‘ یہ روز دفتر سے آنے کے بعد غسل کرتے تھے‘ سفید استری شدہ پائجامہ اور کرتہ پہنتے تھے‘ خوشبو لگاتے تھے اور اپنی بیٹھک میں بیٹھ جاتے تھے‘ محلے کے کسی شخص نے انھیں کبھی رف حالت میں نہیں دیکھا‘ میں نے ان کے سامنے غلطی سے رانا شہزاد کو اوئے کہہ دیا‘ ان کے چہرے کا رنگ متغیر ہو گیا‘ ماتھے پر پسینہ آگیا اور غصے سے ان کے ہاتھ کانپنے لگے‘ میں ڈر گیا‘ وہ دیر تک خاموش بیٹھے رہے۔

    ذرا سے نارمل ہوئے تو بس اتنا کہا ’’دوستی میں دوستوں کی عزت شرط ہوتی ہے‘‘ میں نے اس کے بعد زندگی میں کبھی کسی دوست کو اوئے نہیں کہا‘ شکیل عادل زادہ صاحب بھی مہاجر ہیں‘ یہ میرے بزرگ‘ مہربان اور استاد ہیں‘ پاکستان میں اس وقت ان سے بڑا اردو دان کوئی نہیں‘ گلزار صاحب جیسا شخص بھی ان کے قدموں میں بیٹھتا ہے‘ میں ان کی شائستگی دیکھ کر اکثر محسوس کرتا ہوں یہ اگر کبھی گالی دیں گے تو گالی کو بھی اپنے اوپر فخر محسوس ہونے لگے گا‘ یہ کراچی میں رہائش پذیر ہیں‘ یہ زندگی بھر ’’سب رنگ‘‘ کے نام سے ملک کا مقبول ترین ڈائجسٹ شایع کرتے رہے‘ میں نے آج تک ان کے منہ سے کوئی ناشائستہ لفظ نہیں سنا‘ غیبت تو دور یہ کسی کے خلاف ایک لفظ تک نہیں بولتے‘ یہ بھی ہجرت کر کے پاکستان تشریف لائے تھے اور انھوں نے پوری زندگی شائستگی کی تعلیم و تربیت میں گزار دی‘ میں دل سے یہ سمجھتا ہوں شکیل عادل زادہ‘ ابوالحسن نغمی اور افتخار عارف جیسے لوگوں نے پاکستان بنانے اور چلانے میں اہم کردار ادا کیا تھا اور یہ لوگ جب تک ہماری سول سروس میں شامل رہے یہ ملک اس وقت تک ترقی کرتا رہا لیکن جب مقامی لوگوں نے ان کی جگہ لی تو ملک تباہ ہو گیا اور ہمارے ادارے ڈھلوان پر لڑھکنے لگے۔

    یہ تہذیب اور شائستگی کے پیکر اگر مہاجر ہیں تو پھر الطاف حسین کون ہے؟ یہ کن لوگوں کا لیڈر ہے؟ یہ کس کمیونٹی کو مہاجرکمیونٹی اور کن مہاجروں کو پاکستان بنانے والوں کی اولاد کہتا ہے؟ اگر شکیل عادل زادہ‘ ابوالحسن نغمی اور افتخار عارف مہاجر ہیں تو پھر الطاف حسین کے ٹنڈے‘ کالے‘ مادھوری‘پگلا‘عرفی‘بھورا‘ملا‘ سلو‘ کاکا‘ٹوپی‘ چھوٹا‘ کانا‘ پپن‘ درندہ ‘ ناک چھپٹا‘ ڈینٹر اورچنا مولوی کون ہیں اور اگر اوئے کا لفظ سن کر اور اچار مانگنے پر سرخ ہو جانے والے لوگ مہاجر ہیں تو پھر مخالفوں کے لیے بوری کا ماپ لینے اور ’’ٹھوک دیں گے‘‘ جیسی دھمکیاں دینے والے لوگ کون ہیں‘ میرا دل تو نہیں مانتا قائداعظم کے شہر میں پاکستان مردہ باد کے نعرے لگانے والے لوگ مہاجر ہو سکتے ہیں۔

    کیا آپ کا دل مانتا ہے؟جواب دیجیے۔

  • وہ قوم کہ فیضان سماوی سے ہو محروم-اوریا مقبول جان

    وہ قوم کہ فیضان سماوی سے ہو محروم-اوریا مقبول جان

    orya

    اقبال کے بارے میں ہمیشہ یہ میرا یقین اور ایمان رہا ہے کہ یہ دنیا کا واحد شاعر اور فلسفی ہے جو انسان کی زندگی کے ہر مرحلے میں رہنمائی کرتا ہے۔ بچپن میں ہوش سنبھالتے ہی آپ کی انگلی تھام لیتا ہے اور ایک ایسی دعا آپ کو سکھاتا ہے جو آیندہ آنے والی زندگی کے لیے رہنما اور ہادی ثابت ہو۔

    لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری
    زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری

    زندگی کے ہر مرحلے، معاشرت و سیاست کے ہر موضوع اور فلسفہ و اقتصاد کے ہر نکتے پر آپ کو اقبال کے افکار سے رہنمائی ضرور ملے گی۔ یہ ہنر اور یہ عظمت دنیا میں کسی شاعر کو نصیب نہیں۔ ہر کوئی اپنے محدود موضوعات اور مخصوص تصورات پر مبنی شاعری کرتا رہا ہے۔ کسی کو محبوبہ کے لب و رخسار اور زلف گرہ گیر سے باہر نکلنے کی فرصت نہیں ملی تو کوئی انقلاب کے گیت گانے یا سرمایہ و محنت کے ترانے لکھتے دنیا سے چلا گیا۔ شیکسپئر جسے دنیا بھر میں سب سے زیادہ متنوع اور وسیع الخیال شخص سمجھا جاتا ہے۔

    اس کے ہاں بھی روم و یونان کی عظمت رفتہ میں چمکتے کرداروں کے سوا کچھ اور نظرنہیں آتا۔ پورا مشرق جو اس دور میں اس کرۂ ارضی پر جگمگا رہا تھا، شیکسپئر کی آنکھوں سے اوجھل رہا۔ یہی کیفیت ان تمام شاعروں اور مفکروں کی ہے جنھیں آج دنیا جدید تہذیب کے درخشندہ ستارے سمجھتے ہوئے علم کے ماخذ اور منبع گردانتی ہے۔ کسی کے ہاں مشرق ہے تو مغرب نہیں تو کوئی سائنسی اخلاقیات کا قائل ہے اور آسمانی ہدایات سے بے بہرہ۔ کوئی صرف فلسفے کی گتھیاں سلجھاتا ہے اور زندگی کی تلخ حقیقتوں سے ناآشنا ہے۔ یہ صرف اقبال ہے جو بندۂ مزدور کے تلخ ایام کی داستان بھی بیان کرتا ہے اور معراج انسانی کے عظیم واقعے سے درس بھی سکھاتا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ صرف اور صرف ایک ہے کہ اقبال کا سارا کا سارا علم قرآن پاک سے مستعار ہے۔ اللہ کا نور ہدایت ہے۔ اس لیے کہ اقبال نے خود یہ دعویٰ کیا ہے۔

    گردلم آئینۂ بے جوہر است
    گر بجز فم غیر قراں مضمراست
    پردۂ ناموسِ فکرم چاک کن
    ایں خیاباں زار خارم پاک کن

