پھر آگیا عورت کے حقوق کا دن۔ کیوں مناتے ہیں اس دن کو دنیا بھر میں؟
کیا ملتا ہے یہ دن منانے سے؟
کیا عورت کی تمام حق تلفیوں کی تلافی ہوجاتی ہے اس ایک دن کے منانے سے؟
بس عورت سے حقوق کے نام پر وہ کچھ کروا لو جو کسی طرح اس کے مرتبہ کے شایان شان نہیں، برابری کا جھانسا دے کر اسے سڑکوں پر لے آؤ یا خوبصورتی کو دنیا کے سامنے پیش کرنے کے نام پر اس کے جسم کی قیمت لگا دو، چاہے ایک روپے والی ٹافی ہی کیوں نہ ہو۔ کتنی سستی خریدی جا رہی ہے آج کی عورت، مگر افسوس کہ اسے ادراک ہی نہیں۔
رابیل غصے میں بولتی ہی چلی گئی. ابھی تو وہ ثمرا کے گھر جانے کا سوچ رہی تھی مگر فون کرنے پر پتہ چلا کہ وہ کسی این جی او کے ساتھ خواتین ڈے منانے کسی فائیو سٹار ہوٹل میں گئی ہوئی ہے۔
اس نے فون رکھا اور اور سارا غصہ سامنے بیٹھی شانزے پر نکال دیا۔
شانزے ہلکے سے مسکرائی اور کہنے لگی، عورت کو وہ تمام حقوق تو چودہ سو سال پہلے بتا دیے گئے تھے، جن کی تلاش میں یہ نادان سرگرداں ہیں، اور آج اس سے بھی کم ان لوگوں سے مانگنے چلے ہیں جو عورت کو کچھ دینے نہیں بلکہ اس سے سب چھیننے کے درپے ہیں۔
کیا صرف حقوق بتا دینے سے حقوق مل جاتے ہیں؟ رابیل نے شانزے کی بات کاٹتے ہوئے دکھ بھرے لہجے میں سوال کرڈالا۔
کیا مطلب کیا کہنا چاہتی ہو ؟ شانزے نے چونک کر پوچھا۔
مطلب یہ کہ اگر یہ این جی اوز اور مغربی تہذیب کے دلدادہ ایک مشرقی عورت کو حقوق کا جھانسا دینے میں کامیاب ہوتے ہیں تو کیوں آخر؟
کیا کبھی آپ نے یہ سوچا کہ جن حقوق کی بات چودہ سو سال پہلے کی گئی تھی، ان میں سے کتنے حقوق ہیں جو آج یہ معاشرہ عورت کو دے رہا ہے؟
کیا اس معاشرے نے عورت کو اس کے وہ سب حقوق دے دیے ہیں جو اسے اسلام نے دیے تھے؟
ایک عورت جس کے لیے کہاگیا کہ ماں ہو تو پیروں تلے جنت، بیٹی ہو تو دوزخ سے آزادی کا پروانہ، بیوی ہو تو بہترین متاع، بہن ہو تو عزت، کہاں ہے آج وہ جنتیں؟ جائیں ذرا جا کر اولڈ ہاؤسز میں دیکھیں، ان دیمک لگتی جنتوں کو جو اپنی اولادوں کے ہاتھوں اس انجام سے دوچار ہوئی ہیں.
وہ رحمتوں کی قدر کرنے والے کہاں ہیں؟ میں کبھی بھی نہیں بھول سکتی وہ روح کو ہلا دینے والا واقعہ جب ثمینہ کے پڑوس میں پانچویں بیٹی پیدا ہونے پر باپ نے تیل گرم کر کے کھولتے تیل میں نومولود بچی کو ۔
آہ ۔۔۔
رابیل کی آواز رندھ گئی تھی اور آنکھیں بہنے لگی تھیں۔
اور بہن جو عزت کہلاتی ہے مگر سب کچھ کھلے عام کرتا پھرتا بھائی جب بہن کے بارے میں کوئی ایسی بات سن لیتا ہے تو اس کی غیرت جوش میں آجاتی ہے اور وہ تصدیق کرنے کی ضرورت بھی محسوس نہیں کرتا اور غیرت کے نام پر اپنی ہی بہن کا قتل کرنے سے نہیں چوکتا۔
یعنی اپنے لیے کچھ اور معیار اور بہن کے لیے کچھ اور۔
وجہ یہ کہ وہ ایک عورت ہے؟
دنیا کی بہترین متاع وہ ہے جس کے لطیفہ بنائے جاتے ہیں، قہقہہ لگائے جاتے ہیں، اور پبلک میں ایسے ڈسکس ہوتی ہے جیسے اس کی کوئی عزت نفس ہی نہیں، گھر کی عزتوں کے چوک میں بیٹھ کر ٹھٹھے نہیں اڑائے جاتے۔ اسے ایسا بنا دینا جیسے ہر برائی کی جڑ بس ایک بیوی ہی ہے۔ جس کی خوبیوں کو سراہنے کا، اس کی تعریف کرنے کا، اسے محبت دینا فرض کر دیا شوہر پر، مگر شوہر اس کی ہر خوبی کو نظر انداز کرنا اور ہر خامی کو اجاگر کرنا فرض عین سمجھتا ہے۔
جو سجی سنوری بیوی پر ایک نگاہ نہیں ڈال سکتا، اس کی نظریں دور جاتی ماسی کو بھی گلی نکڑ تک چھوڑنے جاتی ہیں۔
ابھی پچھلے ہفتے ہی تو میں اور سارا ایک ساتھ پارلر گئے تھے، جب پارلر والی نے اس کی آئی بروز زیادہ باریک کردی تھیں تو میں نے اسے کہا کہ لو آج تمھارا شوہر تمہیں نہیں پہچانے گا، بالکل ہی لک چینج آ رہی ہے۔
اس کے لہجہ سے جھلکتی احساس محرومی کو میں نے خوب محسوس کر لیا تھا.
وہ بولی، ان کو تو اس وقت بھی نہیں پتہ چلتا اگر یہ میری پوری آئی بروز بھی غائب کر دیتی۔ ان کو نہیں پتہ ہوتا کہ میں کیا پہنتی ہوں، کیسی لگتی ہوں؟ وہ بولتے ایک دم چپ ہوگئی تھی۔ شاید پارلر میں بیٹھی دوسری خواتین کی موجودگی کے احساس سے.
ایک دم مجھے ساتھ والی مسز گل یاد آئیں کہ اکثر اپنے شوہر کی بات کرتے ہوئے کہتی تھیں کہ گل کا تو یہ حال ہے کہ وہ میرے ساتھ گاڑی میں بیٹھا ہوتا ہے اور اس کو ساتھ والی گاڑی میں بیٹھی عورت کی لپ سٹک کا کلر بھی پتا چل جاتا ہے، کہتا ہے اس کی لپ اسٹک کا کلر دیکھو کتنا اچھا ہے، تم ایسی کلر کی کیوں نہیں لگاتی۔ میرا خون جل جاتا ہے کہ ابھی بھی میں نے اسی کلر کی لگائی ہوئی ہے، تم نے دیکھا بھی ہے۔ ایک کے حقوق ادا نہیں کرسکتے اور شوق چار چار کا۔ مسز گل بڑ بڑاتیں۔
میں نے اس وقت تو ان کی بات سن کر ہنسی میں اڑا دی تھی مگر آج مجھے لگتا ہے کہ وہ ان کی اندر کی خواہش تھی محبت کی، سراہے جانے کی، جو اب دکھ بن کر نکل رہی تھی۔
مگر یہ حقیقت ہے شانزے کہ جاہل سے جاہل مرد جسے قرآن کی کوئی آیت یاد نہ ہو مگر اسے یہ ضرور یاد ہوگا کہ اسلام نے چار شادیوں کی اجازت دی ہے، اسے یہ نہیں معلوم کہ اگر دونوں بیویوں میں عدل نہیں کرپایا تو قیامت کے دن آدھے دھڑ سے اٹھایا جائےگا۔ اور یہ کہ یہ بھی حکم دیا گیا ہے کہ اگر تم دوسری بیوی لانے کا اردہ کرلو تو جو کچھ پہلی کو دے چکے ہو، اس میں سے کچھ بھی واپس نہیں لے سکتے۔
یاد ہے بشری باجی کی بہن، چار سال سے شوہر طلاق دیتا ہے نہ ساتھ رکھتا ہے، خود دوسری شادی کر چکا اور اپنا دیا ہوا سامان دینا تو درکنا وہ تو اس کے جہیز کا سامان تک دینے کو تیار نہیں، چار سال سے خلع کا مقدمہ عدالت میں چل رہا ہے۔ کیا قصور اس کا، یہی نا کہ بس ایک عورت ہے؟
ایک درجہ ہی زیادہ دیا ہے نا اللہ پاک نے مرد کو۔
مگر بیوی سے محبت سے پیش آنے اور اس کی عزت کرنے کا حکم دیا ہے، کسی کی عزت نفس کو مجروح کرنے کی اجازت تو نہیں دی نا، ایک انسان ہونے کے ناتے تو برابر کے حقوق دیے ہیں۔ پھر جو سارا دن گھر میں ماسی بھی بنی رہے تو بھی اس کی ماسی جتنی عزت بھی نہیں۔ پچیس تیس سال کی ازدواجی زندگی میں بہترین ماہ و سال دینے کے بعد بھی مرد کا پہلا طعنہ اور دھمکی یہی ہوتی ہے نا کہ نہیں کر سکتی گزارا تو جاؤ، یہ راستہ ہے، جاؤ اپنے باپ کے گھر۔
پھر کہتے ہیں کہ معاشرے میں طلاق کا ریشو بہت بڑھ گیا۔
کیا یہ بھی سوچا کہ کیوں بڑھا ہے؟ یہی ہیں وہ وجوہات جو گھروں کو گھر نہیں بننے دیتیں۔
معاشروں میں بگاڑ حق تلفیوں کی وجہ سے آتے ہیں، عورت محبت چاہتی ہے اور وہ محبت جو صرف اس کا شوہر دے سکتا ہے مگر آج جب اسے وہ محبت وہاں سے نہیں ملتی تو شیطان اسے دوسری طرف لے جانے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔
تمہیں یاد ہے نا شاہین خالہ کی بیٹی رضیہ، چار بچوں کی ماں، بڑی بیٹی بارہ سال کی اور سب سے چھوٹا بیٹا تین سال کا، یاد ہے ہم پچھلے مہینے جب گاؤں گئے تھے تو میں رات اسی کے ساتھ سوئی تھی، اس نے جو کچھ بتایا، میرے لیےوہ سب ناقابل یقین تھا۔
اس کی فیس بک پر کراچی کے کسی لڑکے سے دوستی ہوگئی تھی جو ڈاکٹر بن رہا تھا اور وہ اس سے شادی کا وعدہ کر چکا تھا۔
میں سن کر چونک گئی کہ تم شادی شدہ ہو۔
اس نے کہا کہ میں نے خلع لینے کا فیصلہ کر لیا ہے۔
مگر کیوں؟
اس نے اپنے ہاتھوں کو گھورتے ہوئے کہا، شاید مجھ سے نظریں ملانے کی ہمت نہیں کر پا رہی تھی، تم جانتی ہو نا میری شادی کو تیرہ برس ہونے کو آئے ہیں، اور میں نے آئی آر میں ماسٹرز کیا تھا، اور پوزیشن ہولڈر ہوں اپنی یونیورسٹی کی، مگر آج مجھے ایسا لگتا ہے جیسے میں گھر کی ہر خرابی کی ذمہ دار، ایک جاہل، پھوہڑ، ناسمجھ اور بدتمیز نافرمان عورت ہوں، اور یہ سب کون مجھے اٹھتے بیٹھتے باور کرواتا ہے، وہی جس کو اللہ نے میرا لباس بنایا اور مجھے جس کا لباس بنایا، جس کو مجھ سے محبت کرنے کہا گیا، مگر وہ مجھے ہر ایک کے سامنے ذلیل کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا، اس وقت مجھے ایسا لگتا ہے جیسے میں بے لباس ہوگئی ہوں، میرا لباس پھٹ گیا ہے، میری روح تار تار ہوگئی ہے ۔ میری تعلیم، میری عبادتیں، میرے لیے طعنہ بن چکی ہیں، جب بھی کوئی بات ہونے لگتی ہے، میں کچھ کہوں تو جواب ملتا ہے، اپنی ڈگری کی دھونس مت دو، اپنے پاس رکھو، مجھے مت پڑھاؤ، مجھے پتہ ہے تم کتنی نیک ہو۔
میں خاموشی سے اس کا ایک لفظ پنے اندر گرتا محسوس کر رہی تھی۔
میں نے ٹوٹے ٹوٹے لہجے میں اس سے پوچھا تمہاری تیرہ برس کی ازدواجی زندگی میں کوئی محبت کے لمحات نہیں آئے، تمہارے چار بچے ہیں؟
اس نے میری بات کاٹ کر کہا، تم جسے ازدواجی تعلقات کہتی ہو، وہ مرد کی ضرورت تو ہو سکتی ہے مگر محبت نہیں۔ وہ ضرورت تو جانوروں کی بھی ہوتی ہے، بچے ان کے بھی ہوتے ہیں مگر یہ محبت ہی ہے جو انسان اور جانور کے درمیان تمیز کرتی ہے، محبت چند لمحوں کے لیے نہیں ہوتی، محبت اور عزت ساتھ ہوں تو گھر بنتے ہیں، جہاں عزت نہ ہو وہاں محبت پیدا ہونے کا امکان بھی نہیں ہوتا۔
وہ کون ہے جو تمہیں یہ سب دے سکتا ہے؟ میں نے سوال کیا۔
وہ میڈیکل کے فائنل ائیر میں ہے، وہ میری ہر بات سمجھتا ہے، میری کیفیات کو محسوس کرتا ہے، وہ میری عزت کرتا ہے، وہ سب جانتا ہے میرے بارے میں، اس کے باوجود مجھے اپنانے کو تیار ہے۔
تم جانتی ہو، یہ سب گناہ ہے؟ میرا اگلا سوال تھا۔
ہاں! میں جانتی ہوں مگر رابیل، اگر وہ نہ ہوتا تو میں شاید خودکشی کر لیتی یا میرا نروس بریک ڈاون ہوجاتا۔
وہ مجھے وقت دیتا ہے، مجھے سنتا ہے، اس نے مجھ میں زندگی کی خواہش پیدا کی، میں بھی اسی گناہ سے بچنے کے لیے خلع لینے کا فیصلہ کر چکی ہوں۔
میں سناٹے میں تھی، رضیہ جہاں تک پہنچ چکی تھی، وہاں اسے سمجھانا بےکار تھا۔ مگر یہ سوچ رہی تھی کہ دونوں طرف سے وہ مرد ہی کے ہاتھوں پامال ہو رہی تھی، ایک طرف ایک مرد اگر اس کی عزت نفس کو مجروح کر رہا تھا، اسے اس کا جائز مقام نہیں دے رہا تھا، اور اسے اس مقام تک لانے والا تھا، تو دوسری طرف اسے بےراہ روی پر ڈالنے اور خواب دکھانے والا بھی اک مرد ہی تھا۔
رضیہ یہ دنیا بھول بھلیوں کی طرح ہے، کبھی کبھی جو نظر آرہا ہوتا ہے، حقیقت میں وہ ویسا ہوتا نہیں، اور کبھی ہم ان پگڈنڈیوں سے بچنے کی چاہ میں انھی میں کھو جاتے ہیں اور کبھی ان ہی میں رلتے ہوئے پھر وہیں آ کھڑے ہوتے ہیں، جہاں سے نکلے تھے، اپنی زندگی کو ان پگڈنڈیوں سے بچانے کے لیے بس اللہ کی ذات کا سہارا اور اسی پر بھروسہ کام آسکتا ہے، میں بس اسے اتنا ہی کہہ پائی تھی۔
دیواروں سے صرف مکان بنتے ہیں شانزے! انھیں گھر بنانا ہوتا ہے جو ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے سے اور محبتوں کے تبادلے سے بنتا ہے۔
محبتیں جن کا حق ہوں ان کے لیے ناپید ہوجائیں تو پھر ایسے معاشرے ناسور بن جایا کرتے ہیں۔
رابیل کا چہرہ بولتے بولتے سرخ ہوچکا تھا اور آج لگا تھا جیسے وہ ساری دنیا کی عورتوں کی وکیل بنی کھڑی ہے اور اس نے آج سب حساب چکا دینے کی ٹھانی ہے۔
شانزے نے اس کے کاندھے پر ہاتھ رکھا اور اپنے ساتھ لگا لیا۔
دھیرے سے بولی، اچھا تم بتاؤ کہ اس میں اسلام کا کیا قصور؟
میں نے اسلام کو کچھ نہیں کہا مگر میں صرف اتنا کہتی ہوں آپ آج اس معاشرے میں اسلام کے دیے ہوئے حقوق عورت کو دینا شروع کر دیں تو آپ کی عورت مغربی تہذیب کے جھانسے میں نہیں آئے گی، وہ ان سب کو دھتکار دے گی مگر یہ تب ہوگا جب ماؤں کی جنت تلاش کرنے والے اس وقت اس کے پاس ہوں گے جب اس کا ساتھ اس کے اپنے اعضاء بھی نہیں دیتے۔
بہترین متاع کو بہترین متاع بنانا ہوگا، سمجھنا ہوگا۔ میں یہ نہیں کہتی کہ عورتیں سب ٹھیک کرتی ہیں مگر میرے نبی ﷺ نے تو لونڈی تک کی تربیت کر کے اس سے نکاح کرنے کا کہا، تو کیا اس بہترین متاع کی تربیت نہیں ہوسکتی؟
ہوسکتی ہے شانزے! عورت سب کچھ چھوڑ دیتی ہے، سراپا تبدیل ہو سکتی ہے، مگر محبت سے، نفرت، سختی اور تذلیل سے نہیں۔
جھوٹ جوگناہ کبیرہ کہا گیا، مگر میاں بیوی کے درمیان جو محبت کے لیے بولا جائے، اسے جھوٹ نہیں کہا گیا۔
کیا کہتا ہے رب کہ اگر تمہیں اپنی بیوی کی ایک بات نہ پسند آئے تو درگزر کرو کہ نجانے اور کتنی خوبیاں اس میں ہوں گی۔
سختی کا تو حکم اللہ نے بھی نہیں دیا، نبی ﷺ نے بھی فرمایا کہ عورت کی تخلیق پسلی سے کی گئی، اس لیے اس میں ٹیڑھ ہے، اس کے ساتھ نرمی سے رہو۔
جس کی تخلیق اللہ نے ہی ایسی کی ہو، اس میں اس عورت کیا کیا قصور۔
جو مرد اپنی بیویوں کی عزت کرتے ہیں، انہیں محبت دیتے ہیں، ان کے گھر جنت ہوتے ہیں، اگرچہ ایسی مثالیں بہت کم ہی ہیں، مگر ہیں تو سہی نا۔ کیا ہمارے نبیﷺ کی مثال ہمارے سامنے نہیں، ان کا اسوہ ﷺ کہ کیسے انہوں نے اپنی ازواج سے محبت کی؟ کیسے ان کی تربیت کی اور کیسے انہیں رکھا؟ سب کچھ ہے بس، اس پر عمل کرنے کی ضرورت ہے،
بیٹی کو دوزخ سے آزادی کا پروانہ بنانا ہوگا، اس کی بہترین تربیت کر کے۔ بہن کو عزت بنانے کے لیے بھائی کو عزت دار بننا ہوگا۔ معاشرہ مردوں کا نہیں بلکہ اسلامی معاشرہ بنانا ہوگا۔
تب ہی ہم اسلام کے چودہ سو سال پہلے کے دیے ہوئے حقوق عورت کو دے سکیں گے ورنہ مزید چودہ سو سال تک بھی اگر ہم صرف یہ پڑھ پڑھ کر سناتے رہے تو بھی کچھ نہیں ہوگا۔ صرف سنانے سے حقوق نہیں مل جایا کرتے، حقوق و فرائض ادائیگی کے لیے ہیں، دوسروں کی خوبیوں کو دل سے تسلیم کرنا ہوتا ہے۔ اصلاح کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ اس کی غلطیوں کوتاہیوں سے صرف نظر کیا جائے، پہلے اسے یہ یقین دیا جائے کہ سامنے اس سے محبت کرنے والا اور اس کی پرواہ کرنے والا ہے جو کبھی اس کی تذلیل نہیں چاہے گا، اور جو اس کے لیے سب بہتر سوچ رکھنے والا ہے، ایک عورت کو یہ یقین اور اعتبار دینا ہوگا، جب یہ دے دیا جائےگا تو تم یقین جانو شانزے! عورت خود کو اس کے لیے قربان کر دینے سے بھی دریغ نہیں کرے گی اور عورت کا یہ اعتماد ایک نسل اور قوم کا اعتماد بن جائے گا.
