نابغہ عصر محترم احمد جاوید کی پرمغز اور روح پرور نشستوں کے تذکرے کا سلسلہ
…………………
اس عاجز کی خوش قسمتی کہ بچپن سے ہی عظیم لوگوں کی شفقت کا سلسلہ بڑے ابا (ناناجان) حکیم سید انصار الحق اور پھر ان کے چھوٹے بھائی نانا ابو حکیم ریاض حسین سے جاری ہوکر بغیر کسی وقفے کے جاری رہا۔ مجھے زندگی میں ’بڑے انسان‘ دیکھنے کا موقع ملا۔ حضرت احمد جاوید وہ بزرگ ہیں جن کی شخصیت کا سب سے زیادہ خوشگوار اثر میرے دل و جان نے قبول کیا۔ باوجود چند گنی چنی ادب کے ساتھ مختلف آرا کے وہ میری زندگی کی سب سے بڑی شخصیت ہیں۔ میری خوش قسمتی کہ ان کے قدموں میں بارہا بیٹھنے کی سعادت نصیب ہوئی۔ قدرت یہ کام بھی لیتی گئی کہ آپ کے مبارک الفاظ نقل کرتا گیا، جو پیشِ خدمت ہیں۔ ان میں دنیا و آخرت، مادہ و روح، تنہائی و اجتماعیت ہر حوالے سے رہنمائی بھی موجود ہے اور تسکین کا سامان بھی۔ کہیں کوئی کجی نادانستگی سے رقم ہوجائے تو سب قصور میرا تصور ہوگا۔ چوں کہ ہر لائن ایک سمندر ہے لہذٰا ہر دفعہ ایک نشست کے تذکرے کی کوشش کی جائے گی۔ جو تبدیل ہونا چاہے تو وہ تبدیلی کے بےپناہ امکانات یہاں بکھرے پائے گا۔ ایک مؤمن کو کیسا ہونا چاہیے، ہمارے اسلاف کیسے ہوتے ہوں گے؟ احمد جاوید کو دیکھ کر معلوم کیا جاسکتا ہے۔ آج کی دنیا پہ قرض ہے کہ وہ اس عبقری سے فائدہ اٹھائے:
نشست ، جون 18، 2010ء
٭ مجاہدہ اس کوشش کو کہتے ہیں کہ اگر کہیں ناکامی ہوجائے تو وہ بھی کامیابی گنی جائے۔
٭ مجاہدہ اصل میں عبادات کے اندر اور فروع میں اطاعت کے اندر ہوتا ہے۔
٭ حکم بغیر محبت کے سزا کے سوا کچھ نہیں اور عبادت اللہ سے محبت کا ذوق پیدا کرتی ہے۔
٭ نماز اچھی نہ ہو تو خطابت بچا نہیں سکتی۔
٭ بڑا آدمی وہ ہے کہ یا تو اس کا ذہن بڑا تصور باندھے یا پھر بڑے تاثرات کو قبول کرے۔
٭ قوموں کی نفسیاتی اقدار دو ہیں، شرم آجائے یا جوش آجائے۔
٭ تہذیبیں خطابت اور نوحہ گری سے نہیں بنتیں۔
٭ ہمارا معاشرہ ہماری تنہائی کی تفصیل ہے۔ تنہائی ہمارے بننے بگڑنے کا اصل کارخانہ ہے۔
٭ (اچھی) تنہائی آخرت کی شہریت بحال رکھتی ہے۔
تبصرہ لکھیے