ثقافت کیا ہے؟ ثقافت کسی خطۂ ِ زمین اور کسی شہر اور بستی کے رہنے والے لوگوں کے عادات و اطوار ، مدتوں کے تجربات سے ماخوذ تصورات ، انہی تجربات ہی سے مقبول و مروج ہونے والی سماجی روایات ، وہاں کے رسوم و رواج سب ثقافت کی تعریف میں آتے ہیں۔ اس ثقافت کا رنگ بعض اوقات مذہب پر بھی غالب آ جاتا ہے اور تمام ثقافتی رسوم و روایات کوe baptizکر کے اور ’کلمہ پڑھا ‘ کرمذہبی تقدس فراہم کر دیا جاتا ہے۔ہمارے شہرہوں یا دیہات، ہر جگہ شادی بیاہ اور موت مرگ کی بہت سی ایسی رسمیں رائج ہیں جو خواہ کیسی ہی اوٹ پٹانگ اور بے معنی ہوں اور ان کا مذہب سے دور پار کا بھی کوئی تعلق نہ ہو لیکن ان کو ادا کرتے وقت ’درود‘ (دعا) کا اہتمام کرنا ضروری سمجھا جاتا ہے۔ گائوں اور محلے کے مولوی صاحب کو ان کے ادا کرنے کا کچھ نہ کچھ نقد یا اجناس کی صورت میںصلہ ضرور ملتا ہے اس لیے وہ نہ صرف یہ کہ ان پر کوئی اعتراض نہیں کرتے بلکہ ان رسموں کو ’کلمہ پڑھانے ‘ اور بڑے سوز اور خضوع و خشوع کے ساتھ ’درود ‘ پڑھنے میں جاہل لوگوں سے بڑھ کر کردار ادا کرتے ہیں۔مہندی اور مائیوں اور اس طرح کی دسیوں تقریبات میں واہیات، حیا سوز اور اخلاق باختہ حرکات اور خلافِ شریعت رسوم سے پہلے مولوی صاحب سے ’درود‘ دلوایا جاتا ہے۔
ہم نے تو یہ بھی دیکھا کہ ایک صاحبِ جائداد آدمی نے اپنے بیٹے کے ختنے کی’ تقریب ‘ اس دھوم دھام سے منائی تھی کہ ساری جائداد اس میں پھونک ڈالی تھی اور شاہانہ انداز میں ’مختون ‘ ہونے والا وہ صاحبزادہ جب بڑا ہواتو بیچارے کے پاس گزر بسر کے لیے بھی زمین اور روپیہ پیسہ نہیں بچا تھا۔ کوڑیوں کا محتاج بن کر اسے وہ گائوں ہی چھوڑنا پڑا تھا۔وہاں سے ساٹھ ستر کلو میٹر دور ایک دوسرے گائوں میں اپنے کچھ عزیزوں کے ہاں جا کر رہنے پر مجبور ہوا اور وہیں بیمار ہو کر مر گیا۔
شادی بظاہر ایک دنیاوی معاملہ ہے لیکن جیسا کہ حدیث میں ہے کہ یہ انبیاء کی سنت ہے اور ایک لڑکی اور لڑکے کے درمیان رفاقتِ حیات کے بندھن کے جائز اور حلال ہونے کے لیے اسلام نے اس کے لیے چندشرائط مقرر کی ہیں۔ایجاب و قبول نکاح کی بنیادی شرط ہے۔ایجاب و قبول کے معاً بعد مرد کی طرف سے بطورِ فرض مہربصورتِ نقد، زیور یا کسی اور مقبول و معروف صورت میں طے ہونا اور مرد کے اپنی نو منکوحہ کے ساتھ ازدواجی تعلق قائم ہونے سے پہلے اس کی ادائیگی مذہب کی رو سے لازم ہے۔پھر نکاح کوخفیہ نہیں بلکہ علانیہ معاملہ قرار دیا گیا ہے ۔لڑکی اور لڑکے کی طرف سے کم از کم دودو گواہ موجود ہونے ضروری ہیں ۔آخری چیز ولیمہ ہے جس کا اہتمام خود نبی ﷺ نے بھی کیا اور اپنے صحابہ ؓ کو بھی تاکید کی ۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ ثقافت ہر جگہ ان تمام مذہبی تقاضوں پر حاوی ہو جاتی ہے ۔