Tag: ترقی

  • پاکستان، 2013ء سے 2016ء تک – عمران زاہد

    پاکستان، 2013ء سے 2016ء تک – عمران زاہد

    عمران زاہد دوہزار تیرہ میں نیوزویک نے پاکستان پہ ایک ٹائٹل سٹوری کی کہ دنیا کا سب سے خطرناک ملک عراق نہیں، پاکستان ہے۔ یہ دوہزار تیرہ تھا۔
    :
    آج دوہزار سولہ میں دنیا کا ہر میگزین، چاہے وہ فنانشل ٹائم ہو، اکانومسٹ ہو، وال اسٹریٹ جرنل ہو، یا بلوم برگ ہو ۔۔۔ وہ پاکستان کو ایشیا کی ایک ابھرتی ہوئی معیشت قرار دے رہا ہے۔
    :
    ایک ایسا ملک جو دوہزار تیرہ میں خطرناک ترین ملک تھا اور دوہزار سولہ میں مستقبل کی ابھرتی معیشت ہے۔۔۔ کیا یہ تبدیلی نہیں ہے؟ تبدیلی اور کیا ہوتی ہے؟
    :
    ملک میں بہتری آ رہی ہے۔
    دوہزار تیرہ میں کہا جا رہا تھا کہ پاکستان دوہزار چودہ میں دیوالیہ ہونے والا ہے۔ لیکن آج دنیا کا ہر مستند معاشی ادارہ پاکستان کی معاشی کایا پلٹ کے حق میں رطب اللسان ہے۔
    :
    الحمدللہ ۔۔۔پاکستان آگے بڑھتا چلا جا رہا ہے۔
    :
    اس سال پاکستان کی نمو شرح پچھلے آٹھ سالوں میں سب سے زیادہ 4.8 فیصد ہے۔ اگلے سال ہم ان شاءاللہ 5 فیصد سے آگے جانے کے لئے پرامید ہیں اور اس سے اگلے سال شرح نمو 6 فیصد تک لے کے جائیں گے۔ ان شاءاللہ۔
    :
    پاکستان کے پاس اس وقت اپنی تاریخ کے سب سے زیادہ فارن ریزرو موجود ہیں۔
    دوہزار تیرہ میں پاکستان بدامنی اور دہشت گردی کی گھٹاٹوپ میں چھپا ہوا تھا۔ بیرونی سرمایہ کار پاکستان میں آتے ہوئے گھبراتے تھے۔ آج پاکستان بدامنی اور دہشت گردی کی عفریت پر قابو پا چکا ہے۔ حالات کا دھارا مکمل طور پر بدلا جا چکا ہے۔
    :
    پاکستان کو دنیا کے innovation map پر جگہ دلانے کے لئے نوجوانوں کو دن رات کام کرنا ہو گا۔ پاکستان پہلے ہی ای-لانسنگ کے شعبے میں دنیا کا چوتھا بڑا ملک بن چکا ہے۔
    :
    پاکستان اس وقت لامتناہی مواقع کی سرزمین بن چکا ہے۔ سی پیک کی صورت میں پچاس بلین ڈالر سے زائد کی سرمایہ کاری پاکستان میں ہو رہی ہے۔ یہ سرمایہ کاری پاکستان کے سب سے قابلِ اعتماد اور آزمودہ دوست چین نے اس وقت کی جب دنیا کا کوئی ملک پاکستان میں دس ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے سے بھی ہچکچا رہا تھا۔
    :
    1947 سے لیکر 2013 تک تقریباً ستر سالوں میں پاکستان صرف سولہ یا سترہ ہزار میگا واٹ بجلی بنا رہا تھا ۔۔ لیکن گزشتہ تین سالوں میں ہم گیارہ ہزار میگا واٹ کے قریب بجلی کی پیداواری استعداد کا اضافہ کیا ہے۔
    :
    سب سے زیادہ سرمایہ کاری توانائی، رسل و رسائل اور انفراسٹرکچر (سڑکوں، ریلوے وغیرہ) پر ہو رہی ہے۔ یہاں پر ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ انہیں صرف سڑکیں ہی بنانا آتا ہے ۔۔ ان عقل کے اندھوں کو نہیں پتہ کہ تعلیم بھی سڑک کے اوپر چل کر آتی ہے، صحت بھی سڑک کے اوپر سے چل کر آتی ہے، کاروبار بھی سڑک پر چل کر آتا ہے اور ترقی اور خوشحالی بھی سڑک کے اوپر سے چل کر آتی ہے۔
    :
    جہاں سڑک نہیں ہو گی، وہاں سکول کیسے کھلے گا، وہاں استاد کیسے جائے گا؟ جہاں راستہ نہیں ہو گا، وہاں ہسپتال کیسے کھلے گا؟ دنیا کے تمام ممالک جو ترقی کے معراج پر پہنچے ہیں انہوں نے سب سے پہلے نئے راستے بنائے ۔۔۔ علاقوں کو ایک دوسرے سے مربوط کیا ۔۔۔ مجھے یہ بتاتے ہوئے خوشی ہو رہی ہے کہ سی پیک کے ذریعے پاکستان کے پسماندہ ترین علاقوں کو ترقی اور خوشحالی کے راستے سے منسلک کیا جا رہا ہے۔ ستر سالوں میں پہلی دفعہ گوادر کی بندرگاہ ساڑھے چھ سو کلومیٹر سڑک کے ذریعے کوئٹہ سے منسلک کی جا رہی ہے۔ بہت سے پچھڑے ہوئے علاقے اس سڑک کے ذریعے باقی پاکستان سے ملا دیے جائیں گے۔ بندرگاہ سے سامان کوئٹہ اور وہاں سے افغانستان، وسطی ایشیا اور دوسرے ممالک میں بھیجا جائےگا۔ پاکستان میں یہ سب تبدیلیاں ہو رہی ہیں۔
    :
    ہمارے نوجوانوں کو اس اہم موقع کو اپنے امکانات کی نظر سے دیکھنا ہے۔ انہیں اس میں سے اپنے لئے نئے مواقع تلاش کرنے ہیں۔ پسماندہ علاقوں کو اس سڑک سے منسلک کرنے سے نئے مواقع پیدا ہو رہے ہیں۔ چین کے صنعتوں کے پیداواری اخراجات بتدریج بڑھ رہے ہیں۔ دنیا کے بزنس سائیکل سے یہ پتہ چلتا ہے کہ ایک خاص وقت میں آ کر ملکوں کے پیداواری اخراجات بڑھنا شروع کر دیتے ہیں۔ تب وہ ہائی ویلیو انڈسٹری میں چلے جاتے ہیں اورزیادہ پیداواری اخراجات والی لیبر انٹنسو انڈسٹری کو ان ممالک میں منتقل کر دیتے ہیں جہاں پیداواری اخراجات نسبتاً کم ہوتے ہیں۔ چین کے پاس سرمایہ بھی ہے اور ٹیکنالوجی بھی ہے جبکہ سی پیک کی وجہ سے پاکستان اپنے محل وقوع اور پسماندہ علاقوں کو مربوط کرکے کم پیداواری اخراجات کے حوالے سے اہمیت رکھتا ہے۔
    :
    سی پیک ہمیں تین بڑے خِطوں سے ملا دیتا ہے۔ پاکستانی تاجروں کو اس موقع سے فائدہ اٹھانا چاہیے اور چین، افغانستان اور وسطی ایشیا میں نئے رابطے اور کاروباری دوست تلاش کرنے چاہیئں۔ اگر سیاسی حالات بہتر ہوتے ہیں تو جنوبی ایشیا میں بھی کاروباری ساتھی تلاش کرنے چاہیئں۔ اس پورے خطے میں پاکستان کو پروڈکشن اور سروسز کا ایک حب بنایا جا سکتا ہے۔
    :
    پس نوشت: نوٹ: یہ سب وہ باتیں ہیں جو وفاقی وزیر احسن اقبال نے یونیورسٹی آف مینیجمنٹ اینڈ ٹیکنالوجی کے زیرِ اہتمام انٹرنیشنل بزنس کانفرنس اینڈ ایگزیبیشن 2016 کی تقریب میں کیں اور مجھے بہت پسند آئیں، البتہ نیوزویک کی پاکستان کے خلاف سٹوری 2007 میں چھپی تھی، احسن اقبال صاحب سہواً 2013 کہہ گئے۔ اس تقریب کا اہتمام ایکسپو سنٹر لاہور میں کیا گیا۔

  • کیا مذہب ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے؟ مفتی منیب الرحمن

    کیا مذہب ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے؟ مفتی منیب الرحمن

    پروفیسر مفتی منیب الرحمن گزشتہ کچھ عرصے سے ہمارے لبرل دانشوروں کو کوئی اور پرکشش موضوع ہاتھ نہ آئے تو مذہب اور اہلِ مذہب کی خبر گیری اور اصلاح کے درپے ہوجاتے ہیں۔ وہ یہ باور کراتے ہیں کہ ہماری تمام تر ناکامیوں اور زوال کے ذمے دار مذہبی طبقات ہیں اور مذہب ہی ہماری ترقی میں رکاوٹ ہے۔ پھر اچانک انہیں خیال آتا ہے کہ اجتہاد کا دروازہ بند کر دیا گیا ہے اورجمود طاری ہے، حالانکہ علامہ اقبال نے کہا تھا: اجتہاد جاری رہنا چاہیے۔

    اصلاح کے اس مشن کے عَلَمبردار دانشوروں کے لیے یہ جاننا بھی ضروری نہیں ہے کہ اجتہاد کا معنی و مفہوم کیا ہے، اس کی ضرورت کب پیش آتی ہے اور اس کے لیے کس طرح کی علمی قابلیت اور اہلیت درکار ہے۔ پہلا سوال تو یہ ہے کہ ترقی سے کیا مراد ہے، اگر اس سے مادّی، سائنسی، علمی، معاشی اور سماجی ترقی مراد ہے، تو اس میں مذہب کہاں رکاوٹ بنتا ہے۔ کیا مذہب یا اہل مذہب نے کبھی آپ سے مطالبہ کیا ہے کہ آپ یونیورسٹیاں، کالج اور جدید علوم پر مشتمل اعلیٰ تعلیمی، تحقیقی اور تربیتی ادارے قائم نہ کریں۔ کیا آپ کی نظر میں سائنس اور مذہب کا کہیں ٹکراؤ ہے؟ کیا ہماری یونیوسٹیوں میں عالمی سطح کا تحقیقی کام اس لیے نہیں ہو رہا کہ ہم مسلمان ہیں یا اہلِ مذہب ہیں؟ کیا صنعتی ترقی کی راہ میں مذہب حائل ہوگیا ہے یا اہلِ مذہب نے اس کا راستہ بند کردیا ہے؟

    سو جب تک ہم اپنے مسائل کا حقیقت پسندانہ انداز میں تجزیہ نہیں کریں گے، اُن کا تشفّی بخش حل بھی ہمیں سجھائی نہیں دے گا۔ ہماری نظر میں جدید سائنسی، فنی، طبی، معاشی، سماجی، ادبی، بحریات، فلکیات، ارضیات، حیاتیات، حیوانیات اور خلائی تحقیقات سمیت کسی شعبہ علم کا مذہب سے کوئی تعارض نہیں ہے، البتہ اتنی سی بات ہے کہ اسلام مالیاتی شعبے میں رِبا کی حرمت کا قائل ہے اور ادبی و سماجی علوم میں اخلاقی اَقدار کا عَلَم بردار ہے۔ پھر ریاستی وسائل جن تعلیمی شعبوں اور اداروں پر خرچ ہوتے ہیں، وہ سب کے سب جدیدیا عصری علوم سے متعلق ہیں اور اُن میں سے کسی کی باگ ڈور علماء کے ہاتھ میں نہیں ہے۔ حیرت کا مقام ہے کہ کسی شعبے میں کامیابی مل جائے تو اُس کا افتخار آپ کے حصے میں آئے اور ناکامی ہو تو اُسے مذہب کے سر تھوپ دیا جائے۔

