ہوم << پاکستان، 2013ء سے 2016ء تک - عمران زاہد

پاکستان، 2013ء سے 2016ء تک - عمران زاہد

عمران زاہد دوہزار تیرہ میں نیوزویک نے پاکستان پہ ایک ٹائٹل سٹوری کی کہ دنیا کا سب سے خطرناک ملک عراق نہیں، پاکستان ہے۔ یہ دوہزار تیرہ تھا۔
:
آج دوہزار سولہ میں دنیا کا ہر میگزین، چاہے وہ فنانشل ٹائم ہو، اکانومسٹ ہو، وال اسٹریٹ جرنل ہو، یا بلوم برگ ہو ۔۔۔ وہ پاکستان کو ایشیا کی ایک ابھرتی ہوئی معیشت قرار دے رہا ہے۔
:
ایک ایسا ملک جو دوہزار تیرہ میں خطرناک ترین ملک تھا اور دوہزار سولہ میں مستقبل کی ابھرتی معیشت ہے۔۔۔ کیا یہ تبدیلی نہیں ہے؟ تبدیلی اور کیا ہوتی ہے؟
:
ملک میں بہتری آ رہی ہے۔
دوہزار تیرہ میں کہا جا رہا تھا کہ پاکستان دوہزار چودہ میں دیوالیہ ہونے والا ہے۔ لیکن آج دنیا کا ہر مستند معاشی ادارہ پاکستان کی معاشی کایا پلٹ کے حق میں رطب اللسان ہے۔
:
الحمدللہ ۔۔۔پاکستان آگے بڑھتا چلا جا رہا ہے۔
:
اس سال پاکستان کی نمو شرح پچھلے آٹھ سالوں میں سب سے زیادہ 4.8 فیصد ہے۔ اگلے سال ہم ان شاءاللہ 5 فیصد سے آگے جانے کے لئے پرامید ہیں اور اس سے اگلے سال شرح نمو 6 فیصد تک لے کے جائیں گے۔ ان شاءاللہ۔
:
پاکستان کے پاس اس وقت اپنی تاریخ کے سب سے زیادہ فارن ریزرو موجود ہیں۔
دوہزار تیرہ میں پاکستان بدامنی اور دہشت گردی کی گھٹاٹوپ میں چھپا ہوا تھا۔ بیرونی سرمایہ کار پاکستان میں آتے ہوئے گھبراتے تھے۔ آج پاکستان بدامنی اور دہشت گردی کی عفریت پر قابو پا چکا ہے۔ حالات کا دھارا مکمل طور پر بدلا جا چکا ہے۔
:
پاکستان کو دنیا کے innovation map پر جگہ دلانے کے لئے نوجوانوں کو دن رات کام کرنا ہو گا۔ پاکستان پہلے ہی ای-لانسنگ کے شعبے میں دنیا کا چوتھا بڑا ملک بن چکا ہے۔
:
پاکستان اس وقت لامتناہی مواقع کی سرزمین بن چکا ہے۔ سی پیک کی صورت میں پچاس بلین ڈالر سے زائد کی سرمایہ کاری پاکستان میں ہو رہی ہے۔ یہ سرمایہ کاری پاکستان کے سب سے قابلِ اعتماد اور آزمودہ دوست چین نے اس وقت کی جب دنیا کا کوئی ملک پاکستان میں دس ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے سے بھی ہچکچا رہا تھا۔
:
1947 سے لیکر 2013 تک تقریباً ستر سالوں میں پاکستان صرف سولہ یا سترہ ہزار میگا واٹ بجلی بنا رہا تھا ۔۔ لیکن گزشتہ تین سالوں میں ہم گیارہ ہزار میگا واٹ کے قریب بجلی کی پیداواری استعداد کا اضافہ کیا ہے۔
:
سب سے زیادہ سرمایہ کاری توانائی، رسل و رسائل اور انفراسٹرکچر (سڑکوں، ریلوے وغیرہ) پر ہو رہی ہے۔ یہاں پر ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ انہیں صرف سڑکیں ہی بنانا آتا ہے ۔۔ ان عقل کے اندھوں کو نہیں پتہ کہ تعلیم بھی سڑک کے اوپر چل کر آتی ہے، صحت بھی سڑک کے اوپر سے چل کر آتی ہے، کاروبار بھی سڑک پر چل کر آتا ہے اور ترقی اور خوشحالی بھی سڑک کے اوپر سے چل کر آتی ہے۔