    (اگر میرے دل کے آئینے میں کوئی خوبی نہیں ہے۔ اگر اس دل میں قرآن کے علاوہ کوئی ایک لفظ بھی موجود ہے تو اے اللہ میری عزت کا جو پردہ بنا ہے اسے چاک کردے، ان پھولوں جیسی دنیا سے مجھ جیسے کانٹے کو نکال دے)۔ اس لیے کہ خود قرآن پاک کا یہ دعویٰ کہ ’’اور ہم نے تم پر ایسی کتاب نازل کی ہے جس میں ہر چیز کا بیان مفصل ہے‘‘ (النحل 89)۔ قرآن کے اس علم نے اقبال کو رہنمائی عطا فرمائی اور اس نے تہذیب مغرب اور فرنگی مدنیت کا جس طرح پردہ چاک کیا ہے آدمی کو حیرت میں ڈال دیتا ہے۔

    میرے جیسا شخص جسے یورپ میں صرف چند دن میسر آئے ہیں یقینا اس کی آنکھیں اپنے اردگرد کے ماحول کی رنگینیوں اور عیش و آرام کو دیکھ کر خیرہ ہوجاتی ہیں اور آدمی یورپ کی زندگی کو انسانی تہذیب کی معراج سمجھ لیتا ہے۔ لیکن اقبال تو برسوں یہاں رہے اور پھر اس کے سب سے بڑے ناقد بنے۔ سچ بات یہ ہے کہ مغرب کے اس تفصیلی سفر میں اگر اقبال کا کلام میرا ہمسفر اور ہمراہ نہ ہوتا تو میں اس رنگینی کے پیچھے چھپی ہوئی تاریکی بلکہ اتھاہ تاریکی کو نہ سمجھ پاتا۔

    یورپ میں بہت روشنیٔ علم و ہنر ہے
    حق یہ ہے کہ بے چشمۂ حیواں ہے یہ ظلمات

    مادہ پرستی پر استوار اس تہذیب میں علم و ہنر کی روشنی تو نظر آتی ہے لیکن انسانی اخلاقیات اور اجتماعی محبتوں کے اصول سے عاری ہے۔ اس وقت یورپ میں سب سے زیادہ تعداد بوڑھے لوگوں کی ہوتی جا رہی ہے۔ آپ ان بوڑھوں کو عالم تنہائی میں موت کی جانب جاتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ کسی موت کی خبر اس کا پڑوسی میونسپل سروس والوں کو دیتا ہے اور کوئی اولڈ ایج ہوم میں چند نرسوں کے ہاتھوں ریاست کے زیر انتظام جنازے کی رسوم کے بعد قبر میں اتر جاتا ہے۔

    شام ڈھلے شراب خانوں پر افسردہ و پژمردہ نوجوانوں کا ہجوم ہوتا ہے جو اس غم کے بوجھ تلے دبے جا رہے ہوتے ہیں کہ کسی کو اس کا بوائے فرینڈ چھوڑ گیا تو کسی کو اس کی گرل فرینڈ۔ انھی میزوں پر نئے ساتھی کی تلاش ہوتی ہے جسے ہو سکتا ہے اگلے چند ماہ ہی ساتھ چلنا ہو۔ آیندہ آنے والی نسلوں سے یہ لوگ اس قدر مایوس ہیں کہ کوئی بچے پیدا کرنا نہیں چاہتا کہ اگر زندگی کے آخری ایام اکیلے یا اولڈ ایج ہوم میں گزارنا ہے تو پھر اولاد کا کیا فائدہ۔ لیکن میرے جیسے سیاح ان کے سرخ و سفید تمتماتے چہروں کو دیکھ کر سمجھتے ہیں کہ یہ کس قدر مطمئن لوگ ہیں۔ اقبال نے کہا تھا

    چہروں پہ جو سرخی نظر آتی ہے سر شام
    یہ غازہ ہے یا ساغر و مینا کی کرامات

    جس طرز معاشرت میں آج یورپ زندہ ہے اسے اقبال نے جس طرح بیان کیا ہے، وہ کمال ہے۔

    بے کاری و عریانی و مے خواری و افلاس
    کیا کم ہیں فرنگی مدنیت کی فتوحات

    عریانی و مے خواری تو سب کو نظر آتی ہے لیکن بے کاری و افلاس کے بارے میں لوگ کہیں گے کہ وہ کیسے۔ یورپ میں ایک ایسے سرمایہ دارانہ نظام کی بنیاد رکھی ہے جس میں دولت کی بنیاد پر استحصال کیا جائے۔ تمام بڑی بڑی فیکٹریاں چین، مشرق بعید، لاطینی امریکا اور افریقہ منتقل کر دی گئیں ہیں۔ وہ قومیں اپنا خون پسینہ ایک کر کے بہت ہی کم اجرت پر کام کرتی ہیں اور یورپ کا سرمایہ دار مال دار ہوتا چلا جاتا ہے۔

    اس سے وہ جو ٹیکس دیتا ہے وہ سب سے پہلے شہری سہولیات پر خرچ ہوتا ہے اور پھر ان افلاس زدہ لوگوں پر جو اس معاشرے میں سوشل سیکیورٹی کے نام پر وظیفہ کھاتے ہیں۔ دنیا کے سب سے زیادہ منشیات کے عادی انھی معاشروں میں ہیں۔ جو کبھی وظیفے پر جیتے ہیں اور کبھی علاج کے نام پر آبادکاری مراکز میں۔ تیس فیصد کے قریب بوڑھے یا پنشن لیتے ہیں اور اکیلے رہتے ہیں یا پھر اولڈ ایج ہوم میں۔ اسپین سے اٹلی، فرانس سے بلجیئم اور ناروے سے جرمنی تک کے اس سفر میں اقبال بہت یاد آ رہے ہیں۔ پورے کا پورا معاشرہ مادیت کے شکنجے میں جکڑا ہوا اور جس کی بنیاد ایک خون چوسنے والے سودی نظام پر رکھی گئی ہے۔

    رعنائی تعمیر میں رونق میں صنعا میں
    گرجوں سے کہیں بڑھ کے ہیں بینکوں کی عمارات
    ظاہر میں تجارت ہے حقیقت میں جواء ہے
    سود ایک کا لاکھوں کے لیے مرگ مفاجات

    اس پورے یورپ کا سب سے امیر شہر جنیوا ہے جو دنیا بھر کے چور اور بددیانت حکمرانوں کے پیسوں کو بینک میں رکھ کر سود سے اپنی فی کس آمدنی بڑھاتا ہے۔ یورپ خود کو اس صدی میں ایک مضطرب یورپ کہتا ہے۔ اس کے مفکرین کہتے ہیں یہ ہماری اضطراب ”Anxiety” کی صدی ہے۔ اقبال نے ایک سو سال پہلے کہا تھا ان کے ہاں ترقی کی معراج انسان نہیں سائنسی ایجادات ہیں اور ایجادات جسمانی سکون دیتی ہیں ذہنی اطمینان نہیں۔

    وہ قوم کہ فیضان سماوی سے ہو محروم
    حد اس کے کمالات کی ہے برق و بخارات

  • اسلام اور تہذیبوں کی جنگ – مجتبی فاروق

    اسلام اور تہذیبوں کی جنگ – مجتبی فاروق

    مجتبی فاروق نومبر ۱۹۸۹ء میں دیوارِ برلن کے گرنے کے ساتھ ہی بین الاقوامی سیاست میں سرد جنگ بھی اختتام کو پہنچی۔ اس کے بعد مغربی سیاست دانوں، پالیسی سازوں اور دانشوروں نے آئندہ اپنی خارجہ پالیسی کے لیے ایک نئی حکمت عملی وضع کی۔ اس تعلق سے سب سے پہلے ایک امریکی مفکر فرانسس فوکویاما نے ۱۹۸۹ء میں ایک امریکی رسالے The National Interest میں The End of History (انتہائے تاریخ) کے نام سے ایک مضمون لکھا کہ مغربی تہذیب انتہائی عروج پر ہے اور یہ ساری دنیا پر چھا جائے گی۔ اسی مضمون میں فوکویاما نے Liberal Democracy کا تصور پیش کرتے ہوئے کہا کہ یہی انسان کی نظریاتی ترقی کی آخری فتح ہے اور یہ کہ دنیا میں رائج نظریات کے درمیان کشمکش ختم ہوگئی ہے اور مغربی آزاد جمہوریت کے سوا اب دنیا میں کوئی نیا نظریہ یا نظام آنے والا نہیں ہے۔ ۱؂