    ہمارے ہاں تو حال یہ ہے کہ کئی جدید علوم کے حامل پروفیسر، دانشور اور مذہبِ انسانیت کے دعوے دار پاکستان کے ایٹمی دھماکے اور ایٹم بم بنانے کے شدید مخالف تھے اور اس میں وہ امریکہ اور اس کے حلیف ممالک کے ہم نوا تھے، جبکہ کسی مذہبی شخصیت نے نہ صرف یہ کہ اس کی مخالفت نہیں کی بلکہ سب یک زباں ہوکر اس کی پرزور تائید کرتے رہے ہیں۔ آج پاکستان کے پاس ایٹمی صلاحیت اور ایٹم بم کا وجود ہی ظاہری اسباب کے تحت سدِّ جارحیت کا سب سے مؤثر ذریعہ یعنی Deterrent ہے۔ یہ امر مسلّم ہے کہ جذبہ جہاد اور شوقِ شہادت کا کوئی بدل نہیں ہے، مگر ہم عالَمِ اسباب میں جی رہے ہیں اور اگر ظاہری اسباب کی کوئی حیثیت نہ ہوتی تو آج امریکہ بلاشرکتِ غیرے دنیا پر اپنی شرائط کیسے مسلّط کرتا۔
    درپیش مسائل میں اجتہاد کی اجازت خود رسول اللہ ﷺ نے عطا فرمائی ہے:
    ’’رسول اللہ ﷺ نے جب معاذ بن جبل کو یمن کی طرف حاکم بنا کر بھیجنے کا ارادہ کیا تو فرمایا: جب تمہارے سامنے کوئی مقدمہ پیش ہوگا تو کس طرح فیصلہ کروگے؟ انہوں نے عرض کی: کتاب اللہ سے فیصلہ کروں گا، آپ ﷺ نے فرمایا: اگر تمہیں درپیش مسئلے کا جواب کتاب اللہ میں نہ ملے تو (کیا کرو گے؟)، انہوں نے عرض کی: رسول اللہ ﷺ کی سنت کی روشنی میں فیصلہ کروں گا، آپ ﷺ نے فرمایا: اگر تمہیں اس کا جواب کتاب اللہ اور سنتِ رسول اللہ (دونوں) میں نہ ملے، (تو کیا کرو گے؟)، انہوں نے عرض کی: پھر میں اپنی رائے سے اجتہاد کروں گا اور (کسی اورجانب) مڑ کر نہیں دیکھوں گا، پھر رسول اللہ ﷺ نے اُن کے سینے پر ہاتھ مارا اور فرمایا: اللہ کا شکر ہے کہ اُس نے اپنے رسول کے نمائندے کو ایسی توفیق عطا فرمائی جو رسول کی رضا کا باعث ہے. (ابودائود: 3592)‘‘۔
    قرآنِ مجید میں سورۃ الانبیاء،آیت:78میں ایک مقدمے کے حوالے سے حضرتِ داؤد وسلیمان علیہما السلام کے اجتہادی فیصلے مذکور ہیں، اُن میں سے ایک کو ہم ’’حَسَن‘‘اور دوسرے کو ’’اَحسن‘‘ سے تعبیر کرسکتے ہیں۔ اسی طرح حالتِ احرام میں شکار کے حوالے سے المائدہ:95 میں اللہ تعالیٰ نے مُحرِم پر فدیے کے حوالے سے فرمایا: دو مُنصِف اس کا فیصلہ کریں، ظاہر ہے اُن کا یہ فیصلہ اجتہاد پر مبنی ہوگا۔ دین کا اصول یہ ہے کہ جن امور کے بارے میں قرآن و سنت میں صریح نصوص اور احکام موجود ہیں، اُن کے بارے میں اجتہاد کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ البتہ غیر منصوص مسائل میں اجتہاد کی گنجائش موجود ہے، ائمہ کرام کے اجتہادات اسی اصول کے تحت آتے ہیں۔ مزید یہ کہ اجتہاد مقاصدِ شرعیہ کو حاصل کرنے کے لیے ہوتا ہے، باطل کرنے کے لیے نہیں، ورنہ اللہ تعالیٰ کے حکم کو رد کرنے کے لیے تو ابلیس نے اجتہاد ہی کیا تھا، قرآنِ مجید میں ہے:
    (1)’’اللہ تعالیٰ نے فرمایا: (اے ابلیس!) جب میں نے تجھے (آدم کو) سجدہ کرنے کا حکم دیا، تو تم کو سجدہ کرنے سے کس چیز نے روکا تھا؟، اُس نے کہا: میں اُس سے بہتر ہوں، (اے اللہ!) تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا ہے اور اُس کو مٹی سے پیدا کیا ہے، (اعراف:12)‘‘۔
    (2)اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’(اے ابلیس!) تجھے کیا ہوا کہ تو نے سجدہ کرنے والوں کا ساتھ نہیں دیا؟، اُس نے کہا: میں ایسے بشر کو سجدہ کرنے والا نہیں ہوں، جس کو تو نے بجتی ہوئی خشک مٹی کے سیاہ سڑے ہوئے گارے سے پیدا کیا ہے، (الحجر: 32-33)‘‘۔
    سو ابلیس کا یہ اجتہاد اللہ تعالیٰ کے حکم کو رد کرنے کے لیے تھا اور جو اجتہاد اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسولِ مکرم ﷺ کے صریح حکم کو رد کرنے کے لیے کیا جائے، وہ باطل ہوگا۔

    ہمارے بعض تجَدُّد پسند دوست کہتے ہیں کہ اجتہاد پارلیمنٹ کرے گی، سادہ سا سوال ہے کہ ہماری پارلیمنٹ جن عناصرِ ترکیبی کا مجموعہ ہے، کیا اُن میں کتاب وسنت سے احکام مستنبط کرنے اور اجتہاد کرنے کی صلاحیت موجود ہے؟ ہمارے دستور میں قوانین کے کتاب و سنت کے مطابق ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ کرنے کے لیے ایک آئینی ادارہ ’’اسلامی نظریاتی کونسل پاکستان ‘‘ قائم کیا گیا ہے، لیکن پارلیمنٹ کے پاس فرصت ہی نہیں ہے کہ اِس ادارے کی سفارشات پر غور کرے، ان پر بحث کرے اور ان کی منظوری دے۔ اگر پارلیمنٹ کو کسی قانون کے بارے میں شرحِ صدر نہ ہو تو نظرِثانی کےلیے دوبارہ اسلامی نظریاتی کونسل پاکستان کو بھیج سکتی ہے۔ ہمارے میڈیا میں بیٹھے ہوئے خود ساختہ (Pseudo) ماہرین زبان اور قلم کے زور پریہ اختیار خود ہی حاصل کرلیتے ہیں، وہ جس شعبے میں چاہیں، اپنے شوقِ اجتہاد کو پورا کر سکتے ہیں، ہر ایک کی نفی کرسکتے ہیں۔ ہر ایک کی تجہیل و تحقیر اُن کا پسندیدہ مشغلہ ہے۔ ہاں! جب وہ اسکرین سے آف ہوجائیں تو پھر ہم جیسے انسان ہوتے ہیں، لیکن جب تک اسکرین پر براجمان ہوں، تو پھر ماورائی مخلوق ہوتے ہیں۔

    یقینا ہمارے مذہبی طبقات میں بھی کمزوریاں ہیں، کیونکہ وہ بھی اِسی سرزمین کی پیداوار ہیں اور ہمارے مجموعی قومی مزاج سے بالاتر نہیں ہیں، ماسوا اِس کے کہ کسی فرد یا افراد پر اللہ تعالیٰ کا خصوصی کرم ہوجائے، کیونکہ مستثنیات ہر طبقے میں ہوتی ہیں۔ فقہی اعتبار سے سحر و افطار کے اوقات میں معمولی تقدیم و تاخیر یا بعض نمازوں کے اوقات میں معمولی فرق ہماری علمی و سائنسی اور صنعتی و معاشی ترقی میں رکاوٹ پیدا نہیں کرتا۔ بعض دوستوں کو ہمیشہ دینی مدارس اور اہلِ مدارس سے گِلہ رہتا ہے، یقینا مدارس کے نظام میں بھی خامیاں اور کمزوریاں موجود ہیں اور اُن کی اصلاح اور معیار کی بہتری کے لیے کوشش جاری رہنی چاہیے اور اصلاح کی راہ میں رکاوٹ نہیں ہونی چاہیے۔

    لیکن حال ہی میں فیڈرل سروس کمیشن آف پاکستان نے سی ایس ایس یعنی سینٹرل سپیریر سروسز آف پاکستان کے امتحانات کے تحریری نتائج کا اعلان کیا ہے۔ پورے پاکستان سے 9643 طلبہ تحریری امتحان میں شریک ہوئے اور صرف 202 پاس ہوئے اور نتیجے کی شرح 2.09 فیصد رہی، اللہ ہی جانے کہ زبانی انٹرویو کے بعد اِن میں سے کتنے سرخرو ہوتے ہیں۔ یہ امر بھی ذہن میں رہنا چاہیے کہ ملک بھر سے ذہین طلبہ بھرپور تیاری کر کے مقابلے کے اِن امتحانات میں شریک ہوتے ہیں اور پھر یہی ہماری بیوروکریسی کی ریڑھ کی ہڈی بنتے ہیں۔ اِس سے ہمارے تعلیمی زوال کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے، لیکن اس کا ملبہ مدارس پر نہیں ڈالا جاسکتا، اس کے ذمہ دار ہمارے عصری تعلیم کے اسکول سے لے کر یونیورسٹی کی سطح تک کے ادارے ہیں، جن میں طرح طرح کے پرائیویٹ انگلش میڈیم ادارے بھی شامل ہیں۔ اِسی طرح حال ہی میں انٹرمیڈیٹ اور سیکنڈری تعلیمی بورڈز کے نتائج کے اعلانات ہوئے، کراچی کے نتائج بھی مُشتَبہ قرار پائے اور یہی صورتِ حال پنجاب کے مختلف بورڈز کے نتائج کی ہے۔

    ہمارا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ہم ناکامیوں کا ملبہ ایک دوسرے پر ڈال کر بریُ الذِّمہ ہوجائیں، نہ ہی ہم دوسرے کی ناکامی کو جواز بنا کر سرخرو ہوسکتے ہیں، ہر ایک کو اپنا حساب دینا ہے، کیونکہ ہم ایک ملّت اور ایک قوم ہیں۔ کسی بھی شعبے میں کامیابی سب کی کامیابی ہے اور ناکامی کا وبال بھی سب کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔ آج کل ہم قومی سطح پر بھی انتشار کا شکار ہیں اور سیاسی قیادت اپنی اجتماعی دانش سے مسائل کا حل نکالنے میں ناکام ہے، اور ایسے عالَم میں کہ ہر جانب سے ہماری سرحدوں پر حالات حسّاس ہیں، ہمیں آپس کی جوتم پیزار سے ہی فرصت نہیں ہے۔

  • پاکستان کی ترقی میں بنیادی رکاوٹ – کفیل احمد صدیقی

    پاکستان کی ترقی میں بنیادی رکاوٹ – کفیل احمد صدیقی

    کفیل احمد صدیقی جب بھی ترقی کی بات ہوتی تو ہمیں اس میدان میں اپنا مقام بہت پیچھے نظر آتا ہے۔ ترقی کی شاہراہ پر ہماری سواری ایک انجانی سی حیثیت رکھتی ہے۔ لیکن اس کی وجہ کیا ہے، کہ ہم اس شاہراہ کو عبور کرنے سے پیچھے ہیں؟ کوئی اس کا الزام ہماری سیاست کے سر کرتا ہے، اور کوئی احکام ِشریعہ کی پاسداری کو قصور وار سمجھتا ہے، کسی کے نزدیک پردہ ترقی میں حائل ہے اور کوئی داڑھی، ٹوپی کو اس کی وجہ کہتا ہے۔ کوئی کہتا ہے کہ ہمارا تعلیمی نظام درست نہیں، اور کوئی ماحول کو بُرا بتلاتاہے۔ کسی کی نظر میں ہمارے سیاستدان نااہل ہیں، اور کوئی مدارسِ دینیہ کوسب سے بڑی رُکاوٹ گردانتا ہے۔