شانزے اس کی تمام باتوں کے جواب میں صرف آمین کہہ پائی کہ ان میں سے کسی بات سے اختلاف ممکن نہ تھا۔
Tag: بیوی
-
حقوق کے چکر میں گرد آلود ہوتی عورت – اسریٰ غوری
-
انوکھی بیوی – یوسف ثانی
بیوی: آپ کبھی دن میں ڈیوٹی پہ جاتے ہیں تو کبھی رات میں؟ پھر آپ کی ہفتہ وار چھٹیاں بھی بدلتی رہتی ہیں۔ایسا کیوں ہے؟ باقی سب لوگ تو ہمیشہ دن میں ڈیوٹی پہ جاتے ہیں اور ان کی ہمیشہ سنیچر اتوار ہی کو چھٹی ہوتی ہے۔
شوہر: اری او نیک بخت! تجھے تو پتہ ہے کہ میں ایک فیکٹری میں کام کرتا ہوں جبکہ باقی لوگ دفتروں میں کام کرتے ہیں۔ دفتر وںمیںصبح نو بجے سے شام پانچ بجے تک کام ہوتا ہے۔ ہر دفتر سنیچر اتوار کے علاوہ سرکاری تعطیلات پر بھی بند رہتا ہے۔ جبکہ اکثر بڑی فیکٹریوں میں تو چوبیس گھنٹہ کام ہوتا ہے۔ ہفتہ اتوارکے علاوہ سرکاری تعطیلات میں بھی یہ فیکٹریاں بند نہیں ہوتیں۔
بیوی: فیکٹریوں میں چوبیس گھنٹہ کام کیوں ہوتا ہے؟ یہ لوگ رات کو اور چھٹیوں والے دن فیکٹری بند کیوں نہیں کرتے؟
شوہر: اس کی دو بنیادی وجوہات ہیں۔ ایک تو یہ کہ بعض فیکٹریاں اتنی آسانی سے بند اور کھولی نہیں جاسکتیں۔ جیسے آئل ریفائنریز، مصنوعی کھاد کی فیکٹریاں، اور اسی طرح کی دوسری ہیوی کیمیکلز انڈسٹریز کو اسٹارٹ کرنے اور پروڈکٹ بنانا شروع کرنے میں ہی کئی دن لگ جاتے ہیں۔ اسی لئے اسے روزانہ بند نہیں کیا جاسکتا بلکہ ایک بار اسٹارٹ ہوجائے تو مسلسل چلایا جاتا ہے۔ یہ صرف خرابی یا مرمت کی صورت میں ہی بند ہوتا ہے۔
بیوی: اور دوسری وجہ؟
شوہر: دوسری وجہ ہم لوگوں کی “ضرورت” ہے۔ جیسے بجلی پیدا کرنے والے پاور ہاؤسز۔ ریلوے، جہاز، بڑے ہوٹلز، پولس کا محکمہ وغیرہ۔ ان اداروں کی خدمات معاشرے کو ہر وقت درکار ہوتی ہے۔ خواہ دن ہو یا رات، عید بقرعید ہو یا دیگر سرکاری تعطیلات، ان محکموں کا آپریشنل ڈپارٹمنٹ ہر وقت کام کرتا رہتا ہے، بڑی فیکٹریوں کی طرح۔
بیوی: پھر ان ادارون میں لوگ چھٹی کیسے کرتے ہیں؟
شوہر: اب مجھے ہی دیکھ لو، میں دو دن علی الصباح ڈیوٹی پہ جاتا ہوں، پھر دو دن دوپہرکو تو اگلے دو دن رات کو۔ اور چھہ دن کی ڈیوٹی کے بعد دو دن کی ہفتہ وار چھٹی ہوتی ہے۔ میں جس پوسٹ پہ کام کرتا ہوں، اسی پوسٹ پہ کل چار آدمی کام کرتے ہیں۔ آٹھ آٹھ گھنٹہ کی تین شفٹوں میں تین لوگ باری باری کام کرتے ہیں جبکہ چوتھا فرد چھٹی پہ ہوتا ہے۔ اسی قسم کے ملتے جلتے شیڈیول میں کارخانوں اور لازمی سروسز کے ادارے چوبیس گھنٹے اور سال بھر خدمات بھی فراہم کرتے ہیں اور ہر فرد کو آٹھ گھنٹہ روزانہ ڈیوٹی دینے کے بعد ہر ہفتہ دو دن کی تعطیلات بھی ملتی ہیں۔
بیوی: تو گویا آپ مرد لوگ دن بھر میں صرف آٹھ گھنٹہ کام کرتے ہیں اور باقی سولہ گھنٹہ میں تفریح یا آرام۔ اس کے علاوہ ہر ہفتہ دو دن کی تعطیلات بھی۔ سالانہ، اتفاقی اور بیماری کی تعطیلات اس کے علاوہ ہیں۔ بھئی آپ لوگوں کے تو بڑے مزے ہیں ۔
شوہر: ہاں یہ تو ہے۔
بیوی: اور ہم عورتوں کے لئے؟
شوہر: کیا مطلب ؟
بیوی: میرا مطلب ہے کہ ہم خواتین خانہ کے اوقاتِ کار کا بھی کوئی حساب کتاب ہے یا نہیں؟ ہم دن بھر میں کتنے گھنٹہ کام کریں؟ ہفتہ میں کتنے دن کی چھٹی کریں؟ کیا ہمارے لئے کام کا دورانیہ نہیں ہونا چاہئے یا ہم چند گھنٹہ سونے کے علاوہ باقی تمام گھنٹہ مسلسل کام کریں؟ اور وہ بھی بغیر کسی قسم کے ہفت وار اور دیگر تعطیلات کے؟
شوہر: (مسکراتے ہوئے): بھئی تم لوگ عورتیں جو ہوئیں۔ تم لوگوں کے کام کے اوقات بھلا کیسے مقرر ہوسکتے ہیں۔ تمہیں تو گھر میں کام کرنا ہی پڑتا ہے؟
بیوی: کیا ہم لوگ انسان نہیں ہیں؟
شوہر: انسان تو ہو بھئی! اس سے کس کو انکار ہے؟
بیوی: پھر ہم لوگ کیا جسمانی طور پر مردوں سے زیادہ طاقتور ہیں؟
شوہر: (سوچتے ہوئے) نہیں ایسا بھی نہیں ہے۔
بیوی: پھر ہم لوگ مسلسل اٹھا رہ اٹھارہ گھنٹہ کیوں کام کرتی رہیں۔ دن رات کی تمیز کے بغیر، ہفت وار تعطیلات کے بغیر، سالانہ چھٹیوںکے بغیر، بیماری کی تعطیلات کے بغیر
شوہر: بھئی میری تو سمجھ میں کچھ نہیں آرہا کہ تم کہنا کیا چاہتی ہو۔
بیوی: یہی کہ ہم بھی اگر انسان ہیں اور آپ مردوں سے جسمانی طور پر کمزور بھی تو ہم بھی دن میں آٹھ گھنٹہ ہی کام کریں اور بقیہ سولہ گھنٹہ آرام اور تفریح اور ہر ہفتہ دو دن کی تعطیلات بھی تاکہ اپنے میکہ یا کسی عزیز رشتہ دار یا سہیلیوں کے گھر ملنے جلنے جاسکیں، کوئی کام کئے بغیر یہ دو دن گزار سکیں۔
شوہر: لیکن یہ ہوگا کیسے؟ پھر گھر کون دیکھے گا؟ بچوں کو کون دیکھے گا؟ کھانا کون پکائے گا؟ اور سب سے بڑھ کر (مسکراتے ہوئے) ہماری دیکھ بھال کون کرے گا؟؟ اگر تم نے بھی فیکٹری کے کارکنوں کی طرح گھنٹوں کا حساب کتاب کرن شروع کردی تو؟؟؟
بیوی: ذرا سوچئے کہ کیا آپ مرد لوگ ہم عورتوں کے ساتھ کام کے سلسلہ میں ظلم نہیں کر رہے۔ ساری آسانیاں اپنے لئے اور کام اور کام صرف ہم عورتوں کے لئے؟ شادی سے قبل گھر میں ہم لوگ سب مل جل کر کام کیا کرتے تھے۔ ہم چار بہنیں ہیں۔ امی نے بچپن ہی سے گھر کے کام سارے بہنوں میں تقسیم کر دیئے تھے۔ اس طرح گھر کے کام کا بوجھ کسی ایک پر نہیں پڑتا تھا اور امی بھی ریلکس رہتی تھیں؟
شوہر:(مسکراتے ہوئے) پھر ٹھیک ہے جب ہماری بھی چار بیٹیاں ہوجائیں گی تو تم بھی۔۔۔
بیوی: اللہ آپ میری سنجیدہ بات کو مذاق میں نہ ٹالیں۔ ابھی تو ہماری شادی کو چند ہی مہینے ہوئے ہیں اور ہم رہتے بھی فیکٹری کی کالونی میں ہیں۔ یہاں تو میرے اِن لاز بھی موجود نہیں ہیں۔۔۔
شوہر:یہ تو تمہارے لئے خوشی کی بات ہے کہ تم گھر کی بلا شرکتِ سسرال مالکہ ہو۔۔۔
بیوی: کیا آپ نے مجھے روایتی بہو سمجھ رکھا ہے جو۔۔۔ میں سسرال والوں اور میکہ والوں میں کوئی فرق نہیں کرتی۔ دونوں ہی میرے لئے یکساں محترم ہیں۔
شوہر:بھئی یہ تو مجھے اچھی معلوم ہے، میں توذرا مذاق کر رہا تھا کہ۔۔۔
بیوی: لیکن میں اس وقت مذاق نہیں ایک سنجیدہ گفتگو کر رہی ہوں۔ آپ بتلا رہے تھے کہ شادی سے قبل سیلاب زدگان کی مدد کے لئے سندھ کے مختلف کیمپوں میں بھی کئی ہفتے رہ کر کام کرچکے ہیں۔
شوہر:بھئی وہ تو ہم سب کا فرض تھا۔ میں نے تو طالب علمی کے دور میں زلزلہ زدگان کے لئے بھی امدادی مہم میں حصہ لیا تھا۔ قومی مشکلات میں ہم سب کو ایسی مہمات میں ضرور حصہ لینا چاہئے۔
بیوی: اللہ آپ کی کاوشوں کو قبول کرے۔ میں یہی کہنا چاہ رہی تھی کہ آپ مردوں کو یہ خوب سہولت حاصل ہے کہ جب چاہا اوروں کی مدد کے لئے نکل کھڑے ہوئے اور ثواب سمیٹ لئے جبکہ ہم خواتین۔۔۔
شوہر: چلو آئندہ کبھی ایسا موقع ملا تو۔۔۔
بیوی: آپ میری بات کو مذاق میں نہ اڑائیں۔ میں جو کہہ رہی ہوں اسے غور سے سنیں۔۔۔
شوہر: بھئی سن تو رہا ہوں۔ اب کیا شادی کے بعد بولنا بالکل بند ہی کردوں اور صرف سنتا ہی رہوں۔
بیوی: میں نہیں بولتی۔۔۔۔ آپ ہر بات کو۔۔۔
شوہر: ارے نہیں نہیں۔۔۔ یہ لو میں خاموش ہوگیا۔۔۔ اب تم اپنی ساری باتیں ایک ساتھ کہہ ڈالو، جو بھی کہنا ہے۔
بیوی: مجھے بہت ساری باتیں کرنے کا شوق نہیں۔ میں تو صرف دو باتیں کہنا چاہ رہی ہی ہوں اور آپ ہیں کہ بیچ بیچ میں۔۔۔ ہاں تو میں کہہ رہی تھی کہ شادی سے قبل ہم گھر میں بہنیں اور امی پانچوں مل جل کر سارے گھر کا کام کیا کرتی تھیں۔ گھر کے سارے کام بھی بآسانی ہوجاتے تھے اور ہم سب بہنوں نے اعلیٰ تعلیم بھی حاصل کی اور سب نے اپنے اپنے شوق بھی پورے کئے۔
شوہر: مجھے اس بات کا احساس ہے کہ تم ایک بھرے گھر سے آئی ہو اور یہاں تنہا گھر بھر کا کام کرنا پڑتا ہے۔ اگر کہو تو گھر کے کام کاج کے لئے کوئی ملازمہ رکھ دوں ؟
بیوی: مجھے ملازمہ رکھ کر کام کروانا بالکل پسند نہیں۔ میں تو یہ چاہ رہی تھی کہ کوئی میرا اپنا ہر دم میرے ساتھ رہے۔
شوہر: بھئی وہ امی جان تو تمہیں پتہ ہے کہ یہاں نہیں رہ سکتیں، ابو ان کے بغیر تنہا رہ جاتے ہیں۔
بیوی: میں نے یہ تو نہیں کہا۔۔۔ میں تو یہ چاہ رہی تھی کہ جس طرح آپ اکثر و بیشتر لوگوں کی بھلائی کے کام کرتے رہتے ہیں، دوسروں کے کام آتے رہتے ہیں۔ میں بھی کوئی ایسا نیکی کا کام کروں کہ کسی کا بھلا ہوجائے۔
شوہر: (غصہ سے) ایک تو تم عورتوں کی باتوں کا کوئی سر پیر نہیں ہوتا۔ ابھی گھر کے کاموں کا رونا تو ابھی نیکی اور سماجی کام کرنے کا شوق۔ تم ایک وقت میں ایک بات نہیں کرسکتیں کہ تمہا را اصل مسئلہ کیا ہے؟
بیوی: (مسکراتے ہوئے) آپ غصہ میں بھی مجھے بہت اچھے لگتے ہیں۔۔۔ میرا ایک نہیں دو مسئلہ ہے۔ میں لوگوں کے ساتھ بھلائی بھی کرنا چاہتی ہوں اور اپنا ذاتی مسئلہ بھی حل کرنا چاہتی ہوں۔ اسے کہتے ہی ایک تیر سے دو شکار۔۔۔
شوہر: میں کچھ سمجھا نہیں۔۔۔
بیوی: اصل میں میری ایک کزن ہے، جو اتنی اچھی ہے کہ کیا بتلاؤں۔ لیکن اس کے میاں نے شادی کے تیسرے ہی مہینے طلاق دیدی۔ لڑکا غلط نکلا۔ تب سے انکل آنٹی تو پریشان ہیں ہی، لیکن میری بہنوں جیسی کزن نے تو جیسے سنیاس لے لیا ہے۔ نہ کھا نے پینے کا ہوش نہ پہننے اوڑھنے کا۔ اوراب تو وہ کسی سے ملتی جلتی بھی نہیں۔ میں اْس کے بارے میں بہت سوچتی ہوں کہ۔۔۔
شوہر: بڑا افسوس ہوا تمہاری کزن کا سن کر۔ اصل میں بعض لڑکے ہوتے ہی غیر ذمہ دار ہیں۔ رشتہ دیکھ بھال کر کرنا چاہئے۔ لیکن تم تو اپنا دکھڑا رو رہی تھی، گھر کے کاموں کا رونا پھر سماجی خدمت کا شوق۔ بیچ میں اپنی اس کزن کو کیوں لے آئیں۔ تم بھی نا باتیں کرتے کرتے بہک سی جاتی ہو۔۔۔
بیوی: اصل میں۔۔۔ مَیں نا! ۔۔۔ میں یہ چاہ رہی تھیں کہ وہ ہمارے گھر آجائیں۔ اللہ کتنا اچھا ہوگا ہم دونوں بہنیں مل جل کر رہیں تو، میری تنہائی بھی ختم ہوجائے گی اور کام کاج کا مسئلہ بھی نہیں رہے گا۔
شوہر: اس میں مجھے تو کوئی اعتراض نہیں۔۔۔ لیکن کیا تمہارے آنٹی اور انکل تمہاری کزن کو ہمارے گھر رہنے کی اجازت دے دیں گے۔ اور کیا خود تمہاری کزن اس بات پر راضی ہوجائے گی۔۔۔
بیوی: ہاں! ہاں! سب راضی ہوجائیں گے، میں سب کو منا لوں گی، بس آپ راضی ہو جائیں تو۔۔۔ ؟
شوہر: بھئی میں نے کہہ تو دیا کہ مجھے کوئی اعتراض نہیں ہوگا اگر وہ لوگ۔۔۔
بیوی: تو کیا آپ میری کزن سے نکاح پر راضی ہیں ؟
شوہر: کیا ؟یہ نکاح والی بات بیچ میں کہاں سے آگئی ؟