    اس کے بعد برنارڈ لیوس نے اس نظریے کو نئے قالب میں پیش کرتے ہوئے Return of Islam کے نام سے مقالہ لکھا۔ پھر اس مقالے کو نئی شکل دے کرماہ نامہ Atlantic میں The Roots of Muslim Rage (مسلم غم و غصہ کی جڑ یں) کے زیرعنوان زہریلی تحریر بنا کر تہذیبی تصادم کا نظریہ پیش کیا:
    دراصل ہم ایک ایسی تحریک اور صورت حال کا سامنا کر رہے ہیں جو حکومتوں، مسائل اور منصوبوں سے حد درجہ بڑھ کر ہے۔ یہ صورت حال ایک تہذیبی تصادم سے کم نہیں ہے۔ یہ ہمارے یہودی عیسائی ورثے، ہمارے سیکولر اور ان دونوں کی ساری دنیا میں اشاعت کے قابل رد عمل ہے۔۲؂
    پرسٹن یونی ورسٹی کے پروفیسر برنارڈ لیوس کا شمار اسلام اور مشرق وسطیٰ پر مغرب کے معروف دانش وروں میں ہوتا ہے۔ وہ اپنی تحریروں میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف کھلے جذبات کا اظہار کرنے سے احتراز کرتے ہیں، لیکن اس ہاتھ کی صفائی کے باوجود متعصبانہ سوچ اور بغض چھپا ہوا ہوتا ہے۔ تہذیبوں کے تصادم کی اصطلاح اور نظریے کے اصل خالق یہی ہیں ۔۳؂

    برنارڈ لیوس کے بعد جس مغر بی مفکر اور پالیسی ساز نے تہذیبی تصادم کے نظریے کو انتہائی منظم انداز سے آگے بڑھایا، وہ ہارورڈ یونی ورسٹی کے پروفیسر سیموئیل پی ہن ٹنگٹن ہیں، جو نیشنل سیکورٹی کونسل میں منصوبہ بندی کے بھی ڈائرکٹر رہ چکے تھے۔ انھوں نے فرانسس فوکویاما کے نظریاتی کش مکش کے خاتمے کے نظریے کو مسترد کرتے ہوئے یہ پیش گوئی کی کہ: ’’آیندہ دنیا میں تصادم نظریات کی بنیاد پر نہیں بلکہ تہذیبوں کی بنیاد پر ہوگا۔ تہذیبوں کا تصادم مغر بی تہذیب جو اس وقت غالب تہذیب کی صورت اختیار کر چکی ہے، پوری دنیا کو اپنے رنگ میں رنگنا چاہتی ہے۔ اس کا اسلامی تہذیب سے ہر حال میں تصادم ہونا ہے بلکہ شروع ہو چکا ہے‘‘۔ ہن ٹنگٹن نے ۱۹۹۳ء کے فارن افیئرز میں The Clash of Civilizations کے عنوان سے مضمون لکھا، جسے ۱۹۹۶ء میں پھیلا کر The Clash of Civilizations and Remaking of the New World Order (تہذیبوں کا تصادم اور نئے عالمی نظام کی تشکیل) کے نام سے کتابی شکل میں شائع کیا، اور پھر اس پر دنیا بھر میں بڑے پیمانے پر مباحثے کا آغاز ہوا۔ نائن الیون کے بعد اس مباحثے نے نہ صرف طول پکڑا بلکہ شدت بھی اختیار کر لی۔

    مغر بی مفکرین اور پالیسی سازوں نے اس مفروضے کو منطقی انداز میں پیش کر کے کہا کہ تہذیبوں (بالخصوص اسلامی اور مغربی تہذیب ) کے مابین تصادم اور ٹکراؤ لازم بلکہ ناگزیر بھی ہے۔ ہن ٹنگٹن کے مطابق آنے والے زمانے میں تصادم ، ٹکراؤ اور جنگ، سیاست، اقتصادیات اور سرحدوں پر ٹکراؤ کی بنیاد پر نہیں بلکہ تہذیبوں کی بنیاد پر ہوگی:
    اس دنیا میں تصادم کا بنیادی سبب نہ تو مکمل طور پر نظریاتی ہوگا، اور نہ مکمل طور پر معاشی، بلکہ نوع انسان کو تقسیم کر نے والے بنیادی اسباب ثقافتی ہوں گے۔ عالمی معاملات میں قو می ریاستیں اہم کردار ادا کر تی رہیں گی، لیکن عالمی اہمیت کے بڑ ے تصادم ان ریاستوں اور گروہوں کے درمیان ہوں گے، جو مختلف تہذیبوں سے وابستگی کو اہمیت دیتے ہیں۔۴؂
    مغر ب اپنی تہذیب کی عالم گیریت پر یقین رکھتا ہے اور اس کا تصور یہ ہے کہ مغرب کی تہذیبی بالاتری اگرچہ رُوبہ زوال ہے، لیکن ہن ٹنگٹن کے بقول: مغرب اپنی برتری (pre-eminent position) کو قائم رکھنے کے لیے کو شش کر رہا ہے اور کرتا رہے گا۔ وہ اپنے مفادات کو عالمی برادری کے مفادات کے طور پر پیش کرکے ان مفادات کی حفاظت کر رہا ہے۔۵؂

    تہذیبوں کی تقسیم
    clash-of-civilizations-1-638 ماہرین نے تہذیبوں کا گہرائی سے مطالعہ پیش کیا ہے۔ مشہور مؤرخ ٹائن بی نے پہلے ۲۱ اور بعد میں دنیا کو ۲۳ تہذیبوں میں تقسیم کیا۔ اسپنگر نے دنیا کی آٹھ بڑی ثقافتوں کی نشان دہی کی، میک نیل نے تہذیبوں کی تعداد ۹بتائی، سلکیو نے ۱۲تہذ یبوں کی نشان د ہی کی ہے ۶؂، جبکہ خود ہن ٹنگٹن نے دنیا کی آٹھ بڑی تہذیبوں کا تذکرہ کیا اور کہا ہے کہ مستقبل میں تصادم انھی تہذیبوں کے درمیان ہوگا : ۱۔چینی ( کنفیوشس) ۲۔ جاپانی ۳۔ ہندو۴۔ اسلامی۵۔ قدامت پرست عیسائی ۶۔ لاطینی ۷۔ افر یقی۸۔ مغر بی تہذ یب۔
    جنگجو سیاسی مفکر، ہن ٹنگٹن نے تہذیبی تصادم کے اس دور میں تین تہذیبوں کو اہم قرار دیا ہے: ۱۔ مغر بی تہذیب ۲۔چینی تہذیب ۳۔ اسلامی تہذیب۔ ہن ٹنگٹن کے مطابق پانچ تہذیبوں کا ایک دوسرے کے ساتھ یا مغرب کے ساتھ جزوی طور پر اختلاف ہو سکتا ہے، لیکن یہ اختلاف تصادم کی صورت اختیار نہیں کرے گا۔