    میرے خیال سے اس کی بنیادی وجہ ہماری تعلیم ہے۔ تعلیم کا لفظ پڑھتے ہی بہت سے ذہنوں نے نظامِ تعلیم کی طرف سبقت کی ہوگی، لیکن اصل خرابی اس نظام میں نہیں، بلکہ اس نظام سے منسلک ہم طلبہ کے حصولِ تعلیم کے مقاصد میں ہے۔ ہمارے ہاں ایک سوال بہت مشہور ہے جو کہ بچوں سے کیا جاتا ہےکہ یٹا بڑے ہو کر کیا بنو گے؟ بچپن میں اس سوال کی حقیقت سے انجان بچے بڑی خوشی خوشی جواب دیتے ہیں کہ میں ڈاکٹر بنوں گا، میں انجینیر بنوں گا، میں سائنسدان بنوں گا، اور اس وقت ان کےاس سوال کے مفہوم سے نا آشنا ذہن ، بڑے پختہ عزم کے ساتھ کہہ رہے ہوتے ہیں کہ میں پائلٹ بنوں گا، میں فوج میں جاؤں گا، اور میں لوگوں کی خدمت کروں گا، لیکن کچھ ہی عرصہ کے بعد جب حقیقی تعلیمی زندگی میں قدم رکھنے کے لیے اپنی فیلڈ اور کسی خاص پروفیشن کا انتخاب کرنا پڑتا ہے، تو اس چناؤ میں ملک و قوم کی فلاح و بہبود اور ترقی کوایک طرف رکھ کر صرف اس بات کو مدّ نظر رکھا جاتا ہے کہ کس فیلڈ میں زیادہ اسکوپ ہے، اورکون سی فیلڈ روزگار میں زیادہ مددگار ثابت ہوگی۔ بچپن میں ملک و قوم کے لیے کیےسارے عہد و پیمان ایک خوشگوار یاد کی طرح ذہن کے کسی کونے میں دَفن ہوجاتے ہیں۔ اور حصول تعلیم کا صرف ایک ہی مقصد طے پاتا ہے۔ افسوس کہ ہمارے مشیر حضرات کے بھی تمام مشورے اسی بنیاد پر ہوتے ہیں، اور یہیں سے ہمارے نزول کی ابتداء ہوتی ہے۔

    پھر جب اسی سوچ کے ساتھ تعلیمی مراحل سے گزر کر عملی میدان میں قدم رکھتے ہیں تو یہ فیلڈ اور پروفیشن کا لفظ بھی ختم ہو جاتا ہے، اور اب صرف ایک ہی مقصود باقی رہتا ہے، اور وہ ہے پیسے کمانا۔ اس قسم کی سوچ کے ساتھ پروان چڑھنے والا شخص صرف ایک ہی سوچ لے کر جوان ہوتا ہے، اور اس مقصد کے حصول کے لیے ہر حلال، حرام، جائز، ناجائز، صحیح، غلط راستے اختیار کرنے سےگریز نہیں کرتا۔ اور چھوٹی موٹی ہیرا پھیری سے لے کر بڑی سے بڑی کرپشن کرنے سے نہیں کتراتا، اس مقصد کے حصول کے لیے اگر ملک کی نیلامی بھی کرنی پڑے تو کوئی پرواہ نہیں کرتا، اور پھر ملک کو منی لانڈرنگ، پانامہ پیپرز اور کرپشن جیسے مختلف عذابات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

    جو چند گنےچنے لوگ اس ملک کو ترقی کے تھوڑا قریب لے کر آئے ہیں، وہ بھی اسی تعلیمی نظام سےگزرے تھے، تعلیمی نظام کو کوسنے سے کہیں بہتر ہے کہ اپنےحصولِ تعلیم کے مقصد کو تبدیل کریں، جب ترقی کی بنیادی سیڑھی پر درستگی کے ساتھ قدم رکھا جائےگا تو باقی ساری منازل بآسانی طے ہوتی چلی جائیں گی، اور ہم بھی ترقی کی راہ پر دوسروں کی رفتارکے ساتھ سفر کر سکیں گے۔

  • بدلتا ہوا بلوچستان-جاوید چوہدری

    بدلتا ہوا بلوچستان-جاوید چوہدری

    566527-JavedChaudhryNew-1469464911-239-640x480

    بلوچستان یونیورسٹی  کے وائس چانسلرپروفیسر ڈاکٹر جاویداقبال بہت بڑی کیس اسٹڈی ہیں‘ وفاقی حکومت کو یہ کیس اسٹڈی پی آئی اے‘ پاکستان اسٹیل مل اور پاکستان ریلوے جیسے تمام مریض اداروں کو پڑھانی چاہیے‘ یہ اسٹڈی ثابت کر دے گی اگروِل ہو‘ آپ اگر میرٹ پر تقرری کریں‘ آپ اختیارات دیں اور آپ کام میں مداخلت نہ کریں تو ادارے بھی اپنے قدموں پر کھڑے ہو جاتے ہیں۔
    >
    بلوچستان یونیورسٹی 2013ء تک پاکستان کا خوفناک ترین ادارہ تھا‘ کیمپس میں مسلح جتھے کھلے عام پھرتے تھے‘ یہ اساتذہ کو سرعام گولی مار دیتے تھے اور کسی میں لاش اٹھانے کی جرأت نہیں ہوتی تھی‘ ہڑتال عام تھی‘ طالب علم امتحان کے بغیر پاس ہو جاتے تھے‘ ہاسٹلوں پر قبضے تھے‘ بجلی اور گیس کے میٹر کٹے ہوئے تھے‘ یونیورسٹی میں پاکستان کا نام لینا جرم تھا‘ جھنڈا لہرانے یا پاکستان زندہ باد کہنے والوں کو گولی مار دی جاتی تھی اور یونیورسٹی کے ملازمین کی تنخواہیں رک چکی تھیں۔

    آپ کو شاید یہ جان کر حیرت ہو گی بلوچستان یونیورسٹی دنیا کی واحد یونیورسٹی تھی جس کے اساتذہ نے 2013ء میں یونیورسٹی گاؤن پہنے‘ ہاتھوں میں کشکول اٹھائے اور بھیک مانگنے کے لیے سڑک پر کھڑے ہو گئے اور لوگوں نے انھیں باقاعدہ بھیک دی‘ یونیورسٹی کے زیادہ تر پروفیسر اس دور میں کراچی‘ لاہور اور اسلام آباد نقل مکانی کر گئے لیکن پھر یہ یونیورسٹی بدل گئی‘ یہ تعلیم کا گہوارہ بن گئی‘ طالب علم تین ہزار سے11 ہزار6 سو ہو چکے ہیں‘ پی ایچ ڈی اساتذہ کی تعداد 180 ہے اور ان میں 135 فارن کوالی فائیڈ ہیں‘ یہ لوگ امریکا اور یورپ کی نامور یونیورسٹیوں سے پی ایچ ڈی کر کے کوئٹہ آئے ہیں۔

    آپ یونیورسٹی میں جس سے ہاتھ ملاتے ہیں وہ ڈاکٹر نکلتا ہے اور اس کے پاس ہارورڈ‘ آکسفورڈ اور ہائیڈل برگ کی ڈگری ہوتی ہے‘ یونیورسٹی میں چار سو طالب علم ایم فل کر رہے ہیں‘ پی ایچ ڈی پروگرام بھی فل سوئنگ میں چل رہا ہے‘ آپ کو یونیورسٹی کے لباس‘ چال ڈھال اور اطوار کسی بھی طرح پنجاب اور سندھ کی بڑی یونیورسٹیوں سے کم دکھائی نہیں دیتے‘ لائبریری بڑی اور خوبصورت ہے‘ یہ رات تک آباد رہتی ہے‘ نوجوانوں کو نشست نہ ملے تو یہ فرش پر بیٹھ کر پڑھنا شروع کر دیتے ہیں۔

    کیمپس میں پاکستان زندہ باد کے نعرے بھی لگتے ہیں اور پاکستان کا پرچم بھی لہراتا ہے‘ یونیورسٹی اپنے اخراجات کا 39 فیصد خود پیدا کر رہی ہے‘ وہ ادارہ جس کاسٹاف کشکول لے کر سڑک پر کھڑاتھا اس کے اکاؤنٹ میں اب نصف ارب روپے جمع ہیں اور یہ اچھے طالب علموں کو فیسیں واپس کر رہا ہے ‘ آپ کو شاید یہ جان کر بھی حیرت ہو گی یہ ملک کی واحد یونیورسٹی ہے جو اپلائی کرنے والے تمام طالب علموں کو داخلہ دے دیتی ہے‘ یہ معجزہ کیسے ہوا اور یہ کتنی مدت میں ہوا؟ یہ سوال اصل کیس اسٹڈی ہے۔

    یہ معجزہ وائس چانسلر ڈاکٹر پروفیسر جاوید اقبال نے صرف دو سال میں کیا‘ ڈاکٹر جاوید اقبال فارما سسٹ ہیں‘ یہ بلوچستان یونیورسٹی کے طالب علم بھی تھے اور یہ یہاں پڑھاتے بھی رہے‘ یہ خاندان سمیت کراچی شفٹ ہو گئے تھے‘ حکومت نے 2013ء میں دہشت گردی سے نبٹنے کا فیصلہ کیا‘ لیفٹیننٹ جنرل ناصر جنجوعہ کو کوئٹہ کا کور کمانڈر بنایا گیا‘ انھیں مکمل اختیارات دیے گئے‘ یہ وژنری اور ان تھک انسان ہیں‘ یہ آگے بڑھے‘ کام شروع کیا۔

    بلوچوں کے مسائل سنے اور ان مسائل کا حل تلاش کرنے لگے‘ میں دو دن کوئٹہ رہا‘ میں نے ان دو دنوں میں جنرل ناصر جنجوعہ کا نام ہر زبان سے سنا‘ یہ محبت ثابت کرتی ہے جب فیصلے میرٹ پر ہوتے ہیں تو لوگ قومیت اور لسانیت دونوں سے بالاتر ہو کر خدمات کا اعتراف کرتے ہیں‘ میری جنرل جنجوعہ سے صرف ایک ملاقات ہے‘ یہ ملاقات سری لنکا میں ہوئی‘ میں نے جنرل صاحب سے عرض کیا‘ آپ کی آنکھیں آپ کے چہرے کے تاثرات سے میچ نہیں کرتیں‘ وہ بولے ’’کیسے؟‘‘ میں نے عرض کیا ’’آپ کے چہرے پر سنجیدگی لیکن آنکھوں میں شرارت ہوتی ہے‘‘ انھوں نے قہقہہ لگایا‘ مجھے کوئٹہ میں آ کر معلوم ہوا یہ بلوچستان میں بہت مقبول ہیں‘ لوگ دل سے ان کا احترام کرتے ہیں۔

    مجھے یہاں آ کر محسوس ہوا حکومت بلوچستان کے معاملے میں بہت سنجیدہ ہے‘ یہ جان چکی ہے ہم نے اگر دوریاں ختم نہ کیں تو بلوچستان ہمارے ہاتھ سے نکل جائے گا‘ ہماری حکومت جان چکی ہے بھارت اور امریکا بلوچستان میں دہشت گردی کے لیے بھاری سرمایہ کاری کر رہے ہیں‘ یہ بلوچستان کو پاکستان سے توڑنا چاہتے ہیں اور ہم اگر ملک کو سلامت دیکھنا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں بلوچوں سے اپنا دل جوڑنا ہو گا اور جنرل ناصر جنجوعہ نے یہ کام کیا چنانچہ لوگ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی انھیں یاد کر رہے ہیں‘ یہ کوئٹہ میں ہیرو کی طرح پہچانے جاتے ہیں‘ ڈاکٹر جاویداقبال بھی جنرل ناصر جنجوعہ کی دریافت تھے‘ یہ انھیں واپس کوئٹہ لائے اور بلوچستان یونیورسٹی ان کے حوالے کر دی۔

    ہمارے ملک کی تاریخ ہے ہم نے جس ادارے کو تباہ کر دیا وہ ادارہ دوبارہ قدموں پر کھڑا نہیں ہو سکا لیکن بلوچستان یونیورسٹی استثنیٰ ہے‘ یہ مکمل طور پر تباہ ہوئی اور پھر دوبارہ کھڑی ہو گئی‘ یہ بالکل ایسے ہے جیسے کوئی شخص فوت ہو جائے‘ اسے کفن پہنا کر قبر میں دفن کر دیا جائے اور یہ دوبارہ زندہ ہو جائے‘ بلوچستان یونیورسٹی ایک ایسا معجزہ ہے۔