بیوی: تو آپ کے خیال میں میری کزن ایسی گئی گزری ہے کہ۔۔۔
شوہر: میں نے یہ کب کہا کہ۔۔۔
بیوی: اگر آپ کو اپنے دفتر جانے کے بعد میری تنہائی اور کام کاج کے بوجھ کا ذرا بھی خیال ہے تو میری کزن سے شادی کر لیں۔ اس طرح مجھے بھی ایک نیکی کرنے کا موقع مل جائے گا۔ میری کزن کا مسئلہ بھی حل ہوجائے گا۔ اور۔۔۔ اور (مسکراتے ہوئے) آپ کے تو مزے ہی مزے۔ مفت میں دوسری بیوی بھی مل جائے گی۔
شوہر: (غصہ سے) دیکھو میں اس قسم کا مرد نہیں ہوں، جیسا تم سمجھ رہی ہو۔۔۔
بیوی: ارے بابا! میں تو مذاق کر رہی تھی۔ کیا مجھے مذاق کرنے کا حق نہیں ہے۔
شوہر: تو گویا یہ سب کچھ مذاق تھا ؟؟؟
میں: نہیں نہیں۔ سب کچھ تو نہیں، بس آپ ہاں کردیں۔ میری بات مان لیں۔ میری کزن سے نکاح کرلیں۔ ہم دو مل کر آپ کی بہتر خدمت بھی کریں گی اور گھر میں بہنوں کی طرح مل جل کر گھر کو سجا سنوار کر رکھیں گی۔ پھر ہم دونوں پر کام کا بوجھ بھی نہیںہوگا اور ہم بھی آپ کی طرح دن میں آٹھ دس گھنٹہ کام کے ساتھ ہفتہ وار تعطیل پر اپنے اپنے میکہ بھی جا سکیں گی، آپ کو تنہا چھوڑے بغیر۔۔۔
شوہر: اوہ تو یہ بات تھی۔ اس کے لئے اتنا گھما پھرا کربات کرنے کی کیا ضرورت تھی ؟
بیوی: تاکہ آپ کی سمجھ میں آسکے کہ ساری عورتیں احمق نہیں ہوتیں کہ ساری عمر اکیلی گھر کی چکی پیستی رہیں اور مرد عیش کرتے رہیں۔ ہمیں بھی برابر عیش کرنے کا حق ہے۔ اور اس کا واحد شریفانہ طریقہ یہ ہے کہ بیویاں اپنے شوہروں کی دوسری شادی اپنے خاندان کی مجبور و بے کس خواتیں سے کروا دیں۔ اس طرح ایک تو دوسری بیوی ممنون ہوگی اور کبھی بھی پہلی بیوی کو سوکن نہیں سمجھے گی۔ دوسرے دونوں کا مسئلہ بھی حل ہوجائے گا۔ اور شوہر کے لئے اس سے بہتر تحفہ کیا ہوگا کہ اسے پہلی بیوی مفت میں دوسری بیوی بھی لادے۔
شوہر: دیکھو تم پھر مجھے۔۔۔
بیوی: میں آپ کو تو کچھ نہیں کہہ رہی، تو میں جا کر آنٹی سے بات کروں نا ؟
شوہر: لیکن مجھے بھی تو اپنے والدین سے بات کرنا ہوگی، پھر تمہارے والدین کو بتلانا ہوگا کہ تم کیا کرنے جارہی ہو۔۔۔
بیوی: آپ کو یہ سب کچھ کرنے کی ضرورت نہیں۔ اب یہ میرا مسئلہ ہے۔ میرے والدین کو مجھ پر اعتماد ہے، انہیں پہلے سے بتلانے کی ضرورت نہیں ہے۔ اور آپ بھی ابھی سے کسی کو کچھ نہ بتلائیں۔ (مسکراتے ہوئے) ویسے بھی آپ کوئی کنواری لڑکی تو ہیں نہیں کہ نکاح کے لئے ولی کی اجازت چاہئے آپ کو؟
شوہر: بھئی جو تمہاری مرضی، بعد میں اگر لڑائی جھگڑا ہوا نا تو۔۔۔
بیوی: کچھ نہیں ہوگا، یہ میری ذمہ داری ہے۔ جب میں ہی کسی سے نہیں لڑوں گی تو کوئی مجھ سے کیسے لڑے گا اور میری کزن تو اتنی اچھی ہے کہ اس سے نکاح کرکے آپ مجھے بھی بھول جائیں گے یہ الگ بات ہے کہ میں آپ کو ایسا کرنے نہیں دوں گی۔
شوہر: کاش ساری بیویاں تمہاری طرح سوچنے لگیں تو ملک میں عورتوں کی شادی کا مسئلہ ہی نہ رہے۔ بیوہ اور مطلقہ جلد از جلد کسی شریف گھرانے میں دوسری بیوی بن کر خوش و خرم زندگی گذارنے لگے۔ اسی طرح ان لڑکیوں کا مسئلہ بھی حل ہوسکتا ہے، جن کی بوجوہ شادی نہیں ہوپاتی۔ اور وہ ساری زندگی اپنے ماں باپ کے گھر ایک انجانے خوف میں گذارنے لگتی ہیں کہ ماں باپ کے بعد ان کا کیا ہوگا۔ اللہ تمہاری طرح دیگرتمام بیویوں کو عقل سلیم عطا کرے اور اپنا ذاتی شوہر دوسری مجبور و محروم بہنوں کے ساتھ شیئر کرنے کی توفیق دے
بیوی: آمین۔ ثم آمین
شوہر: : لیکن ایک بات پھر بھی حقیقت ہے۔
بیوی: وہ کیا؟
شوہر: جن مردوں نے ایک سے زیادہ شادیاں کی ہوئی ہیں، ان کی گھریلو زندگیاں لازماََ مشکلات کا شکار ہوجاتی ہیں۔ لڑائی جھگڑا تو معمول کی بات ہے۔ ایسے میں ایک شریف مرد کی زندگی اجیرن بن جاتی ہے۔ اکثر ڈراموں فلموں اور کہانیوں میں بھی اسی بات کو نمایاں کیا جاتا ہے۔
بیوی: آپ کے مشاہدہ اور مطالعہ سے انکار تو نہیں کیا جاسکتا کہ ایسا ہوتا بھی ہے، لیکن یہ تصویر کا ایک ہی رْخ ہے۔
شوہر: کیا مطلب؟
بیوی: جہاں تک ڈراموں، فلموں اور کہانیوں کا تعلق ہے تو ان کے پروڈیوسر اور ڈائریکٹرسب کے سب غیر اسلامی ذہن کے مالک ہوتے ہیں۔ وہ مغرب کے اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ مرد کو شادی صرف اور صرف ایک ہی کرنی چاہئے، گرلز فرینڈز چاہے جتنی مرضی رکھ لیں۔ یہ لوگ نام کے مسلمان ہوتے ہیں اوراللہ نے مردوں کو ایک سے زائد شادی کی جو اجازت دی ہے، وہ ان کے دل سے مخالف ہیں۔ اسی لئے اپنی کہانیوں اور ڈراموں میں جان بوجھ کر دوسری شادی کرنے والوں کو مشکل میں گھرا دکھلاتے ہیں۔دوسری بات یہ کہ معاشرے میں وہی گھرانے دوسری شادی سے پریشانی میں مبتلا ہوتے ہیں، جہاں میاں بیوی دونوں دین سے دور ہوتے ہیں اور ایسے گھرانوں کی اکثریت ہونے کے باعث میڈیا میں بھی انہی کو زیادہ پرجیکشن ملتی ہے۔ جبکہ دین دار گھرانوں میں اگر کوئی مرد ایک سے زائد شادی کرتا ہے تو وہاں اتنی زیادہ مشکلات نہیں ہوتیں۔ اور ایسے گھرانوں کے مشاہدات پر کوئی قلم بھی نہیں اٹھاتا۔اور سب سے اہم بات یہ کہ زیادہ تر مرد از خود اپنی پسند سے دوسری شادی کرتا ہے۔ یا پہلی بیوی کی مرضی کے خلاف اس سے زیادہ حسین اور کم عمر لڑکی سے شادی کرتا ہے۔ چنانچہ دونوںبیویوں میں کبھی ذہنی ہم آہنگی نہیں ہوپاتی۔ وہ ایک دوسرے کو سوکن بلکہ دشمن گردانتی ہیں اور دونوں کا سارا زور شوہرکو اپنی طرف کھینچنے میں صرف ہوتا ہے۔ جس سے گھر جہنم کا نمونہ بن جاتا ہے اور مرد پریشان ہوجاتا ہے۔ میرا نسخہ اس کے بر عکس ہے کہ پہلی بیوی از خود اپنی مرضی سے اپنے خاندان یا احباب میں سے مجبور و بے کس مگر قابل اعتبار مطلقہ، بیوہ یا ایسی خواتین سے اپنے شوہر کا نکاح پڑھوائیں جن کی شادی نہ ہو رہی ہو۔ اور وہ ایسا نیک نیتی سے اجر و ثواب کے لئے کریں۔ اس طرح مرد کی دوسری شادی سے دونوں بیویوں میں لڑائی جھگڑا کا امکان نہ ہونے کے برابر رہ جاتا ہے۔ بلکہ دونوں متحد ہوجائیں تو شوہر کی طرف سے کسی بھی قسم کے ناروا سلوک کا امکان بھی ختم ہوجاتا ہے۔
شوہر: تو گویاتمہیں مجھ پر بھی شک ہے کہ کہیں میں تم سے ناروا سلوک نہ کروں، اسی لئے اپنی حفاظت کے لئے۔۔۔
بیوی: ارے نہیں نہیں۔ اللہ نہ کرے کہ مجھے کبھی ایسا کوئی خدشہ لاحق ہو۔ میں تو ایک عام بات کر رہی تھی کہ ایسا کرنا پہلی بیوی کے حق میں ہی جاتا ہے، اگر کوئی سوچے تو۔
شوہر: کہہ تو تم صحیح رہی ہو۔ اسلام میں مردوں کو ایک سے زائد شادی کی اجازت کے مخالفین (خواہ وہ مسلمان ہوں یا غیر مسلمان) یہ سمجھتے ہیں کہ اگرہم نے اس امر کی حوصلہ افزائی کی تو ہر مرد چار چار چار شادیاں رچانے لگے گا۔ حالانکہ کسی بھی معاشرے میں ایسا ممکن ہی نہیں ہے کہ آزادی اور سہولتوں کی فراوانی کے باجود سارے مسلمان مرد دو دو شادیاں بھی کر لیں۔ ہر معاشرے میں عموماََ خواتین کی تعداد صرف چند فیصد ہی زائد ہوتی ہے۔ جیسے پاکستان میں خواتین 51 یا 52 فیصد ہیں۔ گویا مردوں سے ان کی تعداد صرف دوتا چار فیصد زائد ہے۔ یعنی اگر تمام خواتین کی شادیاں ہوجائے تب بھی صرف دو تا چار فیصد مرد ہی دو دو شادیاں کر پائیں گے، خواہ (بفرض محال) سارے کے سارے مرد خوشحال، دوسری شادی کے خواہشمند ہوں، ریاستی قوانین بھی مردوں کو دوسری شادی کی ترغیب دینے والی ہواور ساری کی ساری عورتیں بھی اپنے شوہر، بھائیوں اور بیٹوں کی دوسری شادی پر دل سے رضامند ہوجائیں تب بھی زیادہ سے زیادہ چار فیصد مرد ہی دوسری شادی کر پائیں گے۔
بیوی: (مسکراتے ہوئے) بالکل صحیح !کیوں کہ دوسری شادی کے لئے بن بیاہی عورتوں کی دستیابی بھی ضروری ہے۔
شوہر: ویسے بھی دوسری شادی کی صورت میں مرد پر مختلف قسم کی اضافی ذمہ داریوں کا کئی گنا زیادہ بوجھ پڑتا ہے۔ آج کے عہد میں ایک شادی کرنا بھی اتنا آسان نہیں ہے چہ جائیکہ ایک سے زائد شادی کرنا۔ دوسری شادی کی خواہش کرنا ایک الگ بات لیکن عملاََ ایسا کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔
بیوی: لیکن معاشرے کی بن بیاہی، مطلقہ اور بیوہ عورتوں کی فلاح و بہبود کا واحد نسخہ یہی ہے کہ کچھ نہ کچھ مرد یہ اضافی ذمہ داری اٹھانے کے لئے تیار ہوں اور کچھ نہ کچھ خواتین خوش دلی سے اپنی ’’محروم بہنوں‘‘ کے ل یے اپنے دل اور گھر کے دروازے کھلے رکھیں۔
شوہر: سر تسلیم خم ہے، جو مزاج یار میں آئے۔ -
شوہر بیوی کو خوش کیسے کرے؟ نیر تاباں
شادی شدہ زندگی کے مسائل کیسے کم کریں، اس پر بہنوں سے سیر حاصل گفتگو پہلے ہوئی۔ آج باری ہے بھائیوں کی۔ سب خاموشی سے بیٹھ جائیں، فون سائلنٹ کر دیں اور سیکھنے اور عمل کرنے کی نیت سے بات سنیں۔ ان شاء اللہ!
آپ سارا دن گھر سے باہر ہوتے ہیں۔ رستے میں، آفس میں، فیس بک پر، ہر جگہ مسکراتی لڑکیاں لیکن گھر کے اندر آتے ہی بیوی پر نظر پڑتی ہے جو کام میں مشغول دور سے ہی سلام کر دیتی ہے۔ ایسے میں اس کا انتظار کرنے کے بجائے خود ہی پاس جا کے مسکرا کے حال چال پوچھیں۔ گھر کے کاموں اور بچوں کی مصروفیت میں آپ کا واپس آتے ہی پیار سے حال پوچھنا ہی اس کی آدھی تھکن دور کر دے گا۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم جب بھی گھر لوٹتے، اپنی زوجہ کو پیار سے بوسہ دیتے تھے۔
پھر نہا دھو کر کپڑے تبدیل کر لیجیے۔ بہت ہلکا سا پرفیوم بھی لگا لیجیے تاکہ آس پاس سے گزرنے والوں کو ایک خوشگوار احساس ہوتا رہے۔ پان/سموکنگ کرنے والے oral hygeine کا خصوصی خیال رکھیں۔ سوچیں کہ لہسن اور پیاز جیسی چیزیں کھا کر اللہ تعالی نے مسجد میں آنا ناپسند فرمایا ہے تاکہ ان کی بو باقی نمازیوں کو ناگوار نہ گزرے تو سگریٹ کی بدبو بیوی کو کس قدر ناگوار گزرتی ہوگی۔ اول تو اس عادت کو چھوڑنے کی کوشش کریں، دوسرا یہ کہ منہ کی صفائی کا خیال رکھیں۔
محبت کو اظہار اور تجدیدِ اظہار کی ضرورت ہوتی ہے۔ گھر آتے ہوئے کبھی پھول یا اس کی پسندیدہ چاکلیٹ یا اس کی پسند کی کوئی چیز لیتے آئیے۔ دن بھر اپنی بیوی کو ہلکا پھلکا ٹیکسٹ میسج بھیج دیں جیسے:
Are you busy? I had something important I forgot to tell you: I love you!
I havent told you in long time how much you mean to me. Thank you for everything that you do.