    تہذیبی تصاد م کے عوامل
    ہن ٹنگٹن کے مطا بق اسلام اور مغرب کے درمیان اختلاف اور باہمی تنازعے کو روز بہ روز بڑھاوا مل رہا ہے، جن میں پانچ عوامل کو مرکزیت حاصل ہے:
    (۱) مسلم آبادی میں اضافے نے بےروزگاری اور بد دل اور مایوس نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد کو جنم دیا ہے جو اسلامی تحریکوں میں داخل ہو جاتے اور مغرب کی طر ف نقل مکانی کر تے ہیں۔
    (۲) اسلامی نشاتِ ثانیہ نے مسلمانوں کو اپنی تہذیب کی امتیازی خصوصیات اور مغر بی اقدار کے خلاف نیا اعتماد عطا کیا ہے۔
    (۳) مغر ب کا اپنی قدروں اور اپنے اداروں کو عالم گیر بنانے اور اپنی خوبی اور اقتصادی برتری قائم کرنے اور عالم اسلام میں موجود اختلافات میں مداخلت کی مسلسل کوشش مسلمانوں میں شدید ناراضی پیدا کر تی ہے ۔
    (۴) اشتراکیت کے انہدام نے مغر ب اور اسلام کے ایک مشترکہ دشمن کو منظر سے ہٹایا، مگر ان دونوں کو ایک دوسرے کے لیے ایک بڑے متوقع خطرے کی صورت میں لاکھڑا کیا ہے۔
    (۵) اسلام اور مغرب کے درمیان بڑھتے ہوئے تعلقات ان کے اندر یہ احساس ابھارتے ہیں کہ ان کی شنا خت کیا ہے اور وہ ایک دوسرے سے کس قدر مختلف ہیں۔۷؂
    ہن ٹنگٹن کے مطابق تہذیبوں کا تصادم انفرادی اور اجتماعی سطحوں پر واقع ہوتا ہے۔ انفرادی سطح پر تصادم، تہذبیوں کے درمیان فوجی ٹکراؤ اور ایک دوسرے کے علاقے پر قبضہ جمانے کے لیے ہوتا ہے، جبکہ اجتماعی سطح پر مختلف تہذیبوں سے تعلق رکھنے والی حکو متیں علاقوں میں اپنی فوجی و سیاسی برتری کے لیے ایک دوسرے سے مقابلہ کرتی ہیں۔ یہ اپنی اپنی سیاسی اور مذہبی اقدار کے فروغ کے لیے ایک دوسرے پر برتری لینے کی تگ و دو میں رہتے ہیں۔ ۸؂

    اسلام اور مغرب کے درمیان کش مکش
    ہن ٹنگٹن کے نزدیک، اسلام اور مغربی تہذ یب کے درمیان تصادم پچھلے۱۳۰۰ سال سے جاری ہے۔ اسلام کے آغاز کے بعد عربوں نے مغرب پر چڑھائی کی۔ اس کے بعد صلیبیوں نے عیسائی حکومت قائم کرنے کی کوششیں کیں۔ انیسویں اور بیسویں صدی کے ابتدائی دور میں عثمانی حکومت بھی زوال پذیر ہوگئی۔ اور دیکھتے ہی دیکھتے برطانیہ، فرانس اور اٹلی کی حکومتیں قائم ہوگئیں اور شمالی افریقہ کے علاوہ، مشر ق وسطیٰ پر مغرب کا اقتدار قائم ہوا۔۹؂

    6f97884a اسلام اور عیسائیت، مسیحی اور مغربی دونوں کے درمیان تعلقات اکثر ہنگامہ خیز رہے ہیں۔ یہ ہمیشہ ایک دوسرے کے لیے اجنبی رہے ہیں۔ آزاد جمہوریت اور مارکسی لنین ازم کے درمیان انیسویں صدی کا تنازع اسلام اور عیسائیت کے درمیان مسلسل اور گہرے مخاصمانہ تعلقات کے مقابلے میں ایک عارضی اور سطحی مظہر ہے۔۱۰؂ ہن ٹنگٹن کو معلوم تھا کہ مغرب، اسلام کے خلاف سیاسی پروپیگنڈے اور سیاسی سازشوں سے زیادہ دیر تک عالم اسلام میں اپنا وجود قائم نہیں رکھ سکتا اور نہ فوجی اور اقتصادی بنیادوں پر باقی دنیا کو اپنے پنجۂ استبداد میں رکھ سکتا ہے۔ اسی لیے اس نے اسلام اور اس کی تہذیب کو مغرب کے لیے خطرے کے طور پر پیش کیا:
    مغرب کا بنیادی مسئلہ اسلامی بنیاد پر ستی نہیں ہے، بلکہ یہ اسلام ہے جو ایک مختلف تہذیب ہے جس کے ماننے والے لوگ اپنی ثقافت کی برتری کے قائل اور اپنی طاقت کی کمتری پر پریشان ہیں۔ ۱۱؂

    ہن ٹنگٹن مذہبی عالم گیریت، بالخصوص اسلامی عالم گیریت کا اطلاقی اندازہ لگاتا ہے۔ مراد ہوف مین کے بقول: ہن ٹنگٹن غلط ہو سکتا ہے، لیکن وہ احمق ہرگز نہیں ہے۔ اسلامی بنیاد پرستی، دہشت گردی، انتہا پسندی اور سیاسی اسلام جیسے الزامات لگانے میں مغر ب کا بنیادی ہدف اسلام ہے۔ اور اس نے اس کے لیے بےشمار ذرائع کو استعمال میں لا کر راے عامہ کو ہموار کیا، تاکہ پوری دنیا اسلام اور عالم اسلام کے خلاف صف آرا ہو جائے۔ مغر ب کو اس بات کا بخوبی علم ہے کہ مغربی فکر اور تہذیب کا اگر کسی تہذ یب میں مقابلہ کر نے کی صلاحیت اور طاقت ہے تو وہ صرف اسلامی تہذیب ہے۔ اسلامی تہذیب میں متبادل پیش کر نے کی صلاحیت بھی پائی جاتی ہے، جو ان کے مطابق اگرچہ فی الوقت ایسا نہیں ہو رہا ہے لیکن مستقبل میں ایسا ضرور ہوگا۔ اسی لیے ان کے صحافی، مصنفین، ادبا، مفکرین ، پالیسی ساز، اداکار اور سیاست داں اس بات کا برملا اظہار کرتے ہیں کہ The Red menace is gone, but here is Islam ۱۲؂ (سرخ خطرے کا خاتمہ ہوگیا، لیکن اب اسلام ہے)۔

    اسی لیے مغربی ماہرین ، اسلامی تحر یکات اور احیاے اسلام کو مغرب کے لیے خطر ے کے طور پر پیش کرتے ہیں اور اسلام کو اپنا اصل دشمن قرار دیتے ہیں۔ اس سلسلے میں انھوں نے اسلام کو شکست دینا اپنا ہدف قرار دیا ہے۔ اسی طرح ایک مغر بی انتہاپسند ڈینیل پایپس [امریکی تھنک ٹینک Middle East Forum کے صدر] نے یروشلم پوسٹ میں The Enemy has a Name کے عنوان سے مضمون میں لکھا ہے:’’ اصل میں یہ دشمن ایک واضح اور جامع نام رکھتاہے اور وہ ہے’اسلام ازم‘۔ اسلام کے تخیلاتی پہلو کا انقلابی تصور، اسلام پرست آمرانہ نظریہ کہ جو بھرپور مالی مدد سے اسلامی قوانین ( شریعہ) کو عالمی اسلامی ضابطے کے طور پر نافذ کر نے کا خواب ہے ‘‘۔۱۳؂ وہ ایک انٹرویو میں اس بات کا بھی برملا اظہار کرتا ہے:
    میں کئی عشروں سے یہ بات کہتا آیا ہوں کہ ’ریڈیکل اسلام‘ مسئلہ بنا ہوا ہے اور ’جدید اسلام‘ ہی اس مسئلے کا حل ہے۔۱۴؂
    ا س حوالے سے ایڈورڈ سعید کامشاہدہ اس طر ح ہے:
    یورپ اور امریکا کے عام لوگوں کے لیے آج اسلام انتہائی ناگوار خبر کا عنوان بنا ہوا ہے۔ وہاں کا میڈیا، حکو مت، پالیسی ساز اور محققین یہ تسلیم کیے بیٹھے ہیں کہ اسلام، مغربی تہذ یب کے لیے خطرہ ہے۔۱۵؂