:
جہاں سڑک نہیں ہو گی، وہاں سکول کیسے کھلے گا، وہاں استاد کیسے جائے گا؟ جہاں راستہ نہیں ہو گا، وہاں ہسپتال کیسے کھلے گا؟ دنیا کے تمام ممالک جو ترقی کے معراج پر پہنچے ہیں انہوں نے سب سے پہلے نئے راستے بنائے ۔۔۔ علاقوں کو ایک دوسرے سے مربوط کیا ۔۔۔ مجھے یہ بتاتے ہوئے خوشی ہو رہی ہے کہ سی پیک کے ذریعے پاکستان کے پسماندہ ترین علاقوں کو ترقی اور خوشحالی کے راستے سے منسلک کیا جا رہا ہے۔ ستر سالوں میں پہلی دفعہ گوادر کی بندرگاہ ساڑھے چھ سو کلومیٹر سڑک کے ذریعے کوئٹہ سے منسلک کی جا رہی ہے۔ بہت سے پچھڑے ہوئے علاقے اس سڑک کے ذریعے باقی پاکستان سے ملا دیے جائیں گے۔ بندرگاہ سے سامان کوئٹہ اور وہاں سے افغانستان، وسطی ایشیا اور دوسرے ممالک میں بھیجا جائےگا۔ پاکستان میں یہ سب تبدیلیاں ہو رہی ہیں۔
:
ہمارے نوجوانوں کو اس اہم موقع کو اپنے امکانات کی نظر سے دیکھنا ہے۔ انہیں اس میں سے اپنے لئے نئے مواقع تلاش کرنے ہیں۔ پسماندہ علاقوں کو اس سڑک سے منسلک کرنے سے نئے مواقع پیدا ہو رہے ہیں۔ چین کے صنعتوں کے پیداواری اخراجات بتدریج بڑھ رہے ہیں۔ دنیا کے بزنس سائیکل سے یہ پتہ چلتا ہے کہ ایک خاص وقت میں آ کر ملکوں کے پیداواری اخراجات بڑھنا شروع کر دیتے ہیں۔ تب وہ ہائی ویلیو انڈسٹری میں چلے جاتے ہیں اورزیادہ پیداواری اخراجات والی لیبر انٹنسو انڈسٹری کو ان ممالک میں منتقل کر دیتے ہیں جہاں پیداواری اخراجات نسبتاً کم ہوتے ہیں۔ چین کے پاس سرمایہ بھی ہے اور ٹیکنالوجی بھی ہے جبکہ سی پیک کی وجہ سے پاکستان اپنے محل وقوع اور پسماندہ علاقوں کو مربوط کرکے کم پیداواری اخراجات کے حوالے سے اہمیت رکھتا ہے۔
:
سی پیک ہمیں تین بڑے خِطوں سے ملا دیتا ہے۔ پاکستانی تاجروں کو اس موقع سے فائدہ اٹھانا چاہیے اور چین، افغانستان اور وسطی ایشیا میں نئے رابطے اور کاروباری دوست تلاش کرنے چاہیئں۔ اگر سیاسی حالات بہتر ہوتے ہیں تو جنوبی ایشیا میں بھی کاروباری ساتھی تلاش کرنے چاہیئں۔ اس پورے خطے میں پاکستان کو پروڈکشن اور سروسز کا ایک حب بنایا جا سکتا ہے۔
:
پس نوشت: نوٹ: یہ سب وہ باتیں ہیں جو وفاقی وزیر احسن اقبال نے یونیورسٹی آف مینیجمنٹ اینڈ ٹیکنالوجی کے زیرِ اہتمام انٹرنیشنل بزنس کانفرنس اینڈ ایگزیبیشن 2016 کی تقریب میں کیں اور مجھے بہت پسند آئیں، البتہ نیوزویک کی پاکستان کے خلاف سٹوری 2007 میں چھپی تھی، احسن اقبال صاحب سہواً 2013 کہہ گئے۔ اس تقریب کا اہتمام ایکسپو سنٹر لاہور میں کیا گیا۔

Comments

Click here to post a comment