اسی طرح چپکے سے سرہانے کے نیچے اس کے لیے کوئی پیار بھرا میسج رکھ دیں۔ صفائی کرتے ہوئے اسے سرپرائز مل جائے گا۔ بیگم کا نام ساتھ ضرور لکھ دیجیے گا، ورنہ نتائج کے ذمہ دار آپ خود ہوں گے۔
یہ تو تھے فوری کرنے والے آسان کام۔ اب آئیں کچھ ایسی عادتوں کی طرف جن سے بیویاں سخت نالاں ہوتی ہیں اور شوہر بالکل توجہ نہیں کرتے۔ کسی نے کہا ہے کہ
The most important thing a father can do for his children is to love their mother.بچوں کی بہترین تربیت کا پہلا سٹیپ یہ ہے کہ ان کی ماں کو عزت اور محبت دیں۔ جہاں غلطی کرے، پیار سے سمجھا دیں۔ اس کی غلطی پر اس کے گھر والوں کو برا بھلا نہ کہیں۔ بچوں کے سامنے اگر آپ اپنی بیوی کی بےعزتی کریں گے، بچے لاشعوری طور پر یا آپ کی سائیڈ پر ہو جائیں گے اور ماں کی بات سننا ماننا چھوڑ دیں گے، یا ان کی مکمل ہمدردی ماں کی طرف ہوگی (جس کے چانسز زیادہ ہیں) اور آپ اپنا وہ مقام کھو دیں گے جو ایک بچے کے دل میں آپ کا ہونا چاہیے۔ آپ اپنی اولاد کے سپر ہیرو سے ولن کے مقام پر آ جائیں گے۔ بچے سہم جائیں گے، دوستوں میں اپنا اعتماد کم کر بیٹھیں گے، پڑھائی بھی متاثر ہو گی۔ اس کا ایک اور بہت بڑا نقصان بھی ہے۔ یہی بچے کل کو عورت خصوصاً اپنی بیوی کی عزت نہیں کر سکیں گے۔ انہیں یہی معلوم ہو گا کہ عورت کے ساتھ یہی سلوک کیا جاتا ہے۔ تحقیق کہتی ہے کہ قریباً %78 مرد جو اپنی بیویوں کو ہراساں کرتے ہیں، انہوں نے اپنے بچپن میں اپنے باپ کو اپنی ماں سے یہی سلوک کرتے دیکھا ہوتا ہے۔ آپ غور کریں کہ آپ کے آج کے عمل سے کس طرح آپ کی نسلیں متاثر ہوں گی۔
میں یہ بات دل سے مانتی ہوں کہ جو رزق اور جتنی محبت اللہ نے میرے نصیب میں لکھی ہے، اتنی ہی ملے گی، کم نہ زیادہ۔ یہی بات میں اپنی بہنوں کو سمجھاتی ہوں جو شکایت کرتی ہیں کہ شوہر اپنے گھر والوں پر سارا پیسہ لٹا دیتا ہے اور ہمارے وقت پر بچت کرنا یاد آ جاتا ہے۔ لیکن یہاں آپ یاد رکھیں کہ آپ اپنی بیوی کے کفیل ہیں۔ اس کو ہر مہینے کچھ رقم پاکٹ منی کے طور پر دیں جس کے بارے میں اس سے کوئی سوال نہ کریں۔ وہ چاہے تو اپنے گھر والوں کے لیے کچھ لے، چاہے تو صدقہ کرے، چاہے تو اپنے پاس جمع کر لے۔ اگر وہ خود کماتی ہے تو پھر پاکٹ منی کے بجائے کبھی کھانا کھلانے لے جائیں، یا کہیں گھمانے لے جائیں۔
اسی طرح جب بہنیں بتاتی ہیں کہ کس طرح ان کے شوہر کی ساری توجہ اور محبت کا سارا مرکز اس کے اپنے گھر والے ہوتے ہیں اور اس کا کام بس گھر سنبھالنا ہے تو بہت دل دکھتا ہے۔ بےشک میں انہیں کہوں کہ محبت اور خلوص سے تم ایک دن اپنے شوہر کا دل جیت لو گی، آپ سے مجھے یہی کہنا ہے کہ یہ عورت اپنا گھر، اپنے پیارے رشتے، اپنے دوست احباب، حتی کہ اپنی پسند ناپسند بھی چھوڑ کر آپ کے پاس آئی ہے۔ وہ اپنے تمام رشتوں کا پیار آپ میں ڈھونڈتی ہے۔ کبھی ابو کی طرح سینے سے لگا لیں، کبھی امی کی طرح محبت بھری ڈانٹ، کبھی دوستوں کی طرح چھوٹی سی بات پر بے تحاشا ہنسنا۔ یہ سب آپ کی ذمہ داری ہے۔ اپنی جسمانی، جذباتی، معاشی، معاشرتی ضروریات کے لیے وہ آپ کی محتاج ہے۔ کچھ شوہر مالی ضروریات تو پوری کرتے ہیں، یہ بھول جاتے ہیں کہ سامنے ایک جیتا جاگتا انسان ہے جس کی پیسے کے علاوہ بھی کچھ ضروریات ہیں۔ شوہر کے ساتھ ساتھ ایک اچھے دوست بنیں۔
کسی بھی انسان کو آگے بڑھنے کے لیے تعریف اور حوصلہ افزائی چاہیے ہوتی ہے۔ بیوی کو بھی! وہ تیار ہو تو اس کی تعریف کر دیں، اچھا کھانا بنائے تو بھی کھلے دل سے کہہ دیں، اور چھوٹے چھوٹے آپ کے جو کام وہ سارا دن کرتی ہے، ان پر اس کی حوصلہ افزائی کریں۔ آپ کا ایک جملہ ”تم سارا دن کرتی ہی کیا ہو؟“ اس کی جان جلا دیتا ہے۔ کسی دن صبح سے رات تک اس کی روٹین دیکھیں، خصوصاً جو خواتیں بچوں والی ہیں، یا سسرال کے ساتھ رہتی ہیں، ان کو تو یہ کبھی نہ کہیں۔
آپ کو اپنی بیوی کی جو بات پسند نہیں، اس کو محبت سے بتا دیں لیکن دوسری عورتوں کی مثالیں نہ دیں۔ کسی کے حسن، سگھڑاپے، عقل مندی کی زیادہ تعریفیں بیگم کے سامنے کریں۔ اس کا موازنہ نہ تو خود کسی اور کے ساتھ کریں، نہ ہی اس کو جتائیں۔
سب باتوں کی ایک بات: بیوی کو انسان سمجھیں۔ ضروریات کے حوالے سے، احساسات کے حوالے سے، عادات و اطوار کے حوالے سے۔
میری دعا ہے کہ ہر گھر میں میاں بیوی کے دل میں ایک دوسرے کے لیے اتنی محبت اور عزت ہو اور یہ تعلق اسقدر مضبوط ہو کہ شیطان کا ہر ضرب خالی جائے۔ آمین!
بیوی کے لیے مفید مشورے اس لنک پر ملاحظہ کریں
-
ایک سے زیادہ شادیاں کیوں ضروری ہیں؟ محمد زاہدصدیق مغل
زیر نظر مضمون کا مقصد ایک سے زیادہ شادیوں سے متعلق چند ایسے عمومی ابہامات کا جائزہ پیش کرنا ہے جنہیں ہمارے یہاں ایک مخصوص معاشرتی تناظر کی وجہ سے گویا ”دلیل“ سمجھ لیا گیا ہے۔ ابتدائے مضمون میں ایک سے زیادہ شادیوں کی بنیادی ضرورت کو اجاگر کرنے کے بعد اشکالات پر تبصرہ کیا جائے گا۔
تعدد ازواج (ایک سے زیادہ شادی) کی ضرورت
یوں تو تعدد ازواج بذات خود شرعا جائز و فطری تقاضا ہے، علمائے کرام نے اس پر بہت سی کتب بھی لکھی ہیں۔ یہاں اسے ایک دوسری جہت سے دیکھتے ہیں۔ ہمارے لوگوں کی خواہش یہ ہے کہ ہم مارکیٹ سوسائٹی کے ساتھ اسلام کو بھی لے کر چلنا چاہتے ہیں (فی الحال اس ملاپ کو ممکن مان لیتے ہیں)۔ مگر ساتھ ہی متضاد طور پر ایک سے زیادہ شادی نہ قبول کرنے کے معاشرتی رویے کو تبدیل کرنے کےلیے بھی تیار نہیں۔ اب دیکھیے یہ جدید معاشرتی نظم کیونکر تعدد ازواج کا تقاضا کرتا ہے:
1) انفرادیت پسندی پر مبنی اس جدید معاشرتی نظم میں مطلقہ و بیوہ کا پرسان حال کوئی نہیں رہتا۔
2) ان ناگہانی آفتوں سے بچنے کے لیے لوگ اپنی بچیوں کو اعلی تعلیم دلوانے پر مجبور ہو جاتے ہیں (کہ کہیں بچی مطلقہ یا بیوہ نہ ہوجائے، لہذا انہیں اس قابل بناؤ کہ بوقت ضرورت اپنی کفالت کرسکیں)۔ بچی جوں جوں تعلیم کی سیڑھیاں چڑھتی چلی جاتی ہے ”معیاری رشتے“ کا انتظار بھی بڑھتا چلا جاتا ہے۔ نتیجتا بڑی عمر کی کنواری لڑکیوں کی تعداد میں اضافہ ہو جاتا ہے، جو بذات خود بیوہ و مطلقہ کی گویا حریف بن جاتی ہیں۔
3) ساتھ ہی آزادی کے نام پر مخلوط طرز زندگی کو قبولیت عطا کی جاتی ہے نیز آزاد میڈیا کے ذریعے جنسی خواہشات کو بھی فروغ دیا جاتا ہے۔ایسے میں ایک سے زیادہ شادی پر معاشرتی پابندی کا مطلب یہ ہے کہ ایک طرف ہم ایک مخصوص خواہش کو بڑھاوا بھی دیں گے مگر ساتھ ہی اسے پورا کرنے کا جائز راستہ بھی بند کریں گے۔ چنانچہ یہ تضاد عقل سے بالاتر ہے۔ ایک جائز خواہش کی تکمیل کا جائز راستہ بند کرنے کا نتیجہ لازما خفیہ تعلقات ہی کی صورت میں نکلے گا۔ یہ پورا عمل گویا خواتین کا چند طرح سے خود اپنے ہی خلاف سازش کرنا ہے:
1) مطلقہ و بیوہ کے لیے زندگی کے راستے مسدود کرنا۔
2) بڑی عمر کی کنواریوں کو ذہنی کوفت میں رہنے کے لیے چھوڑ دینا۔
3) اپنے شوہر کی جائز خواہش کی تکمیل کے لیے انہیں خود سے بےوفائی پر اکسانا، اور نتیجتا اپنے گھر کو تباہ کرلینا۔اس پورے غیر معقولانہ عمل کو جواز دینے کےلیے چند دلائل بھی وضع کرلیے گئے ہیں جن کا یہاں اختصار کے ساتھ جائزہ لیتے ہیں۔
تعدد ازواج اور’عیاشی‘:
تعدد ازواج کے حوالے سے ہمارے یہاں یہ عجیب و غریب معذرت خواہانہ رویہ پایا جاتا ہے کہ اس کی اجازت کو بالعموم ”ناگہانی معاشرتی مسائل کے حل“ کا گویا ایک ”ناپسندیدہ طریقہ“ سمجھا جاتا ہے۔ یعنی دوسری شادی یا تو یتیم کی پرورش کے لیے ہونی چاہیے یا پھر حصول اولاد کے لیے۔ ان مقاصد کے علاوہ اگر کوئی شخص پہلی بیوی کے ساتھ بظاہر خوشگوار زندگی گزارنے کے باوجود دوسری شادی کی خواہش رکھے یا کرلے تو اسے غیر عاقل، ظالم یہاں تک کہ ”عیاش“ گردانا جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے یہ معاشرتی رویے خدا اور اس کے رسول ﷺ کی تعلیمات و صحابہ کے طرز عمل سے یکسر مختلف ہیں۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ صحابہ کی کثیر اکثریت نے ایک سے زیادہ شادیاں کیں۔ اگر دوسری شادی کرنا کوئی ایسا ہی برا عمل یا عیاشیانہ مزاج کا اظہار ہوتا تو صحابہ یقینا اس سے احتراز کرتے۔ چنانچہ جنسی خواہش کی تکمیل کے لیے ایک سے زیادہ شادیاں کرنا بذات خود ایک جائز و محمود مقصد ہے، جیسے رسول اللہﷺ نے بیوی سے تکمیل خواہش کو بھی ایک نیکی قرار دیا کہ یہ ایک کبیرہ گناہ سے بچانے کا اہم ذریعہ ہے۔ پھر اگر دوسری شادی جنسی پہلوکے اعتبار سے ”عیاشی“ ہے تو عین یہی عیاشی پہلی شادی میں بھی اسی قدر موجود ہے، تو کیا اس منطق پر اسے بھی غلط کہنا شروع کردیا جائے؟فطرتا ایک ہی کافی ہے:
بعض لوگ اپنی مخصوص طبع کی بنیاد پر یہ اشکال پیدا کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ ”مرد کو دوسری شادی کی ضرورت ہے ہی نہیں، ایک ہی اس مقصد کے لیے کافی ہے“۔ مگر ایک فرد کے مخصوص طبعی رجحان (aptitude) کو پوری انسانیت کا رجحان کہنے کی کوئی بنیاد موجود نہیں۔ اپنے مخصوص طبعی رجحان کی بنیاد پر زیادہ شادیاں کرنے والوں کو عیاش سمجھنا تو ایسا ہی ہے جیسے ایک روٹی سے پیٹ بھر کھانے والا شخص دو یا تین روٹیاں کھانے والوں کو عیاش کہتا پھرے اور پھر ایک سے زیادہ روٹیاں کھانے پر پابندی لگوا دے۔ تو طبعیتوں و ضرورت کا جو تفاوت خوراک کے معاملے میں قبول کیا جاتا ہے وہی رویہ اس مخصوص خواہش میں تفاوت کے لیے کیونکر ناقابل قبول ہے؟ اور اس میں بھلا کیا کوئی شک ہے کہ اس معاملے میں ”بالعموم“ مرد کی خواہش عورت کے مقابلے میں زیادہ ہوتی ہے، خصوصا چند بچوں کی ولادت کے بعد تو یہ فرق بہت نمایاں ہوکر واضح ہوجاتا ہے۔بیوہ و مطلقہ کو اس کا فائدہ نہیں ہوگا:
ایک اور عمومی اعتراض یہ ہوتا ہے کہ ”اگر دوسری شادی کو عام کیا گیا تو لوگ کنواریوں سے ہی شادی کریں گے، بیوہ و مطلقہ تو پھر بھی بیٹھی ہی رہ جائیں گی“۔ مگر یہ اشکال بھی نہ صرف یہ کہ حقیقت کی دنیا سے دور بلکہ مرد کی فطرت سے انتہائی بدگمانی پر مبنی ہے۔ چنانچہ دنیا میں مختلف مرد عمر کے مختلف حصوں میں دوسری شادی کی ضرورت محسوس کرتے ہیں (مثلا بعض کی بیوی 40 سال کی عمر کے بعد بیماری کا شکار ہو کر بستر سے لگ جاتی ہے)۔ ایسی کتنی ہی مثالیں ہیں جہاں لوگ اس وقت میں ایک سگھڑ اور سلیقہ شعار خاتون (اگرچہ وہ بیوہ یا مطلقہ ہی ہو) سے نکاح کو چھوٹی عمر کی کنواری پر ترجیح دیتے ہیں کہ وہ بچوں کی دیکھ بھال نیز گھر داری بھی کرے۔ اسی طرح بہت سے لوگ نیکی کے جذبے کے تحت بھی مطلقہ یا بیوہ سے نکاح کر لیتے ہیں (مثلا ہمارے خاندانوں میں یہ عام ہوتا ہے کہ چھوٹا بھائی یتیم بچوں کو سہارا دینے کے لیے بڑے بھائی کی بیوہ سے نکاح کرلیتا ہے، تو آخر وہ بھی مرد ہی ہوتا ہے)۔ چنانچہ یہ اعتراض فرض کر رہا ہے کہ دنیا کے تمام مرد دوسری شادی کے معاملے میں زوجہ کے انتخاب میں یکساں رجحان رکھتے ہیں نیز سب کے حالات بھی یکساں ہیں، لہذا سب مردوں کے انتخاب کا پیمانہ (parameter) بھی ایک ہی ہوگا (جس پر صرف چھوٹی عمر کی کنواری ہی پورا اترے گی)۔ ظاہر ہے یہ دونوں ہی مفروضے لغو ہیں۔ جب ایک راستہ بنتا ہے تو سب کےلیے راہیں کھلتی ہیں، دوسری شادی کے راستے پر پہرے بٹھا کر بیوہ، مطلقہ و بڑی عمر کی کنواریوں کے لیے کوئی راستہ پیدا کرنا ہی محال ہے، سوائے اس کے کہ اس طبقے کو ہمیشہ کے لیے ذہنی کوفت کا شکار ہونے کے لیے تنہا چھوڑ دیا جائے۔مرد عدل نہیں کرتے:
تعدد ازواج کے خلاف چند عملی نوعیت کے مسائل کو بھی اس کے خلاف دلیل سمجھ کر پیش کیا جاتا ہے۔ ان میں سے ایک سب سے زیادہ اچھالا جانے والا مسئلہ یہ ہے کہ ”مشاہدہ بتاتا ہے کہ دوسری شادی کرنے والے شوہر بالعموم بیویوں کے درمیان عدل نہیں کرتے، لہذا دوسری شادی کی اجازت نہیں ہونی چاہیے“۔
پہلی بات تو یہ کہ ایسے کوئی اعداد و شمار موجود ہی نہیں جس کی بنیاد پر اس دعوے کو تسلیم کرلیا جائے کہ مرد عدل نہیں کرتے، اس کے برعکس بھی بے شمار مثالیں ہمارے یہاں موجود ہیں۔ مگر ایک لمحے کےلیے اس بات کو سچ مان لیتے ہیں کہ امر واقعہ یہی ہے۔ سوال تو یہ ہے کہ اس سے یہ نتیجہ کیسے نکلا کہ دوسری شادی کی اجازت ہی نہیں ہونی چاہیے؟ اس سے یہ نتیجہ کیوں نہ نکالا جائے کہ مردوں کو اپنے فرائض کی ادائیگی کا احساس دلانا چاہیے نیز ان کی ایسی تعلیم و تربیت کی جانی چاہیے کہ وہ اپنے فرائض سے غافل نہ رہیں؟ آخر اس نتیجے میں منطقی طور پر کیا غلطی ہے؟ اگر مخالفین کی اس منطق کو مان لیا جائے تو زندگی اجیرن ہوجائے گی۔ دیکھیے سی ایس ایس (CSS) کے امتحان میں 5 فیصد سے بھی کم طلبہ کامیاب ہوتے ہیں، بقایا سب فیل ہو جاتے ہیں تو کیا اس کا مطلب یہ ہوا کہ کسی طالب علم کو سی ایس ایس کے امتحان میں بیٹھنے ہی نہ دیا جائے کہ خوامخواہ طلبہ کا قیمتی وقت اور والدین کے پیسوں کا ضیاع ہوتا ہے؟ ہمارے پولیس والوں کی اکثریت اپنے کام سے عدل نہیں کر رہی، سول سرونٹ اپنے فرائض کی ادائیگی سے غافل ہیں، جج عدالتوں میں عدل کا خون کر رہے ہیں؛ تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی کو پولیس والا، سول سرونٹ یا جج ہی نہ بننے دیا جائے؟ دوسری بیوی تو درکنار بےشمار لوگ تو پہلی بیوی کے حقوق بھی سلب کر رہے ہیں، تو کیا سرے سے شادی پر ہی پابندی لگادی جائے (کہ نہ ہوگا بانس اور نہ بجے گی بانسری)؟ آخر وہ کون سی منطق ہے جس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے؟دوسرا سوال یہ ھے کہ ”مرد عدل نہیں کرتے“ کا یہ قضیہ کیا صرف برصغیر کے لیے ہے یا پوری دنیا کے مردوں کے لیے؟ یقینا اس کا تعلق پوری دنیا کے مردوں سے نہیں بلکہ، اگر ہے بھی تو، ہمارے مخصوص علاقے سے ہے کہ کئی ممالک میں ایک سے زائد شادیوں کا رواج عام ہے اور کسی کے ”پیٹ میں مروڑ“ نہیں اٹھتے نیز ازواج بھی ”سراپا احتجاج“ نہیں ہوتیں۔ تو اگر یہ قضیہ ایک برصغیر کے تناظر میں درست نظر آرہا ہے تو یہ بات صاف بتا رہی ہے کہ اس کی وجہ مرد کی جینیاتی ساخت نہیں بلکہ ہمارے یہاں کے غیر معقول و غیر شرعی معاشرتی رویے و سماجی دباؤ ہیں جن کے تحت مرد کے لیے، اگر وہ چاہے بھی تو، عدل کی فراہمی ممکن نہیں رہتی۔ یہ نکتہ ذرا تفصیل طلب ہے۔