    یہ سلسلہ بیسویں صدی کے آٹھویں عشرے سے مسلسل آگے بڑھایا جا رہا ہے۔ پہلے اسلام کو خطر ے کے طور پر پیش کرنا اور اس کے بعد تہذیبی تصادم کے نظریے کو وجود میں لانا مغرب کی اہم کارستانیاں ہیں۔۱۶؂ امریکی پالیسی ساز ادارے رینڈ کارپوریشن نے ۲۰۰۴ء میں مسلمانانِ عالم پر ایک مفصل رپورٹ تیار کی، جس کا عنوان Civil Democratic Islam: partners resources and strategies ہے۔ اس رپورٹ کا خلاصہ یہ ہے کہ امریکا اور مسلمان ایک دوسرے کے حریف ہیں، جس کی بنیادی وجہ مسلمانوں کا دینی رجحان ہے۔۱۷؂مسلمانوں کی بڑ ھتی ہوئی آبادی سے ہن ٹنگٹن اور دیگرمغر بی مفکر ین کو زبردست تشویش لاحق ہے۔ ہن ٹنگٹن کے بقول: مسلمانوں کی بڑ ھتی ہوئی آبادی مغر ی اور یورپی ممالک کے لیے خطر ہ بنتی جا رہی ہے۔ دنیا کے دو بڑے تبلیغی مذاہب اسلام اور عیسائیت کے ساتھ وابستگی رکھنے والوں کے تناسب میں گذشتہ ۸۰ برسوں میں بےحد اضافہ ہو۔۱۹۰۰ء میں دنیا کی کل آبادی میں مغربی عیسائیوں کی تعداد کا اندازہ ۹ء۲۶ فی صد اور ۱۹۸۰ء میں ۳۰ فی صد لگا یا گیا۔ اس کے برعکس ۱۹۰۰ء میں مسلمانوں کی کل آبادی ۴ء۱۲فی صد اور ۱۹۸۰ء میں ۵ء۱۶ یا دوسرے اندازے کے مطابق ۱۸فی صد تک بڑھ گئی۔ ہن ٹنگٹن نے مغرب میں مسلمانوں کی مسلسل بڑھتی ہوئی آبادی سے خبردار کرتے ہوئے لکھا ہے:
    عیسائیت تبدیلیِ مذہب سے پھیلتی ہے، جبکہ اسلام تبدیلی مذہب اور افزایش نسل سے پھیلتا ہے۔ مسلمانوں کی آبادی کا تناسب ڈرامائی طور پر بڑھ کر بیسویں صدی کی تبدیلی کے وقت دنیا کی کل آبادی کا ۲۰ فی صد ہو گیا اور چند برسوں بعد ۲۰۲۵ء میں یہ تعداد دنیا کی کل آبادی کی تقریباً ۳۰ فی صد ہوگی‘‘۔۱۸؂

    مغربی دانش وروں نے اسلام اور مغربی تہذیب کے درمیان تصادم، مختلف پہلوؤں سے ظاہر کرنے کے لیے بے شمار حر بے استعمال کیے۔ اسلام پر پہلے شبہات کو جنم دیا، اور پھر الزامات عائد کرکے تصادم کے لیے راہیں ہموار کی گئیں۔ وہ کہتے ہیں کہ: اسلام، جدیدیت سے مطابقت نہیں رکھتا۔ مغربی فکر و تہذیب، ثقافت اور عورتوں کی آزادی کے خلاف ہے۔ پھر اسلام اور جمہوریت میں کوئی مطابقت نہیں بلکہ واضح تضاد ہے۔

    • تہذیب کی حقیقت:
      ’تہذ یب‘ عر بی زبان کا لفظ ہے۔ اس کا معنی تربیت، اصلاح، دوستی اور شائستگی کے ہیں۔ فیروزاللغات میں اس کے یہ معنی بیان کیے گئے ہیں: شائستگی، آراستگی، صفائی، اصلاح اور خو ش اخلاقی ۔۱۹؂
      مشہور انگریزی لغت یونیورسل انگلش ڈکشنری میں یہ معنی دیے گئے:
      Civilization : A state of social, moral, intellectual and industrial development.۲۰؂
      یعنی انسان کے سماجی، اخلاقی، فکر ی اور اس کی ترقیاتی تعمیر کے مختلف پہلوؤں کا نام تہذیب ہے۔
      ’تہذیب‘ ایک ایسی اصطلاح ہے، جس میں کافی وسعت پائی جاتی ہے۔ اس میں تصورِ زندگی، طرزِ زندگی، زبان ، علم وادب، فنونِ لطیفہ، رسوم و رواج، اخلاق و عادات، رہن سہن، کھانے پینے کا انداز، خاندانی و قومی روایات، فلسفہ و حکمت، لین دین، اور سماجی معاملات، سب شامل ہیں۔ یہ انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی سنوارنے کا بھی نام ہے۔
      اسلام نے تہذیب کو نہ صرف مزید وسعت اور جامعیت بخشی بلکہ اسے اخلاق عالیہ کے مرتبے تک پہنچایا۔ اسلام نے تہذیب کو دین و دنیا سنوارنے اور اصلاح کرنے کا ذریعہ بھی بتایا، کیوں کہ اس میں انسان کے اخلاق و کردار، معاملات و معاشرت، تعلیم و تمدن، سیاست، معیشت، قانون اور اداروں کی اصلاح، ان کو درست رکھنے کے لیے اصل رہنمائی موجود ہے۔ اسلام مکمل دین ہے۔ اس نے جہاں انسان کو کارِ جہاں چلانے کے لیے مکمل رہنمائی دی، وہیں اسے ایک مکمل تہذیب بھی عطا کی۔

    اسلام: تہذیبی تصادم یا مکالمہ اور مفاہمت
    کیا تہذیبوں کے درمیان تصادم ہو سکتا ہے؟ یا کیا تہذیبیں تصادم کی طر ف جا رہی ہیں ؟ اس حوالے سے اسلام کا موقف بہت واضح ہے۔
    اسلام تہذیبوں کے تصادم کا قائل نہیں۔ اسلام نے تو ماضی میں بھی دوسری تہذیبوں سے تصادم اور جنگ کے بجاے دعوت کے راستے ہی کو اوّلیت دی ہے۔ بقول پروفیسر خورشید احمد: ’’تہذیبوں میں مکالمہ، تعاون، مسابقت حتیٰ کہ مثبت مقابلہ سب درست لیکن تہذیبوں میں تصادم، جنگ و جدال، خون خرابا اور ایک دوسرے کو مغلوب اور محکوم بنانے کے لیے قوت کا استعمال انسانیت کے شر ف اور تر قی کا راستہ نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تہذیبوں کا تصادم ہمارا لائحہ عمل نہیں۔ یہ مسلمانوں پر زبردستی ٹھونسا جارہا ہے‘‘۔ ۲۱؂ مراد ہوف مین کے نزدیک: ’’ تہذیبوں کے ارتقا میں کبھی کوئی زیرو پوائنٹ نہیں ہوتا۔ دنیا میں ہر شخص نے کسی دوسرے شخص سے فیض پایا اور ہر شخص نے کسی دوسرے شخص کی کامیابیوں پر اپنی عمارت کھڑی کی ہے‘‘۔۲۲؂

