تخلیق آدم علیہ السلام کے بعد رب تعالی نے انہیں علم الاسماء عطا کیا اور پھر آدم علیہ السلام اور فرشتوں کا امتحان لیا گیا۔ اس امتحان میں جب آدم علیہ السلام کامیاب و کامران ہوئے تب رب تعالی نے فرشتوں کو سجدہ کرنے کا حکم دیا۔ اس پورے واقعے میں اللہ تعالی نے آدم علیہ السلام کی علمی برتری کو بیان کیا ہے اور اسی علمی برتری کی وجہ سے فرشتوں کوآدم علیہ السلام کو بحکم خدا سجدہ کرنا پڑا۔ قرآن حکیم کتاب ہدایت ہے اور اس کتاب حکیم کے ایک ایک لفظ میں حکمت پوشیدہ ہے۔اس پورے واقعے میں ہمارے لیے پیغام ہے کہ اگر ہم نے علوم و فنون کو حاصل کرنے میں کوتاہی برتی تو اس کے نتیجے میں غلامی ہمارا مقدر ہو گی۔
پوری تاریخ انسانی پر اگر نگاہ ڈالی جائے تو پتا چلتا ہے کہ ایک تہذیب کا دوسری تہذیب پر غلبہ علم و شعور کی ترقی اور اعلی اخلاقی اقدار کی وجہ سے ہوا۔ علم و شعور کی ترقی اور اعلی اخلاقی اقدار دو بنیادیں ہیں جو غلبے کو قائم و دائم رکھتی ہیں، ان کے بغیر حاصل کی جانے والی فتح چند سالوں پر محیط ہوتی ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب اس دنیا میں تشریف لائے تو اس وقت پوری انسانیت قیصر و کسری کے جبر تلے پس رہی تھی۔ حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے بہترين اخلاقی اقدار اور اعلی علم و شعور رکھنے والی جماعت تیار کی جنہیں ہم اصحاب رسول کہتے ہیں ۔ رسول اللہ نےارشاد فرمایا ’’مجھے اخلاق کی تکمیل کے لیے مبعوث کیا گیاہے‘‘(الحدیث)۔ان اصحاب رسول نے پھر قیصر و کسری کی غلامی سے انسانیت کو آزاد کیا اور ایسی اعلی اخلا قی قدریں قائم کیں جن کی مثالیں مغربی مصنفین نے اپنی کتابوں میں دی ہیں۔
خلافت عباسیہ کے دور میں باقاعدہ مادی علوم کے اندر انقلاب کا آغاز ہوا اور پھر مسلمانوں نے علوم کی تمام شاخوں میں کمال پیدا کیا۔ ابن رشد، الغزالی اور یعقوب کندی نے فلسفے میں، ابن الہیثم نے بصریات و طبیعات میں، البیرونی اور خوارزمی نے ریاضیات میں، ابن سینا نے ادویات بنانے اور مرض کی تشخیص کرنے میں دنیا کو نئے زاویے اور نئی نگاہ بخشی۔
مسلمانوں نے جب اعلی اخلاقی اقدار کو پس پشت ڈالا اور علم و شعور کے حصول کو ترک کیا تب سے زوال امت شروع ہوا۔ مسلمانوں نے جب زیادہ تر کوشش سیاسی غلبے کے حصول کے لیے کی اور علم و فنون کو فروغ دینا ترک کیا تب سے لے کر آج تک ہر سیاسی تحریک کا اختتام ناکامی پر ہوا ہے۔ ہر سیاسی تحریک کا مقصد غلبے کا حصول ہے مگر اس بات سے نا آشنا ہیں کہ پہلے اخلاقی اقدار قائم کی جاتی ہیں اور عوام میں اعلی شعور بیدار کیا جاتا ہے پھر غلبے کے لیے کو شش کی جاتی ہے۔ دور زوال میں مسلمانوں میں اٹھنے والی تمام سیاسی تحریکیں ان بنیادی عناصر سے خالی نظر آتی ہیں۔ان تمام تحریکوں نے علوم کی ترقی اور شعور کی بلندی کے لیے کوئی سنجیدہ کو شش نہیں کی بلکہ عوام کو جھوٹے خواب اور قصے سنائے گئے۔
عروج اب بھی ممکن مگر اس کے لیے مستقل مزاجی سے علم و شعور کے میدان ميں کام کرنا ہو گا اعلی اخلاقی قدریں قائم کرنی ہوں گی تاکہ دنیا کی اقوام کو یہ محسوس ہو کہ ہمارے تمام تر مادی اور روحانی مسائل کا حل ان کے پاس مو جود ہے۔مندرجہ ذیل دو سوال ہر باشعور مسلمان کو اپنے آپ سے پوچھنے چاہییں۔
کیا یہ ممکن ہے کہ ایک تعلیم یافتہ شخص کسی جاہل سے متاثر ہو؟ اور کیا یہ بھی ممکن ہے کہ ایک اعلی اخلاقی قدر رکھنے والی قوم کسی ایسی قوم سے متاثر ہو جن کی اخلاقی قدریں حد درجے پستی کا شکار ہوں؟
تبصرہ لکھیے