    میں 28 اکتوبر کی صبح بلوچستان یونیورسٹی گیا‘ گیٹ پر پہرے تھے‘ دیواریں قلعہ نما تھیں اور ان پر درجنوں کیمرے لگے تھے‘ وائس چانسلر کی حفاظت کے لیے خصوصی انتظامات ہیں‘ یہ گھر سے نکلتے ہیں یا یونیورسٹی سے گھر جاتے ہیں تو ان کے آگے پیچھے ‘دائیں بائیں ایف سی کی گاڑیاں چلتی ہیں‘ یہ یونیورسٹی کے اندر بھی گارڈز کے نرغے میں رہتے ہیں۔

    ڈاکٹر صاحب اپنی پشت پر لوڈڈ پستول بھی لگائے رکھتے ہیں اور دفتر میں ان کی میز کے نیچے کلاشنکوف ہوتی ہے‘ میں نے ان انتظامات کے بارے میں پوچھا تو ڈاکٹر صاحب نے بتایا ’’ مجھے چار گروپوں کی طرف سے دھمکیاں مل رہی ہیں‘ ملک کے دشمن یہ سمجھتے ہیں میں نے بند یونیورسٹی کھول کر ان کے ایجنڈے کو نقصان پہنچایا اور ہم لوگ بلوچستان کو زندہ کر رہے ہیں‘ یہ لوگ ہمارے صوبے کو برین لیس کرنا چاہتے ہیں‘ یہ ڈاکٹروں اور وکلاء کو ختم کرتے چلے جا رہے ہیں‘ یہ اس کے بعد پروفیسروں کو نشانہ بنائیں گے۔

    ہمارے پاس ملک کی سب سے بڑی اور مضبوط فیکلٹی ہے‘ یہ لوگ اس فیکلٹی کو اڑانا چاہتے ہیں چنانچہ میں اپنے اساتذہ کی حفاظت بھی کر رہا ہوں اور اپنی بھی‘ میں انھیں بتا دینا چاہتا ہوں‘ میں بطخ کی طرح نہیں مروں گا‘ میں بلوچ کی طرح لڑ کر مروں گا‘‘ ڈاکٹر صاحب نے بتایا ’’ہم کسی شخص کو یونیورسٹی کا ماحول خراب نہیں کرنے دیتے‘ ہماری یونیورسٹی کا اپنا حفاظتی نظام ہے اور ہمارے پاس ٹرینڈ گارڈز ہیں۔

    یہ انتظامات دہشت گردوں کو یونیورسٹی کی طرف نہیں دیکھنے دیتے لہٰذا ہمارے اساتذہ اور طالب علم اطمینان سے پڑھ اور پڑھا رہے ہیں‘‘ مجھے ڈاکٹر جاوید اقبال کی اسپرٹ اچھی لگی‘ یہ میدان میں ڈٹ گئے ہیں‘ بلوچستان کے زیادہ تر لوگ ڈاکٹر جاوید اقبال کی طرح میدان میں ڈٹے ہوئے ہیں‘ یہ بھی بطخ کی طرح نہیں بلکہ لڑ کر مرنا چاہتے ہیں‘ وفاق بھی ان لوگوں کی مدد کر رہا ہے‘ بلوچی نوجوان دھڑا دھڑ فوج‘ نیوی اور فضائیہ میں بھرتی کیے جا رہے ہیں۔

    پی ایم اے کے ہر بیچ سے 70 بلوچی نوجوان سکینڈ لیفٹیننٹ بن رہے ہیں‘ افواج پاکستان نے بلوچی نوجوانوں کے لیے سلیکشن کا معیار بھی نرم کر دیا ہے‘ صوبائی حکومت بھی بھرتیاں کر رہی ہے اور نوجوانوں کو ہنر بھی سکھائے جارہے ہیں‘ یہ سارے عناصر مل کر بلوچستان کو تبدیل کر رہے ہیں‘ یہ تبدیلی اگر اسی ترتیب اور رفتار سے چلتی رہی تو کل کا بلوچستان آج اور گزرے کل کے بلوچستان سے ہزار گنا بہتر ہو گا‘ یہ بلوچستان صرف بلوچستان نہیں ہو گایہ پاکستان ہو گا‘ مکمل پاکستان۔

  • امید بمقابلہ مایوسی-احسن اقبال

    امید بمقابلہ مایوسی-احسن اقبال

    na-117

    حالیہ دنوں میں ملک کے اِن قابل نوجوانوں سے تبادلہ خیال کرنے کا موقع ملا جوپاکستان کی ترقی و خوشحالی میں نت نئے بزنس آئیڈیاز کو عملی جامہ پہنانے میں مصروفِ عمل ہیں،بلاشبہ دورِ جدید میں جِدت ہی کسی بھی معاشرے کی ترقی میں کلیدی کردار اداکررہی ہے اور خداداد صلاحیتوں کے حامل نوجوان بزنس مین نہ صرف پاکستان بلکہ عالمی برادری میں ملک کا مثبت امیج اجاگرکرنے میں معاون ثابت ہورہے ہیں۔ کسی بھی نئے کاروبار کی کامیابی کا دارومدار خود اعتمادی اور مثبت سوچ پر ہوتا ہے اور یہ اسی صورت میں ممکن ہوسکتا ہے جب گلاس کو آدھا بھرا یا آدھا خالی دیکھنے کے حوالے سے سوچ واضح ہو، ازل سے قانونِ فطرت ہے کہ آدھا گلاس خالی دیکھنے والے چاہے جتنے بھی وسائل سے مالامال ہوں ، مایوسی اور ناامیدی کے گہرے کنویں میں گِرکر ناکامی اپنا مقدر بنالیتے ہیں، ناکامی کا خوف انہیں کوئی بھی نیا رِسک لینے سے باز رکھتا ہے جس کی بناء پر مقاصد کا حصول سراسر اپنی ہی منفی اپروچ کی وجہ سے ناممکن ہوجاتا ہے جبکہ آدھا گلاس بھرا دیکھنے والے مثبت سوچ کے حامل افراد درپیش چیلنجز کا مردانہ وار مقابلہ کرتے ہیں، وسائل کی کمی کا رونا رونے کی بجائے مسائل کا پائیدار حل تلاش کرتے ہیں اور ہمتِ مرداں مددِ خدا کے مصداق کامیابی سے ہمکنار ہوجایا کرتے ہیں۔

    یہی صورت حال عالمی منظرنامے میں بھی ملاحظہ کی جاسکتی ہے جہاں تمام ممالک اپنے مثبت امیج کو اجاگرکرنے کیلئے سردھڑ کی بازی لگاتے ہیں، بدقسمتی سے پاکستان کو ان عناصر کا سامنا ہے جو اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کیلئے صرف اور صرف “ستیاناس” اور “بیڑاغرق” ہی کا راگ الاپ کر ملک و قوم کی بدنامی میں بھرپور حصہ ڈال رہے ہیں، وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ عالمی سیاست میں کسی بھی قوم کی پُرامیدی اور مثبت سوچ پر مبنی لائحہ عمل ہی کامیابی کا ضامن ہواکرتا ہے،اِس امر پر اختلاف نہیں کہ پاکستان کو مختلف چیلنجزکا سامنا ہے لیکن گزشتہ تین برسوں میں وزیراعظم نواز شریف کی قیادت میں مختلف شعبوں میں بیش بہا کامیابیوں کی داستانیں بھی رقم کی گئی ہیں۔پاکستان میں جمہوریت کی مضبوطی پر تمام پاکستانیوں کو فخر ہونا چاہیے، ماضی قریب میں عالمی طاقتوں کے ایماء پرایک آمرنے آئین کا گلا گھونٹنے کی کوشش کی، غیرملکی اشاروں پر ڈالرزکے عوض ملکی مفاد کا سودا کیا گیا،ملک میں دہشت گردی کا بازار گرم کیاگیا، جمہوری معاشرے کی جان عوام کی نمائندہ سیاسی جماعتوں کی مقبول قیادت کو قومی دھارے سے باہر کرنے کی غیرآئینی کوششوں کے باوجود عوام نے آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے جمہوریت، انصاف، مساوات، اور قانون کی حکمرانی کیلئے اپنی پُرامن جدوجہد کو کامیابی سے ہمکنار کیا، آج پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں، سول سوسائٹی اور دیگر طبقات کا فیڈریشن کو مضبوط بنانے کیلئے اتفاق ہے۔

    اگر آج کے پاکستان کا موازنہ 2013ء کے پاکستان سے کیا جائے تو واضح طور پر کہا جاسکتا ہے کہ آج کا پاکستان 2013ء سے کہیں مختلف ہے جب ملک دہشت گردی کے عفریت کا شکار تھا، ریاست کی رِٹ روزبروز کمزور ہوتی جارہی تھی، روزانہ کی بنیادوں پر معصوم عوام کا خون بہایا جا رہا تھا لیکن بہادر قوم نے امید کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا جس کی بدولت آج کے پاکستان میں دہشت گردی کا عفریت آخری سانسیں لے رہا ہے، کامیابی سے دہشت گردوں کا صفایا کیا جا رہا ہے جس کی تازہ مثال اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم اور حکومتی اداروں کی چوکسی کی بناء پرحالیہ محرم کا خیروعافیت سے گزرنا ہے۔مجھے یہ بتانے میں فخر محسوس ہورہا ہے کہ موجودہ حکومت کی کامیاب پالیسیوں کا اعتراف عالمی میڈیا بھی کررہا ہے جو 2013ء میں اپنے تبصروں ، نیوز رپورٹس میں پاکستان کو روئے زمین پر خطرناک ترین ملک کہتا تھا اور آج پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کی بناء پر پاکستان کوتیزی سے ابھرتی ہوئی معیشت اورعالمی سرمایہ کاری کیلئے پرکشش ترین ملک قرار دیتا ہے،

    ملکی معیشت جو چند برس پیشتر تباہی کا شکار تھی آج خطے کی ابھرتی ہوئی معیشت سمجھی جارہی ہے،2013ء کے پاکستان کے گروتھ ریٹ کا گزشتہ آٹھ برسوں سے موازنہ کیا جائے توآج 4اعشاریہ 8فیصد کی بلند ترین سطع پر پہنچ چکا ہے،پاکستان فارن ایکسچینج ریزرو 23بلین ڈالرز کی تاریخی بلندی کی بدولت آئی ایم ایف کے قرضہ پروگرام سے چھٹکارا پانے میں کامیاب ہوچکا ہے،حکومت اس کامیابی کے مثبت اثرات سے معاشرے کے تمام شعبہ ہائے زندگی کو مستفید کروانے کیلئے مصروفِ عمل ہے لیکن بدقسمتی سے کچھ عناصر کی جانب سے ایسا بے بنیاد دعویٰ کرکے مایوسی پھیلائی جارہی ہے کہ حکومت نے عوام کو قرضوں میں جکڑ دیا ہے، جبکہ درحقیقت حکومت کی طرف سے گزشتہ تین برسوں میں ڈیبٹ/جی ڈی پی ریشو کو برقرار رکھا گیا ہے، ملک میں شرحِ بے روزگاری 6فیصد سے کم ہوچکی ہے، 2013ء میں فِسکل ڈیفیسٹ 9فیصدتھا جو آج 5فیصد ہے، موجودہ انفلیشن ریٹ لگ بھگ 5فیصد ہے جوکہ گزشتہ 13سالوں میں کم ترین سطع پرہے ، جی ڈی پی گروتھ ریٹ میں گزشتہ تین برسوں میں اضافہ ہوا ہے،