بے شمار فضول رسمیں وجود میں آ گئی ہیں جنہوں نے ازدواجی رشتے کے قیام کو لڑکی اورلڑکے والے خاندانوں کے لیے وبال بنا دیا ہے۔آتش بازی ، ڈھول ڈھمکے اور بینڈ باجے اور فضول اور بے ہودہ رسموں میں بے تحاشا اخراجات نے شادی کی دینی روح کو مار کر رکھ دیا ہے۔رشتہ داروں کی مالی حیثیت ہو یا نہ ہو اور وہ دل سے دینا چاہتے ہوں یا نہ چاہتے ہوں مگر ایسے ایسے ’دان ‘ ایجاد کر لیے گئے ہیںجن کا دینا برادری میں ناک رکھنے کے لیے ضروری ہوتا ہے۔کوئی صدقہ زکوٰۃ دے یا نہ دے مگر یہ ’دان‘ سماجی رسموں کاایسا لازمہ بن گئے ہیں جن سے گریز و فرار ممکن نہیں ہوتا ۔
بات صرف شادی بیاہ تک محدود نہیں ہے۔ موت مرگ کے موقعوں کے لیے بھی اس طرح کے ’دان‘ نکال لیے گئے ہیں۔مرنے والے کے لیے شریعت جو کچھ ضروری قرار دیتی ہے وہ حسبِ استطاعت کفن ، جنازہ کی نماز اور دفن تک محدود ہے۔مرنے والے کے لواحقین غم و اندوہ میں ڈوبے ہوئے ہوتے ہیں۔انہیں کھانے پکانے کا ہوش نہیں ہوتا اس لیے اقارب اور پڑوسیوں کا اخلاقی فرض قرار دیا گیا ہے کہ وہ کم از کم دو تین روز تک ان کو کھانا فراہم کریں۔ لیکن ثقافتی رسموں نے الٹا مرنے والے کے غم زدہ لواحقین پر یہ بوجھ ڈال دیا ہے کہ وہ تدفین کے بعد ساری برادری کے کھانے کا اہتمام کریں ۔ اقارب اورلواحقین کے غم کے زخم بھلے مہینوں میں بھی نہ بھریں لیکن اسلامی تعلیم یہی ہے سوگ اور تعزیت تین دن ہی منائیں۔مگر ثقافتی روایت کے مطابق مرحوم یا مرحومہ کے اٹھ جانے کے بعد چالیس روز تک مختلف ناموں سے ایسی تقریبیں جاری رہتی ہیں جن کا خُدا کی شریعت میں کوئی ثبوت ہے اور نہ اجازت۔ ’فاتحہ‘ کے لیے آنے والوں کا سلسلہ توکئی کئی مہینوں تک چلتا رہتا ہے۔اسلام کے مزاج میں یہ لچک ہے کہ یہ جہاں پہنچا وہاں کی مقامی تہذیب و ثقافت کو اس نے یکسر ملیا میٹ نہیں کر دیا۔جو چیزیں روحِ شریعت کے منافی نہیں ہوتیں اور سماجی رشتوں کے استحکام میں مدد دیتی ہیں، اسلام ان کو جذب کر کے اپنی تہذیب کا حصہ بنا لیتاہے ۔ لیکن اُمت میں جب جَہل و ضلالت کا غلبہ ہو ا اور دینی شعور دھندلا گیاتو عیدَین ، ولادتِ نبیﷺ اور محرّم کے حوالے سے مقامی ثقافت کی بہت سی سراسر غیر اسلامی روایات پر ’اِسلامی‘ کا لیبل لگا دیا گیا۔
مغل بادشاہ جہانگیر کی ملکہ نور جہاں کے آباء و اجداد کا تعلق ایران سے تھا۔قدرت نے اسے ظاہری حسن کے علاوہ ذہانت، معاملہ فہمی اور انتظامی صلاحیتوں سے بھی خوب نوازا تھا۔ ان سب سے بڑھ کر وہ اپنے مسلک کے معاملے میں ایک مشنری جذبہ رکھنے والی خاتون تھی۔ جب مغل شہنشاہ کے حرم میں داخل ہوئی تو اسی مشنری جذبے کو بروئے کار لا کر اس نے اپنے مسلک کی تبلیغ کے لیے ایرن سے علماء اور ذاکرین بلانے شروع کیے ۔یہ سلسلہ نور جہاں کی موت کے بعد بھی جاری رہا۔