    اسلامی تہذیب نے اپنا دامن بہت وسیع رکھا ہے، تنگنائیوں اور محدودیت کے دائرے کی کوئی گنجایش نہیں رکھی۔ اسی لیے اس نے ہر دور میں اور ہر جگہ ہردل عزیز رہنما اور تاب ناک نقوش چھوڑے ہیں اور ہر تہذیب کو فائدہ پہنچایا ہے۔ مغر بی دانش ور اس بات کا خو د بھی اعتراف کر تے ہیں۔ برطانوی ولی عہد شہزادہ چارلس نے ستمبر ۱۹۹۲ء میں اوکسفرڈ یونی ورسٹی کے اسلامی سنٹر میں تقریر کر تے ہو ئے کہا کہ: ’’ہماری تہذیب و تمدن پر اسلام کے جو احسانات ہیں، ہم ان سے بڑی حد تک ناواقف ہیں۔ وسطی ایشیا سے بحراوقیانوس کے ساحلوں تک پھیلی ہوئی اسلامی دنیا علم و دانش کا گہوارہ تھی، لیکن اسلام کو ایک دشمن مذہب اور اجنبی تہذیب قرار دینے کی وجہ سے ہمارے اندر اپنی تاریخ پر اس کے اثرات کو نظرانداز کرنے یا مٹانے کا رجحان رہا ۔ مغرب میں احیا ے تہذیب کی تحریک میں مسلم اسپین نے گہر ے اثرات ڈالے۔ یہاں علوم کی ترقی سے یورپ نے صدیوں بعد تک فائدہ اٹھایا‘‘ ۔ ۲۴؂

    اسلام نے کبھی عیسائیت کے خلاف جارحانہ محاذ آرائی نہیں کی اور نہ عیسائیوں کو اپنا دشمن باور کیا، بلکہ اس سے آگے بڑھ کر مسلمانوں نے عیسائیوں کو دوستانہ تعلقات قائم کرنے کے لیے نہ صرف اُبھارا بلکہ تاکید بھی کی۔ اس بنیاد پر نہیں کہ وہ محض اللہ کے وجود کے قائل ہیں بلکہ وہ بہت سے انبیاے کرام ؑ پر ایمان رکھتے ہیں، جن میں حضرت ابراہیم ؑ، حضرت اسحاقؑ، حضرت یعقوب ؑ، حضرت یوسفؑ، حضرت موسٰی ؑشامل ہیں۔ ان کے علاوہ اور بھی انبیاے کرام ؑ ہیں، جن پر وہ ایمان رکھتے ہیں، جن کا تذکرہ قرآن مجید اور بائبل میں ہے۔ جب دور نبوت میں مسلمان ابتلا و آزمایش کا شکار ہوئے تو انھوں نے حبشہ کے ایک عیسائی بادشاہ کے ہاں ہجرت کی۔ اس کے علاوہ اور بھی متعدد مثالیں موجود ہیں۔ عیسائیت ہی کیا، اسلام نے کبھی بھی مذہب، تہذیب، نسل یا کسی بھی علاقے کے رہنے والوں کو اپنا دشمن تصور نہیں کیا لیکن فساد پھیلانے والوں کی مذمت اور مزاحمت ضرور کی۔

    مکالمے کی اہمیت
    اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو راہ حق کی طر ف دعوت دینے اور ان کے خدشات کو دور کر نے کے لیے متعدد ذرائع اختیار کر نے کی تعلیم دی ہے۔ جن میں سے ایک ذریعہ مکالمہ (Dialogue) بھی ہے۔ یہ دعوت کا ایک انتہائی مؤثر، پُرکشش اور آسان ذریعہ ہے۔ قرآن کر یم میں متعدد مکالموں کا تذکرہ آیا ہے، مثلاً: (۱) حضرت ہودؑ کا اپنی قوم کے ساتھ مکالمہ، (۲) حضرت موسٰیؑ کا اپنی قوم سے مکالمہ، (۳) حضرت ابراہیم ؑ کا اپنے باپ آزر اور نمرود کے ساتھ مکالمہ، (۴) حضرت یوسف ؑ کا زنداں کے ساتھیوں کے ساتھ مکالمہ، (۵) ملحد اور موحد شخص کے درمیان مکالمہ ،وغیرہ وغیرہ۔

    اسلام میں دوسرے مذاہب اور تہذیبوں سے مکالمہ کرنے پر ابھارا گیا ہے، تاکہ اللہ کی زمین پر عدل و انصاف، حقوق انسانی کا لحاظ اور فساد، جنگ و جدل، قتل وغارت گری کا خاتمہ ہو، اور اقدار پر مبنی ایک پرامن اور صحت مند سماج وجود میں آئے۔ اسلام کا مزاج عملاً دعوتی ہے۔ اس لیے مکالمہ اس کی بنیادی ضروریات میں شامل ہے۔ حتیٰ کہ اسلام کے سخت ترین دشمن سے بھی مکالمے کے ذریعے تعلق پیدا کرنا فرائض دعوت میں شامل ہے۔ شرک اور طاغوت سے نفر ت تو کی جائے گی، لیکن مشرک اور طاغی کو مسلسل مکالمے کے ذریعے حق کی دعوت دی جاتی رہے گی، نفرت شرک سے ہے، مشرک سے نہیں۔ مکالمے میں مخاصمت، نزاع اور جرح کا کوئی عمل دخل نہیں ہونا چاہیے، بلکہ باہم محبت و اُلفت اور عزت و اکرام کا خاص خیال رکھا جائے، نیز الزامات اور طعن و تشیع سے بالکل گریز کیا جائے۔ اس کے علاوہ خوشگوار انداز، تعلقات اور ماحول میں مکالمہ کیا جائے اور خوش اسلوبی کوا ختیار کیا جائے۔

    مکالمے کے تین بنیادی اصول
    (۱) مشترکہ باتوں کو موضوعِ گفتگو بنانا (۲) تعارف اور (۳) دعوت و تبلیغ کے اصول
    ۱۔ قرآن کریم نے اہل کتاب کے ساتھ مشترکہ باتوں کو موضوعِ گفتگو بنانے کے لیے ہدایت دی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
    [pullquote]قُلْ یٰٓاَھْلَ الْکِتٰبِ تَعَالَوْا اِلٰی کَلِمَۃٍ سَوَآءٍ م بَیْنَنَا وَ بَیْنَکُمْ اَلَّا نَعْبُدَ اِلَّا اللّٰہَ وَ لَا نُشْرِکَ بِہٖ شَیْءًا وَّ لَا یَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ ط فَاِنْ تَوَلَّوْا فَقُوْلُوا اشْھَدُوْا بِاَنَّا مُسْلِمُوْنَ o( اٰل عمرٰن۳:۶۴) [/pullquote]

    ’’اے اہل کتاب، آؤ ایک ایسی بات کی طرف جو ہمارے اور تمھارے درمیان یکساں ہے۔ یہ کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہ کریں، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھیرائیں۔ اور ہم میں سے کوئی اللہ کے سوا کسی کو اپنا رب نہ بنا لے‘‘۔ اس دعوت کو قبول کر نے سے اگر وہ منہ موڑیں تو صاف کہہ دو کہ گواہ رہو، ہم تو مسلم (صرف خدا کی بندگی و اطاعت کرنے والے) ہیں۔
    اسی آیت میں یہود و نصاریٰ کو ان کے ظلم و جبر اور ان کے مشرکانہ عقائد کی بنیاد پر اے کافرو یا اے مشر کو! کہہ کر خطاب نہیں کیا گیا، بلکہ انھیں ایسے لقب سے خطاب کیا گیا ہے جس میں ان کے بھرپور عزت و اکرام کا لحاظ رکھا گیا۔
    اسلام اور عیسائیت یا مغرب کے درمیان مکالمے کا آغاز دور نبوت سے ہی ہوا تھا، جب اللہ کے رسول ؐ نے مشر ق و مغرب کے حکمرانوں کو کھلے دل سے نیک تمناؤں اور خیرخواہی کے ساتھ اسلام کے عالم گیر پیغام پر غور اور تسلیم کرنے اور انھیں کفر و ظلمات سے نکل کر نور اسلام کو اختیار کرنے پر دعوت دی تھی۔ قبولِ دعوت کی صورت میں انھیں دین و دنیا کی کامیابی اور سلامتی کی خوش خبر ی بھی سنائی گئی۔ اہل کتاب کے فرماں رواؤں کے نام اللہ کے رسول ؐ نے جو دعوتی خطوط بھیجے ہیں، ان میں اسلام قبول کر نے کی دعوت دینے کے بعد یہ جملہ بھی ہے: [pullquote]یُؤْتِکَ اللّٰہُ اَجْرَکَ مَرَّتَیْنِ۲۴؂[/pullquote]