عدل کا معنی حقوق کی فراہمی ہے، کسی معاملے میں قیام عدل کے لیے تین چیزوں کی درستگی ضروری ہے: ایک وہ شخص جس نے حق فراہم کرنا ہے (اس معاملے میں شوہر)، دوسرا وہ جسے حق ملنا ہے (بیوی) اور تیسرا وہ ماحول جس میں یہ دونوں سٹیک ہولڈرز خود کو پاتے ہیں (معاشرتی و ریاستی تعلقات کے تانے بانے)۔ چنانچہ عدل نہ ہو پانے کا لازمی مطلب یہ نہیں ہوتا کہ حق فراہم کرنے والا حق دینے پر راضی نہیں یا اس کا اہل نہیں؛ بلکہ اس کی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ حق دار (بیوی) حق دینے والے (شوہر) کو حق دینے ہی نہیں دے رہا ہو یا اپنے حق سے زیادہ کو اپنا حق سمجھ رہا ہو، اور نتیجتا خود کو جائز حق سے بھی محروم کرنے کا باعث بن رہا ہو۔ اسی طرح عدل کی عدم فراہمی کی وجہ غیر موزوں ماحول بھی ہوسکتا ہے۔ اب غور کیجیے، کیا یہ بات درست نہیں کہ دوسری شادی کے بعد اگر مرد عدل کرنا چاہے بھی تو اس کی پہلی بیوی، اس کے سسرال والے یہاں تک کہ اس کے اپنے ماں باپ ہی اس کی زندگی اجیرن بنا کر سب اس کی راہ میں روڑے اٹکانے لگتے ہیں (اور یہ عمل دوسری شادی کے امکان کی خبر سنتے ہی شروع ہو جاتا ہے)؟ پہلی بیوی جھٹ سے دوسری کے لیے یا اپنے لیے طلاق کا مطالبہ کر ڈالتی یے (کہ یا وہ یا میں)، گھرمیں ایسا ہنگامہ برپا کیے رکھتی ہے کہ شوہر لازما بدگمان ہوکر رہے۔ شوہر کے گھر والے یہاں تک کہ اگر اولاد ذرا جوان ہو تو وہ بھی اس کا سوشل بائیکاٹ کردیتی ہے، اس کا گھر میں آنا ہی ناممکن بنا دیتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ عورت، اس کے اور شوہر کے گھر والوں نیز مرد کی اولاد کا یہ مخاصمانہ رویہ کیا اللہ اور اس کے رسول (ص) کی تعلیمات کے مطابق ہے؟ اگر ایسے حالات میں چند مرد عدل فراہم نہیں کرپا رہے جہاں خود حقدار اور عمومی ماحول ہی اس عدم فراہمی کے زیادہ ذمہ دار ہوں ایسے میں ”مرد عدل نہیں کرتا“ کی لاٹھی لے کر شوہر کے پیچھے پڑجانا اور پھر اس سے دوسری شادی کا عدم جواز نکال لانا کہاں کی عقلمندی ہے؟
ایک وقت میں دو سے محبت ممکن نہیں
یہ ایک اور دلیل ہے جو عموما خواتین پیش کرتی ہیں؛ اور ان کی دیکھا دیکھی ان کے چند ”ہمدرد“ مرد حضرات بھی دہراتے ہیں۔ یہ دلیل کچھ ”لیلی مجنوں ٹائپ معاشقے والی ذہنیت“ پر مبنی ہے، چنانچہ کہا جاتا ہے کہ ”آخر ایک شوہر ایک وقت میں دوبیویوں سے کیسے محبت کرسکتا ھے؟ چونکہ محبت ایک ہی کے ساتھ ہو سکتی ہے لہذا شادی بھی ایک ہی ہونی چاہیے، بصورت دیگر عدل کا پیمانہ قائم نہ رہ سکے گا“ (الا یہ کہ کوئی اضطراری کیفیت لاحق ہو)۔
مگر یہ بات سرے سے کوئی دلیل ہے ہی نہیں، اگر واقعی اس اصول (کہ ایک وقت میں ایک ہی کے ساتھ محبت ممکن ہے) کو درست مان لیا جائے تو پھر بچہ بھی ایک ہی ہونا چاہیے کہ ایک سے زائد سے محبت کیسے ممکن ہے؟ پس اگر ایک مرد ”بیک وقت“ ایک سے زیادہ بچوں سے، ایک سے زیادہ بہن بھائیوں سے، ماں اور باپ (مل کر دو) سے محبت کرسکتا ہے تو آخر بیوی ہی میں ایسی کیا خاص بات ہے کہ مرد کے دل میں صرف ”ایک ہی گھس“ سکتی ہے؟
اس بابت شریعت کا یہ مطالبہ نہیں کہ ”دلی رجحان“ بھی سو فیصد مساوی ہو (کہ یہ ناممکن اور ناقابل عمل ہے، نہ صرف بیویوں کے معاملے میں بلکہ بچوں کے معاملے میں بھی)۔ شرع کا تقاضا یہ ہے ایک شوہر پر اپنی بیوی کے جو ”قانونی حقوق“ ہیں (مثلا بقدر ضرورت نان نفقہ کی فراہمی، بیماری کی صورت میں علاج و دلجوئی نیز مناسب وقت دینا وغیرہ) ان میں فرق نہیں کرنا چاہیے، اور ان معاملات میں ایسی کوئی بات نہیں جن میں ایک صاحب استطاعت شخص کے لیے عدل کرنا ناممکن ہو۔جذبہ رقابت بھی خدا نے ہی رکھا ہے نیز یہ فطری ہے
اس سارے عمل کو جواز دینے کے لیے خواتین ایک دلیل یہ بھی دیتی ہیں کہ ”خدا نے ہی جذبہ رقابت اس کے دل میں ڈالا ہے جس کی بنا پر وہ دوسری عورت کو برداشت نہیں کرتی“۔ یقینا خدا نے انسان کے اندر اچھے اور برے ہر دو طرح کے میلانات رکھے ہیں مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ ان میں سے ہر جذبے کی آبیاری کو زندگی کا مقصد بھی بنا لیا جائے۔ جو جذبہ برا ہے یا جو جذبہ حد اعتدال (خدا کی تعلیمات) سے باہر اپنا اظہار کرنا چاہ رہا ہو، اس کے تزکیے کی ضرورت ہے کہ بصورت دیگر جذبات کا ایسا اظہار خود انسان ہی کے لیے بے شمار مسائل کا پیش خیمہ بن جاتا ہے۔
اس مقام پر یہ بھی کہاجاتا ہے کہ”پہلی بیوی دوسری سے رقابت محسوس کرتی ہے اور یہ رقابت ایک فطری بات ہے، جو اس بات کی دلیل ہے کہ ایسا نہیں کرنا چاہیے۔“ مگر کسی جذباتی کیفیت کو محسوس کرنا اور اس کے بےلگام اظہار کو جائز سمجھنا نیز اسے اخذ احکامات کی بنیاد سمجھنا دو الگ باتیں ہیں۔ عموما ایسا ہوتا ہے کہ دوسرے بھائی بہن کی پیدائش کے بعد بڑا بچہ ان سے نفرت کرنے لگتا ہے (کہ اماں ابا کی توجہ بٹ گئی) مگر کوئی اس بنیاد پر یہ نتیجہ نہیں نکالتا کہ ”دوسرا بچہ پہلے بچے پر ظلم ہے لہذا اسے ہونا ہی نہیں چاہیے“، بلکہ اس مقام پر یہی کہاجاتا ہے کہ ”بچے کی تربیت کریں، اسے دل بڑا کرنے کی ترغیب دیں وغیرہ وغیرہ“۔ پس یہی منطق یہاں بھی اپلائی ہوتی ہے۔جدیدیت زدہ لوگ بالخصوص اور ہمارے معاشرے کے عام لوگ بالعموم کہتے ہیں کہ ”تعدد ازواج کی بات کرنے والے روایت پسند مذہبی لوگ عورت کے جذبات کی قدر ہی نہیں کرتے کیونکہ عورت ان کے نزدیک انسان نہیں بلکہ مرد کے استعمال کی ایک چیز ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ لوگ دوسری شادی کی وجہ سے پہلی بیوی کی پہنچنے والی رنجش کو کسی کھاتے میں نہیں لاتے“۔
اصولی بات یہ ہے کہ نہ صرف یہ کہ شریعت میں بلکہ دنیا کے کسی بھی نظم معاشرت میں کسی عمل کے جائز یا ناجائز ہونے کی یہ کوئی حتمی بنیاد نہیں ہوتی کہ اس کے نتیجے میں کسی بھی شخص کو امکانی طور پر کسی قسم کی رنجش یا دکھ تو نہیں پہنچے گا۔ اگر یہ اصول مان لیا جائے تو نکاح کے بعد لڑکی کی لڑکے کے ساتھ رخصتی بلکہ نکاح ہی کے عمل پر پابندی لگادینی چاہیے۔ آخر دنیا میں وہ کون سے ماں باپ ہیں جنھیں اپنی ناز و نعم میں پلی بیٹی کسی کے حوالے کرتے رنجش نہیں ہوتی؟ اور دنیا کی وہ کون سی لڑکی ہے جسے اپنا گھر چھوڑ کر پرائے گھر جاتے رنجش نہیں ہوتی؟ اور لڑکے کی ماں، جس نے اپنے لاڈلے کو پال پوس کر بڑا کیا ہوتا ہے، کیا اسے اپنا بیٹا کسی کے ساتھ شیئر کرتے کوئی رنجش نہیں ہوتی؟ تو اس سارے عمل کا مطلب کیا یہ سمجھا جائے کہ لوگ شادی کے عمل سے ”رنجور“ ان لوگوں کو انسان ہی نہیں سمجھتے، نیز یہ انھیں خواہشات پورا کرنے کا آلہ سمجھ رہے ہیں؟اسکول، کالج و یونیورسٹیوں میں کتنے ہی طلبہ ہر سال فیل ہو جاتے ہیں، تو کیا انہیں کوئی رنجش نہیں ہوتی؟ کیا نوکری کے انٹرویو کے بعد نوکری نہ ملنے والے امیدوار کو کوئی رنجش نہیں ہو رہی ہوتی؟ تو کیا یہ سمجھا جائے کہ اساتذہ فیل ہونے والے طلبہ کو انسان نہیں سمجھتے نیز انٹرویو کرنے والی کمپنیاں رد کیے جانے والے امیدواروں کو انسان نہیں سمجھتیں؟ کیا لوگوں کی رنجش کی وجہ سے اس سارے عمل کو روک دیا جائے؟ یہ نت نئی اور مہنگی قسم کی گاڑیاں جو ہر طرف رواں دواں ہیں، کیا امیروں کو انھیں استعمال کرتا دیکھ کر غرباء کو رنجش نہیں ہوتی؟ یہ مہنگے کھانوں کے ریسٹورانٹس اور عالی شان گھر کیا کسی کے ارمانوں کا خون نہیں کرتے؟ تو کیا مطلب، یہ گاڑیاں چلانے والے اور ان ریسٹورانٹس میں کھانے والے لوگ ان غریبوں کو انسان نہیں سمجھتے؟ کیا کسی علاقے میں گاڑیوں کی تیز رفتار آمد ورفت کو ممکن بنانے کے لیے ایک ہائی وے بن جانے سے پیدل چلنے والوں کو کوئی تکلیف نہیں ہوتی (کہ انہیں اب بلا وجہ پیدل پل پر چڑھ کر سڑک کراس کرنا پڑتی ہے)۔ ذرا سوچتے جائیے، یہ عمل کہاں تک جا سکتا ہے۔
الغرض کسی عمل کے جائز یا ناجائز ہونے کی یہ سرے سے کوئی دلیل نہیں کہ اس سے امکانی طور پر کسی کو رنجش ہو سکتی ہے، اگر یہ اصول مان لیا گیا تو زندگی محال ہوجائے گی۔ اصل بات یہ ہے کہ انسانی زندگی کے بے شمار پہلو ہیں، ان میں سے بعض بعض پر فوقیت رکھتے ہیں۔ بسا اوقات کسی اہم تر مقصد کو حاصل کرنے کے لیے کسی کم اہم شے کو قربان کرنا ہی پڑتا ہے۔ یہی معاملہ تعدد ازواج کا ہے۔ چنانچہ شرع نے ایک سے زیادہ شادی کرنے کی اجازت اس مفروضے پر نہیں دی کہ اس سے پہلی بیوی یا اس کے ماں باپ کو کسی قسم کی رنجش پہنچنے کا امکان ہے ہی نہیں بلکہ اس بنیاد پر دی ہے کہ دیگر بہت سے معاشرتی مسائل کا حل اس رنجش سے زیادہ لائق التفات ہے۔
یاد رہنا چاہیے کہ شرع میں جذبات کوئی ماخذ شریعت نہیں، جس طرح انسان کے بدن و ذہن کا احکامات خداوندی کے تابع ہونا ضروری ہے بالکل اسی طرح جذبات بھی خدا کی مخلوق ہیں اور انہیں بھی اس دائرے کے اندر ہی رہنا ہے۔ یقینا اسلام نے تعدد ازواج کی اجازت اس مفروضے پر نہیں دی کہ اس سے عورت کو کسی قسم کی رنجش ہونے کا امکان ہی پیدا نہیں ہوتا، بلکہ اس لیے دی ہے کہ یہ اجازت دیگر بہت سے ایسے معاشرتی مسائل کا حل ہے جو اس قلبی رنجش سے زیادہ لائق التفات ہیں۔ لہذا اس معاملے میں خواتین سے بہرحال یہی اپیل رہے گی کہ ”وہ اپنا دل بڑا کریں“۔
-
شادی شدہ زندگی اور خواتین کا کردار – نیر تاباں
جیسے کسی ندی میں پتھر پھینکا جائے تو ارتعاش پیدا ہوتا ہے، اسی طرح گھریلو زندگی میں جب مسائل پیدا ہوں تو ان کا ripple effect بہت دور تک جاتا ہے۔ خوشگوار گھریلو زندگی کے لیے سبھی کو اپنی اپنی جگہ کوشش کرنی ہوگی لیکن چونکہ دوسرے کو بدلنا آسان نہیں تو آئیے خود میں کچھ ایسی تبدیلیاں لائیں جن سے گھر میں سکون اور خوشیاں پیدا ہوں۔ میری مخاطب اس سلسلے میں آج بہنیں ہیں، بھائیوں کی شامت کسی اور دن پر رکھتے ہیں۔ 🙂
شوہر جب گھر سے باہر قدم رکھتے ہیں تو رستے میں billboards پر مسکراتی لڑکیوں پر نظر پڑتی ہے۔ آفس داخل ہوتے ہی ریسیپشن سے ایک مسکراتا ہوا سلام استقبال کرتا ہے۔ سارا دن سجی سنوری خوش اخلاقی کا مظاہرہ کرتی کولیگز کے ساتھ گزرتا ہے، فیس بک آن کریں تو وہاں بھی مسکراہٹیں لیکن گھر کر اندر آتے ہی بیوی پر نظر پڑتی ہے جو کسی اور کام میں مشغول دور سے ہی سلام کر دیتی ہے، مسکراہٹ تو دور کی بات، پاس بھی کم ہی آتی ہے۔ تو سب سے پہلی تبدیلی تو یہ لے کر آنی ہے کہ میاں کو اچھے طریقے سے ویلکم کریں۔ نہیں بھی دل کر رہا تو سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سمجھ کر مسکرا دیں، صدقہ سمجھ کر مسکرا دیں۔
دوسری چیز یہ کہ شوہر کے آنے سے دس منٹ پہلے خود کو freshen up کر لیں۔ شاور کا ٹائم نہیں تو کپڑے بدل لیں تاکہ بھنے مصالحے اور لہسن کے تڑکے کی بو آپ سے نہ آ رہی ہو۔ نیچرل سی لپ سٹک، کاجل، ہلکا سا پرفیوم، بس اتنا ہی! دوسرے سے زیادہ آپ کو خود اپنا آپ اتنا اچھا لگے گا کہ مسکرانا مزید آسان ہو جائے گا۔
بہت پہلے کسی نے کہا تھا کہ بیوی کو محبت اور شوہر کو عزت چاہیے ہوتی ہے، یہ ملتی رہے تو شادی شدہ زندگی خوشگوار گزرتی ہے۔ مجھے یہ لگتا ہے کہ دونوں کو دونوں ہی چیزیں چاہییں۔ بیوی کو بھی عزت ملنی چاہیے، اور شوہر سے بھی محبت کا اظہار ہونا چاہیے۔ دوسرے کو بدلنا چونکہ ہمارے اختیار میں نہیں، فی الحال سارا فوکس ہم اپنی ذات پر کریں۔ شوہر کو عزت بھی دیں اور محبت بھی۔ اس کو کھانا دے دینا، کپڑے استری کر دینا ہی کافی نہیں، آگے بڑھ کر اور کھل کر محبت کا اظہار کریں کیونکہ competition بہت ہے۔ کیسے کیسے محبت کا اظہار کیا جائے؟
ایک تو یہ کہ بغیر وجہ کے
”yes, I love you. Always will!“
”Nothing. Just thought to remind I love you.“
کی طرح کے میسج کر دیا کریں۔ ہلکے پھلکے سے۔ اور کبھی بھی ”love you too“ کی توقع نہ رکھیں۔ جواب آ جائے تو اچھی بات، نہ بھی آئے تو گمان رکھیں کہ دل پر کہیں نہ کہیں اثر کر دیا ہوگا۔دوسرا کام یہ کریں کہ لنچ باکس کے اندر ایک چھوٹا سا نوٹ لکھ کے رکھ دیا کریں۔ چند الفاظ، جو آپ کی غیر موجودگی میں بھی آپ کے ہونے کا احساس دلا دیں۔ اگر خود لکھنا نہ سمجھ آئے تو lunch notes for husband سرچ کر کے آئیڈیاز لے لیں۔ شوہر کے acknowledge کرنے کی توقع نہ کریں۔
یہ تو تھے فوری کرنے والے آسان کام۔ اب آئیں کچھ ایسی عادتوں کی طرف جس سے شوہر سخت کوفت کھاتے ہیں اور عورتیں بالکل باز نہیں آتیں۔
سب سے پہلی بات تو یہ کہ ہر وقت کے طعنے دینا۔ Pick your battles! چھوٹی موٹی باتوں کو جانے دیا کریں۔ ہر بات پر محاذ کھڑا کرنے کی ضرورت نہیں۔ ہاں جو ضروری ہو، اس پر بےتکان بولنے سے پہلے دماغ میں سوچ لیں کہ اب مسئلے پر مجھے میاں سے بات کرنی ہے، کیا کہنا ہے، الفاظ بھی سوچ لیں۔ پھر بات کرنے سے پہلے رب اشرح لی والی دعا پڑھ کر ان سے بات کر لیں۔ کوشش پوری کریں کہ سسرال کو زیادہ ڈسکس نہ کریں۔ جیسے آپ کو آپ کے ماں باپ بہن بھائی عزیز ہیں، اسی طرح اسے اس کے پیارے عزیز ہیں۔ سسرال کو لے کر خواتین کو عموماً دو ہی مسائل ہوتے ہیں؛ پیسہ ادھر لٹاتے ہیں یا محبتیں وہاں لٹاتے ہیں۔ اپنے آپ کو یہ سمجھائیں کہ رزق اللہ کی دین ہے۔ وہ انھی لوگوں کے نصیب کا اللہ نے میرے شوہر کو دیا ہوگا۔ اگر آپ اس بات پر جھگڑیں گی، دے گا تو وہ پھر بھی لیکن آپ کو پتہ نہیں لگنے دے گا۔ سسرال میں بھی بری مشہور، شوہر کے دل سے عزت بھی گئی، حالانکہ جو آپ کے نصیب کا ہے وہ تو اللہ تعالی آپ کو دو پہاڑوں کے درمیاں سے بھی عطا کر دیں گے، پھر جھگڑا کاہے کا؟ اور رہی بات محبتوں کی، یاد رکھیں، اگر شوہر کے دل میں جگہ بنانی ہے تو اسے اس کے پیاروں سے محبت کرنے پر نہ ٹوکیں۔ محبت بھی اللہ تعالی ہی دل میں ڈالتے ہیں۔ آپ کے زور زبردستی سے تو آپ اپنا رہا سہا مقام بھی کھو دیں گی۔ ہاں شوہر سے ہر طریقے سے محبت کا اظہار کرتی رہیں تو وہ سب پلٹ کر واپس آئے گا. ان شاء اللہ!