    پاکستان سٹاک ایکسچینج تاریخ میں پہلی مرتبہ چالیس ہزار پوائنٹس عبور کرچکے ہیں،مورگن سٹانلے کیپیٹل انٹرنیشنل (ایم ایس سی آئی)سمیت عالمی ادارے پاکستان کو ایمرجنگ مارکیٹ قراردے رہے ہیں ۔ یہ وہ چشم کشا حقائق ہیں جن کی توقع 2013ء تک دور دور تک کہیں نہ تھی۔آج انرجی، انفراسٹرکچر، ٹرانسپورٹ اور ہائیر ایجوکیشن کے شعبوں میں بھاری سرمایہ کاری کی جارہی ہے، ملکی تاریخ میں پہلی بار آئی ایم ایف نے اپنا پروگرام کامیابی سے مکمل کیا ہے، موڈیز، اسٹینڈرڈ اینڈپورز جیسے عالمی اداروں نے پاکستان کی کریڈٹ ریٹنگ کو پازیٹو قرار دیا ہے،ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل اور دیگر اداروں کی غیرجانبدارانہ رپورٹس اس بات کی گواہ ہیں کہ ملک میں کرپشن میں کمی آئی ہے، گلوبل کمپیٹیٹونیس انڈکس میں پاکستان کی رینکنگ برائے 2015۔16ء بہتر ہوئی ہے، شرح خواندگی 60فیصد تک ہوچکی ہے، بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام اور پرائم منسٹرز نیشنل ہیلتھ پروگرام کی بدولت معاشرے کے پِسے ہوئے غریب عوام کی حالت بہتر کرنے کیلئے اقدامات اٹھائے جارہے ہیں،آئی ٹی انڈسٹری میں پاکستانی نوجوان اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا رہے ہیں، پاکستان کو آئی سی ٹی کے شعبے میں نئے بزنس پراجیکٹس کے حوالے سے موزوں ترین سمجھا جا رہاہے،تھری جی اور فور جی متعارف کروانے کے بعد سی پیک منصوبے کے تحت آپٹیکل فائبر سے ملک میں مزید تیز رفتار انٹرنیٹ کی فراہمی یقینی بنائی جارہی ہے ،

    پاکستان نے اپنے ہم پلہ ممالک کے گروپ میں بھی بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے جو ماضی میں سیاسی عدمِ استحکام اور پالیسیوں میں تسلسل نہ ہونے کی وجہ سے ممکن نہ ہوسکا۔ یہ وہ حقائق ہیں جو میں آپ کے سامنے رکھ کر کہہ سکتا ہوں کہ آج کا رائزنگ پاکستان درست سمت کی جانب گامزن ہے۔ اس کی بنیادی وجہ میرا گلاس کا آدھا بھرا ہوا دیکھنا ہے۔ ایسے حالات میں جب حکومت وقت کو ناحق تنقید کا نشانہ بناجارہا ہو میری پاکستانی معاشرے میں مثبت پہلو تلاش کرنے کی عادت اس نتیجے پر پہنچتی ہے کہ اختلافِ رائے کسی بھی جمہوری معاشرے کا حسن ہے، ہمارے سیاسی مخالفین سمیت دیگر ناقدین کو تنقید کرتے وقت پاکستان کی ترقی و خوشحالی پر مبنی منصوبوں کو نشانہ بنانے کی بجائے حکومت کے ہاتھ مضبوط کرنے چاہئیں۔ معاشرے میں پرامیدی اور مثبت سوچ اجاگر کرنے کا پیغام عام کرتے ہوئے میں توقع کرتا ہوں کہ ناقدین کو تنقید کرتے ہوئے توازن رکھنا چاہیے، آدھا گلاس خالی دیکھنے کی عادتِ بد سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہیے اور پاکستان سے منسلک مثبت کامیابیوں کو اجاگر کرنے کیلئے تعاون کا ہاتھ تھامنا چاہیے ورنہ اندیشہ ہے کہ مایوسی کے سوداگر قوم کا مورال ڈاؤن کرنے کا باعث بنیں گے جوکہ کسی صورت ملکی مفاد میں نہیں ہے۔

  • قومی ریاستیں، ترقی اور تصورجہاد – مجاہد حسین خٹک

    قومی ریاستیں، ترقی اور تصورجہاد – مجاہد حسین خٹک

    مجاہد حسین رومی سلطنت کا شیرازہ بکھرنے کے بعدبر اعظم یورپ مختلف ریاستوں میں تقسیم ہو گیا ۔ یہ قومی ریاستیں کئی صدیوں تک آپس میں لڑتی رہیں تاہم جب جنگ عظیم اول دو کروڑ کے قریب انسانوں کو ہڑپ کر گئی تو وہاں کے دانشور انسانی سرشت کے اس خونخوار پہلو کو دیکھ کر خوفزدہ ہو گئے اورانسانی تاریخ میں پہلی بار بڑے پیمانے پر ایک ایسی فکری تحریک نے جنم لیا جو ان سر چشموں کو دریافت کرنا چاہتی تھی جہاں سےہزاروں سال تک لہو بہانے کی خواہشات جنم لیتی رہیں ۔ یہ اچھوتا طرز فکر تھا کیونکہ تہذیب انسانی کے طویل سفر میں اگرچہ بہت سے مرحلے طے ہو چکے تھے مگر کسی نہ کسی فلسفے کے تحت جنگ کرنا ابھی تک ایک لائق تحسین عمل ہی سمجھا جاتا تھا۔ یہ پہلی بار ہوا تھا کہ جنگ کی ہر صورت سے بیزاری نے ایک فکری تحریک کی صورت اختیار کر لی۔

    اس تحریک کا سرخیل برطانوی فلسفی برٹرینڈ رسل تھا جس نے پہلی جنگ عظیم کی ہولناکی کا مشاہدہ کرنے کے بعد اپنی تمام عمر یہ دریافت کرنے میں صرف کر دی کہ کیسے انسان کی وحشی جبلتوں پر قابو پایا جا سکتا ہے ۔ اس نے ہر شعبہ ہائے زندگی کا تجزیہ کیا اور ایک ایسا نظام زندگی پیش کیا جس پر عمل پیرا ہو کر جنگ کے ادارے کو انسانی سماج سے ختم کرنے میں مدد مل سکتی تھی۔رسل کے ساتھ ساتھ نفسیات دان ، ماہر عمرانیات اور دیگر شعبہ ہائے علوم پر دسترس رکھنے والے مفکرین نے بھی اس ضمن میں طویل عرق ریزی کی۔

    تاہم عوامی سطح پر اس سوچ کو بہت زیادہ پذیرائی نہ مل سکی جو کہ بہرحال ایک فطری امر تھا کیونکہ انسان روز آفرینش سے ہی لہو بہانے کی لذت سے ہمکنار ہو چکا تھا ۔ انسانی تہذیب نے ہزاروں سال کے سفر میں قتل و غارت کو اپنی فطرت کا ایک جزو لا ینفک ہی سمجھا تھا ۔ اس کا ایک ثبوت قدیم دور سے لکھی جانے والی وہ شاعری ہے جس میں جنگ کی عمومی طور پر تحسین کی گئی ہے اورانسانی خون بہانےپر کسی نہ کسی بہانے اظہار تفخر کیا گیا ہے۔

    دوسری جنگ عظیم کا عفریت 6 کروڑ انسانی جانوں کی بھینٹ وصول کر کے سیر ہوا تو جنگ سے نفرت کی ایسی ہوا چلی کہ یہ سوچ دانشوروں کے حلقہ سے نکل کر مغربی سماج میں نفوذ کر گئی۔ایک بہت بڑی قربانی نے انسانی تہذیب کو ایک نئے راستے پر رواں دواں کر دیا جس پرچل کریہ حقیقی امید کی جا سکتی تھی کہ مستقبل میں جنگ کا ادارہ نسل انسانی کے لئے قصہ پارینہ بن جائے گا۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد مغربی ریاستیں عمومی طور پر یہ کوشش کرتی رہیں کہ وہ کسی نئی آویزش سے دور رہیں ۔معاشی ترقی کے لئے امن ناگزیر تھا اور علم و تحقیق ، جو کہ بالاتری حاصل کرنے کے جدید ہتھیار تھے، ان کے لئے معاشی استحکام امر لازم تھا۔

    ایک ایسے دور میں جب دنیا خونریزی کے پتھریلے راستے سے گزر کر امن کی پر سکون وادیوں کی طرف رخ کر رہی تھی، مولانا مودودی صاحب ( 1930 کے آس پاس) “الجہاد فی الاسلام” لکھ رہے تھے جس میں مدافعانہ جنگوں کے تصور کو رد کر کے اس نظرئیے کی تبلیغ کی گئی کہ مسلمان پوری دنیا پر حکمرانی کرنے کے لئے آئے ہیں اور اس ارفع مقصد کے حصول کے لئے جارحانہ جنگ ایک مقدس ذریعہ ہے۔

    سید قطب شہید نے تو دوسری جنگ عظیم کی تباہ کاریا ں دیکھنے کے باوجود بھی اسی روایت کی پیروی کرتے ہوئے مسلمانوں کو جنگ و جدل کی راہ اختیار کرنے کا درس دیا۔ ان دونوں صاحبان قلم نے اور دیگر آنے والے دانشورو ں نے فکر اسلامی کی روایت کو اسقدر متاثر کیا کہ مسلمانوں کا قتال سے ایک بہت ہی رومانوی رشتہ قائم ہو گیا۔ یہ سوچ عام ہو گئی کہ زوال کی اتھاہ گہرائیوں سے ابھرنے کا واحد راستہ جہاد فی سبیل اللہ ہے۔

    تاریخ کے ایک ایسے موڑ پر جب انسانیت اس نتیجے پر پہنچ چکی تھی کہ تشدد کی بجائے علم اور تحقیق ہی برتری کے حصول کا واحد راستہ ہے، اس رجعت پسندانہ سوچ نے مسلمانوں کی کئی نسلوں کو سائنس اور دیگر سماجی علوم کے اس راستے سے دور کر دیا جس پر چل کر وہ حقیقی طور پر سر اٹھا کر چلنے کے قابل ہو سکتے تھے۔ نسیم حجازی کی مقبولیت کی وجہ بھی یہی جنگجویانہ طرز فکر تھا جو مسلمان معاشرے کی جڑوں میں سرایت کر چکا تھا۔ افغانستان کی جنگ بھی اسی فلسفے کی بدولت لڑی گئی اور آج بھی بہت سی جگہوں پر جو فساد فی الارض بپا ہے، اس کے پیچھے بھی یہی فکر کارفرما ہے۔

    یہ بھی اسی سوچ کا شاخسانہ ہے کہ مسلمانوں میں نہ ہی سائنسدان پیدا ہو رہے ہیں اور نہ ہی عمرانی علوم کو نئے زاوئے بخشنے والے دانشور جنم لے رہے ہیں۔ایک ایسا شدید قحط الرجال ہے کہ الامان والحفیظ۔ جب تک فکری دھارے درست سمت کی جانب رواں دواں نہیں ہوں گے، یہ زوال قائم و دائم رہے گا۔

  • ترقی کے مغالطے – ثاقب ملک

    ترقی کے مغالطے – ثاقب ملک

    ثاقب ہمارے ہاں چند رٹے رٹائے جملوں کو ترقی کی بنیاد سمجھ لیا گیا ہے. لوگ اپنے اپنے نظریات کی جگالی کرتے ہوئے ہر دوسرے جملے پر جب تک یہ مغالطے اگل نہ دیں انھیں سکون نہیں ملتا. مثلاً تاریخ کی درستگی اور ماضی کی غلطیوں کا اعتراف ہی ہماری ترقی اور مستقبل کی بہتری کے لیے لازم ہے. دوسری جانب اگر آپ تاریخ کو ہی دیکھیں تو کیا برطانیہ، فرانس، اسپین، پرتگال اور نیدر لینڈز نے کلونیل ازم کے دوران اپنی بربریت کا کبھی اعتراف کیا؟ کبھی اپنے غلام خطوں سے معافی مانگی؟ کیا کبھی امریکہ نے ریڈ انڈینز سے ہاتھ جوڑ کر معافی مانگی؟ ایسا کبھی بھی نہیں ہوا. درست یا غلط ترقی کی راہ میں یہ معافی تلافی اور تاریخ کی درستگی حائل نہیں ہے. اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم ماضی سے نہ سیکھیں، اس کا مطلب ہے کہ ہم ماضی کو ماتم کا ذریعہ نہ بنائیں. اسے مبالغہ آمیز بنا کر اپنے مفادات کو پورا نہ کریں.