    اللہ تمھیں دہرے اجر سے نوازے گا۔

    مغرب سے مذاکرات اور مکالمہ کی جتنی پہلے ضرورت تھی آج موجودہ دور میں اس سے کئی درجے زیادہ ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں ۲۰۰۷ء میں عالم اسلام کے ۱۳۸؍اسلامی دانش وروں نے عیسائی رہنماؤں کے نام A common word between us and you کے عنوان سے ایک کھلا خط لکھا، جس میں بہت سی مشترکہ باتوں کا تذکرہ کیا گیا ۔ضرورت اس بات کی ہے کہ اس طر ح کی پیش رفت کو آگے بڑھایا جائے ۔۲۵؂
    مذاہب اور تہذیبوں کے درمیان باہم تعارف ہو، تاکہ ایک دوسرے کے موقف کو سمجھ کر معاملات طے کر نے میں آسانی ہو۔ تعارف سے ہی نزاع، ٹکراؤ، تصادم اور جنگ کے مختلف اسباب کو اچھی طر ح سے ختم کیا جاسکتا ہے ۔ایک دوسرے کو جاننے اور تعارف حاصل کر نے کے بےشمار فوائد ہیں، جیسے آپس میں محبت سے رہنا، ایک دوسرے کے قریب آنا، ایک دوسرے سے اخذ و استفادہ کرنا وغیرہ وغیرہ۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :ٰٓ
    [pullquote]یاََیُّھَا النَّاسُ اِِنَّا خَلَقْنٰکُمْ مِّنْ ذَکَرٍ وَّاُنثٰی وَجَعَلْنٰکُمْ شُعُوْبًا وَّقَبَآءِلَ لِتَعَارَفُوْا ط اِِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ اَتْقٰکُمْ ط اِِنَّ اللّٰہَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ o (الحجرات ۴۹:۱۳)[/pullquote]

    لوگو، ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور پھر تمھاری قومیں اور برادریاں بنا دیں تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو۔ درحقیقت اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تمھارے اندر سب سے زیادہ پرہیزگار ہے۔ یقیناًاللہ سب کچھ جاننے والا اور باخبر ہے۔
    اس آیت مبارکہ میں تمام تہذیبوں کی تعمیر و بقا اور باہم تال میل اور ساتھ رہنے کے رہنما اصول موجود ہیں۔ پہلے تمام انسانوں سے بلالحاظ مذہب و ملت خطاب کیا گیا:’’ اس لحاظ سے تمام انسان اپنے اختلافات، تنوع اور زمان ومکاں کی دوری کے باوجود ایک انسانی اصل سے باہم مربوط ہیں۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ لوگ اس حقیقت کو اچھی طر ح اپنے دل و دماغ میں جاگزیں کرلیں اور اس کو ایک اخلاقی ضابطے کی حیثیت سے اپنے لیے اختیار کر لیں۔ اور اسی نقطۂ نظر سے دیگر قوموں اور تہذیبوں کو بھی دیکھیں ۔گویا کہ وہ روے زمین پر بسنے والے ایک ہی خاندان کے افراد ہیں‘‘۔ ۲۶؂
    لِتَعَارَفُوْا کے بارے میں علا مہ ابن کثیر لکھتے ہیں: ای لیحصل التعارف بینھم کل یر جع الی قبیلتہ ۲۷؂ یعنی قبیلے کا ہر آدمی باہم تعارف حاصل کر ے۔

    دعوت و تبلیغ کے اصول
    اسلام کے پیغام رحمت و عدل کو عام کر نا اور اس کو دوسرے مذاہب کے ماننے والوں تک پہنچانا مسلمانوں کا بنیادی اور سب سے اہم فریضہ ہے۔ اس فریضے سے غفلت اور کوتاہی برتنا ایک مسلمان کے ہرگز شایان شان نہیں ہے۔ دعوت و تبلیغ کے فریضے کو انجام دینے کے لیے چند اہم باتوں کو ذہن میں تازہ رکھنا بےحد ضروری ہے۔ اس میں حکمت، خیرخواہی اورقولِ سدید خاص طور سے قابل ذکر ہے۔ نیز مدعو قوم سے گفتگو انتہائی عمدہ طر یقے سے کر نے کی تاکید بھی کی گئی ہے:
    [pullquote]اُدْعُ اِلٰی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَ الْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ وَ جَادِلْھُمْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ ط اِنَّ رَبَّکَ ھُوَ اَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَبِیْلِہٖ وَ ھُوَ اَعْلَمُ بِالْمُھْتَدِیْنَ o (النحل ۱۶:۱۲۵)[/pullquote]

    اپنے رب کے راستے کی طرف دعوت دو حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ، اور لوگوں سے مباحثہ کرو ایسے طریقے پر جو بہترین ہو۔ تمھارا رب ہی زیادہ بہتر جانتا ہے کہ کون اس کی راہ سے بھٹکا ہوا ہے اورکون راہِ راست پر ہے۔
    اس آیت میں تین بنیادی اصولوں کا تذکرہ کیا گیا کہ حق سے آشنا لوگوں تک کیسے پیغام الٰہی پہنچایا جائے، اور ان کو کس طر ح سے پیغام حق کی طرف دعوت دی جائے۔ دعوت و تبلیغ کے یہ تینوں اصول وہی ہیں جو منطقی استدلال میں عموماً کام میں لائے جاتے ہیں۔ ایک تو برہانیات جن میں یقینی مقدمات کے ذریعے سے دعوے کے ثبوت پر دلیلیں لائی جاتی ہیں، دوسرے خطبات جن میں مؤثر اقوال سے مقصود کو ثابت کیا جاتا ہے، اور تیسرا اصول فریقین کے مسلّمہ مقدمات سے استدلال کیا جانا ہے۔ ۲۸؂ لہٰذا، دعوت و تبلیغ کے یہ تین اصول، یعنی حکمت و موعظت حسنہ اور جدال احسن جواہر پاروں کی حیثیت رکھتے ہیں۔