اسی طرح ایک ہی بات کی بار بار تکرار بھی مناسب نہیں۔ نہ ہی کئی سال پہلے کی باتوں کا بار بار تذکرہ کیا جائے۔ میں یہ نہیں کہتی کہ communication gap ہو اور کبھی اس سے اپنے احساسات اور جذبات کا اظہار ہی نہ کریں لیکن میرا کہنا یہ ہے کہ زیادہ چیزوں کو قبول کر لیں، کچھ باتوں پر سٹینڈ لیں جو واقعی اس قابل ہوں، الفاظ بھی مناسب ہوں، لہجہ بھی بےعزتی کرنے والا نہ ہو، اور دونوں اس بات کو ڈسکس کر لیں۔ شوہر کا آپ کی بات سے متفق ہونا ضروری نہیں لیکن آپ کہہ دیجیے کیونکہ کہے بغیر دل کا حال صرف اللہ تعالی ہی جانتے ہیں۔ شوہر کے مزاج کی وجہ سے اگر بات کرنا مشکل لگے تو مختصر مگر جامع الفاظ میں بات لکھ کر کہہ دیجیے۔ ای میل یا ٹیکسٹ بھی کیا جا سکتا ہے۔
ہر ہر بات اپنے گھر والوں تک فوری پہنچانے کی ضرورت نہیں، ہاں اگر یہ لگے کہ حالات ہاتھ سے نکلتے جا رہے ہیں تو ایسے میں اپنے بڑوں کو ساتھ شامل کیجیے۔ ان کی دعا بعض اوقات وہ کرشمے کرتی ہے جو ہماری ہر کوشش مل کر نہیں کر پاتی۔
ایک بہت اہم بات: فیس بک پر دیکھ دیکھ کر، یا خواتین کے بتانے پر یہ فیصلہ نہ کر لیں کہ فلاں کا شوہر بہت اچھا ہے، اس کو گھماتا پھراتا ہے، مہنگے تحائف لے کر دیتا ہے۔ اس کے گھر کی پریشانیاں آپ کو نہیں معلوم۔ اپنے شوہر کا دوسروں کے شوہر کے ساتھ موازنہ کر کے اپنی اور شوہر کی زندگی مشکل نہ بنائیں۔ عین ممکن ہے کہ اس کا شوہر گھر میں کام میں کوئی مدد کرتا ہو نہ اس کو میکے والوں سے ملنے دیتا ہو، چھوٹی چھوٹی بات پر بےعزتی کر دیتا ہو لیکن آپ سے یہ سب باتیں مخفی ہوں۔ خود موازنہ کریں نہ شوہر کو ایسی کوئی بات جتائیں۔
اس کے علاوہ یہ کہ کھلے دل سے صدقہ کیا کریں، دعاؤں کی قبولیت کے اوقات میں زیادہ سے زیادہ دعائیں کریں، اور چونکہ میاں بیوی کے درمیان جھگڑا کروانا شیطان کا پسندیدہ کام ہے تو شیطان کو بھگانے کے لیے سورۃ البقرۃ کی تلاوت کو روٹین بنا لیں کیونکہ حدیث میں آتا ہے جس گھر میں سورۃ البقرۃ پڑھی جائے وہاں سے شیطان بھاگ جاتا ہے۔
میری دعا ہے کہ ہر گھر میں میاں بیوی کے دل میں ایک دوسرے کے لیے اتنی محبت اور عزت ہو اور یہ تعلق اس قدر مضبوط ہو کہ شیطان کا ہر وار اور ہر ضرب خالی جائے۔ آمین!
شوہر کےلیے مفید مشورے اس لنک پر ملاحظہ کریں
شوہر بیوی کو خوش کیسے کرے؟ -
میاں بیوی میں لڑائی کیوں ہوتی ہے، کیسے ہوتی ہے؟ سید محمد اشتیاق
ہمارے نوجوان پڑوسی بابر میاں کو اکثر گھریلو ناچاقی کے واقعات سے دوچار رہنا پڑتا ہے، اس دفعہ بھی متفکر دکھائی دیے، ادھر اُدھر کی تمہیدی گفتگو کے بعد آخر ہم پوچھ ہی بیٹھے، بابرمیاں کیا بات ہے، منہ کیوں لٹکا ہوا ہے، سوال سن کر سر جھکا لیا اور دھیمی آواز میں بولے، اب آپ اتنے بھولے بھی نہیں ہیں کہ وجہ سمجھنے سے قاصر ہوں، جواب سے ظاہر ہوتا تھا کہ وہ مزید گفتگو کے لیے آمادہ ہیں. ہم نے بلا تردد پوچھا، اب کیا ہوگیا، بولے ہونا کیا تھا، بیگم نے کہا، میرے بھائی کی شادی قریب ہے اور تیاری ہے کہ کسی طور مکمل ہونے کا نام نہیں لے رہی. آج دفتر سے جلدی آجائیےگا، مجھے شاپنگ کے لیے جانا ہے، اس دفعہ تو ساری خریداری مکمل کرکے ہی آئوں گی، ہم نے حسب معمول ہاں کی اور کہا کہ 3 بجے تک دفتر سے جلدی چھٹی لے کر آجائیں گے، تیار رہنا۔
گھر سے کچھ ہی دور گئے ہوں گے کہ ٹائر پنکچر ہوگیا، سامنے جو نظر پڑی تو دیکھا، پنکچر لگانے کی دکان ہے، ٹائر پنکچر لگانے والے کے حوالے کیا، اس نے چیک کرکے بتایا صاحب جی دو پنکچر ہیں، ہم نے کہا، و ہ تو ٹھیک ہے لیکن ٹائر زیادہ پرانے تو ہیں نہیں، یہ پنکچر کیسے ہوگئے، پنکچر والا بولا، صاحب جی ، اسٹیل کی کیل نیا پرانا نہیں دیکھتی، ٹائر کے نیچے آئی اور۔! پنکچر والے کی بات سن کر ہم سمجھ گئے کہ پنکچر اس جگہ پہنچ کر ہی کیوں ہوا، بحث کا وقت نہیں تھا، دفتر کو ویسے ہی دیر ہو رہی تھی لہٰذا بس معاشرے میں پائی جانے والی مفاد پرستی کو کوستے ہوئے، دفتر جا پہنچے۔ دفتری کام میں مشغول ہی ہوئے تھے کہ ایک ساتھی نے خبر دی کہ آج باس نہیں آئیں گے، ان کے کسی عزیز کا انتقال ہوگیا ہے، پیغام ہے کہ بابر صاحب سے کہنا، دفتر کے سارے کام مکمل کرکے گھر جائیں، مرتے کیا نہ کرتے، سارے دفتری امور جلد از جلد نمٹائے، اب گھڑی پر جو نظر پڑی تو دیکھا گھڑی چار بجا رہی ہے، یہ دیکھتے ہی ہمارے چہرے پر بارہ بجنے لگے کیونکہ بیگم سے تو 3 بجے گھر پہنچنے کا وعدہ تھا، بھاگم بھاگ گھر پہنچے.
بچوں سے بیگم کے بارے میں پوچھا تو بچوں نے کمرے کی طرف اشارہ کردیا، ہم کو اندازہ ہوگیا، دروازے کے دوسری طرف ہم پر قیامت ٹوٹنے والی ہے، ڈرے ڈرتے آہستگی سے دروازہ کھولا، بیگم کی طرف دیکھا تو وہ سونے کی ناکام اداکاری کر رہی تھیں. ہم فورا غسل خانے میں گھس گئے، نہا دھو کر کپڑے تبدیل کرکے، توجہ بیگم کی طرف مرکوز کرکے مخاطب ہوئے اور دن بھر کی روداد حرف بحرف سنادی، معذرت کی اور کہا کہ ہم تیار ہیں، چلنا چاہیں تو نکل پڑتے ہیں، حالانکہ ہمارے پیٹ میں چوہوں کی دوڑ کے مقابلے کا آغاز ہوچکا تھا لیکن خلاف معمول، بیگم نے ہماری روداد سن کر، کوئی ردّ عمل نہیں دیا،بلکہ منہ دوسری طرف موڑ کر لیٹ گئیں اور اب تک ہم سے با ت چیت منقطع ہے، بہت منانے کی کوشش کی، جیسا کہ تمام خاوند کرتے ہیں لیکن مزاج ہے کہ مسلسل بگڑا ہوا ہے ان حالات میں منہ نہیں لٹکے گا تو کیا.