مغلیہ سلطنت مذہب کے لحاظ سے مسلمان اور اپنے مزاج کے اعتبار سے ’سیکولر‘ تھی۔ اورنگزیب کا عہد نکال دیا جائے تواکبر، جہانگیراور شاہجہان بلکہ آخری مغل تاجدار بہادر شاہ ظفر کے عہد تک مذہبیت ’ ثقافت ‘میں دبی رہی۔جب تاج دارانِ اودھ نے شیعہ مسلک اختیار کیا توان میں بھی نور جہاں والا مشنری جذبہ عود کر آیا۔ ایران اور اودھ کے علمی حلقوں میں interaction میں تیزی آ گئی۔عُلماء اور ذاکر مذہبیت سے زیادہ مسلکی رسموں کے اسیر تھے۔ گزشتہ صدی میں ڈاکٹر علی شریعتی نے اپنی تحقیق سے یہ حقیقت دریافت کی تھی کہ شیعہ مسلک نے جو کچھ رائج کر رکھاہے وہ نہ حُب و عقیدتِ اہلِ بیت ہے اور نہ غمِ مظلومینِ کربلا ہے۔سب رسمیں صفوی بادشاہوں کی اختراعات ہیں۔ وہ اختراعات جب اودھ میں پہنچیں توان پر لکھنئو کی مقامی ثقافت کے رسوم و رواج کا رنگ بھی چڑھ گیا۔
نقادانِ فن اس امر پر متفق ہیں کہ اردوشاعری میںمرثیہ کی صنف نے جو ترقی لکھنئو میں کی بر صغیر کا کوئی اور علاقہ اس کامقابلہ نہیں کر سکتا۔ انیس اور دبیر اور ان کے شاگردوںنے اس صنف کو گویا معراج پر پہنچا دیا تھا۔ انیس اور دبیر کے یا کسی بھی دوسرے لکھنوی شاعر کے مرثیے پڑھیں ان میں اتنی زیادہ ’مقامیت ‘ ہے کہ یوں لگتا ہے سانحۂ ِ کربلا عراق میں نہیں بلکہ اودھ ہی کے کسی میدان میں ہوا تھا۔ مرثیہ نگاروں نے شہدائے کربلا کی زبانوں سے جو کچھ کہلوایا یا ان سے منسوب کیااس کی زبان اور طرزِ اظہار و بیان پر لکھنو کی ’مقامیت‘ کا مکمل رنگ چڑھا ہوانظر آتا ہے۔یہ مرثیے ہمیں لکھنوی تہذیب و ثقافت میں گندھے ہوئے نظر آتے ہیں۔
مقامی سطح پر وضع کیے گئے ان طور طریقوں نے شہدائے کربلا کے غم کے اظہار میں ’مقامیت ‘ کوٹ کوٹ کر بھر دی ۔ماتم کا وہی انداز سامنے آیا جو لکھنو اور کسی حد تک شمالی ہند میں ہندو اور مسلمان سب میں تھا۔ کربلا میں ابتلا و آزمائش اور غم و اندوہ سے گزرنے والی اہلِ بیت کی عالی قدر مظلوم بیبیوں کے اظہارات کو بھی ’مقامیت‘ کے اسی رنگ میں رنگ دیا گیا۔ مجھے سوشل میڈیا پر ایک شیعہ عالم کی اس بات پر کوئی تعجب نہیں ہوا کہ عاشورا کے ماتم کی روایات کا مذہب کے مقابلے میںمقامی ثقافتوں سے تعلق زیادہ ہے۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ماتم کے طور طریقوں میں جو نئے انداز سامنے آ رہے ہیں ان سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ جس تیزی کے ساتھ اور جس قدر ثقافتی رسوم میں تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیںاور انسانی مزاجوں میں فرقہ وارانہ تعصبات بڑھ رہے ہیں ان کا عکس ماتم کے طریقوں میں بھی جھلکتا دکھائی دیتا ہے۔یہی نہیں بلکہ حالیہ عرصے میں شرقِ اوسط کے اندر مسلکی آویزشوں میں جو شدت پیداہوئی ہے اس کی جھلک بھی شہدائے کربلا کے ماتم میں در آتی جا رہی ہے۔
تبصرہ لکھیے