    مراجع ومصادر

    ۱۔ فوکویاما، The End of History، ۱۹۹۲ء ۲۔ برنارڈ لیوس، ماہ نامہ The Atlantic، ستمبر ۱۹۹۰ء
    ۳۔ لیوس کی چند کتب What Went Wrong? Western Impact and Middle Eastern Response ،۲۰۰۲ء، Crisis of Islam، ۲۰۰۳ء، مقالہ Muslims to the War on Europe، یروشلم پوسٹ، ۲۹ جنوری ۲۰۰۷ء۔ ۴۔ ہن ٹنگٹن ، مجلہ فارن افیئرز، گرما، ۱۹۹۰ء۔
    ۵۔ ہن ٹنگٹن، تہذیبوں کا تصادم، ترجمہ: محمد شفیع شریعتی، سری نگر، ۲۰۱۳ء، ص ۲۵۴۔
    ۶۔ حوالہ سابق، ص ۶۱ ۷۔ حوالہ سابق، ص ۲۳۹ ۸۔ہن ٹنگٹن ،مجلہ فارن افیئرز، گرما، ۱۹۹۰ء۔
    ۹۔ ایضاً ۱۰۔ ہن ٹنگٹن، تہذیبوں کا تصادم،ص ۲۹۰
    ۱۱۔ مراد ہوف مین، تہذیبوں کا تصادم، اکیسویں صدی میں،سہ ماہی مغرب اور اسلام، اسلام آباد، جولائی تا دسمبر۲۰۰۰ء۔
    ۱۲۔ عبداللہ احسن، The Clash of Civilizations Thesis and Muslims، مشمولہ Islamic Studies، گرما، ۲۰۰۹ء،ص ۱۹۸۔
    ۱۳۔ ڈینیل پایپس، The Enemy Has a Name، یروشلم پوسٹ، ۱۹ جون ۲۰۰۹ء۔
    ۱۴۔ ڈینیل پایپس، Radical Islam Creates Terrorism، دی ٹائمز آف انڈیا، ۲۱مارچ ۲۰۱۶ء
    ۱۵۔ ایڈورڈ سعید: Covering Islam، نیویارک ۱۹۸۱ء، ص ۱۳۶۔
    ۱۶۔ تفصیل دیکھیے: جان اسپوزٹیو، The Islamic Threat, Myth or Realty، نیویارک ۱۹۹۹ء۔
    ۱۷۔ احمد سجاد، مغرب سے نفرت کیوں؟ سہ ماہی مطالعات، جلد۶، شمارہ ۱۷، ۱۸،۱۹۔
    ۱۸۔ پروفیسر ہن ٹنگٹن ، تہذیبوں کا تصادم، ص ۹۰۔
    ۱۹۔ فیروز اللغات، دارالکتاب، دیوبند، یوپی، ۱۹۹۹ء، ص ۳۹۵۔
    ۲۰۔ The Universal English Dictionary
    ۲۱۔ پرو فیسر خورشید احمد، تہذیبوں کا تصادم۔ حقیقت یا واہمہ ،تر جمان القرآن لاہور مئی ۲۰۰۶ء،ص۲۲
    ۲۲۔ مرادہوف مین، تہذیبوں کا تصادم اکیسویں صدی میں،سہ ماہی مغرب اور اسلام،اسلام آباد، جولائی تا دسمبر ۲۰۰۰ء
    ۲۳۔ مولانا عیسیٰ منصوری، مغرب اور عالم اسلام کی فکری و تہذیبی کش مکش ،ورلڈ اسلامک فورم، ۲۰۰۰ء،ص:۸۸
    ۲۴۔ ڈاکٹر انیس احمد ،تہذیبی روایات کا مکالمہ، سہ ماہی مغرب اور اسلام، اسلام آباد، جنوری تا مارچ،۲۰۰۱ء۔
    ۲۵۔ تفصیل کے لیے دیکھیے،islamic studies ,A common word between us and you, 2008,p:243 to 263.
    ۲۶۔ زکی المیلاد ،تہذیبوں کے باہمی تعلقات: مفاہمت ومذاکرات،(اردوترجمہ،ڈاکٹر نگہت حسین ندوی)، انسٹی ٹیوٹ آف آبجیکٹیو اسٹیڈیز، ۲۰۰۴،ص۳۱
    ۲۷۔ عمادالدین ابی الفداء اسماعیل بن کثیر، تفسیر القرآن العظیم، دارالاشاعت دیو بند، ۲۰۰۲ء، ص۲۷۵
    ۲۸۔ علامہ سید سلیمان ندوی، سیرۃالنبی، دارالمصنفین، شبلی اکیڈمی اعظم گڑھ،۲۰۰۳، جلد:۴، ص۲۵۷

  • ڈورے مون اور ہمارےبچے – لائقہ عندلیب

    ڈورے مون اور ہمارےبچے – لائقہ عندلیب

    آج فیس بک کھولی تو چاروں طرف سے ڈورے مون کے حق میں آوازیں بلند ہوتی سنائی دیں. خبر تو پڑھ چکی تھی، تبصروں پر نگاہ ڈالی توپتہ چلا کہ عوام کارٹون شو پر پابندی کی محض قرارداد پیش ہونے پر ہی جلالی کیفیت میں ہے. دلائل کی طرف دیکھا تو معلوم ہوا کہ دہشت گردی اور غیرت کے نام پر قتل جیسے بڑے مسائل کو تو کوئی پوچھتا نہیں مگر کارٹون کو بغیر کسی وجہ کے بین کرایا جا رہا ہے.

    بحیثیت قوم مسائل میں اس قدر گھرے ہوئے ہیں کہ بچوں کی اخلاقی تربیت کی اہمیت کو ہی فراموش کر دیا ہے مگر اتنے پیچیدہ مسائل کے باوجود چھوٹے مسائل کو بھلا دینا کہاں کی عقلمندی ہے؟ کیا ہم یہ چاہتے ہیں کہ دہشت گردی جیسے عفریت کے ساتھ تو لڑیں مگر ہمارے بچے اپنی زندگیاں اخلاقی طور پر پسماندہ حالت میں گزاریں. یہاں یہ کہنے کا مقصد صرف اور صرف بچوں کی اخلاقی تربیت کی اہمیت کو واضح کرنا ہے.

    یہ سوال اپنی جگہ اہم ہے کہ ایک معمولی سا کارٹون شو بچوں پر کیسے اثرانداز ہو سکتا ہے؟ معصوم بچے کو یہ کس طرح متاثر کرتا ہے، اس کےلیے ضروری ہے کہ آپ اپنے گھر میں اپنے بچوں کی نفسیات اور الفاظ اور ان کی معصومانہ خواہشات کا جائزہ لے لیں تو بغیر کسی دلیل کے آپ کو سمجھنے میں آسانی ہوگی. اپنے گھرکی ہی مثال دوں تو میری چھ سالہ بہن بڑے شوق سے ڈورے مون دیکھتی ہے. جب وہ غصہ کرتی ہےتو جایان ( ڈورے مون کا کردار) کی طرح دانت پیس کر اور سر جھکا کر، اور کوئی اچھا کام کرنے کے بعد وہ ڈورے مون کی طرح ‘ دیکھا میرا کمال ‘ کہتی ہے. آپ خود سوچیے کہ پانچویں جماعت میں پڑھنے والے نوبیتا اور شےزور ( ڈورے مون کے کردار) کی لو سٹوری دکھانےکا مقصد کیا ہے اور یہ بچوں کو کیا سکھانے کی کوشش کی جا رہی ہے. پھر ہندووانہ تہذیب، الفاظ اور اصطلاحات بچوں کو یاد ہوتی ہیں، اور انھی میں بات کرتے اور سوال کرتے ہیں تو اپنی تہذیب سے منہ موڑنا کہاں کی دانشمندی ہے. جب ڈورے مون ہر مسئلے کے حل کے لیے گیجٹ نکالتا ہے تو وہ دراصل ہر کام کے لیے کسی پر انحصار کرنا سکھاتا ہے.

    بات صرف ڈورے مون کی نہیں ہے. اپنے اردگرد نگاہ دوڑائیے اور بچوں کے پروگراموں کو غور سے دیکھیے. کیا یہ تمام شو ایک سپر پاور کا تصور نہیں سکھا رہے؟ سپر پاور دکھانے والے کارٹون بچوں کی دلچسپی کا باعث تو بن سکتے ہیں مگر یہ بچوں کی ذہنی اور نفسیاتی حالت پر کس قدر منفی اثر چھوڑتے ہیں اس کا تصور بھی مشکل ہے.

    چند بڑے مسائل کی وجہ سے چھوٹے مسئلوں سے منہ نہیں موڑا جا سکتا. سیاسی لڑائیوں کے برعکس اگر کسی جماعت نے ایسے مسئلے کے لیے قرارداد جمع کرا دی ہے تو اس پر ہلڑبازی کے بجائے اچھی طرح سوچنے کی ضرورت ہے، ورنہ انتظار کیجیے کہ ڈورے مون اور اس جیسے دیگر کارٹونز ہمارے بچوں کو کہاں لے جاتے ہیں.