ہم نے بابر میاں کی تمام روداد سننے کہ بعدکہا کہ واقعی معاملہ تو کافی سنجیدہ نوعیت کا ہے’’ کیونکہ بیگم کی ہر کیفیت کو سنجیدگی سے لینا ہی کامیاب ازدواجی زندگی کا راز ہے۔‘‘ ہمارا مشورہ یہی تھا، منانے کی سرتوڑ کوششیں جاری رکھو کیونکہ میاں بیوی گاڑی کے دو پہیوں کی مانند ہیں، ان میں موافقت کا فقدان ہو تو ازدواجی زندگی کی گاڑی چلنا مشکل ہوجاتا ہے، مشورہ سن کر بابر میاں نے کہا، کس نے کہا کہ ا زدواجی زندگی کی گاڑی کے دو پہیے ہوتے ہیں، بھائی گاڑی کے تو چار پہیے ہوتے ہیں، ہاں سائیکل کے بے شک دو پہیے ہوتے ہیں، ہم لاجواب ہوگئے لیکن فورا ہی ہمارے ذہن میں سوال آیا، ہم نے پوچھا، بابر میاں آپ کی گاڑی کے مزید دو پہہیے کون ہیں، بابر میاں ہمیشہ کی طرح فوری جواب کے لیے تیار تھے، بولے ایک پہیہ ہمارے گھر والے ہیں اور ایک ہماری بیگم کے گھر والے، اسٹپنی کا کام آپ جیسے لوگ انجام دیتے ہیں. بابر میاں کی منطق، کچھ کچھ ہماری سمجھ میں آنے لگی تھی اس لیے ہم نے پوچھا، آپ میاں بیوی گاڑی کے اگلے پہیے ہیں یا پچھلے، کیونکہ کچھ گاڑیاں تو پچھلے پہیوں کی اور کچھ اگلے پہیوں کی مدد سے چلتی ہیں. بابر میاں نے ہماری یہ بات سن کر خفگی کا اظہار کیا اور کہا، کیا آپ ہم میاں بیوی کو اپنی طرح پرانے ماڈل کا سمجھتے ہیں، بھائی صاحب پرانے ماڈل کی گاڑیاں پچھلے پہیوں پر سفر کرتی ہیں، آج کل کے زمانے کی گاڑیاں تو اگلے پہیوں پر ہی سفر کرتی ہیں، یہ بات سن کر ہم نے کہا، میاں جب آپ میاں بیوی اگلے پہیے ہیں تو گاڑی آپ دونوں کی مرضی سے ہی چلنی چاہیے، چاہے سیدھے جائیں یا دائیں بائیں. کہنے لگے آپ کو تو پتہ ہے ٹائر پنکچر بھی ہوتے رہتے ہیں، بعض شریر لوگ تو ہوا بھی نکال دیتے ہیں، اب ایسی صورتحال میں گاڑی چلتی تو ہے لیکن اٹک اٹک کر، ہم نے کہا، پھر آپ میاں بیوی خود خیال رکھیں کہ کوئی شرارت نہ کرے. بولے بھائی صاحب، ہم میاں بیوی تو اپنے تئیں یہی کوشش کرتے ہیں کہ زندگی کا سفر پر سکون طریقے سے طے ہوتا رہے لیکن سفر میں رکاوٹ اکثر و بیشتر پچھلے ٹائروں کی وجہ سے آ رہی ہے. اب کل ہی کے واقعے کو لے لیں، ہم میاں بیوی معاملے کو کسی طور خود ہی سلجھا لیتے لیکن ہوا یہ کہ ہماری ساس صاحبہ کا فون آیا اور انہوں نے پوچھا بیٹی شاپنگ کیسی چل رہی ہے؟ بیگم تو تھیں ہی غصّے میں، انہوں نے شاپنگ پر نہ جانے کی وجہ بتائی اور کہا خاک شاپنگ میں تو ہانڈی بھوننے جارہی ہوں، سوچا تھا، رات کا کھانا باہر کھالیں گے لیکن میری ایسی قسمت کہاں، ساس صاحبہ نے فرمایا، یہ کوئی نئی بات تو نہیں، بابر تو ہمیشہ ایسا ہی کرتاہے، آج تک تو کبھی وقت پر آیا نہیں. سنا بھائی صاحب! یہ پھلجھڑی تو بیگم کی والدہ محترمہ کی طرف سے چھوڑی گئی۔ دوسری پھلجھڑی اس طرح چُھوٹی کہ جب ہماری والدہ محترمہ نے بیگم کا مزاج خراب دیکھ کر غصّے کی وجہ پوچھی، جو بیگم نے بلا تردد بتادی، والدہ صاحبہ نے ہماری سرزنش کرتے ہوئے کہا، بابر یہ تم نے ٹھیک نہیں کیا، اس موقع پر ہماری بیگم کے چہرے پر فاتحانہ مسکراہٹ رقصاں نظر آئی، ہم نے فورا دیر سے پہنچنے کی وجہ بتادی تو ہماری والدہ محترمہ نے فرمایا، میں یہی سوچ رہی تھی بابر کبھی ایسا کرتا تو نہیں ہے، ضرور کوئی وجہ رہی ہوگی، جو میرا بیٹا وقت پر نہ پہنچ سکا، بہو بس کرو، اب بہت ہوگیا غصّہ، اب بیگم کا غصّہ کم ہونے کے بجائے مزید بڑھ گیا. آپ بتائیں اس صورتحال میں، میں کروں تو کیا کروں؟
ہم نے بابر میاں کے گھریلو تنازعے کی پوری روداد سنی توبس کف افسوس ہی ملتے رہ گئے اور سوچا، واقعی اس طرح کے مسائل ہمارے معاشرے میں عام ہیں، جہاں قریبی رشتہ داروں اور دیگر افراد کی بےجا مداخلت اور مشوروں سے میاں بیوی کا رشتہ مزید کمزور ہوجاتا ہے یا بالکل ختم ہوجاتا ہے۔ قارئین کو، بابر میاں کے گھریلو تنازعے کی روداد سنانے کا مقصد یہ ہے کہ خدا کے واسطے میاں بیوی کے درمیان ہونے والی کسی بھی ناچاقی میں بے جا مداخلت نہ کریں، اگر کوئی فریق مشورہ کرنا چاہے تو خلوص نیت کے ساتھ، ایسا مشورہ دیں، جس سے میاں بیوی کے درمیان پائی جانے والی غلط فہمی رفع ہوجائے اور وہ آپس میں پہلے جیسی محبت اور یگانگت کے ساتھ رہنا شروع کردیں، ورنہ میاں بیوی کا تعلق ختم ہونے کی صورت میں کنبہ بکھر جاتا ہے اور معاشرے میں بےراہ روی کی راہیں مزید ہموار ہوجاتی ہیں. اس موقع پر ہم کو یہ بات بھی ذہن نشیں رکھنی چاہیے کہ شیطان کبھی اتنا خوش نہیں ہوتا جتنا خوش میاں بیوی کے درمیان پائی جانے والی نا اتفاقی سے ہوتا ہے اور شیطان جب میاں بیوی کا تعلق ختم کرانے میں کامیاب ہوجاتا ہے تو اس کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں ہوتا، اس لیے ہم سب کو چاہیے کہ دوسروں کی زندگیوں میں بے جا مداخلت کرنا ترک کردیں اور اپنے کام سے کام رکھیں، یہ عمل خودہمارے لیے بھی مثبت ثابت ہوگا اوردوسرے لوگ بھی اطمینان سے اپنی زندگی بسر کرسکیں گے۔
-
عورت شوہر کے ساتھ کیا کرتی ہے؟ حیا حریم
وہ بہت آن بان سے گھر سے نکلتا تھا۔
سفید کڑکڑاتا سوٹ۔
اکڑی گردن ۔
پالش جوتے۔
اسے دیکھنے والے کہہ رہے تھے۔
کیا ہی نفیس بندہ ہے۔
کیا پرسنالٹی ہے۔
اپنی تعریف کے جملے اس کے کان میں پڑ تے تو گردن اور بھی اکڑ جاتی۔کوئی نہیں جانتا تھا کہ
ابھی ابھی وہ اپنی بیوی کی پٹائی کر کے نکلا ہے۔
اس کے بھاری ہاتھوں نے نازک چہرے پر سرخ نشان چھوڑ دیا ہے۔
اس کی طاقتور ٹھوکر نے اس کے شیش بدن پر گہرا نیل داغ دیا ہے۔کوئی جانتا بھی تو کیسے؟
كہ وہ اپنی دوستوں کو بتارہی تھی،
کہ سیڑھیوں سے گر گئی ہوں۔
آنکھیں سوجن کا شکار ہیں،
رات کسی کیڑے نے کاٹ لیا ہے شاید۔ہاں کوئی جانتا بھی تو کیسے؟
وہ پگلی کہہ رہی تھی ماں سے،
کہ میں آج ملنے نہیں آسکتی، میرے گھر مہمان آگئے ہیں۔
اور وہ نادان مہمانوں سے کہہ رہی تھی،
میرے شوہر بہت مصروف ہوتے ہیں، اس لیے گھر کم ہی آتے ہیں۔
وہ اپنی بہن کو مطمئن کر رہی تھی یہ کہہ کر،
کہ میں بہت خوش ہوں۔وہ آنکھوں میں امڈتے آنسوؤں کو زکام کا نام دے کر کہہ رہی تھی کہ
میرے شوہر بہت اچھے ہیں،
ہاں بہت اچھے ہیں۔دل میں سلگتی چنگاریاں دبا کر وہ اپنی پڑوسن کو بتا رہی تھی کہ،
میرے شوہر میرا بہت خیال رکھتے ہیں۔
یوں سب مطمئن تھے اس کی زندگی سے۔کیا؟؟؟؟؟ طلاق؟؟؟؟؟
اسے؟؟ کیوں؟؟ کیسے؟؟؟
اس کے شوہر تو بہت اچھے تھے ،
اس نے خود مجھے بتایا تھا،
وہ تو بہت خوش تھی۔
کئی چبھتے ہوئے سوال اٹھ رہے تھے۔اور وہ گردن اکڑا کر بھری مجلس میں بتا رہا تھا،
میں نے اسے طلاق اس لیے دی کہ
وہ بد زبان تھی،
فضول خرچ تھی،
بد کردار تھی۔اور وہ سر جھکائے سوچ رہی تھی،
گر میں نادان نہ ہوتی،
اس کی خامیوں پر پردے نہ ڈالتی،
تو آج اس مرد کی گردن کا سریا بھی ضرور ٹیڑھا ہوتا۔جس مرد کی اس نے ہر جگہ عزت بنائی تھی،
جس کی ساکھ بنائی تھی،
وہی آج اسے داغ دار کر چکا تھا۔ -
گھر کے ادارے میں شوہر کی ذمہ داری – بشارت حمید
مرد اور عورت زندگی کی گاڑی کے دو پہیے ہیں، دونوں اپنے اپنے دائرہ کار میں اپنی ذمہ داریاں پوری کرتے رہیں تو زندگی محبت اور سکون کا گہوارہ بن جاتی ہے، لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے ہاں اکثر گھروں میں لڑائی جھگڑے اور پریشانی کا ماحول بنا رہتا ہے۔ اگر گھر میں جوائنٹ فیملی سسٹم ہو تو عموماً مرد اور خواتین اپنے قریبی عزیزوں کو اس بگاڑ کا ذمہ دار سمجھتے ہیں جبکہ میرے خیال میں اس کے ذمہ دار وہ خود ہوتے ہیں۔
سب سے پہلے تو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ ہم الحمدللہ مسلمان ہیں اور ہمارے دین میں زندگی کے ہر شعبے کے لیے ہدایت موجود ہے۔ جہاں والدین کے حقوق کا ذکر ہے وہیں قریبی رشتہ داروں، بیوی بچوں، دوستوں اور ہمسائیوں کے حقوق کے بارے بھی ہدایت موجود ہے۔
اللہ تعالٰی نے ہمیں مسلمانوں کے گھر میں پیدا کیا اور ہماری ہدایت اور رہنمائی کے لیے قرآن مجید جیسی عظیم الشان ہدایت حضور سرور کائنات صل اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ذریعے نازل فرمائی۔ اس احسان کا جتنا بھی شکر ادا کریں کم ہے۔ اس کلام پاک اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارکہ نے ہمارے لیے زندگی گزارنے کا ایک اسٹینڈرڈ مقرر فرما دیا ہے۔
انسان اگر اس ہدایت کو سامنے رکھتے ہوئے سارے معاملات کو ہینڈل کرتا رہے تو بہت کم امکان ہے کہ اسے کوئی پریشانی لاحق ہو۔ ہم پریشان اس وقت ہوتے ہیں جب ہم اپنے خاندان کے رسوم و رواج اور اپنی ذاتی خواہشات کے مطابق زندگی بسر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ خود ساختہ حقوق دوسروں سے مانگتے ہیں اور اپنا فریضہ ادا کرنا بھول جاتے ہیں۔
دو مختلف ماحول کے گھروں اور خاندانوں میں زندگی کے ابتدائی بیس بائیس سال گزار کر ایک ہی گھر بلکہ ایک ہی کمرے میں ایک دوسرے کے ساتھ زندگی بسر کرنے کا فیصلہ کرنے والے میاں اور بیوی کے درمیان مزاج کا، عادات کا اور پسند نا پسند کا اختلاف ہونا کوئی بڑی بات نہیں ہے۔
ایک مسلمان شوہر کو یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ ہمارے آقا صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ تم اپنی عورتوں کے ساتھ اچھا سلوک کرو اور یاد رکھو کہ عورت پسلی سے پیدا کی گئی ہے، اگر تم اسے زبردستی سیدھا کرنے کی کوشش کرو گے تو یہ ٹوٹ جائے گی۔ یعنی کہنے کا مقصد یہ ہے کہ عورت کی کمی اور کوتاہیوں کے ساتھ ایڈجسٹمنٹ کرو نا کہ ان پر کوئی زبردستی اور زیادتی کا ارتکاب کرو۔ جو لڑکی شوہر کے لیے اپنے سارے خاندان، بہن بھائی اور ماں باپ کو چھوڑ کر آتی ہے اسے جیتا جاگتا انسان سمجھنا چاہیے، وہ کوئی کمپیوٹرائزڈ روبوٹ نہیں ہے کہ کسی سوفٹ ویئر کی طرح بلا چون و چرا عمل کرتا رہے۔ اس کے جذبات اور احساسات کا خیال رکھنا شوہر کی ذمہ داری ہے۔ اللہ تعالٰی نے مرد کو عورت پر ایک درجہ عطا فرمایا ہے اور وہ اس وجہ سے کہ عورت کی کفالت اور نان نفقہ مرد کی ذمہ داری ہے۔ تو مرد حضرات کو اپنے اس درجے کے شایان شان کھلے دل کے ساتھ گھر والوں سے اچھا سلوک کرنا چاہیے۔
ایک عام غلط فہمی جو مردوں کے ذہن میں ہوتی ہے کہ میں بیوی کے سارے اخراجات اٹھا تو رہا ہوں اور کیا کروں۔ اس بارے میں عرض یہ ہے کہ انسان کی زندگی میں پیسہ ایک ضرورت تو ہے لیکن پیسہ ہی سب کچھ نہیں ہوتا۔ جس نے آپ کے لیے اپنا گھر اور خاندان چھوڑا اور آپ کے بچوں کو جنم دیا اور اب ان بچوں کے سارے معاملات بخوشی سنبھال رہی ہے، اسے آپ کی توجہ اور محبت کی بےانتہا ضرورت ہے۔ ایسے پیسے کو کیا کرنا جس کے ساتھ عزت نہ ہو۔ شوہر کو سوچنا چاہیے کہ یہ عورت اللہ تعالٰی نے زندگی کے ایک محدود وقت تک اس کی ذمہ داری میں دی ہے اور قیامت کے روز اس کے بارے میں جواب دینا ہوگا، اب وہ اس کے سہارے پر ہے اور مرد کی ذمہ داری بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے کہ وہ اس کا ہر طرح خیال رکھے اور اس کے حقوق بخوشی پورے کرے۔
گھروں میں کچھ نہ کچھ اختلاف رائے ہوتا رہتا ہے اور ہمارے ہاں اکثر مرد حضرات چھوٹی چھوٹی باتوں پر طلاق کی دھمکیاں دے دے کر بےچاری عورت کو ساری زندگی سولی پر ٹانگے رکھتے ہیں اور کئی عقل و شعور سے عاری لوگ طلاق جیسا انتہائی ناپسندیدہ کام کر بھی گزرتے ہیں، پھر جب دماغ آسمان سے نیچے اترتا ہے تو علماء سے راستہ نکالنے کی درخواست کرتے ہیں۔ یہ ہماری دین سے دوری کا نتیجہ ہے کہ ہم ہر وہ کام کرتے ہیں جو اللہ اور اس کے رسول کو پسند نہیں، پھر بھی ہمارا اسلام اتنا مضبوط ہے کہ اسے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
ایک حدیث مبارکہ میں ارشاد ہوتا ہے کہ شیطان اپنے چیلوں کی مجلس بلاتا ہے اور سب سے ان کی کارگزاری کی رپورٹ لیتا ہے۔ ایک چیلا کہتا ہے کہ میں نے ایک بندے کو اکسا کر دوسرے کو قتل کروا دیا تو شیطان کہتا ہے کہ تم نے کوئی بڑا کام نہیں کیا۔ اسی طرح دوسرے چیلے اپنی اپنی رپورٹ پیش کرتے ہیں لیکن شیطان مطمئن نہیں ہوتا۔ پھر ایک کہتا ہے کہ میں نے آج میاں بیوی میں لڑائی کروا دی۔ اس پر شیطان اتنا خوش ہوتا ہے کہ اٹھ کر اسے گلے لگا کر شاباش دیتا ہے کہ تم نے بہت اچھا کام کیا۔
ہمارا دین خاندان کے ادارے کو مستحکم بنانا چاہتا ہے۔ یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہیے کہ گھر میں لڑائی جھگڑے سے بچوں کی زندگی پر بہت برا اثر پڑتا ہے۔ ہمیں اپنا جائزہ لینا چاہیے کہ ہمارے افعال اللہ اور رسول صل اللہ علیہ و سلم کی پسند کے مطابق ہیں یا پھر شیطان کی پسند کے۔ جو لوگ کسی میاں بیوی کی لڑائی پر خوش ہوتے ہیں وہ بھی سوچیں کہ کہیں ہم شیطان کے چیلے کا کردار تو ادا نہیں کر رہے۔
اللہ تعالٰی ہمیں صراط مستقیم کی طرف ہدایت عطا فرمائے. آمین۔
-
مایوسی سے امید کا سفر – ریاض علی خٹک
وہ پریشان تھا، غصہ تھا، احساس بے بسی تھا، آفس میں نئے پراجیکٹ پر باس سے تلخی پر یہ نوبت آگئی کہ ان آفیشل استعفیٰ دے دیا، کہہ دیا کہ میں اس ٹیم کا مزید حصہ نہیں. گھر پر آیا تو بیوی سے ایک گھریلو مسئلہ پر نوبت یہاں تک آئی کہ وہ ماں کے گھر جانے پر تیار ہوگئی. بچے الگ سہمے ہوئے.
گھٹن سی ہونے لگی، گھر سے بنا سوچے سمجھے نکل آیا، نیم تاریک گلیوں میں چلتے چلتے دور نکل آیا، کیا ہوگا؟ کیریئر ہاتھ سے نکلتا محسوس ہو رہا ہے. گھر میں ناچاقی نکل آئی. بچوں کی تعلیم، ماحول، دماغ سائیں سائیں کر رہا تھا.ایک نیم تاریک سڑک پر موڑتے کسی نے آواز دی. ”سنو پتر جی.“ دیکھا تو ایک بڑی بی اور بڑے میاں سامان کا ایک بڑا بیگ اٹھائے کھڑے تھے. اُس نے پوچھا جی فرمائیں. بی بی نے ایک کاغذ کا ٹکڑا دیتے کہا پتر اس جگہ جانا تھا، دوسرے شہر سے آئے ہیں، رکشہ والا اتار گیا، اب گھوم رہے ہیں، کوئی پتہ نہیں چل رہا.
اُس نے پرچی روشنی کی طرف کر کے پتہ دیکھا، یہ ہمنام علاقوں کا مسئلہ تھا، وہ ساتھ والی بستی تھی.
اُس نے انھیں تسلی دی اور کہا چلیں میں آپ کے ساتھ جاتا ہوں. اچانک دل میں آیا کہ بلاوجہ خوار ہونے سے بہتر ہے کہ ان بزرگوں کو ہی منزل پر پہنچا دوں. بڑے میاں کے نہ نہ کرتے بھی اُس نے بیگ اٹھا کر کندھے پر ڈالا، اور گلیوں گلیوں اس دوسری بستی لے گیا، یہ گنجان علاقہ ہے، مگر پوچھتے وہ اس گھر کی دہلیز پر پہنچ گئے.
وہاں انھیں ملوا کر وہ چلنے لگا تو بڑے میاں نے گلے لگایا، اور بڑی بی نے ڈھیر ساری دعائیں دی. اُسے لگا جیسے اُس کے سینے میں ٹھنڈک اتر رہی ہو. کچھ دیر پہلے کا غصہ، بے بسی، لاچاری اور مسقبل کا خوف کچھ بھی نہ تھا. بس ایک سرور سا اترتا محسوس ہوا. واپس آتے اچانک فون کی گھنٹی بجی. سکرین دیکھی تو باس تھے، کال ریسیو کرتے اُس نے بہت اعتماد محسوس کرتے یہی سوچا کہ زیادہ کیا کہہ سکتے ہیں. یہی کہ کل استعفیٰ لیتے آنا. پر وہاں سے معذرت آئی. انہوں نے کہا کہ ابھی گھر پر سارے معاملے پر دوبارہ سوچا، مجھے احساس ہوا کہ تم اس پراجیکٹ پر درست رائے رکھتے ہو. میری غلطی تھی تو برادر معذرت کہ میں کچھ زیادہ بول گیا تھا. اب یہ تیرا پراجیکٹ ہے.