    دوسرا مغالطہ کہ آزادی رائے پر قدغن سے ترقی نہیں ہو سکتی اور معاشرے پروان نہیں چڑھ سکتے. اس پر تو سامنے کی مثالیں چین، سنگاپور، ملائشیا، روس، سعودی عرب وغیرہ کی ہیں. جہاں پر آزادی رائے پر کافی پابندیاں عائد ہیں لیکن اس سب کے باوجود یہ ملک ترقی یافتہ ہیں. چین اور روس سپر پاورز ہیں. دونوں ممالک میں فیس بک اور گوگل پر کئی پابندیاں ہیں. میڈیا پر پابندیاں اس کے علاوہ ہیں. یعنی صرف آزادی رائے ہی ترقی کی ضمانت نہیں ہے. اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم اپنے ملک میں آزادی رائے پر پابندی لگا دیں. اس کا مطلب ہے کہ یہ اہم ترین چیز نہیں ہے.

    ایک اور مغالطہ کہ ڈکٹیٹر شپ میں ملک ترقی نہیں کرتے صرف جمہوریت میں ہی ممالک ترقی کر سکتے ہیں. آپ مثالیں دیکھیں کیوبا کا معاشرہ امن و سکون اور سلامتی کی علامت ہے اور یہ ڈکٹیٹر فیڈل کاسترو کا کارنامہ ہے. فرانس میں جنرل ڈیگال، ملائشیا میں مہاتیر محمد، سنگاپور میں لی کو آن، سوویت یونین میں اسٹالن، سعودی عرب میں آل سعود، متحدہ عرب امارات میں شیخ خاندان، چین میں ایک پارٹی کی ڈکٹیٹر شپ، لیبیا میں قذافی اور ترکی میں اتاترک یہ تمام جدید تاریخ کی مثالیں ہیں. ماضی بعید میں جائیں تو اس زمانے میں تو بادشاہوں کے ادوار میں ہی لازوال ترقی ہوئی. یعنی صرف جمہوریت ترقی اور امن کی ضمانت نہیں. افریقہ کے اکثر غریب ترین ممالک میں جمہوریت ہے. جنوبی ایشیاء میں جمہوریت ہے مگر جو حالات ہیں سب جانتے ہیں. جنوبی امریکہ کے کافی غریب ممالک میں جمہوریت رائج ہے مگر نتائج صفر ہیں. اس سے یہ مطلب نہ اخذ کیا جائے کہ جمہوریت چھوڑ کر فوراً کسی ڈکٹیٹر کو دعوت دے دیں.

    چوتھا مغالطہ کہ تعلیم ہی ترقی کی ضامن ہے. سری لنکا، ماریشس، مالدیپ،انڈورا، لٹویا، بارباڈوس، کرغستان، یوکرائن اور بیلارس جیسے ممالک کی تقریباً سو فیصد شرح خواندگی ہے مگر یہ ترقی یافتہ ممالک نہیں ہیں. دوسری جانب دنیا کے پسماندہ ترین ممالک میں شرح خواندگی سب سے کم ہے. افغانستان، ساؤتھ سوڈان، برکینا فاسو، برونڈی صومالیہ وغیرہ. یعنی تعلیم کی کمی بیشی ہی ترقی کی ضمانت نہیں ہے. اب کوئی یہ نہ سمجھے کہ ہمیں جاہل ہو جانا چاہیے بلکہ اس جانب اشارہ مقصود ہے کہ صرف یہی ترقی کا اہم ترین جزو نہیں ہے. صرف تعلیم نہیں کس قسم کی تعلیم ہے وہ زیادہ اہم ہے.

    پانچواں مغالطہ کہ خلافت اور اتحاد ہمیں ترقی یافتہ بنا دے گا. پہلے تو یہ بات یاد رکھیں کہ تاریخ کے ابتدائی مسلم دور کو چھوڑ کر کبھی بھی تمام مسلمان ممالک اکٹھے نہیں رہے. ابھی آخر میں بھی مغل علیحدہ تھے. ترک عثمانی خلافت علیحدہ.. اس سے قبل بھی ہمیشہ دو یا تین مسلمانوں کی”خلافتیں” یا دراصل ملوکیتیں دنیا میں قائم رہی ہیں. دوسرا یہ کہ اسی دور میں تو مسلم امہ زوال کا شکار ہوئی. اٹھارویں انیسویں صدیوں میں ہم اس خلافت کے ساتھ ہی پوری دنیا سے ہر معاملے میں مار کھا رہے تھے. یعنی صرف خلافت یا اتحاد ہی ترقی کی گارنٹی نہیں ہے.

    ایک اور مغالطہ کہ نصاب میں بچوں کو جھوٹ پڑھایا جاتا ہے اور انھیں شدت پسند بنایا جاتا ہے. سوال یہ ہے کہ یہی نصاب 1988ء سے پہلے بھی تھا پھر پاکستانی معاشرے میں اتنی شدت پسندی کیوں نہ تھی؟ دنیا بھر کے ترقی یافتہ ممالک اپنے پرائمری نصاب میں صرف اپنی تاریخ صرف اپنے ہیروز کا ذکر کرتے ہیں.کیا امریکہ میں بچوں کو بتایا جاتا ہے کہ ان کے وطن نے ویت نام، اور کوریا میں کیا کارنامے انجام دیے؟ کیا آسٹریلیا میں بچوں کو اس براعظم کے ایب اوریجنز یعنی پرانی آبادی کے قتل عام کا بتایا جاتا ہے؟ ان کے معاشرے تو جاہل اور شدت پسند نہیں ہوئے. یعنی ہماری ناکامی صرف نصاب پر بھی نہیں تھوپی جا سکتی. اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم اپنے نصاب میں جھوٹ پڑھائیں اور دوسرے مذاہب کے لوگوں کے لیے نفرت پیدا کریں بلکہ کہنا صرف یہ ہے کہ ہماری شدت پسندی کی بنیادی وجہ نصاب نہیں ہے.

    شاید کچھ مغالطے اور بھی ہوں مگر یہ اہم ترین مغالطے ہیں. تو پھر حل کیا ہے؟
    ہمیں تاریخ کی درستگی کے چکر میں ہمیشہ ماضی میں نہیں رہنا ہے. ہمیں ماضی سے سیکھنا ہے اسے لپیٹ کر ہمیشہ اپنے ساتھ نہیں رکھنا. اسے ماتم کا ذریعہ نہیں بنانا. یہ پہلے مغالطے کا بہتر استعمال ہو سکتا ہے.

    ہمیں آزادی رائے اور فتنہ و فساد پھیلانے میں فرق کرکے چلنا ہوگا. ہمیں ڈکٹیٹر شپ یا جمہوریت کا قیدی ہونے کے بجائے اچھے لیڈرز کی کسی بھی سیاسی سسٹم میں موجودگی پر اصرار کرنا ہوگا. ہمیں تعلیم میں صرف ڈگریاں نہیں شعور دینا ہوگا. ہمیں نصاب کو جدید اور مفید بنانا ہوگا کسی کی نقل نہیں کرنی ہوگی. ہمیں خلافت یا کسی سسٹم کو مقدس بنانے کے بجائے عوام کی رائے کو اور اللہ کے بنیادی اصولوں کو مقدس بنانا ہوگا.

    ترقی، عروج وہ امانت ہے جو اہل اقوام کو ہی دی جاتی ہے. ان قوموں میں تین چیزیں لازمی مشترک ہوتی ہیں.
    انصاف پسندی
    امانت داری
    عظیم نصب العین
    سچائی کہتی ہے کہ ہم میں یہ تینوں چیزیں ناپید ہیں.

  • سی پیک۔ جی، بی اور پی-سلیم صافی

    سی پیک۔ جی، بی اور پی-سلیم صافی

    saleem safi

    چین پاکستان اکنامک کاریڈور ایک جی (گلگت بلتستان) سے شروع ہوتا اور دوسری جی (گوادر ) پر ختم ہوتا ہے ۔ گوادر اس منصوبے کادل ہے تو گلگت بلتستان شہ رگ اور دروازے کی حیثیت رکھتا ہے۔ ہم بے بس پاکستانیوں کا مطالبہ فقط یہ تھا کہ اس منصوبے سے سب سے زیادہ اورپہلی فرصت میں ان دونوں کو مستفید کرایا جائے کیونکہ سب سے زیادہ حق ان دونوں کا ہے ۔ پھر اگر گنجائش ہو تو رخ پاکستان کے بی (B)سے شروع ہونے والے علاقوں یعنی بلوچستان اور پسماندہ (Backward) علاقوں (جنوبی پنجاب، پختونخوا ، فاٹا اور آزاد کشمیر) کی طرف رکھا جائے لیکن حکمرانوں نے صرف پی (P) اور وہ بھی صرف سی پی یعنی سینٹرل پنجاب کو سرفہرست رکھا۔بی سے تو بدستور کنارہ کشی ہے لیکن اللہ کا شکر ہے کہ بعدازخرابی بسیار اب حکمران دونوں جیز کی طرف متوجہ ہوگئے ہیں اور یکم ستمبر کو جب وزیراعظم میاں محمد نوازشریف گوادر میں بعض ترقیاتی منصوبوں کا افتتاح کرنے وہاں پہنچے تھے تو آرمی چیف جنرل راحیل شریف شہ رگ یعنی گلگت بلتستان میں سی پیک کے حوالے سے جی بی حکومت کے سیمینار میں بحیثیت مہمان خصوصی موجود تھے۔

    گلگت بلتستان کے سنجیدہ اور فعال وزیراعلیٰ حافظ حفیظ الرحمان نے اس سیمینار میں علاقے کے تمام طبقوں کی نمائندگی کو یقینی بنایا تھااور ان کی محنت، محبت اور تاکید نے ہم جیسوں کو بھی شرکت پر مجبور کیا تھا۔سیمینار سے وفاقی وزیر جناب احسن اقبال ، مشاہد حسین سید، اسد عمر ، عمر ایوب ، ثاقب شیرانی اور کئی مختلف شعبوں کے ماہرین نے خطاب کیا ۔ وزیراعلیٰ حفیظ الرحمان مستقل طور پر دو روزہ سیمینار میں موجود رہے جبکہ گورنر نے بھی اپنی بیگم رانی کے ساتھ تمام نشستوں میں اپنی شرکت کو یقینی بنایا ۔ نہ جانے ان کی اپنی خواہش تھی یا کوئی اور حکمت تھی کہ میڈیا کے سیشن کو ملتوی کرکے اس وقت رکھا گیا کہ خود آرمی چیف ہم جیسوں کی الٹی سیدھی باتوں کو سن سکیں۔ سینئر صحافی اویس توحید کی طرف سے تجویز سامنے آئی کہ الیکٹرانک چینلز چھوٹے صوبوں ، پسماندہ علاقوں اور گلگت بلتستان وغیرہ کے لئے الگ وقت مختص کریں، تو تائید کرتے ہوئے میں نے مطالبہ کیا کہ جس طرح پیمرا نے چینلز کو پابند کیا ہوا ہے کہ وہ خاص دورانیہ سے زیادہ اشتہار نہیں چلائیں گے ،

    اسی طرح انہیں پابند بنادینا چاہئے کہ وہ اوسطاً ایک متعین وقت ان علاقوں کی کوریج کے لئے مختص رکھیں گے ۔ ساتھ یہ پابندی بھی ہونی چاہئے کہ ہر چینل ہر ضلع میں باقاعدہ تنخواہ لینے والا رپورٹر اور کیمرہ مین رکھے جبکہ اینکرز میں بھی چھوٹے صوبوں اور گلگت بلتستان جیسے علاقوں کا کوٹہ ہونا چاہئے ۔ مزید عرض کیا کہ اگرچہ میں مخصوص طاقتوں کی دوسروں کے دائرہ اختیار میں مداخلت کے حق میں نہیں لیکن اگر اس نیک کام کے لئے وہ طاقتور ادارے بھی اپنا کردار ادا کریں تو میں تائید کروں گا ۔ میں نے مزید عرض کیا کہ چھوٹے صوبوں اور پسماندہ علاقوں کو میڈیا میں ان کا حق دلانے کے لئے اگر ضرورت پڑے تو آرمی چیف ،آئی ایس پی آر کے لیفٹیننٹ جنرل عاصم باجوہ صاحب سے ایک ٹوئٹ جاری کروادیں کیونکہ اس ملک میں صرف آئی ایس پی آر کے ٹوئٹ کوہی سنجیدہ لیا جاتا ہے ۔ میری اس گستاخی پر جنرل راحیل شریف اور ان کے ساتھ بیٹھے کور کمانڈر پنڈی اور کورکمانڈر پشاور نے زوردار قہقہہ لگایاجبکہ پورے پنڈال میں تالیاں گونجنے لگیں۔ میں نے لکھی تقریر کی بجائے حسب عادت اردو میں زبانی تقریر کی اور گلگت بلتستان کے حسن اور وہاں کے معصوم اور پیارے لوگوں کی عزت اور محبت نے اس قدر مسحور کردیا تھا کہ تقریر کے دوران ہوش نہیں رہا کہ کیا کہہ رہا ہوں لیکن جو کچھ کچھ یاد ہے ، اس کا خلاصہ یہاں عرض کئے دیتا ہوں۔