وہ حیرت سے سُن رہا تھا، جوابی معذرت و شکریہ ادا کر کے بیگم کو فون کیا کہ چلیں اب وہ وہاں معذرت کرلے اور لے آئے. مگر پتہ چلا کہ وہاں کھانے پر انتظار ہو رہا ہے. کبھی کبھی اچانک موسم بدلتا ہے. حالات بدل جاتے ہیں. تب کہیں آس پاس اس سے بچنے کی چھتری بھی ہوتی ہے. بس اس چھتری کو فوری لپک کر تھام لیں. -
بیٹی اور اس سے وابستہ دکھ – نورین تبسم
آدم حوا کہانی میں عورت کی پہلی جھلک ایک ساتھی اور ایک دوست کی ہے جو جنت میں ملتا ہے تو جنت سے نکالے جانے کے بعد بھی ساتھ نبھاتا ہے۔ نعمتوں کا امین ہے تو خطا کے بعد توبہ کی گھڑی میں آنسوؤں کا رازداں بھی ہے۔ بی بی ہاجرہ کی صورت اللہ کی رضا کے لیے ساتھی کے حکم پر راضی ہے تو حضرت زکریا کی دعا کی قبولیت کا علم بردار بھی۔ عورت کے اس روپ کی عظمت رہتی دُنیا تک قائم رہے گی۔
عورت کا دوسرا روپ ماں کا ہے جس کی تعریف و توصیف کا حق قلم تو کیا قول و فعل سے بھی ادا نہیں کیا جاسکتا۔ خالق ومالک سے بڑھ کر کون ماں کے رتبے کے اسرار بیان کر سکا ہے، جس نے اپنی محبت کا پیمانہ ماں کی محبت سے مثال دے کر بیان کیا ہے۔
ماں کے بعد عورت کا ایک روپ بیٹی کا ہے۔ وہ بیٹی جس کے احترام اور اُس سے محبت کی بیش بہا مثالیں جہاں تاریخ کا حصہ ہیں تو اس کی ناقدری اور کم مائیگی بھی زمانۂ جاہلیت سے لے کر آج کے جدید دور تک جابجا دیکھنے کو ملتی ہے۔ قران پاک کی سورۂ النحل (16) میں اس رویے کو یوں بیان کیا گیا ہے:
”حالانکہ جب ان میں سے کسی کو بشارت دی جائے کہ تمہارے ہاں بیٹی ہوئی تو غم اور پریشانی کے مارے اس کا چہرہ سیاہ ہو جاتا ہے اور وہ زہر کے گھونٹ پی کر رہ جاتا ہے۔
اس بری خبر پر اپنے قوم قبیلے سے منہ چھپائے پھرتا اور اس فکر میں ہوتا ہے کہ ذلت اٹھا کر اسے زندہ رہنے دے یا تہہ خاک چھپا دے۔ یہ لوگ کیسا برا فیصلہ کرتے ہیں۔ (آیت 58، 59)“
اور سورہ شورٰی (42) میں ارشاد فرمایا ہے:
”آسمانوں کی اور زمین کی سلطنت اللہ تعالی ہی کے لیے ہے۔ وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے۔ جس کو چاہتا ہے بیٹیاں دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے بیٹے دیتا ہے یا پھر لڑکے اور لڑکیاں ملا جلا کر دیتا ہے، اور جسے چاہتا ہے بانجھ کر دیتا ہے۔ وہ بڑے علم والا اور کامل قدرت والا ہے۔(آیت 49 ،50)“دنیائے انسانی میں ہمیشہ سے دستور چلا آیا ہے کہ عورت اور مرد جب مل کر ایک نئے رشتے کی بنیاد رکھتے ہیں تو مالک اُن کے آنگن میں اولاد کی صورت مہربانی کرتا ہے۔ اولاد اگر محض انسان کی فطری ضرورت اور جبلت کا ثمر ہے تو اُس کی جنس کا تعین بھی انسان کے شعوری احساس کی پہنچ سے کوسوں دور ہے۔ درج بالا آیت پر ایمان لاتے ہوئے کہ کسی کو بیٹا دیتا ہے تو کسی کو بیٹی یا کسی کو دونوں سے نوازتا ہے، اور کسی کو ایک دوسرے کے ”ساتھ“ کے احساس کے سوا کچھ بھی نہیں۔ یہ ”ساتھ“ کا احساس بظاہر مایوسی کا استعارہ لگتا ہے لیکن سب سے اہم بات ہےکہ پھر اس تعلق میں ایک دوسرے پر کسی قسم کا معاشرتی دباؤ نہیں ہوتا۔ ورنہ اولاد بعض اوقات پاؤں کی زنجیر بن جاتی ہے۔ اور خاص طور پر اس وقت جب وہ صحت مند بھی پیدا نہ ہو۔ میاں بیوی اگر اولاد نہ ہونے کی وجہ سے ایک دوسرے سے نظریں چراتے ہیں تو وہ اولاد جو سہارا بننے کے بجائے خود سہارے کی محتاج ہو، اُس کی زندگی اُنہیں اپنے ہر احساس ہر جذبے سے آنکھ بچانے پر مجبور کر دیتی ہے۔ یہ ایسا غم ہے جس کے لیے شریکِ سفر کا کاندھا بھی نہیں ملتا۔ یہ دُنیا کے امتحانات ہیں اور اللہ جن پر یہ بوجھ ڈالتا ہے اُنہیں سہارنے کا حوصلہ بھی عطا کر دیتا ہے۔
پہلے بچے خصوصاً بیٹی کی پیدائش پر ماں اور باپ دونوں کے احساسات مختلف ہوتے ہیں۔ ماں کا ذہن اِسے اپنی زندگی کہانی کا تسلسل دیکھتا ہے جبکہ باپ کے لیے اُس لمحے اپنے وجود کا عکس دیکھنا کائنات کا سب سے خوبصورت تُحفہ ہوتا ہے جواُسے دُنیا میں اپنی ذات پر اعتبار دیتا ہے۔ اس وقت عورت اور مرد کی شخصیت کے دو الگ رُخ واضح ہوتے ہیں۔ ماں تکلیف اُٹھا کر اذیت برداشت کرکے ایک نیا وجود دُنیا میں لانے کا وسیلہ ٹھہرتی ہے تو باپ کو جسمانی طور پر خراش بھی نہیں آتی۔ یہ قانونِ فطرت ہے۔ شاید اسی وجہ سے مرد زندگی بھر عورت کے جسمانی درد یا تکلیف کا اندازہ کبھی بھی نہیں لگا سکتا۔ مغربی دُنیا کے باسی عورت کے اندر کے کھوج میں اِس نکتے کو جان گئے، اسی لیے وہاں بچے کی پیدائش کے وقت باپ کی موجودگی ضروری سمجھی جاتی ہے جبکہ یہاں کی عورت شاید اس بات پر کبھی آمادہ نہ ہو۔ شرم وحیا سے ہٹ کر عورت کی فطرت میں ہے کہ وہ جتنا ہو سکے اپنے دُکھ درد کو تنہا برداشت کرتی ہے، چاہے وہ ”بی بی مریم“ کا ”دردِ زہ“ کا قرآنی واقعہ ہو یا ”بی بی ہاجرہ“ کی ”سعی“۔ یہ ربِ کریم کا عورت کے لیے اعزازِخاص ہے کہ اُس نے عورت کی مشقت کو (جس کا رازداں اُس کے سوا کوئی بھی نہیں تھا) رہتی دُنیا تک زمانے کے سامنے نہ صرف آشکار کیا بلکہ عزت وتکریم کا مینارۂ نور بنا کر کیا مرد کیا عورت سب کو اُس کے قدموں کے نشان پر سجدہ ریز کرا دیا۔
زندہ و جاوید ادب کے ترجمان اور لفظ سے دلوں کو فتح کرنے والےجناب مستنصرحسین تارڑ نے اپنے سفرنامۂ حج ”منہ ول کعبہ شریف“ میں تین لفظوں میں سب کہہ دیا کہ ”حج ہاجرہ ہے“۔ اس تین لفظی جملے کو اگر کوئی سمجھ جائے تو نہ صرف مرد بلکہ عورت بھی اپنے اصل مقام کو پہچان کر ہمیشہ کی سعی مسلسل سے قرار پا جائے۔ وہ سعی جو صرف اور صرف جان پہچان کے محدود چکروں سے عبارت ہے اور ہم اپنی خواہشات کے گرد خود ترسی اور خودفراموشی کے لاحاصل طواف کیے جارہے ہیں۔
متعدد احادیث ِمبارکہ میں بیٹیوں کی پرورش اور تربیت پر جنت کی بشارت اور نبی کریمﷺ کے ساتھ کی بشارت دی گئی ہے۔ ہم سب جانتے ہیں، سب مانتے ہیں، اور اب تو سائنس کی حیرت انگیز ترقی کی بدولت انسانی جینز کی پُراسرار دُنیا کے انکشافات نے اولاد کی جنس کا راز بھی فاش کر دیا ہے۔ عورت کے اندر پھوٹتے محبت اور وفاداری کے چشموں اور ہر قسم کے حالات میں اپنے آپ کو ڈھال لینے کی خوبیوں کے باوجود بیٹی کی پیدائش ایک ان جانا سا دکھ دے جاتی ہے۔ یہ معاشرے اور آس پاس کے لوگوں کا ان کہا رویہ ہوتا ہے جسے محسوس کرتے ہوئے ایک اچھا بھلا سمجھدار انسان دوسروں سے پہلے اپنے آپ کو اس احساس پر لعن طعن بھی کرتا ہے۔ بیٹی کی پیدائش پر ملنے والی دعائیں بھی اپنی معنویت میں اسی رویے کا ڈھکا چھپا اظہار ہوتی ہیں جیسے دل سے کسی کی دی ہوئی پرخلوص دعا ”اللہ نصیب اچھے کرے“ میں بھی کانٹے جیسی چبھن۔ یہ دعا بیٹے کی پیدائش پر شاذ و نادر ہی دی جاتی ہے۔ ایسا کیوں ہے؟
کیا بیٹے ہمیشہ سے ”اچھا نصیب“ لے کر پیدا ہوتے ہیں؟ کیا بیٹی کی پیدائش کے بعد سے ہی اُس کے نصیب کی فکر لگ جاتی ہے؟ کیا یہ بات سچ ہے کہ بیٹی کی ولادت سے باپ کی عمر میں یک دم اضافہ ہو جاتا ہے؟ اُس کی کمر جھک جاتی ہے؟ کیاایک صحت مند اولاد کا اپنے ماں باپ کی آغوش میں آ جانا رب کا سب سے بڑا انعام نہیں؟ کیا بیٹوں سے ہمیشہ سکھ ملتے ہیں؟ اور دکھ دینا، دکھ پانا لڑکیوں کی قسمت میں لکھ دیا گیا ہے؟
جذباتی ہو کر سوچیں تو یہ سب غیر دانشمندانہ سوچ اور روایتی جاہلانہ طرز عمل کا عکاس ہے۔ حقیقت مگر بہت تلخ ہے اور ہمیں اس کے سامنے سر جھکانا پڑتا ہے۔ بیٹی کا روپ عورت کا سب سے کمزور ترین پہلو ہے۔ وہ سونے کا چمچہ لے کربادشاہ کے گھر میں بھی پیدا ہو جائے، دُنیا میں”بےنظیر“ بھی ہو، وقت کے مضبوط ترین قلعے میں محفوظ ہو کر جگ پر حکومت بھی کرنے لگے، لیکن! وہ ایک عام مرد کے سامنے بےبس ہے۔ مرد کی افضلیت کا حق اس سے کوئی نہیں چھین سکتا۔ عورت دُنیا فتح کر کے بھی ایک مرد سے ہار جاتی ہے۔ تعلیم و تربیت کے میدانوں میں دُنیا کے افق پر جھنڈے گاڑنے والی لڑکی رات کی تاریکی میں تن تنہا گھر سے باہر نکل کرمحفوظ نہیں چاہے وہ دُنیا کے کسی مہذب اور اعلیٰ ”اخلاقی“ معیار کے حامل معاشرے میں سانس لے رہی ہو۔ اُسے کسی مرد کا سہارا درکار ہے چاہے وہ دُنیا کا سب سے نالائق آدمی کیوں نہ ہو۔ عورت کے عدم تحفظ کی انتہا یہ ہے کہ وہ اپنے گھر، اپنے رشتہ داروں اور بعض اوقات اپنے محرم رشتوں کے ساتھ بھی محفوظ نہیں ہوتی۔گھر سے باہر تو وہ سڑک پرگرنے والے سکے کی طرح ہے کہ چاہے جیبیں بھری ہوں لیکن ہر گزرنے والا اس آواز پر ایک بار رُک کر دیکھتا ضرور ہے۔
کہاں کی آزادی؟ کون سے حقوقِ نسواں؟ کیا فائدہ سول سوسائٹی کے نعروں کا؟ یہ نہ صرف مردوں کو بلکہ اپنے آپ کو بھی دھوکہ دینے اور لمحاتی تسکین کے نظریے ہیں۔ پرانی کہاوت ہے کہ ”بیٹیاں سانجھی ہوتی ہیں“ لیکن اب اس کے معنی بدل گئے ہیں۔ اب تو اپنی بیٹی بھی اپنی بات نہیں سمجھتی اور ایک خیالی دُنیا میں آزادی کے انوکھے خواب دیکھتی ہے۔ آج کی بیٹی ہرمیدان میں مرد کی برابری چاہتی ہے۔ جھکنا اس کی فطرت نہیں۔ دُنیا کو جوتی کی نوک پر رکھنے کی خواہشمند، چاہے باپ ہو، بھائی ہو یا پھر آنے والی زندگی کے شریکِ حیات کا تصور۔ باپ سے زیادہ ماں کو اس کی ناسمجھی اور نادانی ایک آسیب کی طرح اپنی گرفت میں لے لیتی ہے۔ وہ دل ہی دل میں اُس کے ٹھوکر نہ لگنے کی دعا کرتی ہے لیکن دُنیا کے پتھریلے رستوں پر ٹھوکر لگنا ناگزیر ہے۔ یہی نصیب ہے، یہی قسمت ہے، جس کے اچھے ہونے کے لیے ہر ماں باپ کے دل سے دعا نکلتی ہے۔ بیٹیوں کے والدین کی عجیب سوچ ہوتی ہے۔
”آڑے وقت کے لیے اُن کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرتے ہیں اور ہمیشہ یہ دعا بھی کرتے ہیں کہ ’آڑا وقت‘ کبھی اُن کی زندگی میں نہ آئے۔“یہ بات نہیں کہ بیٹوں کو کبھی ٹھوکر نہیں لگتی یا اُن کے راستوں میں دلدلیں اور کھائیاں نہیں آتیں بلکہ ان کے دکھ تو ماں باپ کو زندہ درگورکر دیتے ہیں۔ بیٹی کے دکھوں کا تو اس کی پیدائش سے ہی دھڑکا لگتا ہے، پیدائش کے ساتھ جنم لینے والی خلش آسمان پر نظر آنے والے بادل کی طرح ہوتی ہے جو جانے کب بن موسم کے برس جائے۔ جبکہ بیٹوں کے دُکھ تو آندھی طوفان کی طرح سب کچھ تہہ و بالا کر دیتے ہیں۔ بنے بنائے مکان، جمے جمائے کاروبار خاک ہو جاتے ہیں جبکہ بیٹی خاک میں مل کر بھی اُس خاک کو مقدر جان کر آخری حد تک سنوارنے کی کوشش کرتی ہے۔ یہی عورت کی عظمت کی معراج بھی ہے جو نام نہاد آزادی کے دعوؤں سے بلند اپنی ’اوقات‘ اپنی صلاحیت پر بھروسہ کر کے سر اُٹھا کر جینے کا حوصلہ دیتی ہے۔
بیٹیوں کے باپ کے دکھ سے بھی انکار نہیں۔ بیٹا جیسا بھی ہو گھر میں اس کی ضرورت اور اہمیت مسلم ہے۔گھر کے بہت سے ایسے مسئلے، ایسی آزمائشیں ہوتی ہیں جن سے نبرد آزما ہونے کے لیے ایک مرد کی ضرورت بہرحال پڑتی ہے، بیٹے کو”بازو“ کہنا بھی کسی حد تک درست ہے۔ بیٹیوں والا گھر بغیر چاردیواری کے مکان کی طرح ہے جس میں جھانکنا اور اس کے معاملات میں دراندازی کرنا ہر راہ چلتا اپنا حق اور ہر ’اپنا‘ اپنا فرض جان کر کرتا ہے۔
بیٹیوں کا ایک دُکھ وراثت سے متعلق ہے۔ معاشرے میں جس طرح بیٹوں کا باپ کی وراثت پرحق نہ صرف کھلے عام تسلیم کیا جاتا ہے بلکہ وہ اس کے ساتھ کچھ بھی کریں، جب بھی اپنا حصہ مانگ بیٹھیں، جائز ٹھہرتا ہے۔ اُن سے بازپرس بھی اس انداز سے نہیں کی جاتی جبکہ بیٹی شادی سے پہلے اور شادی کے بعد بھی جہاں تک ہو سکے اپنی چادر دیکھ کر پاؤں پھیلاتی ہے۔ بیٹوں کے مقابلے میں ماں باپ کے دکھ درد کو دل سے محسوس کرتی ہے اور اُن کا ”شملہ“ دوسروں کے سامنے اونچا رکھنا چاہتی ہے۔
سب سے تلخ اور زہریلا نشتر بیٹیوں کے باپ کو آخری عمر تک محض جائیداد کے وارث کے لیے دوسری شادی کا ”مخلص“ کا مشورہ دینے کا ہے جو اکثر پہلی بیوی کے سامنے بڑے دھڑلے سے دیا جاتا ہے۔ دکھ کی بات یہ ہے کہ قریبی رشتہ دار جن کی سیوا میں بیوی کی عمر تمام ہو جاتی ہے اور ”دیندار، مسجد کے ساتھی“ بھی اس ”کارِخیر“ میں وقتاً فوقتاً اپنا حصہ ڈالتے رہتے ہیں۔ جیسے یہ گارنٹی ہو کہ باپ عمرِخضر لکھوا کر آیا ہے اور بیٹا ہی پیدا ہوگا جو تمام مسائل کی فکر سے آزاد کر دے گا۔
آخری بات
اللہ کی رضا پر راضی رہا جائے اور خوشدلی سے اولاد کی صورت میں جو عطا ہو اسے قبول کرلینا چاہیے۔ بیٹےکی پیدائش پر بےجا فخر کا اظہار نہ کیا جائے اور بیٹی کی ولادت پر اپنے آپ کو اس عظیم نعمت کا اہل سمجھا جائے تو وقت گزرنے کے ساتھ رب کی حکمت کے اسرار کھلتے چلے جاتے ہیں۔