    ’’گزشتہ روز میرے اور احسن اقبال صاحب کے مابین تلخ جملوں کے تبادلے ، جس کو آج گلگت بلتستان کے میڈیا میں بھرپور طریقے سے رپورٹ کیا گیا ہے ، سے کوئی یہ تاثر نہ لے کہ سی پیک منصوبے کے حوالے سے قوم میں کوئی اختلاف ہے ۔ یہ وہ منصوبہ ہے کہ جس پر اسفندیار ولی خان سے لے کر سردار اختر جان مینگل تک ،خورشید شاہ سے لے کر سراج الحق تک ، عمران خان سے لے کر مولانا فضل الرحمان تک اور میاں نوازشریف سے لے کرجنرل راحیل شریف تک پوری قوم یک زبان ہے ۔ ہر کوئی اس کی جلد از جلد تکمیل چاہتا ہے ۔ اختلاف ہے تو صرف منصوبے پر عمل درآمد کے لحاظ سے حکومتی رویے اور طریق کار پر ہے ۔ گلگت بلتستان اور دیگر پسماندہ علاقوں کے عوام کو یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہئے کہ سی پیک جس بھی روٹ سے جائے اور جس بھی شکل میں اس کے منصوبے مکمل ہوں ، کسی علاقے یا کسی پاکستانی کو مالی حوالوںسے کوئی نقصان نہیں پہنچے ۔ یہ ہر شکل میں ، ہر پاکستانی کے لئے فائدہ ہی فائدہ ہے ۔ ہم جیسے لوگ اس لئے لڑرہے ہیں کہ ہم اس فائدے کو زیادہ سے زیادہ کرنا چاہتے ہیں اورحکمرانوں کو متنبہ کررہے ہیں کہ وہ ایسی روش نہ اپنائیں کہ یہ منصوبہ مالی فائدے کا تو موجب بنے لیکن ا س کے ساتھ ساتھ سیاسی، علاقائی اور لسانی تعصبات کو جنم دے ۔ یہ منصوبہ جتنا پاکستان کے لئے اہم ہے ، اس سے زیادہ چین کے لئے اہم ہے ۔ پہلے ہمیں اپنے گھر میں صرف پاکستان کے دشمنوں کی سازشوں کا سامنا تھا لیکن اب چین کے دشمن بھی ہمارے دشمن بنتے جارہے ہیں اورپاکستان کے ساتھ چین کے دشمن بھی پاکستان کے اندر پاکستان کے خلاف سازشوں میں مصروف ہوگئے

    ہیں ۔ ان لوگوں کی سازشوں کا ہدف پاکستان کے معاشی اور تزویراتی دروازے یعنی کراچی ، بلوچستان ، گلگت بلتستان اور فاٹا و پختونخوا ہیں ۔ ان سازشوں کو ناکام بنانے کے لئے ضروری ہے کہ انہیںخصوصی طور پر خوشحال بنانے کی کوشش کی جائے ۔ تبھی ہم ملتمس رہے کہ سی پیک سے ان علاقوں کو مستفید کرانے کو پہلی ترجیح رکھا جائے ۔ ہم اگر ہر معاملے میں چین کی تقلید نہیں کرسکتے تو کم از کم سی پیک کے معاملے میں اس کی تقلید کرنی چاہئے ۔ چینی قیادت نے سنکیانگ، تبت اور انرمنگولیا میں علیحدگی پسندی اور دہشت گردی کے مسائل کو ختم کرنے کے لئے کھربوں ڈالر مشرقی چین سے اٹھا کر مغربی چین کے پسماندہ علاقوں میں منتقل کئے ۔ پاکستان چونکہ فیڈریشن ہے اور یہ ممکن نہیں کہ ترقی یافتہ علاقوں کے وسائل کو پسماندہ علاقوں میں منتقل کئے جائے ، اس لئے سی پیک جیسے منصوبوں میں پسماندہ علاقوں کو اولیت دینی چاہئے ۔ چین میں وحدانی نظام اور ایک پارٹی کی حکومت ہے لیکن اس کی قیادت نے جمہوری سوچ کا مظاہرہ کرکے سنکیانگ کی حکومت کو سی پیک کے اصل فیصلہ ساز فورم یعنی جے سی سی (جوائنٹ کوآپریشن کمیٹی) کا مستقل ممبر بنا دیا ہے ۔ جبکہ پاکستان کی طرف سے جو کمیٹی بنائی گئی ہے

    اس میں کسی بھی صوبائی حکومت ، حتیٰ کہ سی پیک کی شہ رگ یعنی گلگت بلتستان کی حکومت کو بھی ممبر نہیں بنا یا گیا ۔ پاکستان کی طرف سے اس کمیٹی میں جو سات وزراء ممبر ہیں ، ان میں سے چھ کا تعلق وسطی پنجاب سے ہے ۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ تمام وزرائے اعلیٰ بالخصوص گلگت بلتستان اور بلوچستان کے وزرائے اعلیٰ اور آزاد کشمیر کے وزیراعظم اس کے ممبر بنائے جائیں ۔ مختصر الفاظ میں اپنی التجا یہ ہے کہ سی پیک کو ایک سیاسی جماعت کا انتخابی منصوبہ بنانے کی بجائے قومی منصوبہ سمجھ کر آگے بڑھایا جائے ۔ گوادر کو پرویز مشرف نے شروع کیا، آصف علی زرداری نے چین کے حوالے کیا اور اس کے ساتھ سی پیک کے ایم یو پر دستخط کئے ، میاں نوازشریف نے اس کو اپنی ترجیحات میں سرفہرست رکھا اور جنرل راحیل شریف نے ذاتی اور خصوصی دلچسپی لے کر اس کی سیکورٹی کی ذمہ داری اپنے اداروں کو دی ۔اس لحاظ سے سب کو کریڈٹ جاتا ہے اور اسے سب کا کریڈٹ بنا کر قومی منصوبے کے طور پر آگے بڑھایا جائے ۔

    ہر وقت سی پیک سی پیک کرنے کی بجائے چین کی تقلید کی جائے یعنی قول نہیں عمل ۔ خاموش رہ کر کام کیا جائے اور زبان سے بولنے کی بجائے منصوبے کو بولنے دیا جائے ۔ سیاست کی خاطر سی پیک کے اشتہارات چلا چلا کر ایک طرف حکمرانوں نے ہر علاقے کے عوام کی توقعات حد سے بڑھادی ہیں اوردوسری طرف دشمنوں کو بھی زیادہ متحرک کردیا۔ یہ سلسلہ بند ہونا چاہئے۔ جس کام (معاملات کو اخفا میں رکھنا) میں چین کی تقلید نہیں ہونی چاہئے تھی ، بدقسمتی سے موجودہ حکومت اس میں اس کی تقلید کررہی ہے ۔ حالانکہ پاکستان ایک جمہوری ملک ہے۔ یوں معاملات سے پردہ اٹھا کر سی پیک کے حوالے سے تمام معاہدوں کی تفصیلات پارلیمنٹ میں لانی چاہئیں تاکہ شکوک و شبہات جنم نہ لیں ۔ اسی طرح عمل درآمد اور نگرانی کے لئے ایک ایسی اتھارٹی ہونی چاہئے کہ جس میںتمام صوبوں، گلگت بلتستان، فاٹا اور آزاد کشمیر کے ساتھ ساتھ فوج، آئی ایس آئی اور دیگر اداروں کو بھی نمائندگی حاصل ہو۔‘‘

  • آخری اٹھارہ ماہ ؟عمار چوہدری

    آخری اٹھارہ ماہ ؟عمار چوہدری

    emar

    میرے سامنے دو خبریں ہیں۔

    پہلی خبر وزیراعظم نواز شریف کے حوالے سے ہے جنہوں نے ملک بھر میں 39 جدیدترین ہسپتالوں کی تعمیرکی منظوری دے دی ہے۔ان انتالیس ہسپتالوں میں سے چھ ‘چھ سوبستروں کی گنجائش کے حامل تین ہسپتال اسلام آباد میںتعمیر کئے جائیں گے۔ اس کے علاوہ ملک بھر میں پانچ سو بستروں کے دس اور اڑھائی سو بستروں کے بیس ہسپتال قائم کرنے کا فیصلہ کیا گیاہے ۔ تمام ہسپتالوں کی تعمیرپر 110ارب روپے لاگت آئے گی۔وزیراعظم نے ملک بھر میں ہسپتالوں پرپیش رفت کی ذاتی طور پر نگرانی کا بھی عندیہ دیا۔یہ بھی کہا گیا کہ ہسپتالوں کی تعمیر کیلئے مقامات کو حتمی شکل دیتے ہوئے بلوچستان ‘اندرون سندھ‘ جنوبی پنجاب‘ خیبر پختونخوا ‘فاٹا ‘آزاد جموں کشمیر اور گلگت بلتستان کے علاقوں کا سروے کیا جائے اور غربت درجہ بندی‘دورافتادگی ‘بیماریوں کا بوجھ‘سرکاری اور نجی ہسپتالوں کی موجودگی‘ صحت عامہ کے ناقص اشاریوں کو ترجیح دی جائے۔ سب سے اہم بات یہ تھی کہ ان ہسپتالوں کی تمام تعمیرات آئندہ 18ماہ کے اندر مکمل کی جائیں گی۔

    اب دوسری خبر کی طرف آئیے۔

    خیبر پختونخوا حکومت نے میگا پراجیکٹ سوات موٹر وے کا سنگ بنیاد رکھ دیا ہے جس پر35 ارب روپے لاگت آئے گی۔وزیر اعلیٰ پرویز خٹک نے گزشتہ ہفتے سوات موٹروے کا افتتاح کیا۔ موٹروے صوابی میں کرنل شیر خان شہید انٹرچینج سے چکدرہ تک جائے گی۔اکیاسی کلومیٹر پر مشتمل اس موٹروے کا فاصلہ پینتالیس منٹ میں طے کیا جا سکے گا۔ روزانہ اٹھارہ ہزار گاڑیاں اس موٹروے کو استعمال کریں گی۔ پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ ایکٹ کے تحت اس منصوبے کا بھی اہم ترین نکتہ یہی ہے کہ یہ منصوبہ بھی 18 مہینوں میں مکمل ہو گا ۔

    ان دونوں خبروں میں جو چیز مشترک ہے‘ وہ آخری اٹھارہ ماہ ہیں۔کہا جا رہا ہے کہ آخر وفاقی اور صوبائی حکومت کو یہ منصوبے شروع کرنے کا خیال اس وقت کیوں آیا جب آئندہ انتخابات میں صرف اٹھارہ ماہ باقی ہیں تاہم اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ یہ دونوں منصوبے عوام اور ملک دونوں کے لئے سود مند ہیں اور ان کا فائدہ بالآخر عوام کو ہی ہو گا۔ مسلم لیگ ن تو اگرچہ پنجاب میں اس طرح کے کئی ترقیاتی منصوبے شروع اور مکمل بھی کر چکی ہے لیکن خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف کی حکومت تھی۔ یہ بنیادی طور پر ایسے بڑے منصوبوں کے حق میں نہ تھی اور اسی لئے اس کے سربراہ عمران خان ہر دوسرے جلسے اور بیان میں میاں صاحبان کو موٹروے جیسے منصوبوں کے طعنے ضرور دیتے تھے۔

    اسی طرح میٹرو بسوں ‘ انڈرپاسوں وغیرہ پر بھی کڑی تنقید کی جاتی رہی اور کہا جاتا کہ ایسے بڑے منصوبے عوام کی فلاح کے لئے نہیں بلکہ اپنی جیبیں بھرنے کے لئے شروع کئے گئے۔ اب تین سال گزرنے کے بعد جبکہ الیکشن میں دھاندلی والا ایشو بھی دب چکا ہے‘ دھرنے کے ذریعے اقتدار میں آنے کی کوشش بھی ناکام ہو چکی ہے اور پاناما لیکس پر بھی حکمران جماعت کو ٹف ٹائم
    نہیں دیا جا سکا‘تحریک انصاف کے پاس میگا پراجیکٹس کے اعلانات اور ان کی تکمیل کاہی واحد راستہ بچا تھا ۔

    عمران خان نے گزشتہ روز فرمایا‘ امیر اور غریب کے درمیان فرق بڑھ رہا ہے۔ انہیں کوئی بتائے کہ یہ فرق صرف پنجاب یا سندھ میں نہیں خیبرپختونخوا میں بھی اتنا ہی بڑھ رہا ہے ۔خان صاحب کو معلوم ہے بقایا اٹھارہ ماہ میں ان کے پاس جادو کی کوئی ایسی چھڑی موجود نہیں جس کے ذریعے وہ پسے ہوئے عوام کو خوشحال کر سکیں؛ چنانچہ کڑوی گولی کھانے کے مصداق انہیں بھی موٹروے جیسے منصوبوں کا سہارا لینا پڑا جن پر وہ گزشتہ بیس برس سے تنقید بھی کرتے آ رہے ہیں اور سفر بھی۔ اگر وہ یہ کام پہلے کر دیتے تو سوات موٹر وے سے عوام اور خطے کو فوائد اب تک ملنا شروع ہو جاتے۔ موٹروے کی تکمیل کے بعد چالیس سے زائد مقامات کی اہم اور بڑی منڈیوں تک رسائی ممکن ہو جائے گی اور ان چالیس منڈیوں تک رسائی ہونے کا مطلب ہزاروں لاکھوں افراد کے معاش میں بہتری آنا ہے۔

    شکر ہے کہ آج تحریک انصاف کی حکومت کو یہ احساس ہو گیا ہے کہ موٹروے کے کیا فوائد ہیں اور اگر انہوں نے اس طرح کے منصوبے مکمل نہ کئے تو کہیں آئندہ الیکشن میں عوام انہیں بالکل ہی فارغ نہ کر دیں۔ غربت‘ بے روزگاری اور مہنگائی کے حوالے سے دوسروں پر تنقید کرنا تو بہت آسان ہے لیکن عملی طور پر ان پر قابو پانا یا انہیں کم کرنا آسان نہیں۔ عمران خان جن امیدوں کے ساتھ جلوہ افروز ہوئے تھے‘ لوگوں کو یقین تھا کہ وہ کچھ نہ کچھ ایسا کریں گے کہ ان کے دن بدل جائیں گے اور تبدیلی کے نعرے کو عملی سانچے میں ڈھال کر اپنے لئے آئندہ الیکشن میں کامیابی کا راستہ ہموار کر لیں گے۔ ایسا تو مگر نہ ہوا البتہ اسی جماعت کی نقالی شروع کر دی گئی جس پر تنقید کی جاتی رہی۔ اس حوالے سے حکمران جماعت نے بہت بڑا کارڈ کھیلا ہے۔

    وقت تو ان کے پاس بھی ڈیڑھ سال کا ہی بچا ہے لیکن وزیراعظم نے صحت جیسے اہم ایشو کو چنا ہے اور ساتھ ہی اسے کسی ایک صوبے تک بھی محدود نہیں رکھا۔ ہسپتالوں کے حوالے سے عمران خان کو زیادہ بہتر تجربہ حاصل تھا۔ وہ شوکت خانم کو کامیابی سے چلا بھی رہے ہیں‘ اپنے صوبے میں مگر وہ صحت کے شعبے میں ایسی کوئی انقلابی تبدیلی نہ لا سکے۔ وفاقی حکومت نے یہ سہرا اپنے سر باندھ لیا ہے۔ اگر واقعی ہر صوبے میں ایسے جدید ہسپتال بہترین سہولیات کے ساتھ وقت مقررہ میں مکمل کر دئیے گئے تو یہ منصوبہ جہاں عوام کو ریلیف پہنچائے گا وہاں حکمران جماعت کے ووٹ بینک میں زبردست اضافہ کرے گا۔ یہی کام خان صاحب کرتے تو انہیں بھی پذیرائی ملتی ‘ انہیںمگر ان کے دوستوں نے انہیں مخالفین پر تنقید کے نشتر برسانے اور جلسے جلوسوں میں مصروف رکھا۔ خان صاحب کو بھی احساس ہوگیا ہے کہ وقت بہت ضائع ہو چکا‘ اب کچھ کرنے میں ہی عافیت ہے۔

    میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں‘ دونوں حریفوں کی اس سیاسی جنگ میں بہرحال فائدہ عوام کو ہی پہنچے گا۔ ایسے کام اگر پہلے اٹھارہ ماہ میں کئے جاتے‘ تو یہ تنقید ان پر نہ ہوتی کہ اب الیکشن کے قریب عوام کا خیال کیوں آ گیا ہے۔ وزیراعظم کو دیکھنا ہو گا کہ ان کے اعلانات صرف اعلانات ہی نہ رہ جائیں‘ ہسپتالوں کا اتنا بڑا نیٹ ورک بنانا آسان نہیں ۔ موجودہ سرکاری ہسپتالوں کا احوال سب کے سامنے ہے۔ کرپشن ‘ٹھیکیدار اور ڈرگ مافیا سے انہیں کیسے نمٹنا ہے‘ اس کے لئے انہیں اسی جذبے سے کام کرنا ہو گا جس جذبے سے شہبازشریف میٹرو بس اور اورنج ٹرین کے لئے کام کرتے ہیں۔

    محض چند تعمیراتی ڈھانچے اگر الیکشن سے قبل کھڑے کر بھی لئے گئے تو انہیں واقعتاً الیکشن سٹنٹ سے تعبیر کیا جائے گا۔ عمران خان کو بھی اپنے طرز سیاست پر نظر ثانی کرنا ہو گی۔ چاہے وہ تنقید کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں لیکن عوامی فلاح کے ایسے منصوبوں میں صرف اس لئے مزید تاخیر نہ کریں کہ لوگ کہیں گے کہ وہ حکمران جماعت کی نقالی کر رہے ہیں۔سنا ہے کہ تحریک انصاف میں اس معاملے میں بھی دو دھڑے بن چکے ہیں۔ ایک دھڑا احتجاجی سیاست جبکہ دوسرا تعمیری سیاست پر مصر ہے۔عمران خان کو پہلے دھڑے سے خود کو بچانا ہو گا وگرنہ عوام ان کا اگلے انتخابات میں دھڑن تختہ کر دیں گے۔

  • مسلمانوں کا زوال علم و اخلاق اور سیاسی تحریکیں – مدثر ریاض اعوان

    مسلمانوں کا زوال علم و اخلاق اور سیاسی تحریکیں – مدثر ریاض اعوان

    مدثر ریاض اعوان تخلیق آدم علیہ السلام کے بعد رب تعالی نے انہیں علم الاسماء عطا کیا اور پھر آدم علیہ السلام اور فرشتوں کا امتحان لیا گیا۔ اس امتحان میں جب آدم علیہ السلام کامیاب و کامران ہوئے تب رب تعالی نے فرشتوں کو سجدہ کرنے کا حکم دیا۔ اس پورے واقعے میں اللہ تعالی نے آدم علیہ السلام کی علمی برتری کو بیان کیا ہے اور اسی علمی برتری کی وجہ سے فرشتوں کوآدم علیہ السلام کو بحکم خدا سجدہ کرنا پڑا۔ قرآن حکیم کتاب ہدایت ہے اور اس کتاب حکیم کے ایک ایک لفظ میں حکمت پوشیدہ ہے۔اس پورے واقعے میں ہمارے لیے پیغام ہے کہ اگر ہم نے علوم و فنون کو حاصل کرنے میں کوتاہی برتی تو اس کے نتیجے میں غلامی ہمارا مقدر ہو گی۔

    پوری تاریخ انسانی پر اگر نگاہ ڈالی جائے تو پتا چلتا ہے کہ ایک تہذیب کا دوسری تہذیب پر غلبہ علم و شعور کی ترقی اور اعلی اخلاقی اقدار کی وجہ سے ہوا۔ علم و شعور کی ترقی اور اعلی اخلاقی اقدار دو بنیادیں ہیں جو غلبے کو قائم و دائم رکھتی ہیں، ان کے بغیر حاصل کی جانے والی فتح چند سالوں پر محیط ہوتی ہے۔

    رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب اس دنیا میں تشریف لائے تو اس وقت پوری انسانیت قیصر و کسری کے جبر تلے پس رہی تھی۔ حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے بہترين اخلاقی اقدار اور اعلی علم و شعور رکھنے والی جماعت تیار کی جنہیں ہم اصحاب رسول کہتے ہیں ۔ رسول اللہ نےارشاد فرمایا ’’مجھے اخلاق کی تکمیل کے لیے مبعوث کیا گیاہے‘‘(الحدیث)۔ان اصحاب رسول نے پھر قیصر و کسری کی غلامی سے انسانیت کو آزاد کیا اور ایسی اعلی اخلا قی قدریں قائم کیں جن کی مثالیں مغربی مصنفین نے اپنی کتابوں میں دی ہیں۔

    خلافت عباسیہ کے دور میں باقاعدہ مادی علوم کے اندر انقلاب کا آغاز ہوا اور پھر مسلمانوں نے علوم کی تمام شاخوں میں کمال پیدا کیا۔ ابن رشد، الغزالی اور یعقوب کندی نے فلسفے میں، ابن الہیثم نے بصریات و طبیعات میں، البیرونی اور خوارزمی نے ریاضیات میں، ابن سینا نے ادویات بنانے اور مرض کی تشخیص کرنے میں دنیا کو نئے زاویے اور نئی نگاہ بخشی۔

    مسلمانوں نے جب اعلی اخلاقی اقدار کو پس پشت ڈالا اور علم و شعور کے حصول کو ترک کیا تب سے زوال امت شروع ہوا۔ مسلمانوں نے جب زیادہ تر کوشش سیاسی غلبے کے حصول کے لیے کی اور علم و فنون کو فروغ دینا ترک کیا تب سے لے کر آج تک ہر سیاسی تحریک کا اختتام ناکامی پر ہوا ہے۔ ہر سیاسی تحریک کا مقصد غلبے کا حصول ہے مگر اس بات سے نا آشنا ہیں کہ پہلے اخلاقی اقدار قائم کی جاتی ہیں اور عوام میں اعلی شعور بیدار کیا جاتا ہے پھر غلبے کے لیے کو شش کی جاتی ہے۔ دور زوال میں مسلمانوں میں اٹھنے والی تمام سیاسی تحریکیں ان بنیادی عناصر سے خالی نظر آتی ہیں۔ان تمام تحریکوں نے علوم کی ترقی اور شعور کی بلندی کے لیے کوئی سنجیدہ کو شش نہیں کی بلکہ عوام کو جھوٹے خواب اور قصے سنائے گئے۔

    عروج اب بھی ممکن مگر اس کے لیے مستقل مزاجی سے علم و شعور کے میدان ميں کام کرنا ہو گا اعلی اخلاقی قدریں قائم کرنی ہوں گی تاکہ دنیا کی اقوام کو یہ محسوس ہو کہ ہمارے تمام تر مادی اور روحانی مسائل کا حل ان کے پاس مو جود ہے۔مندرجہ ذیل دو سوال ہر باشعور مسلمان کو اپنے آپ سے پوچھنے چاہییں۔
    کیا یہ ممکن ہے کہ ایک تعلیم یافتہ شخص کسی جاہل سے متاثر ہو؟ اور کیا یہ بھی ممکن ہے کہ ایک اعلی اخلاقی قدر رکھنے والی قوم کسی ایسی قوم سے متاثر ہو جن کی اخلاقی قدریں حد درجے پستی کا شکار ہوں؟